
Federal and local information
164 subscribers
About Federal and local information
Designed for notifications from local and federal governments.
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*ہم انسان ہی نہیں ہیں* *جمعرات 6 فروری، 2025* *جاوید چوہدری* *فرحانہ اکرم کی کہانی ثابت کرتی ہے ہم من حیث القوم کس قدر گر چکے ہیں* یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون علی کا تعلق لاہور سے ہے‘ یہ لوگ لاہور ائیرپورٹ کے ذریعے 30 دسمبر 2024کو عمرے کے لیے سعودی عرب گئے‘ ان کے ساتھ خاندان کے لوگ بھی تھے‘ یہ لوگ جدہ ائیرپورٹ پر اترے‘ سامان اٹھایا‘ ائیرپورٹ سے باہر آئے اور مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے‘ عمرہ کیا اور درمیانے سے ہوٹل میں رہائش پذیر ہو گئے‘ ان کا زیادہ وقت حرم شریف میں گزرتا تھا‘ فرحانہ خاتون تیسرے دن حرم سے واپس آئی تو ہوٹل میں پولیس اس کا انتظار کر رہی تھی‘ پولیس نے اسے دیکھتے ہی گرفتار کر لیا‘ اسے بتایا گیا ائیرپورٹ پر آپ کا بیگ رہ گیا تھا‘ اس میں سے منشیات نکل آئی ہیں لہٰذا آپ کو منشیات اسمگلنگ کے جرم میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ یہ خبر خاتون کے لیے قیامت سے کم نہیں تھی‘ سعودی عرب میں منشیات فروشی اور اسمگلنگ میں سزائے موت دے دی جاتی ہے‘ کیس کا فیصلہ بہت اسپیڈ سے ہوتا ہے اور اس کے بعد مجرم کو چوک میں بٹھا کر اس کی گردن کاٹ دی جاتی ہے‘ خاتون نے یہ خبریں سن رکھی تھیں چناں چہ اس کا دل بیٹھ گیا‘ خاندان کے دوسرے افراد بھی گرفتار کر لیے گئے اور انھیں حوالات میں بند کر دیا گیا‘ تفتیش شروع ہوئی تو خاتون کے سامنے ایک بیگ رکھا گیا‘ بیگ پر خاتون کے نام کا ٹیگ لگا تھا‘ خاتون سے پوچھا گیا ’’کیا یہ آپ کا بیگ ہے؟‘‘ خاتون نے فوراً انکار کر دیا‘ اس کا کہنا تھا ہم نے چھ بیگ بک کرائے تھے اور ہم نے جدہ میں یہ سارے وصول کر لیے تھے۔ ہمارا کوئی ساتواں بیگ نہیں تھا‘ خاتون سے پوچھا گیا ’’پھر اس بیگ پر آپ کا ٹیگ کیوں ہے؟‘‘ خاتون کا جواب تھا ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی‘‘ وہ تھوڑا سا رکی اور پھر سوچ کر بولی ’’ہم نے جب جدہ ائیرپورٹ سے اپنے بیگ لیے تھے تو میرے ایک بیگ پر ٹیگ نہیں تھا‘ میں نے اپنا بیگ پہچان کر بیلٹ سے اٹھا لیا تھا اور اسے بھی دوسرے بیگز کے ساتھ مکہ لے آئی تھی‘ تفتیشی نے خاتون کے بیان کی تصدیق کرائی تو یہ صحیح نکلی‘ اس کے پاس واقعی چھ بیگ تھے‘ ائیر لائین نے بھی ان کے صرف چھ بیگ بک کیے تھے اور ان بیگز پر بکنگ سٹکرز بھی موجود تھے‘ جدہ ائیرپورٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی بیان کی تصدیق ہو گئی لہٰذا کیس الجھ گیا‘ سعودی عرب اور پاکستان کی اینٹی نارکوٹیکس فورس کے درمیان رابطہ ہوا اور سعودی اے این ایف نے پاکستانی اے این ایف کو لکھ دیا‘ اب یہاں سے خاتون کی لک اسٹارٹ ہوتی ہے. یہ لوگ دین دار اور پرہیز گار ہیں‘ خاتون نے رو رو کر اللہ سے مدد مانگنی شروع کر دی‘ اللہ نے مہربانی کی اور اسے پہلے سعودی عرب میں اچھی تفتیشی ٹیم مل گئی‘ اس ٹیم نے اس کے بیان کی باقاعدہ تصدیق کرائی اور اس دن کی ائیرپورٹ کی فوٹیج بھی دیکھی‘ ائیرپورٹ کے کیمروں میں اس کے تمام بیگ بھی آ گئے اور کیمرے میں یہ بھی نظر آ گیا خاتون نے منشیات کے بیگ کی طرف دیکھا اور نہ اسے پہچاننے کی کوشش کی تھی جب کہ وہ اس کے سامنے بیلٹ پر چل رہا تھا‘ پاکستان میں بھی اسے اچھی ٹیم مل گئی‘ پاکستانی ٹیم نے بھی سر درد لیا‘ یہ بھی لاہور ائیرپورٹ گئی اور 30 دسمبر کی ساری فوٹیج نکلوا لی‘ خاتون کا نصیب اچھا تھا‘ اس دن ائیرپورٹ کے سارے کیمرے کام کر رہے تھے اور ان کیمروں میں خاتون‘ ان کی فیملی اور تمام بیگ ریکارڈ ہو گئے تھے‘ فوٹیج بار بار دیکھی گئی تو پتا چلا خاتون سچ کہہ رہی ہے۔ اس کے پاس واقعی چھ بیگ تھے اور منشیات کا بیگ انھوں نے بک کرایا تھا اور نہ ائیرلائین نے بک کیا تھا‘ اب سوال پیدا ہو گیا یہ بیگ پھر کہاں سے آ گیا‘ اسے کس نے بک کیا اور اس پر خاتون کا ٹیگ کیسے لگ گیا؟ ان سوالوں کے جوابوں کی تلاش کے لیے جب لاہور ائیرپورٹ کی مزید فوٹیجز دیکھی گئیں تو ملزم سامنے آ گیا‘ پتا چلا بیگز جب بکنگ کے بعد جہاز کی طرف لے جائے جا رہے تھے اس وقت ائیرپورٹ کے ایک پورٹر نے خاتون کے بیگ کا ٹیگ اتارا اور اپنے پاس موجود بیگ پر وہ ٹیگ لگا کر اسے جہاز کے سامان کے خانے میں رکھوا دیا‘ اے این ایف نے پورٹر کی شناخت کی اور اسے گرفتار کر لیا‘ وہ مکر گیا لیکن جب اسے فوٹیج دکھائی گئی تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ مزید تفتیش ہوئی تو پتا چلا یہ ایک منظم گروہ ہے جو اسی طرح دوسرے مسافروں کے ٹیگز اتار کر منشیات کے بیگز پر لگا دیتا ہے یوں یہ بیگ سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں۔ مسافر اسے اپنا سمجھ کر جدہ ائیرپورٹ سے باہر لے جاتے ہیں اگر اس دوران بیگ پکڑا جائے تو بے گناہ اور معصوم مسافر گرفتار ہو جاتا ہے اور اگر خوش قسمتی سے مسافر بیگ لے کر باہر آ جائے تو یہ لوگ کوریڈورز یا ٹیکسی اسٹینڈ پہنچ کر مسافر کو روکتے ہیں‘ ان سے معذرت کرتے ہیں اور پھر اسے بتاتے ہیں آپ غلطی سے ہمارا بیگ اٹھا لائے ہیں‘ مسافر فوراً مان جاتا ہے اور ان کا بیگ ان کے حوالے کر دیتا ہے اور یوں منشیات سعودی عرب پہنچ جاتی ہیں‘ بہرحال قصہ مختصر پورٹر کی نشان دہی پر 9 اسمگلر گرفتار ہو گئے‘ انھوں نے جرم کا اعتراف بھی کر لیا جس کے بعد رپورٹ‘ فوٹیجز اور مجرموں کا اعترافی بیان مکہ مکرمہ بھجوا دیا گیا جس کے بعد سعودی حکومت نے فرحانہ اکرم اور اس کے خاندان کے لوگوں کو رہا کر دیا لیکن مہینے بھر کی جیل میں خاندان نے جس مشکل میں وقت گزارہ اس کا اندازہ صرف یہی لوگ کر سکتے ہیں‘ آپ خود سوچیے آپ ایک عام لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہوں۔ جیسے تیسے پیسے جمع کر کے عمرے پر گئے ہوں‘ آپ کا زیادہ وقت حرم شریف میں عبادت میں گزرتا ہو اور پھر آپ کو ایک ایسے گھناؤنے جرم میں گرفتار کر لیا جائے جس کی سزا موت ہو تو پھر آپ کی کیا صورت حال ہو گی؟ فرحانہ اکرم اور اس کے خاندان کے لوگ بھی پورے مہینے اسی اذیت اور مشکل کا شکار رہے‘ اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آ گیا اور یہ لوگ صرف مہینہ بھر کی خواری کے بعد رہا ہو گئے‘ آپ ذرا سوچیے اگر خدانخواستہ اس دن جدہ ائیرپورٹ کا ایک آدھ کیمرہ خراب ہو جاتا یا لاہور ائیرپورٹ کی فوٹیج ضایع ہو جاتی یا کیمرے جواب دے جاتے یا ان لوگوں کو سعودی عرب اور پاکستان میں کوئی سست ٹیم ٹکر جاتی اور یہ لوگ تفتیش اور تصدیق پر وقت ضایع نہ کرتے تو ان لوگوں کا کیا بنتا!یہ اس وقت کہاں ہوتے؟ فرحانہ اکرم کی کہانی ثابت کرتی ہے ہم من حیث القوم کس قدر گر چکے ہیں‘ ہمارے دل میں اس سرزمین کا احترام بھی نہیں رہا جس کی طرف منہ کر کے ہم نماز پڑھتے ہیں یا جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے‘ ہمارے لوگ کس قدر ظالم اور غلیظ ہیں آپ یہ جاننے کے لیے کسی دن سعودی حکومت سے پوچھ لیجیے‘ آپ کو خود سے گھن آنے لگے گی‘ پاکستانی یا پاکستانی بھیس میں چھپے درندے احرام‘ قرآن مجید‘ جائے نماز اور حج کی چپلوں میں منشیات چھپا کر سعودی عرب لے جاتے ہیں‘ خواتین منشیات کو جسم کے ان حصوں میں چھپا کر حجاز مقدس پہنچ جاتی ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور یہ کام حج اور عمرے کی آڑ میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں بے شمار ایسے گروہ پکڑے گئے ہیں جو غریب اور مسکین لوگوں کو مفت عمرہ یا حج کی آفر کرتے ہیں‘ لوگ خوش ہو کر ان کے رزق اور عمر میں اضافے کی دعائیں کرتے ہیں لیکن جب یہ لوگ جدہ اترتے ہیں تو انھیں اس وقت پتا چلتا ہے ان کے مہربان سخی نے ان کے بیگ میں ہیروئن یا آئس چھپا دی تھی‘ یہ ظالم لوگ بزرگ عورتوں اور معصوم چھوٹے بچوں کے جسم تک میں منشیات چھپا کر سعودی عرب پہنچا دیتے ہیں‘ یہ بے گناہ لوگ بعدازاں پکڑے جاتے ہیں اور پھر ان کے سر اتار دیے جاتے ہیں‘ سعودی عرب‘ یو اے ای اور ایران میں ہر سال پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں بھکاری بھی جاتے ہیں اور یہ وہاں مانگ مانگ کر ملک کا نام روشن کرتے ہیں‘ یہ بھکاری جاتے ہیں۔ چھ ماہ کا سیزن لگاتے ہیں‘ پاکستان واپس آتے ہیں‘ عیاشی کرتے ہیں اور احرام باندھ کر دوبارہ سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں اور پھر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں لوگوں کی عقیدت سے کھیل کر مال سمیٹتے ہیں‘ ہم یو اے ای‘ عراق اور ایران میں بھی یہ گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں اور ہمیں ذرا برابر ملال یا شرمندگی نہیں ہوتی‘ اس وقت بھی ان چاروں ملکوں کی جیلوں میں ہزاروں پاکستانی قید ہیں اور یہ وہاں کی حکومتوں کو بتا رہے ہیں ہم کس قدر غیرت مند اور شان دار قوم ہیں‘ ہم اکثر دنیا سے شکوہ کرتے ہیں دنیا ہماری عزت نہیں کرتی‘ دنیا کیوں عزت کرے گی جب یونان یا اٹلی میں کشتی ڈوبے گی اور اس میں پاکستانی نکلیں گے‘ دنیا کے ہر ائیرپورٹ پر پاکستانی پاسپورٹس پر جعلی ویزے ملیں گے‘ ہم جب بچے اغواء کر کے ملک سے باہر بیچ دیں گے‘ جعلی نکاح ناموں پر امیگریشن اپلائی کر دیں گے۔ یورپ میں اپنی بیٹیوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں ڈسٹ بینوں میں پھینک دیں گے‘ ہمارے پائلٹس اور ائیرہوسٹسز اسمگلنگ کرتے پکڑی جائیں گی یا کینیڈا میں غائب ہو جائیں گی یا باہر سے موبائل فون اسمگل کر کے لے آئیں گی اور جب لوگ سرکاری پاسپورٹ پر دوسرے ملکوں میں لینڈ کر کے غائب ہو جائیں گے تو پھر ہماری کیا عزت ہو گی؟ ہم روز اخبارات میں ائیرپورٹ سے ہیومین اسمگلر‘ جعلی ویزہ ہولڈر اور مسافر کے بیگ سے منشیات نکلنے کی خبریں پڑھتے ہیں‘ یہ خبریں دوسرے ملکوں میں بھی پڑھی جاتی ہیں‘ جب صورت حال یہ ہو گی تو پھر عزت کہاں سے آئے گی؟ آپ خود سوچیے جو لوگ عمرہ اور زیارت کو نہیں بخش رہے‘ جو اسے بھی اسمگلنگ اور ڈنکی کے لیے استعمال کر رہے ہیں‘ جو حرم شریف میں کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر بھیک مانگ لیتے ہیں یا جو دوسرے حاجی کی جیب کاٹ لیتے ہیں‘ کیا آپ ان کی عزت کریں گے؟ مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے ہم مسلمان تو دور ہم دراصل انسان ہی نہیں ہیں۔ ## Javed Chaudhary

ضلع ساہیوال میں 9 فروری تک دفعہ 144 نافذ، ## Government of Punjab Province, Pakistan The notification has been issued below.

سعودی عرب نے عمرہ زائرین پر گردن توڑ بخار کی لازم ویکسینیشن کو معطل کر دیا ## Saudi Arabia

پنجاب حکومت کا رمضان بازار یا راشن پیکج کی بجائے نقد رقم دینے کا فیصلہ صوبے بھر میں مستحق خاندانوں میں 30 ارب روپے تقسیم کیے جائیں گے مستحق خاندان کو رمضان پیکیج کی مد میں گھر کی دہلیز پر 10 ہزار روپے فراہم کئے جائیں گے بینک اف پنجاب فی خاندان پے آرڈر پاکستان پوسٹ کے ذریعے گھر گھر تقسیم کرے گا پے آرڈر ملنے کے بعد فی خاندان بینک میں جمع کروا کر رقم وصول کرے گا کیش وصول کرنے کے لئے شناختی کارڈ اور بائیو میٹرک کروانا لازم ہو گا ## Punjab province of Pakistan

5 فروری یوم کشمیر کل ملک بھر میں عام تعطیل ہوگی، Federal Government of Pakistan The notification has been issued below.

موٹرسائیکل ڈبل سواروں کے لیے ہیلمٹ لازم قرار موٹرسائیکل کا دوسرا سوار مرد ہو یا عورت، ہیلمٹ لازمی پہننا ہوگا ## Punjab province of Pakistan

*تیسرے درویش کا قصہ* *اتوار 2 فروری، 2025* *جاوید چوہدری* *کھانا آپ جیسے لوگ دے دیتے ہیں‘ کپڑے کزن بھجوا دیتا ہے* تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا اور لرزتی ہوئی آواز میں بولا ’’بھائیو میری کہانی آپ سب سے مختلف ہے‘ میں خاندانی رئیس تھا‘ اﷲ تعالیٰ نے میرے خاندان کو دولت‘ جائیداد اور عزت سے نواز رکھا تھا‘ ہم مخدوم تھے‘ ہماری اپنی گدی تھی‘ میں اپنے خاندان کی واحد نرینہ اولاد تھا‘ اﷲ تعالیٰ نے میرے والد کو پانچ بیٹیوں کے بعد اولاد نرینہ سے نوازا تھا۔ چناں چہ میری پرورش نازونعم میں ہوئی‘ بچپن میں ہی میرے پاس سب کچھ تھا‘ میں گاڑی پر اسکول جاتا تھا اور جتنی دیر اسکول رہتا تھا ہمارا ڈرائیور گاڑی سمیت اسکول کے باہر کھڑا رہتا تھا‘ وہ ہر کلاس کے بعد مجھے پانی‘شربت اور کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز کھلاتا تھا‘ میرا بیگ بھی وہی اٹھاتا تھا‘ اسپورٹس کے ٹائم مجھے شوز بھی وہی پہناتا تھا اور اس دوران اگر کسی سے میرا جھگڑا ہو جاتا تھا تو وہ میری حفاظت بھی کرتا تھا اور دوسرے بچے کی ٹھکائی بھی۔ میرے پاس بچپن میں درجنوں جوتے‘ کپڑے‘ کھلونے‘ اسپورٹس کا سامان اور رقم ہوتی تھی‘ میرے کلاس فیلوز کے والدین نے ان کے لیے ٹیوٹر رکھے ہوئے تھے جب کہ میرے والد نے میرے لیے ٹیوٹر کے ساتھ ساتھ ہیلپر بھی رکھے تھے‘ یہ پیپرز کے دوران ہال میں بیٹھ کر میری امتحان میں مدد کرتے تھے‘ مدد بھی بس نام کی تھی‘ یہ میرا پورا پیپر لکھ دیتے تھے۔ والد بورڈ کوپیسے کھلا کر اپنی مرضی کے ایگزامینر کا بندوبست کر دیتے تھے اور وہ پیپرز کے دوران مجھے میرے ہیلپرز کے ساتھ دوسرے کمرے میں بٹھا دیتے تھے‘ میں پیپر کے دوران سویا رہتا تھا اور میرا ہیلپر میرا پرچہ تیار کر دیتا تھا‘ اس ہیلپ کی وجہ سے میں ہر امتحان میں اول آتا تھا لیکن عملی طور پر میرا علم صفر تھا۔ میں انگریزی تو دور اردو بھی نہیں لکھ سکتا تھا‘ فزکس‘ کیمسٹری اور میتھ کیا چیز تھی میں ان کے اسپیلنگز سے بھی واقف نہیں تھا‘ میں نے نو سال کی عمر میں گاڑی چلانا شروع کر دی‘ ڈرائیور کو ساتھ بٹھاتا تھا اور اپنی مرسڈیز کار گلیوں میں گھماتا رہتا تھا‘ میں نے اس زمانے میں کتنے لوگوں کا نقصان کیا مجھے یاد نہیں‘ میں دوسروں کی گاڑیاں ٹھوکتا تھا‘ کسی کی ریڑھی اور کسی کی دیوار گراتا تھا اور میرا والد ان کا نقصان پورا کرتا تھا‘ وہ مجھے کبھی کبھی سمجھانے کی کوشش بھی کرتا تھا لیکن میری ماں اور بہنیں میری طرف داری کرتی تھیں‘ وہ مجھے اپنے پلو میں چھپالیتی تھیں تیسرا درویش رکا‘ لمبا سانس لیا اور اپنے میلے مفلر سے اپنی میلی آنکھیں صاف کیں‘ وہ دیر تک سرد آہیں بھرتا رہا‘ اس کی طبیعت ذرا سی سنبھلی تو وہ دوبارہ گویا ہوا ’’میری پرورش اس ماحول میں ہوئی تھی‘ میں نے ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ سگریٹ بھی پینا شروع کر دیے‘ ہمارے ملازم اور مرید مجھے سگریٹ پیتا دیکھ کر میری حوصلہ افزائی کرتے تھے اور کہتے تھے‘ واہ شاہ جی واہ آپ تو جوان ہو گئے ہیں اور میں اپنی دس انچ کی چھاتی پھلا کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ میں سگریٹ سے چرس پر کیسے آیا اور چرس سے شراب پر کیسے گیا مجھے پتا بھی نہ چلا‘ میں نے اس کے بعد عورتوں کی گود میں کب چھلانگ لگائی‘ مجھے اس کا بھی اندازہ نہ ہوا‘ بس مجھے اتنا یاد ہے میں دوپہر دو بجے اٹھتا تھا‘ نہا دھو کر تیار ہو کر نکلتا تھا‘ میرے ساتھ دس بیس فقرے ہوتے تھے‘ ہم طوائف خانوں میں جاتے تھے‘ ساری رات شراب پیتے تھے‘ گانا سنتے تھے اور طوائفوں کے پاؤں میں لاکھوں روپے بکھیر دیتے تھے۔ میں جب پچھلے پہر بے ہوش ہو جاتا تھا تو میرے دوست اور میرے ملازم مجھے اٹھا کر حویلی لاتے تھے اور مجھے میرے بیڈ پر ڈال کر چلے جاتے تھے اور میری آنکھ اگلے دن دو بجے کھلتی تھی اور بعض اوقات یہ بھی ہو جاتا تھا میں تین تین دن سویا رہتا تھا اور جب آنکھ کھلتی تھی تو اپنی والدہ اور بہنوں کو اپنے سرہانے قرآن پڑھتے اور روتے دیکھتا تھا‘ میرے والد نے مجھے سمجھانے اور روکنے کی بہت کوشش کی لیکن میں اصلاح سے بہت آگے نکل گیا تھا‘ مجھے ان کی باتیں سمجھ ہی نہیں آتی تھیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا آخر مجھ میں کسی چیز کی کمی ہے‘ میں آخر کیا جرم‘ کیا گناہ کر رہا ہوں؟ بہرحال قصہ مختصر میرے والد میری حالت دیکھ کر کڑھ کڑھ کر فوت ہو گئے‘ آپ یقین کریں میں نے والد کو دفن کرتے وقت شکر ادا کیا‘ مجھے روکنے ٹوکنے والا دنیا سے چلا گیا‘ وہ خواہ مخواہ کا سیاپا تھا‘‘ تیسرا درویش رکا اور اس کے بعد دھاڑیں مار مار کر رونے لگا‘ ہم سب اسے تسلی دینے لگے لیکن اس کی آنکھیں اس وقت دریا بن چکی تھیں‘ ماحول سوگوار ہو گیا۔ وہ دیر تک روتا رہا‘ طبیعت ذرا سی سنبھلی تو وہ دوبارہ بولا ’’میرا والد گھر کا دروازہ تھے‘ وہ گئے تو میں نے اپنا ہی گھر لوٹ لیا‘ جائیدادیں نیلام ہو گئیں‘ بینک بیلنس ختم ہو گئے اور گاڑیاں بک گئیں‘ میرا والد میری بہنوں کی شادیاں کرا گیا تھا‘ وہ اپنے اپنے گھروں میں آباد تھیں لیکن ان کی وراثت میرے قبضے میں تھی‘ میں نے وہ بھی پھونک دی۔ رہی سہی کسر شادی نے پوری کر دی‘ میں نے ایک طوائف سے شادی کر لی‘ جب اس کے کنجر بھائی اور سازندے ہمارے گھر میں آباد ہوئے تو میری تہجد گزار ماں بھی صدمے سے مر گئی‘ میرے راستے کا دوسرا کانٹا بھی نکل گیا اور اس کے بعد میری دولت کوپر لگ گئے‘ وہ ریلوے ٹریک کے ساتھ اڑتے کاغذوں کی طرح اڑنے لگی‘ مجھے اس کی پرواہ ہی نہیں تھی‘ اﷲ نے مجھ دیا ہی بہت کچھ تھا‘ میرے لچھن دیکھ کر میرے کزنز نے مجھے گدی سے بے دخل کر دیا۔ مجھے اس کی پرواہ بھی نہیں تھی‘ میں ہر سال محرم اور شب برات پر اپنے بزرگ کی قبر دھو دھو کر اکتا گیا تھا چناں چہ میں نے اس پر بھی شکر ادا کیا‘ بہرحال قصہ مختصر جب میری آنکھ کھلی تو میں پرانے لاہور کی ایک گندی نالی میں آڑھا ترچھا پڑا تھا اور پوری دنیا میں میرا کوئی ٹھکانہ‘ کوئی آسرا نہیں تھا‘ بہنوں اور بہنوئیوں نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا تھا‘ شراب نوشی‘ چرس اور کوکین کی وجہ سے پورے جسم کا کوئی عضو سلامت نہیں تھا۔ اس دن مجھے کھانا کھانے کے لیے امام ضامن کھول کر چاندی کا سکہ بیچنا پڑا اور اس کے بعد دنیا تھی‘ اس کے دھکے تھے اور میں تھا‘ وہ لوگ جو دن رات میرے در پر پڑے رہتے تھے‘ جو میرا جوٹھا کھاتے اور چھوڑا ہوا پیتے تھے وہ سب منہ موڑ کر جا چکے تھے‘ میری بیوی میری دونوں بیٹیاں لے کر بھاگ گئی تھی‘ میری بیٹیاں کہاں تھیں میں نہیں جانتا‘ میرا خیال ہے ان کی طوائف ماں اب تک انھیں بھی بیچ چکی ہو گی‘ میرا گاؤں‘ میری جاگیر اور میری گدی میرے لیے اجنبی ہو چکی تھی‘ اس طرف جانے والے سارے راستے بند ہو چکے تھے‘‘ وہ رکا اور ایک بار پھر دھاڑیں مار کر رونے لگا‘ کمرے میں ایک بار پھر سناٹا ہو گیا۔ ہمارے درمیان سے صدیاں سرک گئیں‘ وہ بڑی مشکل سے بولنے کے قابل ہوا اور پھر دوبارہ گویا ہوا ’’صاحبو آپ یقین کریں خوش حالی‘ دولت اور عزت اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں آزادی اور صحت کا بھی کوئی نعم البدل نہیں ہوتا لیکن اگر آپ خوش حالی کے بعد غریب ہو جائیں‘ آپ کی سلطنت‘ آپ کی جائیداد اگر ایک بار آپ کے ہاتھ سے نکل جائے تو دنیا میں اس سے بڑا کوئی دکھ نہیں ہوتا۔ آپ جب ان لوگوں کی نظریں بدلتے دیکھتے ہیں جنھیں آپ نے ہمیشہ اپنے جوتے اٹھاتے دیکھا ہو تو آپ کا دل چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کٹ جاتا ہے‘ ایک وقت تھا جب میرے دستر خوان پر روزانہ دو دو سو لوگ کھانا کھاتے تھے‘ میں طوائفوں کو نوٹوں کے ڈھیر میں دفن کر دیتا تھا‘ مجھے پیسوں کی ضرورت پڑتی تھی تو میں اپنے منیجر کو فون کرتا تھا اور وہ دو چار بیگے زمین بیچ کر مجھے نوٹوں کا بکسہ پہنچا دیتا تھا اور پھر ایک ایسا وقت آیا جب میں سو روپے کے نوٹ کو ترس گیا‘ میرا ایک کزن درد دل رکھتا ہے‘ وہ اب مجھے ہر ماہ بیس ہزار روپے بھجوا دیتا ہے اور میں ان میں گزارہ کرتا ہوں۔ کھانا آپ جیسے لوگ دے دیتے ہیں‘ کپڑے کزن بھجوا دیتا ہے‘ ایک کھولی میں رہ رہا ہوں جس میں باتھ روم بھی نہیں ‘ مسجد میں جا کر نہاتا ہوں اور اپنے رب سے معافی مانگتا ہوں‘‘ وہ رکا اور لمبا سانس لے کر بولا ’’اﷲ تعالیٰ بہت کم لوگوں کو بادشاہ بناتا ہے‘ اس کا مالی فضل بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے‘ وہ لوگ بہت احمق ہوتے ہیں جو اس کے فضل کو ٹھکرا دیتے ہیں‘ تکبر کرتے ہیں اور اس کا مال ضایع کرتے ہیں۔ یہ لوگ خسارے میں رہتے ہیں در در بھیک مانگتے ہیں لہٰذا میرا انجام دیکھو اور توبہ کرو‘ اﷲ تعالیٰ نے اگر آپ کو خوش حال بنایا ہے‘ آپ پر اپنے فضل کے دروازے کھولے ہیں تو کبھی کفرانِ نعمت نہ کریں‘ اﷲ کا شکر کریں اور اس کی نعمت اس کے فضل کی حفاظت کریں اور میں وہ بدنصیب ہوں جس نے اپنی سلطنت اپنے ہاتھوں سے جلا دی‘ میں نے خود کو خود ہی برباد کر دیا‘‘ وہ خاموش ہوگیا۔ ہم سب نے چوتھے درویش کی طرف دیکھنا شروع کر دیا‘ وہ سیدھا ہوا‘لمبی سانس لی اور بولا ’’صاحبو! میری کہانی تم سب سے مختلف ہے‘‘۔ ## Javed Chaudhary

*رانگ ٹرن* *منگل 4 فروری، 2025* *جاوید چوہدری* *زندگی گزارنے کا شان دار طریقہ صراط مستقیم ہے اور انسان کو کوشش کرنی چاہیے یہ کسی قیمت پر اس راستے سے نہ ہٹے* رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003 میں آئی اور اس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا‘ فلم کی اسٹوری ایلن بی میکلوری (Alan B. McElroy) نے لکھی اور روب شمٹ (Rob Schmidt) نے اسے ڈائریکٹ کیا تھا‘ فلم اتنی مشہور ہو گئی کہ پروڈیوسر 2007میں اس کا پارٹ ٹو لے آیا اور اس کے بعد لائین لگ گئی‘ 2009میں پارٹ تھری آیا‘ 2011 میں پارٹ فور‘ 2012 میں پارٹ فائیو‘ 2014 میں پارٹ سکس اور 2021 میں پارٹ سیون اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ رانگ ٹرن کی کہانی بہت سادی ہے‘ دنیا میں ہمارے دائیں بائیں موت کی بے شمار وادیاں ہیں جن میں ایک سے بڑھ کر ایک خوف ناک عذاب انسانوں کا انتظار کر رہا ہے‘ ہم زندگی میں معمول کا سفر کرتے کرتے ایک رانگ ٹرن لیتے ہیں اور پھر موت کی ان وادیوں میں جا گرتے ہیں جن سے نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس فلم کے کرداروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے‘ یہ رانگ ٹرن لیتے ہیں اور اس کے بعد عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں‘ میں نے 2005 میں پہلی بار یہ فلم دیکھی تھی اور یہ سبق سیکھا تھا زندگی گزارنے کا شان دار طریقہ صراط مستقیم ہے اور انسان کو کوشش کرنی چاہیے یہ کسی قیمت پر اس راستے سے نہ ہٹے کیوں کہ کوئی ایک رانگ ٹرن اسے کسی ایسے مقام پر لے جائے گا جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔ ہماری قومی زندگی میں بھی 2014میں ایک رانگ ٹرن آیا تھا اور یہ رانگ ٹرن ملک کو ایک ایسی دلدل میں لے آیا جس سے نکلتے نکلتے ہم مزید دھنستے چلے جا رہے ہیں‘ ریاست ایک قدم اٹھاتی ہے اور اس کے بعد بڑے فخر سے دعویٰ کرتی ہے ہم اور ملک بحران سے نکل آئے ہیں لیکن اگلے دن معلوم ہوتا ہے وہ قدم ہمیں منزل سے مزید کئی کلومیٹر دور لے جا چکا ہے۔ ہمیں آج ماننا ہوگا 2014ہماری قومی زندگی کا منحوس ترین سال تھا‘ اس کی نحوست دس سال گزرنے کے بعد بھی آج تک قائم ہے اور سردست اس کے ٹلنے کے آثار نظر نہیں آ رہے اور اس کا سب سے بڑا وکٹم پاکستان ہے‘ یہ ملک روز بروز ڈوبتا چلا جا رہا ہے‘ میں عمران خان کا فین تھا اور میں آج بھی اس کا فین ہوں‘ اس شخص نے جیل کاٹ کر سب کے دعوؤں پر پانی پھیر دیا۔ یہ بیانیہ بنانے کا بھی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ماہر ہے‘ یہ ون مین آرمی بھی ہے‘ یہ اکیلا پوری پارٹی ہے اور لوگ اس سے بے تحاشا محبت بھی کرتے ہیں‘ ہمیں اس کی یہ خوبیاں بہرحال ماننا ہوں گی لیکن اس کی دو خامیوں نے اس اور ملک دونوں کا جنازہ نکال دیا اور وہ دو خامیاں ہیں بے تحاشا ضد اور انتہائی بری ٹیم۔ یہ وہ دو خامیاں ہیں جنھوں نے بانی کے ساتھ ساتھ ملک کا انجر پنجر بھی ہلا دیا‘ آپ خان کی ضد کا کمال دیکھیے‘ یہ اس ریاست کے ساتھ لڑ رہاہے جو اگر یہ جنگ ہار جاتی ہے تو پھر یہ اس قابل نہیں رہے گی جس پر عمران خان حکومت کر سکے‘ یہ ملک اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اگر یہ ختم ہو گئی تو پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا لیکن خان اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کر رہا۔ دوسرا آپ دنیا جہاں کے شان دار لوگ اس کے سامنے کھڑے کر دیں لیکن یہ ان سب کو چیر کر سیدھا کسی عثمان بزدار یا محمود خان پر گرے گا اور پھر اپنی ساری توانائیاں اسے وسیم اکرم پلس بنانے میں صرف کر دے گا۔ لیکن جس طرح خواجہ سرا صاحب اولاد نہیں ہو سکتے بالکل اسی طرح عثمان بزدار آخر میں عثمان بزدار اور محمود خان محمود خان ہی رہتے ہیں مگر آج ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا یہ دونوں خامیاں ہماری اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہیں یعنی انتہائی ضد اور بری ٹیم کی سلیکشن۔ مثلاً میاں نواز شریف 2014 میں ٹھیک کام کر رہے تھے‘ حکومت نے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا شروع کر دیا تھا اور سی پیک کے ذریعے معاشی ری وائیول بھی ہو رہا تھا لیکن چند لوگوں کی ضد آڑے آئی اور انھوں نے چلتے ہوئے ملک کو ’’رانگ ٹرن‘‘ کی طرف دھکیل دیااور خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ ان کا دعویٰ تھا دس لاکھ لوگ لاہور سے نکلیں گے جن میں لاکھ موٹر سائیکل ہوں گے لیکن یہ دعویٰ بری طرح ناکام ہوا‘ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے باوجود لاہور سے دس ہزار لوگ بھی نہیں نکلے اور وہ بھی گوجرانوالہ تک پہنچتے پہنچتے تحلیل ہو گئے۔ اسٹیبلشمنٹ اگر اس وقت خان صاحب کی مینجمنٹ سکل اور ٹیم میکنگ کی صلاحیت کا اندازہ کر لیتی تو آج شاید صورت حال مختلف ہوتی لیکن جب انسان کی مت ماری جاتی ہے تو پھر اسے سامنے پڑی چیزیں بھی دکھائی نہیں دیتیں لہٰذا ہمارے بھائی لوگ اسے خان کی ناتجربہ کاری اور سادگی سمجھ بیٹھے۔ خان نے بعدازاں اسلام آباد میں 126 دن دھرنا دیا‘ اس دھرنے کے کھانے تک کا بندوبست جنرل ظہیر الاسلام کرتے تھے‘ دھرنے کے لیے بجلی کا انتظام بھی آبپارہ سے ہوتا تھا‘ اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت بھی اندازہ نہیں ہوا جو شخص یہ چھوٹا سا ٹاسک پورا نہیں کر سکتا وہ کل اگر وزیراعظم بن گیا تو اس کے کپڑے تک ہمیں ڈرائی کلین کرنا پڑیں گے‘ ہم پہلے اسے کرسی پر بٹھائیں گے پھر اس کرسی کی حفاظت کریں گے پھر حکومت چلائیں گے اور آخر میں اس سے بے عزتی بھی کرائیں گے چناں چہ اسٹیبلشمنٹ کی خان کو وزیراعظم بنانے کی ضد نے ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔ پنجابی کا بڑا شان دار محاورہ ہے‘ نانی کی شادی کرائی برا کیا اور شادی کے بعد نانی کی طلاق کرا دی یہ اس سے بھی برا کیا‘ خان کو زبردستی وزیراعظم بنوانے کی کوشش نانی کا نکاح تھا‘ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا‘ اسٹیبلشمنٹ خان کو ابھی میچور ہونے دیتی‘ یہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہتا اور 2018میں نہ سہی تو 2024 میں وزیراعظم بن جاتا‘ اس دوران یہ کم از کم تجربہ کار تو ہو جاتا۔ کے پی میں اس کی حکومت بھی اسے بہت کچھ سمجھا دیتی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جلد بازی اور ضد ’’رانگ ٹرن‘‘ ثابت ہوئی ‘ چلیں اگر ہم نے یہ رانگ ٹرن لے لیا تھا تو پھر ہم نانی کی طلاق تو نہ کراتے‘ خان 2022 میں غیرمقبول ہو چکا تھا اور اس کی حکومت اپنے بوجھ تلے دب رہی تھی‘ آپ نے جنرل فیض حمید کا سہارا کھینچ لیا تھا‘ یہ کافی تھا‘ خان کی حکومت اس کے بعد چند ماہ کا کھیل تھی‘ آپ یہ ہونے دیتے۔ لیکن اس وقت دوبارہ ضد کا مظاہرہ ہوا جس کے نتیجے میں سیاسی طور پر مردہ خان دیو بنتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ آج کسی کے قابو میں نہیں آ رہا‘ نانی کے نکاح کے بعد کی صورت حال نکاح سے پہلے کی صورت حال سے زیادہ افسوس ناک ثابت ہوئی‘ ریاست اب ایک سوراخ بند کرتی ہے تو پہلے سے بڑا سوراخ پیدا ہو جاتا ہے اور جب اسے بند کر دیا جاتا ہے تو چند فٹ کے فاصلے پر اس سے بھی بڑا سوراخ ہو جاتا ہے۔ آپ عدلیہ کے تازہ ترین ایشو کو لے لیجیے‘حکومت اور ریاست نے مل کر بڑی مشکل سے دن رات ایک کر کے 26ویں آئینی ترمیم پاس کرائی‘ اس کا مقصد سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا اور جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا‘ یہ سوراخ بند ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ مزید آؤٹ آف کنٹرول ہو گئی چناں چہ حکومت نے پہلے دو ایڈہاک ججز تعینات کر دیے جس کے بعد ججز کی تعداد دس ہو گئی۔ حکومت کا خیال تھا ہائی کورٹ میں اب بیلنس آ جائے گا لیکن یہ خام خیالی ثابت ہوئی چناں چہ پھر حکومت تین ہائی کورٹس سے تین ججز اسلام آباد لانے پر مجبور ہو گئی‘ جسٹس سرفراز ڈوگر کو لاہور‘ جسٹس خادم حسین سومرو کو سندھ اور جسٹس محمد آصف کو بلوچستان ہائی کورٹ سے لایا گیا‘ یہ تینوں ججز اسلام آباد آ چکے ہیں اور انھوں نے ہائی کورٹ میں کام بھی شروع کر دیا ہے۔ دوسری طرف وکلاء نے ہڑتالیں شروع کر دی ہیں اور ان ججوں کی عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے‘ آپ دیکھ لیں ایک بحران ٹالنے کے لیے ریاست کو کتنے نئے بحرانوں سے گزرنا پڑ رہا ہے‘ عدلیہ کی فارمیشن میں یہ تبدیلی ملک میں انصاف کا مزید جنازہ نکال دے گی‘ 26 ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ عملاًختم ہو چکی ہے‘ اس کا احترام اور وقار دونوں مٹی میں مل چکے ہیں اور اس میں ججز کا قصور بھی ہے۔ جج صاحبان جب اپنے منصب سے اتر کر کسی سیاسی جماعت کے معاون بن جائیں گے تو اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکلنا تھا اور وہ نکلا لیکن رہی سہی کسر حکومت اور ریاست نے بھی پوری کر دی‘اس نے دو گھونسلے توڑنے کے لیے پورے محل کو آگ لگا دی۔ سپریم کورٹ کے بعد اب ہائی کورٹس کی باری ہے‘ ان میں جو تبدیلیاں کی جا رہی ہیں عین ممکن ہے ہم ان کے ذریعے بانی کو مزید دو چار سال جیل میں رکھ لیں‘ ہو سکتا ہے ہم اس مصنوعی سسٹم کو بھی مزید چند برس دھکا دے لیں لیکن اس عمل کے دوران ملک کا عدل کا نظام کہاں کھڑا ہو گا؟ آج وہ ججز جو کسی کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں کل جب انھیں کوئی اشارہ کرے گا تو یہ کیا کیا نہیں کریں گے؟ ہمیں ماننا ہو گا ہم نے ایک اور رانگ ٹرن لے لیا ہے اور یہ رانگ ٹرن ہمیں اس وادی میں لے جائے گا جہاں بے انصافی اور ظلم کے ’’ذومبیز‘‘ دندناتے پھر رہے ہیں اوریہ ہماری طرف دیکھ کر بار بار پوچھ رہے ہیں اگر کل تم لوگوں کو انصاف کی ضرورت پڑ گئی تو تم کس عدالت میں جاؤ گے اور کس جج سے اپنا حق مانگو گے؟ آپ ذرا تصور کیجیے کل اگر صدر زرداری اور میاں شہباز شریف کو انصاف چاہیے ہو گا تو کیا یہ عدالتیں اور یہ جج انھیں انصاف دے سکیں گی اور اگر انصاف کی ضرورت کسی جنرل کو پڑ گئی تو کیا ہوگا؟ وہی ہو گا جو اس وقت قیدی نمبر 804 کے ساتھ ہو رہا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہر رانگ ٹرن کا نتیجہ بہرحال یہی نکلتا ہے۔ ## Javed Chaudhary

سعودی عرب سے واٹس ایپ پر وائس اور ویڈیو کالز 6 سال بعد دوبارہ فعال ## Saudi Arabia