
{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
February 7, 2025 at 02:29 PM
کتاب: تاریخِ اسلام
قسط نمبر 154
سیدنا ابوبکرصدیق ؓ
مطعم بن جنیعہ
اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ سیدنا علاء بن الحضرمی کو سیدنا ابوبکرصدیق ؓ نے ایک لشکر کا سردار بنا کر بحرین کی طرف روانہ کیا تھا‘ بحرین میں بنو عبدالقیس‘ بنو بکر بن وائل معہ اپنی شاخوں کے زبردست قبائل تھے‘ یہ بھی پڑھ چکے ہو کہ جارود بن المعلیٰ ؓ اپنے قبیلہ عبدالقیس کی طرف سے وفد ہو کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے‘ رسول اللہ ﷺ کی خبر وفات کو سن کر قبیلہ عبدالقیس کے لوگ یہ کہہ کر مرتد ہو گئے کہ رسول اللہ ﷺ نبی ہوتے تو کبھی نہ مرتے۔
سیدنا جارود بن المعلیٰ ؓ نے اپنی قوم کو ایک جگہ جمع کیا اور کہا کہ مجھ کو تم سے ایک بات دریافت کرنی ہے جو جانتا ہو وہ بتائے‘ جو نہ جانتا ہو وہ خاموش رہے‘ انہوں نے اپنی قوم کو مخاطب کر کے دریافت کیا کہ تم پر یہ بتائو سیدنا محمد ﷺ سے پہلے بھی دنیا میں نبی آئے ہیں یا نہیں ؟ سب نے کہا آئے ہیں ‘ پھر انہوں نے پوچھا کہ وہ سب عام انسانوں کی طرح اپنی زندگی پوری کر کے فوت ہو گئے یا نہیں ؟ سب نے کہا وہ اپنی زندگی پوری کر کے فوت ہو گئے‘ سیدنا جارود ؓ نے کہا کہ بس اس طرح رسول اللہ ﷺ بھی اپنا زمانہ حیات پورا کر کے فوت ہو گئے۔ یہ کہہ کر انہوں نے کہا اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد اعبدہ و رسولہ قبیلہ عبدالقیس کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اسی وقت توبہ کی اور اسلام پر قائم ہو گئے۔
قبیلہ عبدالقیس تو سیدنا جارود بن المعلیٰ ؓ کی بروقت کوشش سے اس طرح بچ گیا لیکن قبیلہ بنو بکر بن وائل نے مرتد ہو کر حطم کو اپنا سردار بنایا‘ حطم بنوبکر کی جمیعت کثیرہ لے کر نکلا اور مقام قطیف و ہجر کے درمیان ڈیرے ڈال دئیے اور کچھ آدمیوں کو قبیلہ عبدالقیس کی طرف بھیجا کہ ان کو مرتد بنا کر لائیں ‘ لیکن عبدالقیس نے صاف طور پر مرتد ہونے سے انکار کیا اور وہ لوگ ناکام و نامراد واپس آئے‘ اس کے بعد حطم نے معرور بن سوید کو ایک جمعیت دے کر اردگرد کے مسلمان لوگوں کو مرتد بنانے یا ان سے لڑنے کے لیے بھیجا۔
اسی حالت میں سیدنا علاء بن الحضرمی اپنا لشکر لیے ہوئے ملک بحرین میں داخل ہوئے‘ انہوں نے سیدنا جارود بن المعلیٰ ؓ کے پاس جومقام دارین میں تشریف رکھتے تھے حکم بھیجا کہ بنو عبدالقیس کو ہمراہ لے کر حطم پر حملہ کرو‘ اس حکم کے پہنچتے اور اس خبر کے مشہور ہوتے ہی اردگرد کے تمام مسلمان علاء بن الحضرمی کے پاس آ آ کر جمع ہو گئے اور جس قدر مرتدین و مشرکین اس علاقہ میں تھے وہ سب حطم کے لشکر میں آ آ کر شامل ہو گئے۔
سیدنا علاء بن الحضرمی ؓ اپنا لشکر لیے ہوئے آگے بڑھے اور حطم کی لشکرگاہ کے قریب پہنچ کر خیمہ زن ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ حطم نے اپنے لشکرگاہ کے گرد ایک خندق کھدوالی ہے‘ آخر دونوں لشکروں میں لڑائی شروع ہوئی ایک مہینہ تک طرفین سے لڑائی کا سلسلہ جاری رہا کوئی ایک دوسرے پر فتح یاب نہ ہوا‘ جب پورا ایک مہینہ اسی حالت میں گذر گیا تو سیدنا علاء ؓ نے غازیان اسلام کو لے کر ایک زبردست حملہ کیا‘ اور بہادر ان اسلام خندق کو عبور کر کے لشکر گاہ کفار میں داخل ہو گئے‘ قیس بن عاصم کے ہاتھ سے حطم مارا گیا‘ بہت سے مرتدین ہلاک ہوئے‘ باقی بھاگ نکلے‘ بھاگے ہوئوں کا تعاقب ہوا‘ اور بالآخر رفتہ رفتہ سب اسلام کی طرف لوٹ آئے‘ مذکورہ بالا جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ بہت سامان غنیمت آیا‘ جس سے لشکر اسلام کی حالت خوب درست ہو گئی۔
لقیط بن مالک
اوپر ذکر آ چکا ہے کہ سیدنا ابوبکرصدیق ؓ نے حذیفہ بن محصن ؓ کو عمان کی جانب اور عرفجہ بن ہرثمہ ؓ کو اہل مہرہ کی جانب روانہ کیا تھا‘ اور دونوں کے ساتھ رہنے کا حکم ہوا تھا‘ رسول اللہ ﷺ کی وفات کا حال سن کر ملک عمان میں لقیط بن مالک نے نبوت کا دعویٰ کیا‘ اہل عمان اور اہل مہرہ مرتد ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ کی طرف سے جو عامل وہاں مقرر تھے ان کو نکال دیا‘ حذیفہ بن محصن حمیری کو سیدنا صدیق اکبر ؓ نے حکم دیا تھا کہ اول عمان کی طرف جانا‘ وہاں کی مہم سے فارغ ہو کر مہرہ کی جانب متوجہ ہونا‘ ادھر عکرمہ بن ابی جہل کو بھی جو یمامہ کی طرف بھیجے گئے تھے یہی حکم ملا تھا کہ عمان کی طرف جا کر حذیفہ و عرفجہ کے شریک ہوں ‘ چنانچہ یہ تینوں سردار صحرائے عمان میں مل کر خیمہ زن ہوئے‘ لقیط نے اسلامی لشکر کی خبر سن کر فوجیں فراہم کیں اور شہر دبا میں آ کر ہر طرح سامان حرب سے مسلح ہو کر لشکر اسلام کے مقابلہ کو نکلا‘ لشکر اسلام میں عکرمہ بن ابی جہل مقدمتہ الجیش پر تھے‘ میمنہ میں حذیفہ ؓ اور میسرہ میں عرفجہ ؓ اور قلب لشکر میں وہ رئوساء عمان تھے جو اسلام پر ثابت قدم تھے اور لشکر اسلام کے آنے کی خبر سن کر شریک لشکر ہوئے تھے۔
نماز فجر کے وقت سے لڑائی شروع ہوئی‘ اسلامی لشکر نشیبی زمین میں تھا اور دشمنوں کو بلند زمین پر موقعہ مل گیا تھا‘ ابتداً جنگ کا عنوان مسلمانوں کے خلاف اور شکست کے آثار نمایاں تھے‘ لقیط نے بڑی بہادری سے لشکر اسلام پر حملے کئے‘ بالآخرلڑائی کا رنگ بدلا اور مسلمانوں نے صبر و استقامت سے کام لے کر دشمنوں کو پیچھے ہٹایا‘ دشمن منہ موڑ کر بھاگے اور مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی‘ اس لڑائی میں دس ہزار دشمن مقتول ہوئے اور چار ہزار گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں آئے‘ اسی تناسب سے مال غنیمت لے کر مدینے میں آئے اور سیدنا عکرمہ ؓ مہرہ کی جانب روانہ ہوئے‘ چند روز کے بعد تمام عمان میں اسلام قائم ہو گیا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ!
ردت مہرہ
مہرہ میں کچھ لوگ عمان کے مقیم تھے‘ ان کے علاوہ عبدالقیس کے لوگ بھی وہاں موجود تھے‘ ازد اور بنی سعد وغیرہ قبائل بھی وہاں آباد تھے‘ یہ سب کے سب مرتد ہو کر ریاست و امارت کے معاملہ میں دو گروہوں کے اندر منقسم ہو کر آپس میں لڑائی جھگڑا کر رہے تھے‘ سیدنا عکرمہ ؓ نے مہرہ میں پہنچ کر ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی‘ ان میں سے ایک گروہ نے اسلام قبول کر لیا‘ دوسرے نے جس کا سردار مصبح تھا اسلام قبول کرنے سے انکار اور اپنے ارتداد پر اصرار کیا۔
سیدنا عکرمہ ؓ نے گروہ مسلم کو اپنے ساتھ لے کر مرتدین پر حملہ کیا اور شکست فاش دے کر ان کے سردار کو قتل کر دیا‘ اس فتح کا نواحی علاقوں پر خاص اثر پڑا‘ اردگرد کے تمام قبائل بخوشی اسلام میں داخل ہو گئے‘ سیدنا عکرمہ ؓ نے مال غنیمت کے ساتھ اسلامی کامیابیوں کی مفصل کیفیت لکھ کر سیدنا ابوبکرصدیق ؓ کی خدمت میں بھیجی‘ وہاں سے جواب آیا کہ اب تم یمن کی طرف روانہ ہو کر مہاجر ؓ بن ابی امیہ کے لشکر میں شریک ہو جائو۔
ردت یمن
اسود عنسی کا ذکر اوپر آ چکا ہے کہ اس نے ملک یمن میں نبوت کا دعویٰ کر کے قریباً تمام ملک یمن میں بدامنی پیدا کر دی تھی‘ لیکن وہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ حیات ہی میں مقتول ہو کر اپنے کیفرکردار کو پہنچ چکا تھا اور ملک یمن میں ارتداد کے بعد پھر اسلام پھیلنے لگا تھا‘ ابھی تک پورے طور پر مطلع صاف نہ ہوا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی‘ اس خبر کے مشہور ہوتے ہی تمام ملک یمن میں پھر وبائے ارتداد پھیل گئی‘ اس مرتبہ مرتدین یمن کے دو مشہور سردار تھے‘ ایک قیس بن مکشوح‘ دوسرا عمرو بن معدی کرب‘ یمن کے مسلمانوں کو مرتدین یمن نے بہت ستایا‘ بہت سی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا‘ مسلمان جو تعداد میں بالکل بے حقیقت تھے وہ علاقہ کو خالی کرتے ہوئے آہٹ آئے تھے۔
سیدنا ابوبکرصدیق ؓ نے جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے ملک یمن کے علاقہ صنعا کی طرف مہاجر بن ابی امیہ ؓ کو ایک لشکر کے ساتھ روانہ کیا تھا‘ مہاجر بن ابی امیہ ؓ مدینہ سے روانہ ہو کر راستہ میں مکہ و طائف سے مسلمانوں کی جمعیت کو ہمراہ لیتے ہوئے نہایت تیز رفتاری سے علاقہ نجران میں داخل ہو کر خیمہ زن ہوئے۔
قیس و عمرو کو مہاجر ؓ کے حملہ آور ہونے کی اطلاع پہلے سے پہنچ چکی تھی‘ وہ بھی نجران میں ان کی آمد کے منتظر تھے‘ عمروبن معد یکرب عرب کا مشہور سردار تھا‘ جس کی صف شکنی و حریف افگنی کی تمام ملک میں دھاگ بیٹھی ہوئی تھی‘ مہاجر ؓ نے دشمنوں کے بے قیاس و لاتعداد افواج میں اپنے آپ کو محصور دیکھ کر اپنے ہمراہیوں کو جرأت وغیرت دلائی اور ان کی ہمت بندھائی پھر مرتدین پر حملہ آور ہوئے‘ نہایت سخت معرکہ ہوا‘ بالآخر لشکر اسلام کو غلبہ حاصل ہوا‘ قیس و عمرو دونوں سردار مسلمانوں کی قید میں آئے‘ بہت سے مرتدین ہلاک و گرفتار اور بقیتہ السیف فرار کی عار گوارا کرنے پر مجبور ہوئے‘ قیس و عمرو‘ کو مدینہ منورہ کی طرف سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی خدمت میں روانہ کیا‘ مدینہ منورہ میں پہنچ کر دونوں نے اپنے ارتداد سے پشیمانی کا اظہار کیا اور بخوشی اسلام قبول کر کے قید سے آزاد اور بحکم صدیقی یمن کی طرف مراجعت فرما ہوئے۔
مہاجربن ابی امیہ ؓ نجران کی جنگ میں مرتدین یمن کی کمر توڑ کر آگے بڑھے اور صنعاء میں پہنچ کر اس جگہ کے ان مرتدین کو جو برسر مقابلہ آئے شکست پر شکست دے کر تمام علاقہ کو پاک و صاف کر دیا‘ اسی جگہ عکرمہ ؓ بن ابی جہل آ کر شریک لشکر ہوئے‘ یہاں سے سیدنا ابوبکرصدیق ؓ کے حکم کے مطابق دونوں سردار بنو کندہ کی سرکوبی کے لیے بڑھے‘ بنو کندہ نے اشعث بن قیس کو اپنا سردار بنا کر لشکر اسلام کے مقابلہ کی زبردست تیاریاں کی تھیں اور روز بروز ان کی جمعیت میں اضافہ ہو رہا تھا‘ یہ خبر سن کر مہاجر بن ؓ ابی امیہ نے لشکر اسلام میں سے تیز رفتار سواروں کا ایک دستہ منتخب کر کے اپنے ہمراہ لیا اور لشکر عکرمہ ؓ بن ابی جہل کی سرداری میں چھوڑ کر نہایت تیزی و برق رفتاری سے یلغار کرتے ہوئے مقام حجر میں جہاں اشعث بن قیس مرتدین کا لشکر لیے ہوئے پڑا تھا پہنچے اور جاتے ہی قضائے مبرم کی طرح مرتدین پر ٹوٹ پڑے‘ مرتدین اس حملہ کی تاب نہ لا سکے‘ سراسیمہ ہو کر بھاگے۔
اشعث نے وہاں سے فرار ہو کر قلعہ بخیر میں پناہ لی‘ وہیں تمام مرتدین پہنچ کر قلعہ بند ہو گئے‘ مہاجر بن بن ابی امیہ ؓ نے قلعہ کا محاصرہ کر لیا‘ اسی عرصہ میں عکرمہ بن ابی جہل اسلامی لشکر لیے ہوئے آ پہنچے‘ محاصرہ کی سختی اور کمک و سامان رسد کی آمد سے مایوس ہو کر اشعث نے صلح کی درخواست پیش کی‘ یہ درخواست اس قدر عاجز ہو کر پیش کی کہ اس نے اپنی قوم کے صرف نو آدمیوں کے لیے معہ اہل و عیال جان بخشی و رہائی چاہی‘ مہاجر ؓ نے اس درخواست کو منظور کر لیا‘ عجیب اتفاق یہ ہوا کہ اشعث غلطی سے ان نو آدمیوں کی فہرست میں اپنا نام بھول گیا تھا‘ چنانچہ ان نو آدمیوں کو چھوڑ کر باقی کو مسلمانوں نے گرفتار کر لیا‘ ان اسیران جنگ میں اشعث بن قیس بھی شامل تھا۔
جب یہ لوگ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے سامنے مدینے میں لا کر پیش کئے گئے تو اشعث نے اپنے افعال گذشتہ پر پشیمانی کا اظہار کیا اور سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے کہا کہ آپ ؓ میرا اسلام قبول فرما لیں ‘ میں بطیب خاطر اسلام کو پسند اور اختیار کرتا ہوں ‘ سیدنا صدیق اکبر ؓ نے نہ صرف اشعث بلکہ تمام اسیران بنو کندہ کو آزاد کر دیا اور صرف اس قدر کہا کہ مجھ کو امید ہے کہ میں آئندہ تم سے سوائے بھلائی کے اور کچھ نہ دیکھوں گا۔
ارتداد کا استیصال کامل
غرض ۱۱ ھ کے ختم اور ۱۲ ھ کے شروع ہونے سے پہلے پہلے یعنی ایک سال سے کم مدت میں سیدنا ابوبکرصدیق ؓ ملک عرب کے فتنۂ ارتداد پر پورے طور پر غالب آ گئے‘ محرم ۱۱ ھ میں جزیرۃ العرب مشرکین و مرتدین سے بالکل پاک و صاف ہو چکا تھا اور براعظم عرب کے کسی گوشہ اور کسی حصہ پر شرک و ارتداد کی کوئی سیاہی باقی نہ تھی۔
ایک طرف چند مہینے پہلے کی اس حالت پر غور کرو کہ مدینہ و مکہ و طائف کے سوا تمام ملک کا مطلع غبار آلود تھا اور اس غبار سے شمشیر و نیزہ و سنان اور کمندو کمان کے طوفان ابلتے ہوئے اور امنڈتے ہوئے نظر آتے تھے‘ پھریہ کیفیت تھی کہ پتھر کے موم کی طرح پگھلنے اور فولاد کی رگیں کچے دھاگے کی طرح شکستہ ہونے سے باز نہیں رہ سکتی تھیں ‘ پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہمتیں دریائوں کے پانی کی طرح بہ سکتی تھیں ‘اور آسمان کی طرح بلند و وسیع حوصلے تنگ و پست ہو کر تحت الثریٰ کی گم نامیوں میں شامل ہو سکتے تھے‘ لیکن دبستان محمدی ﷺ کے تربیت یافتہ صدیق اکبر ؓ کی ہمت و حوصلہ کا اندازہ کرو کہ تنہا اس تمام طوفان کے مقابلہ کو جس شوکت و شجاعت کے ساتھ میدان میں نکلا ہے ہم اس کی مثال میں نہ شیرونہنگ کا نام لے سکتے ہیں نہ رستم و اسفندیار کا نام زبان پر لا سکتے ہیں ‘ شیر نیستان و رستم و ستاں کے دلوں کو‘ اگر صدیق اکبر ؓ کے دل کی طاقت کے سو حصوں میں سے ایک حصہ بھی ملا ہوتا تو ہم کو کسی مثال و تشبیہہ کی تلاش و تجسس میں سرگردانی کی ضرورت نہ تھی‘ لیکن اب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے کہ خیر البشر ﷺ کے شاگرد رشید‘ خاتم النبیین ﷺ کے خلیفہ اول نے ٹھیک اپنے مرتبہ کے موافق ہمت و استقلال اور قوت قدسی کا اظہار کیا اور جس کام کو اسکندر یونانی‘ جولیس ‘ سیرزرومی‘ کیخسرو ایرانی مل کر بھی پورا کرنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے‘ صدیق اکبر ؓ نے چند مہینوں میں اس کو بہ حسن و خوبی پورا کر کے دکھایا۔
اس میں شک نہیں کہ لشکر صدیق ؓ میں خالد ؓ عکرمہ ؓ ‘ شرجیل ؓ حذیفہ ؓ وغیرہ جیسے بے نظیر مردان صف شکن موجود تھے‘ لیکن یہ بھی تو سوچو کہ صدیق اکبر کس طرح مدینہ منورہ میں بیٹھے ہوئے ملک کے ہر حصہ و ہر گوشہ کی حالت سے باخبر تھے اور کس طرح فوجی دستوں کے پاس ان کے احکام متواتر پہنچ رہے تھے‘ غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دستہ فوج اور ہر سالار لشکر ملک عرب کی بساط پر شطرنج کے ایک مہرہ کی طرح تھا اور صدیق اکبر ؓ کی انگشت تدبیر جس مہرہ کو جس جگہ مناسب ہوتا تھا اٹھا کر رکھ دیتی تھی اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان گیارہ اسلامی لشکروں نے ہر طرف روانہ ہو کر ملک عرب سے فتنہ ارتداد کو مٹا دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیفۃ الرسول ﷺ نے مدینہ میں بیٹھ کر شام و نجد سے مسقط و سیدنا موت تک اور خلیج فارس سے یمن و عدن تک تمام براعظم تک تنہا اپنی تدبیرو رائے سے چند مہینے کے اندر ہر ایک خس و خاشاک کو پاک و صاف کر دیا اور اس فتنہ کی ہمت شکن ابتداء میں کوئی متنفس صدیق اکبر ؓ کے سوا ایسا نہ تھا جو اس کی انتہا کو دیکھ سکتا اور اور صرف صدیق اکبر ؓ ہی کو وہ اندیشہ سوز ایمان حاصل تھا کہ انہوں نے نہ لشکر اسامہ ؓ کی روانگی کو ملتوی کرنا مناسب سمجھا‘ نہ مسجد نبوی ﷺ میں فاروق اعظم ؓ کے ہاتھ پائوں پھلا دینے والی باتوں سے مرعوب و متاثر ہوئے‘ نہ منکرین زکو ۃ کے مطالبات کو پرکاہ کے برابر وقعت دی‘ اب تم غور کرو اور سوچو کہ رسول اللہ ﷺ کا جانشین اور رسول اللہ ﷺ کی قائم کی ہوئی سلطنت کا شہنشاہ صدیق اکبر ؓ کے سوا اور کون ہو سکتا تھا؟
✍
❤️
2