{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
February 8, 2025 at 02:10 AM
کتاب: حیاۃ الصحابہ ؓ قسط نمبر 156 حضرات صحابۂ کرام ؓ کی بہادری حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی بہادری حضرت علی ؓ نے فرمایا: اے لوگو! مجھے بتائو لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے کہا: اے امیرالمؤمنین! آپ ہیں ۔ حضرت علی نے فرمایا کہ میں جس دشمن کے مقابلہ کے لیے نکلا ہوں اس سے میں نے اپنا حق پورا لیا ہے (یعنی ہمیشہ اپنے دشمن کو شکست دی ہے میں پورا بہادر نہیں ہوں )، لیکن تم مجھے بتائو کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ پھر ہم تو نہیں جانتے، آپ ہی بتائیں کہ کون ہے؟ انھوں نے کہا کہ وہ حضرت ابو بکر ؓ ہیں ۔ چنانچہ جنگِ بدر کے موقع پر جب ہم نے رسول اللہ ﷺ کے لیے چھپّر بنایا تو ہم نے کہا کہ کون حضور ﷺ کے ساتھ رہے گا تاکہ کوئی مشرک آپ کی طرف نہ آسکے؟ اللہ کی قسم! اس وقت کوئی بھی حضور ﷺ کے ساتھ رہنے کی ہمت نہ کر سکا (دشمن کا خوف بہت ہی زیادہ تھا) بس ایک حضرت ابو بکر ہی ایسے تھے جو تلوار سونت کر حضور ﷺ کے سر ہانے کھڑے تھے۔ جب کوئی بھی حضور ﷺ کی طرف آنے کا ارادہ کرتا حضرت ابو بکر فوراً لپک کر اس کی طرف جاتے۔ یہ (حضرت ابو بکر ؓ ) ہی تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر ہیں ۔ آگے اور حدیث بھی ذکر کی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ کی بہادری حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میرے علم کے مطابق ہر ایک نے ہجرت چھپ کر کی، صرف حضرت عمر بن خطاب ؓ ایسے ہیں جنھوں نے علی الاعلان ہجرت کی۔ چنانچہ جب انھوں نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو اپنی تلوار گلے میں لٹکائی اور اپنی کمان کندھے پر ڈالی اور کچھ تیر (ترکش سے) نکال کر اپنے ہاتھ میں پکڑلیے اور بیت اللہ کے پاس آئے، وہاں صحن میں قریش کے کچھ سردار بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت عمر نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، پھر مقام ِ ابراہیم کے پاس جا کر دو رکعت نماز پڑھی، پھر مشرکین کی ایک ایک ٹولی کے پاس آئے اور فرمایا: یہ تمام چہرے بد شکل ہوجائیں ۔ جو آدمی یہ چاہتا ہے کہ اس کی ماں اس سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس کی اولاد یتیم ہو جائے اور اس کی بیوی بیوہ ہو جائے، وہ مجھ سے اس وادی کی پرلی جانب آکر ملے۔ (پھر آپ وہاں سے چل پڑے) ایک بھی آپ کے پیچھے نہ جا سکا ۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی بہادری حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ جنگ ِاُحد کے دن حضرت فاطمہ ؓ کے پاس آئے اور یہ شعر پڑھے : أَفَاطِمُ! ھَاکِ السَّیْفَ غَیْرَ ذَمِیْمٖ فَلَسْتُ بِرِعْدِیْدٍ وَلاَ بِلَئِیْمٖ اے فاطمہ! یہ تلوار لے لو جس میں کوئی عیب نہیں ہے، اور نہ تو (ڈر کی وجہ سے) مجھ پر کبھی کپکپی طاری ہوتی ہے اور نہ میں کمینہ ہوں ۔ لَعَمْرِيْ لَقَدْ أَبْلَیْتُ فِيْ نَصْرِ أَحْمَدٖ وَمَرْضَاۃِ رَبٍّ بِالْعِبَادِ عَلِیْمٖ میری عمر کی قسم! حضرت احمد ﷺ کی مدد اور اس ربّ العزّت کی خوشنودی کی خاطر میں نے پوری کوشش کی ہے جو بندوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم نے عمدہ طریقہ سے جنگ کی ہے تو حضرت سہل بن حُنَیف اور حضرت ابنُ الصِمّہ نے بھی خوب عمدہ طریقے سے جنگ کی ہے۔ اور حضور ﷺ نے ایک اور صحابی کا بھی نام لیا جسے مُعلّٰی راوی بھول گئے۔ اس پر حضرت جبرائیل ( ؑ) نے آکر عرض کیا: اے محمد! آپ کے والد کی قسم! یہ غم خواری کا موقع ہے۔اس پر حضور ﷺ نے فرمایا: اے جبرائیل! یہ علی تو مجھ سے ہیں ۔ حضرت جبرائیل نے عرض کیا: میں آپ دونوں کا ہوں ۔ حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جنگ ِاُحد کے دن حضرت علی ؓ حضرت فاطمہ ؓ کے پاس گئے اور اُن سے کہا: یہ تلوار لے لواس میں کوئی عیب نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اگر تم نے اچھی طرح سے جنگ کی ہے تو حضرت سہل بن حُنَیف اور حضرت ابو دُجانہ سِماک بن خرشہ ؓ نے بھی خوب اچھی طرح جنگ کی ہے۔ حضرت عبید اللہ بن کعب بن مالک اَنصاری ؓ فرماتے ہیں کہ غزوئہ خندق کے دن عمرو بن عبدِوَد بہادروں کی نشانی لگا کر جنگ میں اپنے موجود ہو نے کو بتانے کے لیے نکلا۔ جب وہ اور اس کے گھوڑے سوار ساتھی کھڑے ہو گئے تو حضرت علی ؓ نے اس سے کہا: اے عمرو! تم نے قریش کے لیے اللہ سے عہد کیا تھا کہ جب بھی تمہیں کوئی آدمی دو باتوں کی دعوت دے گا تم ان دو میں سے ایک کو ضرور اختیار کر لو گے۔ اس نے کہا: ہاں (میں نے یہ عہد کیا تھا )۔ حضرت علی نے کہا: میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی اور اِسلام کی دعوت دیتا ہوں ۔ عمرونے کہا: مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر حضرت علی نے فرمایا کہ میں مقابلہ کے لیے میدان میں اُترنے کی تم کو دعوت دیتا ہوں ۔ عمرو نے کہا: اے میرے بھتیجے! (مجھے) کیوں (میدان میں مقابلے کے لیے اُترنے کی دعوت دے رہے ہو؟ کیوں کہ) اللہ کی قسم! میں تمہیں قتل کرنا نہیں چاہتا ہوں ۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا: لیکن میں تو تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ سن کر عمرو آگ بگولہ ہوگیا اور حضرت علی کی طرف بڑھا۔ دونوں اپنی سواریوں سے اُترے اور دونوں نے میدان کا کچھ چکر لگایا (پھر لڑائی شروع ہو گئی) آخر حضرت علی نے عمرو کو قتل کر دیا۔ ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ عمرو بن عبدِوَد ہتھیار وں سے پوری طرح لیس ہو کر باہر نکلا اور بلند آواز سے پکارا: مقابلہ کے لیے کون آتا ہے؟ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کھڑے ہو کر کہا: یا نبی اللہ! میں اس کے مقابلے کے لیے جاتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا: یہ عمرو ہے، بیٹھ جائو۔ پھر عمرو زور سے پکارا: کیا ہے کوئی مرد جو میرے مقابلہ کے لیے میدان میں آئے؟ اور مسلمانوں کو ملامت کرتے ہوئے کہنے لگا: کہاں گئی تمہاری وہ جنت جس کے بارے میں تم لوگ یہ کہتے ہو کہ تم میں سے جو مارا جاتا ہے وہ اس جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ تم لوگ میرے مقابلہ کے لیے ایک آدمی بھی نہیں بھیج سکتے؟ حضرت علی نے پھر کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! میں جاتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا: تم بیٹھ جائو۔ عمرو نے تیسری مرتبہ پھر بلند آواز سے مقابلہ کے لیے آنے کی دعوت دی اور راوی نے اس کے اَشعار کا بھی تذکرہ کیا۔ پھر حضرت علی نے کھڑے ہوکر کہا: یا رسول اللہ! میں جاتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا: یہ عمرو ہے۔ حضرت علی نے کہا: چاہے عمرو ہو (میں جانے کو تیار ہوں )۔ چنانچہ حضور ﷺ نے اُن کو اجازت دے دی۔ وہ یہ اَشعار پڑھتے ہوئے اس کی طرف چلے: لَا تَعْجَلَنَّ فَقَدْ أَتَاکْ مُجِیْبُ صَوْتِکَ غَیْرَ عَاجِزْ ہرگز جلدی نہ کر، کیوں کہ تیری آواز کا جواب دینے والا آگیا ہے جو عاجز نہیں ہے۔ فِـيْ نِــــیَّۃٍ وَّبـَـصِــیـْـرَۃٍ وَالصِّدْقُ مَنْجٰی کُلِّ فَائِزْ یہ آنے والا سوچ سمجھ کر اور پکے ارادے کے ساتھ آیا ہے (یہ بات میں تم سے سچی کہہ رہا ہوں ، کیوں کہ) سچ ہی ہر کامیاب ہونے والے کے لیے نجات کا ذریعہ ہے۔ إِنِّيْ لَأَرْجُوْ أَنْ أُقِیْمَ عَلَیْکَ نَائِحَۃَ الْجَنَائِزْ مجھے پوری امید ہے کہ مردوں پر نوحہ کرنے والیوں کو میں تیر ے اوپر (نوحہ کرنے کے لیے) کھڑا کردوں گا ۔ مِنْ ضَرْبَۃٍ نَجْلَائَ یَبْقٰی ذِکْرُھَا عِنْدَ الْھَزَاھِزْ میں تجھے (تلوار کی) ایسی لمبی چوڑی ضرب لگا ئوں گا جس کا تذکرہ بڑی بڑی لڑائیوں میں بھی باقی رہے گا۔ عمرو نے حضرت علی سے پوچھا: تم کون ہو؟ انھوں نے کہا: میں علی ہوں ۔ عمرونے کہا کہ کیا تم عبدِ مناف (یہ ابو طالب کا نام ہے) کے بیٹے ہو؟ انھوں نے کہا: (ہاں !) میں علی بن ابی طالب ہوں ۔ عمرو نے کہا: اے میرے بھتیجے! (میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے مقابلے کے لیے) تمہاری جگہ تمہارے چچائوں میں سے کوئی چچا آئے جو عمر میں تم سے بڑا ہو، کیوں کہ مجھے تمہارا خون بہانا پسند نہیں ہے۔ حضرت علی نے کہا: لیکن اللہ کی قسم! میں تمہارے خون بہانے کو برا نہیں سمجھتا ہوں ۔ وہ غضبناک ہوکر اپنے گھوڑے سے نیچے اُترا اور اپنی تلوار سونت لی، وہ تلوار آگ کے شعلے کی طرح چمک دار تھی۔ پھر وہ غصہ میں بھرا ہوا حضرت علی کی طرف بڑھا۔ حضرت علی کھال والی ڈھال لے کر اس کے سامنے آئے۔ عمرو نے حضرت علی کی ڈھال پر تلوار کا ایسا زور دار وار کیا کہ تلوار ڈھال کو کاٹ کر اُن کے سر تک جا پہنچی جس سے سر زخمی ہوگیا۔ حضرت علی نے اس کے کندھے پر اس زور سے تلوار ماری جس سے وہ زمین پر گر گیا اور (اس کے گرنے سے بہت سا) غبار اُڑا۔ اور حضورِ اَقدس ﷺ نے زور سے اَللّٰہُ أَکْبَرُ کہنے کی آواز سنی جس سے ہم لوگ سمجھ گئے کہ حضرت علی نے عمرو کو قتل کر دیا ہے۔ اس وقت حضرت علی ؓ یہ اَشعار پڑھ رہے تھے: أَعَلَيَّ تَقْتَحِمُ الْفَوَارِسُ ھٰکَذَا عَنِّيْ وَعَنْھُمْ أَخِّرُوْا أَصْحَابِيْ کیا گھوڑے سوار یوں اچانک مجھ پر حملہ کر دیں گے؟ اے میرے ساتھیو! تم سب کو مجھ سے اور مجھ پر اچانک حملہ کرنے والوں سے پیچھے ہٹا دو (میں اکیلا ہی ان سے نمٹ لوں گا)۔ اَلْیَوْمَ یَمْنَعُنِيَ الْفِرَارَ حَفِیْظَتِيْ وَمُصَمَّمٌ فِي الرَّأْسِ لَیْسَ بِنَابِيْ میدانِ جنگ میں مجھے جو غصہ آتا ہے اس نے آج مجھے بھاگنے سے روکا ہوا ہے، اور اس تلوار نے روکا ہے جس کا وار سر کاٹ کر آتا ہے اور خطا نہیں ہوتا ہے۔ پھر یہ اَشعار پڑھے : عَبَدَ الْحِجَارَۃَ مِنْ سَفَاھَۃِ رَأْیِہٖ وَعَبَدْتُّ رَبَّ مُحَمَّدٍ بِصَوَابِيْ اس نے اپنی احمقانہ رائے سے پتھروں کی عبادت کی اور میں نے اپنی درست رائے سے محمد ﷺ کے ربّ کی عبادت کی۔ فَصَدَرْتُ حِیْنَ تَرَکْتُہٗ مُتَجَدِّلًا کَالْجِذْعِ بَیْنَ دَکَادِکٍ وَّرَوَابِيْ جب میں اس کاکام تمام کر کے واپس آیا تو وہ زمین پر ایسے پڑا ہوا تھا جیسے کھجور کاتنا سخت زمین اور ٹیلوں کے درمیان پڑا ہوا ہو۔ وَعَفَفْتُ عَنْ أَثْوَابِہٖ وَلَوْ أَنَّنِيْ کُنْتُ الْمُقَطَّرَ بَزَّنِيْ أَثْوَابِيْ میں نے اس کے کپڑے نہیں لیے اور یوں میں پاک دامن رہا، اور اگر میں گر جاتا تو وہ میرے کپڑے چھین لیتا۔ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ خَاذِلَ دِیْنِہٖ وَنَبِیِّہٖ یَا مَعْشَرَ الْأَحْزَابٖ اے (کافروں کی) جماعتو! یہ خیال ہر گز نہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی اور اپنے نبی ﷺ کی مدد چھوڑ دیں گے ۔ پھر حضرت علی حضور ﷺ کی طرف چل پڑے اور اُن کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ان سے کہا کہ تم نے اس (عمرو بن عبدِوَد) کی زرہ کیوں نہیں لے لی، کیوں کہ عربوں کے پاس اس زرہ سے بہتر زرہ نہیں ہے؟ حضرت علی نے کہا کہ میں نے اس پر تلوار کا وار کیا، اس نے اپنی شرم گاہ کے ذریعہ مجھ سے بچائو کیا یعنی شرم گاہ کھل گئی، اس وجہ سے مجھے شرم آئی کہ میں اپنے چچا زادبھائی کی اس حال میں زرہ اُتار لوں ۔ حضرت سلمہ بن اَکوع ؓ ایک لمبی حدیث بیان کرتے ہیں جس میں وہ غزوہ بنو فزارہ سے واپسی کا تذکرہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ واپس آکر ابھی ہم لوگ تین دن ٹھہرے ہی تھے کہ ہم لوگ خیبر کی طرف نکل پڑے۔ اور حضرت عامر ؓ بھی اس غزوہ میں گئے تھے اور وہ یہ اَشعار پڑھتے جاتے تھے : وَاللّٰہِ لَوْلَا أَنْتَ مَا اھْتَدَیْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا اللہ کی قسم !اگر آپ نہ ہوتے (یعنی آپ کا فضل نہ ہوتا) تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے۔ وَنَحْنُ مِنْ فَضْلِکَ مَا اسْتَغْنَیْنَا فَأَنْزِلَنْ سَکِیْنَۃً عَلَیْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لاَّقَیْنَا ہم تیرے فضل سے بے نیاز نہیں ہیں ، تُو ہم پر سکینہ اور اطمینان کو ضرور نازل فرما۔ اور جب ہم دشمن سے مقابلہ کریں تو تُو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ اس پرحضور ﷺ نے پوچھا کہ ان اَشعار کو پڑھنے والا کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت عامر۔ حضور ﷺ نے فرمایا: (اے عامر!) تیرا ربّ تیری مغفرت فرمائے۔ راوی کہتے ہیں کہ جب بھی حضور ﷺ نے کسی کو یہ دعا دی ہے وہ ضرور شہید ہوا ہے۔ حضرت عمر ؓ اُونٹ پر سوار تھے (یہ دعا سن کر) انھوں نے کہا: آپ نے ہمیں حضرت عامرسے اور فائدہ اُٹھانے دیا ہوتا (یعنی آپ یہ دعا حضرت عامر کو نہ دیتے تو وہ اور زندہ رہتے، اب تو وہ شہید ہو جائیں گے)۔ پھر ہم لوگ خیبر پہنچے تو (یہود کا پہلوان ) مَرْحَبْ اپنی تلوار فخر سے لہراتا ہوا اور یہ شعر پڑھتا ہوا باہر نکلا: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّيْ مَرْحَبْ شَاکِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُّجَرَّبْ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَھَّبْ سارے خیبر کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میں مَرْحَبْ ہوں اور ہتھیاروں سے لَیس ہوں اور تجربہ کار بہادر ہوں ، (میری بہادری اس وقت ظاہر ہوتی ہے) جب کہ شعلہ زن لڑائیاں سامنے آتی ہیں ۔ حضرت عامر ؓ مَرْحَبْ کے مقابلے کے لیے یہ اَشعار پڑھتے ہوئے میدان میں نکلے : قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّيْ عَامِرٌ شَاکِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُّغَامِرٌ سارے خیبر کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میں عامر ہوں اور ہتھیاروں سے لَیس ہوں اور مہلک مقامات میں گھسنے والا بہادر ہوں ۔ ان دونوں کے آپس میں تلوار سے دو دو ہاتھ ہوئے۔ مَرْحَبْ کی تلوار حضرت عامر کی ڈھال میں گھس گئی۔ حضرت عامر نے مَرْحَبْ کے نچلے حصہ پر حملہ کیا۔ حضرت عامر کی تلوار آکر خود اُن کو ہی لگ گئی جس سے شہ رگ کٹ گئی اور اسی سے یہ شہید ہو گئے۔ حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ میں باہر نکلا تو حضور ﷺ کے چند صحابہ کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت عامر کا سارا عمل رائیگاں گیا، کیوں کہ انھوں نے خود کشی کی ہے۔ میں روتا ہوا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور ﷺ نے مجھے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا: لوگ کہہ رہے ہیں کہ عامر کا سارا عمل رائیگاں گیا۔ حضور ﷺ نے پوچھا: یہ بات کس نے کہی؟ میں نے کہا: آپ کے چند صحابہ نے۔ حضور ﷺ نے کہا: ان لوگوں نے غلط کہا، عامر کو تو دُگنا اَجر ملے گا۔ حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا اور اُن کی آنکھ دُکھ رہی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا: آج میں جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ میں حضرت علی کا ہاتھ پکڑے ہوئے لے کر آیا۔ آپ نے اُن کی آنکھ پر لعاب ِمبارک لگایا وہ فوراً ٹھیک ہوگئی۔ حضور ﷺ نے اُن کو جھنڈا دیا۔ مَرْحَبْ پھر وہی اپنے اَشعار پڑھتا ہوا باہر نکلا: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّيْ مَرْحَبْ شَاکِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُّجَرَّبْ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَھَّبْ اس کے مقابلہ کے لیے حضرت علی یہ اَشعار پڑھتے ہوئے نکلے: أَنَا الَّذِيْ سَمَّتْنِيْ أُمِّيْ حَیْدَرَہْ کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَہْ أُوْفِیْھِمْ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہْ میں وہ شخص ہوں کہ جس کی ماں نے اس کا نام حیدر یعنی شیر رکھا۔ میں جنگل کے ہولناک منظر والے شیر کی طرح ہوں ۔ میں دشمنوں کو پورا پورا ناپ کر دوں گا جیسے کہ کھلے پیمانہ میں پورا پورا دیا جاتا ہے (یعنی میں دشمن میں وسیع پیمانے پر خون ریزی کروں گا)۔ چنانچہ حضرت علی نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ مَرْحَبْ کا سر پھاڑ کر اسے قتل کر دیا اور اس طرح خیبر فتح ہوگیا۔ اس روایت میں اسی طرح آیا ہے کہ ملعون مَرْحَبْ یہودی کو حضرت علی نے ہی قتل کیا ہے۔ اور ایسے ہی امام احمد نے حضرت علی ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ جب میں نے مَرْحَبْ کوقتل کیا تو میں اس کا سرلے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لیکن موسیٰ بن عقبہ نے امام زُہری سے یہ روایت نقل کی ہے کہ مَرْحَبْ کو قتل کرنے والے حضرت محمد بن مسلمہ ؓ ہیں ، اور اسی طرح محمد بن اسحاق نے اور واقدی نے حضرت جابر ؓ وغیرہ حضرات سے نقل کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت علی ؓ کے ساتھ خیبر کے لیے روانہ ہوئے۔ حضور ﷺ نے اُن کو اپنا جھنڈا دے کر بھیجا تھا۔ جب حضرت علی قلعہ کے قریب پہنچے تو قلعہ والے لڑنے کے لیے قلعہ سے نکل کر باہر آگئے۔چنانچہ حضرت علی نے اُن سے جنگ شروع کر دی۔ ان یہودیوں میں سے ایک آدمی نے حضرت علی پر تلوار کا زور دار حملہ کیا جس سے حضرت علی کے ہاتھ سے ڈھال نیچے گر گئی۔ حضرت علی نے فوراً قلعہ کا دروازہ اُکھیڑ کر اسے اپنی ڈھال بنا لیااور دروازے کو ہاتھ میں پکڑ کر حضرت علی لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو فتح نصیب فرمائی۔ پھر انھوں نے اس دروازے کو زمین پر ڈال دیا۔ پھر میں نے سات اور آدمیوں کو لے کر کوشش کی کہ اس دروازے کو پلٹ دیں ، لیکن ہم آٹھ آدمی اسے پلٹ نہ سکے ۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے غزوۂ خیبر کے دن (قلعہ کا) دروازہ اُٹھا لیا۔ مسلمان اس کے اوپر چڑھ کر قلعہ کے اندر چلے گئے اور اس طرح اس کو فتح کر لیا۔ بعد میں لوگوں نے تجربہ کیا تو چالیس آدمی اسے نہ اُٹھا سکے ۔ حضرت جابر ؓ کی ایک روایت میں یہ ہے کہ ستّر آدمیوں نے اپنا پورا زور لگایا تب دروازے کو واپس اس کی جگہ لا سکے۔ حضرت جابر بن سَمُرَہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے غزوۂ خیبر کے دن (قلعہ کا) دروازہ اُٹھا لیا تھا، اسی پر چڑھ کر مسلمانوں نے خیبر کو فتح کیا تھا۔ بعد میں تجربہ کیا گیا تو چالیس آدمی ہی اسے اُٹھا سکے ۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ کی بہادری حضرت طلحہ ؓ فرماتے ہیں کہ غزوۂ اُحد کے دن میں یہ رَجزیہ اَشعار پڑھ رہاتھا: نَحْنُ حُمَاۃُ غَالِبٍ وَّمَالِکٖ نَذُبُّ عَنْ رَّسُوْلِنَا الْمُبَارَکٖ ہم قبیلہ غالب اور قبیلہ مالک کی حفاظت کرنے والے ہیں اور ہم اپنے مبارک رسول کی طرف سے دِفاع کر رہے ہیں ۔ نَضْرِبُ عَنْہُ الْقَوْمَ فِي الْمَعَارِکٖ ضَرْبَ صِفَاحِ الْکُوْمِ فِي الْمَبَارِکٖ اور میدانِ جنگ میں ہم دشمنوں کو تلواریں مار مار کر حضور ﷺ سے پیچھے ہٹا رہے ہیں ،اور ہم ایسے مار رہے ہیں جیسے کہ اُونچے کوہان والی مو ٹی اُونٹنیوں کو بیٹھنے کی جگہ میں کناروں پر مارا جاتا ہے (یعنی جب انھیں ذبح کر کے گوشت بنایا جاتا ہے)۔ حضور ﷺ نے غزوۂ اُحد سے واپس ہوتے ہی حضرت حسّان ؓ سے فرمایا کہ تم طلحہ کی تعریف میں کچھ اَشعار کہو۔ چنانچہ حضرت حسان نے یہ اَشعار کہے: وَطَلْحَۃُ یَوْمَ الشِّعْبِ آسٰی مُحَمَّدًًا عَلٰی سَاعَۃٍ ضَاقَتْ عَلَیْہِ وَشَقَّتٖ اور گھاٹی کے دن طلحہ نے تنگی اور مشکل کی گھڑی میں حضرت محمد ﷺ کی پوری طرح غم خواری کی اور اُن پر جاں نثار ی کی۔ یَقِیْہِ بِکَفَّیْہِ الرِّمَاحَ وَأَسْلَمَتْ أَشَاجِعُہٗ تَحْتَ السُّیُوْفِ فَشَلَّتٖ اپنے دونوں ہاتھوں کے ذریعہ وہ حضور ﷺ کو نیزوں سے بچاتے رہے۔ اور (حضور ﷺ کو بچانے کے لیے) انھوں نے اپنے ہاتھوں کے پَورے تلواروں کے نیچے کر دیے جس سے وہ پَورے شل ہوگئے۔ وَکَانَ أمَامَ النَّاسِ إِلَّا مُحَمَّدًا أَقَامَ رَحَی الإِسْلَامِ حَتَّی اسْتَقَلَّتٖ حضرت محمد ﷺ کے علاوہ باقی تمام لوگوں سے آگے تھے، اور انھوں نے اسلام کی چکی کو ایسا کھڑا کیا کہ وہ مستقل چلنے لگی۔ اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے (حضرت طلحہ ؓ کی تعریف میں ) یہ اَشعار کہے : حَمٰی نَبِيَّ الْھُدٰی وَالْخَیْلُ تَتْبَعُہٗ حَتّٰی إِذَا مَا لَقُوْا حَامٰی عَنِ الدِّیْنٖ طلحہ نے ہدایت والے نبی ﷺ کی حفاظت کی حالاں کہ سوار آپ کا پیچھا کر رہے تھے یہاں تک کہ جب وہ سوار قریب آجاتے تو یہ دین کی خوب حفاظت کرتے۔ صَبْرًا عَلَی الطَّعْنِ إِذْ وَلَّتْ حُمَاتُھُمْ وَالنَّاسُ مِنْ بَیْنِ مَھْدِيٍّ وَّمَفْتُوْنٖ جب لوگوں کی حفاظت کرنے والے پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے تھے اس وقت انھوں نے نیزوں پر صبر کیا، اور اس دن لوگ دو طرح کے تھے: ہدایت یافتہ مسلمان، اور فتنہ میں مبتلا کافر۔ یَا طَلْحَۃَ بْنَ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَدْ وَجَبَتْ لَکَ الْجِنَانُ وَزُوِّجْتَ الْمَھَا الْعِیْنٖ اے طلحہ بن عبید اللہ! تمہارے لیے جنت واجب ہوگئی، اور خوب صور ت اور آہ و چشم حوروں سے تمہارے شادی ہوگئی۔ (اور اُن کی تعریف میں ) حضرت عمر ؓ نے یہ شعر کہا: حَمٰی نَبِيَّ الْھُدٰی بِالسَّیْفِ مُنْصَلِتًا لَمَّا تَوَلّٰی جَمِیْعُ النَّاسِ وَانْکَشَفُوْا جب تمام لوگوں نے پشت پھیر لی اور شکست کھا گئے اس وقت طلحہ نے ننگی تلوار سے ہدایت والے نبی کی حفاظت کی۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا: اے عمر! تم نے سچ کہا۔ اور حضرت طلحہ ؓ کے جنگ کرنے کے واقعات صفحہ پر گزر چکے ہیں ۔
😮 🙏 🥹 4

Comments