Farrukh K Pitafi

Farrukh K Pitafi

380.8K subscribers

Verified Channel
Farrukh K Pitafi
Farrukh K Pitafi
February 3, 2025 at 08:40 AM
پیش ہے دامن کوہ کی چوتھی قسط۔ پڑھئے ۔ پسند آئے تو لائیک اور شیئر کیجئے ۔ اور اپنی رائے سے بھی نوازئے۔ جستجوئے منزل اور کٹھن راہیں دامن کوہ -قسط 4 امریکہ میں ایک کہاوت ہے: It is hope that kills you. یعنی امید ہی وہ چیز ہے جو آپ کو مار ڈالتی ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کا امید سے تعلق بہت گہرا ہے—اتنا گہرا کہ جب بھی "امریکن ڈریم" یا "امریکی خواب" کی بات کی جاتی ہے، تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی بھی امریکی شہری اگر محنت کرے تو خوشحال ہو سکتا ہے اور دنیا بھر کی خوشیاں حاصل کر سکتا ہے۔ شاید اسی لیے امریکی "اعلانِ آزادی" (Declaration of Independence) نامی بنیادی دستاویز میں زندگی اور آزادی کے حقوق کے ساتھ "خوشی کے تعاقب" (Pursuit of Happiness) کو بھی جوڑا گیا ہے۔ ذرا سوچیں، ہمارے دساتیر ہمیں ہماری ذمہ داریاں سمجھانے سے نہیں تھکتے، اور یہ امریکی دستوری دستاویز ڈھائی صدی قبل ہی حقوق، خوشیوں اور خوابوں کو آئین کی بنیاد بنا رہی تھی! تو صاحبو، زندگی میں خوابوں اور امیدوں کی وجہ سے بہت سی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں، مگر جب بھی اس محنت کا ثمر ملتا ہے تو اس سے لذیذ کچھ نہیں ہوتا۔ شاید اسی لیے پروانے شمع کی روشنی کے پیچھے مرے جاتے ہیں۔ زندگی کا ایک اور باب زندگی کا ایک اور اہم باب بھی ہے جس پر کم ہی لوگ غور کرتے ہیں، مگر یہ نہایت ضروری ہے۔ اگر یہ راز سمجھ آجائے تو صعوبتوں میں بھی لذت آ جاتی ہے۔ اور وہ باب ہے مقصدیت کا۔ اسے سمجھنے کے لیے آپ کو فکر کے تالاب میں گہرے غوطے لگانے ہوں گے۔ تیار ہیں؟ وکٹر فرینکل آسٹریا کے ایک نامور ماہرِ نفسیات اور نیورولوجسٹ تھے۔ ان کی کتاب Man’s Search for Meaning (انسان کی تلاش برائے معنی) دنیا بھر میں مشہور ہوئی اور آج بھی بے شمار لوگ اس سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ ہوا ہے یا نہیں، مگر اگر ہوا ہے تو اسے ضرور تلاش کر کے پڑھیے، اور اگر نہیں ہوا تو یہ ایک بڑی زیادتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات میں کئی نامور شخصیات گزری ہیں—فرائیڈ، ایڈلر، یونگ—مگر فرینکل کی خاص بات ان کی زندگی کے مد و جزر ہیں۔ وہ مذہب اور نسل کے اعتبار سے یہودی تھے، اور جب نازی جرمنی اپنے عروج پر تھا، تب انہیں بھی گرفتار کر کے حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ ان عقوبت خانوں کا مقصد قیدیوں کو ذہنی اور جسمانی اذیت دے کر ان کی عزتِ نفس اور شناخت کو مٹا دینا تھا۔ تشدد کی بنیاد پر قیدیوں کو مجبور کیا جاتا کہ وہ اپنے ہی ساتھی قیدیوں پر مظالم ڈھائیں۔ بہت سے لوگ اس ظلم کا شکار ہو کر مر گئے، اور بہت سے پاگل ہو گئے۔ مگر فرینکل کو ایک اہم احساس ہوا—یہ کہ اذیت دینے والوں کا اصل لطف قیدیوں کے رونے، بلبلانے اور ٹوٹنے میں تھا۔ گویا، اگر آپ ان کی اذیت پر ماتم کریں تو آپ انہی کی منشا پوری کر رہے ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ یہ تھا کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا تھا، وہ ان کے اختیار میں نہیں تھا، مگر وہ اس پر کس طرح ردِ عمل دیتے ہیں، یہ ان کے اختیار میں تھا۔ اس ادراک نے انہیں ذہنی طور پر مضبوط کر دیا، اور ان کا رویہ ایسا تھا کہ دشمن بھی حیران رہ گیا۔ نہ صرف انہوں نے خود کو سنبھالا، بلکہ بالآخر اس عذاب سے چھٹکارا بھی حاصل کر لیا۔ مقصدیت اور لوگو تھیراپی فرینکل نے یہ دریافت کیا کہ زندگی کا اصل مقصد صرف کسی معنی کو پا لینا نہیں، بلکہ اس معنی کی تلاش اور تعاقب ہی زندگی کو دل پذیر بناتا ہے۔ اسی تصور پر انہوں نے Logotherapy (لوگو تھیراپی) کی بنیاد رکھی۔ اس تھیراپی میں مختلف تکنیکیں استعمال کی جاتی ہیں، جیسے: سقراطی مکالمہ (Socratic Dialogue) متضاد ارادہ (Paradoxical Intention) ڈی ریفلیکشن (Dereflection) — اس میں انسان کو اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنی مشکلات سے توجہ ہٹا کر زندگی میں کسی اور معنی خیز چیز پر توجہ مرکوز کرے۔ میرا ماننا ہے کہ ہر شخص کو فرینکل کی کتاب کم از کم ایک بار ضرور پڑھنی چاہیے۔ اس کا بنیادی پیغام یہی ہے کہ اگر زندگی کا مقصد حاصل کر لیا جائے تو جنگ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اصل چیز تو وہ سفر ہے، وہ لمحے ہیں جب آپ ہار ماننے کے قریب ہوتے ہیں، جب آپ روتے ہیں، جب آپ سسکیاں لیتے ہیں—یہی لمحات تو زندگی کو رنگین بناتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی ایسا ناول پڑھا ہے جس میں دوسرے صفحے پر ہی ہیرو اپنی اصل منزل حاصل کر لے؟ اگر ایسا ہو جائے تو پڑھنے کو کیا رہ جائے گا؟ زندگی میں بڑے خواب دیکھنا سیکھو زندگی کے آغاز میں ایک دلچسپ سبق سیکھا تھا، کہاں سے سیکھا اور کس سے سیکھا، یہ کسی اور دن بتاؤں گا۔ مگر سبق یہ تھا کہ اپنی عقل اور صلاحیتوں کے مطابق منزل کا تعین کرو اور پھر چل پڑو۔ پھر رُکنا نہیں۔ جو رُک گیا، وہ سمجھو مِٹ گیا۔ منزل کے بارے میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ زندگی کے تھپیڑے خود ہی راستے درست کر دیتے ہیں۔ بس ایک چیز ضروری ہے—بڑا سوچو! اگر آپ کرپشن کا ارادہ نہیں رکھتے تو اپنے لوکل تھانے کا انسپکٹر بننے کو زندگی کا مقصد نہ بنائیں۔ اس سے زندگی کی ساری ضروریات پوری نہیں ہوں گی۔ اور یاد رکھیں، سفر شروع کرنے سے پہلے اپنی زندگی کے اصول طے کر لیں۔ کمزور لوگ ہی کرپشن کرتے ہیں، کیونکہ ان میں نظام کو بدلنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ زندگی طویل ہے، ممکن ہے کچھ مواقع پر آپ کو اپنے اصول وقتی طور پر معطل کرنے پڑیں، مگر فکر نہ کریں۔ جیسے ہی موقع ملے، انہیں دوبارہ اپنا لیں۔ کیونکہ آپ کے اصول ہی آپ کا اندرونی سچ ہیں، اور آپ ان سے دور بھاگ کر زیادہ دور نہیں جا سکتے۔ رچرڈ باخ اور جاناتھن لیونگسٹن سیگل میں نوجوانوں کو اکثر رچرڈ باخ کے مختصر ناول Jonathan Livingston Seagull پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ یہ ایک ایسے سیگل (پرندے) کی کہانی ہے جو پرواز کے نئے امکانات دریافت کرنا چاہتا ہے۔ وہ صرف خوراک تلاش کرنے اور زندہ رہنے کو کافی نہیں سمجھتا، بلکہ پرواز کے فن میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس غیر روایتی سوچ کی وجہ سے اسے اپنے جھنڈ سے نکال دیا جاتا ہے، مگر وہ ہمت نہیں ہارتا۔ وہ دوسرے سیگلز کو تلاش کرتا ہے جو اس جیسے خواب دیکھتے ہیں، اور ان کے ساتھ مل کر نئی بلندیوں کو چھوتا ہے۔ وہ ایک دانا سیگل چیانگ سے ملتا ہے، جو اسے سکھاتا ہے کہ اصل آزادی جسمانی حدود سے ماورا ہوتی ہے۔ یہ کہانی کئی اہم اسباق پر مشتمل ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہر اس شخص کے لیے ضروری مطالعہ ہے جو اپنی زندگی میں کچھ بڑا کرنا چاہتا ہے۔ نتیجہ: راستہ طویل ہو سکتا ہے، مگر رکنا نہیں کسی کا قول ہے: "جب آپ کسی عظیم مقصد کے لیے نکلتے ہیں، تو پہلے لوگ آپ کو پاگل کہتے ہیں، پھر آپ سے لڑتے ہیں، اور پھر اچانک دنیا بدل جاتی ہے۔" سفر لمبا ہو سکتا ہے، منزل دور ہو سکتی ہے۔ تو کیا انسان ہتھیار ڈال دے؟ یا لڑتا رہے؟ جواب آپ کو پہلے ہی معلوم ہے! دنیا صرف ثبوت کو مانتی ہے۔ حتیٰ کہ آپ کے اپنے بھی، کیونکہ وہ بھی دنیا کا ہی حصہ ہیں۔ وہ اکثر آپ پر یقین نہیں کریں گے۔ مگر اگر آپ کو اپنی سچائی کا علم ہے، تو بس چلتے رہیں۔ یہی ہے مقصدیت کا سفر—یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں، مگر اگر آپ میں ہمت ہے، تو نکل پڑیں حق اور سچ کی تلاش میں۔ شاید آپ کی قربانیاں دنیا کو بدلنے میں مدد دے سکیں! نوٹ: یہ مضمون پسند آئے تو اپنا فیڈ بیک مندرجہ ذیل ای میل پر دیں۔ [email protected] (اس مضمون کو آپ کسی بھی جریدے میں چھاپنا چاہیں تو کسی اجازت کے بغیر ، من وعن بشمول انتساب چھاپ سکتے ہیں)
❤️ 👍 🙏 😢 😂 😮 203

Comments