
All India Muslim Personal Law Board
10.2K subscribers
About All India Muslim Personal Law Board
Leading NGO of Indian Muslims for their Legal & Constitutional rights. AIMPLB WhatsApp Channel https://whatsapp.com/channel/0029VaAE3Bx9Gv7Ld7mMMR3P X: https://twitter.com/AIMPLB_Official YouTube: https://www.youtube.com/AIMPLB_Official Facebook: http://fb.me/AIMPLB.Official Instagram: https://www.instagram.com/aimplb_official?utm_source=qr&igsh=MXE4Y2tkbHJsNXc4dw== WhatsApp: 8788657771
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*حضرت مولانا شاہ قادری مصطفیٰ رفاعی ندوی کا انتقال ملت اسلامیہ کا عظیم خسارہ ہے:* `جنرل سکریٹری بورڈ` نئی دہلی : 27؍ فروری 2025 مشہور دینی وعلمی اور روحانی شخصیت حضرت مولانا شاہ قادری مصطفی رفاعی جیلانی ندوی صوبہ کرناٹک کے مشہور ومعروف عالم دین، درجنوں کتابوں کے مصنف اور بیشمار اداروں کے سرپرست دارالعلوم ندوۃ العلماء کے رکن انتظامی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی اور ملی کونسل جیسے ادارہ کے اہم ذمہ دار کا انتقال بلا شبہ ملت اسلامیہ ہندیہ کیلئے عظیم خسارہ ہے، ان خیالات کا اظہار جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب نے اپنی تعزیتی بیان میں کیا، جنرل سکریٹری بورڈ نے اپنے اس بیان میں مزید کہاکہ مولانا رفاعی صاحب بڑے سادہ تھے ان کے نزدیک ملت کی فلاح مقدم تھی وہ ملت کی ہر خدمت کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے، انہوں نے کبھی اپنی بیماری واعذاری کو ملی کاموں میں حائل نہیں ہونے دیا۔ جنرل سکریٹری بورڈ نے یہ بھی کہا کہ جب بھی انہیں کوئی کام دیاجاتا وہ اسکو پوری طرح اپنے اوپر اوڑھ لیا کرتے تھے اور جب تک اس کام کو مکمل نہ کرلیتے چین سے نہ بیٹھتے، آپ کی بڑی خوبیوں میں ایک اہم خوبی ان کی سادگی تھی اور اسی سادگی ومحبت کے ساتھ پورے ملک کا دورہ کرتے اور اپنے اصلاحی پروگرام کے ذریعہ ملت کو بیدار کرنے کا کام پوری زندگی کرتے رہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پروگراموں میں سرگرم حصہ لیتے اور اسکی میٹنگوں میں پابندی کے ساتھ شرکت فرماتے اور اپنے تجربات کی روشنی میں مفید مشورے بھی پیش کرتے، یقینا ان کی جدائیگی ملت کیلئے بڑا خسارہ ہے، اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔ ✍ جاری کردہ *ڈاکٹر محمد وقار الدین لطیفی ندوی* آفس سکریٹری https://www.facebook.com/share/p/15PN8bsjBH/

یو سی سی کے خلاف برادران وطن کو متحد کرنے کی کوشش


*`🎯 ماہ مبارک کے اعمال`* ✍️ *حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی* _(صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)_ https://www.facebook.com/share/p/18bQucRAjQ/ --------------------------------------------- رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، اللہ کی رحمتیںاس کے بندوں کی طرف پوری فیاضی کے ساتھ متوجہ ہونے کو ہیں، اور جو چیز جتنی گراں قدر ہوتی ہے ، اسی قدر اس کی حفاظت اور اس کے حقوق کی رعایت بھی ضروری ہوتی ہے ، ریت کے تھیلے سر راہ رکھ دیئے جاتے ہیں اور سونے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی محفوظ مکان اور محفوظ جگہ میں رکھا جاتا ہے ، تو آئیے ماہِ مبارک کے لئے ایک نظام العمل بنائیں ! اور اس نظام کے مطابق اپنا وقت گذاریں ! یہ نظام وقت کی حفاظت کرے گا ، نیکیوں کی توفیق میں معاون ہوگا اور اس مہینہ کی سعادتوں اور برکتوں سے دامن مراد بھرنے کے لئے وسیلہ بنے گا ۔ رمضان المبارک کا سب سے اہم عمل روزہ ہے ، روزہ کیا ہے ؟ خدا سے محبت اور اس کی خوشنودی کے لئے سب کچھ قربان کردینے کی تربیت ، اس بات کا اظہار کہ وہ رب کی چاہت کے آگے نفس کی چاہت کو قربان کردے گا ، وہ آخرت کی نعمتوں سے اپنے دامن طلب کو سرفراز کرنے کے لئے اپنے آپ کو دنیا کی شہوات و خواہشات سے بے نیاز کرلے گا ، وہ اپنے نفس کے سرکش اور تیز گام گھوڑے کو اپنے قابو میں رکھے گا ، کیوںکہ دنیا کی تمام لذتیں معدہ اورنفسانی جذبات کے گرد گھومتی ہیں ، روزہ ان دونوں پر کنٹرول کرتا ہے ، اور اس کنٹرول کے پیچھے کوئی ظاہری اور مادی طاقت نہیں ہے ، صرف خدا کا خوف اور آخرت میں جواب دہی کا احساس ہے ، جو روزہ دار کو کھانے پینے سے روکے ہوا ہے ، اسی لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم بقدرِ امکان روزہ توڑنے سے بچیں ، ہر عاقل ، بالغ مسلمان مرد و عورت پر روزہ رکھنا فرض ہے ، اس سے صرف حیض و نفاس سے دوچار عورتیں، حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین،، مسافر ، بہت بوڑھے اور مریض جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے مستثنیٰ ہیں ، اگر ان اعذار کے نہ ہونے کے باوجود کوئی شخص روزہ توڑے تو سخت گناہ گار ہے اور اتنا بڑا محروم ہے کہ ارشادِ نبوی کے مطابق اگر رمضان المبارک کے ایک روزہ کے بدلہ سال بھر بھی روزہ رکھتا رہے ، تو اس ایک روزہ کے توڑنے کی تلافی نہ ہوسکے ، اس لئے کسی شرعی عذر کے بغیر روزہ توڑنے سے پوری طرح پرہیز کیجئے ۔ رمضان المبارک کا دوسرا عمل نماز تراویح کا اہتمام ہے ، رسول اﷲ ﷺنے چند دنوں مسجد نبوی میں یہ نماز ادا فرمائی ہے ، پھر اس اندیشہ سے مسجد میں آپ ﷺنے نماز پڑھنا چھوڑ دیا کہ کہیں یہ نماز اُمت پر فرض نہ ہوجائے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ اُمت کے لئے باعث ِمشقت ہوگا ، امام ابوحنیفہؒ ، مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اس بات پر متفق ہیں کہ تراویح کی نماز بیس رکعت ہے ، نیز حضرت عمر فاروق ؓکے زمانہ سے لے کر آج تک حرمین شریفین میں بیس رکعت تراویح کا معمول رہا ہے ، اس لئے مسنون یہی ہے کہ بیس رکعت تراویح ادا کی جائے ، بعض اہل علم آٹھ رکعت تراویح کے قائل ہیں ، اس اختلاف رائے کو باہمی نزاع اور جھگڑے کا سبب نہ بنانا چاہئے ؛ بلکہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ آٹھ رکعت پڑھنے والے ہوں ، اگر امام بیس رکعت پڑھائے تو وہ آٹھ رکعتوں کے بعد الگ ہوجائیں اور اگر امام آٹھ رکعت پڑھتا ہوتو جو لوگ بیس رکعت پڑھنے والے ہیں ، وہ امام کے پیچھے پڑھ کر باقی بارہ رکعت الگ پڑھ لیں ؛ لیکن اس مسئلہ کو اُمت کے درمیان نزاع کا ذریعہ نہ بنائیں ، ہاں ! تراویح پڑھنے کا ضرور اہتمام کریں ؛ کیوںکہ اس ماہ میں رسول اﷲ ﷺ کی عبادت کی مقدار بڑھ جایا کرتی تھی اور نمازِ تراویح کے ذریعہ یہ سنت پوری ہوتی ہے ، بعض حضرات تراویح میں قرآن مجید مکمل ہونے کے بعد نمازِ تراویح کا اہتمام ہی ختم کردیتے ہیں ، یہ درست نہیں ہے ، کیوںکہ تراویح سنت ِمؤکدہ ہے اورقرآن مجید کا مکمل کرنا مستحب ، نماز مستقل عمل ہے اور نماز میں قرآن مجید کی تکمیل ایک الگ عمل ۔ رمضان المبارک کا تیسرا اہم عمل قرآن مجید کی تلاوت ہے ، اس ماہ میں نزولِ قرآن کا آغاز ہوا ، رسول اﷲ ﷺ اس ماہِ مبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے ، گویا ماہ رمضان نزولِ قرآن کی یادگار اور اس کی سال گرہ ہے ، تلاوتِ قرآن کی اہمیت کا حال یہ ہے کہ اس کتاب کے ایک حرف کو پڑھنے پر بھی دس نیکیاں حاصل ہوں گی ، رسول اﷲ ﷺنے قرآن پڑھنے والوں کو اہل اﷲ اور اﷲ تعالیٰ کے خاص بندے قرار دیا ہے : ’’اھل القرآن ھم اھل اللّٰه وخاصتہ‘‘ (الترغیب الترہیب : ۲؍۵۴۱) یہ قرآن قیامت کے دن قرآن والوں کے لئے سفارشی بن کر کھڑا ہوگا : ’’ القرآن شافع ومشفع ‘‘ اس لئے تلاوتِ قرآن مجید کا اہتمام تو ہمیشہ ہونا چاہئے ؛ لیکن رمضان المبارک میں تلاوت کا خصوصی اہتمام مطلوب ہے ، دن و رات میں سے کوئی وقت گھنٹہ ، ڈیڑھ گھنٹہ کا تلاوت کے لئے مخصوص کرلیجئے ، ظہر کے بعد عصر کے بعد ، سحری سے پہلے ، یا فجر کے بعد ، جو وقت مناسب حال ہو ، عام طورپر نصف گھنٹہ میں تو ایک پارہ مکمل ہوہی جاتا ہے ، اس گھنٹہ ، ڈیڑھ گھنٹہ میں کچھ وقت تلاوت کے لئے رکھیئے اور باقی اوقات میں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ لیجئے ، جو ترجمہ مستند و معتبر ہو ، اس سے قرآن سے آپ کا رشتہ مضبوط ہوگا ۔ تلاوتِ قرآن مجید کے اس نظام کو رمضان المبارک تک محدود نہ کیجئے ؛ بلکہ سال بھر کا معمول بنالیجئے اور وقت اپنی سہولت سے طے کیجئے ، حضرت عبداﷲ بن عمر و بن عاصؓ کا معمول روزانہ روزہ رکھنے اور پوری شب قرآن مجید کی تلاوت کا تھا ، رسول اﷲ ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی ، آپ نے ان سے استفسار کیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو اور رات بھر قرآن پڑھتے ہو ؟ انھوں نے عرض کیا : ہاں ! اے اﷲ کے نبی ! لیکن میرا ارادہ اس سے خیر اورنیکی ہی کا ہے ، آپ ﷺنے فرمایا کہ تمہارے لئے ہر ماہ تین دن روزہ رکھنا کافی ہے ، اوررہ گیا قرآن تو ہر ماہ میں ایک ختم کرلیا کرو ، کہنے لگے کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ، آپ ﷺنے فرمایا : بیس دن میں ختم کرلو ، میں نے عرض کیا : اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ، تو ارشاد ہوا کہ سات دن میں ختم کرو اور اس سے زیادہ نہ پڑھو ؛ اس لئے کہ تم پر تمہاری بیوی کا ، آنے والوں کا ، اور تمہارے جسم کا بھی حق ہے ۔ (بخاری ، حدیث نمبر : ۱۹۷۸، مسلم ، حدیث نمبر : ۱۱۶۸) رسول اﷲ ﷺ کی اس ہدایت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ تلاوتِ قرآن مجید کی کیا اہمیت ہے ؟ اور اسلام کا مزاجِ اعتدال بھی معلوم ہوتا ہے کہ آدمی حسب ِسہولت مقدار کا انتخاب کرے ؛ لیکن ہمیشہ پڑھا کرے ، شاید اسی سات دن کی مناسبت سے بعد کے اہل علم نے قرآن کو سات منزلوں پر تقسیم کردیا ہے کہ روزانہ ایک منزل پڑھی جائے تو ہفتہ میں ایک بار ختم ہوجائے اور کچھ اور وقت گذرنے کے بعد لوگوں کی تن آسانی کو دیکھتے ہوئے تیس پارے کردیئے گئے ؛ تاکہ روزانہ ایک پارہ پڑھے تو ارشادِ نبوی ﷺ کے مطابق مہینہ میں ایک ختم ہوجائے ۔ رمضان المبارک کا چوتھا اہم عمل نفل نمازوں کا اہتمام ہے ، ارشادِ نبویﷺکے مطابق اس ماہ میں نفل عبادتوں کا اجر فرض عبادتوں کے برابر کردیا جاتا ہے ، اس لئے اس ماہ میں نفل نمازوں کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ، نفل نمازوں میں کچھ وہ ہیں جو متعین اوقات میں پڑھنے کی ہیں ، نمازِ اشراق ، نمازِ چاشت ، نمازِ زوال ، اوابین ، تہجد ، سورج نکلنے اور سورج ڈھلنے کے درمیانی وقت کو دو حصوں میں تقسیم کردیں ، تو پہلا نصف اشراق کا وقت ہے اور دوسرا نصف صلاۃ الضحیٰ کا ، جسے نمازِ چاشت بھی کہتے ہیں ، ان نمازوں کو کم سے کم چار رکعت پڑھنا چاہئے ، اس سے زیادہ پڑھنا چاہیں تو حسب سہولت ادا کرسکتے ہیں ، جب آفتاب نصف آسمان پر ہو ، تو کسی نماز کا پڑھنا مکروہ ہے ، اور حدیثوں میں اس کی صراحت موجود ہے ، جب آفتاب مغرب کی طرف ڈھل جائے تو کراہت ختم ہوجاتی ہے ، وقت مکروہ کے ختم ہونے کے بعد دوگانۂ نفل ادا کرنا بھی حدیثوں میں منقول ہے ، اسی کو شارحین حدیث نے ’’ صلوٰۃ الزوال ‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، مغرب کے بعد جو نفل نماز پڑھی جاتی ہے وہ ’’ اوابین ‘‘ ہے ، عام طورپر رسول اﷲ ﷺ کا چھ رکعت اوابین ادا کرنے کا معمول تھا ، نماز عشاء اور فجر کے درمیان تہجد پڑھی جاتی ہے ، نوافل میں یہ نماز فرض کے درجہ میں تھی ، تہجد کی نماز چار رکعت سے سولہ رکعت تک پڑھنا آپ ﷺسے ثابت ہے ، عام معمول آٹھ رکعت پڑھنے کا تھا ، کوشش کرنی چاہئے کہ رمضان میں ان تمام نمازوں کو پڑھیں ؛ لیکن خاص کر تہجد کا اہتمام ضرور ہی کرنا چاہئے ، رسول اﷲ ﷺ کی تہجد رمضان المبارک میں بہت طویل ہوجاتی تھی ، یہاں تک کہ صحابہؓ کو بعض دفعہ سحری چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا تھا ، اور ماہِ مبارک میں روزہ داروں کے لئے اس نماز کا ادا کرنا بھی آسان ہے ، سحری کے لئے اُٹھنے والے اگر سحری کھانے سے پہلے چند رکعتیں تہجد پڑھ لیں تو تہجد ادا ہوجائے گی ، اسے بھی روزہ داروں کو اپنے معمول کا حصہ بنانا چاہئے ۔ رمضان المبارک کا پانچواں خصوصی عمل ’’ دُعاؤں کا اہتمام ‘‘ ہے ، رمضان اور حج یہ دو مواقع ایسے ہیں جن میں دُعاء کی قبولیت اور استجابت کے خصوصی اوقات کثرت سے ہیں ، سحری کے وقت ، افطار کے وقت ، تلاوت قرآن کے بعد ، آخری عشرہ کی طاق راتوں میں دُعائیں خاص طورپر قبول ہوتی ہیں ؛ اس لئے رمضان المبارک میں دُعاؤں کا بھی معمول رکھنا چاہئے ، اپنے لئے، اپنے اعزہ کے لئے، مرحومین کے لئے ، پوری اُمت ِمسلمہ کے لئے اور دنیا و آخرت کے لئے ، خدائے قدیر کے سامنے دست ِسوال پھیلانا چاہئے ، اور دُعاء کے آداب کی پوری رعایت کرتے ہوئے اﷲ سے مانگنا چاہئے ، عام طورپر افطار کا وقت لوگ افطار کی تیاری اورانواع و اقسام کی غذائی اشیاء جمع کرنے میں صرف کردیتے ہیں اور بیچاری خواتین کا تو پورا وقت محض پکوان کرنے میں چلاجاتا ہے ، یہ روزہ کی روح کے خلاف ہے ۔ رمضان المبارک میں خاص طورپر انفاق کی ترغیب دی گئی ہے ، انسان جب خود بھوکا اور پیاسا رہتا ہے تو دوسرے فاقہ کشوں کی بھوک و پیاس کا احساس بڑھ جاتا ہے ، اسی لئے خاص طورپر رمضان المبارک میں اﷲ کے راستے میں خرچ کرنے اور اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرنے کی تلقین کی گئی ہے ، حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک میں آپ ﷺ کا انفاق تیز ہوا سے بھی زیادہ ہوتا تھا ، خاص طورپر رمضان المبارک میں لوگوں کو افطار کرانے کی آپ ﷺنے فضیلت بیان فرمائی اور ارشاد ہوا کہ جو کسی روزہ دار کو افطار کرائے ، افطار کرنے والے کے اجر میں کمی کئے بغیر افطار کرانے والے کو اس کے روزہ کے برابر اجر حاصل ہوگا ۔ عام طورپر یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ لوگ سیاسی لیڈروں کو ، بڑے تاجروں اورکاروباریوں کو اور سماج کے خوشحال لوگوں کو افطار پر مدعو کرتے ہیں اور خود ان کے پڑوس میں جو غریب اور مفلوک الحال لوگ ہوتے ہیں ان کو پوچھتے تک نہیں ، یہ اسلامی تعلیمات کی روح اور افطار کے سلسلہ میں جو ترغیب دی گئی ہے ، اس کے مقصد کے خلا ف ہے ، دعوتِ افطار سبھوں کو دی جاسکتی ہے ، مسلم ہو یا غیر مسلم ، دولت مند ہو یا غریب ؛ لیکن جو غرباء ہوں ، ان کو ترجیح دینا چاہئے اور انھیں خاص طورپر مدعو کیا جانا چاہئے ، رسول اﷲ ﷺنے ولیمہ کے بارے میں فرمایا کہ بدترین ولیمہ وہ ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز کردیا جائے ، آپ ﷺکی یہ تعلیم صرف ولیمہ کے لئے مخصوص نہیں تھی ؛ بلکہ اس کا مقصد اس دین کے مزاج و مذاق کو بتانا اور زندگی کے تمام مواقع پر اس اُصول کو برتنا ہے ۔ یہ ہے روزہ داروں کے لئے رمضان المبارک کا نظام العمل ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ روزہ دار اپنے آپ کو ہر طرح کے گناہ سے بچائے اور بالخصوص زبان کے گناہوں ، غیبت ، بہتان تراشی ، جھوٹ ، جھوٹی گواہی وغیرہ سے ، کہ یہ روزہ کو ضائع کردیتے ہیں ، رسول اﷲﷺ نے روزہ رکھنے اور ان گناہوں سے نہ بچنے والے کے بارے میں فرمایا کہ انھیں محض بھوک و پیاس ہی حاصل ہوتی ہے : ’’ کم من صائم لیس لہ إلا الجوع والعطش‘‘ ۔ آئیے ! ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم اس مبارک مہینہ کو رمضان المبارک کے اس نظام العمل کے مطابق گذار رہے ہیں ؟ اور نہیں ، تو آنے والے دنوں کو اسی نظام کے مطابق گذارنے کی کوشش کریں ۔ *▪️سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ*

🎯 *آسان و مسنون نکاح.....سعادت کا راستہ، رسومات کا خاتمہ* `(مثالی نکاح کے چند عملی نمونے)` ✒️از: ڈاکٹر مفتی *محمد عرفان عالم* قاسمی https://www.facebook.com/share/1ADVdpdwx5/ --------------------------------------------- 16 فروری 2025ء کو علی الصبح ضلع ودیشہ کے قصبہ سئو میں واقع مدرسہ ضیاء العلوم سے احقر کو مولانا سعید صاحب قاسمی کا فون آیا کہ 20 فروری کو مدرسہ میں ایک اصلاحی مجلس منعقد ہورہی ہے اور مجلسِ شوریٰ میں بھی آپ کو شریک ہونا ہے۔ چنانچہ حسبِ حکم، احقر وہاں حاضر ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ پوری مسجد کھچا کھچ لوگوں سے بھری ہوئی ہے، جن میں زیادہ تعداد علماء کرام کی تھی۔ جب مجلس کی دوسری نشست مکمل ہوئی تو حضرت مفتی عبدالرشید صاحب مدظلہ العالی نے آواز لگاکر فرمایا کہ جن کا نکاح ہونا ہے وہ آگے آجائیں۔ چنانچہ دو نوجوان آگے بڑھے: ایک مولوی محمد اسلام قاسمی ولد سمیع اللہ خاں صاحب، بھوپال، اور دوسرے قاری اویس سلمہ ولد قاری ادریس صاحب، قصبہ سئو، ودیشہ۔ حضرت مفتی صاحب نے دونوں کا نکاح پڑھایا۔ بعد ازاں آپ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاحِ معاشرہ کمیٹی کی جانب سے جاری ملک گیر "آسان و مسنون نکاح" مہم کی ستائش کرتے ہوئے فرمایا کہ بورڈ کا یہ قدم قابلِ تقلید ہے۔ ہمیں اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت مفتی صاحب نے مزید فرمایا کہ اسلام میں نکاح نہایت آسان ہے، مگر افسوس کہ ہم نے خود اسے مشکل بنا دیا ہے۔ جب کسی شخص کا نکاح کا ارادہ ہو، تو سب سے پہلے کسی دین دار گھرانے کی دیندار لڑکی کا انتخاب کرے، پھر اس کے گھر والوں سے مل کر معاملہ طے کرے، اور پھر انتہائی سادگی کے ساتھ مسجد میں، آداب و احترام کا خیال رکھتے ہوئے نکاح کی تقریب منعقد کرے۔ مہر مقرر کرے اور حتی الامکان بیوی سے پہلی ملاقات سے قبل مہر ادا کرے۔ نکاح کے بعد جب رخصتی ہو جائے اور شبِ زفاف بھی گزر جائے، تو مسنون طریقے پر ولیمہ کرے، جس میں نمود و نمائش کی نیت نہ ہو، بلکہ محض اتباعِ سنت مقصود ہو۔ اس پورے عمل میں رسوم و رواج سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے، کیونکہ شادی جتنی سادگی کے ساتھ ہوگی، اتنی ہی زیادہ خیر و برکت کا سبب بنے گی۔ مگر افسوس کہ نکاح کا طریقہ اس قدر آسان ہونے کے باوجود، آج ہمارے معاشرے میں اسے ایک مشکل ترین عمل بنا دیا گیا ہے۔ رشتہ طے کرنے سے لے کر شادی کی تقریب تک، قدم قدم پر ایسی رسومات ادا کی جاتی ہیں جن میں مال و وقت دونوں کا بے جا ضیاع ہوتا ہے۔ شادی بیاہ میں غیر ضروری رسومات اور جہیز کی لین دین نے امت کے ہزاروں گھرانوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ بالخصوص مالداروں کی شادیوں میں ہونے والی فضول خرچیاں اور غیر ضروری لین دین کی وجہ سے غریب گھرانوں کی ہزاروں بیٹیاں جہیز کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ اسی طرح کی ایک سادہ اور مسنون نکاح کی اطلاع داسپارہ، اتر دیناج پور، مغربی بنگال سے 22 فروری 2025ء کو موصول ہوئی، جہاں مفتی مصطفیٰ صاحب کی صاحبزادی کا عقدِ مسنونہ نہایت سادگی کے ساتھ عمل میں آیا۔ اس شادی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ دلہن کی رخصتی کے لیے محض چھ افراد آئے تھے، اور نکاح پر بہت کم خرچ آیا۔ آج کے دور میں، جہاں لاکھوں روپے صرف مہنگے لباس، پرتکلف کھانوں اور غیر ضروری تزئین و آرائش پر خرچ کیے جاتے ہیں، وہاں اس کم خرچ شادی نے ثابت کر دیا کہ اگر نیت خالص ہو اور دین کو ترجیح دی جائے، تو شادی کو ہر ممکن حد تک آسان بنایا جا سکتا ہے۔ اس نکاح کی ایک اور نمایاں بات یہ تھی کہ کسی بھی قسم کی فوٹوگرافی یا ویڈیو گرافی نہیں کی گئی۔ *آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاحِ معاشرہ کمیٹی کی جانب سے "آسان اور مسنون نکاح"* کے نام سے جو بیداری مہم چلائی گئی تھی، الحمدللہ، اس کے حوصلہ افزا نتائج آج بھی ملک کے کونے کونے میں ظاہر ہورہے ہیں۔ نکاح میں سادگی برکت کا سبب ہے، جبکہ فضول خرچی اور رسومات فقر و پریشانی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے گھروں میں مسنون نکاح کو رواج دیں تاکہ یہ مبارک طریقہ نسل در نسل منتقل ہو۔ دورِ حاضر میں جہیز مسلم معاشرے کے لیے ایک ناسور بن چکا ہے، جس سے نجات حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے، معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اسے اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا ہے اور اس لعنت سے خود کو آزاد نہیں کروانا چاہتا۔ جس طرح عیدالاضحیٰ کے ایام میں بیل بچھڑوں کی قیمتیں لگائی جاتی ہیں، بعینہ یہی صورت حال شادی کے وقت لڑکوں کی ہوتی ہے۔ کئی جگہ دعوتیں اڑا کر اور بنتِ حوا کی تذلیل کرکے محض سامانِ آرائش و زیبائش کے مکمل نہ ہونے یا کچھ کم ہونے کی بنا پر رشتہ مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اگر ہم نے ان غیر شرعی رسم و رواج اور فضول خرافات کو ترک نہ کیا اور شریعت کے مطابق نکاح نہ کیا، تو اس کے نتیجے میں بڑے فتنے جنم لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج زمین پر فتنہ و فساد عام ہے۔ جب ہم نے نکاح میں سنت کو چھوڑ دیا اور غیروں کی روش اختیار کرلی، تو انجام یہ ہوا کہ مسلم لڑکے غیر مسلم لڑکیوں سے اور مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کرنے لگیں۔ العیاذ باللہ! یہی وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں اور اپنی آئندہ نسل کے لیے ایسا اسلامی ماحول فراہم کریں، جہاں نکاح کو دنیاوی نمود و نمائش کے بجائے ایک مقدس عبادت کے طور پر اپنایا جائے۔ اگر نکاح کو مشکل بنایا جائے گا، تو حرام کے دروازے کھلیں گے، اور اگر نکاح آسان ہوگا، تو معاشرے میں پاکیزگی اور عفت عام ہوگی۔ اس لیے ہمیں نکاح کو ہر ممکن حد تک سادگی سے انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لہٰذا، موجودہ حالات میں *"آسان اور مسنون نکاح"* مہم کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم گھر گھر جاکر لوگوں کو اس کی اہمیت سمجھائیں۔ اس سے مسلم معاشرے میں سادگی اور آسانی کے ساتھ نکاح کو انجام دینے کا مزاج بنے گا، اور نکاح جیسی عظیم سنت کو حقیقی روح کے ساتھ زندہ کیا جا سکے گا۔ ان شاء اللہ! *🔸 سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ*

*`🎯 رمضان کی قدر کیسے کریں؟`* *✍ مولانا امداد الحق بختیار* https://www.facebook.com/share/p/1FKuJoxxx7/ --------------------------------------------- رمضان المبارک کا مہینہ اللہ جل شانہ کی بڑی عظیم نعمت ہے۔اللہ تعالیٰ کے باتوفیق بندے ہی اس کی قدر جانتے ہیں اور اس کے انوار وبرکات سے پورے طور پر مستفید ہوتے ہیں؛ چناں چہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب رجب کے مہینہ کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا کر تے تھے: اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان․ (مجمع الزوائد:4774) اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرمااور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دیجیے۔ رمضان سے دو مہینہ پہلے ہی اس کا انتظار اور اشتیاق وہی کر سکتا ہے جسے رمضان المبارک کی صحیح قدر وقیمت معلوم ہو۔ اگر ہم بھی چاہتے ہیں کہ رمضان کی برکتوں سے محظوظ ہوں تو ہمارے اوپر لازم ہے کہ اس مبارک مہینہ کی قدر کریں،اس مہینہ کے اعمال اور عبادات کوپورے اہتمام کے ساتھ ادا کریں ،ادنی کوتاہی سے بھی مکمل احتیاط کی کوشش کریں، اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ مقدس مہینہہم گزاریں ، نفس اور شیطان سے دوری اختیار کریں۔ اور درج ذیل کاموں کو پابندی اور اچھے طریقے سے ادا کریں۔ *`روزہ کا اہتمام`* رمضان المبارک کی سب سے بڑی عبادت روزہ رکھنا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾․ (سورة بقرة:183) اے ایمان والو! تمہارے اوپر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے؛ تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔ اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جعل اللہ صیامہ فریضة“ ․(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: 3336) یہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ نے فرض قرار دیے ہیں، رمضان کے روزوں کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ“․(بخاری:38، مسلم: 760) جو حضرات ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتے ہیں، ان کے گزشتہ سب گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ اسی طرح یہ روزے کل قیامت کے دن ہمارے لیے سفارش کریں گے اور جہنم کے عذاب سے بچانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: 3336)رمضان المبارک کے روزوں کی قدر وقیمت اور اہمیت کا اندازہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس مبارک ارشاد سے بھی لگایا جاسکتا ہے: ”من افطر یوما من رمضان من غیر رخصة ولا مرض، لم یقض عنہ صوم الدہرکلہ وإن صامہ“․ (ترمذی: 723) جو شخص سفر یا بیماری جیسے کسی شرعی عذر کے بعد رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے، پھر اگر وہ اس کی قضا کے طور پر عمر بھر بھی روزے رکھتا رہے تو رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ ان تمام ارشادات نبوت سے یہ قیمتی ہدایت ملتی ہے کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں تمام مسلمانوں کو روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔بغیر کسی عذر شرعی کے روزے قضا کرنا انتہائی درجہ کی محرومی ہوگی۔ *`گناہوں سے بچنا`* رمضان المبارک میں سب سے اہم اور بنیادی چیزیہ ہے کہ ہم گناہوں سے مکمل پرہیز کریں، گناہوں کے ساتھ روزوں کی برکات اور رمضان کے انوار کا حقیقی لطف نہیں مل سکتا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے: ”وإذا کان یوم صوم أحدکم فلا یرفث ولا یصخب، فإن سابہ أحد أو قاتلہ فلیقل إنی أمرأ صائم“․(بخاری: 1904) جب کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش اور گندی باتیں اور شوروشغب بالکل نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اس سے الجھے اور غلط باتیں کرے پھر بھی روزہ دار اس سے کوئی سخت بات نہ کہے، بلکہ صرف اتنا کہہ دے کہ جناب! میرا روزہ ہے۔ اس ہدایت میں اشارہ ہے کہ روزہ کی خاص فضیلتیں اور برکتیں انہی کو حاصل ہوتی ہیں، جو گناہوں سے، حتی کہ بری اور ناپسندیدہ باتوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے روزوں کی حفاظت کے لیے، سرکش شیاطین کو قید کردیتے ہیں، جہنم کے تمام دروازے بند کردیتے ہیں، یعنی شر کے تمام راستے بند کردیتے ہیں، جب اللہ کی طرف سے ہمارے روزوں کی حفاظت کا اتنا اہتمام ہے تو اگر ہم خود اپنے روزوں کو غلط چیزوں سے محفوظ نہ رکھ سکیں تو یہ کتنی بے غیرتی کی بات ہوگی؟! *`افطار کی اہمیت`* رمضان کے مبارک مہینہ میں جہاں اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے افطار کا انتظام کرنا باعث ثواب ہے، وہیں مسافروں، غریبوں اور راہ گیروں کا بھی ہمیں خیال رکھنا چاہیے، یہ ایک بڑی فضیلت اور فائدے کی چیزہے، اس فضیلت کو حاصل کرنے کا موقع ہمیں صرف رمضان کے مہینہ میں ہی پورے طور پر ملتا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”مَنْ فَطَّرَ فِیہِ صَائِمًا کَانَ لَہُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِہِ، وَعِتْقَ رَقَبَتِہِ مِنَ النَّارِ، وَکَانَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یُنْقَصَ مِنْ أَجْرِہِ شَیْءٌ․ قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللہِ، لَیْسَ کُلُّنَا یَجِدُ مَا یُفْطِرُ الصَّائِمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یُعْطِی اللہُ ہَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَی مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ، وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاہُ اللہُ مِنْ حَوْضِی شَرْبَةً لَا یَظْمَأُ حَتَّی یَدْخُلَ الْجَنَّةَ“․ جس نے کسی روزے دار کو اس مہینہ میں افطار کرایا تو یہ اس کے لیے گناہوں سے مغفرت اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگا، نیز افطار کرانے والے کو روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے گا اور روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہیں ہوگی۔ صحابہ نے سوال کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک میں افطار کرانے کی استطاعت نہیں ہے( تو کیا غریب لوگ اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟)آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو افطار کے لیے روزہ دار کودودھ کی تھوڑی لسی یا تھوڑا پانی ہی پیش کردے، اس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن جو کسی روزے دار کو پیٹ بھر کھانا کھلادے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض کوثر سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اسے جنت میں داخلہ تک کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی۔(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: 3336) *`تراویح کی پابندی`* رمضان المبارک کے مہینہ میں ایک اہم اور روزانہ ادا کی جانے والی عبادت تراویح کی نماز بھی ہے، نبی پاک صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”وقیام لیلہ تطوعا“ اللہ تعالیٰ نے رمضان کی راتوں میں قیام یعنی تراویح کی نماز کوا فضل عبادت مقرر کیا ہے۔(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: 3336)ایک دوسری حدیث میں یہ مضمون ہے: ”ومن قام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ماتقدم من ذنبہ“․ (بخاری:37، مسلم:759) جو حضرات رمضان کی راتوں میں نفل یعنی تراویح کی نماز پڑھیں گے ان کے پچھلے سب گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ لہٰذا اختلاف کے رد عمل (Side Effect) سے متاثر ہوئے بغیر ہمیں رمضان کی راتوں کو تراویح اور تہجد سے زندہ رکھنا چاہیے، بیس رکعات تراویح کا اہتمام کرنا چاہیے، اسی پر صحابہ کا عمل تھا اور اس وقت سے اب تک تقریبا 80 فیصد امت کا بھی اسی پر عمل ہے، یہاں میرا مقصود کسی کو غلط قرار دینا نہیں ہے، بس رمضان کی ان مول ساعتوں کے پیش نظر ایک خیرخواہانہ دعوت عمل ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں ہمارے نامہ اعمال میں درج ہو سکیں۔ *`خیر خواہی کا مہینہ`* اس مہینہ کی صحیح قدر اسی وقت ہوگی، جب ہم اس کے ایک ایک پیغام کوملحوظ رکھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں، رمضان المبارک کی ایک بڑی صفت اور خاصیت یہ ہے کہ یہ ہمیں صبر ، غم خواری اور خیر خواہی کی دعوت دیتا ہے، پیارے نبی کا مقدس ارشاد ہے: ”وہو شہر الصبر والصبر ثوابہ الجنة، وشہر المواساة“․ (شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر:3336)یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ غم خواری کا مہینہ ہے۔ یعنی ہمیں اس مہینہ میں طبیعت کے خلاف اور ناپسندیدہ باتوں کو بہت ہی تحمل کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے، نیز اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم اس مہینہ میں کثرت سے سخاوت فرماتے تھے اور لوگوں پر خرچ کرتے تھے، اگرچہ آپ کی سخاوت پورے سال جاری رہتی تھی۔(بخاری:6) *`شب قدر کی تلاش`* شب قدر بڑی ان مول نعمت ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک رات صرف اس امت کو عطا کی ہے، غالب گمان یہی ہے کہ یہ رات رمضان کے مہینہ اور اس کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے، اس رات کی فضیلت اور منفعت انتہائی عظیم ہے، اس رات کی عبادت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام میں ہزار مہینہ کی عبادت سے بھی بہتر قرار دیا ہے۔ (سورہ قدر) اسی مہینہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس کی تلاش کے لیے اور اسے پانے کے لیے خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔(متفق علیہ) اور امت کو بھی اس کی تاکید اور وصیت فرمائی ہے۔(بخاری: 2020) *`اعتکاف`* رمضان کی خاص اور اپنی نوعیت کی ایک انوکھی عبادت اعتکاف ہے،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پابندی سے اخیر عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے، اس خصوصی عبادت کی احادیث مبارکہ میں بڑی فضیلت آئی ہے، اس کا ایک بڑا فائدہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اعتکاف کی وجہ سے جو عبادتیں وہ نہیں کرپاتا ان کا ثواب بھی اسے ملتا ہے،آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”ہو یعتکف الذنوب ویجری لہ من الحسنات کعامل الحسنات کلہا“ ․(ابن ماجہ:1781) وہ اعتکاف کی وجہ سے گناہوں سے بچا رہتا ہے اور نیکی کرنے والے بندوں کی طرح اس کی نیکیاں جاری رہتی ہیں اور اس کے نامہٴ اعمال میں لکھی جاتی رہتی ہیں۔ اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سے تعلق ختم کرکے بندہ اللہ کی طرف یکسو اور متوجہ ہوجائے،اس کے در پہ پڑجائے اور بالکل علیحدہ ہوکر اس کی عبادت اور اس کے ذکر وفکر میں مشغول رہے۔ اعتکاف کے اپنے ذاتی فوائد اور فضائل کے ساتھ ایک اہم اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے بندہ کوشب قدر مل جاتی ہے اور وہ اس کی فضیلت اور ثواب سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ *`قرآن اور رمضان`* قرآن کریم کا رمضان المبارک کے مہینہ کے ساتھ خاص تعلق ہے، رمضان میں ہی قرآن نازل کیا گیا(سورہ بقرہ: 185، سورہ قدر) اسی وجہ سے نبی صلی الله علیہ وسلم اس مبارک مہینہ میں قرآن کی تلاوت کا خاص اہتمام فرماتے تھے، حتی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جبریل امین کو رحمت والے اس مہینہ میں قرآن سناتے تھے۔(بخاری: 6) لہٰذا ہم سب کو اس مقدس مہینہ میں کتاب الٰہی کے تعلق سے دو کام کرنے چاہییں: زیادہ سے زیادہ اس کی تلاوت کرنی چاہیے، بعض سلف سے مروی ہے کہ وہ اس مہینہ میں 60 سے 70 مرتبہ قرآن کریم ختم کرلیاکرتے تھے، ہمیں بھی کثرت تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے، دوسرا کام یہ کرنا چاہیے کہ علماء کی سرپرستی میں قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ اللہ کا پیغام اور اس کے احکام ہمیں معلوم ہوسکیں۔ *`رمضان کی قیمتی ساعتیں`* رمضان المبارک کے فضائل، برکات، فوائد اورمنافع کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس ماہ کے لیے بالکل فارغ کرلیں، صرف اور صرف عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت خرچ کریں، ایک ایک گھڑی کا حساب لگائیں، کوئی ساعت ضائع ہوجائے تو اس پر افسوس کریں، ایک مہینہ اللہ کے در پر پڑے رہیں، گیارہ مہینہ کے مسائل اللہ حل فرمادیں گے، اس کی قیمتی ساعتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ماہ میں کسی بھی نفل کام کرنے پر فرض عبادت کا ثواب ملتا ہے اور ایک فرض ادا کرنے پر ستر فرض کا ثواب ملتا ہے، اللہ کے نبی کا ارشاد گرامی ہے: ”مَنْ تَقَرَّبَ فِیہِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَیْرِ کَانَ کَمَنْ أَدَّی فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاہُ، وَمَنْ أَدَّی فَرِیضَةً فِیہِ کَانَ کَمَنْ أَدَّی سَبْعِینَ فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاہُ“․(شعب الایمان، بیہقی، حدیث نمبر: 3336) اس مہینہ میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے مہینوں کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا اور جو اس مہینہ میں فرض عبادت ادا کرے کا تو دوسرے مہینہ کے ستر فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔ لہٰذا ہمیں رمضان المبارک کی ہر گھڑی میں کسی نہ کسی فرض، سنت یا نفل عبادت میں مشغول رہنا چاہیے، کوئی لمحہ اس سے خالی نہ جائے۔ *`جہنم سے نجات کا پروانہ`* اس مہینہ کی ایک بڑی کشش اور عظیم فائدہ یہ ہے کہ اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو مغفرت عطا فرماتے ہیں، انہیں جہنم سے چھٹکارا اور نجات کا پروانہ عطا فرماتے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ یہ قیمتی نعمت بلکہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا مقصد مشکل سے ہاتھ آتا ہے، بلکہ بارش کی طرح اللہ کی طرف سے مغفرت کے پروانے نازل ہوتے ہیں،ذرا سی محنت اور کوشش سے بھی یہ عظیم نعمت حاصل ہوسکتی ہے، آسانی کے ساتھ اس نعمت کے حصول کا اندازہ پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم جبریل امین کی اس بد دعا پر ” آمین “فرماتے ہیں، جس میں وہ کہتے ہیں: ” جسے رمضان کا مہینہ ملا اور اس کی مغفرت نہ ہوسکی اور جہنم میں داخل کیا گیا، اللہ تعالی اسے اپنی رحمت سے دور فرمائے“اگر یہ نعمت دشوار ی سے ملتی تو نہ جبریل امین ایسی بد دعا دیتے اور نہ ہی رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم اس پر آمین کہتے۔(صحیح ابن حبان: 907) کیا ہم نے رمضان کی قدر کی؟ یہ ایک اہم سوال ہے کہ رمضان کا مہینہ گزرنے کے بعد ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ہم نے رمضان کی قدر کی یا نہیں؟ اس کے فوائد اور برکات ہمیں حاصل ہوئے یانہیں؟ اس اہم سوال کے جواب کا اہم پیمانہ خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: ﴿لعلکم تتقون﴾(سورة بقرة:183) یعنی رمضان اور روزہ کا مقصد ہے تقویٰ کا حصول، تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ رمضان کے بعد ہماری زندگی میں تقویٰ آیا یا نہیں؟ اس کو آسان الفاظ میں اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ رمضان گزرنے کے بعد بھی اگر ہماری زندگی پہلے کی طرح ہی گناہوں میں رہی، کوئی تبدیلی نہیں آئی تواس کا مطلب ہے کہ ہم نے رمضان کی کما حقہ قدر نہیں کی، اس کے مکمل فوائد ہمیں حاصل نہ ہوسکے۔ اوراگر رمضان کے بعد ہماری زندگی کا ورق پلٹ گیا، ہم عبادتوں کا اہتمام کرنے لگے، گناہوں سے بچنے لگے، حقوق ادا کرنے لگے، نبی صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنے لگے، ہماری روز مرہ کی زندگی میں ایک اچھی تبدیلی آگئی، تو یہ بالکل کھلی اور واضح علامت ہے کہ ہمارا رمضان قبول ہوا، ہم نے اس کی قدر کی اور اس کے فوائد، ثمرات اور برکات سے بہرہ ورہوگئے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو رمضان کی کما حقہ قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے انوار اور برکات سے مستفید فرمائے۔(آمین) *🔸 سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ*