
Farrukh K Pitafi
January 16, 2025 at 03:10 PM
مختصر وقفے کے بعد دامن کوہ کی تیسری قسط پیش ہے۔ بات پسند آئے اسے پھیلائیے۔ براہ مہربانی پڑھئے اور اپنی آراء مجھے ای میل کیجئے اس پتے پر:
[email protected]
دہشت گردی کے سائے میں پنپتا پروپیگنڈہ
از فرخ خان پتافی۔ دامن کوہ - قسط 3
اس سال گیارہ ستمبر کے حملوں کو چوبیس سال ہو جائیں گے مگر اسلاموفوبیا کا ناسور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ایسا کیا ہے کہ آج بھی یورپ، امریکا، ہندوستان اور دنیا کے کئی اور خطوں میں مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے بارے میں نفرت آمیز اقدامات کیے جاتے ہیں؟
جب کوئی آپ کے ملک پر حملہ کرے اور معصوم شہریوں کو مار دے، اور آپ حملہ آور کے بارے بہت کم جانتے ہوں تو اس سے متعلق شک و شبہات اور نفرت کا آنا ایک فطری عمل ہے۔ مگر چوتھائی صدی ایک لمبا عرصہ ہے۔ بہت کچھ بدل گیا، یہ داغ اب تک کیوں نہیں دھلا؟ ایسا تو نہیں کہ بقول شاعر:
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے
آج اسی مسئلے پر ڈیپ ڈائیو کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ اگر مسلمانوں کے خلاف کوئی قوت کار فرما ہے تو کیا کچھ مسلمان اس کی چال میں آکر اس کا کام آسان تو نہیں کر دیتے۔ جو لوگ جذبات میں آکر دشمن کا کام آسان کریں ان کے لئے انگریزی زبان میں ایک اصطلاح ہے۔ انہیں انگلش میں
useful idiots
یا کارآمد احمق کہا جاتا ہے۔
بات کی ابتدا ایک ایسی تصنیف سے کرنی چاہیے جس سے آپ کو مغرب میں پھیلنے والے پروپیگنڈہ کی جڑوں تک پہنچنے کا موقع ملے گا۔ ایڈورڈ سعید ایک فلسطینی نژاد عیسائی دانشور تھے۔ انہوں نے فلسطین کے مسئلے پر بھی خوب آواز اٹھائی۔ مگر جس تصنیف کی بات کرنی ہے اس کا نام Orientalism یا مشرقیت ہے۔ اس کتاب میں بے شمار حوالوں سے بتایا گیا ہے کہ مغربی نو آبادیاتی دور میں مشرق سے متعلق انتہائی دقیانوسی، کم عقل، جنگجو، شدت پسند اور جنسی بے راہ روی والی قوموں کا ایک خاکہ پیش کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ مشرق میں تہذیب کا فقدان ہے اور اگر ایسا ہے تو وہاں تہذیب پھیلانا مغربی استعمار کا ہی کام ہوا نہ؟ اگر آپ نے ایسے خاکوں کا عملی نمونہ اپنے خطے میں دیکھنا ہے تو میرے استاد محترم ڈاکٹر طارق رحمان کی کتاب Language and Politics in Pakistan کا مطالعہ کیجیے۔ سب کچھ سمجھ آ جائے گا۔ مگر فی الحال اس خاکہ تراشی کی طاقت کو یاد رکھیے جس سے سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
اب چلتے ہیں سرد جنگ کی طرف جب مغرب اور مسلم انتہا پسند جنگجو اتحادی تھے۔ مسلم دنیا میں سوویت نواز سیکولر حکمرانوں کا غلبہ تھا اور ان کے خلاف ان جنگجوؤں کا استعمال جاری تھا۔ ایسا ہی ایک ملک افغانستان تھا۔ ان دنوں مغربی میڈیا پر ان جنگجوؤں کو بہادر آزادی پرست ہیروز کے طور پر دکھایا جاتا اور ان کی کوئی برائی کسی کو نظر نہ آتی تھی۔
ایسے میں ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا
The Man Who Saw Tomorrow.
یہ ڈاکومینٹری فرانسیسی نجومی نوستراداموس کی پیشن گوئیوں پر محیط ہے۔ جہاں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس کی ماضی کی پیشنگوئیاں کامیاب رہیں وہیں مستقبل کے بارے میں دعوے بھی کیے گئے۔ اس آخری حصہ اہم ہے جس میں فلم کے مطابق نپولین، اور ہٹلر کے بعد ایک تیسرا جابر حکمران کا ظہور ہوگا جس کا تعلق اسلام سے ہوگا۔ اور یہ حکمران ایٹم بم کا استعمال کرے گا، مغرب کو اس کے گھٹنوں پر لے آئے گا۔ پھر مغرب اور روس مل کر اس کو تباہ کر دیں گے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ اس فلم میں دی گئی کوئی پیشنگوئی درست ثابت نہیں ہوئی مگر 1981 میں جب یہ فلم جاری ہوئی تو اس کا اثر دیدنی تھا۔ کہتے ہیں کہ 1988 میں امریکی ریاست کیلیفورنیا میں فلم نےاس لیے ریکارڈ بزنس کیا کہ اس سال اور ریاست کے بارے میں اس نےزلزلے کی پیشن گوئی تھی۔
نوستراداموس نے صلیبی جنگوں کے زمانے میں پیشن گوئیاں کی تھیں۔ اس زمانے میں اسلام سے ٹکراؤ جاری تھا اور مسلمان ایک طاقت تھے۔ پہلی جنگ عظیم تک رہی سہی طاقت زائل ہو چکی تھی۔ ماضی کے کباڑ خانے میں آپ کو ایسے بے شمار مفروضے مل جائیں گے جن کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس کباڑ کو کوئی ذہن سازی کے لئے نکال لایا تھا۔ سائیکالوجی میں اس ذہن سازی کو پرائمنگ
priming
کہتے ہیں۔ کوئی تو تھا جو مغرب میں یہ ذہن سازی کر رہا تھا کہ سوویت یونین کے بعد اگلا دشمن مسلمان ہوگا۔ اس وقت صرف ایک مغربی اتحادی ایسا تھا جس کا مسلمانوں سے تنازعہ تھا۔ بعد میں دو ہو گئے۔ ان کا ذکر تھوڑی دیر بعد۔
سرد جنگ ختم ہو گئی۔ یونی پولر ورلڈ آرڈر کا ذکر ہونے لگا۔ پروفیسر فرانسس فوکویاما نے
End of History
نام کی کتاب لکھ دی جس میں کہا گیا تھا کہ مغربی اقدار جیسے جمہوریت اور انسانی حقوق اب دنیا بھر میں عام ہوں گے۔ ایسے میں 1992 میں سموئیل ہنٹنگٹن نامی ان کے استاد امریکن اینٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ نامی تھنک ٹینک گئے اور وہاں "تہذیبوں کے ٹکراؤ" کے نام سے ایک تقریر داغ دی۔ یہ عجیب بات ہے کہ موصوف اعتدال پسند لبرل سمجھے جاتے تھے اور یہ انسٹی ٹیوٹ ایک رجعت پسند تھنک ٹینک ہے اور مغرب میں اس بات کو عجیب نظروں سے دیکھا گیا۔ اس مقالے کا مفہوم یہ تھا کہ مغربی کامیابی دیرپا نہیں اور بہت جلد اس کو نئی طاقتوں سے برسر پیکار ہونا پڑے گا۔ اب یہ ٹکراؤ ملکوں کا نہیں تہذیبوں کا ہوگا۔ اور تہذیبوں کا تصور جو اس نے مشہور تاریخ دان ٹائن بی سے مستعار لیا اس میں تہذیب کو انسانی ترقی کے معیار کے طور پر نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ ٹائن بی کی شان میں میں کسی اور دن کلمات کہوں گا کہ یہ صاحب بھی ایک عجوبہ تھے مگر تہذیب کی یہ تعریف اس لیے استعمال کی گئی تاکہ مستقبل کے دشمنوں کی ایجاد کی جا سکے۔ فرمایا اب اسلام اور چین سے ٹکراؤ ہوگا۔ چین کے لئے موصوف نے کنفیوشن تہذیب کے نام کا انتخاب کیا۔ اس مقالے کو طاقتور امریکی جریدے فارن افیئرز نے 1993 میں آب و تاب کے ساتھ مضمون کے طور پر شائع کیا۔ اس وقت اس جریدے کے ایڈیٹر فرید زکریا نام کے ایک بھارتی نژاد نام کے صاحب تھے جو ہنٹنگٹن کے ہی شاگرد تھے اور آج بھی سی این این کی جان نہیں چھوڑتے۔
ہنٹنگٹن نے جب اسے 1996 میں کتاب کی صورت دی تو مائیکل ڈبڈن نامی مصنف کی کتاب ڈیڈ لگون سے ااقتباس بھی شامل کیا جس میں لکھا تھا کہ جو دشمن سے نرمی کرے گا وہ اپنی قوم، اپنے خاندان، اپنی ثقافت سے غداری کرے گا اور ایسے غدار کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔
یہ تاریخیں اور تعریفیں دونوں یاد رکھیے گا کام آئیں گی۔
آپ سوچیں گے مسلمانان عالم تو آج بھی پھٹے حالوں میں ہیں، اس وقت بھی مغرب کو کیا نقصان دے سکتے ہوں گے؟ مسلمان ریاستیں بے شک ایسی ہی ہیں مگر ظاہر ہے نظر ان جنگجوؤں پر تھی جن کا حقہ پانی حال ہی میں بند ہوا تھا۔ یہ ایک دہری ذہن سازی تھی۔ غریب کو کہا کہ تم تو بہت اہم ہو اگر لڑو تو تم بھی امیر بن سکتے ہو۔ غریب بیچارہ اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لئے لڑ کر مر جائے۔ اور امیر کو کہو دیکھو یہ سر اٹھاتا ہے اس لیے تمہارا دشمن ہے اس کو کچلو۔ اب اگر جنگجوؤں کی پرائمنگ ہو رہی ہےتو ظاہر ہے ان سے امن مارچ کی تو امید نہیں، دہشت گردی ہی کی ہوگی۔
اگر آپ اس دو دھاری پرائمنگ کو سمجھنا چاہتے ہیں تو سوچیں کہ مارکس اور چیرمین مائو کے نظریات پر بنا آج کا چین جس کو ماضی سے کچھ خاص شغف نہیں اپنے ثقافتی سینٹرز کو کنفیوشس سینٹر کیوں کہتا ہے؟
اب بات کر لیتے ہیں ان دو ممالک کی جو امریکہ کے قریبی ساتھی بن گئے۔ گیارہ ستمبر سے بہت پہلے صرف دو ملک تھے جن کو مسلمانوں سے کافی مسئلہ تھا۔ یہی دونوں دہشت گردی کی اصطلاح بھی بے جا استعمال کرتے تھے۔ اسرائیل کو عرب دنیا خاص کر فلسطینیوں سے مسئلہ تھا۔ اسی کی دہائی کے آخر تک انتفادہ شروع ہو چکا تھا۔ دوسرا ملک بھارت جس کے خلاف اسی دہائی میں کشمیری آزادی کی جدوجہد بھی شروع ہو چکی تھی۔ دہشت گردی کا لفظ ان کی لغت میں اس لیے تھا کہ برطانوی سامراج ان کی آزادی پسند تحریکوں کو 1940 کی دہائی میں دہشت گرد کہہ چکا تھا۔
نائن الیون سے پہلے انیس سو پچانوے چھیانوے میں جارج ٹینٹ کو سی آئی اے کا سربراہ بنایا گیا۔ ٹینٹ اینٹی ٹیرر ایکسپرٹ سمجھا جاتا تھا۔ اس کی اپائنٹمنٹ بھی ایک لمبی داستان ہے جس کا ذکر کسی اور دن سہی۔ اس کے بننے کے بعد بھارت اور اسرائیل کے ساتھ بھی رابطے تیز ہو گئے اور امریکہ اور بھارت قریب آنے لگے۔ یہاں تک کہ کارگل کے دوران امریکہ نے پاکستان کے خلاف بھارت کا ساتھ دیا۔ 1996 میں ہی اسامہ بن لادن بھی سوڈان چھوڑ کر افغانستان آ گیا۔ اب کیا تھا ہر طرف دہشت گردی کی بات ہونے لگی۔ نائن الیون کے بعد تو دہشت گردی کے لفظ کو صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔
پھر پروپیگنڈہ کی ایسی لہر چلی کہ آج تک ختم نہیں ہوئی۔ 2014 میں جب مودی گورنمنٹ طاقت میں آئی تو جیسے اسلاموفوبیا کو ایک تازہ دم انجن مل گیا۔ گزشتہ کئی سالوں میں من موہن سنگھ نے بھارت کی سافٹ پاور کو کافی بڑھاوا دیا تھا۔ اب یہ ثقافتی طاقت مسلمانوں کو کھلے عام بدنام کرنے لگی۔ ایسے میں کچھ عجیب و غریب کام بھی ہوئے جن کے بارے میں زیادہ تذکرہ ہمیں سازشی مفروضوں کی طرف لے جائے گا۔ جو مناسب نہیں۔ بس یہ سمجھ لیجیے جب بھی بھارت یا کسی مسلمان مخالف قوت کو ایک ایسے واقعے کی ضرورت پڑی جس سے اس کو فائدہ ہوتا، ہمارے ہی مذہب کا نام لینے والوں نے وہ موقع پیدا کر دیا۔ بھارت اور اسرائیل دونوں کا بیانیہ پھلتا پھولتا رہا اور مسلمان مزید مشکل میں آتے رہے۔
آج بھی یہی حال ہے۔
اب اسلاموفوبیا کی اقسام کے بارے میں بھی بات ہو جائے۔ آپ نے شاید غور کیا ہو کہ جو لوگ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں وہ دو طرح حملہ کرتے ہیں۔ یا تو وہ جسمانی، ذہنی یا مالی سالمیت کو خطرے میں ڈالتے ہیں یا پھر اسلامی علامتوں جیسے مساجد، عبایہ یا نظریات پر حملہ کرتے ہیں۔ پھر یہ پروپیگنڈہ بھی پھیلاتے ہیں کہ مسلمان کسی امن پسند جمہوری معاشرے کا حصہ نہیں رہ سکتے۔ بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جس معاشرے میں مسلم پچاس فیصد سے اوپر گئے وہاں نہ جمہوریت رہی اور نہ ہی امن۔ ان دونوں قسم کے حملوں کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کا کسی طاقتور معاشرے میں کوئی اثر نہ ہو اور اگر ہو سکے تو وجود ہی نہ ہو۔ اس طرح بھارتی انتہا پسند وہاں پر اپنا رسوخ استعمال کر کے مسلم ممالک کو بھی کمزور کر سکیں گے۔ اس کام میں انہیں اسرائیلی انتہا پسند اور دیگر شدت پسندوں کی بھی مدد حاصل ہے۔
طریقہ واردات کو بھی سمجھیے۔ اسلامی علامتوں اور نظریات پر آزادی اظہار کے نام پر حملہ کرو تاکہ مسلمان مشتعل ہو کر کوئی پرتشدد کام کر گزریں۔ اور پھر یہ غیر مسلم عوام کو مشتعل کریں اور کہیں ہم نہ کہتے تھے کہ ان کو یہاں نہ رہنے دو، یہ نقصان کریں گے۔ اب ان کو نکالو یہاں سے۔ پھر جو تحمل کا دامن نہیں چھوڑنا چاہتے ہوں وہ پالیسی کے ذریعے آپ کو بے دخل کرنے کی کوشش کریں اور جو شدت پسند ہیں وہ آپ پر حملہ کر کے نقل مکانی پر مجبور کریں۔ اور اگر کوئی لیڈر آپ کی طرف داری کرے، اسے بے عزت کر کے نکالا جائے۔ جذباتی لوگ ہمیشہ ہی ان کے دھوکے میں آ جاتے ہیں اور اپنی کمیونٹی کا نقصان کر دیتے ہیں۔ اس سازش کو سمجھیے۔
دہشت گردی کی جنگ نے ان ظالموں کو ہر طرح کا تحفہ دیا۔ وہ پھلتے پھولتے رہے اور مسلمان پستے رہے۔ ان کو مسلمانوں سے اتنی نفرت ہے کہ بارک حسین اوبامہ کو اس لیے برداشت نہیں کر پائے کہ اس کے نام میں حسین آتا ہے حالانکہ وہ عیسائی ہیں اور انہوں نےان کی ہر خواہش پر عمل کیا۔
دو بندوں نے اس معاملے کی کایا پلٹ دی۔ اگر آپ سپینسر ایکرمین کی شاندار کتاب "رین آف ٹیرر" پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ صدر ٹرمپ کو جو قوتیں پہلی دفعہ حکومت میں لائیں وہ مسلمانوں پر پابندی لگوانا چاہتی تھیں اور ٹرمپ کی تمام ٹیم ہی مسلم مخالف قوتوں پر منحصر تھی۔ کتاب پڑھیں تو تمام کابینہ کی تاریخ کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ پھر بھی داعش کا صفایا کر کے ٹرمپ نے دہشت گردی کی اسلاموفوبیا انڈسٹری کو ختم کر دیا۔ شاید اسی لیے انہیں پہلے ہٹایا گیا۔ پھر صدر بائیڈن نے بھی پالیسی نہیں بدلی اور افغانستان سے فوجیں واپس بلا لیں۔ بھارتی لابی اور اسرائیل کے نتن یاہو کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ غزہ اور دیگر ملکوں میں اسرائیل نے اتنا ظلم اس لیے بھی کیا اور اس کی نشریات بھی چلنے دیں تاکہ مسلم دنیا میں غم و غصہ پھر دہشت گردی کا روپ دھارن کر لے۔ اور یہ پروپیگنڈہ کی صنعت پھر جاری ہو جائے۔
میرا یہ استدلال ہے کہ سالوں اس دلدل میں دھنستے رہنے کے بعد مسلمان آج جہاں کھڑے ہیں اس کو ابتدائی یا مکی دور ہی سمجھا جانا چاہیے۔ اس لیے جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہوگا۔ مسلم شناخت تب ہی ہے جب مسلمان زندہ ہوں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مشتعل کرنے کی چالوں میں نہ آیا جائے اور نہ ہی اپنے تشخص کی بے جا تشہیر کی جائے۔ جیسا دیس ویسا بھیس رکھیے اور خاموشی سے اپنی طاقت، مالی حیثیت اور اپنا اثر و رسوخ بڑھائیے۔ غیر مسلموں میں دوست پیدا کیجیے۔ اگر آپ کے ارد گرد کسی مسلم کمیونٹی پر حملہ ہو تو ضرور پر امن آواز اٹھائیے۔ مگر آپ کی جذباتیت ہر کسی کو غرناطہ کی طرح غرق کر سکتی ہے یہ یاد رکھیے۔ یہ بھی یاد رکھیے کسی غیر مسلح شہری پر تشدد کرنا غلط ہے،چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ اسلام کا تو مطلب ہی امن ہے۔
❤️
👍
😮
🙏
😂
😢
146