
المرصاد اردو
1.1K subscribers
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

https://almirsadur.com/%d8%a8%d9%88%d8%b1%da%a9%db%8c%d9%86%d8%a7%d9%81%d8%a7%d8%b3%d9%88-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%a7%d9%84%d9%82%d8%a7%d8%b9%d8%af%db%81-%da%a9%db%8c-%d9%85%d9%82%d8%a7%d9%85%db%8c-%d8%b4%d8%a7%d8%ae-%da%a9/ *بورکینافاسو میں القاعدہ کی مقامی شاخ کے آپریشن میں چار داعشی ہلاک اور ان کا اسلحہ ضبط کرلیا گیا* جماعة نصرة الاسلام والمسلمین کے نشریاتی ادارے الزلاقة نے شعبان کی ۲۸ تاریخ کو خبر دی کہ گزشتہ پیر (شعبان کی ۲۵ تاریخ) کو وودالا صوبے کے غیرماکوی علاقے میں مجاہدین نے داعشیوں کے ایک گروہ پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں چار داعشی ہلاک ہوگئے۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں سے ایک پیکا(سب مشین گن)، دو کلاشنکوف اور دو موٹر سائیکلیں بھی قبضے میں لی گئیں۔ اس سے پہلے بھی وودالا صوبے میں القاعدہ نے داعشیوں کے ساتھ جھڑپیں کی تھیں اور ان کے متعدد ارکان کو ہلاک کردیا تھا۔

https://almirsadur.com/%d9%85%d8%a7%db%81-%d8%ad%d9%88%d8%aa-%da%a9%db%8c-%db%b1%db%b0-%d8%aa%d8%a7%db%8c%d8%ae%d8%8c-%d8%b4%d8%a7%db%81%db%8c-%da%a9%d9%88%d9%b9-%da%a9%d8%a7-%d9%be%db%81%d9%84%d8%a7-%d9%85%d8%b9%d8%b1/ *ماہ حوت کی ۱۰ تایخ، شاہی کوٹ کا پہلا معرکہ اور دوحہ کا کامیاب معاہدہ* *قاری اسحاق* ماہ حوت کی ۱۰ تاریخ وہ دن تھا جب شاہی کوٹ کے پہاڑوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف پہلا معرکہ لڑا گیا۔ یہ معرکہ اس وقت ہوا جب مغرور امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، ایک شرعی نظام کو تباہ کیا اور ظلم و ستم کا آغاز کیا۔ وہ خود کو انسان اور انسانیت کے علمبردار کہتے تھے، لیکن عین اسی وقت انسانیت ان کے ہاتھوں خون میں لت پت اور انتہائی بے کسی کے عالم میں دم توڑ رہی تھی۔ جی ہاں، وہ وقت خوفناک لمحوں کا تھا، مایوسی چھا گئی تھی، شکست کا سامنا تھا، لشکرِ حق ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا، مسلمان مایوس تھے اور ایک نامعلوم مستقبل کے بارے میں سوچ رہے تھے، لیکن یہاں اللہ کی مشیت کچھ اور تھی، یہاں وہ مغرور امریکہ اور اس کے اتحادی تھے، جو بھوکے بھیڑیے کی طرح ہر کسی پر حملہ آور ہونے کے لیے بے تاب تھے، لیکن وہ حیران و سرگردان رہ گئے۔ انہوں نے بہت کوششیں کیں، لیکن آخرکار ان کا گریبان ایک شخص کے ہاتھ میں آیا، وہ شاہی کوٹ کے پہاڑوں میں موجود فاتح شاہی کوٹ شہید کمانڈر ملا سیف الرحمان منصور تھے۔ یہاں اللہ نے مغرور دنیا کو بے یار و مددگار افغان عوام کے سامنے ذلیل و رسوا کر دیا اور انہیں ذلت و پستی کی طرف دھکیل دیا۔ اللہ جل جلالہ نے افغان عوام میں سے ایک بطل کو کھڑا کیا اور سب سے پہلے اس کے ہاتھوں مغرور دشمن کو سخت سزا دلوائی۔ اسی مقام سے اللہ جل جلالہ نے پورے افغانستان میں دوبارہ جہاد کا جذبہ بیدار کیا، اور یہی وہ وقت تھا جب ایک سخت جنگ کا آغاز ہوا۔ مغرور دنیا چند نوجوانوں کے نعرہ تکبیر اور حملوں کے سامنے ہار گئی، غرور کی اونچی چٹانوں سے ان بہادر جنگجوؤں نے دشمن کو زمین پر گرا کر شکست سے دوچار کر دیا۔ جب مغرور دشمن کو یقین ہوا کہ وہ جنگ میں شکست کی طرف جا رہا ہے، تو اس نے مجاہدین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے جنگ کو "اینا کونڈا اژدہے" کا نام دیا، لیکن یہ بھی دشمن کی شکست پر منتج ہوا۔ کیونکہ یہاں لڑنے والے نوجوان صرف اللہ پر بھروسہ رکھتے تھے، ان کے دل اللہ کی محبت سے معمور تھے، اور یہ حق کا چھوٹا سا لشکر شہادت کے عہد پر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ شاہی کوٹ کا معرکہ روز بروز شدت اختیار کرتا گیا اور دشمن کو سنگین نقصان پہنچا۔ اس جنگ میں امریکیوں کے بھاری جانی نقصانات نے دشمن کو بوکھلا کر رکھ دیا، اور انہوں نے انتہائی ذلت کے ساتھ اعتراف کیا: "ہم نے ویتنام کے بعد ایسی مشکل جنگ کا سامنا نہیں کیا۔" یہ خبر صرف شاہی کوٹ کے پہاڑوں میں لڑنے والے تھکے ماندے مجاہدین ہی کے لیے نہیں، بلکہ اس نے تمام مسلمانوں کو نئی روح بخشی، خاص طور پر اس معرکے میں حصہ لینے والے مجاہدین مزید مضبوط ہوئے اور جنگ کی شدت میں اضافہ ہوا۔ یہ جنگ اتنی تیز اور مغرور دنیا اتنی کمزور ہو گئی کہ ہر افغان کے خون میں جوش آ گیا؛ اور اسی وجہ سے انتقامی حملے اس معرکے کے بعد مسلسل جاری رہے، دشمن افغان قوم کے سامنے دم توڑ رہا تھا، کار بم دھماکوں نے ان کے دلوں کو لرزا کر رکھ دیا تھا اور نوجوانوں نے ایسی قربانیاں دیں جو انسانوں کے تصور سے ماوراء تھیں۔ یہ جنگ دو دہائیوں تک جاری رہی، لیکن مغرور دنیا آہستہ آہستہ شکست تسلیم کرنے لگی اور آخرکار شاہی کوٹ کی جنگ میں تباہ ہو جانے والی دنیا کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ وہ ہار چکی ہے اور دوحہ میں مذاکرات کے لیے بیٹھنے پر مجبور ہو گئی۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ طالبان نے اس ذلیل دشمن کو نہ صرف جنگ کے میدان میں بلکہ سیاست کے میدان میں بھی ایسی شکست دی کہ وہ ذلت کے ساتھ چلے گئے اور ان کے تمام وسائل مجاہدین کے ہاتھوں غنیمت بن گئے۔ شاہی کوٹ کا یہ ہیرو، جہاد کا بانی، شہید کمانڈر ملا سیف الرحمن منصور بھی اس معرکہ خون آشام میں دشمن کے ہاتھوں شہید ہو گئے، وہ اس عظیم انتقامی جہاد کے پہلے شہید تھے، اللہم تقبل شهادته!

https://almirsadur.com/%d8%b4%d9%87%db%8c%d8%af-%d9%85%d9%84%d8%a7-%d8%b9%d8%a8%d8%af%d8%a7%d9%84%d8%ad%da%a9%db%8c%d9%85-%db%81%d8%ac%d8%b1%d8%aa-%d8%aa%d9%82%d8%a8%d9%84%d9%87-%d8%a7/ *شهید ملا عبدالحکیم ’’ہجرت‘‘ تقبله الله کی زندگی اور کارناموں کا مختصر جائزہ !* راہ حق اسلام کے بہادر سپاہی، بیدار ضمیر، جنگجو اور متحرک مجاہد، شہید سعید ملا عبدالحکیم ’’ہجرت‘‘ تقبله الله، ولد عبدالحمید ۱۳۶۵ ہجری شمسی میں بادغیس ولایت کے ضلع مقر کے ترکو گاؤں میں ایک دینی اور جہادی گھرانے آنکھ کھولی۔ انہوں نے اپنے دینی علوم کی ابتداء اپنے گاؤں کے امام سے کی، پھر علم کی پیاس بجھانے کے لئے مدرسے کا رخ کیا اور مختلف مدارس میں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ جس وقت انہوں نے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، ہماری پیاری سرزمین کفار اور ان کے غلاموں کے قبضے میں تھی اور ہر باشعور نوجوان کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی، ایسے میں شہید ہجرت تقبله الله نے اپنے ایمانی جذبے کے تحت اس میدان میں قدم رکھا اور اپنی جان کی قیمت پر اس جنگ میں شریک ہوئے۔ انہوں نے مدرسے کی راہ ترک کی اور جہادی صفوں میں غازیوں کے ساتھ گرم محاذوں میں شامل ہو گئے۔ شہید ہجرت تقبله الله نے اس دوران بادغیس ولایت کے مختلف علاقوں میں کفار اور ان کے غلاموں کے خلاف اپنی ایمانی قوت سے ان کا بھرپور مقابلہ کیا، پھر وہ ہلمند ولایت گئے جہاں انہوں نے دین اور وطن کے دشمنوں کے ساتھ سخت اور پیچیدہ آپریشنز میں حصہ لیا اور ان سے مسلسل جہاد کیے رکھا۔ شہید ہجرت تقبله الله متقی، عاجز اور نیک دل انسان تھے، اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک رکھتے، بیت المال کے حوالے سے انتہائی حساس تھے اور اپنی عوام کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے۔ شہید ہجرت تقبله الله مائنز اور درازنوف کے انتہائی ماہر مجاہد تھے۔ جب امریکہ کی طرف سے افغانستان میں داعشی فتنے اور جواسیس کو فروغ دیا گیا، اور اس وقت کے علماء کرام نے ان کے خلاف مقدس جہاد کا فتویٰ دیا، تو امارتِ اسلامی کے رہنماؤں نے جوزجان ولایت میں اس فتنے کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن کاروائی کی منصوبہ بندی کی، ان کاروائیوں کے لیے بادغیس ولایت سے ایک مخصوص عسکری دستہ بھیجا گیا۔ شہید ہجرت جو ہر باطل اور مردود فکر کے خلاف لڑنے کے لیے بے حد جذبہ رکھتے تھے، اس دستے کے ساتھ مل گئے اور جوزجان ولایت میں داعش کے فتنہ پرور گروہ کے خلاف اپنی ایمانی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ وہاں کئی دن تک سخت آپریشنز ہوئے، جس کے دوران داعش کے بہت سے افراد ہلاک اور زخمی ہوئے، اور وسیع علاقے ان کے وحشی قبضے سے آزاد ہوئے۔ شہید ہجرت تقبله الله کے دل میں پہلے سے ہی شہادت کی آرزو تھی، اور وہ ہمیشہ اللہ تعالی کے دربار میں مقبول شہادت کی دعا کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالی نے ان کی دعاؤں کو قبول کیا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی پیروی کرنے والے شہید ہجرت ۱۳۹۶/۶/۲۰ ہجری شمسی کو جوزجان ولایت کے درزاب ضلع میں داعشی فتنہ پروروں کے ساتھ مقابلے میں شہادت کے اعلی مرتبے سے سرفراز ہوئے اور اس طرح اپنی تمنا کو پاگئے۔ نحسبه کذالک والله حسیبه! شہید سعید ملا عبدالحکیم ہجرت تقبله الله کے بھائی، ملا عبدالسلام ہجرت نے بتایا کہ: ایک بار میں نے شہید ہجرت تقبله الله سے پوچھا کہ بھائی، دنیا میں آپ کی کوئی اور آرزو باقی ہے؟ ہلمند ولایت میں جنگ سے بھی اللہ جل جلالہ نے تمہیں سلامت واپس کیا، میرا بھی یہی ارمان تھا کہ اللہ تمہیں صحیح سلامت واپس ہوں۔ شہید ہجرت تقبله الله نے مجھ سے کہا: ’’میں اللہ جل جلالہ کی رضا پر راضی ہوں، وہ کبھی ناراض نہ ہو، میری زندگی کی آرزو اور آخری خواہش یہ ہے کہ جب میں شبرغان ولایت اور درزاب ضلع میں داعشی فتنے کے خلاف جنگ کے لیے جاؤں، تو اللہ جل جلالہ مجھے مقبول شہادت سے نواز دے۔ بس اس کے علاوہ میری کوئی اور آرزو نہیں۔

https://almirsadur.com/%d8%b1%d8%b3%d9%88%d9%84-%d8%a7%d9%84%d9%84%db%81-%d8%b5%d9%84%db%8c-%d8%a7%d9%84%d9%84%db%81-%d8%b9%d9%84%db%8c%db%81-%d9%88%d8%b3%d9%84%d9%85-%da%a9%db%92-%d9%85%d8%b9%d8%a7%d8%b4%d8%b1%d8%aa-2/ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاشرتی اخلاق | تیسری قسط* *نقيب احمد حميدی* رسول اللہ ﷺ کا اپنے صحابہ کرام کے ساتھ برتاؤـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام سے بے انتہا محبت رکھتے تھے۔ آپ ہمیشہ ان کے ساتھ اخلاقِ حسنہ کے ساتھ پیش آتے اور ان سے بڑی ہمدردی کا برتاؤ کرتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ آپ اپنے صحابہ کی ضروریات سے آگاہ ہوں، اسی لیے آپ ان سے ایک قریبی اور مہربان ساتھی کی طرح ان کی ضروریات سے متعلق ہمیشہ پوچھتے رہتے تھے۔ آپ ان کی ضرورتوں کو سمجھ کر مدد فراہم کرتے تھے، اور اگر کسی کو مشورے کی ضرورت ہوتی تو آپ انہیں بہترین مشورہ دیتے۔ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے ملتے تو آپ کی صورت پر ہمیشہ خوشی دکھائی دیتی تھی، ایسا چہرہ جس سے یہ نہ لگتا ہو کہ آپ پر کسی قسم کا بوجھ ہے یا آپ پر کوئی تکلیف آئی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: : «كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا بلغه عن الرجل الشيء لم يقل ما بال فلان يقول، ولكن يقول: ما بال أقوام يقولون كذا وكذا.» (سنن أبي داود: (4/ 397 ترجمہ: جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی شخص کے بارے میں کوئی بات آتی، تو آپ یہ نہیں کہتے تھے کہ فلاں شخص نے یہ کہا، بلکہ آپ کہتے تھے کہ کیا بات ہے کہ لوگ ایسا ایسا کہتے ہیں؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک اور حدیث روایت ہے: «ولأحمد من حديث أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يواجه أحدا في وجهه بشيء يكرهه» «فتح الباري» لابن حجر (6/ 575) ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی سے ایسی بات نہیں کہتے تھے جو اسے ناپسند ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ بہت احترام اور محبت کے ساتھ زندگی گزارتے تھے، مشہور صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صافح رجلًا لم ينزع يده من يده حتى يكون الرجل هو الذي [ينزع، ولا يصرف وجهه عن وجهه حتى يكون الرجل هو الذي] يصرف، ولم ير يعني مقدمًا ركبتيه بين يدي جليس له قط.» «شعب الإيمان» (10/ 449) ترجمہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مرد سے ہاتھ ملاتے، تو آپ اپنی ہاتھ کو اس سے اس وقت تک نہیں ہٹاتے جب تک وہ شخص خود نہ ہٹالے، اور آپ کبھی اپنے چہرے کو اس کے چہرے سے نہیں پھیرتے تھے، بلکہ وہ شخص خود اپنا چہرہ پھیرلیتا، اور آپ کبھی بھی کسی کے سامنے اپنے پیر نہیں پھیلاتے تھے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: «قال: (تزوجت). قلت: نعم، قال: (بكرا أم ثيبا). قلت: بل ثيبا، قال: (أفلا جارية تلاعبها وتلاعبك). قلت: إن لي أخوات، فأحببت أن أتزوج امرأة تجمعهن وتمشطهن، وتقوم عليهن»«صحيح البخاري» حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اے جابر! کیا تم نے شادی کی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا: بیوہ سے کی ہے جو عمر میں بھی مجھ سے بڑی ہے۔ آپ نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی، تاکہ تم ایک دوسرے سے کھیلتے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول: غزوہ احد میں میرے والد شہید ہوگئے تھے، اور میری سات بہنیں ہیں، اس لیے میں نے چاہا کہ ایسی عورت سے شادی کروں جو میری بہنوں کی سرپرستی کرے اور ان کی تربیت کرے۔

https://almirsadur.com/%d8%ae%d9%84%d8%a7%d9%81%d8%aa-%d8%b9%d8%ab%d9%85%d8%a7%d9%86%db%8c%db%81%d8%9b-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%db%92-%d8%af%d8%b1%db%8c%da%86%d9%88%da%ba-%d8%b3%db%92-%d8%aa%db%8c%d8%b3%d8%b1/ *خلافت عثمانیہ؛ تاریخ کے دریچوں سے | تیسری قسط* *حارث عبیدہ* *سلجوقی حکومت کی تاسیس:* عرب اور مشرق میں جو واقعات رونما ہو رہے تھے، اس دوران سلجوقیوں کے ظہور نے ان علاقوں میں سیاسی تبدیلیوں پر گہرے اثرات ڈالے، جنہیں ایک طرف عباسی خلفاء نے اپنے زیرِ اقتدار کر رکھا تھا اور دوسری طرف شیعہ فاطمی خلافت نے اپنے علاقے میں شامل کر لیا تھا۔ ان حالات میں، سلجوقیوں نے ایک بہت بڑی ترک سلطنت کی بنیاد رکھی، جو پانچویں ہجری صدی (گیارھویں صدی عیسوی) میں وجود میں آئی۔ یہ سلطنت خراسان، ماوراء النہر، عراق، ایران، شام پر مشتمل تھی، شروع میں اس سلطنت کا مرکز ایران تھا، جسے بعد میں عراق کے شہر بغداد منتقل کر دیا گیا۔ اس دور میں خراسان، ماوراء النہر (کرمان)، شام کے سلاجقہ (شام) اور ایشیائے کوچک (سلجوقی روم) میں متعدد چھوٹی چھوٹی سلجوقی ریاستیں قائم ہو گئیں، یہ تمام ریاستیں بشمول ایران و عراق سلجوقی سلطنت کے زیرِ اقتدار سمجھی جاتی تھیں۔ سلجوقیوں نے بغداد میں عباسی خلافت اور ان کے مذہب اہلِ سنت والجماعت بھر پورتعاون کیا، یہ سلطنت ایک طرف ایران اور عراق میں بویہ (آل بویہ) کے اقتدار اور دوسری طرف شام اور مصر میں عبیدی (فاطمی حکومت) کے مابین پسی جارہی تھی اور اس طرح یہ روز بروز رو بزوال تھی، ان حالات میں سلجوقیوں نے بویہ اقتدار کا خاتمہ کر دیا اور عباسی خلافت کے دفاع میں عبیدیوں کے آگے سد سکندری کی مانند مضبوط کھڑے ہوگئے۔ سلجوقی سردار طغرل بیگ نے ۴۴۷ھ میں بغداد میں آل بویہ کی سلطنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا، تمام شورشوں پر قابو پایا، مسجدوں کے دروازوں پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں لکھی گئی ناگوار اور گستاخانہ تحریریں مٹاڈالیں اور رافضی شیخ ابو عبدالله الجلاب کو رافضیت میں حد سے زیادہ مبالغہ کرنے کے باعث قتل کردیا۔ آل بویہ اور شیعہ اثر و رسوخ بغداد اور عباسی خلافت میں پھیل چکا تھا؛ جب سلجوقیوں نے بویہ سلطنت کو ختم کیا اور سلطان طغرل بیگ بغداد کی عباسی حکومت کے دارالحکومت میں داخل ہوئے، تو عباسی خلیفہ قایم بامر اللہ نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا، انہیں قیمتی لباس تحفے میں دیے، اپنے ساتھ بٹھایا اور معزز القاب سے نوازا، جن میں ایک لقب "سلطان رکن الدین طغرل بیگ" تھا۔ اس کے بعد عباسی خلیفہ نے حکم دیا کہ سلطان طغرل بیگ کا نام سکوں پر لکھا جائے، بغداد کی مساجد میں ان کے نام پر خطبہ دیا جائے، اور ان کے حق میں جمعہ کے نمازوں اور دیگر عبادت گاہوں میں دعائیں کی جائیں۔ خلیفہ کی مہربانی کے نتیجے میں سلجوقیوں کو پوری اسلامی دنیا میں عزت ملی، اور وہ بغداد میں بویہ خاندان کے جگہ سونے اور چاندی کے مالک بن گئے، عباسی خلیفہ طغرل بیگ کی ہر مشورے کو عزت کے ساتھ قبول کرتا اور ان کا قدر و احترام کرتا تھا۔ طغرل بیگ ایک طاقتور شخصیت تھے، بہت ذہین، بہادر، دیندار اور عدل پھیلانے والے تھے، ان کے نیک خصائل کی وجہ سے ان کے پیروکار روز بروز بڑھ رہے تھے۔ ان کے پاس ایک طاقتور فوج تھی، اور طغرل بیگ کی کوشش تھی کہ تمام سلجوقی ترکوں کو متحد کرکے دین و سلطنت کی ترویج و توسیع میں پورا حصہ لے۔ خلیفہ قائم بامر اللہ نے سلجوقی سلطنت کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے طغرل بیگ کے بڑے بھائی جعفر بیگ کی بیٹی سے شادی کی، یہ شادی ۴۴۸ھ / ۱۰۵۹م میں ہوئی اور ۱۰۶۲م میں طغرل بیگ نے قائم بامر اللہ کی بیٹی سے شادی کی، لیکن اس کے بعد طغرل بیگ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے۔ ۴۵۴ھ میں ۸ رمضان ۱۰۶۲ء کو یعنی شادی کے ایک ماہ بعد طغرل بیگ کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت ان کی عمر ستر (۷۰) سال تھی۔ طغرل بیگ اپنی موت سے قبل خراسان اور عراق کے شمال مغربی علاقوں میں اپنے ہاتھوں سے سلجوقی اقتدار اور فتح کا کام مکمل کرچکے تھے۔

https://almirsadur.com/%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85%d9%88%d9%81%d9%88%d8%a8%db%8c%d8%a7-%da%a9%d8%a7-%d8%b1%d8%ac%d8%ad%d8%a7%d9%86-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%af%d8%a7%d8%b9%d8%b4-%da%a9%d8%a7-%da%a9%d8%b1%d8%af%d8%a7%d8%b1-2/ *اسلاموفوبیا کا رجحان اور داعش کا کردار | دوسری قسط* *جنید زاہد* یورپ میں داعیانِ اسلام کے وجود سے اسلام کا حسین چہرہ اہلِ یورپ کے سامنے آیا، دوسری طرف وہ جہادی تحریکیں جو صحیح اور حق راستے پر گامزن تھیں، نے دنیا کو یہ دکھایا کہ جہاد اور اسلام صرف اور صرف انسانیت کی بھلائی، خوشحالی اور اپنے جیسے انسانوں کو ظلم سے نجات دلانے کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے۔ وہ تمام جہادی تحریکیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں دین اور انسانیت کے دشمنوں کے خلاف سرگرم تھیں، انہوں نے احسن طریقے سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ لیکن مغرب، خاص طور پر یورپ میں اسلام کے پھیلاؤ سے خوفزدہ تھا، اس کی کوشش تھی کہ اسلام کے نام پر ایسی ایک جماعت بنائی جائے جو معاشروں میں تشدد کرے، خوف پھیلائے اور اپنی تمام وحشتوں کو اسلام اور اسلامی اقدار کے نام پر انجام دے۔ حقیقت میں، داعش مغرب کے لیے اس بدترین مقصد کے حصول کے لیے بہترین ذریعہ تھی، اور اسی لیے انہوں نے اس گروہ کی تشکیل اور ترقی کے لیے کام کیا اور ان کے پاس موجود تمام وسائل کو بروئے کار لایاگیا جو ان کے ہاتھ میں تھے۔ اس کے نتیجے میں، داعش نے ایسی وحشیانہ کارروائیاں سر انجام دیں جو دنیا بھر کے انسانوں کے لیے غم و اندوہ کا سبب بنیں اور اپنی بربریت سے پوری انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اپنے میڈیا کے ذریعے انہوں نے مسلسل اس گروہ کی ہالی ووڈ جیسی فلمیں بنائی گئیں، جس میں اس وحشی گروہ کی کارروائیاں دکھائیں اور ایسا تاثر قائم کیا کہ یہ تمام ظلم اور وحشت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ وہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ جو بھی اسلام قبول کرنا چاہے گا، وہ داعش جیسی صورت اختیار کرے گا اور اسلام اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسلام کے پھیلاؤ کے خوف سے، انہوں نے اسلام کے خلاف جنگ کا راستہ اختیار کیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے اسلامی ممالک میں داخل ہو گئے، ان کی دولت لوٹی اور عوام کو تباہ کیا۔ داعش کو مغرب میں اسلاموفوبیا کے پیدا کرنے کے لیے ایک مؤثر اور جدید تحریکوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اور اس نے اپنے اقدامات کے ذریعے اس آگ کو اس قدر بھڑکا دیا ہے کہ وہ کئی سالوں تک مدھم نہ ہو سکے گی۔ مغرب، جو اسلام کی ترقی سے خوفزدہ تھا، کبھی بھی اسے لوگوں کے دلوں سے نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکا، کیونکہ حقیقت اپنے راستے خود ہی تلاش کرتی ہے۔ تاہم داعش جیسے منصوبے کی تکمیل سے وہ لوگوں کی توجہ حقیقت سے ہٹا کر اپنے جھوٹ کی طرف موڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس دین کی حفاظت اور نصرت کی ذمہ داری لے رکھی ہے، اور ہم اللہ کی وعدے پر پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ وہ گروہ جو اللہ کے دین کے دفاع کے لیے جہاد اور جدوجہد کر رہے ہیں، سرخ رو ہوں گے اور داعش اور ان کے اتحادی اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن عظیم میں ان کے مکر کو بے نقاب کیا ہے اور فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے نور کو مٹانا چاہتے ہیں، لیکن انہیں یہ جاننا چاہیے کہ اللہ اپنے نور اور دین کو مکمل کرنے والا ہے، چاہے کافر اور ان کے حامیوں کو یہ ناگوار گزرے۔

https://almirsadur.com/%d8%ae%d9%84%d8%a7%d9%81%d8%aa-%d8%b9%d8%ab%d9%85%d8%a7%d9%86%db%8c%db%81%d8%9b-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%db%92-%d8%af%d8%b1%db%8c%da%86%d9%88%da%ba-%d8%b3%db%92-%d9%be%db%81%d9%84%db%8c/ *خلافت عثمانیہ؛ تاریخ کے دریچوں سے | پہلی قسط* *حارث عبیدہ* خلافت عثمانیہ کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور علمی تاریخ امت مسلمہ کے لیے ایک قیمتی دستاویز ہے اور یہ ماضی کے تجربات سے استفادہ کرکے موجودہ تنزل سے بامِ عروج تک پہنچنے کے لیے راہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔ تاریخ ماضی کا بیان ہے، مگر ہر کوئی اچھا تاریخ نگار نہیں بن سکتا، تاریخ نویسی میں تاریخی طریقہ کار سے آگاہی اور نئے صحافتی اصولوں کی مہارت ہونا ضروری ہے۔ واقعات کا پیش آنا، ہر واقعے کا تاریخی سیاق و سباق اور موجودہ حالات میں ان کی تطبیق کو سمجھنا بہت اہم ہے۔ تاریخ ماضی کے تجربات بیان کرتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھا کر ہم حال میں ترقی کی سمت متعین کر سکتے ہیں اور مستقبل کے لیے حکمت عملی وضع کر سکتے ہیں۔ تاریخ سے ہی پتہ چلتاہے کہ اُس وقت امت کے رہبر کون تھے، اپنی راہنمائی کے امور کس طرح سرانجام دیتے تھے، اپنے امیر کا انتخاب کیسے کرتے تھے، اور ایک رہنما کو کس طرح کی خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے۔ عثمانی خلافت کے حکمرانوں نے عدل کو بہت اہمیت دی، انسانیت کے ساتھ ہمدردی رکھی، عوام کے ساتھ تعاون و ہمدردی کا رویہ برقرار رکھا اور انسانی افکار و نظریات کو مثبت انداز میں پروان چڑھانے کی سعی کی۔ وہ معاشرہ جہاں عدل و انصاف نہیں ہوتا، وہاں انسانی اور سماجی مسائل بہت بڑھ جاتے ہیں۔ عالم اسلام میں انسانوں کے درمیان تعلقات عدل اور احسان پر مبنی ہوتے ہیں، اور عدل انسانوں کے درمیان محبت پیدا کرتا ہے، تعلقات کو مضبوط بناتا ہے اور انسان دوستی کی فضا کو پروان چڑھاتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: > *إن الله يأمرُ بِالعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ۔* > ترجمہ: اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔(سورۃ النحل: 90)۔ اوپر ذکر کی گئی آیت میں عدل کے ساتھ احسان کا بھی ذکر آیا ہے، انسانوں کے ساتھ احسان اور مدد کرنے سے انسانوں کے درمیان محبت پیدا ہوتی ہے اور انسان دوستی کی راہ ہموار ہوتی ہے، جب کسی معاشرے میں انسانوں کے درمیان عدل قائم ہو، تو سماجی فساد اور مسائل ختم ہو جاتے ہیں، سماجی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور انسانوں کو بقاء و استحکام حاصل ہوتا ہے۔ اگر ہم عدل کو توازن اور برابری کے معنی میں استعمال کریں اور احسان کو مدد اور انسان دوستی کے معنی میں لیں، تو ایک معاشرے کی ترقی کے لیے یہ دونوں ضروری ہیں اور انسان دوستی کے قیام میں ان دونوں کا کردار اہم ہے۔ عثمانی خلافت میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ انسانی ہمدردی اور بھائی چارہ تب ایک معاشرے میں قائم ہو سکتا ہے جب ماحول انسانیت پر مبنی ہو۔ یہاں ہم خلافت عثمانیہ کی تشکیل، اس کے حکمرانوں، اس کی کامیابیوں اور مسائل پر بات کریں گے۔ *۱۔ ترکوں کا نسب اور وطنِ اصلی:* ماوراء النہر وہ خطہ ہے جسے آج ہم "ترکستان" کے نام سے جانتے ہیں، یہ خطہ مشرق میں منگولیا اور شمالی چین کے پہاڑوں تک، مغرب میں کاسپین (خزر) سمندر تک، شمال میں میدانی علاقوں تک اور جنوب میں برصغیر اور فارس تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ غز خاندان کی زمین تھی، اور اس علاقے میں اس خاندان کے بڑے قبیلے آباد تھے جو ترک یا اتراک کے نام سے جانے جاتے تھے۔ چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں انہوں نے اپنے اصلی وطن کو چھوڑا اور بڑی تعداد میں ایشیا کی طرف ہجرت کی۔ مؤرخین اس ہجرت کو مختلف وجوہات سے جوڑتے ہیں، کچھ تاریخ دانوں کے مطابق ان کی ہجرت کی وجہ اقتصادی مسائل تھے، شدید قحط اور آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے انہیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا، اور وہ ایسی جگہوں پر آباد ہو گئے جہاں وسیع چراگاہیں اور زندگی گزارنے کے لیے بہتر مواقع موجود تھے۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ اس ہجرت کی وجہ سیاسی تھی، ترکوں نے بعض طاقتور قبائل سے لڑائیاں مول لی تھیں جن کی فوجی طاقت اور تعداد بہت زیادہ تھی، جیسے منگول قوم۔ اس دشمنی سے بچنے کے لیے انہوں نے ترکستان کو چھوڑا اور ایسی جگہوں کی طرف ہجرت کی جہاں امن اور سکون ہو، تاکہ وہ وہاں آرام سے زندگی گزار سکیں۔ یہ نقطہ نظر ڈاکٹر عبداللطیف عبداللہ بن دہیش کا ہے۔ منگولوں کی دشمنی سے بچنے کے لیے ترکوں نے مغربی سمت میں ہجرت کی اور جیحون دریا کے قریب علاقوں میں آباد ہو گئے۔ اس کے بعد وہ جورجان اور تبرستان پہنچے اور وہاں اپنی زندگی بسر کرنے لگے، اس طرح ترک ان اسلامی علاقوں کے قریب ہو گئے، جنہیں مسلمانوں نے ۲۱ ہجری (۶۲۱ عیسوی) میں جنگوں کے دوران فتح کیا تھا اور فارس میں ساسانی حکومت کے خاتمے کے بعد ان علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔

https://almirsadur.com/%d9%85%d9%84%da%a9-%da%a9%db%92-%d8%b4%d9%85%d8%a7%d9%84-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b4%d8%b1%d9%be%d8%b3%d9%86%d8%af-%d8%b9%d9%86%d8%a7%d8%b5%d8%b1-%da%a9%db%92-%d8%ae%d9%84%d8%a7%d9%81-%da%a9%d8%a7%d9%85/ *ملک کے شمال میں شرپسند عناصر کے خلاف کامیاب آپریشنز* اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے، شر پسند عناصر کے اس نیٹ ورک کو، جس نے بلوچستان میں داعش خراسان کی براہ راست ہدایات پر ملک کے شمال مشرق میں کچھ تخریبی کاروائیاں کی تھیں، امارت اسلامیہ کے مجاہدین کی سپیشل فورسز کے کامیاب آپریشن کے نتیجے میں تباہ کر دیا گیا ہے اور اس کے تمام ارکان گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ المرصاد کو اپنے مصدقہ ذرائع سے معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ گزشتہ تین روز سے ملک کے شمال میں اس نیٹ ورک کے خلاف صوبہ تخار، قندوز، بغلان اور سمنگان میں بڑے پیمانے پر آپریشنز کیے گئے۔ ان آپریشنز میں اس نیٹ ورک کے تمام ارکان گرفتار کر لیے گئے، اسلحہ، گولہ بارود، دستی بم اور دھماکہ خیز مواد بھی مجاہدین کے خصوصی دستوں کے ہاتھ آیا۔ اس نیٹ ورک کی جانب سے آخری حملہ صوبہ تخار کے ضلع دشت قلعہ میں ایک چینی شہری پر کیا گیا تھا جس میں چینی شہری ہلاک ہو گیا۔ اس سے قبل اس نیٹ ورک نے صوبہ بغلان کے ضلع نہرین کی ایک مسجد میں موجود ذکر میں مشغول لوگوں پر حملہ کیا جس میں دس سے زیادہ افراد جانبحق ہو گئے۔ اسی طرح انہوں نے صوبہ بغلان کے بعض دیگر علاقوں میں علمائے دین اور معزز شخصیات کو بھی نشانہ بنایا اور انہیں شہید کیا۔ اس نیٹ ورک کے تمام اراکین نے اپنے جرائم کا اعتراف کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ اس نیٹ ورک کی سرگرمیاں صوبہ بلوچستان میں موجود داعش خراسان اور ان کے پس پشت موجود بعض خفیہ ایجنسیوں کی اس حکمت عملی کا حصہ تھیں جن کا مقصد شمالی افغانستان میں کچھ کاروائیاں کرنا اور اس کے ذریعے سکیورٹی صورتحال میں خدشات پیدا کرنا اور اس حوالے سے ہمسایہ ممالک کو بھی تشویش میں مبتلا کرنا تھا۔ واضح رہے کہ صوبہ بلوچستان میں شرپسند داعش خراسان کے مراکز اور ٹریننگ کیمپس موجود ہیں اور وہاں بہت سے یورپی اور ایشیائی ممالک کے باشندوں کی ٹریننگ کی جاتی ہے اور اگر ان کے آگے بند نہ باندھا گیا تو خدشہ ہے کہ بعض دیگر ممالک میں بھی خطرناک حملے ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے امارت اسلامیہ افغانستان کے مجاہدین کی سپیشل فورسز کے آپریشنز سے اُس مسلح مجرم گروہ کے کئی اراکین بھی گرفتار کر لیے گئے جو صوبہ تخار میں اغوا اور کچھ صرافوں اور سناروں پر حملوں میں ملوث تھے۔ ایک صراف، ایک سنار اور صراف کا ایک کم سن بھائی بھی انہوں نے شہید کیے۔ المرصاد کے ذرائع کے مطابق ان کے پیچھے بھی خفیہ ہاتھ موجود تھا جس کا مقصد یہاں سکیورٹی صورتحال کو خراب کرنا اور ترقیاتی اور معاشی منصوبوں کے حوالے سے خدشات پیدا کرنا تھا۔ اس مجرمانہ گروہ کے اراکین نے بھی اپنے جرائم کا اعتراف کیا ہے۔ ان دونوں گروہوں نے مزید تخریبی کاروائیوں کے منصوبے بھی بنا رکھے تھے جو الحمد للہ، ان کے نیٹ ورک کے خاتمے سے ناکام بنا دیے گئے۔

https://almirsadur.com/%d8%ae%d9%88%d8%a7%d8%b1%d8%ac-%da%a9%db%8c-%d9%be%db%81%da%86%d8%a7%d9%86-%da%86%da%be%d9%b9%db%8c-%d9%82%d8%b3%d8%b7/ *خوارج کی پہچان | چھٹی قسط* *راشد شفيق* *فرقہ اباضیہ کے عقائد:* یہ ایک قدرتی بات ہے کہ اس طرح کے گروہوں نے کچھ مسائل میں صحیح عقیدے سے انحراف کے مرتکب ہوئے ہیں، کیونکہ وہ اہل سنت والجماعت کے راستے سے ہٹ کر تحریف کی طرف چلے گئے ہیں؛ اسی طرح، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ فقہی مسائل میں کچھ حق باتیں رکھتے ہوں، جیسا کہ عقیدے کے مسائل میں کچھ صحیح اور کچھ غلط آراء رکھتے ہیں۔ پچھلے حصے میں اباضیہ کے بارے میں تحقیق کی گئی تھی کہ وہ خوارج میں سے ایک گروہ ہیں، اب ہم یہاں اباضیہ کے عقائد کے بارے میں مختصر وضاحت پیش کریں گے، کہاں وہ راہ حق سے منحرف ہوئے اور کن مسائل میں متفق ہیں۔ *۱۔ صفات باری تعالیٰ:* اباضیہ اس مسئلے میں دو گروپوں میں تقسیم ہیں؛ پہلا گروہ: یہ گروہ اللہ تعالی کی صفات کو بالکل رد کرتا ہے تاکہ وہ تشبیہ (یعنی اللہ کے مخلوق کے ساتھ مشابہت) سے بچ سکے۔ دوسرا گروہ: یہ گروہ صفات کو ذات کے ساتھ جوڑتا ہے، یعنی وہ کہتے ہیں: اللہ تعالی اپنی ذات کے لحاظ سے عالم، قادر، سمیع اور دوسرے صفات رکھتے ہیں۔ لیکن وہ اللہ تعالی کے لیے "ید" (ہاتھ)، "سمع" (سننا) اور دیگر ثابت شدہ صفات کو بھی نہیں مانتے۔ یہ نظریہ در حقیقت صفات کا انکار ہے، لیکن وہ اسے اس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ مخلوق کے ساتھ مشابہت سے بچا سکیں، اباضیہ کے مشہور عالم الورجلانی نے ان لوگوں کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کیا ہے جو اللہ کی صفات کو ثابت کرتے ہیں اور انہیں بت پرستوں کے مشابہ قرار دیتے ہیں۔ *۲۔ اللہ تعالی کے دیکھنے کا انکار:* اباضیہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی کو نہیں دیکھا جا سکتا، کیونکہ ان کے مطابق یہ عقل کے لحاظ سے ناممکن ہے، اس کے لئے وہ اللہ تعالی کی یہ آیت دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں: > *"لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار" (الأنعام: 103)* اس آیت کی تفسیر انہوں نے معتزلیوں کی طرح کی ہے۔ اسی طرح، وہ یہ آیت بھی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں: > *"قال رب أرني أنظر إليك قال لن تراني ولكن انظر إلى الجبل فإن استقر مكانه فسوف تراني" (الأعراف: 143)* لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ استدلالات غلط ہیں، کیونکہ: "لا تدركه الأبصار" آیت اللہ تعالیٰ کے مکمل طور پر دیکھنے کا انکار نہیں کرتا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی نظر اللہ تعالی کو اس کی حقیقت مکمل طور پر نہیں گھیر سکتی۔ "لن تراني" آیت دنیا میں اللہ تعالی کو دیکھنے کے امکان کو رد کرتی ہے، اور اللہ تعالی نے اس کے لیے یہ شرط رکھی کہ جب تک پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہے، تب ہی اللہ تعالی کو دیکھا جا سکتا ہے، جو خود اس بات کا جواز فراہم کرتا ہے کہ اللہ تعالی کو دیکھنا ممکن ہو سکتا ہے۔ *۳- قرآن کریم کی مخلوقیت کا عقیدہ:* اباضیہ کے کچھ علماء جیسے ابن جميع اور الورجلانی نے فتویٰ دیا کہ جو شخص قرآن کی مخلوقیت کا انکار کرے، وہ اباضیہ کے گروہ میں شامل نہیں ہے۔ تاہم اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے، جیسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ لیکن اباضیہ کے کچھ علماء جیسے ابو النضر العمانی اور صاحب کتاب "الأديان" نے قرآن کی مخلوقیت کے نظریہ کو رد کیا ہے۔ *۴۔ تقدیر کا مسئلہ:* اباضیہ تقدیر (قدر) کے مسئلے میں اہل سنت والجماعت کے ساتھ متفق ہیں۔ *۵۔ عذاب قبر:* اباضیہ اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں: ایک گروہ عذاب قبر کا انکاری ہے، جیسا کہ دیگر خوارج کی طرح، جبکہ دوسرا گروہ قبر کے عذاب کو تسلیم کرتا ہے۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ قبر کا عذاب حقیقت ہے اور اس کا ثبوت قرآن اور حدیث سے ثابت ہے۔ *۶۔ جنت، دوزخ، حوض کوثر اور ملائکہ پر ایمان:* اباضیہ کا عقیدہ ہے کہ جنت اور دوزخ موجود ہیں، قیامت کے دن حوض کوثر کا وجود تسلیم کرتے ہیں، اور ملائکہ اور آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ *۷۔ شفاعت:* اباضیہ شفاعت پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن صرف متقیوں کے لئے، گناہ گار مؤمنوں کے لئے نہیں۔ جبکہ اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنوں کے لئے شفاعت کریں گے، تاکہ ان کو دوزخ میں جانے سے بچایا جا سکے یا دوزخ سے نکالا جا سکے۔ *۸۔ میزان:* اباضیہ قیامت کے دن میزان (ترازو) کو نہیں مانتے، جس کے ذریعے لوگوں کے اعمال تولے جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی صرف لوگوں کے نیتوں اور اعمال کے مابین تفریق کرے گا، وہ حقیقی ترازو پر ایمان نہیں رکھتے، جو کہ قرآن اور حدیث کے صریح نصوص کے مخالف عقیدہ ہے۔ *۹- تقیہ:* اباضیہ، دیگر خوارج کے برعکس، تقیہ کو جائز سمجھتے ہیں۔