Kitab Nagri Urdu Novels
Kitab Nagri Urdu Novels
January 29, 2025 at 12:00 PM
                  قلبِ جنون🥀🍁                 (تجھے چن لیا سیزن 2)   Episode #1 .... ازقلم آفرین شبیر۔۔۔۔🥀🍁 یہاں امام صاحب نے عید کی نماز کا اختتام کیا وہاں سب نے اٹھ کہ ایک دوسرے کو گلے لگاتے مبارک باد دینی شروع کردی۔۔۔۔ مسجد کہ صحن میں حنان  بھی اپنی دعا مانگتے اٹھتے اختر صاحب کی طرف بڑھا انھوں نے اپنی بازوں کو کھولتے اسے گلے سے لگایا۔۔۔۔ سالوں میں ایک عید کا دن ہوتا تھا جب وہ دونوں باپ بیٹے ایک دوسرے کے گلے حق سے لگتے تھے۔۔۔۔۔ عید مبارک میرے شیر۔۔۔۔" اختر صاحب نے اسکے کمر تھپتھپائی تھی۔۔۔۔ان سے ملتا وہ وہاب صاحب کی طرف بڑھا انھوں نے بھی محبت سے اسے گلے لگایا۔۔۔۔۔ بسام بھی لائن میں کھڑا تھا سنان سے گلے ملتے حنان نے بسام کو گلے لگایا۔۔۔۔۔۔ عید مبارک بھائی۔۔۔۔" بسام نے مسکراتے اسے مبارک باد دی۔۔۔ تمھے بھی عید مبارک۔۔۔۔" اسنے اپنے سنجیدہ لہجے میں مبارک باد دیتے سب نے اب گھروں کا رخ کیا تھا جہاں ان کی بیویاں  انتظار کررہی تھی۔۔۔۔ گاڑی گھر کہ قریب رکی سب سے پہلے وہاب اور اختر صاحب اتر کہ اندر بڑھے۔۔۔۔ سنان نے دور سے حارث اور ماریہ کو آتا دیکھا تو وہ بھی اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔ حنان اور بسام آخر میں اندر کی طرف حنان نے اندر قدم رکھا تو ایک دم الماس سے ٹکراتے ٹکراتے بچا ۔۔۔ بھائی عیدی۔۔۔۔۔" اسنے فٹ سے اپنا مطالبا پیش کیا۔۔۔۔ پیچھے تمھارا شوہر آرہا ہے پہلے اسکی جیب خالی کرو۔۔۔۔" اسکا شرارتی انداز بھی سنجیدہ تھا۔۔۔۔۔ وہ کہتے آگے بڑھ گیا اپنی موم اور چچی سے عید ملنے۔۔۔۔۔ الماس وہی کھڑی بسام کو انتظار کرنے لگی ۔۔۔۔۔ تبھی بسام جیب میں کچھ ٹٹولتا اندر آیا۔۔۔۔ الماس ایک دم اس کہ سامنے آئی۔۔۔۔۔ عیدی ".. چٹکی بجاتے اسنے اپنا مطالبا کیا۔۔۔۔ عیدی منگ رہی یا بھتہ ۔۔۔۔۔ نہ سلام نہ دعا سیدھا عیدی۔۔۔۔نادیدی ۔۔۔۔" اسکا دبنگ انداز دیکھ بسام نے تنز کیا۔۔۔۔ میری عیدی بسام ۔۔۔" اب کہ اسکا انداز دھیما تھا۔۔ بسام نے اسے مکمل دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔ آسمانی رنگ کے سوٹ میں ہلکے گیلے بالوں کو کھلا چھوڑے دوپٹے کو کندھوں پہ پھیلائے میک کہ نام پہ لپسٹک اور کاجل لگائے وہ بسام کہ دل میں اتری تھی۔۔۔۔ ایسے نہیں پہلے عید تو ملو۔۔۔۔" بسام نے دونوں بازوں کو کھول اسے دعوت دی تھی۔۔۔۔۔ الماس کہ گال گلابی ہوئے اس نے اپنے پیچھے سب کو دیکھا جہاں سب اسکے باپ اور سسر بیٹھے تھے۔۔۔۔۔ بسام ۔۔۔۔ اسنے آہستہ سے پکارا۔۔۔۔۔ ہاں الماس ۔۔۔۔ عید ملو عیدی لو۔۔۔" بسام نے چھیڑا اسے.   روم میں۔۔۔یہاں مجھے شرم آرہی۔۔۔۔" الماس کہ گال اور گلابی ہوئے تھے۔۔۔۔ ایوی تم اتنی شرمیلی۔۔۔۔۔" بسام نے اسکے ہاتھ کو پکڑ کہ گلے سے لگایا۔۔۔۔۔اسکی چوڑیوں کا شور ہوا۔۔۔۔۔۔۔ عید مبارک میری ڈون۔۔۔۔" اسکے گرد حصار بناتے بسام نے اسے وش کیا ۔۔۔۔۔ الماس نے اس کہ کندھے پہ مکہ مارتے مسکرا کہ اسے دیکھا ۔۔۔۔ رومینس ہورہا ہے" ماریہ نے انھیں رستے میں کھڑا دیکھ ہانک لگائی الماس نے پیچھے ہونا چاہ لیکن بسام نے اسے نہ چھوڑا۔۔۔۔ جی بھابھی کوشش تو کررہے آگر آپ کرنے دیں۔۔۔۔" بسام کہ شرارتی لہجے پہ ماریہ ہنس پڑی سب نہ مڑ کہ لمحے بھر کو انھیں دیکھا تھا۔۔۔۔ اب میری عیدی۔۔۔۔" اسکا مطالبا پھر شروع ہوا۔۔بسام نے اسے حصار میں لیے جیب سے انویلپ نکال کہ اس کی طرف بڑھایا.۔۔۔۔الماس نے اسے کھول کہ دیکھا اس میں جتنے پیسے تھے وہ اسکہ لیے بہت تھے۔۔۔۔ شکریہ۔۔۔۔۔" اسکے دل کہ مقام پہ لب رکھتے وہ واپس اپر بھاگی تھی ۔۔۔۔۔۔بسام تو کچھ پل ہل نہ سکا تھا پھر اپنے کرتے پہ دیکھا تو کھل کہ مسکرایا اسکہ کرتے پہ وہ اپنا نشان چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔ (◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤ منہا ،ارحا پلیز چپ کر جائیں آپ کہ ڈیڈو آنے والے ہوں گے نہ۔۔۔۔۔۔" عزہ نے کانوں میں چھوٹے جھمکے ڈالتے مڑ کہ ان دونوں کو دیکھا جو ایک دوسرے سے شرط لگائے بیٹھی تھی کہ کون زیادہ اونچا روتا ہے  وہ ان دونوں کہ رونے سے تنگ آگئی تھی وہ دونوں 3 ماہ کی ہوچکی تھی اب جب بیڈ پہ ہوتی تو روتی تھی بس انھیں گود میں ہی رہنا ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ دو منت بیٹا مما ابھی آتی ہیں۔۔۔۔ وہ ہانک لگاتی باہر جانے لگی کہ الماس کو بلا لائے اور خود آرام سے تیار ہوجائے حنان کہ آنے تک ۔۔۔۔ اس بات سے بے خبر کی وہ آچکا تھا۔۔۔۔۔ عزہ نے دروازہ کھول کہ قدم باہر لیا اور حنان سے ٹکڑا گئی۔۔۔۔۔حنان نے اسے گرنے سے بچانے کہ لیے کمر سے تھام کہ قریب کیا کہ لے وہ اسکے گلے سے لگ گئی ہائے تجھے گلے لگا کہ  عید میٹھی ہوئی ورنہ کھیر کھا کہ بھی عید پھیکی تھی۔۔۔۔۔   وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے کان میں سرگوشی کرنے لگا اور عزہ کہ ہمیشہ کی طرح گال لال ہوچکے تھے وہ اسکے حصار میں کھڑی دھڑک رہی تھی۔۔۔۔ عید مبارک۔۔۔۔" اسکے گرد حصار بناتی مبارک باد دے چکی تھی۔۔۔۔ میری بیگم کو بھی عید مبارک۔۔۔" اسکے ماتھے کو چومتے وہ اسے سیدھا کیا نظر بھڑ کہ اسے دیکھا کالے جوڑے میں وہ دمک رہی تھی ۔۔۔۔۔ نظر اتار لینا بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔۔" اسے روم میں لاتے کہا۔۔۔۔عزہ شرما گئی۔۔۔۔ حنان میں تیار ہوجاوں آپ انھیں سمبھال لیں۔۔۔۔" اسنے معصوم سا چہرہ بنا کہ حنان کا رخ منہا ارحا کہ طرف کروایا۔۔۔۔۔ ابھی تیار ہونا ہے تم نے ۔۔۔۔ حنان نے اسے دیکھ پوچھا۔۔۔۔ جی ابھی تو صرف سوٹ پہنا ہے ۔۔۔جولری پہننی ہے" عزہ نے اسکہ علم میں اضافہ کیا۔۔۔۔۔ یار نہ کرو میری تو ابھی تم سے نظر نہیں ہٹ رہی۔۔۔۔ " وہ اتنا پیار سے بولا کہ عزہ کھلکھلا کہ ہنس دی۔۔۔۔۔ بس چوڑیاں پہن لیتی ہوں اور جھمکے ۔۔۔۔مما نے کہا ہے کہ پہلی عید ہے تو اچھے سے تیار ہوجاو۔۔" اسنے اس سے اجازت لی۔۔۔۔۔ چوڑیاں بھی پہنوں گی اور جھمکے بھی بس پھر تمھارا بندہ کہیں کا نہیں رہے گا۔۔۔۔۔" وہ پھر بچارگی سے بولا کہ عزہ ہنس دی۔۔۔۔۔" آپ زیادہ ہی رومنٹک ہوگئے ہیں۔۔۔" اب کہ حنان مسکرایا اسکی بات پہ ۔۔۔ ابھی کہاں پہلے چوڑیاں پہن کہ آو پھر بتاتا ہوں رومنٹک کسے کہتے ہین۔۔۔۔" عزہ نے شرم سے لال ہوتے چہرے سے اسے دیکھا ۔۔۔ بس کردیں حنان" چہرہ ہاتھوں میں چھپائے اسنے کہا۔۔۔۔ حنان کا قہقہہ گونجا تھا۔۔۔۔ جاو تیار ہو لو۔۔۔تب تک میں اپنی پرنسس سے عید مل لوں۔۔۔۔۔۔ " اسے آخر عزہ پہ رحم آہی گیا۔۔۔ عزہ سے ہٹ کہ وہ منہا اور ارحا کی طرف متوجہ ہوا جو پہلے سے تیار تھی۔۔۔۔ اور ان کی تیاری میں شامل چوڑیاں دیکھ وہ مسکرایا گولو گولو سے ہاتھو میں 2 3 چوڑیاں ڈالے وہ اپنے ہاتھ کبھی منہ میں ڈالتی کبھی ادھر ادھر مارتی حنان نے دونوں کہ ہاتھوں کو پکڑتے چوما تھا۔۔۔۔ ڈیڈو کی پرنسس کو عید مبارک۔۔۔۔" اب وہ ان پہ جھکا کھیل رہا تھا۔۔۔۔۔ عزہ  مسکراتی شیشے سے انھیں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔انکی عید ایسے ہی ایک دوسرے کہ سنگ میٹھی ہوگئی تھی۔۔۔۔ (◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤ سب لاونج میں بیٹھے عید کہ بعد ہونے والی بسام اور الماس کی رخصتی کہ بارے میں باتیں کررہے تھے بسام وہی موجود تھا لیکن الماس وہ اپنے روم میں تھی ارحا منہا سے حارث کھیلنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ ابھی کچھ دیر تک انھیں دعوت دینے نکلنا تھا۔۔۔۔۔ وہ سب خوش تھے بسام کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے خوشیاں واپس آگئی ہو۔۔۔۔۔ ابھی وہ بیٹھے تھے جب وقاس صاحب کی فیملی بھی وہی آگئی انکی بیٹی کی پہلی عید تھی شادی کہ بعد زیان اور آیان نے بنا کسی کو دیکھے بھاگتے ارحا منہا کہ پاس پہنچے ۔۔۔۔ ہم نے انھیں بہت یاد کیا آپی۔۔۔۔ آپ لے کہ ہی نہیں آئی انھیں۔۔۔۔" زیان نے چھوٹتے ہی گلہ کیا۔۔۔۔۔ اب تم آگئے ہو نہ مل۔لو۔۔۔" عزہ نے نرمی سے کہا۔۔۔۔جب کہ حنان نے اسے گھورا تھا جو اب اس کی دونوں بیٹیوں کہ گالوں کا ٹچ کررہا تھا زیان تو ارحا کو گود میں لیے صوفے پہ بیٹھ گیا انھیں دیکھ حارث واپس اپنی مما کہ پاس بھاگا۔۔۔۔۔وہ ابھی 3 سال کا تھا۔۔۔ وہ نہیں جانتے تھے یہ 2 ماموں بھانجی ایک ہی فطرت کہ ہونے والے تھے (◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤ کچھ دن بعد۔۔۔ ایک گھر تھا جہاں شادی کی رونقیں تھی سب ہنسی مزاق میں لگیں تھے کھلکھلا رہے تھے اور دوسری طرف دور کہیں ایک ویران سا علاقہ تھا علاقے میں عجیب سی وحثیت تھی اس علاقے میں ایک کوٹھری نما گھر میں جاو تو اس ویران سے گھر میں ایک کمرہ تھا جہاں رولنگ چیڑ پہ وہ عورت اپنے گود میں اپنے بچے کو بیٹھائے چیڑ کو جھلا رہی تھی۔۔۔۔۔ سنسان گھر میں اس کرسی کی آواز ایک عجیب سا ساز پیدا کررہی تھی جو سننے والے کو اور خوفزدا کردینے کو کافی تھا۔۔۔۔۔ سامنے کچھ تصویریں چسپا تھی اور وہ عورت اپنی گود مین بیٹھے بچے کہ کانوں میں کچھ الفاظ بول رہی تھی بدلہ بدلہ بدلہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بچہ محظ 2 سال کا ٹکڑ ٹکڑ ان تصویروں کو دیکھ رہا تھا اور ان الفاظوں کو سن رہا تھا جو اسے پوری زندگی سننے تھے اور ان پہ عمل بھی کرنا تھا ۔۔۔۔۔ عورت نے ایک نظر پھر اس ہنستے کھیلتی فیملی کو دیکھا ۔۔۔۔۔ میں آوں گی اپنا بدلہ لینے ۔۔۔ " تصویر کو دیکھ وہ کھل کہ ہنسی تھی۔۔۔۔۔ جیسے وارنگ دے رہی ہو کہ آج نہیں تو سالوں بعد تم برباد ہوگے۔۔۔۔۔۔۔وہ یاد دلا رہی تھی کہ میرا بدلہ باقی ہے۔۔۔ (◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤ 21 سال بعد۔۔۔۔ گھر میں خاموشی کا راج تھا جو کسی کو بلکل برداشت نہ تھا کمرے سے باہر ہلکا سا جھنکتے اسنے اگلا قدم باہر رکھا اور شروع ہوگئ۔۔۔۔۔   ہیلووووووووو پاکستان میں ہوں آپ کی پیاری ہوسٹ منہا حنان عرف مینو سب کے دل کی دھڑکن ۔۔۔۔ اس وقت صبح کہ بج رہے ہیں 10 اور ہمارے گھر مین تو 10 بجے جاگنا سرار گناہ ہے اور میں نے یہ گناہ کردیا ہے کیونکہ میں تو گریٹ مینو ہوں نہ۔۔۔۔ آئیں آپ کو اس گھر کہ فرد سے ملواتی ہوں۔۔۔ منہا ہاتھوں سے مائک بنائے ریپورٹنگ کرتے ساتھ والے روم میں چلی گئی۔۔۔۔روم میں آتے جیسے وہ کسی سنو وائٹ کہ کمرے میں آگئی ہو۔۔۔۔۔ ہر چیز سفید اور نیلی تھی۔۔۔۔بیچ میں ایک بیڈ تھا جس پہ وہ پیاری سی لڑکی سو رہی تھی منہا نے اس کہ چہرے سے کمبل ہٹایا سفید رنگت پہ گھنی کالی پلکھوں نے ہل چل کی بےزار سی شکل بنا کہ اس نے سامنے کھڑی اپنی جڑوا بہن کو دیکھا۔۔۔۔۔ مم۔ییی۔۔۔نننن۔۔۔۔وووو ۔۔۔۔۔ججججاو ۔۔۔۔" اسنے غصے میں اسے جھڑکا لیکن منہا جو مجال کسی کی سن لے۔۔۔ یہ ہیں میری پیاری بہن ۔۔ارحا حنان۔۔۔۔عرف عرو ۔۔۔۔ہمارے گھر کی لاڈو رانی۔۔۔۔۔ آپ کچھ کہنا چاہیں گی۔۔۔۔۔ مائک کا رخ ارحا کی طرف کیا جس نے تکیہ اس کہ ہاتھ پہ مار کمبل منہ تک لیا۔۔۔۔۔مطلب صاف تھا دفع ہوجاو.   اوو نوووو یہ تو حملے کہ موڈ میں ہے اس سے پہلے آپ کی پیاری ریپورٹر پر تششدد ہو ہم نکلتے ہیں۔۔۔۔۔۔" وہ ہواؤں سے باتیں کرتی کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔ اب اسکا رخ کچن کی طرف تھا۔۔۔۔۔ اب ہم چلتے ہیں گھر کی ملکہ کی طرف جو اس وقت نوکروں سے بھی بدتر حالت میں ہیں۔۔۔۔۔صرف اپنے ظالم شوہروں کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔ہائے یہ شوہر ۔۔۔۔" ایک ادا سے ہاتھ اپنے ماتھے تک لے جا کہ اس نے گہرہ افسوس کیا۔۔۔۔ اب وہ اسی طرح ہوائی بیان کرتی کچن کی طرف بڑھ رہی تھی کچن میں کھڑی تینوں خواتین نے ہنستے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔۔۔۔جیسے کہ رہی ہوں لو آفت اٹھ گئی ہے۔۔۔۔۔ ہیلووووو بیوٹیفل لیڈیز۔۔۔۔کیا بن رہا ہے" ۔۔۔۔وہ دھپ سی ان تینوں کہ بیچ چلی آئی۔۔۔۔۔ ناشتہ ۔۔۔" جواب عزہ کی طرف سے آیا جو اسکی اس طرح کی حرکتوں سے بہت عاجز تھی۔۔۔۔ تو ناظریں آپ کو بتاتے چلیں یہاں کھڑی یہ خاتون میری چاچی ہیں ماریہ چچی۔۔۔۔ یہ بہت اچھی ہیں جب میری شامت اپنی اماں سے آتی ہے تو یہ ہی مجھے بچاتی ہیں۔۔۔۔۔ ماریہ کہ گلے میں ہاتھ ڈال اس نے دوستانہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔ اور یہ خاتون ہیں میری پھپھو عرف مینو کا بینک ۔۔۔۔۔۔ جب مجھے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو ان کہ پاس ہی جاتی ہوں۔۔۔۔" ایک آنکھ الماس کو مارتے اسنے بات مکمل کی تو سب ہنس دیے۔۔۔۔۔ اور یہ خاتون ہیں میری ون این اونلی مما۔۔۔۔ جن کا کام صرف   ریٹائر انسپکیڑ حنان صاحب کہ نخرے اٹھانا ہیں۔۔۔۔ عزہ نے اسکہ تعارف پہ آنکھیں دیکھائی باقی سب ہنس دیے۔۔۔۔ کیا بن رہا۔۔۔۔" اپنے رپوٹر کی کیڑے کو نکال کہ اسنے وہی سے ڈش کہ ڈھکن اٹھا اٹھا کہ دیکھے۔۔۔۔ جو رات کو فرمائش کرکے سوئے تھے سب۔۔۔۔۔" الماس کہ کہنے پہ منہا نے آخری ڈش کا ڈھکن اٹھایا ۔۔۔۔ کڑہائی کس کہ۔۔۔کیاااااا حارث بھائی آگئے۔۔," منہا کی چینخ نے تینوں خواتیں کہ چودہ تبق روشن کردیے تھے۔۔۔۔۔وہ جب بھی چھٹی پہ ہوتا تو کڑہائی کی ہی فرمائش کرتا تھا۔۔۔ ہاں رات ہی واپس آیا ہے سو رہا ہوگا۔۔۔۔" ماریہ نے اپنے بیٹے کا بتایا ۔۔۔۔ منہا نے بنا کسی کو دیکھے حارث کہ کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتی یہ کس پہ چلی گئی ہے" عزہ نے اسکی دوڑ دیکھ افسوس سے کہا اسکے کہنے پہ ماریہ اور الماس ایک دوسرے کو دیکھ کہ ہنسی تھی۔۔۔۔۔ آپ کہ بھائی پہ" دونوں نے ایک ساتھ بولا عزہ نے انھیں دیکھا تو ہنس دی۔۔۔۔ اووو آج اتوار ہے وہ بھی لگا آرہا ہوگا چھچھوڑا۔۔۔۔۔" عزہ کو یاد آیا کہ اتوار کو وہ ناشتہ ان کہ ساتھ ہی کرتا تھا ۔۔۔۔ تبھی تو پوریاں اور حلواہ بنا رہی میں۔۔۔" ماریہ نے اپنے ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا جو حلواہ بنانے میں مصروف تھے۔۔۔۔۔عزہ مسکرا دی۔۔۔۔۔ وقت کا کام ہوتا ہے گزارنا۔۔۔۔اچھا ہو یا برا گزار ہی جاتا ہے۔۔۔21 سال میں ان کی زندگیوں میں کافی بدلاو آیا۔۔۔۔ گھر کہ سربراہ ایک ایک کرکہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے جو ان سب کہ لیے گہرہ صدمہ تھا۔۔۔۔۔ سفینہ شگفتہ وہاب اور اختر صاحب اپنی اپنی زندگیاں پوری کر کہ دنیا سے جا چکے تھے۔۔۔۔۔ عزہ کہ خاندان میں وقاس صاحب کہ علاوہ ہمنہ بیگم عزہ کی شادی کہ 4 سال بعد چل بسی تھی۔۔۔۔۔۔ گھر کا بڑا حنان تھا جس نے 14 سال سے گھر کو سمبھالا ہوا تھا۔۔۔۔۔جب تک بڑے تھے اس کہ بعد سارے فیصلے لینے کا حق اس کہ پاس تھا۔۔۔۔ یہاں تک کہ  زیان آیان بھی اسے ہی بتا کہ کچھ کرتے تھے۔۔ وہ میڈل کلاس سے تھورے اونچے رتبے پہ آگئیے تھے گھر میں سب کی الگ الگ گاڑیاں تھی سب کمانے لائق ہو گئے تھے۔۔۔۔۔گھر کا نظام اچھا ہوچکا تھا اور گھر میں تین رونقیں تھی۔۔۔۔ جو سب کا دل لگائی پھڑتی تھی۔۔۔۔۔۔ سب سے پہلے 24 سالہ حارث سنان تھا جو ٹو کاپی اپنے بڑے پاپا یعنی حنان پہ گیا تھا ویسا ہی غصے کا تیز جلدی سے غصے میں آجانے والا اپنی منوا کہ رہنے والا لیکن ایک چیز جو اس میں حنان سے الگ تھی وہ تھی مسکراہٹ وہ ہنسنے والی بات پہ ہنس جاتا تھا۔۔۔۔۔وہ مسکراہٹ میں کنجوسی نہیں کرتا تھا۔۔۔ پھر ارحا اور منہا تھی ۔۔۔۔ ارحا منہا کہنے کو تو جڑوا بہنیں تھی لیکن شکل سے لے کہ عمل تک کچھ بھی ملتا جلتا نہیں تھا۔۔۔۔۔ جہاں منہا کافی کونفیڈنٹ ، شرارتی اور لڑاکا لڑکی تھی وہی ارحا ایک لو کونفیڈینٹ لڑکی تھی اور اس لو کونفیڈنٹ کی سب سے بڑی وجہ اسکی زبان تھی وہ اٹک اٹک کہ بولتی تھی  ہکلا ہونے کی وجہ سے بچپن سے اسکا مزاق بنتا آیا تھا جس وجہ سے وہ لوگوں میں گھل مل نہ سکی تھی زیادہ۔۔۔۔۔۔ حنان کی وہ لاڈلی تھی ویسے تو اسے دونوں ہی پیاری تھی لیکن ارحا سے زیادہ اٹیچمنٹ تھی کیونکہ اسکی کمی کی وجہ سے حنان نے ہمیشہ اسے اپنے آغوش میں رکھا تھا اس طرح وہ باپ کہ زیادہ قریب تھی۔۔۔۔ صرف حنان نہیں وہ سب کی لاڈلی تھی گھر میں۔۔۔۔۔ سفید پھول ، سفید کبوتر بادلوں  کی وہ دیوانی تھی خود بھی وہ نرم نازک سی تھی۔۔۔۔۔اور شوق بھی ویسے تھے۔۔۔ اس کہ مقابلے منہا ہر چیز کا مقابلہ ڈٹ کہ کرنے والی اپنے باپ کہ نقشے قدم پہ چلتی تھی۔۔۔۔۔وہ بھی حنان کی طرح ایک پولیس آفیسر بننا چاہتی تھی خیر بننا تو وہ ریپوٹر بھی چاہتی ہے، وکیل بھی اور ناجانے کیا کیا۔۔۔۔لیکن عزہ کہتی ہے یہ سب بعد میں بننا پہلے انسان بن جاو۔۔۔۔ منہا کا ایک خواب بھی ہے گانا گانے کا وہ زندگی میں ایک بار بڑے پیمانے پہ کونسٹ کرنا چاہتی تھی اپنی آواز میں لوگوں کو جھومتے دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔ جس کی اجازت اسے حنان کی طرف سے نہیں تھی لیکن وہ بھی منہا تھی اپنی کر کہ دم لینے والی ۔۔۔ اللّٰہ نے جہاں ایک بہن کی آواز میں لڑکہراہٹ رکھی تھی دوسری کی آواز میں ایسا سرور رکھا تھا کہ کسی کہ بھی دل کو چھو لے ۔۔۔۔ پھر آتی ہے گھر کی سب سی چھوٹی بیٹی بسمہ بسام کی باری۔۔۔ الماس اور بسام کی بیٹی۔۔۔۔ معصوم اور ہنس مکھ سی پڑھاکو بچی سکول سے کالج تک کی ٹوپر۔۔۔۔ پیار اور محبت کی عادی بسام کی لاڈلی بیٹی ۔۔۔۔ اس کہ زیادہ کوئی شوق نہ تھے سوائے ڈاکڑ بننے کہ اور یہ گن بھی اس نے آیان سے سیکھا تھا آیان وقاس اسکا آئڈیل تھا۔۔۔۔ دوسری طرف آیان اور زیان جو کہ وقت کہ ساتھ بڑے ہوتے 31 سال کہ ہوچکے تھے لیکن ابھی تک بچپنے میں تھے اور افسوس کہ ساتھ کنوارے بھی۔۔۔ (◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤ موسم نے انگڑائی لی تو ہر طرف کالے بالوں کا راج ہوچلا خان ویلا میں رونق لگ چکی تھی۔۔۔ سب لاونچ میں جمع ہورہے تھے۔۔۔۔ ناشتے دوپہر کہ 2 بجے ہورہا تھا۔۔۔۔۔ ساری خواتین ٹیبل کھانے سے سجا رہی تھی اور سب ایک ایک کرکہ ٹیبل پہ آتے جا رہے تھے۔۔۔۔ بلیک شرٹ اور ٹراوزر میں دمکتا  وہ مینو کہ ساتھ کچھ ڈسکس کرتا چلا آرہا تھا۔۔۔۔ مینوں بولتی جارہی تھی اور وہ سن رہا تھا۔۔ وردی میں تو وہ حسین لگتا ہی تھا عام حلیے میں بھی وہ کہیں کا شہزادے لگ رہا تھا ۔۔۔۔ ماریہ نے کوئی 10 دن بعد اسے دیکھا تھا اسنے آتے آتے ہی حارث کی بلائیں لے لی تھی 5فٹ 10 انچ سے نکلتا قد صاف رنگت پہ خط نما ڈاڑھی اس پہ خوب جچ رہی تھی۔۔۔۔ اپنی کرسی سمبھالتا وہ مینو کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔ خدا کا واسطہ مینو چپ کرجاو ساری لسٹ پتا چل گئی ہے مجھے۔۔۔۔" حارث نے عاجز آتے کہا تو مینو کہ منہ کو بریک لگی اس نے ہونٹوں کو باہر نکال اسے دیکھا حارث نے مسکراہٹ دباتے اسکی ناک کہ کھینچا تھا۔۔۔۔۔ بہت بولتی ہو صبح صبح کوا کھاتی ہو۔۔۔۔" حارث نے پھر اسے چڑایا۔۔۔۔ اب نہیں بولتی میں " ہاتھ سینے پہ باندھے وہ ناراض ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ جب سیڑیاں اترتا حنان آتا نظر آیا اسکے قدموں کی آواز ہی کافی تھی کہ سب اسکی جانب متوجہ ہوئے آنکھوں پہ نظر کا چشمہ بالوں میں سفیدی لیکن جسم اب بھی چاک و چوبند تھا۔۔۔۔۔۔ عزہ تمھیں آوازیں دے رہا تھا میں۔۔۔۔" حنان نے اپنی کرسی سمبھالتے عزہ کو مخاطب کیا۔۔۔۔ نہیں تو مجھے کوئی آواز نہیں آئی۔۔۔" عزہ نے حیران ہوتے کہا۔۔۔۔ عمر کہ ساتھ ساتھ کانوں پہ اثر ہو رہا ہے تمھاری۔۔۔۔" مسکراہٹ دباتے اس نے عزہ کو چھیڑا اور وہ برا منا گئی۔۔۔۔۔۔ آپ ہیں بڈھے میں نہیں " وہ نروٹھے پن سے کہتی کچن میں چلی گئ۔۔۔ پیچھے حنان نے ہنستے اسے دیکھا وہ ریٹائرمنٹ لیتا اپنی جمع پونجی سے بزنس شروع کر چکا تھا اور زیادہ وقت عزہ کو تنگ کرنے کہ لیے گھر میں گزارتا تھا۔۔۔ تم کیوں چپ ہو۔۔۔۔" منہا کو خاموش دیکھ حنان نے ہوچھا۔۔۔ ڈیڈو لوگوں کو میری آواز نہیں پسند ۔۔۔۔" وہ اب بھی ناراض تھی حارث نے اپنے کھانے سے نظر اٹھا کہ اسے دیکھا۔۔۔۔۔ چلو کسی نے تو تمھیں یہ احساس دلایا۔۔۔۔" وہ بھی اسکی ناراضگی کو کسی خاطے میں نہ لاتے کھانا شروع کر چکا تھا حنان کی بات پہ حارث کا قہقہہ پڑا تھا اور منہا کا منہ اور پھول گیا تھا۔۔۔۔۔ منہا اور حنان کا رشتہ ایسا ہی تھا وہ باپ بیٹی کم دوست زیادہ تھے۔۔۔۔۔۔ ڈیڈو میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔۔۔۔" وہ غصے میں بولی۔۔۔ یہ تو اور اچھا ہوجائےگا۔۔۔۔۔" حنان باز نہ آیا اور حارث ہنسے جا رہا تھا۔۔۔۔۔منہا نے سر ٹیبل پہ چھپا لیا۔۔۔۔۔ میں نہیں کسی سے بات کرتی۔۔۔۔" وہ نارضگی میں بولی تبھی سنان اور بسام بھی وہاں آگئے وہ دونوں بھی ابھی ابھی اٹھے تھے۔۔۔۔ طبیعت ٹھیک ہے چندا۔۔۔۔" بسام نے اسکے سر کو پکڑتے پوچھا۔۔۔ میں تو ٹھیک ہوں لیکن میرے ڈیڈو پہ جادو کردیا ہے ۔۔اس زکوٹا جن نے۔۔۔" منہا نے منہ پھولاتے حارث کہ شکایت لگائی۔۔۔۔۔وہ دوبارہ ہنسا تھا سنان نے اسے گھورا تھا۔۔۔۔۔اور بسام وہ اس ڈرامے کو دیکھ کہ رہ گیا۔۔۔۔ جب آہستہ آہستہ سب اپنے اپنے روم سے باہر آنے لگے ایک طرف سے بسمہ ہاتھ میں کتاب لیے آنکھوں پہ گول بڑا چشمہ لگائے چلی آرہی تھی دوسری طرف آنکھیں مسلتی ارحا چلی آرہی تھی۔۔۔۔۔ میرا بچہ اٹھ گیا۔۔۔۔" ارحا نے آتے حنان کو پیچھے سے گلے لگاتے اسکے چہرے سے چہرہ ملایا ۔۔۔۔ حنان تو اس پہ قربان ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ میں کہیں آپ کی سوتیلی اولاد تو نہیں ۔۔۔۔" منہا نے منہ بنا کہ ان دونوں باپ بیٹی کی محبت دیکھی تھی۔۔۔۔ اپنی اماں سے پوچھ لو۔۔۔۔" حنان نے بنا کسی لگی لپٹی کہ کہا ارحا ہنس دی۔۔۔۔۔ با۔۔۔بااا۔۔۔۔۔ ییییییی جللتییی ہے ہمممم سے" ارحا نے اٹک اٹک کہ جملہ مکمل کیا۔۔۔۔۔جسے حنان نے بہت تحمل سے سنا تھا۔۔۔۔۔۔۔ منہا نے آنکھیں چھوٹی کیے اس میسنی کو دیکھا وہ ہنس دی ۔۔۔۔۔ بیٹا تم تو کتاب کہ ساتھ گوند کی طرح چپک گئی ہو۔۔۔۔" بسام نے اپنی لاڈلی بیٹی کو دیکھا۔۔۔۔۔ وہ تو کبھی اتنا پڑھاکو نہ تھا جتنی اسکی اولاد ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ ڈیڈ میرے امتحان آنے والے ہیں۔۔۔۔" بسمہ نے اس کہ علم میں اضافہ کیا وہ صرف سر افسوس سے ہلا گیا مطلب امتحان آنے والے ہیں وہ کمرہ بند ہونے والی تھی۔۔۔۔ حارث نے ایک نظر اٹھا کہ بسمہ کی طرف دیکھا گول گول چشمے میں سے نظر آتی اسکی چھوٹی چھوٹی آنکھیں وہ دیوانہ تھا اسکا کچھ سالوں پہلے وہ اس کہ دل میں اپنی جگہ بنا چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔ بسااااام ادھر مت بیٹھو۔۔۔۔" الماس نے کچن سے چہرہ نکال کہ بسام کو دیکھا۔۔۔۔ ہیںنن؟؟ پھر کدھر بیٹھوں۔۔۔۔" اس نے اپنے ارد گرد دیکھا۔۔۔۔۔۔ کہیں نہیں بیٹھو۔۔۔۔۔ یہاں کچن میں آو اور برتن دھو۔۔۔۔۔" الماس کی بات پہ اس نے منہ بنا کہ الماس کو دیکھا باقی سب ہنس دیے۔۔۔۔۔ آج تو چھٹی ہے نہ۔۔۔۔" وہ بچارگی سے بولا۔۔۔ نہ نہ کوئی چھٹی نہیں آجاو چپ کر کہ۔۔۔الماس حکم دیتی چھپاک سے کچن میں گئی۔۔۔۔ چچچچچچاااااااچوووووو. آاااپپپپ کہ برررررتنننن ااانننتظاار میں ہیںن۔۔۔" ارحا نے ہنستے کہا۔۔۔۔۔ وہ ایسے ہی تھے بلکل نہیں بدلے تھے بسام منہ بناتا نا چاہتے ہوئے بھی کچن میں چلا گیا۔۔۔۔ پیچھے سب ہنس دیے۔۔۔۔۔ سواگد نہیں کرو ہمارا۔۔۔۔۔"  وہ سب ناشتے میں مصروف تھے جب دروازے کی طرف سے آواز آئی منہا کی تو بانچھیں کھل گئی اپنے فیورٹ ماموں کو دیکھ کہ مامووووو" منہا اٹھ کہ ان کی طرف بھاگی تھی جہاں وہ دونوں اپنی دلکش وجاہت لیے کھڑے تھے عمر کہ ساتھ ان کی شخصیت میں نکھار آیا تھا ۔۔۔ کسی کو بھی دوبارہ مڑ کہ دیکھنے پہ مجبور کر دینےوالے تھے دونوں۔۔۔۔۔ منہا کہ قریب جانے پہ زیان نے اسے گلے لگایا اور آیان نے اسکہ گال کھینچے ۔۔۔۔۔وہ انھیں لیے اندر آئی۔۔۔۔ سب سے سلام لیتے وہ بیٹھنے لگے جب حارث نے کھانا چھوڑ انھیں دیکھا۔۔۔۔ آپ یہاں آئے کس لیے" حارث نے انھیں دیکھ فقرہ بولا۔۔۔۔آیان تو بسمہ کہ ساتھ والی کرسی کھینچ کہ بیٹھ گیا لیکن زیان نے اسے دیکھا۔۔۔۔ آپ نے بولایا اس لیے" زیان نے فرضی کالر اٹھائے۔۔۔۔ ہم نے نہیں بلایا۔۔۔۔ چلیں خیر آئیں ہیں تو کام بھی بتائے۔۔۔۔" حارث اب کھانا چھوڑ سوال جواب کررہا تھا سب ان کہ نوک جھوک سے لطف اندوز ہورہے تھے۔۔۔۔۔ نا نا نا پہلے اپنی ممی سے کہو اچھا سا ناشتہ کروایے۔۔۔۔" زیان بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔۔۔۔۔سب ہنسسس دیے کچن سے ماریہ ایک ٹرے اٹھائے آرہی تھی۔۔۔۔۔ مممماااامووووو آپ ڈوووونٹ ننننہیںنن لائے۔۔۔۔" ارحا نے ان دونوں کو دیکھ پوچھا ۔۔۔۔۔ اوووو آیان ڈونٹ۔۔۔۔" زیان نے سر پہ ہاتھ مارا۔۔۔۔ لایا ہوں بیٹا کار میں ہے ۔۔۔۔۔جاو لے کہ آو۔۔  " آیان نے ارحا کو جواب دیتے زیان سے کہا۔۔۔۔ ببببعععدد مممیںننن ا۔۔۔۔ااا۔۔پپپ ناشششتہ کرلیییں۔۔۔۔" ارحا نے اسکے کھانے سے ہاتھ کھینچ لینے پہ کہا تو زیان دوبارہ ناشتے کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔۔اب تینوں خواتیں بھی ٹیبل پہ آگئی تھی۔۔۔۔ ابو کیسے ہیں۔۔۔" عزہ نے چائے حنان کہ لیے نکالتے پوچھا۔۔۔۔ ٹھیک ہیں بس بوڑھے ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔" زیان نے بھرے منہ سے جواب دیا۔۔۔۔۔ بدتمیز ۔۔۔" عزہ نے خفگی سے اسے دیکھا۔۔۔۔ اب تم دونوں کو نہیں لگتا کہ شادی کر لینی چاہیے عمر نکل ہی چکی ہے تقریبا۔۔۔۔ ابو کو بھی اکیلے اکیلے گھر میں چھوڑ نکل جاتے ہو ۔۔۔" حنان نے ان دونوں کو دیکھ کہا۔۔۔ میڈ ہوتی ہے۔۔۔۔" آیان کی بات پہ حنان نے اسے گھورا۔۔۔ مطلب تم شادی نہیں کرو گے۔۔۔۔" حنان نے غصے سے پوچھا۔۔۔۔ باقی سب خاموشی سے انھیں دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔ آپ کروایں گے تو کرلیں گے۔۔۔۔" زیان نے بیچ میں لقمہ دیا حنان نے اسے گھورا ۔۔۔ ایسے تو نہ دیکھیں پرنس میرا نازک دل ہے ڈر جاتا ہے" زیان نے اسکی گھوری کو دیکھ مسخری کی تو سب چہرہ جھکا کہ ہنس دیے۔۔۔۔جس پہ حنان نے صرف گھورنے پہ اکتفا کیا۔۔۔۔۔ ہم نے تو کہا تھا منہا یا ارحا کو ہمیں دے دیں ہم پال لیں گے اسے۔۔۔لیکن آپ نے دیا ہی نہیں ۔۔۔۔" زیان نے منہ بنا کہ منہا ارحا کو دیکھا جو خود بھی معصوم سی صورت بنائیں انھیں دیکھنے لگی تھی۔۔۔ تمھیں میں چھت سے دھکا نہ دے دوں۔۔۔۔" حنان نے ترک کہ کہنے پہ جہاں سب ہنسے وہی عزہ نے اسکہ بازو پہ مارا۔۔۔۔ کیا....... اسکی بات نہیں سن رہی میری بیٹیوں پہ نظر رکھے بیٹھا ہے" حنان نے بھی غصے میں کہا آپ نے جیسے بڑی ان کہ لیے لڑکیاں دیکھی ہیں جو شادی کا کہ رہے" عزہ نے اسے غصے سے دیکھتے کہا۔۔۔۔ تو خود دیکھ لیں ۔۔۔ کوئی پسند کرکہ بتا دیں ہم شادی کروا دیں گے۔۔۔۔" حنان نے کندھے اچکائے۔۔۔۔ اچھا پرنس یہ بات بعد کہ لیے رکھ لیں " آیان نے اپنی شادی کہ ٹوپک سے عاجز آتے کہا جب کہ زیان کو تو اپنی شادی کی بات پہ مزاہ آرہا تھا۔۔۔۔۔ آیان ایک ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکڑ تھا اس کہ ساتھ وہ منہا اور ارحا کی یونی میں لیکچرار بھی تھا اس ہی کی طرح زیان نے میتھس میں پی ایچ ڈی کی تھی اور منہا ارحا اور بسمہ کی یونی میں  لیکچرار کا فریضہ سرانجام دے رہا تھا  ساتھ اسکا بزنس بھی جو اسنے حنان کہ ساتھ شروع کیا تھا۔۔۔۔جہاں آیان سنجیدہ ، کم گو اور ٹو دی پوئنٹ بات کرنے والا تھا وہی زیان اسکا الٹ تھا۔۔۔ لیکن کام کو لے کہ وہ کافی سنجیدہ تھے۔۔۔۔۔ تمھاری پڑھائی کیسی جا رہی۔۔۔۔" آیان نے بسمہ سے استفسار کیا وہ دونوں ساتھ بیٹھے بہت ہلکی آواز میں گفتگو کررہے تھے۔۔۔۔۔۔ بہت اچھی آپ کہ نوٹس سے بہت ہلپ ہوئی شکریہ مامو" وہ مسکراتے اسکا شکریہ ادا کرنے لگی زیان نے ان کی طرف دیکھا پھر کان لاگا کہ ان کی کھسر پھسر سننے کی کوشش کی۔۔۔۔۔ ویسے ایک ٹوپک مجھے سمجھ نہیں آیا سہی سے۔۔۔۔ آپ سمجھا دیں گے۔۔۔۔" بسمہ نے اسے دیکھا۔۔ آیان نے بس ہاں میں سر ہلایا زیان نے افسوس سے نہ میں سر ہلایا۔۔۔ کتابی کیڑے۔۔۔" بس اتنا کہتا وہ کھانے میں مصروف ہوگیا۔۔۔۔حارث نے نہایت سنجیدگی سے انھیان دیکھا۔۔۔۔ کھانے سے فارغ ہوتے سب لاونج میں چلیں آئیں اب یہ تو طے تھا آج کا دن وہ خوب انجوائے کرنے والے تھے۔۔۔ (◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤ تپتی دھوپ میں وہ کھڑی سامنے کھڑے لڑکے لڑکیوں کہ اس ٹولے کو دیکھ رہی تھی جن کا وہ ہمیشہ شکار بنتی تھی ۔۔۔آنکھیں برسنے کو تیار تھی اسکا دودھیا چہرہ آنسو روکنے کہ چکر میں ٹماٹر ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے آج ہکلی اکیلی ہے اس کہ بوڈی گارڈز نہیں آئے ہیں کیا۔۔۔" ایک لڑکے نے آگے بھرتے ارحا کہ بیگ  کو جھٹکا دیا تو وہ کپکپا گئی۔۔۔۔ وہ بول بھی نہ سکی کچھ بولتی تو اور مزاق بنتا۔۔۔۔اس نے سائڈ سے نکلنے کی کوشش کی تو 2 لڑکیوں نے ہاتھوں کو ملاتے راستہ بند کر دیا ارحا نے مدد طلب نظروں سے ادھر ادھر دیکھا۔۔۔۔سب سٹوڈینٹ اپنے اپنے گروپ میں بیٹھے تھے۔۔۔۔۔ اس نے اس وقت کو کوسا جب منہا کہ کہنے پہ یہاں رک کہ انتظار کرنے لگی تھی ورنہ وہ یونی میں منہا کی دمچھلی کہ نام سے مشہور تھی۔۔۔ ہٹٹٹ جججججایںنننن۔۔۔" اس نے بس اتنا کہا تو سب ہنس دیے۔۔۔۔۔ جس پہ وہ اور شرمندہ ہوئی۔۔۔۔ پہلے تم بنا رکے بولو یہ بات" ان میں سے ایک لڑکے نے ارحا کہ گرد چکر لگاتے اسکا مزاق بنایا وہ اب زیادہ برداشت نہ کرسکی اور رونے لگ گئی۔۔۔۔ جس پہ وہ سب اس پہ ہنسنے لگے تھے۔۔۔ منہا اپنی فیس جمع کروا کہ باہر نکلی تو دور سے اسے ایک لڑکی بھاگتے اسکی طرف آتی نظر آئی۔۔۔۔ منہا نے رک کہ اپنا بیگ ٹھیک کیا۔۔۔۔۔۔ مینو تم یہاں ہو وہاں تمھاری بہن ان بگڑے نوابوں کہ ہاتھے چڑھ گئی ہے۔۔۔۔۔" یہ سننا تھا منہا نے وہی سے دور لگائی سب کو پھلانگتے وہ کینٹین والی سائڈ پہنچی جہاں اسے چھوڑ کہ آئی تھی۔۔۔۔دور سے وہ ارحا کو ان میں گھیرا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔وہ تیز تیز قدم لیتی ان تک پہنچی ابھی اس لڑکے نے ارحا کہ بیگ کو کھینچنا چاہا ہی تھا منہا نے اس لڑکے کا کالر پکڑ کہ پیچھے کھینچا۔۔۔۔۔ میری بہن کو ہاتھ لگانے کی ہمت بھی مت کرنا۔۔۔۔" ارحا  کو اپنے پیچھے کرتے منہا اس کہ سامنے آتے سامنے والی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہ دھاڑی تھی۔۔۔۔۔۔ سب اب جمع ہونے لگے۔۔۔۔۔ لو جی بوڈی گارڈ آگئی اسکی۔۔۔" سب نے منہا کا مزاق بنایا  ارحا نے اسکا بازو زور سے دبوچا تھا۔۔۔۔۔منہا نے ان کو ایک ایک نظر دیکھا۔۔۔۔۔ پچھلی بار پرنسپل کو شکایت لگائی تھی اسکا بدلہ تو بنتا ہے کیوں سہی کہ رہا ہوں نہ۔۔۔۔" اس لڑکے نہ سب کو دیکھ ہانک لگائی جس پہ اس کہ ساتھیوں نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔۔ غلطی کی پرنسپل کہ پاس لے جا کہ تمھیں اپنے ہاتھوں سے ہی سیدھا کرنا چاہیے تھا۔۔۔۔" وہ اب بھی انتہائی غصے سے اس لڑکے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ زرا دیکھنا نازک ہاتھ اس کہ ان ہاتھوں سے سیدھااا آہہہہہہ" وہ لڑکا اسکے نازک سے ہاتھ کو اٹھا کہ سب کو دیکھا رہا تھا جب منہا نے اسکا وہی ہاتھ پکڑ کہ مڑور دیا۔۔۔۔۔ پورے گراونڈ میں اس کی چینخ سنائی دی تھی ارحا اور ڈر چکی تھی۔۔۔۔۔ کیا کہ رہے تھے پھر کہنا۔۔۔۔۔میرا ہاتھ نازک دیکھتا ہے لیکن ہے نہیں سمجھے۔۔۔۔۔" ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا تو اپنے دوستوں پہ گرا۔۔۔۔۔اور اسنے ارحا کا ہاتھ تھاما ۔۔۔۔ اگر میں نے اگلی بار میری بہن کو تنگ کرتے کسی کو دیکھا تو ابھی ہاتھ مڑورا ہے اگلی بار توڑ دوں گی۔۔۔۔۔۔۔" وہ اترا کہ ان سب کہ درمیان سے ارحا کو۔لے کہ نکلی تھی۔۔۔۔۔ارحا نے مڑ کہ اس لڑکے کو دیکھ جو منہا کو ہی خونخار نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ مینووووووو۔۔۔۔۔ ااااییسسسسسے نننہہہ ماررتییی انھییں تممم" ارحا نے اسکی ہمدردی میں کہا لیکن اس نے اسے گھورا تھا۔۔۔۔ تم کب بڑی ہوگئی ارحا میں ہمیشہ تمھارے ساتھ نہیں رہوں گی " وہ اس پہ برسنے لگی تھی ارحا نے روتے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔ تممممم مممجھے ۔۔۔۔۔۔ڈڈانٹٹ۔۔۔ رہہہیی ہووو۔۔۔۔" وہ خفگیی سے بولیی۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔" منہا نے گھورا کہ اطراف کیا۔۔۔ میییییں مامممممموں کککککو شکایت لگاتی ہوں۔۔۔۔" وہ روتے روتے وہاں سے بھاگی تھی۔۔۔۔منہا نے افسوس سے اسے دیکھا۔۔۔۔اب وہ ٹیچر روم میں تھی اور ساتھ منہا کی پیشی بھی تھی۔۔۔۔۔ آیان کہ سینے سے لگی وہ رونے کا شگل فرما رہی تھی۔۔۔۔۔وہ دونوں بلکل برداشت نہیں کرتے تھے کہ ارحا کو کوئی ڈانٹے چاہیے وہ منہا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔ مامو پلیز آپ سب اسے بڑا نہیں ہونے دیتے۔۔۔اس طرح وہ کیسے کونفیڈینڈ بنے گی۔۔۔۔ابھی بھی لوگوں میں گھیری اپنا مزاق بنوا رہی تھی۔۔۔۔۔" منہا نے ان دونوں کی گھورتی نظروں سے عاجز آتے کہا۔۔۔۔ لیکننننن اااسسس نےےے بھھھئیی ڈانٹا۔۔۔" ارحا نے دونوں کا رخ اپنی طرف آتے دیکھ کہاااا۔۔۔ کون تنگ کررہا تھا۔۔۔۔" زیان نے غصے میں کف چڑھائے۔۔۔۔ وہی بگڑے نواب زادے۔۔۔۔"منہا نے منہ بنایا۔۔۔۔ ااسسس نےےےے وسسسسسیمممم کا بااازووو مڑوورا۔۔۔" ارحا نے نیا الزام لگایا۔۔۔۔ واہ میری شیرنییی" اسکے کارنامے پہ زیان نے اسکے کندھے کو تھپکا۔۔۔۔۔۔جس پہ دونوں ہنسے اور آیان نے گلا کھنکھارا۔۔۔۔ اچھا بس جو بھی ہے لیکن مینو آندہ تم عرو پہ نہیں چلاو گی۔۔۔۔۔ اور یہ لڑکوں کو مارنے والا کام بھی نہیں کرو گی کچھ ہو پرنسپل کو بتاو یا ہمیں۔۔۔۔سمجھ گئی۔۔۔" آیان نے نہایت سمجیدہ لہجے میں بولا۔۔۔۔ نہیں " وہ زیان کی طرف دیکھ بول کہ ہنسی تھی ساتھ زیان نے بھی ہنستے اپنے سنجیدہ بھائی کو دیکھا۔۔۔۔۔۔پھر دونوں سنجیدہ ہوئے اچھا اچھا مامو سمجھ گئی۔۔۔" وہ ایک دم سیدھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ جاو کلاس میں دونوں۔۔۔۔" ارحا کو نرمی سے اپنے سے الگ کرتے اس نے دونوں کو حکم دیا وہ دونوں خاموشی سے دروازے کہ باہر نکل آئی۔۔۔۔۔ بہت چخل خور ہو " منہا نے ایک تھپڑ اس کہ بازو پہ مارا  وہ چلاتی اس نے پہلے منہا نے اسکا منہ بند کرتے اپنے ساتھ لے گئی۔۔۔۔۔۔ (◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤ شام کا وقت ہونے والا تھا آسمان پہ تاریکی چھانے لگی تھی۔۔۔۔سب گھر آچکے تھے اور اس وقت لاونچ میں بیٹھے پورے دن کی روادات سنا رہے تھے۔۔۔۔۔ منہا اور بسمہ لڈو کھولے بیٹھیں تھی ارحا اپنے باپ کہ ساتھ لگی باتیں کررہی تھی باقی سب ٹی وی دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ ڈیڈو میرا دوستوں کہ ساتھ ٹرپ کا پلین بنا ہے میں جاوں۔۔۔۔"  منہا نے حنان کو دیکھ پوچھا جس پہ اس نے سر ہاں میں ہلا کہ اجازت دی۔۔۔۔۔ ڈیڈ میں نے بھی کل ایک انسٹیٹیشن کہ ساتھ جانا ہے وہ ہمیں ہسپتال وزیٹ پہ لے کہ جائیں گے۔۔۔۔۔ شاید میرا 2 دن کا سٹے ہو وہاں۔۔۔۔۔" بسمہ نے گیم سے نظر اٹھا کہ بسام کو دیکھا اسنے بھی آرام سے اجازت دے دی۔۔۔۔۔ تم کہیں نہیں جاو گی۔۔۔؟؟؟؟" حنان نے ارحا کہ گرد حصار بناتے پوچھا۔۔۔ میرے دوست نہیں ڈیڈو ۔۔" اسنے دکھی دل سے بتایا۔۔۔۔۔ حنان نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔۔ ہم باپ بیٹی چلیں گے۔۔۔۔" حنان کی بات پہ ارحا کا چہرہ کھل گیا۔۔۔۔ سچی۔۔۔۔وہ زور سے چلائی حنان نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔۔عزہ نے ان کی بات سن لی تھی۔۔۔۔ باپ بیٹی کہ ساتھ ممی بھی جا سکتی ہے کیا" عزہ نے بچارگی سے پوچھا۔۔۔۔ ویسے تو یہ باپ بیٹی کی ڈیٹ ہے لیکن اگر تمھاری بیٹی اجازت دیتی ہے تو ضرور چلو۔۔۔۔ " حنان نے کندھے اچکائے فیصلہ ارحا پہ چھوڑا۔۔۔ یسسسس. مممی بھی چلیں بہہہہہت مممزاہ آئے گا بللکہہہ چچاچووو اوووور چچچچییی پھححوپھو سب چلتے۔۔۔۔ ۔۔۔" ارحا خوش تھی۔۔۔۔۔اسے دیکھ سب خوش تھے۔۔۔۔ ہاں سب چلتے وہاں جہاں ارحا چاہے گی۔۔۔۔"  بسام نے کہا تو سب نے سر ہلایا۔۔۔ یہ غلط بات ہے جب ہمارا پلین بنا تو آپ سب نے بنا لیا۔۔۔۔" منہا نے اتراز اٹھایا۔۔۔۔ تو تم دوستوں کہ ساتھ انجوائے کرو۔۔۔۔ہم یہاں کرتے۔۔۔۔ حنان نے اسکے اتراز کو کسی خاطے میں نہ لاتے کہا۔۔۔۔۔ نہیں میں بھی آپ کہ ساتھ ہی جاوں گی دوستوں کہ ساتھ نہیں ۔۔۔۔" منہا کی بات پہ ارحا نے اسے گھورا تھا۔ا۔۔۔ یہہہہ جلتییی ہے"ارحا نے مزاق بنایا منہا نے اسے گھورا۔۔۔۔حنان مسکرا دیا۔۔۔۔ تم بھی کینسل کرو اپنا چھوٹی سب مل کہ جائیں گے کل۔۔۔۔" منہا نے بسمہ کو کہا لیکن اس نے معصوم سا چہرہ بنا کہ اسے دیکھا۔۔۔۔ میرا جانا ضروری ہے آپی ہوسپٹل ویزیٹ کرنا نئی نئی بیماری کا پتا چلنا ہے۔۔۔۔۔۔آیان مامو نے بہت مشکل سے میری بھی سیٹ رکھی ہے اس میں ۔۔۔۔۔" بسمہ کی مجبوری پہ ارحا اور منہا دونوں نے ساتھ اپنا ماتھا پیٹا۔۔۔۔۔ساتھ بسام نے بھی۔۔۔۔الماس تو اپنی بیٹی کہ صدقت واری ہوئی۔۔۔۔ (◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤ آگئے نالائقوں۔۔۔۔۔" ان دونوں نے گھر میں قدم ہی رکھا تھا جب وقاس صاحب کہ آواز پہ دونوں صوفے کی طرف مڑے ۔۔۔جہاں وہ ہاتھ میں سٹک لیے بیٹھے ان دونوں کو ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ اسلام و علیکم ابو۔۔۔" دونوں نے چھٹتے ہی سلام کیا۔۔۔۔ وعلیکم۔اسلام۔۔۔۔۔ وقت دیکھا ہے کیا ہورہا۔۔۔" ان دونوں نے گھڑی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔جہاں 12 بج رہے تھے رات کہ۔۔۔۔ میں تو اسے کہ رہا تھا ابو کہ گھر چلا جائے لیکن اسے ہی میرے ساتھ ہسپتال میں رہنا تھا۔۔۔۔" آیان نے سارا مدا زیان پہ ڈال خود وقاس صاحب کہ برابر آ بیٹھا۔۔۔۔ زیان نے گھورا تھا اسے۔۔۔۔ ایک بوڑھا باپ گھر میں اکیلا ہے اور تم دونوں کو آوارگردی سے فرصت نہیں ۔۔۔۔۔" وقاس صاحب نے زیان کو غصے بھری نگاہ سے دیکھا۔۔۔۔۔ ابو وہ مجھے زرا کام تھا۔۔۔۔" زیان نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا۔۔۔۔۔ کوئی کام نہیں تھا اسے ابو بس سب کو تنگ کررہا تھا۔۔۔۔" آیان نے دوبارہ اسکی شکایت لگائی۔۔۔۔ زیان نے بچارگی سے اپنے باپ کو دیکھا۔۔۔۔ اتنے معصوم نہ بنو جیسے میں تمھیں جانتا نہیں ہوں۔۔۔" وقاس صاحب نے بھی اسے آڑے ہاتھوں لیا۔۔۔۔ نِموووو کھانا لگا دو ۔۔۔۔" آیان نے اپنا ڈاکٹر کوٹ اتارتے میڈ کو  آواز لگائی۔۔۔۔ چلی گئی ہے وہ۔۔۔" وقاس صاحب نے سکون سے بولتے صوفے سے ٹیک لگائی۔۔۔۔زیان نے بھی الجھی نظروں سے باپ کو دیکھا۔۔۔۔ کہاں؟؟؟ سوال دونوں کی طرف سے آیا۔۔۔ کام چھوڑ کہ چلی گئی ہے۔۔۔۔ اور ساتھ یہ بھی کہ کے گئی ہے کہ میں اتنا وقت یہاں کام نہیں کرسکتی۔۔۔۔ ہمارے بھی کچھ وقت ہوتے ہیں آگر یہاں 24 گھنٹے کام کریں گے تو اپنے بچوں شوہر کو کب وقت دیں گے۔۔۔۔" وقاس صاحب نے نہایت خفگی سے بتایا۔۔۔۔۔ تو آپ نے بھی کھانا نہیں کھایا۔۔۔" آیان کہ پوچھنے پہ انھوں نے خفگی سے نہ میں سر ہلایا۔۔۔۔ کھانا بنا کہ گئی ہے یا وہ بھی نہیں" آیان نے ماتھا مسلتے پوچھا۔۔۔۔ نہیں" آیان نے ایک گہری سانس لیتے زیان کو دیکھا۔۔۔۔ جا کھانا لے کہ آ تب تک میں فریش ہوجاوں۔۔۔۔۔" زیان نے ایک تیکھی نظر سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔ تو بھی چل میرے ساتھ۔۔۔۔" زیان نے حکم دیا۔۔۔۔ میں تھک کہ آیا ہوں تیری طرح مزے کرکہ نہیں جا شرافت کہ ساتھ " آیان نے اٹھتے غصے سے کہا زیان نے اسکے سنجیدہ چہرے کو دیکھ ہار مانی۔۔۔۔ جا رہا ہوں اور شرافت کہ ساتھ نہیں جاوں گا اکیلے جاواں گا۔۔۔۔" وہ بھی منہ بناتے کھرا ہوا۔۔۔۔۔ جیسے مرضی جا لیکن ابھی دفع ہوجا۔۔۔" آیان کہتا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا پیچھے وہ ٹیرے میڑے منہ بناتا باہر نکل گیا اور وقاس صاحب نے سر افسوس سے ہلایا۔۔۔۔۔ ہمنہ کہ بعد وہ ان دونوں کہ ہوتے بھی اکیلے سے ہوگئے تھے پہلے وہ چھوٹے تھے تو اتنا اکیلا محسوس نہ ہوتا تھا۔۔۔ جیسے جیسے بڑے ہوئے اور کمانے لائق ہوئے تب وقاس صاحب کو یہ اکیلا پن زیادہ کھلنے لگا تھا وہ روز صبح سے رات دیواروِ سے باتیں کرتے تھے ۔۔۔۔ دونوں کہ شادی کہ کوئی اثار تک نظر نہیں آرہے تھے۔۔۔۔۔ وقاس صاحب نے اتنی کوشش کی زیان کی آیان کی شادی ہوجائے لیکن کہیں بات نہ بن سکی۔۔۔۔ 1 بجے وہ تینوں بیٹھے رات کا کھانا کھا رہے تھے۔۔۔۔  پلیٹ اور چمچوں کی آوازوں میں وہ تینوں نفوس خاموش تھے جب وقاس صاحب کی آواز نے  اس شور کو دبا دیا۔۔۔۔ تم دونوں کو اب شادی کر لینی چاہیے۔۔۔۔" وقاس صاحب نہایت سنجیدگی سے بولے۔۔۔۔ ابو شادی کہ لیے لڑکی کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔ اب میں آیان سے تو کرنے سے رہا شادی۔۔۔۔" زیان کی زبان میں کھجلی ہوئی وقاس اور آیان دونوں نے ہاتھ روک کہ سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔اور وہ آنکھین ہی کافی تھی وہ سیدھا ہوا۔۔۔ اوکے سوری آپ دونوں جاری رکھیں۔۔۔۔" وہ دوبارہ کھانے کی طرف مگن ہوچکا تھا۔۔۔۔۔ ابو میں زیان کی بات سے متفق ہوں۔۔۔۔" آیان نے پاستے سے بھرا چمچ اپنے ہونٹوں کہ قریب کرتے کہا اور چمچ ہونٹوں سے اندر کیا۔۔۔۔۔ عزہ اور  حنان مجھے کہ چکے ہے کہ اب وہ تم دونوں کی شادی کروا کہ ہی رہے گا۔۔۔۔بس تم دونوں راضی ہو۔۔۔۔" وقاس صاحب نے خوشی سے بتایا۔۔۔۔ مجھے کوئی اتراض نہیں ۔۔۔۔" زیان کا فورا جواب آیا۔۔۔۔ اور تم " وقاس صاحب نے آیان کو دیکھا۔۔۔۔ آیان نے کچھ پل ان کہ چہرے کو دیکھا پھر مسکرایا۔۔۔ جیسا آپ ٹھیک سمجھے۔۔۔۔" وقاس صاحب تو کھل اٹھے اب انکا کھانا گلے سے اترنے لاگا تھا۔۔۔۔۔ ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور خاموشی سے کھانا کھانے لگے ۔۔۔۔۔۔ (◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤ رات کا آخری پہر تھا جب وہ گھر میں داخل ہوا۔۔۔ سب اپنے اپنے کمروں میں سونے جا چکے تھے۔۔۔۔ اس کہ پاس مین ڈور کی چابی تھی گھر کا دروازہ کھولتے اسنے اپنے پیچھے اسے بند کیا۔۔۔۔۔ پھر اپنے دھن میں قدم چلتا سیڑیوں کی طرف بڑھا۔۔۔۔ لیکن اسے اپنے قدموں کو روکنا پڑا ۔۔۔ لاونچ سے ہوتے سامنے ایک چھوٹی سی بالکنی تھی وہاں اسے کوئی سایہ سا نظر آیا تھا۔۔۔۔حارث نے ایک دم اپنی گن پہ گرفت کو سخت کرتے آہستہ سے قدم اس طرف بڑھا دیے۔۔۔۔ آہستہ آہستہ بنا قدموں کی آواز کیے اس نے بالکنی کا دروازہ کھولا ابھی وہ گن اٹھاتا سامنے بسمہ کر کتاب ہاتھ میں تھامے ٹہلتا دیکھ وہ پرسکون ہوا۔۔۔۔۔۔ پھر قدم اٹھاتا اسکے پیچھے جا کھڑا ہوا۔۔۔ ییلو کلر کی پیکاچو نائٹ ڈریس میں وہ ٹہلتے کچھ یاد کررہی  تھی اونچی آواز میں وہ اتنی بےخبر تھی کہ کوئی اسے مار بھی جا ئے تو اسے پتا نہ چلے حارث کو اسکی بےخبری پہ غصہ آیا۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ راستہ ختم کرتے مڑی تو حارث کو دیکھ ڈرتی اس سے پہلے وہ اپنا مضبوط ہاتھ اسکے ہونٹوں پہ جما چکا تھا۔۔۔۔۔ بسمہ نے آنکھیں پل میں بڑی ہوئی تھی پیچھے کچھ سہارا نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے تھامے کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔ حارث نے اسکی چشمے سے نظر آتی آنکھوں میں اپنا دل ڈوپتا محسوس کیا۔۔۔۔۔ ایک نرم گرم سا احساس اسکے ہاتھ سے ہوتا دل تک گیا تو وہ جھرجھری لے کہ پیچھے ہوا۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔آپپ نے تو ڈرا دیا۔۔۔۔۔" بسمہ نے چشمہ آنکھوں پہ درست کرتے حارث کو دیکھا۔۔۔۔ تم اتنی رات میں یہاں کیا کررہی ہو۔۔۔۔" حارث کہ استفسار کرنے پہ بسمہ نے کتاب اٹھا کہ دیکھائی جیسے بتا رہی ہو پڑھ رہی ہوں۔۔۔ کمرے میں پڑھا کرو رات کہ وقت یہاں سیف نہیں ہوتا۔۔۔۔" اب وہ اپنی گن ہولڈر میں ڈال رہا تھا۔۔۔۔۔ گھر کا تو ہر کونہ سیف ہوتا ہے نہ۔۔۔۔" اس نے جیسے بتایا تھا۔۔۔۔ ہوتا ہے لیکن رات کہ پہر نہیں کہیں سے بھی بھوت نکل۔کہ آسکتا ہے" آخر میں اس بے شرارت سے ڈرانا چاہا تھا۔۔۔۔ آپ ایک سائنس سٹوڈینٹ کو بھوت سے نہیں ڈرا سکتے۔۔۔۔" بسمہ نے خفگی سے دیکھا۔۔۔۔ بھوت کا سائنس سے کیا تعلق۔۔۔" حارث نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔۔ بھوت کا رات سے کیا تعلق۔۔۔۔ بھوت تو دن میں بھی آسکتے ہیں۔۔۔میں نے ایک مووی دیکھی تھی وہاں بھوت دن میں بھی آجاتے تھے۔۔۔۔۔ اور جب آتے تو رات جیسا ماحول بنا لیتے تھے۔۔۔۔تو یہ تو کہیں نہیں لکھا کہ بھوت رات میں ہی آتے ہیں۔۔۔" حارث تو اسکی بات پہ جتنا حیران ہوتا کم تھا۔۔۔۔ وہ سمجھا وہ بھوت سے ڈر جائے گئی لیکن وہ تو اسے ہی لا جواب کرگئی تھی۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی میں مسلمان ہوں مجھے بہت سی سورتیں یاد ہیں جو میں بھوت کو دیکھ پڑھ سکتی ہوں۔۔۔۔" وہ کندھے اچکا کہ بولی ۔۔۔۔۔ چشمش" وہ بڑبرایا۔۔۔۔" بسمہ نے اپنا چشمہ دوبارہ درست کیا لیکن بربراہٹ سے بے خبر تھی۔۔۔۔۔ تم تھکتی نہیں پڑھ پڑھ کہ۔۔۔" حارث نے اسکی کتابوں کو دیکھ عاجزی بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔جیسے آپ نہیں تھکتے مجھے پڑھاکو کہتے کہتے " وہ برا مان گئی تھی اب اپنی کتابیں اٹھا رہی تھی۔۔۔۔۔حارث نے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔۔۔۔۔ ہٹیں اب میں جاوں گی سارا دیھان بٹا دیا میرا۔۔۔۔" وہ ناراضگی سے کہتی راستہ بناتی چلی گئی پیچھے حارث نے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔ اففف ادائیں چیک کرو میڈم کی ویسے جچتی بھی ہیں۔۔۔۔۔۔" وہ بولتا آخر میں مسکرایا تھا۔۔۔۔۔پھر خود بھی اپنے روم کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔ (◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(◍•ᴗ•◍)❤(☆^ー^☆)
❤️ 👍 😮 🙏 😂 😢 145

Comments