{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
                                
                            
                            
                    
                                
                                
                                February 5, 2025 at 05:18 PM
                               
                            
                        
                            کتاب: تاریخِ اسلام
قسط نمبر 152
سیدنا ابوبکرصدیق ؓ 
عنوان: مرتدین کا استیصال
: منشور صدیقی
: طلیحہ اسدی
: سجاح اور مالک بن نویرہ
: جھوٹی نبیہ کا نکاح
ان فرامین کو قاصدوں کے ہاتھ روانہ کرنے کے بعد صدیق اکبر ؓ نے گیارہ علم تیار کئے اور گیارہ سردار منتخب فرما کر ایک ایک جھنڈا ہر ایک سردار کو دیا‘ ہر ایک کے ساتھ ایک ایک دستہ فوج کیا اور حکم دیا کہ مکہ و طائف وغیرہ مقامات سے جہاں جہاں اسلام پر ثابت قدم قبائل ملیں ان میں سے کچھ لوگوں کو ان قبائل اور ان کے گھر بار کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیں اور کچھ لوگوں کو اپنے لشکر میں شریک کرتے اور ساتھ لیتے جائیں ۔
پہلا علم خالد بن ولید ؓ کو دیا گیا اور حکم ہوا کہ اول طلیحہ بن خویلد اسدی پر چڑھائی کرو‘ جب اس مہم سے فارغ ہو جائو تو مقام بطاح کی طرف مالک بن نویرہ پر حملہ آور ہو۔
دوسرا علم عکرمہ ؓ بن ابی جہل کو دیا گیا اور حکم ہوا کہ یمامہ کی طرف مسیلمہ کذاب پر حملہ کرو۔
تیسرا علم شرجیل بن حسنہ کو سپرد ہو کر حکم ہوا کہ عکرمہ ؓ کی امداد کرو اور یمامہ سے فارغ ہو کر سیدنا موت کی طرف بنو کندہ اور بنو قضاعہ پر حملہ آوری کرو۔
چوتھا علم خالد بن سعید ؓ بن العاصی کو ملا اور حکم ہوا کہ ملک شام کی سرحد پر پہنچ کر اس طرف کے تمام قبائل کو درست کرو۔
پانچواں علم عمروبن العاص کو سپرد فرما کر حکم دیا کہ مرتدین بنو قضاعہ کی طرف جائو۔
چھٹا علم حذیفہ بن محصن کو دے کر ملک عمان کی طرف جانے کا حکم دیا۔
ساتواں علم عرفجہ بن ہرثمہ کو سپرد کر کے اہل مہرہ کی طرف جانے کا حکم دیا‘ حذیفہ اور عرفجہ کو یہ بھی حکم ملا کہ دونوں ساتھ ساتھ رہیں ‘ جب ملک عمان میں رہیں تو حذیفہ امیر اور عرفجہ مامور ہوں گے‘ اور جب مہرہ میں ہوں تو عرفجہ امیرہوں گے اور حذیفہ ماتحت سمجھے جائیں گے۔
آٹھواں علم طرقہ بن حاجب کو دیا گیا اور حکم ہوا کہ بنو سلیم اور ان کے شریک حال بنو ہوازن کی طرف جائو۔
نواں علم سوید بن مقرن کو دیا گیا اور ان کو حکم ملا کہ یمن (تہامہ) کی جانب جائو۔
دسواں علم علاء بن الحضرمی کو دیا گیا اور حکم ہوا کہ تم بحرین کی جانب جائو۔
گیارہواں علم مہاجر بن ابی امیہ کو دیا گیا اور حکم ہوا کہ صنعاء کی طرف جائو۔
ان تمام سرداروں کو روانگی کے وقت ایک ایک فرمان ایک ہی مضمون کا لکھ کر دیا گیا اس فرمان کا مضمون یہ تھا۔
: منشور صدیقی
یہ عہد نامہ ہے ابوبکر خلیفہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے جو فلاں سردار کو دیا جاتا ہے‘ جب کہ وہ لشکر اسلام کے ساتھ مرتدین سے لڑنے کو روانہ کیا جا رہا ہے‘ اس سردار سے ہم نے اقرار لیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ظاہراً اور باطناً اپنے تمام کاموں میں ڈرتا رہے گا‘ ہم نے اس کو حکم دیا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی راہ میں مرتدین سے لڑے‘ مگر پہلے ان پر اتمام حجت کر لے اور ان کو اسلام کی دعوت دے‘ اگر وہ قبول کر لیں تو لڑائی سے باز رہے‘ اگر وہ قبول نہ کریں تو ان پر حملہ کیا جائے‘ یہاں تک کہ وہ اسلام کا اقرار کریں ‘ پھر ان کو ان کے فرائض و حقوق سے آگاہ کیا جائے‘ جو ان پر فرض ہے وہ ان سے لیا جائے اور جو ان کے حقوق ہیں وہ ان کو دئیے جائیں ‘ اس میں رعایت کسی کی نہ کی جائے‘ مسلمانوں کو دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنے سے روکا جائے‘ جس نے احکام اللہ خداوندی کا انکار کیا اس سے لڑائی کی جائے گی اور جس نے دعوت کو قبول کر لیا وہ بے گناہ سمجھا جائے گا‘ اور جو شخص اقرار باللسان کے بعد دل میں کچھ اور عقیدہ رکھتا ہو گا اس کا حساب خدائے تعالیٰ اس سے لے گا‘ جو لوگ منکر ہو کر لڑائی تک نوبت پہنچائیں گے اور خدائے تعالیٰ ان پر مسلمانوں کو غلبہ عطا کرے گا تو مال غنیمت علاوہ خمس کے تقسیم کر دیا جائے گا اور خمس ہمارے پاس بھیجا جائے گا‘ ہم نے یہ بھی ہدایت کر دی ہے کہ سردار لشکر اپنے ہمراہیوں کو عجلت اور فساد سے منع کرے اورکسی غیر کو اپنے لشکر میں داخل نہ ہونے دے‘ جب تک کہ اس کو اچھی طرح جان‘ پہچان نہ لے‘ تاکہ جاسوسوں کے فتنہ سے محفوظ رہے‘ یہ بھی ہدایت کر دی ہے کہ مسلمانوں سے نیک سلوک کرے‘ روانگی اور قیام میں لوگوں سے نرمی کرے اور ان پر رحم کرے‘ نشست و برخاست اور گفتگو میں ایک دوسرے کے ساتھ رعایت اور نرمی کو ملحوظ رکھا جائے‘‘
یہ تمام سردار ماہ جمادی الاخر ۱۱ ھ میں یا اس کے بعد مدینہ منورہ سے روانہ ہو کر اور اپنے اپنے مقررہ علاقوں کی طرف جا کر مصروف عمل ہوئے۔
: طلیحہ اسدی
طلیحہ ایک کاہن تھا‘ پھر اسلام میں داخل ہوا‘ آخر زمانہ حیات نبوی ﷺ میں مردود ہو کر خود مدعی نبوت بن بیٹھا‘ بنی اسرائیل کے بعض قبائل اس کی جماعت میں داخل ہو گئے‘ اس کی سرکوبی کے لیے سیدنا ضرار بن الازور ؓ روانہ ہوئے تھے۔ ابھی وہ اپنا کام ختم نہ کر چکے تھے کہ وفات نبوی ﷺ کی خبر مشہور ہوئی اور سیدنا ضرار ؓ اس مہم کو ناتمام چھوڑ کر معہ ہمراہیوں کے مدینہ کی طرف آئے‘ طلیحہ کو اس فرصت میں اپنی حالت درست کرنے اور جمعیت کے بڑھانے کا خوب موقع ملا‘ غطفان و ہوازن وغیرہ کے قبائل جوذی القصہ و ذی خشب میں سیدنا ابوبکرصدیق ؓ سے شکست کھا کر بھاگے تھے طلیحہ کے پاس پہنچے تھے‘ اور اس کی جماعت میں شامل ہو گئے‘ نجد کے مشہور چشمہ بزاخہ پر طلیحہ نے اپنا کیمپ قائم کیا اور یہاں غطفان‘ ہوازن ‘ بنو اسد‘ بنو عامر‘ بنو طے وغیرہ قبائل کا اجتماع عظیم اس کے گرد ہوگیا۔
سیدنا ابوبکرصدیق ؓ نے جب گیارہ سردار منتخب فرما کر روانہ کئے تو سیدنا عدی بن حاتم ؓ سیدنا خالد بن ولید ؓ سے مل کر پہلے اپنے قبیلہ طے کی طرف روانہ ہوئے اور ان کو سمجھا کر اسلام پر قائم کیا‘ اس قبیلہ کے جو لوگ طلیحہ کے لشکر میں شامل تھے ان کے پاس قبیلہ طے کے آدمیوں کو بھیجا کہ سیدنا خالد کے حملہ سے پہلے اپنے قبیلہ کو وہاں سے بلا لو‘ چنانچہ بنی طے کے سب آدمی طلیحہ کے لشکر سے جدا ہو کر آ گئے اور سب کے سب اسلام پر قائم ہو کر سیدنا خالد ؓ بن ولید کے لشکر میں جو قریب پہنچ چکا تھا شامل ہو گئے‘ سیدنا خالدبن ولید ؓ نے بزاخہ کے میدان میں پہنچ کر لشکر طلیحہ پر حملہ کیا‘ جنگ و پیکار اور حملہ کے عام شروع ہونے سے پیشتر لشکر اسلام کے دو بہادر سیدنا عکاشہ بن محصن ؓ اور ثابت بن اقرم ؓ انصاری جو طلایہ گردی کی خدمت پر مامور تھے دشمنوں کے ہاتھ سے شہید ہو گئے تھے‘ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے ثابت ابن قیس ؓ کو اور نبی طے پر عدی ؓ بن حاتم کو سردار مقرر کر کے حملہ کیا‘ طلیحہ کے لشکر کی سپہ سالاری اس کا بھائی خیال کر رہا تھا اور طلیحہ ایک چادر اوڑھے ہوئے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے الگ ایک طرف وحی کے انتظار میں بیٹھا تھا‘ لڑائی خوب زور شور سے جاری ہوئی۔
جب مرتدین کے لشکر پر کچھ پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے تو طلیحہ کے لشکر کا ایک سردار عیینہ بن حصن طلیحہ کے پاس آیا اور کہا کہ کوئی وحی نازل ہوئی یا نہیں ؟ طلیحہ نے کہا ابھی نہیں ہوئی‘ پھر تھوڑی دیر کے بعد عینیہ نے دریافت کیا اور وہی جواب پایا‘ وہ پھر میدان پر جا کر لڑنے لگا‘ اب دم بدم مسلمان غالب ہوتے جاتے تھے اور مرتدین کے پائوں اکھڑنے لگے تھے‘ عینیہ تیسری مرتبہ پھر طلیحہ کے پاس گیا اور وحی کی نسبت پوچھا تو اس نے کہا کہ ’’ہاں جبرائیل میرے پاس آیا تھا وہ کہہ گیا ہے کہ تیرے لیے وہی ہو گا جو تیری قسمت میں لکھا ہے‘‘۔
عینیہ نے یہ سن کر کہا کہ لوگو! طلیحہ جھوٹا ہے‘ میں تو جاتا ہوں ‘ یہ سنتے ہی مرتدین یک لخت بھاگ پڑے‘ بہت سے مقتول ‘ بہت سے مفرور اور بہت سے گرفتار ہوئے‘ بہت سے اسی وقت مسلمان ہو گئے‘ طلیحہ معہ اپنی بیوی کے گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں سے بھاگا اور ملک شام کی طرف جا کر قبیلہ قضاعہ میں مقیم ہوا‘ جب رفتہ رفتہ تمام قبائل مسلمان ہو گئے اور خود اس کا قبیلہ بھی اسلام میں داخل ہو گیا تو طلیحہ بھی مسلمان ہو کر سیدنا عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں مدینہ آیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی‘ عیینہ بن حصن بھی گرفتار ہو کر سیدنا خالد ؓ بن ولید کے سامنے آیا‘ اس کو سیدنا خالد ؓ نے باندھ کر صدیق اکبر ؓ کے پاس مدینہ بھیج دیا‘ یہاں اس نے بڑی خواری کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ مگر بعد میں ٹھیک ہو گیا۔
مقام بزاخہ پر لشکر طلیحہ جب شکست کھا کر بھاگا ہے تو مفروروں میں غطفان و سلیم و ہوازن وغیرہ قبائل کے لوگ مقام حواب میں جا کر جمع ہوئے اور سلمیٰ بنت مالک بن حذیفہ بن بدر بن ظفر کو اپنا سردار بنایا اور مقابلہ کی تیاری میں مصروف ہوئے‘ خالد ؓ بن ولید کو یہ حال معلوم ہوا تو وہ اس طرف متوجہ ہوئے‘ سلمیٰ اپنے لشکر کو لے کر مقابلہ پر آئی اور ایک ناقہ پر سوار ہو کر خود سپہ سالاری کی خدمت انجام دینے لگی‘ سیدنا خالد ؓ بن ولید نے حملہ کیا‘ سخت مقابلہ ہوا‘ سلمیٰ کی ناقہ کی حفاظت میں سو آدمی مرتدین کے مقتول ہوئے‘ آخر سلمیٰ کا ناقہ زخمی ہو کر گرا اور سلمی مقتول ہوئی‘ اس کے مقتول ہوتے ہی مرتدین سے میدان خالی ہو گیا‘ یہاں یہ ہنگامہ برپا تھا اور ادھر مدینہ منورہ میں بنو سلیم کا ایک سردار الفجاء ۃ بن عبدیا لیل سیدنا ابوبکرصدیق ؓ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا کہ میں مسلمان ہوں ‘ آپ آلات حرب سے مدد کریں میں مرتدین کا مقابلہ کروں گا‘ سیدنا صدیق اکبر ؓ نے اس کو اور اس کے ہمراہیوں کو سامان حرب عطا کر کے مرتدین کے مقابلہ کو بھیجا‘ اس نے مدینہ سے نکل کر اپنے ارتداد کا اعلان کیا اور بنو سلیم و بنو ہوازن کے ان لوگوں پر جو مسلمان ہو گئے تھے شب خون مارنے کو بڑھا‘ سیدنا ابوبکرصدیق ؓ نے اس حال سے آگاہ ہو کر فوراً عبداللہ بن قیس کو روانہ کیا‘ انہوں نے ان دھوکہ باز مرتدین کو راستہ ہی میں جا لیا بعد مقابلہ و مقاتلہ الفجاۃ بن عبدیا لیل گرفتار ہو کر سیدنا صدیق اکبر ؓ کے سامنے مدینہ میں حاضر کیا گیا اور مقتول ہوا۔
: سجاح اور مالک بن نویرہ
بنو تمیم چند قبائل پر مشتمل اور چند بستیوں میں سکونت پذیر تھے‘ ان کے علاقے پر حیات نبوی ﷺ میں چند عامل جو کہ انہیں کی قوم کے مقرر تھے جن کے نام مالک بن نویرہ‘ وکیع بن مالک ‘ صفوان بن صفوان‘ قیس بن عاصم وغیرہ تھے‘ جب وفات نبوی ﷺ کی خبر مشہور ہوئی تو قیس بن عاصم مرتد ہو گیا‘ مالک بن نویرہ نے بھی اس خبر کو سن کر مسرت کا اظہار کیا‘ صفوان بن صفوان اسلام پر قائم رہے اور قیس و صفوان میں جنگ شروع ہو گئی‘ اس اثناء میں سجاح بنت الحرث بن سوید نے جو قبیلہ تغلب سے تعلق رکھتی تھی نبوت کا دعویٰ کیا اور بنی تغلب کے سردار ہذیل بن عمران نے‘ اور بنی نمر کے سردار عقبہ ابن ہلال‘ اور بنی شیبان کے سردار سلیل بن قیس نے اس کے دعویٰ کو قبول کیا‘ سجاح کے پاس چار ہزار کے قریب لشکر جمع ہو گیا‘ وہ اس لشکر کو لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کے ارادہ سے چلی‘ بنو تمیم کے اندر اختلاف پیدا ہو ہی گیا تھا‘ مالک بن نویرہ نے سجاح سے مصالحت کر کے اس کو مشورہ دیا کہ بنو تمیم کے دوسرے قبائل پر حملہ کرے اور اس طرح بنو تمیم کو مجبور کر کے اپنے ساتھ لے کر مدینہ کی طرف جائے‘ سجاح نے بنو تمیم پر حملہ کیا‘ بنو تمیم نے مقابلہ کر کے اس کے لشکر کو شکست دی مگر پھر صلح ہو گئی۔
اب سجاح مالک بن نویرہ اور وکیع بن مالک کو ہمراہ لے کر چلی‘ تھوڑی دور جا کر اور کچھ سوچ کر بنو تمیم کے یہ دونوں سردار جدا ہو کر واپس چلے گئے‘ سجاح اپنے لشکر کو لیے ہوئے آگے بڑھی‘ سجاح نے اپنے پیرئوں کے لیے پنج وقتہ نماز تو لازمی رکھی تھی‘ مگر سور کا گوشت کھانا‘ شراب پینا اور زنا کرنا جائز قرار دے دیاتھا‘ بہت سے عیسائی بھی اپنا مذہب چھوڑ کر اس کی جماعت میں شامل ہو گئے تھے۔
اب سجاح کو بنی تمیم کی بستیوں سے آگے بڑھ کر معلوم ہوا کہ خالد بن ولید ؓ لشکر اسلام لیے ہوئے اس کی طرف تشریف لا رہے ہیں ‘ ادھر مسیلمہ کذاب کی جمعیت کثیرہ کا حال سن کر اس کو تردد ہوا کہ کہیں وہ بھی نبوت کا مدعی ہونے کے سبب رقابت اور مخالفت پر آمادہ نہ ہو جائے‘ مسیلمہ کذاب نے جب سجاح کے لشکر کا حال سنا تو وہ بھی اپنی جگہ متردد ہوا‘ کہ ایک طرف اسلامی لشکر کا خطرہ ہے اور دوسری طرف سجاح لشکر عظیم لیے ہوئے نکلی ہے‘ اگر اس طرف متوجہ ہو گئی تو بڑی دقت پیش آئے گی۔
ادھر عکرمہ ؓ اور شرجیل ؓ بھی اپنی جمعیت کو لیے ہوئے یمامہ کے قریب پہنچ چکے تھے اور مسیلمہ و سجاح کو ایک دوسرے کا شریک کار سمجھ کر احتیاط کو کام میں لا رہے تھے‘ بالآخر مسیلمہ نے سجاح کو خط لکھا کہ تمہارا ارادہ کیا ہے؟ سجاح نے جواب دیا کہ میں مدینہ منورہ پر حملہ کرنا چاہتی ہوں ‘ میں نبی ہوں اور سنا ہے کہ آپ بھی نبی ہیں ‘ لہذا مناسب یہ ہے کہ ہم دونوں مل کر مدینہ پر حملہ کریں ۔
مسیلمہ نے فوراً پیغام بھیجا کہ جب تک سیدنا محمد ﷺ زندہ تھے اس وقت تک تو میں نے آدھا ملک ان کے لیے چھوڑ دیا تھا اور آدھے ملک کو اپنا علاقہ سمجھا تھا‘ اب ان کے بعد تمام ملک پر میرا حق ہے‘ لیکن چونکہ تم بھی نبوت کی مدعی ہو لہذا میں آدھی پیغمبری تم کو دے دوں گا‘ بہتر یہ ہے کہ اپنے لشکر کو وہیں چھوڑ کر تنہا میرے پاس چلی آئو تاکہ تقسیم پیغمبری اور مدینہ پر حملہ آوری کے متعلق تم سے تمام گفتگو اور مشورہ ہو جائے۔
: جھوٹی نبیہ کا نکاح
سجاح یہ پیغام پاتے ہی مسیلمہ کی طرف روانہ ہو گئی‘ اس نے اپنے قلعہ کے سامنے ایک خیمہ کھڑا کیا‘ سجاح کو اس میں اتارا‘ دونوں کی بات چیت ہوئی‘ سجاح نے مسیلمہ کی پیغمبری کو تسلیم کیا‘ اس پر ایمان لائی‘ پھر دونوں کا نکاح ہو گیا‘ نکاح کے بعد سجاح تین دن تک مسیلمہ کے پاس رہی‘ وہاں سے رخصت ہو کر اپنے لشکر میں آئی تو لشکر والوں نے کہا کہ نکاح کا مہر کہاں ہے‘ یہ تو نے بے مہر کیسا نکاح کیا ہے؟ وہ پھر مسیلمہ کے پاس گئی تو مسلیمہ نے کہا کہ میں نے تیرے مہر میں تیری جماعت کے لیے دو نمازیں یعنی عشاء اور فجر کی نماز معاف کر دی ہے‘ سجاح وہاں سے رخصت ہو کر آئی‘ ہذیل و عقبہ کو یمامہ کی نصف پیداوار وصول کرنے کے لیے چھوڑ کر روانہ ہوئی تھی کہ سیدنا خالد ؓ جو بنو تمیم کی طرف بڑھے چلے آ رہے تھے سامنے آ گئے‘ سیدنا خالد بن ولید ؓ کے لشکر کو دیکھتے ہی سجاح کے ہمراہی فرار ہو گئے‘ اور وہ بہزار وقت اپنے قبیلہ بنی تغلب میں بمقام جزیرہ پہنچ کر گم نامی کی زندگی بسر کرنے لگی۔
سیدنا خالد بن ولید جب نبو تمیم کے علاقہ میں پہنچے تو وہاں کے ان لوگوں سے جو اسلام پر قائم تھے کوئی تعرض نہیں کیا‘ لیکن جو مرتد ہو گئے تھے وہ گرفتار و قتل کئے گئے‘ مرتد اور مسلمانوں کی شناخت اذان کے ذریعہ ہوتی تھی‘ جیسا کہ اوپر فرمان صدیقی میں ذکر آ چکا ہے ۔۔۔۔۔ مالک بن نویرہ کی بستیوں پر بھی اذان کے بعد ہی حملہ ہوا۔
                        
                    
                    
                    
                    
                    
                                    
                                        
                                            ❤️
                                        
                                    
                                        
                                            ✍
                                        
                                    
                                        
                                            👍
                                        
                                    
                                    
                                        5