{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
February 7, 2025 at 06:02 AM
کتاب اصحاب الرسول ﷺ قسط نمبر 92 حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ عنوان: سخاوت وفیاضی : حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ عہدِنبوی کے بعد حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ جس طرح ہمیشہ امن اورجنگ ٗ سفراورحضر ٗہرموقع پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضررہے ٗآپؐ کی صحبت ومعیت ٗ علمی استفادہ ٗاورکسبِ فیض میں ہمہ وقت مشغول ومنہمک رہے …نیزدینِ برحق کی سربلندی کیلئے ہمیشہ پیش پیش رہے…اسی طرح ان کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اللہ نے انہیں کافی خوشحالی وفراوانی سے نوازاتھا…اللہ کے دئیے ہوئے اس مال ودولت میں سے یہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں ٗاللہ کے بندوں کی فلاح وبہبودکی خاطرٗ نیزاللہ کے دین کی سربلندی اور نشرواشاعت کی خاطرنہایت ہی سخاوت وفیاضی اوردریادلی کے ساتھ اپنامال خرچ کیاکرتے تھے۔ اس حوالے سے ان کاایک واقعہ کافی مشہورہے جوکہ اکثر کتبِ تفسیروحدیث وتاریخ میں مفصل مذکورہے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ مدینہ میں مسجدِنبوی سے متصل ان کاایک باغ تھا(۱)جس میں بکثرت کھجوروں کے درخت تھے،اس کے علاوہ اس میں انگوربھی بہت زیادہ تھے،ان کے اس باغ کی کھجوریں اورانگوربہت ہی اعلیٰ قسم کے اورانتہائی خوش ذائقہ تھے،دوردورتک ان کے اس باغ کی اوراس کے میٹھے اورلذیذترین پھلوں کی بڑی شہرت تھی،نیزاس میں ایک کنواں بھی تھاجس کاپانی کافی خوش ذائقہ تھا…جیساکہ حضرت انس بن مالک ؓ (حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ کے ربیب) فرماتے ہیں : کَانَ أبُوطَلحَۃَ أکثَرَ الأنصَارِ بِالمَدِینَۃِ مَالاًمِن نَخلٍ ، وَکَانَ أحَبّ أموَالِہٖ الَیہِ بَیرَحَاء ، وَکَانت مُستَقبِلَۃَ المَسجد ، وَکَان رسُولُ اللّہِ ﷺ یَدخُلُھا ، وَیَشرَبُ مِن مَائٍ فیھا طَیِّب ، فلَمّا نَزلَت ھٰذہٖ الآیۃ : {لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتّیٰ تُنفِقُوا مِمّا تُحِبُّونَ } (۱) قَامَ أبُوطَلحَۃَ الیٰ رَسُولِ اللّہِ ﷺ فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّہ! اِنّ اللّہَ تَعَالیٰ أنزَلَ عَلَیکَ : {لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتّیٰ تُنفِقُوا مِمّا تُحِبُّونَ } وَاِنّ أحَبَّ مَالِي الَيَّ بَیرَحَاء ، وَاِنّھَا صَدَقَۃٌ لِلّہِ تَعَالیٰ ، أرجُو بِرَّھَا وَذُخرَھَا عِندَ اللّہِ تَعَالَیٰ ، فَضَعھَا یَا رَسُولَ اللّہ حَیثُ أرَاکَ اللّہ ، فَقَال رَسُولُ اللّہِ ﷺ : بَخٍ ، ذلِکَ مَالٌ رَابِحٌ ، ذلِکَ مَالٌ رَابِحٌ ، وَقَد سَمِعتُ مَا قُلتَ ، وَاِنِّي أرَیٰ أن تَجعَلَھَا فِي الأقرَبِینَ ، فَقَالَ أبُوطَلحَۃ : اَفعَلُ یَا رَسُولَ اللّہ! ، فَقَسَمّھَا أبُوطَلحَۃَ فِي أقَارِبِہٖ وَبَنِي عَمِّہٖ ۔ (۲) ترجمہ(ابوطلحہ کھجوروں کے باغات کے اعتبارسے تمام انصارِمدینہ میں مالدارترین شخص تھے، اورانہیں اپنے تمام اموال میں ’’بیرحاء‘‘نامی باغ سب سے زیادہ پسندتھا،جوکہ مسجدنبوی کے بالکل سامنے ہی تھا، رسول اللہ ﷺ اکثراس باغ میں تشریف لایاکرتے اوروہاں کا لذیذ پانی نوش فرمایاکرتے تھے، پھرجب یہ آیت {لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتّیٰ تُنفِقُوا مِمّا تُحِبُّونَ } نازل ہوئی تب ابوطلحہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے ، اورعرض کیا’’اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ پریہ آیت نازل فرمائی ہے :{لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتّیٰ تُنفِقُوا مِمّا تُحِبُّونَ }یعنی(تم ہرگزنیکی کونہیں پہنچ سکوگے ٗ تاآنکہ تم اپنی پسندیدہ چیزیں [اللہ کی راہ میں ]خرچ کرو)اور مجھے اپنے تمام مالوں میں سب سے محبوب ’’بیرحاء‘‘ہے ،لہٰذامیں اسے اللہ کیلئے صدقہ کرتاہوں ،میں اللہ سے اس کے اجروثواب کی ٗ اوراُس کے پاس اس کے ذخیرہ ہونے کی امیدرکھتاہوں ،پس آپ اللہ کی دی ہوئی سمجھ کے مطابق جہاں مناسب سمجھیں اسے تصرف میں لائیں ، اس پررسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اوہو!یہ توبڑاہی نفع بخش مال ہے ، تم نے جوکچھ کہاہے ٗ میں نے وہ سن لیاہے،میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کردو،ابوطلحہ نے عرض کیا’’ٹھیک ہے اے اللہ کے رسول! میں ایساہی کروں گا‘‘۔چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتے داروں اورچچازاد بھائیوں میں تقسم کردیا) اس یادگارواقعہ سے یقیناحضرت ابوطلحہ انصاری ؓ کامقام ومرتبہ ٗ زہدفی الدنیا ٗ اللہ کاقرب حاصل کرنے کیلئے فکروجستجو ٗ انفاق فی سبیل اللہ ٗ سخاوت وفیاضی ٗ اوراللہ ورسول ﷺ کے ہرحکم کی فوری تعمیل وتنفیذ کاجذبہ اوراہتمام والتزام ظاہرہوتاہے۔ ٭…اسی کیفیت میں مدینہ شہرمیں شب وروزگذرتے رہے،حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت وعقیدت ٗ صحبت ومعیت ٗاورکسبِ فیض کے یہ سلسلے قائم ودائم رہے،آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے دوران ہمیشہ ہی تادمِ آخرتعلقِ خاطراسی طرح برقراررہا…اورپھرجب آپؐ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کاجاں گداز واقعہ پیش آیاتھاٗ تب آپؐ کی قبرمبارک کی کھدائی کاکام بھی انہوں نے ہی انجام دیاتھا۔ : حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ عہدِنبوی کے بعد رسول اللہ ﷺ کامبارک دورگذرجانے کے بعدحضرت ابوطلحہ انصاری ؓ اس مسافرخانے میں اورجہانِ فانی میں تقریباًبیس سال مزیدبقیدِحیات رہے۔ اس دوران ان کے چندمعمولات ایسے رہے جوخاص طورپرقابلِ ذکرہیں ،یہی وجہ ہے کہ مؤرخین نے اس چیزکابطورِخاص تذکرہ کیاہے۔ ٭ایک تویہ کہ رسول اللہ ﷺ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کے بعدانہوں نے یہ جوبیس سال کاعرصہ اس دنیامیں گذارا،اس دوران یہ روزے بہت زیادہ رکھاکرتے تھے،یہ ان کاہمیشہ انتہائی مرغوب اورپسندیدہ ترین عمل رہا۔ ٭دوسری بات یہ کہ ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘کابڑے پیمانے پرہمیشہ بہت زیادہ اہتمام والتزام کرتے رہے۔ ٭تیسری بات یہ کہ اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرہمیشہ اسلامی لشکرکے ہمراہ مختلف محاذوں پردشمن کے خلاف برسرِپیکاررہتے۔ چنانچہ ایک بارخلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان ؓ کے زمانۂ خلافت کے دوران مدینہ سے مسلمانوں کاایک لشکرجب کسی محاذکی جانب روانہ ہونے والاتھا،تب انہوں نے بھی اس لشکرکے ہمراہ روانگی کی تیاری شروع کردی،اس وقت یہ کافی عمررسیدہ اورضعیف ہوچکے تھے،لہٰذاان کی اس کیفیت کودیکھتے ہوئے ان کے جوان بیٹوں ٗنیزبہت سے اعزہ واحباب نے کافی اصرارکیاکہ ’’آپ اس سفرپرمت جائیے،ہم جوان لوگ جوجارہے ہیں ،بس یہی کافی ہے‘‘۔ مزیدان سب نے انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ’’رسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں ہرغزوے کے موقع پرآپ شریک رہے اورپیش پیش رہے،اس کے بعدخلیفۂ اول اورپھرخلیفۂ دوم کے زمانے میں بھی آپ کی یہی کیفیت رہی،لہٰذابس وہ بہت کافی ہوچکا،اب آپ کواس عمرمیں اپنی صحت کی فکرکرنی چاہئے اورآرام کرناچاہئے‘‘ لیکن حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ نے کسی کی ایک نہ سنی ،اوراپنے اس عزم اوراس فیصلے پرقائم رہے کہ ’’میں ضرورجاؤں گا‘‘۔ چنانچہ لشکرمدینہ سے روانہ ہوا،تقریباًڈیڑھ ہزارکلومیٹرکاسفرطے کرنے کے بعدیہ لشکرملکِ شام پہنچا،وہاں سے مزیدآگے بڑھنے کے بعدمختلف محاذوں پرسلطنتِ روم کے مختلف فوجی دستوں کے ساتھ جنگوں اورجھڑپوں کے سلسلے شروع ہوگئے… جنگوں اورجھڑپوں کے اسی سلسلے کے دوران آخراس لشکرکواب ایک ایسے محاذپرپہنچناتھاجس کیلئے بحری سفرضروری تھا(۱) چنانچہ اسلامی لشکرکاوہ بحری بیڑا محاذ کی جانب روانہ ہوگیا،اورجب یہ بحری بیڑاخشکی سے بہت دوربیچ سمندرمیں تھا،تب حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ کی طبیعت ناساز ہوگئی (بالخصوص یہ کہ انہیں سمندری سفرکااس سے قبل کوئی تجربہ بھی نہیں تھا)رفتہ رفتہ مرض شدت اختیار کرتاگیا…اورپھراس چندروزہ علالت کے بعدوہیں بحری جہازمیں ہی ان کاانتقال ہوگیا… ان کے انتقال کے بعدان کے بیٹے اوردیگرساتھی مسلسل اس انتظارمیں رہے کہ دورانِ سفر کہیں کوئی خشکی نظرآئے …بس اتنی سی خشکی نظرآجائے …کہ جہاں ان کی قبرتیارکی جاسکے … اسی کیفیت میں یہ بحری بیڑاسمندرکی وسعتوں میں …چلتارہا…سمندرکاسینہ چاک کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھتارہا…حتیٰ کہ چلتے چلتے سات دن گذرگئے… لیکن کہیں کوئی خشکی کاٹکڑانظرنہیں آیا… اس دوران سات دن گذرجانے کے باوجودحضرت ابوطلحہ انصاری ؓ کے جسم میں کوئی تغیریاتعفن پیدانہیں ہوا،ان کاجسم مکمل طورپردرست حالت میں رہا،بالکل صحیح اورتر وتازہ …گویابس آرام سے گہری نیندسورہے ہوں …چادراوڑھے ہوئے… آخرسات دن گذرجانے کے بعدآٹھویں دن خشکی کاٹکڑانظرآیا…تب ان کے بیٹوں اورساتھیوں نے وہاں قبرکھودی ،اورانہیں وہاں سپردِخاک کیا…ایسی جگہ…جس کے بارے میں انہیں کوئی علم نہیں تھاکہ یہ کون سی جگہ ہے؟ سمندرکے بیچوں بیچ…ایک بالکل مختصرسازمین کاٹکڑا…ساحل سے بہت دور…اس زمین سے بہت دور…اوراس زمین پرآبادانسانوں کی اس دنیاسے بہت دور…وطن سے بہت دور…اپنے شہرمدینہ سے بہت دور…اہل وعیال اوراعزہ واحباب سے بہت دور…کسی نامعلوم مقام پر… گمنام جگہ پر…سمندرکے بیچوں بیچ…کہ جہاں ان کے گھروالے زندگی بھرکبھی دوبارہ ان کی قبربھی نہیں دیکھ سکیں گے…کیونکہ کچھ اندازہ ہی نہیں ہوسکا کہ بیچ سمندرمیں یہ اتنی ذرہ سی خشکی…آخریہ ہے کونسی جگہ…؟ یوں رسول اللہ ﷺ کے یہ جلیل القدرصحابی حضرت ابوطلحہ انصاری ؓ … اگرچہ ہمیشہ کیلئے اپنوں سے بہت دورچلے گئے…اُس گمنام جگہ پر…لیکن اپنوں سے اس دوری کایقیناانہیں کوئی غم نہیں ہوگا…کیونکہ وہ ان تمامتردوریوں کے باوجوداپنے ’’اللہ‘‘سے تویقینابہت قریب تھے… اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں ، نیزہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ اورتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت ومعیت کے شرف سے سرفرازفرمائیں ۔
❤️ 2

Comments