{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
                                
                            
                            
                    
                                
                                
                                February 6, 2025 at 04:39 AM
                               
                            
                        
                            کتاب زبدةالفقہ
قسط نمبر 111
: نماز توڑ دینے کے احکام و عذرات
: جماعت میں شامل ہونے کے مسائل
: مقتدی جماعت کا پانے والا کب ہوتا ہے 
: قضا نمازوں کے پڑھنے کا بیان
نماز توڑ دینے کے احکام
1.نماز روزہ وغیرہ عبادات کو قصداً بلا عذر توڑ دینا حرام ہے ، نماز کی اصلاح اور کمال حاصل کرنے کے لئے توڑ دینا مشروع و مطلوب ہے 
2.نماز کو توڑ دینا کبھی واجب ہوتا ہے مثلاً جان بچانے کے لئے اور کبھی مستحب ہوتا ہے مثلاً جماعت میں شامل ہونے کے لئے اور کبھی جائز و مباح ہوتا ہے مثلاً جب مال ضائع ہونے کا اندیشہ ہو
نماز توڑ دینے کے عذرات
1.کسی شخص کا جانور بھاگ جائے یا چرواہے کو اپنی بکریوں میں بھیڑیے کا خوف ہو یا سانپ بچھو وغیرہ سامنے آ جائے اور اس سے ایذا کا خوف ہو، یا کھلی ہوئی مرغی کے پاس بلی آ گئی جس سے مرغی کی جان کا خوف ہو
2.کسی مال کے ضائع ہونے کا خوف ہو اور اس کی قیمت کم از کم ایک درہم یا اس سے زیادہ ہو خواہ مال اپنا ہو یا کسی دوسرے کا ہو، خواہ چوری کا خوف ہو یا ہنڈیا جل جانے یا ابل جانے یا روٹی جل جانے کا خوف ہو، اسی طرح اگر ریل گاڑی سے اتر کر نماز پڑھ رہا ہو اور سامان یا بال بچے ریل گاڑی میں ہوں اور ریل گاڑی روانہ ہو جائے تو نماز توڑ کر سوار ہو جائے 
3.کسی مصیبت زدہ کی پکار پر یا کسی کی ہلاکت کا خوف ہو یا کوئی اندھا جا رہا ہے اور آگے کنواں ہے جس میں اس اندھے کے گر جانے کا خوف ہے 
4.جب کسی شخص کو اس کا باپ، ماں ، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ میں سے کوئی پکارے اور وہ فرض نماز پڑھ رہا ہو تو نماز نہ توڑے جب کہ وہ یونہی کسی فریاد کے بغیر پکاریں اور اگر فریاد خواہی کے لئے پکاریں تو جواب دے اور نماز توڑ دے اور اگر نفل یا سنت پڑھتا ہو اور ان میں سے کوئی پکارے اور اس کو اس کا نماز میں ہونا معلوم نہ ہو تو ہر حال میں نماز توڑ کر اس کی بات کا جواب دینا فرض ہے اور اگر اس کو اس کا نماز میں ہونا معلوم ہو تو جب تک اس کے لئے کسی تکلیف یا نقصان کا ڈر نہ ہو نماز نہ توڑے اور تکلیف کا ڈر ہو تو نماز توڑ دینا فرض ہے 
5.اگر نماز میں پیشاب یا پاخانہ زور کرے یا ریح کا غلبہ ہو تو نماز توڑ دے خواہ نماز فرض ہو یا نفل اور فراغت حاصل کرنے کے بعد پڑھے خواہ جماعت جاتی رہے ، اگر اسی حالت میں پوری کرے گا تو وہ نماز مکروہِ تحریمی ہو گی جس کا لوٹانا واجب ہے لیکن اگر وقت نکل جانے کا خوف ہو تو اسی حالت میں نماز پوری کر لے اور پھر لوٹانے یا قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے 
6.اگر نماز میں ایسی حالت ہو جائے جس سے کسی دوسرے امام کے نزدیک نماز فاسد ہو جاتی ہے اور احناف کے نزدیک فاسد نہیں ہوتی اور جماعت یا وقت فوت ہونے کا خوف نہ ہو تو اختلاف ائمہ سے بچنے کے لئے نماز کو توڑ کر نئے سرے سے اس طرح ادا کرنا کہ سب ائمہ کے نزدیک درست ہو جائے مستحب ہے ، اگر جماعت یا وقت جاتے رہنے کا خوف ہو تو وہ نماز نہ توڑے
7.جب کوئی ذمی کافر آ کر نماز پڑھنے والے سے کہے کہ مجھے مسلمان کر لے تو نماز توڑ دینا فرض ہے خواہ وہ نماز فرض ہو یا نفل 8.بچہ جنانے والی دائی کو اگر بچہ کی جان کا یا اس کے کسی عضو کے ضائع ہونے کا یا بچہ کی ماں کی جان کے نقصان کا خوف غالب ہو تو نماز توڑ دینا واجب ہے اور اگر خوف ہو لیکن گمان غالب نہ ہو تب بھی نماز توڑ دینا اور موخر کرنا جائز ہے 
۹.جب کوئی شخص فرض و واجب یا سنت و نفل نماز پڑھ رہا ہو اور وقتی فرضوں کی جماعت کھڑی ہو جائے تب بھی نماز کے توڑ دینا مشروع ہے 
: جماعت میں شامل ہونے کے مسائل
تنہا فرض پڑھنے والے کا اسی فرض کی جماعت میں شامل ہونا
1.اگر کوئی شخص فرض نماز کی پہلی رکعت پڑھ رہا ہے اور ابھی اس کا سجدہ نہیں کیا کہ وہاں اس نماز کی جماعت شروع ہو گئی تو اپنی نماز توڑ کر جماعت میں شریک ہو جائے ، خواہ وہ کوئی سے فرض نماز ہو
2.اگر وہ شخص ایک رکعت پڑھ چکا ہو اور دوسری رکعت میں ہو اور ابھی دوسری رکعت کا سجدہ نہیں کیا تو اگر نماز دو رکعت یا تین رکعت والی ہے یعنی فجر و مغرب کی نماز تو اس نماز کو توڑ دے اور جماعت میں شامل ہو جائے اور اگر ان دونوں نمازوں میں دوسری رکعت کا سجدہ کر چکا ہے تو پھر نہ توڑے بلکہ وہ اپنی فرض کو ہی پورا کر لے اور پھر امام کے ساتھ شریک نہ ہو اس لئے کہ وہ اپنی فرض نماز ادا کر چکا اور اب جماعت کے ساتھ پڑھی ہوئی نماز نفل ہو گی جو مکروہِ تحریمی ہے کیونکہ فجر کی فرض نماز کے بعد نفل پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے مغرب میں تین رکعت ہوں گی اور تین رکعت نفل جائز نہیں 
3.اگر کسی شخص کے چار رکعتی فرض یعنی ظہر یا عصر یا عشا کی نماز کی ایک رکعت پڑھی اور دوسری رکعت میں تھا کہ جماعت قائم ہو گئی تو اس کو واجب ہے کہ دوسری رکعت پوری کر کے التحیات و درود و دعا پڑھ کر سلام پھیر دے پھر جماعت میں شامل ہو جائے تاکہ یہ دو رکعت نفل ہو جائیں اور فرض جماعت کے ساتھ ادا ہو جائیں گے اگر وہ دوسری رکعت کا سجدہ کر چکا ہے تب بھی یہی حکم ہے ، اگر وہ تیسری رکعت میں تھا اور اس کا سجدہ نہیں کیا تھا کہ جماعت کھڑی ہو گئی تو نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو جائے اور اگر تیسری رکعت کا سجدہ کر لیا اس کے بعد جماعت کھڑی ہوئی تو اس کو واجب ہے کہ اپنی نماز پوری کر لے توڑے نہیں اگر وہ نماز توڑ دے گا تو گنہگار ہو گا اب ظہر اور عشا کی نماز میں اس کو اختیار ہے کہ جماعت میں شامل ہو جائے اور یہ اس کے لئے افضل ہے کیونکہ یہ نفل ہو جائیں گے اور جماعت کے ساتھ نفل پڑھنے کا ثواب پا لے گا اور اگر چاہے تو جماعت میں شامل نہ ہو اور فجر و مغرب و عصر کی نماز پوری کر لینے کی صورت میں وہ جماعت میں شامل نہ ہو
4.مذکورہ بالا احکام اس وقت ہیں جبکہ اسی جگہ جماعت قائم ہو جائے اور اگر کسی دوسری مسجد میں جماعت قائم ہوئی ہو تو نماز کسی حالت میں نہ توڑے اگرچہ پہلی رکعت کا سجدہ بھی نہ کیا ہو
5.نماز توڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ حالت قیام میں ہو یا حالت رکوع و سجود میں ہو اسی حالت میں ایک طرف کو سلام پھیر دے پھر امام کی اقتدا کر لے اور بھی طریقے ہیں مثلاً قعدے کی طرف لوٹے اور بیٹھ کر سلام پھیرے اور بعض نے کہا کہ سلام نہ پھیرے بلکہ اسی حالت میں امام کے ساتھ شریک ہونے کی نیت کر کے تکبیر تحریمہ کہہ لے یہ سب صورتیں جائز ہیں لیکن پہلی صورت اولیٰ ہے 
نمازِ سنت و نفل وغیرہ پڑھتے ہوئے جماتِ فرض کا قائم ہو جانا
1.اگر کوئی شخص نفل نماز پڑھ رہا ہو اور وہاں فرض نماز کی جماعت ہونے لگے تو نفل نماز کو نہ توڑے خواہ اس نے پہلی رکعت کا سجدہ کیا ہو یا نہ کیا ہو بلکہ اس کو چاہئے کہ دوگانہ پورا کر کے سلام پھیر دے اگرچہ چار رکعت کی نیت کی ہو، پھر جماعت میں شامل ہو جائے 
2.اگر ظہر یا جمعہ کی فرضوں سے پہلے کی چار رکعت سنتِ مؤکدہ پڑھ رہا ہو اور نمازِ ظہر کی جماعت ہونے لگے یا جمعے کا خطبہ شروع ہو جائے تو صحیح و راجح قول یہ ہے کہ چاروں رکعت پوری کر لے خواہ پہلے دو گانے کے وقت جماعت کھڑی ہو جائے یا دوسرے دو گانے کے وقت، اسی پر فتویٰ ہے ( لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ جماعت نہ چلی جائے ورنہ دوگانہ پڑھ کر سلام پھیر دے اور جماعت میں شامل ہو جائے ) اگر تیسری رکعت شروع کر دی ہو تو چار رکعت کا پورا کرنا ضروری ہے 
3.اگر فجر کی سنتیں پڑھ رہا تھا کہ جماعت کھڑی ہو گئی تو اگر قعدہ اخیرہ کے ملنے کی توقع نہ ہو تو سنتوں کو توڑ کر جماعت میں شامل ہو جائے اور سورج نکلنے کے بعد ان کی قضا کرے
4.اگر کوئی شخص ایسے وقت میں مسجد میں آیا جبکہ وقتی فرضوں کی جماعت ہو رہی ہو اور ابھی اس کے فرضوں سے پہلے کی سنتِ مؤکدہ نہیں پڑھیں تو اگر وہ وقت ظہر یا جمعہ کا ہے اور اس کا یقین یا گمان غالب ہے کہ وہ امام کے رکوع میں جانے سے پہلے پوری کر لے گا اور جماعت کی کوئی رکعت نہیں جائے گی تو جماعت سے الگ جگہ میں پڑھ لے اور اگر رکعت جاتے رہنے کا گمان غالب ہو تو وہ سنتیں اس وقت نہ پڑھے بلکہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے اور ان سنتوں کو فرضوں کے بعد پڑھے خواہ بعد کی سنت مؤکدہ سے پہلے پڑھے یا بعد میں دونوں طرح جائز و مفتی بہ ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ بعد والی سنتِ مؤکدہ پڑھ کر ان کے بعد ان سنتوں کو پڑھے اور اگر وہ فجر کا وقت ہو تو فجر کی سنتیں چونکہ زیادہ مؤکدہ ہیں اس لئے ان کے لئے یہ حکم ہے کہ اگر فرض نماز شروع ہو چکی ہو تب بھی پڑھ لے بشرطیکہ کم از کم ایک رکعت ملنے کی امید ہو اور اگر ایک رکعت ملنے کی بھی امید نہ ہو تو پھر نہ پڑھے بلکہ جماعت میں شامل ہو جائے ظاہر مذہب یہی ہے اور بدائع و در مختار میں ہے کہ راجح ظاہر مذہب ہے پھر اگر چاہے تو ان سنتوں کو سورج نکلنےکے بعد پڑھے اور ایک قول یہ ہے کہ اگر ظن غالب یہ ہے کہ اخیر قعدہ مل جائے گا تو یہ سنتیں پڑھ کر جماعت میں شامل ہو جائے ورنہ ترک کر دے، بحر و شامی وغیرہ میں اسی پر اعتماد کیا ہے 
5.اگر یہ خوف ہو کہ فجر کی سنتیں نماز کی سنتیں اور مستحبات کی پابندی کرتے ہوئے ادا کرنے سے جماعت نہ ملے گی اور سنن و مستحبات کی پابندی نہ کرنے سے مل جائے گی تو ایسی حالت میں صرف فرائض و واجباتِ نماز پر اقتصار کرے اور سنن یعنی ثنا و تعوذ و نعوذ وغیرہ کو چھوڑ دے یہی حکم ظہر اور جمعہ کی سنتوں کا بھی ہے 
6.اگر فرض نماز کی جماعت کھڑی ہو اور فجر یا کسی اور وقت کی سنتیں پڑھنا چاہے تو ایسی جگہ پڑھیں جائیں جو مسجد سے علیحدہ ہو اگر ایسی جگہ نہ ملے تو مسجد کے اندر کسی گوشہ میں یا کسی ستون وغیرہ کی آڑ میں پڑھے یا جماعت اندر ہو رہی ہو تو سنتیں باہر پڑھے اور جماعت باہر ہو رہی ہو اور اندر جا سکتا ہو تو اندر پڑھے اگر ایسا موقع نہ ہو تو جماعت کی صف سے جس قدر دور ممکن ہو وہاں پڑھے
7.اگر کسی شخص کی فجر کی سنت و فرض دونوں قضا ہو گئیں اور سورج نکلنے یعنی ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد دوپہر شرعی سے پہلے پہلے کسی وقت پڑھے تو سنت و فرض دونوں کی قضا کرے اور اگر زوالِ آفتاب کے بعد قضا کرے تو صرف فرض کی قضا کرے اور اگر صرف سنتیں قضا ہو جائیں تو آفتاب ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد پڑھ لینا بہتر ہے اور اگر سنتیں پڑھ لی تھیں اور صرف فرض قضا ہوئے تو صرف فرض قضا کرے سنتوں کا اعادہ نہ کرے، کسی اور وقت کی سنتیں قضا ہو جائیں تو قضا نہ کرے کیونکہ وقت کے بعد کسی سنت کی قضا نہیں ہے 
: مقتدی جماعت کا پانے والا کب ہوتا ہے 
1.جس شخص کو کسی بھی فرض نماز میں ایک رکعت امام کے ساتھ ملی بالاتفاق جماعت سے نماز پڑھنے والا نہیں ہے لیکن اس کو جماعت کا ثواب مل جائے گا اگرچہ اخیر قعدہ میں ہی مل جائے ، چار رکعت والی نماز میں دو رکعت پانے والی کا بھی بالاتفاق یہی حکم ہے 
2.چار رکعت والی نماز میں تین رکعت امام کے ساتھ پانے والا اور تین رکعتی نماز یعنی مغرب میں دو رکعت امام کے ساتھ پانے والا بعض کے نزدیک جماعت سے نماز پڑھنے والا ہے اور بعض کے نزدیک نہیں البتہ جماعت کا ثواب پانے والا ہے ، یہی اظہر ہے اور اسی پر فتویٰ ہے 
3.جس رکعت کا رکوع امام کے ساتھ مل جائے اس کو وہ رکعت امام کے ساتھ مل گئی اور اگر رکوع امام کے ساتھ نہ ملے تو وہ رکعت ملنے میں شمار نہ ہو گی
4.جب نمازی یعنی امام وغیرہ پہلا سلام پھیرتا ہے تو السلام کی میم کہنے سے نماز سے باہر ہوتا ہے اس سے پہلے نہیں پس اس سے پہلے تک امام کی اقتدا درست ہے بعد میں نہیں 
: قضا نمازوں کے پڑھنے کا بیان
1.کسی عبادت کو اس کے مقررہ وقت کے اندر شروع کر دینے کو ادا کہتے ہیں اور فرض و واجب عبادات کو اس کے مقررہ وقت گزر جانے کے بعد شروع کرنے کو قضا کہتے ہیں مثلاً ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں پڑھ لی تو ادا کہلائے گی اور ظہر کا وقت نکل جانے کے بعد پڑھی تو قضا کہلائے گی
2.اگر نماز کے وقت کے اندر نماز کی تحریمہ باندھ لیا تو وہ نماز ادا ہو گی اگرچہ تحریمہ باندھنے کے بعد وقت نکل جائے سوائے فجر و جمعہ و عیدین کے کہ اگر ان میں سلام سے پہلے بھی وقت نکل گیا تو نماز جاتی رہی
3.تمام فرض نمازوں کی قضا فرض اور واجب کی قضا واجب ہے اور بعض سنتوں کی قضا سنت ہے 
4.کسی فرض و واجب یا سنت نماز کو قصداً بلا عذر اس کے وقت پر ادا نہ کرنا گناہ ہے فرض و واجب کو وقت پر ادا نہ کرنے کا گناہ بہت بڑا ہے اس کے بعد سنت کا ہے ، لیکن اگر بلا قصد یا کسی عذر کی وجہ سے قضا ہو جائے تو گناہ نہیں ، عذرات کی تفصیل آگے آتی ہے 
5.اگر کسی کی فرض یا واجب نماز قضا ہو جائے تو جب یاد آ جائے یا جاگے یا وہ عذر دور ہو جائے تو فوراً پڑھ لے قضا نماز پڑھنے میں کسی عذر کے بغیر دیر لگانا گناہ ہے لیکن اگر وہ وقت مکروہ ہو تو مکروہ وقت نکل جانے کے بعد پڑھے
6.اگر کسی وقت کی سنت قضا ہو جائیں تو ان کی قضا نہیں ہے سوائے سنت فجر کے کہ اگر فرضوں کے ساتھ قضا ہوئی ہوں تو طلوع آفتاب کے بعد دوپہر شرعی سے پہلے سنت و فرض دونوں کو ادا کر لے اگر زوال کے بعد پڑھے تو صرف فرض پڑھے سنت نہ پڑھے اور اگر فجر کی صرف سنتیں قضا ہوئیں تو ان کو طلوع آفتاب سے پہلے پڑھنا مکروہ ہے اور آفتاب نکلنے کے بعد پڑھنا مکروہ نہیں بلکہ بہتر ہے لیکن وہ سنتیں نہ ہوں گی نفل ہو جائیں گی، ظہر اور جمعہ کی پہلی چار مؤکدہ سنتیں اگر فرض سے پہلے نہیں پڑھیں تو فرض نماز کے بعد کی مؤکدہ سنتوں سے پہلے یا بعد میں پڑھ لے بہتر ہے کہ ان سنتوں کے بعد پڑھے اور ان کو قضا کہنا مجازاً یا حقیقتہً نہیں
                        
                    
                    
                    
                    
                    
                                    
                                        
                                            ✍
                                        
                                    
                                        
                                            😢
                                        
                                    
                                    
                                        2