
Nida E Aetidal Monthly, Aligarh
261 subscribers
About Nida E Aetidal Monthly, Aligarh
ماہنامہ ندائے اعتدال مدرسۃ العلوم الاسلامیہ کا دینی، علمی، فکری، ادبی اور اصلاحی ترجمان ہے۔ ماہنامہ ندائے اعتدال، نومبر ۲۰۰۸ء سے شائع ہو رہا ہے۔
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*یہود سے معاہدہ اور نقضِ عہد کی یہودی فطرت وتاریخ* ✍️ *ڈاکٹر طارق ایوبی* غزہ تباہ ہوگیا ، اہل غزہ کو ہر طرح کی آزمائشوں سے گزارا گیا پھربھی وہ ثابت قدم رہا، جس وقت یہ تحریر سپردقلم کی جا رہی ہے اس وقت غزہ کی تاریخ میں نیا موڑ آیا ہے، امریکہ اور تحریک مزاحمت کے درمیان براہ راست مذاکرات کا آغاز ہو رہا ہے، ابتدا میں اسرائیل نے اس سے انکار کیا تھا لیکن پھر نتن یا ہو کو ٹرمپ کے فیصلے کے سامنے مجبور ہونا پڑا اور وہ مذاکرات میں شرکت کے لیے راضی ہوا ، اس سے قبل غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی، ہر طرح کی دھمکی دی گئی ، لیکں صبر و استقامت کے رمز اور عزیمت و استقلال کے شہر پر کسی چیز کا کوئی اثر نہ ہوا ، کمر توڑ دینے والی بھوک پیاس بھی پائے استقامت میں لغزش نہ پیدا کر سکی ، گویا غزہ نے اہل اسلام کو ظلم کے سامنے ڈٹنے اور ظالم کو جھکانے کا نمونہ پیش کیا ، دین و ایمان اور وطن و مقدسات کو ہر شے پر ترجیح دینے کا درس دیا، دنیا کو بتایا کہ جس قوم سے ہمارا مقابلہ ہے اسکی فطرت و تاریخ کو سامنے رکھ کر ہی کوئی فیصلہ لیا جا سکتا ہے ۔ غزہ بری طرح بھوک کا شکار ہے، مذاکرات جا ری ہیں، لیکن اب بھی نتائج کا انتظار ہے ، بظاہر معاملہ بہت مشکل ہے، کیونکہ عربوں نے ٹرمپ کے ساتھ یہ طے کیا ہے کہ حماس کو غیر مسلح اور غزہ سے بے دخل کیا جائے، اس کے بعد ہی امن قائم ہوسکتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ حماس حکومت سے بے دخلی پر راضی ہوجائے گی لیکن ہتھیار رکھ دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، خیر یہاں تو موضوع کچھ اور ہےہمارا، اس لیے اس سلسلے میں امکانات و اندیشوں پر گفتگوکو یہیں موقوف کرتے ہیں، اس مضمون میں ہم دراصل قرآن و سیرت کی روشنی میں عہد شکنی کی یہودی فطرت پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہود ایک ایسی قوم ہے جس نے اللہ سے کبھی وعدہ وفا کیا اور نہ انسانوں سے، آج بھی اسکی نظر میں بین الاقوامی قوانین کی کوئی حیثیت ہے نہ معاہدوں کی کوئی اہمیت ، اگر وہ معاہدوں پر قائم رہنے والی قوم ہوتی تو آج جو صورت حال ہے وہ نہ ہوتی، لیکن اس نے کبھی کسی قرار داد اور کسی معاہدہ کی پابندی نہیں کی، بلکہ معاہدوں کی آڑ میں اپنے لیے زمین ہموار کرتی رہی تاآنکہ آج وہ اس حال میں ہے کہ پورے عالم عربی پر قبضہ کا منصوبہ پیش کر رہی ہے۔ اس دوران عرب دنیا نے بے بسی و بے کسی کی ساری حدیں پار کر دیں ، خود یہود کے لیے قرآن مجید نے جو فیصلہ سنایا تھا وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ ٱلذِّلَّةُ وَٱلْمَسْكَنَةُ وَبَآءُو بِغَضَبٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ ،(البقرہ ۔۶۱) کہ بے بسی وکم ہمتی اور ذلت و مسکنت ان پر تھوپ دی گئی ہے اور اللہ کا غصہ ان پر بھڑکا ہے ، یہی صورت حال اس وقت امت مسلمہ اور عالم عربی کی نظر آئی ، اب تو ٹرمپ کا دور ثانی ہے، ٹرمپ کے دور اول میں ہی عرب حکومتوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے لیے صدی ڈیل کی تھی ، اور معاہدہ کو ابراہیم پکیٹ کا نام دیا گیا تھا ، جس کے تحت یہود کے ساتھ نارملا ئزیشن کرنا تھا ، سفارتی ، تجارتی اور سیاسی تعلقات کو استوار کرنا تھا ، ابتدا میں امارات نے دستخط کیے تھے ، سعودی عرب نے خفیہ تعلقات تو قائم کیے لیکن علانیہ طور پر اپنے تعلقات کو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط رکھا، غزہ پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے اور عالم عربی اسرائیل سے تعلقات نبھاتا رہا، معاہدہ ابراہیمی کو آگے بڑھانے پر گفتگو ہوتی رہی، ابھی سیر یا کے تناظر میں ابراہیم پکیٹ پر بار بار گفتگو ہوئی۔ یہ معاہدہ Abraham Accords/Abraham pact امن کے نام پر کیا گیا ، اصلاً یہ امارات نے کیا، بعد میں بحرین مراکش اور سوڈان بھی شامل ہوا ، اس کا مقصد سفارتی تعلقات قائم کرنا ، اقتصادی وتجارتی تعاون کو فروغ دینا، خطے میں امن و استحکام کی کوشش کرنا اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا تھا ، یہ معاہدہ دراصل عربوں کے اس موقف کا اختتام تھا کی جب تک قضیہ فلسطین حل نہ ہو تب تک اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا ممکن نہیں ۔ یہ معاہدہ درحقیقت اسرائیل کو تسلیم کرنے، غاصب ریاست کو مستحکم کرنے اور فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ کو مسدود کرنے کا ایک خفیہ ایجنڈاہے، اس معاہدہ پر عمل در آمد کےبعد عملا عالم عربی بالخصوص خلیجی ممالک پر یہودی اثر و رسوخ کا استحکام ہوگا، اس سلسلے میں آل سعودو آل نہیان نے ملت اسلامیہ کے ساتھ جو دغاکی ہے، خدا ہی اس کا حساب لے گا، بس اس کے جوش انتقام کی دیر ہے۔ اسرائیل سے نارملا ئزیشن سے قبل یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اسرائیل سے معاہدہ و دوستی کا کبھی کوئی مثبت فائدہ امت کو نہیں پہنچ سکتا ، وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ ٱلْيَهُودُ وَلَا ٱلنَّصَـٰرَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ (بقرہ۔۱۲۰) اس آیت میں یہ بات کھول کر بیان کر دی گئی ہے کہ یہود ونصاری اس وقت تک راضی نہیں ہو سکتے جب تک کہ مسلمان ان کا دین نہ اختیار کر لیں ، ان کی مسلم دشمنی تب تک باقی رہے گی جب تک کہ ان کے حرص وہوس اور تحریفات پر مشتمل دین کو نہ اپنا لیں ، تعاون و دوستی کی اس واضح حرمت اور فطرتِ یہود کی اس کھلی ہوئی صراحت کے باجود ان سے دوستی کی پینگیں مارنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ لیکن ان لوگوں سے کیا کہا جاسکتا ہے جو "دین ابراہیمی" یا " خاندان ابراہیمی " کی گمراہ کن فکر کے علمبردار بن کر اس کا مرکز بھی اپنے یہاں تعمیر کرچکے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ کبھی بھی عالم اسلام کے ساتھ نہیں کھڑا ہو سکتا ، اسرائیل مشرق وسطی میں امریکہ کی چھاؤنی ، ڈھال اور سب سے بڑا پروجیکٹ ہے، امریکہ اس کے لیے کسی بھی حد تک جاتا ہے اور جائے گا، اسرائیل ہی کے ذریعہ وہ عالم اسلام بلکہ عالم عربی کے وسائل پر قبضہ کرتا ہے اور اس کی زرخیزی کو اپنی مادی ترقی کے لیے استعمال کرتا ہے ، اس لیے کبھی بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے ، تیسرے یہ کہ یہود کی فطرت میں توسیع پسندی ، بخل و حرص ، غصب اور دھوکہ دھڑی ہے ، نقضِ عہد اس قوم کی فطرت ثانیہ ہے، بے وفائی اس کا فطری خاصہ ہے ، ہم نے اپنے ایک مضمون میں بہت تفصیل سے امریکی سیاست دانوں اور پادریوں کے بیانات نقل کیے تھے ، کہ انھوں نے اس وقت جبکہ یہود امریکہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے تو انھیں روکنے کے لیے کیا کہا تھا اور کیوں انھیں امریکہ کے مستقبل کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا یہ سب ہم نے اس مضمون میں نقل کیا تھا، ، امریکی صدر فرینکلن نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ "یہود امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں ، اگر ان کی ہجرت کو روکا نہیں گیا تو یہ سو دو سو سال میں امریکہ پر اس طرح غالب آئیں گے کہ ہماری اولادیں ان کے کھیتوں میں ان کی مزدوری کریں گی، یہ قوم کسی معاشرہ میں گھلتی ملتی نہیں ، یہ ریاست کے اندر الگ حکومت قائم کر لیتی ہے ، تمام وسائل پر قبضہ کرتی ہے اور فساد و تباہی مچاتی ہے۔"یہ اور ایسے بیانات ہم نے حوالوں کے ساتھ اپنے اس مضمون میں نقل کیا تھا۔ عام طور سے جب قضیہ فسلطین کے تناظر میں یہود کو موضوع بنایا جاتاہے تو صرف سیاسی نقطہ نظر سے گفتگو کی جاتی ہے ، حالانکہ ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم نے یہود کی جو تصویر کھینچی ہے اور جو تاریخ بیان کی ہے، ان کے جن قومی رذائل کا ذکر کیا ہے، ان سے اعراض کرکے کوئی گفتگو نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی ، تاریخ کا وہ کون سا دور ہے جن میں یہود کی تخریب کاری، فساد برپا کرنے کی عادت ، فحش کو فروغ دینے کی فطرت،افترا ،بغاوت اور سازش سے ملت اسلامیہ محفوظ رہی ہو، دعوت اسلامی کے لیے عہد نبوی سے لےکر آج تک یہود سب سے بڑا خطرہ رہے ہیں ، انھوں نے ہر ممکن وسیلہ اختیار کیا، اسلام سے دشمنی کے لیے ہر ہتھیار کا استعمال کیا ، ان کی پُر فریب اور سفاکا نہ تاریخ کی روشنی میں ان سے معاہدہ کے کیا معنی ٰ ؟ ہم یہاں ان کے بہت سے رذائل مثلا االلہ کے ساتھ ان کی بدتمیزی ،انبیا کے ساتھ ان کی بے ادبی، تحریفِ کتاب اللہ کو چھوڑ کر اوہام ونفس پرستی ، بزدلی، زندگی کی حرص، مال ومنصب کی ہوس ، حرام خوری، سود اور رشوت خوری ، حرام کو حلال کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق احکام بیان کرنے کی رذالتوں اور ان کے باطل اقدامات اور دعوؤں کو چھوڑ کر صرف یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نقضِ عہد کے متعلق قرآن مجید ان کی کیسی تصویر پیش کرتا ہے ، کیا جس قوم کی بے وفائی ، بے اعتمادی ، بے یقینی ، بد عہدی اور بار بار عہد توڑنے کی ایسی طویل تاریخ رہی ہو اور یہ تاریخ خبیر وعلیم اور حکیم مطلق نے خود بیان کی ہو،کیا اس کے بعد بھی اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ کون ضمانت دے سکتا ہے کہ ابراہیم پکیٹ صرف امن و تجارت تک محدود رہے گا ؟ امارات وبحرین وسعودیہ یہودی دست بُرد سے محفوظ رہیں گے ، اسرائیل گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو ترک کر دے گا ، قرآن مجید نے تو آگاہ کر دیا لیکن لوگ قرآن کو پڑھتے نہیں اور پڑھتے ہیں تو اس پر عملی ہی کہاں کرتے ہیں؟ کچھ لوگ تو یہودیت و صہیونیت میں بڑی باریک بینی کے ساتھ فرق کرتے ہوئے صہیونیت کو اسلام دشمن قرار دیتے ہیں اور یہودیت کو بری قرار دیتے ہوئے اس سے دوستی رچانے کی احمقانہ باتیں کرتے ہیں ، ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر موقع پر بد عہدی کرنے والے، آپ کی ذات کو مشکوک بنانے والے، منافقین ومشرکین کو اعتراضات سمجھانے والے اور آپﷺ کو جھٹلانے کے لیے تشکیک کی مہم چلانے والے یہی یہودی تھے، خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہودیت و صہیونیت ایک ہی کردار کے دو نام ہیں اور ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں ۔ اگرچہ یہ خیال پایا جاتاہے کہ صہیونیت سیاسی اور قومی تحریک ہے جو یہودی ریاست کے قیام اور عالمی منظرنامہ پریہودیت کے اثر و رسوخ کو قائم کرنے کے لیے وجود میں آئی ،لیکن میرے فہم کے حساب سے یہ بات ایسی ہے جیسے کوئی بھاچپا اور آرایس ایس کو الگ کرکے دیکھے اور یہ کہے کہ بھاچپا آرایس ایس سے الگ ہے، آرایس ایس ایک نظریاتی تحریک ہے اور اس کے نظریہ کی تنفیذ کے لیے بھاچپا سیاسی تنظیم ہے، صحیح بات یہ ہے کہ یہ فرق بے معنی ٰ ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ نظریہ ایک ہے، بنیاد ایک ہے بس تقسیم کار ہے ، الگ الگ افراد کو الگ الگ ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ صہیونیت کی نسبت بیت المقدس کے جنوب میں واقع جبل صہیون کی طرف ہے، جہاں یبوسی آباد ہوا کرتے تھے ، جنہیں حضرت داؤد علیہ السلام نے وہاں سے دھتکار دیا تھا، یہود کے نزدیک جبل صہیون مقدس ہے،کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جبل صہیون پر ان کا رب رہتا ہے ، صہیونیت کے ضمن میں Jewish Encyclopaediaاور انسائیکلو پیڈیاآف برٹانیکا میں یہ تفصیلات درج ہیں کہ صہیونیت کا مقصد فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنا، نسل داؤدسے امیر متعین کرنا ، دوبارہ ہیکل تعمیر کرنا اور عرش داؤد قائم کرنا اور پوری قوم کو فسطین میں جمع کرنا ہے ، صہیونیت کے مقاصد واہد اف کا خلاصہ یہودی غلبہ قائم کرنا، مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل تعمیر کرنا اور فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنا ہے ۔ صہیونی دراصل وہ یہودی ہوتا ہے جو دنیا کے کسی بھی خطہ کے بالمقابل فلسطین میں بسنے کو ترجیح دیتاہو اور فلسطین کو وطن بنانے کے لیے مادی، سیاسی قلمی ولسانی سطح پر ہر ممکن تعاون کرتا ہو، صہیونیت فلسطین کو وطن بنانے کی تحریک کے طور پر وجود میں آئی، بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ تحریک عہد جدید کی نہیں بلکہ اس کے تار بہت قدیم ہیں،جب ۵۸۶ قبل مسیح میں بخت نصر کے ہاتھوں یہود کو تاراج کیا گیا اور انھیں بابل منتقل کر دیا گیا اس وقت انھوں نےصہیون کی طرف واپسی کی تحریک چلائی ، عہد جدید میں صہیونیت کے آغاز اور ارض موعود کی طرف واپسی کی تحریک کی تاریخ معلوم ہے، یہاں اس کو دوہرانا تحصیلِ حاصل ہے، مختصراً یہ سمجھنا چاہیے کہ یہودیت و صہیونیت الگ الگ نہیں ہیں، صہیونیت یہودی غلبہ کا نام ہے، اور اس غلبہ کے لیے اب تک جو کچھ کیا گیا ہے ، جتنی کوششیں ہوئیں ، سازشیں ہوئیں ، ناجائز ریاست قائم ہوئی ، فساد برپاہوئے، مظالم کے بازار گرم کیے گئے ، کالونیاں بسائی گئیں ، مسلم بستیاں اجاڑی گئیں ، تخریب کاری کی مثالیں قائم کی گئیں ، یہ سب کچھ یہود نے ہی کیا، وہ مادی علمی ، قلمی ہر طرح کا تعاون محض اس لیے کرتے ہیں تاکہ اسرائیلی ریاست کو مضبوط و مستحکم کیا جاسکے۔ سوال یہ ہے کہ جن کے مقاصد یہ ہوں اور جن کی تاریخ نقضِ عہد یا بد عہدی کی رہی ہو، جو اپنے کو عالمی قوانین سے بالاتر سمجھتا ہو، جس کے سامنے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالت کی کوئی حیثیت نہ ہو، جو امریکہ جیسی ریاست کو کنٹرول کرتا ہو ، اس سے قیام امن و باہمی تعاون کے معاہدے کرنے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے ، ذیل میں ہم ان کی بد عہدی کی جو تایخ قرآن مجید نے بیان کی ہےاور جو تصویر کھینچی ہے اسے بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ، سورہ بقرہ آیت نمبر ۸۳ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا ٱللَّهَ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَانًۭا وَذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَقُولُوا۟ لِلنَّاسِ حُسْنًۭا وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُوا۟ ٱلزَّكَوٰةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًۭا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ "ہم نے بنی اسرائیل سے بہت ہی پختہ عہد لیا تھا کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں گے ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں گے ۔ صلہ رحمی کے تقاضے پورے کریں گے۔ یتیم و مسکین کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں گے۔ لوگوں کے ساتھ اچھا معاملہ کریں گے ۔ نماز وقت و شرائط کی پابندی کے ساتھ قائم کریں گے ۔ زکوٰة مستحقین تک پہنچائیں گے۔ یہ عقائد ، عبادات اور معاملات و اخلاق کے اصول ہیں اور یہ تمام ادیان سماویہ میں متفق و مشترک ہیں ۔ اتنے پختہ اور مضبوط عہد کے باوجود جو ہم نے تم سے اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے پر لیا تم نے سب کچھ بدل ڈالا ، تم نے ان باتوں سے منھ موڑا جنھیں کرنے کا حکم دیا تھا ۔ پوری طرح سرکشی پر آمادہ ہوکر شرعی حدود سے نکل آئے اور زیادتی کرتے ہوئے وہ سب کیا جس سے روکا گیاتھا لیکن پھر بھی تم میں ایک چھوٹی سی تعداد ایمان پر باقی رہی اور اتباعِ حق کرتی رہی جبکہ تمہاری اکثریت نے اعراض کیا اور تکذیب کی۔ نہ صحیح طرح سے خالق کی عبادت کی اور نہ مخلوق سے حسنِ معاملہ کیا بنی اسرائیل اور جو لوگ بھی ان کی روش اختیار کریں ، ان پر افسوس و حسرت کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے؟ انھوں نے کتنے عہد توڑ ڈالے، کتنے واجبات کو ترک کیا، کس قدر حرام کے مرتکب ہوئے اور علم کو کس قدر فراموش کیا"۔ سورہ بقرہ کی ہی آیات پڑھیے ، ارشاد باری تعالی ہے : وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَـٰقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَآءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَـٰرِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ ( بقرہ ـ۸۴) "پھریہ بھی دیکھو کہ ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو ناحق قتل نہیں کروگے اور کوئی کسی کو ناحق جلا وطن نہیں کرے گا ۔ قتل اور جلاوطنی گویا دونوں ایک ہی قبیل کے گناہ ہیں۔ قتل سے اس لیے روکاگیا تھا کہ جانیں محفوظ رہیں اور جلا وطنی سے اس لیے منع کیا گیا تھا کہ اطمینان و مانوسیت باقی رہے ، پھر کہاں گئے یہ سب معاہدے جنھیں پورا کرنے کا تم نے وعدہ کیاتھا؟ تم کو معلوم تھا کہ یہ اللہ کے متعین کردہ حدود ہیں مگر تم نے قتل کرکے اور لوگوں کو بے گھر کرکے ان حدود کو توڑ دیا"۔ ثُمَّ أَنتُمْ هَـٰٓؤُلَآءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًۭا مِّنكُم مِّن دِيَـٰرِهِمْ تَظَـٰهَرُونَ عَلَيْهِم بِٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَـٰرَىٰ تُفَـٰدُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ ٱلْكِتَـٰبِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍۢ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْىٌۭ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰٓ أَشَدِّ ٱلْعَذَابِ ۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَـٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ( بقرہ ـ ۸۵) "پھر یہ کیا حال کیا ہے تم نے تم سب مدینہ میں رہتے ہو مگر تمہارا ایک قبیلہ دوسرے کو قتل کرتا ہے۔ (بنوقریظہ ، بنو نضیر اور بنو قینقاع وغیرہ یہودیوں کے بڑے قبائل تھے ) تم آپس میں ہی جنگ کرتے ہو، ایک دوسرے کو کبھی گھر سے بے گھر کرتے ہو کبھی اس کے شہر سے ہی نکال دیتے ہو، یہ توتمہاری شریعت میں حرام قرار دیا گیا تھا لیکن تم ان محرمات کے ارتکاب میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہو۔ اپنے ہی لوگوں کے قتل وجلا وطنی کے لیے تم غیروں سے یعنی اوس و خزرج وغیرہ عرب قبائل سے باہمی تعاون کے معاہدے کرتے ہو۔ تم اوامر کو چھوڑنے کے گنہگار ہو اور جن کاموں سے روکا گیا ان کے ارتکاب کے سبب سرکش ہو ، جنگ ختم ہوتی ہے اور وہ تمہارے پاس قید ہو کے آتے ہیں تو تم ان کا فدیہ بھی سب مل کر دیتے ہو، حالانکہ ان کا نکالناہی حرام قرار دیا گیا تھا، اور فدیہ تم پر واجب کیا گیا تھا۔ گو یا تم نے کتاب کے کچھ حصہ کا انکار کیا جیسے قتل واخراج اور بعض حصہ پر ایمان لائے جیسے کہ فدیہ، اللہ کی شریعت میں یہ تفریق کیوں؟ اور کیسی؟ یہ کیا بات ہوئی کہ جو تم کو بھایا اس پر ایمان لے آئے ، اور جو تم پر شاق گزرا ، جس میں تم کو زحمت ہوئی اس کا انکار کر دیا۔ کتاب الہی کے احکامات میں جو اس طرح فرق کرے اس کی سزا یہ ہے کہ اللہ اسے رسوا کرے گا۔ اور یہ بات تو رسول اللہ ﷺ کے ہی دور میں پوری ہو کر رہی کہ آپ ﷺ نے یہود کی عہد شکنی کی وجہ سے انہیں عبرت ناک سزادی ، بعض کو قتل کیا اور بعض کو جلا وطن کیا۔ اس کے بعد ان پر ذلت و خواری مسلط رہی ، ہلاکت و خسارہ ان کا مقدر ہوا۔ یہ سب کچھ تو دنیا میں ان کی سزا ہے۔ آخرت میں ان کے لیے دردناک اور دائمی عذابِ جہنم ہے۔ جو بھی ہدایت سے پہلو تہی کرے گا اور کتاب اللہ کو چھوڑے گا دنیا میں رسوائی اس کا مقدر بنے گی اور آخرت میں اس کو سزامل کر رہے گی ۔ اس کے برعکس اہل ایمان کے لیے دنیا میں سعادت و نصرت اور عزت ہے اور آخرت میں بھی نجات ملے گی نعمتیں ملیں گی اور ہمیشہ کے لیے جنت میں رہنا نصیب ہوگا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالی نے یہ بھی واضح کر دیا کہ وہ یہود کے مکر وفریب، ان کی دسیسہ کاریوں ، نافرمانیوں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں ان سے واقف ہے۔ اس کو سب چیزوں کا علم ہے، سب کچھ ریکارڈ کر رہا ہے اور پھر ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا"۔ یہاں ذرا ٹھہر کر یہ عرض کر دینے کو بھی جی چاہتا ہےکہ قرآن مجید قیامت تک کے لیے اتارا گیا ہے۔ اس کا خطاب عام ہے۔ بنی اسرائیل کی تفصیلات اس لیے بیان کی گئی ہیں کہ قرآن کے اس شفاف آئینہ میں امت مسلمہ اپنا چہرہ دیکھتی رہے ، اس آیت میں بنی اسرائیل کی جو حرکت بیان کی گئی کہ تم کتاب الہی کے بعض حصے کو مانتے ہو اور بعض کے منکر ہو۔ ولاء اور براء کے احکامات سامنے رکھیے اور یہود ونصاری سے دوستی رچانے کی قرآنی ہدایات اور صریح احکامات پر نظر ڈالیے پھر فلسطین و غزہ واقصی کے بالمقابل معاہدہ ابراہیمی اور خاندان ابراہیمی کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کا جائزہ لیجئے، اور آگے بڑھیے تو بنی اسرائیل نے جو کچھ کیا اور پھر اس کے جو نتائج بھگتے ۔ واقعہ یہ ہے کہ کچھ یہی صورتحال پوری دنیا میں آج مسلمانوں کی ہے۔ کہیں بھی مکمل اسلام نظر نہیں آتا حتی کہ ان ممالک میں بھی مغربی اقدار و قوانین کا چلن ہے جہاں قرآن کے مکمل نفاذ کے تمام وسائل مہیا ہیں۔ بینکنگ سٹم ، عدالتی نظام ، تجارت اور زندگی کے دیگر شعبوں میں قرآنی احکامات کا کوئی گذر نہیں۔ نتیجہ دیکھا جا سکتا ہے کہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مسلمانوں کی صورت حال "خزی فی الحیاة الدنیا "کی کھلی تصویر بن چکی ہے۔ ہزیمت کی خبریں ہیں ۔ سرکوبی کی سرخیاں ہیں۔ پستی ، رسوائی ، بے بسی اور مغرب کی چاپلوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس صورت حال کو صرف اور صرف مکمل اسلام کے نفاذ اور مکمل مسلمان بن کر ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ آگے ان بد عہدی کرنے والے اور اپنی پسند کے مطابق دین کے حصے بحزے کرنے والے یہود پر قرآن نے صریح حکم لگایا ہے: أُو۟لَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱشْتَرَوُا۟ ٱلْحَيَوٰةَ ٱلدُّنْيَا بِٱلْـَٔاخِرَةِ ۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ ٱلْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ( بقرہ -----------۔ ۸۶) "یہ ہیں وکافر وفاجر لوگ جنہوں نے آخرت کی ابدی نعمتوں کے بدلے زوال پذیر دنیا کی حقیر چیزوں کو خریدا ہے۔ ان لوگوں نے محض اپنی نظر میں رسوائی سے بچنے کی خاطر گناہ وسرکشی کی میں تعاون کیا، گویا بزبان حال وہ کہتے تھے کہ جہنم قبول ہے مگر رسوائی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن جب انہوں نے خدائے قہار کے غضب کو دعوت دی تو اللہ نے ان پر عار بھی مسلط کر دیا اور ان کے لیے عذاب جہنم بھی تیار کر دیا۔ ان لوگوں نے نظروں سے اوجھل ہمیشہ کے لیے ملنے والی بہترین نعمتوں پر سامنے موجود دنیا کی حقیر چیزوں کو ترجیح دی۔ تو آخرت میں اللہ تعالیٰ نہ ان کا عذاب کم کرے گا اور نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا جو ان سے عذاب دور کر سکے، نہ ان کا کوئی اچھا عمل ان کو نفع پہنچا سکے گا، نہ انہیں کوئی عذاب سے بچا سکے گا، نہ کوئی دم ساز ہوگا جوان کی سفارش کر سکے، نہ ان پر اللہ تعالی رحم فرمائیں گے اور نہ ان کی رحم کی کوئی فریاد سنی جائے گی"۔ سورہ مائدہ کی آیات میں ارشاد ربانی ہے : وَلَقَدْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَـٰقَ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ ٱثْنَىْ عَشَرَ نَقِيبًۭا ۖ وَقَالَ ٱللَّهُ إِنِّى مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَيْتُمُ ٱلزَّكَوٰةَ وَءَامَنتُم بِرُسُلِى وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًۭا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّـَٔاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّـٰتٍۢ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ ( مائدہ ـ۱۲) "یہاں مسلمانوں کو عہد کی تذکیر کرانے کے بعد یہود ونصاریٰ سے لیے گئے معاہدوں کا تذکرہ کیا گیا۔ فرمایا کہ تم یہ بھی جان لو کہ ہم نے بنی اسرائیل سے مضبوط عہد لیا تھا، پھر انھوں نے اس عہد کو توڑ دیا اور اس کی مخالفت کی۔ تم ان کی راہ پر چلنے سے گریز کرو، ان کے جیسا عمل کرنے سے بچو کہ پھر ان ہی کے جیسا بدلہ ملے ۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و میثاق لیا۔ موسی علیہ السلام نے ان میں سے ۱۲ لوگوں کا بحیثیت رقیب دسردار اورنگراں انتخاب کرلیا تا کہ وہ لو گ تمام لوگوں سے عہد کی پابندی کرائیں اوران کی نگرانی کریں۔ اللہ تعالی نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی مدد فرمائے گا اور ان کو قوت فراہم کرے گا جب تک کہ وہ اچھی طرح نماز قائم کرتے رہیں گے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہیں گے، اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر ایمان لاتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا کہ ان کی خطاؤں کو معاف فرمائے گا ، ان کی سیئات سے درگزر فرمائے گا، ان کو جنت عدن میں داخل فرمائے گا۔ وہ ایسی جنت ہوگی جس کے بارے میں نہ کسی کان نے سنا ہوگا۔ نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا ، نہ کسی ذہن میں اس کا خیال گذرا ہوگا، لیکن جس نے دلائل سامنے آنے اور حجت قائم ہونے کے بعد مخالفت کی وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہوا، فاش غلطی کی اور گمراہ ہو گیا"۔ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَآئِنَةٍۢ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًۭا مِّنْهُمْ ۖ فَٱعْفُ عَنْهُمْ وَٱصْفَحْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ ( مائدہ ۔۱۳) " یہود کوعہد توڑ ڈالنے کے سبب اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی رحمت سے دور کر دیا۔ ان کے دلوں میں ایسی سختی ڈال دی کہ وہ حق کے لیے نرم نہیں ہوتے۔ نصیحتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے ، ہمارے ذکر سے نفع نہیں اٹھاتے ۔ اللہ تعالی سے کیے ہوئے عہد کو توڑ کر یہ لوگ کتاب اللہ میں تحریف و تبدیلی کرنے لگے، لفظ ومعنی کو بدل ڈالا۔ سرکشی و گمراہی کے سبب الفاظ کے غیر مرادی معنی مراد لیتے تھے۔ ان گناہوں نے ان سے علم نافع کو سلب کر لیا۔ وہ اللہ کے ذکر سے غافل ہو گئے ۔ ان کے دلوں سے علم کا نور نکل گیا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سب معصیت کی نحوست سے ہوا۔ معصیت انسان کے ذہن سے علم نافع کو کھرچ کھرچ کر صاف کر دیتی ہے۔ اے محمد ﷺ! آپ روزانہ ان یہودیوں کی خیانتوں اور بد عہدیوں کا مشاہدہ کرتے رہیں گے۔ سوائے ان بعض لوگوں کے جو اسلام لے آئے جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ، آپ ان سے درگزر کرتے رہیے اور انھیں معاف کیجئے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کے سلسلہ میں فیصلہ فرمادے اور ان کے سلسلہ میں آپ کو حق دکھا دے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالی نے اپنےنبی کو ان کے سلسلہ میں صحیح راہ دکھادی۔ ایک وقت تھا کہ ان سے درگزر کا حکم دے دیا گیا تھا اور بالآخران سے جنگ کا حکم دے دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بھی واضح کر دیا کی جو اچھے کام کرے گا، اچھی طرح معاملات کو انجام دے گا اور انصاف کو لازم پکڑے گا، اللہ تعالیٰ اسے ثواب سے نوازےگا"۔ سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا: وَإِذْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَـٰقَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَـٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهُۥ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُۥ فَنَبَذُوهُ وَرَآءَ ظُهُورِهِمْ وَٱشْتَرَوْا۟ بِهِۦ ثَمَنًۭا قَلِيلًۭا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ( آل عمران،۱۸۷) " یاد کرو اس وقت کو جب اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ سے پختہ عہد لیا تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے کتابِ الٰہی صاف صاف پیش کریں گے ، ان میں موجود احکام، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور حلال و حرام کو صاف صاف بیان کریں گے، ان کو حکم دیا گیا تھا کہ ان کو جو تعلیم دی گئی ، جو فتاویٰ دیے گئے جو فیصلے دیے گئے ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں چھپائیں گے۔ لیکن انھوں نے اللہ کے حکم کا مذاق اڑانے والوں کی طرح اس حکم کو پسِ پشت ڈال دیا اور کتاب الٰہی کو سودے بازی اور دنیا کی حقیر دولت ولذت کے حصول کا ذریعہ بنالیا۔ اللہ کی قسم ! ان لوگوں نے بدترین خریداری و سودےبازی کی، انھوں نے علمی قدرومنزلت، دین کی سربراہی ، اللہ کے یہاں تعریف وستائش ، مخلوق کی نظرمیں مقام ومرتبہ اور جنت کی دائمی نعمتوں کے بدلہ دنیا کی حقیر اشیاء کو خرید لیا"۔ سورہ مائدہ کی جو آیت ابھی اوپر گذری اس کا یہ فقرہ "وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَآئِنَةٍۢ مِّنْهُمْ" استثناء کے ساتھ یہود کی طبیعت کو بیان کرتا ہے ، زمان و مکان کے حدود و قیود سے بالا ہوکر دیکھیے تو اس جملہ میں یہود کے عمومی مزاج کی تصویر کشی کی گئی ہے ، اسلام سے پہلے انھوں نے بار بار اللہ سے کیے ہوئے عہد و پیمان کو توڑا ، انبیاء اور رسولوں کو قتل کیا، ان کی مخالفت کی اور انھیں طرح طرح سے ستایا ، پھر جب نبی اسلام کی آمد ہوئی ، جنہیں وہ اس طرح پہچانتے تھے جیسے کوئی اپنی اولاد کو پہچانتا ہے تو ان کے خلاف جنگ چھیڑ دی، ان کے قتل کی کوشش کیں، ان کے خلاف مہم چلائی ،سازشیں کیں ، دعوت اسلامی کی مخالفت کے لیے ہر ممکن وسیلہ کا استعمال کیا ، یہی روِش ان کی عہد نبوی سے آج تک قائم ہے ، اہل اسلام کے لیے ان کے یہاں کوئی رعایت ، رواداری ، وفا اور دیانت ہے ہی نہیں ، جب جب انھیں اسلام کو زک پہنچانے اور مسلمانوں کو ستانے پر قدرت حاصل ہوئی اور موقع ملا تب انھوں نے یہی کیا جو آج کر رہے ہیں ۔ رسول اکرمؐ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آپؐ نے یہود کے ساتھ حسن سلوک کیا ، ان کی اسلام دشمنی کے باوجود ان سے معاہدہ کیا، ان کی یذا رسانیوں پر صبر کرتے رہے ، اور درگذر سے کام لیتے رہے، لیکن جب انھوں نے بد عہدی کی، معاہدہ توڑا تو پھر جیسی سزا ان کو دینی چاہیے ویسی سزا دی، یہود مدینہ کے ساتھ آپ نے جو معاہدہ کیا اس کی رُو سے ان کو مکمل آزادی حاصل تھی، اس معاہدہ کی سب سے اہم شق یہ تھی کہ کسی بھی بیرونی حملہ کے وقت یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر لڑیں گے، لیکن بنوقینقاع نے جنگ بدر کے موقع پر ہی بد عہدی کر ڈالی، ان کا حال سورہ انفال میں بیان کیا گیا ہے: ٱلَّذِينَ عَـٰهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِى كُلِّ مَرَّةٍۢ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ ۔ فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِى ٱلْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ۔ وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةًۭ فَٱنۢبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَآءٍ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْخَآئِنِينَ ( انفال ۔۵۸،۵۷،۵۶۔) "جن سے آپ معادہ کرتے ہیں ، اور وہ ہربار معاہدہ توڑتےہیں ، اور انہیں کسی بری بات سے پرہیز نہیں۔ ان (بدعہدوں اور مجرموں ) کو جنگ میں پائیں تو ان کو ایسا سبق سکھائیں ، کہ ان کے پیچھے جو طاقتیں کارفرماہیں، انہیں بھی توڑکر رکھ دیں، شاید یہ ہوش میں آئیں۔ اور اگر کسی فریق سے خیانت کا اندیشہ ہو، تو صاف طور پر ان سے کیے ہوئے معاہدہ کو ان کی طرف پھینک دیں، اور کافر یہ نہ سمجھیں کہ وہ بچ کر نکل جائیں گے، وہ اللہ کی طاقت کو ہرا نہیں سکتے" ۔ پھر یہود کے دوسرے معروف قبیلہ بنو نضیر کی بد عہدی کو کون نہیں جانتا، انھوں نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی مدد نہیں کی، بلکہ مسلمانوں کے دشمنوں کی مددکی ، انھیں راز پہنچائے اور انھیں پناہ دی، یہی وہ بنو نضیر ہیں جنھوں نے دھوکہ سے حضورؐ کے قتل کی کوشش بھی کی، بنو قریظہ نے تو بد عہدی غداری اور خیانت میں تمام یہودی قبائل کے ریکارڈ ہی توڑ دیے، جب کفار کے متحدہ لشکر نے جنگ احزاب کے موقع پر مدینہ کا محاصرہ کیا تو بنو قریظہ نے کھل کر کفار کا ساتھ دیا ، گویا بے وفائی و بد عہدی یہود کی سرشت میں داخل ہے ، یہ ان کی فطرت ثانیہ اور مزاج کا حصہ ہے، تاریخ اس حقیقت کے ثبوت فراہم کرتی ہے، قرآن مجید کی متعدد آیات یہ بتاتی ہیں کہ : ان یہودیوں کا حال یہ ہے کہ جب بھی یہ خالق یا مخلوق سے کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو ان کا ہی کوئی گروہ اس معاہدہ کو توڑ دیتا ہے ، انہی کا کوئی گروہ بد عہدی کرتا ہے اور دھوکہ دیتا ہے جبکہ ان کی اکثریت تو ایمان ہی نہیں رکھتی۔ بہت سیدھی سی بات ہے جو معبود پر ہی ایمان نہیں رکھتا وہ معاہدوں کی پابندی کیا کرے گا؟ اگر یہ سچے صاحب ایمان ہوتے تو معاہدے نہ توڑتے مگر انہوں نے تو خالق کا انکار کیا اور مخلوق سے دھوکہ کیا اور یہی ان کی پہچان جوخود قرآن نے بیان کی ہے۔ أَوَكُلَّمَا عَـٰهَدُوا۟ عَهْدًۭا نَّبَذَهُۥ فَرِيقٌۭ مِّنْهُم ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ۔ ( بقره- ۱۰۰) سورہ انفال کی یہ آیت ابھی اوپر گذری : ٱلَّذِينَ عَـٰهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِى كُلِّ مَرَّةٍۢ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ۔ ( انفال ،۵۶۔) اس آیت کے ضمن میں تفسیر ابن جریر میں ابن جریح کا یہ حقیقت پسندانہ تجزیہ مذکور ہے کہ " روئے زمین پر یہود نے کبھی بھی کو ئی معاہدہ کیا تو اسے توڑدیا، وہ آج معاہدہ کرتے ہیں اور اگلے دن توڑدیتے ہیں " یہ گویا ان کی فطرت ہے، ان کی لازمی خصوصیت ہے، ان کی تاریخ ہے، انھوں نے اللہ سے ، انبیاء سے ، رسولوں سے بدعہدی کی، ان سے یہ عہد لیا گیا تھاکہ آخری نبی کے بعثت کے وقت اس پر ایمان لائیں گے، لیکن انھوں نے اس عہد کو پسِ پشت ڈال دیا مخالفت پر کمر کَس لی، اسکے لیے انھوں نے کتمان و تحریف اور باطل تاویلات کا سہارا لیا، انھوں نے ہر اس عہد کو توڑا جو ان کی خواہش کے منافی ہو،اور ان کے مفادات سے ٹکرایا، بس اسی لیے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ، ان میں بہت ہی کم لوگ ہیں جنھیں ایمان و ہدایت کی توفیق ملی ۔ پھر ان کے عہد توڑنے، اللہ کی آیات کا انکار کرنے، انبیاء کا ناحق قتل کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان کی شکلیں مسخ کر دیں۔ ان کو رسوا کیا اور ان کی بصیرت سلب کر لی۔ انھوں نے آخری نبی ﷺ سے کہا کہ ہمارے دلوں پر تو تالے پڑے ہیں ، جو کچھ آپ ہم سے کہتے ہیں وہ ہم سمجھتے نہیں ہیں، جو کتاب آپ پر اتاری گئی اسے ہم سمجھتے نہیں ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں ۔ دراصل اللہ نے ان کے کفر وانکار کے سبب ان کے دلوں پر ٹھپہ لگادیا ہے۔ چنانچہ ان میں سے بہت تھوڑے سے لوگ ہی ایمان لائیں گے۔ اکثریت ملت حنیفی سے خارج ہوگی اور کافر ہوگی۔ سورہ نساء میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے: فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَـٰقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِـَٔايَـٰتِ ٱللَّهِ وَقَتْلِهِمُ ٱلْأَنۢبِيَآءَ بِغَيْرِ حَقٍّۢ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌۢ ۚ بَلْ طَبَعَ ٱللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًۭا ( نساء ،۱۵۵) غرض یہود کی جو فطرت و تاریخ ہے اس کے پیشِ نظر ان سے خیر کی امید فضول ہے، وہ جابرانہ ومستبدانہ اور خودغرضانہ اقتدار کے قائل رہے ہیں، آج اس اقتدار کے لیے انھوں نے کشت وخون کا بازار گرم کر رکھاہے، آج دنیا بھر کی دولت کے وہ مالک ہیں، عہد نبوی میں بھی انھوں نے سود کی بڑی بڑی شرحوں کے سبب اقتصادی کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھاتھا، آج اگروہ غزہ کے بچوں کو تڑپارہے ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں، ان کی طماعی اور حرص وہوس کا عالم یہ تھا کہ بخاری کتاب الدیات کی ایک روایت کے مطابق وہ دو چار روپیے کے زیور کے لیے معصوم بچوں کو پتھرسے مارڈالتے تھے، قرآن مجید نے ان کے مذموم عادات واطوار کی خوب پردہ دری کی ہے، کہیں فرمایا : سَمَّـٰعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّـٰلُونَ لِلسُّحْتِ ، ( مائدہ ـ ۴۲)"یہ جھوٹ اور افتراپردازیوں کی سن گن میں لگے ہیں، اور حرام مال خوب اڑاتے ہیں، یہ اگر آپ کے پاس ( کسی فیصلہ کے لئے ) آئیں، تو چاہیں تو آپ ان کے درمیان فیصلہ صادر کریں اور چاہیں تو اعراض کریں (کوئی توجہ نہ دیں ) اگر آپ اعراض اور بے توجہی کا رویہ اختیار کریں گے، تو آپ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہونچاسکیں گے، اور اگر ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے مطابق فیصلہ کریں(ان کی کوئی روعایت نہ کریں) بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت فرماتاہے"۔ کہیں فرمایا : وَتَرَىٰ كَثِيرًۭا مِّنْهُمْ يُسَـٰرِعُونَ فِى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ وَأَكْلِهِمُ ٱلسُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ( مائدہـ ۶۲) " تم ان میں سے اکثر لوگوں کو دیکھو گے، کہ گناہ اور ظلم وزیادتی اور حرام مال کھانے کے لیے ساری تگ ودوکرتے ہیں، بڑے بدترین اعمال کے یہ مرتکب ہیں"۔ کہیں فرمایا: وَأَخْذِهِمُ ٱلرِّبَوٰا۟ وَقَدْ نُهُوا۟ عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَٰلَ ٱلنَّاسِ بِٱلْبَـٰطِلِ ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَـٰفِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (نساء ـ۱۶۱) " اور سود لینے، جبکہ اس سے منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے مال ناجائز طریقہ پر کھانے کی وجہ سے ( ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا گیا) اور ان میں سے کافروں کے لیے ہم نے المناک سزائیں تیار کر رکھی ہیں"۔ اسلام سے دشمنی ان کی فطرت ثانیہ تھی، وہ نبی ﷺ کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتے تھے، ارشاد باری تعالی ہے: لَتُبْلَوُنَّ فِىٓ أَمْوَٰلِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوٓا۟ أَذًۭى كَثِيرًۭا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا۟ وَتَتَّقُوا۟ فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ ٱلْأُمُورِ ( آل عمران ـ ۱۸۶) " تم کو ضرور تمہارے اموال کے سلسلہ میں آزمایا جائے گا، خرچ کرنے کا حکم دے کر ، آسمانی آفات کے ذریعے، زمینی مشکلات کے سبب، کبھی مال چوری ہوگا کبھی برباد ہوگا کبھی جل جائے گا، غرض کہ اس طرح کی وجوہات کے ذریعہ تمہاری اموال کے سلسلہ میں آزمائش کی جائے گی تاکہ اللہ تعالی واضح کر دے کہ کون صبر کرنے والا ہے اور کون ثواب کی امید میں رہتا ہے۔ تم کو تمہاری جانوں کے سلسلہ میں بھی آزمایا جائے گا مختلف مصائب وفتن اور مصیبتوں کے ذریعے تا کہ جس کو حق پر قائم رہنا ہو وہ حق پر باقی رہے اور جس کو واضح دلائل سے انحراف کرنا ہو وہ منحرف ہو جائے اور حق سے پھر جائے ۔ اللہ تعالی اہلِ ایمان کو جانچ لے اور منافقین کے نفاق کو ظاہر کر دے اور کافر کے کفر کا اظہار کر دے۔ یہی اس کا قانون اور اس کی حکمت ہے اور عنقریب تمہیں یہود و نصاری سے بڑی تلخ باتیں سننی پڑیں گی۔ اسی طرح عرب کے بت پرستوں سے استہزا، مذاق اور تکذیب کو جھیلنا پڑے گا۔ وہ تمہاری راہ میں روڑے اَٹکائیں گے تمہارے دین کی مخالفت کریں گے، تمہارے خلاف لوگوں کو ورغلا ئیں گے، تمہارے خلاف جتھہ بندی کریں گے۔ اگرتم نے صبر کیا اور اپنے دین پر جمے رہے اور اللہ نے جن چیزوں کا حکم کیا ہے انھیں کرتے رہے اور جن چیزوں سے روکا ہے ان سے بچتے رہے۔ تو یہ نہ صرف تمہارے لیے اصلاحِ نفس کی خاطر مفید رہے گا بلکہ تمہیں مضبوطی عطا کرے گا۔ صبر و تقوی پر جمنے کے سبب تم کو عزیمت حاصل ہوگی اور پھر ایک دن تم بحکمِ الٰہی اپنے ہر دشمن پر غالب آؤ گے"۔ ان کے بغض وحسد کا یہ عالم تھا کہ نبیﷺ کو ہمیشہ ا لسلام علیکم کی جگہ لسام عیک کہتے تھے یعنی " تجھ کو موت آئے" وہ اسلام کی حقانیت کو مشکوک بنانے، اس کو بے اعتبار کرنے اور نقصان پہنچانے کے لیے یہاں تک کرتے تھےکہ اسلام قبول کرکے اس سے پھر جاتے، پھر آج کل کے Ex Muslim کی طرح یہ بتانے کی کوشش کرتے کہ اگر اس دین میں کچھ بھی سچائی اور اچھائی ہوتی تو کوئی اختیار کر کے کیوں چھوڑتا، قرآن نے خوب پول کھولی ہے : وَقَالَت طَّآئِفَةٌۭ مِّنْ أَهْلِ ٱلْكِتَـٰبِ ءَامِنُوا۟ بِٱلَّذِىٓ أُنزِلَ عَلَى ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَجْهَ ٱلنَّهَارِ وَٱكْفُرُوٓا۟ ءَاخِرَهُۥ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ( آل عمران ـ ۷۲) " علمائے یہود کے ایک طبقہ نے اپنے عوام سے کہا صبح کو خاتم النبیّن حضرت محمد ﷺ کی رسالت کی تصدیق کرو اور شام کو انکار کر دو ۔ جب لوگ اسلام کے سلسلے میں تشکیک کا یہ کھیل دیکھیں گے کہ لوگ صبح اس پر ایمان لاتے ہیں جو خاتم النبیّن حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا گیا اور شام کو مرتد ہوجاتے ہیں تو وہ بھی اسلام سے پھر جائیں گے ۔ اس لیے کہ وہ کہیں گے کہ یہود نے اسلام میں کوئی کمی دیکھی ہوگی اسی لیے اس کو ترک کر دیا۔ تو وہ بھی اسلام کو چھوڑ بھاگیں گے۔ یہ دراصل یہود کا فریب اور ان کی فطری خباثت تھی اور کفر وفسق میں ان کے ڈوبے ہونے کی دلیل تھی"۔ ان ساری تفصیلات کے بعد میں یہاں قرآن مجید کی وہ تنبیہ نقل کیے دیتا ہوں جو کئی مرتبہ مختلف عنوان کے تحت نقل کر چکا ہوں، اندازہ کیجیے کہ ایک طرف قرآن مجید صراحت سے ان کی بدعہدی وبدکرداری اور ان کی خبیث طبیعت کی تصویریں دکھاتاہے، دوسری طرف امت کو ان کی دوستی سے آگاہ کرتا ہے، ذیل میں سورہ نساء کی آیت ۱۳۹،۱۳۸پڑھیے، اس مضمون کی اور بھی آیات ہیں مگر میں ان ہی پر اکتفا کرتا ہوں ، عربوں کی یہود نوازی، امریکہ فریفتگی اور مغرب پرستی اور فلسطینی کاز سے دشمنی ، فلسطینیوں کے مقابلہ اسرائیل کا تعاون کرنے اور اس سے تعلقات استوار کرنے کے عمل کو قرآن کے آئینہ میں دیکھیے اور خود فیصلہ کیجیے گا، ارشاد باری ہے ! بَشِّرِ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ۔ ٱلَّذِينَ يَتَّخِذُونَ ٱلْكَـٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ ٱلْعِزَّةَ فَإِنَّ ٱلْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًۭا (سورہ نساء۔ ۱۳۹،۱۳۸۔) " اے محمد ﷺ ! ان منافقین کو دردناک عذاب کی "خوشخبری " سنا دیجئے ۔ یہ خوشخبری استہزائی طور پر سنانے کی بات کہی جا رہی ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ حضور ﷺ سے کہا گیا کہ آپ ان کو سخت عذاب کی خوشخبری دیجئے جو ان کے جھوٹ ، فریب اور دھوکہ بازی کے نتیجہ میں انھیں دیا جائے گا"۔ " یہ منافقین ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں رچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں سے لڑتے ہیں اور اللہ کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہیں۔ تعجب ہے ان پر ! عجیب حال ہے ان کا ! یہ کفار سے عزت و نصرت اور مقام و مرتبہ کے طالب ہیں جبکہ کافر کے پاس یہ چیز ہے ہی نہیں ۔ کافر تو سرے سے عزت وقوت سے عاری ہیں۔ آخر یہ عزت وقوت اور نصرت و مرتبہ اللہ سے کیوں نہیں مانگتے جو ان سب کا مالک ہے۔ اس سے زیادہ عزت والا کوئی نہیں ۔ عزت وقوت اللہ کے لیے ہے، اس کے رسول کے لیے ہے اور اہلِ ایمان کے لیے ہے۔ نصرت و ثواب واکرام اس کے ہاتھ میں ہے، تو یہ لوگ آخر اس سے کیوں نہیں مانگتے "۔ ****