
{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
February 7, 2025 at 05:52 AM
کتاب: حیاۃ الصحابہ ؓ
قسط نمبر 155
صحابۂ کرام ؓ کا دینِ اسلام کے لئے جان اور مال خرچ کرنا
عنوان: بیرَِ معُونہ کا دن
: جنگِ یمامہ کا دن
: جنگِ یرموک کا دن
: صحابۂ کرام ؓ کے اللہ کے راستہ میں شوق شہادت کے قصے
حضرت مغیرہ بن عبد الرحمن اور حضرت عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم وغیرہ دیگر حضرات اہلِ علم فرماتے ہیں کہ نیزہ بازی کا ماہر ابو براء عامر بن مالک بن جعفر مدینہ حضور ﷺ کی خد مت میں آیا۔ حضور ﷺ نے اس کے سامنے اِسلام پیش فرمایا اور اسے اِسلام کی دعوت دی تو نہ تو وہ اِسلام لایا اور نہ اِسلام سے دوری کو ظاہر کیا۔ اور اس نے کہا: اے محمد! اگر آپ اپنے چند صحابہ نجد والوں کے پاس بھیج دیں اور وہ اُن کو آپ کے دین کی دعوت دیں تو مجھے اُمید ہے کہ وہ آپ کی بات مان لیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اپنے صحابہ کے بارے میں نجد والوں کی طرف سے خطرہ ہے۔ ابو براء نے کہا: میں ان لوگوں کو پناہ دیتا ہوں آپ انھیں بھیج دیں تاکہ وہ لوگوں کو آپ کے دین کی دعوت دیں ۔ چنانچہ حضور ﷺ نے بنو ساعدہ کے منذر بن عمرو کو جن کا لقب اَلْمُعْنِقْ لِیَمُوْتَ تھا (اس کا ترجمہ ہے: موت کی طرف جلدی سے لپکنے والا) اپنے صحابہ میں سے ستّر بہترین مسلمانوں کے ساتھ بھیجا۔ جن میں حضرت حارث بن صِمّہ، بنو عدی بن نجار کے حضرت حرام بن مِلْحان، حضرت عروہ بن اسماء بن صلت سلمی، حضرت نافع بن بدیل بن ورقاء خزاعی، حضرت ابو بکر کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ ؓ اور دیگر بہت سے بہترین مسلمان تھے۔ یہ حضرات مدینہ سے چل کر بیر معونہ پہنچے۔ یہ کنواں بنو عامر کی زمین اور بنو سُلَیم کے پتھریلے میدان کے درمیان ہے۔
ان حضرات نے جب یہاں پڑائو ڈال لیا تو حضرت حرام بن مِلْحان کو حضور ﷺ کا خط دے کر عامر بن طفیل کے پاس بھیجا۔ حضرت حرام عامر کے پاس پہنچے تو اس نے خط کی طرف دیکھا ہی نہیں بلکہ حضرت حرام پر حملہ کر کے انھیں شہید کر دیا۔ پھر اس نے حضرات صحابۂ کرام ؓ کے خلاف بنو عامر قبیلہ سے مدد مانگی، لیکن اس کی بات ماننے سے بنو عامر نے اِنکار کر دیا اور یہ کہہ دیا کہ ابو براء ان مسلمانوں کو پناہ دے چکا ہے ہم اس کے معاہدہ کو توڑنا نہیں چاہتے ہیں ۔ پھر عامر نے بنو سُلَیم کے قبائل عُصَیَّہ اور رِعل اور ذکو ان سے ان حضرات کے خلاف مدد مانگی۔ انھوں نے اس کی بات مان لی۔ چنانچہ یہ تمام قبائل اِکٹھے ہو کر آئے اور جہاں مسلمانوں نے پڑائو ڈالا ہوا تھا وہاں آکر سب طرف سے مسلمانوں کو گھیر لیا۔ جب مسلمانوں نے ان قبائل کو دیکھا تو انھوں نے اپنی تلواریں نکال لیں اور ان کافروں سے لڑنا شروع کر دیا یہاں تک کہ سب کے سب ہی شہید ہوگئے۔ اللہ ان حضرات پر رحم فرمائے! بس بنو دینار بن نجار کے حضرت کعب بن زید ہی زندہ بچے۔
ابھی ان میں جان باقی تھی کہ کافر انھیں چھوڑ کر چلے گئے۔ انھیں مقتولین کے درمیان سے اُٹھا کر لایا گیا۔ اس کے بعد یہ زندہ رہے اور جنگِ خندق کے دن یہ شہید ہوئے۔
اور حضرت عمرو بن اُمیّہ ضَمْرِی اور قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے ایک اَنصار ی صحابی یہ دو حضرات مسلمانوں کے جانور لے کر چرانے گئے ہوئے تھے۔ انھیں مسلمانوں کے شہید ہو نے کا پتہ اس طرح چلا کہ انھوں نے دیکھا کہ جہاں مسلمانوں نے پڑائو ڈالا تھا مردار خور پرندے اُڑ رہے ہیں اور آسمان میں چکر لگا رہے ہیں ۔ تو ان حضرات نے کہا: اللہ کی قسم! ان پرندوں کے یوں آسمان میں چکر لگانے میں ضرور کوئی بات ہے۔ وہ دونوں حضرات دیکھنے کے لیے آئے، آکر دیکھا تو سارے مسلمان خون میں لت پت تھے اور جن گھوڑے سواروں نے ان مسلمانوں کو قتل کیا تھا وہ وہاں کھڑے تھے۔یہ حالت دیکھ کر اَنصاری صحابی نے حضرت عمرو بن اُمیّہ سے کہا: تمہارا کیا خیال ہے؟ حضرت عمرو نے کہا: میرا خیال یہ ہے کہ ہم جا کر حضور ﷺ کو اس واقعہ کی خبر کریں ۔ اَنصاری نے کہا کہ میں تو جان بچانے کے لیے اس جگہ کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا ہوں ، جہاں حضرت منذر بن عمرو (جیسے آدمی) کو شہید کردیا گیا ہو۔ اور میں یہ نہیں چاہتا کہ میں زندہ رہوں اور لوگوں کو اُن کی شہادت کی خبر سناتا رہوں ۔ چنانچہ انھوں نے ان کافروں سے جنگ شروع کر دی اور آخرشہید ہو گئے۔ ان کافروں نے حضرت عمرو بن اُمیّہ کو قیدی بنا لیا۔ جب انھوں نے کافروں کو بتایا کہ وہ قبیلہ مُضَر کے ہیں تو عامر بن طفیل نے اُن کو چھوڑ دیا اور ان کی پیشانی کے بال کاٹ دیے اور عامر کی ماں کے ذمہ ایک غلام آزاد کرنا تھا تو اس نے اپنی ماں کی طرف سے ان کو آزاد کر دیا۔
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے حضرت اُمّ سُلَیم ؓ کے بھائی حضرت حرام ؓ کو ستّر سواروں کی جماعت کے ساتھ بھیجا۔ (اس علاقہ کے) مشرکوں کے سردار عامر بن طفیل نے حضور ﷺ کو تین باتوں میں سے ایک بات اختیار کرنے کا موقع دیا تھا۔ اور اس نے کہا کہ یا تو دیہات والے آپ کے ہو جائیں اور شہروں والے میرے، یا پھر آپ کے بعد مجھے آپ کا خلیفہ بنایا جائے، یا پھر میں غَطَفان کے ہزاروں آدمی لے کر آپ سے جنگ کروں گا۔ عامر اُمّ فلاں ایک عورت کے گھر میں تھا وہ وہاں طاعون میں مبتلا ہو گیا۔ اس نے کہا: مجھے تو طاعون کا ایسا پھوڑا نکلا ہے جیسے اُونٹ کے نکلتا ہے۔ آلِ فلاں کی عورت کے گھر میں (سفر کی حالت میں ایک معمولی عورت کے گھر میں بے کسی وبے بسی کی موت کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہوئے کہا:) میرا گھوڑا لائو۔ اس پر سوار ہوکر چلا اور گھوڑے کی پشت پر ہی اس کی موت ہوئی۔
حضرت اُمّ سلیم کے بھائی حضرت حرام اور ایک اور لنگڑ ے صحابی اور بنوں فلاں کے ایک آدمی یہ تینوں حضرات چلے۔ حضرت حرام ؓ نے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ میں ان لوگوں کے پاس جاتا ہوں تم دونوں ذرا قریب رہنا۔ اگر ان لوگوں نے مجھے امن دے دیا تو تم قریب ہی ہوگے، اور اگر انھوں نے مجھے قتل کر دیا تو اپنے ساتھیوں کے پاس چلے جانا۔ چنانچہ وہاں جا کر حضرت حرام نے ان لوگوں سے کہا کہ کیا تم لوگ مجھے امن دیتے ہو تاکہ میں رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچا سکوں ؟ یہ ان لوگوں سے بات کر رہے تھے کہ انھوں نے ایک آدمی کو اشارہ کیا جس نے پیچھے سے آ کر ان کو نیزہ مارا۔ ہمام راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ آگے یہ الفاظ تھے کہ ایسا نیزہ مارا جو کہ پار ہوگیا۔ یہ دیکھ کر حضرت حرام نے فرمایا کہ ربّ ِکعبہ کی قسم! میں تو کامیاب ہوگیا۔ یہ دیکھ کر حضرت حرام کے دونوں ساتھی مسلمانوں سے جا ملے اور لنگڑے صحابی کے علاوہ باقی تمام ساتھی شہید کر دیے گئے اور وہ لنگڑے صحابی ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے ہوئے تھے۔ ان شہید ہونے والوں کے بارے میں ہمارے سامنے یہ آیت نازل ہوئی جو بعد میں منسوخ کر دی گئی:
إِنَّا لَقَدْ لَقِیْنَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا۔
بے شک ہم اپنے ربّ سے جا ملے، وہ ہم سے راضی ہوا اور اس نے ہمیں راضی کیا ۔
چنانچہ نبی کریم ﷺ نے تیس دن رِعل اور ذکوان اور بنو لِحیان اور عُصَیَّہ قبیلوں کے خلاف بد دعا فرمائی۔ یہ قبیلے وہ ہیں جنھوں نے اللہ ا ور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی۔
’’بخاری ‘‘میں ہے کہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب اُن کے ماموں حضرت حرام بن ملحان ؓ کو بیرِ معونہ کے دن نیزہ مارا گیا تو وہ اپنا خون لے کر اپنے منہ اور سر پر ڈالنے لگے، پھر فرمایا: ربّ ِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ اور واقدی نے بیان کیا ہے کہ جس آدمی نے حضرت حرام ؓ کو نیزہ مارا تھا وہ جبار بن سُلَمِیکلابی ہیں ۔ جب جبار نے پوچھا کہ (حضرت حرام تو قتل ہو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ) میں کامیاب ہو گیا، اس جملہ کا کیا مطلب ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ جنت ملنے کی کامیابی ہے۔ پھر جبار نے کہا: اللہ کی قسم! حضرت حرام نے سچ فرمایا اور یہ جبار اسی وجہ سے اس کے بعد مسلمان ہوگئے ۔
: جنگِ یمامہ کا دن
حضرت عروہ بن زُبیر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ہجرت کے آٹھویں سال جمادی الاولیٰ میں ایک لشکر موتہ بھیجا اور حضرت زید بن حارثہ ؓ کو اُن کا امیر بنایا اور فرمایا: اگر حضرت زید شہید ہو جائیں تو حضرت جعفر بن ابی طالب امیر ہوں گے، اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو پھر لوگوں کے امیر حضرت عبد اللہ بن رواحہ ہوں گے۔ لوگ سامانِ سفر لے کر نکلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس لشکر کی تعداد تین ہزار تھی۔ جب یہ لوگ (مدینہ سے) روانہ ہونے لگے تو (مدینہ کے) لوگوں نے حضور ﷺ کے مقرر کردہ امیروں کو رخصت کیا اور انھیں اَلوداعی سلام کیا۔ اس اَلوداعی ملاقات پر حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ رو پڑے تو لوگوں نے کہا: آپ کیوں رو رہے ہیں اے ابنِ رواحہ؟انھوں نے کہا: غور سے سنو، اللہ کی قسم! نہ تو میرے دل میں دنیا کی محبت ہے اور نہ تم لوگوں سے تعلق اور لگائو، بلکہ میں نے حضور ﷺ کو قرآن کی اس آیت کو پڑھتے ہوئے سنا جس میں دوزخ کی آگ کا تذکرہ ہے :
{وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا ج کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا O}
اور کوئی نہیں تم میں جو نہ پہنچے گا اس پر، ہوچکا یہ وعدہ تیرے رب پر لازم مقرر۔
اب مجھے معلوم نہیں کہ اس آگ پر پہنچنے کے بعد واپسی کس طرح ہو گی۔ اس پر مسلمانوں نے کہا: اللہ تمہارے ساتھ رہے، اور تم سے تکلیفوں اور پریشانیوں کو دور رکھے اور تمہیں صحیح سالم ہمارے پاس واپس لائے۔ تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے یہ اَشعار پڑھے:
لٰـکِنَّنِيْ أَسْأَلُ الرَّحْمٰنَ مَغْفِرَۃً
وَضَرْبَۃً ذَاتَ فَرْغٍ تَقْذِفُ الزَّبَدَا
لیکن میں تو رحمن (یعنی اللہ) سے گناہوں کی مغفرت چاہتا ہوں اور تلوار کا ایسا چوڑا وار چاہتا ہوں جس سے خوب جھاگ دار خون نکلے۔
أَوْ طَعْنَۃً بِیَدَيْ حَرَّانَ مُجْھِزَۃً
بِحَرْبَۃٍ تُنْفِذُ الْأَحْشَائَ وَالْکَبِدَا
یا کسی پیاسے دشمن کے ہاتھوں برچھے کا ایسا وار ہو جو میرا کام تمام کر دے، اور جو آنتوں اور جگر میں پار ہو جائے۔
حَتّٰی یُقَالَ إِذَا مَرُّوْا عَلٰی جَدَثِيْ
أَرْشَدَہُ اللّٰہُ مِنْ غَازٍ وَّقَدْ رَشَدَا
تاکہ جب لوگ میری قبر پر گزریں تو یہ کہیں کہ اللہ اس غازی کو ہدایت دے اور یہ تو ہدایت والا تھا۔
پھر جب لوگ نکلنے کے لیے تیار ہو گئے تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور ﷺ کو اَلوداع کہا۔ پھر یہ اَشعار پڑھے :
فََثَبَّتَ اللّٰہُ مَا اٰتَاکَ مِنْ حَسَنِ
تَثْبِیْتَ مُوْسٰی وَنَصْرًا کَالَّذِيْ نُصِرُوْا
اللہ تعالیٰ نے جتنی بھلائیاں آپ کو دے رکھی ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ ایسے باقی رکھے جیسے اللہ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ثابت قدم رکھا تھا، اور آپ کی ایسی مد د کرے جیسی اللہ نے ان کی کی تھی ۔
إِنِّيْ تَفَرَّسْتُ فِیْکَ الْخَیْرَ نَافِلَۃً
اَللّٰہُ یَعْلَمُ أَنِّيْ ثَابِتُ الْبَصَرٗ
مجھے آپ میں خیر بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے ،اور اللہ جانتا ہے کہ میری نظر بالکل ٹھیک ہے۔
أَنْتَ الرَّسُوْلُ فَمَنْ یُّحْرَمْ نَوَافِلَہٗ
وَالْوَجْہَ مِنْہُ فَقَدْ اَزْرٰی بِہِ الْقَدَرٗ
آپ رسول ہیں ، جو آپ کے عطا یا اور توجہ خاص سے محروم رہ گیا تو واقعی اس کی تقدیر کھوٹی ہے۔
پھر سارا لشکر روانہ ہو گیا اور حضور ﷺ بھی اُن کو رخصت فرمانے کے لیے (مدینہ سے) باہر تشریف لائے۔ چنانچہ آپ جب لشکر کو رخصت فرما کر واپس لوٹے تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے یہ شعر پڑھا :
خَلَفَ السَّلَامُ عَلَی امْرِیٍٔ وَّدَّعْتُہٗ
فِي النَّخْلِ خَیْرَ مُشَیِّعٍ وَّخَلِیْلٖ
سلام رہے اس ذاتِ اَقدس پر جن کو میں نے کھجوروں کے باغ میں رخصت کیا ہے، وہ بہترین رخصت کرنے والے اور بہترین دوست ہیں ۔
پھر یہ لشکر روانہ ہوگیا اور ملکِ شام کے شہر معان پہنچ کر پڑائو ڈالا۔ اور مسلمانوں کو یہ خبر ملی کہ ہِر قل ایک لاکھ رومی فوج لے کر ملکِ شام کے علاقہ بَلْقا کے شہر مآب میں ٹھہرا ہوا ہے اور لخم اور جُذام اور قین اوربہراء اور بَلِی قبیلوں کے ایک لاکھ آدمی جمع ہوکر ہر قل کے پاس پہنچ چکے ہیں اور ان کا سردار قبیلہ بَلِی کا ایک آدمی ہے جو اس کے قبیلہ اِرَاشہ سے تعلق رکھتا ہے اور اسے مالک بن زافلہ کہا جاتا ہے۔ جب مسلمانوں کو یہ خبر ملی تو وہ معان میں دو رات ٹھہر کر اپنے اس معاملہ میں غور کرتے رہے اور پھر یہ کہا کہ ہم اللہ کے رسول ﷺ کو خط لکھ کر اپنے دشمن کی تعداد بتاتے ہیں ۔ پھر یا تو آپ ہماری مدد کے لیے اور آدمی بھیج دیں گے یا کسی اور مناسب بات کا ہمیں حکم فرمائیں گے جسے ہم پورا کریں گے۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے لوگوں کی ہمت بڑھائی اور انھیں حوصلہ دلایا اور کہا: اے میری قوم! اللہ کی قسم! جس شہادت کو تم ناپسند سمجھ رہے ہو (حقیقت میں ) تم اسی کی تلاش میں نکلے ہو۔ ہم لوگوں سے جنگ تعداد اور طاقت اور کثرت کی بنیاد پر نہیں کرتے ہیں ، بلکہ ہم تو لوگوں سے جنگ اس دین کی بنیاد پر کرتے ہیں جس کے ذریعہ اللہ نے ہمیں عزّت عطا فرمائی ہے۔ لہٰذا چلو، دو کامیابیوں میں سے ایک کامیابی تو ضرور ملے گی یا تو دشمن پر غلبہ یا اللہ کے راستہ کی شہادت۔ اس پر لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! ابنِ رواحہ نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔
چنانچہ لوگ وہاں سے آگے بڑھے تو جب بَلْقا علاقہ کی سرحد پر پہنچے تو ہِرَقل کے رومی اور عربی لشکر بَلْقا کی مشارف نامی بستی میں مسلمانوں کو ملے۔ پھر دشمن قریب آگیا اور مسلمان موتہ نامی بستی میں اکٹھے ہو گئے اور وہاں جنگ ہوئی۔ مسلمانوں نے دشمن سے لڑنے کے لیے اپنے لشکر کو ترتیب دی اور مسلمانوں کے لشکر کے میمنہ پر بنو عذرہ کے قُطْبہ بن قتادہ ؓ کو اور مَیْسرہ پر عبایہ بن مالک ؓ اَنصاری صحابی کو امیر مقرر کیا۔ پھر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا اور بڑے زور کی جنگ ہوئی۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ حضور ﷺ والے جھنڈے کو لے کر بہادری سے لڑتے رہے، آخر دشمن کے نیزوں سے زخمی ہو کر شہید ہوگئے۔ پھر حضرت جعفر ؓ نے اس جھنڈے کو لے لیا اور دشمن سے لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ اور مسلمانوں میں سب سے پہلے آدمی حضرت جعفر ہیں جنھوں نے اپنے گھوڑے کے پائوں کاٹ ڈالے۔
’’طبرانی‘‘ میں اس جیسی حدیث حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ پھر حضرت جعفر ؓ نے جھنڈے کو لے لیا اور جب گھمسان کی لڑائی ہوئی تو وہ اپنے سرخ گھوڑے سے نیچے اُترے اور اس کے پائوں کاٹ دیے اور دشمن سے لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ اور حضرت جعفر پہلے مسلمان ہیں جنھوں نے جنگ میں گھوڑے کے پائوں کاٹے۔
حضرت زید بن اَرقم ؓ فرماتے ہیں کہ میرے والد فوت ہوچکے تھے اور میں یتیم تھا اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کی پرورش میں تھا۔ وہ سواری پر اپنے پیچھے بٹھا کر اپنے اس سفر میں مجھے بھی ساتھ لے گئے تھے۔ اللہ کی قسم! ایک رات وہ چل رہے تھے کہ میں نے اُن کو یہ اَشعار پڑھتے ہوئے سنا :
إِذَا أَدْنَیْتِنِیْ وَحَمَلْتِ رَحْلِيْ
مَسِیْرَۃَ أَرْبَعٍ بَعْدَ الْحِسَائٖ
(اے میری اونٹنی!) جب تو مجھے قریب کر دے گی اور مقام ِ حساء کے بعد چار دن کی مسافت تک تو میرے کجا وے کو اُٹھا کر لے جائے گی۔
فَشَأْنُکِ أَ نْعُمٌ وَخَلَاکِ ذَمٌّ
وَلاَ أَرْجِعْ إِلٰی أَھْلِيْ وَرَائِيْ
تو پھر تو نعمتوں میں آرام سے رہنا اور تیری مذمت نہ ہوا کرے گی (کیوں کہ میں تو وہاں جاکر دشمنوں سے لڑائی میں شہید ہو جائوں گا، اس لیے سفر میں تجھے لے جانے کی مجھے ضرورت نہ رہے گی) اور خدا کرے کہ میں پیچھے اپنے گھر والوں کے پاس نہ جائوں ۔
وَجَائَ الْمُسْلِمُوْنَ وَغَادَرُوْنِيْ
بِأَرْضِ الشَّامِ مُسْتَنْھَی الثَّوَائٖ
اور وہاں سے مسلمان واپس آجائیں گے اور مجھے سر زمینِ شام میں وہاں چھوڑ آئیں گے جہاں میرا آخری قیام ہوگا ۔
وَرَدَّکِ کُلُّ ذِيْ نَسَبٍ قَرِیْبٍ
إِلَی الرَّحْمٰنِ مُنْقَطِعَ الْإِخَائٖ
اور (میرے شہید ہو جانے کے بعد) تجھے میرے وہ رشتہ دار واپس لے جائیں گے جو رحمن کے تو قریب ہوں گے، لیکن مجھ سے اُن کا بھائی چارہ (میرے مرنے کی وجہ سے) ختم ہوچکا ہوگا۔
ھُنَالِکَ لَا أُبَالِيْ طَلْعَ بَعْلٍ
وَلَا نَخْلٍ أَسَافِلُھَا رِوَائٖ
اور اس وقت مجھے نہ تو خود رَو درخت کے پھل کی پروا رہے گی اور نہ پانی سے سیراب ہونے والی کھجوروں کے پھل کی پروا رہے گی۔
حضرت زید بن اَرقم ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جب اُن سے یہ اَشعار سنے (جن میں تمنائے شہادت کا اِظہار تھا) تو میں رو پڑا۔ اس پر انھوں نے مجھے کوڑا مار اور کہنے لگے: او کمینے! اللہ اگر مجھے شہادت نصیب فرما دے تو اس میں تمہارا کیا نقصان ہے؟ (میں شہید ہوجائوں گا) تم میرے کجاوہ پر بیٹھ کر (مدینہ) واپس چلے جانا۔
حضرت عباد بن عبد اللہ بن زُبیر فرماتے ہیں کہ میرے رضاعی باپ جو کہ قبیلہ بنو عمرو بن عوف کے تھے، انھوں نے مجھ سے بیان فرمایا کہ جب حضرت جعفر ؓ شہید ہوگئے تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے جھنڈا لے لیا اور پھر جھنڈا لے کر اپنے گھوڑے پر آگے بڑھے۔ وہ (دشمن سے لڑنے کے لیے) گھوڑے سے نیچے اُترنا چاہتے تھے، لیکن طبیعت میں اس بارے میں کچھ تر دّد محسوس کیا تو یہ اَشعار پڑھ کر اپنی طبیعت کو آمادہ کیا:
أَقْسَمْتُ یَا نَفْسِ لِتَنْزِلِنَّہْ
لَتَنْزِلِنَّ أَوْ لَتَکْرَھِنَّہْ
اے میرے نفس! تجھے قسم دے کر کہہ رہا ہوں کہ تجھے نیچے اُتر نا ہوگاخوشی سے اُتر یا ناگواری سے۔
إِنْ أَجْلَبَ النَّاسُ وَشَدُّو الرَّنَّہْ
مَا لِيْ أَرَاکِ تَکْرَھِیْنَ الْجَنَّہْ
اگر کافر لوگ جمع ہوگئے ہیں اور وہ لڑنے کے زور میں اُونچی آوازیں نکال رہے ہیں تو تو بزدل مت بن۔ کیا ہوا میں دیکھ رہا ہوں کہ تو جنت میں جانے کو پسند نہیں کر رہا ہے۔
قَدْ طَالَ مَا کُنْتِ مُطْمَئِنَّہْ
ھَلْ أَنْتِ إِلاَّ نُطْفَۃٌ فِيْ شَنَّہْ
اور تجھے اطمینان کی زندگی گزارتے ہوئے بڑا لمبا زمانہ ہوگیا ہے، اور تو مشکیز ے کے تھوڑے سے پانی کی طرح ہے (کہ نا معلوم کب ختم ہو جائے)۔
اور یہ اَشعار پڑھے۔
یَا نَفْسِ إِنْ لاَّ تُقْتَلِيْ تَمُوْتِيْ ھٰذَا حِمَامُ الْمَوتِ قَدْ صُلِیَتٖ
اے میرے نفس! اگر تو قتل نہیں ہوگا تو (ایک نہ ایک دن) مرنا تو پڑے گا، اور یہ موت کا تقدیر میں لکھا ہوا فیصلہ ہے جس میں تجھے داخل کر دیا گیا ہے۔
وَمَا تَمَنَّیْتِ فَقَدْ أُعْطِیْتٖ
إِنْ تَفْعَلِيْ فِعْلَھُمَا ھُدِیْتٖ
تو نے جس چیز کی تمنا کی تھی وہ تمہیں دے دی گئی ہے،اگر تو ان دونوں (حضرت زید اور حضرت جعفر ؓ ) جیسا کام کرے گا تو تو ہدایت پالے گا۔
پھر حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ گھوڑے سے اُتر گئے اور پھر انھیں اُن کے ایک چچا زاد بھائی نے ہڈی والا گوشت لا کر دیا اور اُن سے کہا کہ اس کے ذریعہ اپنی کمر کو مضبوط کرلو، کیوں کہ تمہیں ان دنوں بہت تکلیف اور بھوک برداشت کرنی پڑی ہے۔ انھوں نے ان کے ہاتھ سے وہ گوشت لے کر ایک دفعہ دانتوں سے توڑکر کھایا کہ اتنے میں انھوں نے لشکر کے ایک کونے سے لوگوں کے اِکٹھے ہوکر ہلہ بولنے کی آواز سنی، تو (اپنے آپ کو مخاطب کر کے) انھوں نے کہاکہ (یہ لوگ تو جان کی بازی لگا رہے ہیں ) اور تو دنیا میں لگا ہوا ہے۔ پھر اپنے ہاتھ سے گوشت کا ٹکڑا پھینک دیا اور اپنی تلوار لے کر بڑھے اور کافروں سے جنگ شروع کر دی، آخر شہید ہو گئے۔
حضرت عباد بن عبد اللہ بن زُبیر فرماتے ہیں کہ میرے رضا عی باپ نے جو کہ بنو مرّہ بن عوف کے تھے اور اس غزوۂ موتہ میں شریک ہوئے تھے، مجھ سے یہ بیان فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں اس وقت حضرت جعفر ؓ کی طرف دیکھ رہا ہوں جب کہ وہ اپنے سرخ گھوڑے سے اُترے اور پھر اس کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں اور پھر کافروں سے لڑائی شروع کر دی یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے اور وہ یہ اَشعار پڑھ رہے تھے:
یَا حَبَّذَ الْجَنَّۃُ وَاقْتِرَابُھَا
طَیِّبَۃٌ وَّبَارِدٌ شَرَابُھَا
اے لوگو! کیا ہی اچھی چیز ہے جنت، اور کیا ہی اچھا ہے اس کاقریب ہونا۔ جنت بہت ہی عمدہ چیز ہے اور اس کا پانی خوب ٹھنڈا ہے۔
وَالرُّوْمُ رُوْمٌ قَدْ دَنَا عَذَابُھَا
کَافِرَۃٌ بعـِیْدَۃٌ أَنْسَابُھَا
عَلَيَّ إِذَا لَا قَیْتُھَا ضِرَابُھَا
رومیوں کے عذاب کا وقت آگیا۔ یہ لوگ کافر ہیں اور اُن کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں ہے۔ جب میدانِ جنگ میں اُن کا سامنا ہوگیا ہے تو اب ان کو تلوار سے مارنا مجھ پر ضروری ہوگیا ہے۔
: جنگِ یرموک کا دن
حضرت ثابت بنانی ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل ؓ جنگ (یعنی جنگ ِ یر موک) کے دن (شہادت کے شوق میں سواری سے اُتر کر) پیدل چلنے لگ پڑے تو اُن سے حضرت خالد بن ولید ؓ نے فرمایا: اے عکرمہ! ایسے نہ کرو، کیوں کہ تمہارا قتل ہو جانا مسلمانوں پر بڑا شاق ہوگا۔ حضرت عکرمہ نے کہا: اے خالد! مجھے چھوڑو، اس لیے کہ تمہیں تو حضور ﷺ کے ساتھ اِسلام کو پھیلانے کے لیے بہت کچھ کر نے کا موقع ملا ہے، اور میں اور میرا باپ ہم دونوں تو حضور ﷺ کے لوگوں میں سب سے زیادہ مخالف تھے اور سب سے زیادہ تکلیفیں پہنچایا کرتے تھے۔ اور یہ کہہ کر حضرت عکرمہ پیدل آگے بڑھے اور شہید ہو گئے ۔
حضرت ابو عثمان غسانی کے والد فرماتے ہیں کہ جنگ ِیرموک کے دن حضرت عکرمہ بن ابی جہل ؓ نے فرمایا کہ میں نے کئی میدانوں میں رسول اللہ ﷺ سے جنگ کی ہے، تو کیا میں آج تم لوگوں سے (شکست کھا کر) بھاگ جائوں گا؟ (ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا) پھر بلند آواز سے کہا کہ مرنے پر کون بیعت ہو تا ہے؟چنانچہ اُن کے چچا حضرت حارث بن ہشام اور حضرت ضرار بن اَزْوَر ؓ نے چار سو مسلمان سرداروں اور شہ سواروں سمیت بیعت کی اور انھوں نے حضرت خالد بن ولید ؓ کے خیمے کے سامنے خوب زور دارلڑائی کی اور سارے ہی زخموں سے چُور ہوئے، لیکن وہ سارے اپنی جگہ جمے رہے کوئی اپنی جگہ سے ہلا نہیں ، اور اُن میں سے ایک بڑی مخلوق شہید ہو گئی جن میں حضرت ضرار بن اَزْوَر بھی تھے ۔
حضرت سیف کی روایت بھی اس جیسی ہی ہے لیکن اس میں یہ بھی ہے کہ وہ چار سو مسلمان اکثر شہید ہو گئے، کچھ اُن میں سے بچ گئے جن میں حضرت ضرار بن اَزْوَر ؓ بھی تھے۔ صبح کو حضرت عکرمہ بن ابی جہل اور اُن کے بیٹے حضرت عمرو دونوں حضرت خالدکے پاس لائے گئے۔ یہ دونوں خو ب زخمی تھے۔ حضرت خالد نے حضرت عکرمہ کا سر اپنی ران پر اور حضرت عمرو کا سر اپنی پنڈلی پر رکھا اور وہ ان دونوں کے چہرے کو صاف کر رہے تھے اور اُن کے حلق میں تھوڑا تھوڑا پانی ڈال رہے تھے اور وہ فرما رہے تھے کہ ابنِ حَنْتمَہ (یعنی حضرت عمر ؓ ) نے کہا تھا کہ ہم لوگ شہید نہیں ہوں گے (لیکن اللہ نے ہمیں شہادت عطا فرما دی)۔
: صحابۂ کرام ؓ کے اللہ کے راستہ میں شوق شہادت کے قصے
حضرت ابو البَخْترِی اور حضرت مَیْسَرہ فرماتے ہیں کہ جنگِ صِفّین کے دن حضرت عمار بن یاسر ؓ لڑ رہے تھے لیکن شہید نہیں ہو رہے تھے۔ وہ حضرت علی ؓ کی خدمت میں جا کر کہتے: اے امیر المؤمنین! یہ فلاں دن ہے (یعنی حضور ﷺ نے مجھے جس دن شہید ہونے کی خوش خبری دی تھی وہ دن یہی ہے)۔ حضرت علی جواب میں فرماتے: ارے! اپنے اس خیال کو جانے دو۔ اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ پھر اُن کے پاس دودھ لایا گیا جسے انھوں نے پی لیا پھر فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ دودھ ہی وہ چیز ہے جسے میں دنیا سے جاتے وقت سب سے آخر میں پیوں گا۔ پھر کھڑے ہو کر جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔
رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت ابو سنان دُوَلی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو دیکھا کہ انھوں نے اپنے غلام سے پینے کی کوئی چیز منگوائی۔ وہ اُن کے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا۔ چنانچہ انھوں نے وہ دودھ پیا اور پھر فرمایا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا۔ آج میں اپنے محبوب دوستوں حضرت محمد ﷺ اور اُن کی جماعت سے (شہید ہو کر) ملوں گا۔ آگے مزید حدیث ذکر کی۔
حضرت ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو جنگ ِصفّین کے دن جس دن وہ شہید ہوئے اُونچی آواز سے یہ کہتے ہوئے سنا: میں جبار یعنی اللہ تعالیٰ سے ملوں گا اور حورِ عین سے شادی کروں گا۔ آج ہم اپنے محبوب دوستوں حضرت محمد ﷺ اور اُن کی جماعت سے ملیں گے۔ حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ دنیا میں تمہارا آخری توشہ دودھ کی لسی ہوگی (اور وہ میں پی چکا ہوں اور میں اب دنیا سے جانے والا ہوں )۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت براء بن مالک ؓ کے پاس آیا وہ کچھ گنگنا رہے تھے۔ میں نے اُن سے کہا: اللہ نے تمہیں ان اشعار کے بدلے ان سے بہتر چیز یعنی قرآن عطا فرمایا ہوا ہے (تم قرآن پڑھو )۔ا نھوں نے کہا: کیا تمہیں اس بات کا ڈر ہے کہ میں اپنے بستر پر مر جائوں گا؟ نہیں ۔ اللہ کی قسم! اللہ مجھے اس (نعمتِ شہادت) سے محروم نہیں فرمائیں گے۔ میں اکیلا سو کافروں کو قتل کر چکا ہوں ، اور جن کو میں نے دوسروں کے ساتھ مل کر قتل کیا ہے وہ ان کے علاوہ ہیں ۔
حاکم نے حضرت انس ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ جب جنگ ِعَقَبہ کے دن فارس میں مسلمان شکست کھا کر ایک کونے میں سمٹ آئے تھے تو حضرت براء بن مالک ؓ کھڑے ہوکر اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور ایک آدمی اسے پیچھے سے ہانک رہا تھا۔ پھر انھوں نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: تم نے اپنے مقابلہ والوں کو بری عادت ڈال دی ہے (کہ ہر دفعہ اُن سے شکست کھا لیتے ہو)۔ یہ کہہ کر انھوں نے دشمن پر ایسا حملہ کیا کہ اس سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرما دی اور وہ خود اس دن شہید ہو گئے۔
حضرت عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہ انھیں یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا کہ جب حضرت عثمان بن مظعون ؓ کا طبعی موت سے انتقال ہوا اور انھیں شہادت کی موت نہ ملی تو اُن کا مقام میری نگاہ میں بہت کم ہو گیا۔ اور میں نے کہا کہ اس آدمی کو دیکھو کہ یہ دنیا سے بہت زیادہ کنارہ کش تھا اور یوں مر گیا ہے اور اسے شہادت نصیب نہیں ہوئی ہے۔ تو اُن کا درجہ یوں ہی میری نگاہ میں کم رہا یہاں تک کہ حضور ﷺ کا بھی وصال ہو گیا (اور انھیں شہادت نہ ملی) تو میں نے کہا کہ تیرا ناس ہو! ہمارے بہترین لوگ یوں ہی (شہادت کے بغیر) وفات پا رہے ہیں ۔ پھر حضرت ابو بکر ؓ کا بھی یوں ہی انتقال ہوا تو میں نے کہا کہ تیر ا ناس ہو! ہمارے بہترین لوگ یوں ہی وفات پا رہے ہیں ۔چنانچہ حضرت عثمان ؓ کا میری نگاہ میں وہی درجہ ہو گیا جو اُن کا پہلے تھا ۔
❤️
✍
3