
{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
February 9, 2025 at 03:44 AM
کتاب اصحاب الرسول ﷺ
قسط نمبر 94
حضرت اُسیدبن الحُضیررضی اللہ عنہ
حضرت اُسیدبن الحُضیررضی اللہ عنہ
اُن دنوں مدینہ شہرمیں دوبڑے مشہورقبائل آبادتھے،ایک ’’اوس‘‘اوردوسرا’’خزرج‘‘ پھر ان کے چھوٹے چھوٹے متعددذیلی قبائل اورشاخیں تھیں ،قبیلۂ اوس کے ذیلی قبائل میں خاندان’’بنوعبدالأشہل‘‘ کی بڑی حیثیت اورشان وشوکت تھی،خاص بات یہ کہ اس خاندان کوبہت ہی’’ طاقتور‘‘تصورکیاجاتاتھا…اُن دنوں اس طاقتورخاندان کے سردارکا نام ’’اُسیدبن الحُضیر‘‘تھا،جوکہ اپنی سخت گیری ٗ تندمزاجی ٗ اورجوشیلے پن کی وجہ سے بڑی شہرت کاحامل تھا…
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب رسول اللہ ﷺ ابھی مکہ میں ہی تشریف فرماتھے اورہجرتِ مدینہ کاواقعہ تاہنوزپیش نہیں آیاتھا،دعوتِ اسلام کے سلسلے میں آپؐ مشرکینِ مکہ کی طرف سے کافی حدتک مایوسی کے بعداب بیرونِ مکہ سے آنے والوں کی طرف زیادہ توجہ مرکوز فرمانے لگے تھے۔
چنانچہ نبوت کے گیارہویں سال آپؐ جب موسمِ حج کے موقع پربیرونِ مکہ سے آئے ہوئے حجاج کی رہائشگاہوں میں گھوم پھرکرپیغامِ حق پہنچانے میں مشغول تھے ،تب آپؐ کی دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے چھ افرادنے دینِ برحق قبول کیاتھا،جن کاتعلق مدینہ سے تھا،اس کانتیجہ یہ ظاہرہواکہ آئندہ سال یعنی نبوت کے بارہویں سال مدینہ سے آنے والے حجاج میں سے بارہ افرادنے منیٰ میں عقبہ کے مقام پرآپؐ سے خفیہ ملاقات کی ،نیزآپؐ کے دستِ مبارک پربیعت بھی کی جسے ’’بیعتِ عقبہ اُولیٰ ‘‘کہاجاتاہے۔
ان بارہ افرادنے مکہ سے اپنے شہرمدینہ کی جانب روانگی سے قبل رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گذارش کی کہ’’اے اللہ کے رسول!آپ اپنے ساتھیوں میں سے کسی کوہمارے ساتھ روانہ فرمادیجئے تاکہ وہ ہمارے شہرمدینہ میں ہمیں اللہ کے دین کی اورقرآن کی تعلیم دے سکے‘‘اس پرآپؐ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کوان کے ہمراہ روانہ فرمایا تھا (۱)
مدینہ پہنچنے کے بعدحضرت مصعب بن عمیرؓ نے ’’قباء‘‘نامی مضافاتی بستی میں قیام کیاتھاجہاں ان کے میزبان حضرت اسعدبن زُراہ ؓ تھے ،جوکہ قبیلۂ خزرج کے سرداروں میں سے تھے۔(۲)
چنانچہ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے مدینہ آمدکے بعدنہایت خلوص اورجذبے کے ساتھ دینِ برحق کی طرف دعوت اوراس کی نشرواشاعت کے سلسلے میں جدوجہدکاآغاز کیا۔
حضرت مصعب بن عمیرؓ اپنی اس جائے قیام پردینِ اسلام کی دعوت وتبلیغ کے علاوہ مزیدیہ کہ مدینہ کے مختلف محلوں اوربستیوں میں گھوم پھرکربھی یہ مبارک فریضہ سرانجام دیاکرتے تھے ،اورتب ہمیشہ ان کے میزبان حضرت اسعدبن زُرارہ ؓ بھی ان کے ہمراہ ہواکرتے تھے۔
ایسے ہی ایک روزجب یہ دونوں حضرات دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں اپنے گھرسے نکلے،چلتے چلتے دونوں ایک باغ میں پہنچے،وہاں ایک کنواں تھا،جس کاپانی خوب ٹھنڈااورمیٹھاتھا،ان دونوں نے اس کنویں سے پانی پیا،اورپھرکچھ سستانے کی غرض سے کنویں کے ساتھ ہی کھجورکے درختوں کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ گئے۔
رفتہ رفتہ وہاں لوگ جمع ہونے لگے ، تب حضرت مصعب بن عمیرؓ نے دینِ اسلام اورپیغمبرِاسلام کے بارے میں گفتگوکاآغازفرمایا،لوگ خوب توجہ اوربڑی ہی دلچسپی کے ساتھ ان کی باتیں سننے لگے…مجمع بڑھتاچلاگیا۔
اتفاق سے یہ باغ قبیلۂ اوس کے ذیلی خاندان’’بنوعبدالأشہل‘‘سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کی ملکیت تھا،جبکہ حضرت اسعدبن زُرارہ ؓ کاتعلق مخالف قبیلے ’’خزرج‘‘ سے تھا،دونوں قبیلوں کے درمیان قدیم رنجش اوردشمنی تھی…
مزیدیہ کہ اس باغ میں نئے دین (دینِ اسلام)کے بارے میں گفتگوکی جارہی تھی اوراس کی طرف دعوت دی جارہی تھی،وہ بھی ایسے شخص کی طرف سے کہ جس کاتعلق مخالف قبیلے سے توکیا…سرے سے مدینہ شہرسے ہی اس کاکوئی تعلق نہیں تھا،وہ تومحض اجنبی تھا،کیونکہ وہ تومکہ کاباشندہ تھا،یعنی حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ۔
اسی دوران کسی نے یہ خبراُسیدبن الحُضیرتک پہنچادی جوکہ اس طاقتورترین خاندان ’’بنوعبدالأشہل‘‘کاسردارتھا،اس مخبرنے یہ اطلاع پہنچائی کہ وہ اجنبی جومکہ سے آیاہواہے، وہ یہاں قریب ہی ہمارے خاندان کے ایک شخص کے باغ میں بیٹھاہوانئے دین کی طرف دعوت دے رہاہے…اوریہ کہ اسے یہاں لانے والااس کامیزبان اسعدبن زُرارہ ہے،جوکہ مخالف قبیلے(خزرج)سے تعلق رکھتاہے…اسی نے اپنے اس اجنبی مہمان کو اتنی شہ دے رکھی ہے،اوراسی کی پشت پناہی کی وجہ سے اس اجنبی کاحوصلہ اس قدربڑھ چکاہے۔
یہ سب کچھ سن کروہ سرداراُسیدبن الحُضیرنہایت غضبناک ہوگیا،اپنانیزہ سنبھالا،اوراس باغ کی طرف چل دیا،اس کی تندی وتیزی اورسخت مزاجی کے توپہلے ہی بڑے چرچے تھے،اوراب توبطورِخاص …بات ہی ایسی نازک تھی…کہ مخالف قبیلے سے تعلق رکھنے والاوہ سرداراسعدبن زُرارہ …اس کے ہمراہ وہ اجنبی مہمان جس کامدینہ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا…اورہمارے علاقے میں …ہمارے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کے باغ میں بیٹھ کر…ہمارے ہی لوگوں کوہمارے دین سے برگشتہ کرنے کی کوشش…اورایک نئے دین کی طرف دعوت…ظاہرہے یہ سب کچھ بہت نازک معاملہ تھا… یہی وہ سب باتیں تھیں جن کی وجہ سے اس وقت اُسیدبن الحُضیرکاغصہ اپنے عروج کوپہنچ رہاتھا…
چنانچہ اُسیدبن الحُضیراپناچمکتاہوانیزہ لہراتاہوا،اوراپنی آنکھوں سے شعلے برساتاہواوہاں آدھمکا،وہاں پہنچنے کے بعدسیدھاوہ حضرت مصعب ؓ کے قریب پہنچا،اوراپنانیزہ لہراتے ہوئے بڑے ہی جاہ وجلال کے ساتھ ان کے بالکل سامنے کھڑے ہوکرانہیں گھورنے لگا،اورپھرانہیں مخاطب کرتے ہوئے کرخت آوازاوردرشت اندازمیں یوں کہنے لگا’’اجنبی نوجوان!تمہاری یہ ہمت…؟کہ تم ہمارے علاقے میں آکران سیدھے سادھے لوگوں کو ورغلارہے ہو؟انہیں ان کے آبائی دین سے برگشتہ کرکے نیادین اپنانے پراُکسا رہے ہو؟ایسے خداکی عبادت کی ترغیب دے رہے ہوکہ جسے کسی نے کبھی دیکھاہی نہیں ہے؟ہم تواپنے خداؤں (بتوں )کواپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ،ہمیں جب ان سے کچھ مانگنا ہوتا ہے ہم ان کے سامنے کھڑے ہوکران سے مانگتے ہیں ،جبکہ جس خداکی عبادت کی طرف تم دعوت دے رہے ہووہ تونظرہی نہیں آتا،کسی کوجب اس کاپتہ ہی معلوم نہیں توپھروہ اس کی عبادت کرنے کہاں جائے گا؟اوراس سے کس طرح کچھ مانگ سکے گا؟‘‘
تب اس نازک ترین موقع پرحضرت مصعب بن عمیرؓ نے کسی گھبراہٹ کے بغیرمکمل سکون واطمینان کے ساتھ ،دھیمے لہجے میں ، بڑے ہی پراعتماداندازمیں اُسید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’کیایہ مناسب نہیں ہوگاکہ آپ گھڑی بھرکیلئے میری بات سن لیں …اگرمیری بات آپ کواچھی لگے توٹھیک ہے…ورنہ یہ کہ ہم خودہی یہاں سے چلے جائیں گے،اورآئندہ کبھی یہاں نہیں آئیں گے‘‘
اس پراُسیدنے کہا : لَقَد أنصَفْتَ … یعنی’’یہ توتم نے بہت ہی انصاف کی بات کہی ہے…‘‘اوراس کے ساتھ ہی وہ ان کی بات سننے کیلئے ان کے سامنے بیٹھ گیا۔
تب حضرت مصعب بن عمیرؓ نے اسے دینِ اسلام اورپیغمبرِاسلام کے بارے میں مطلع کیا،اللہ کاپیغام پہنچایا،دینِ برحق قبول کرلینے کی دعوت دی،اوراپنے مخصوص اوردلنشین اندازمیں کچھ قرآنی آیات بھی تلاوت کیں …
حضرت مصعب بن عمیرؓ کی باتیں اُسیدبن الحُضیرکے دل میں اترتی چلی گئیں ،اس کے شعورووجدان میں عجیب سااحساس بیدارہونے لگا…اوراسے عجیب جذباتی کیفیت محسوس ہونے لگی…اس کاضمیراندرہی اندراسے پکارپکارکرکہنے لگاکہ اس نوجوان کی باتیں بالکل درست ہیں ،جس دین کی طرف یہ دعوت دے رہاہے وہی دینِ برحق ہے،اسے اپنالینے میں ہی انسانیت کیلئے صلاح وفلاح اورسعادتمندی کارازپوشیدہ ہے…
اورتب …اس کاندازبدلنے لگا،اس کالب ولہجہ بدلنے لگا،اس کی نظریں بدلنے لگیں ،لمحہ بھرکیلئے اس نے مڑکراپنے ساتھیوں کی جانب دیکھا،اورپھریوں کہنے لگا: مَا أحْسَنَ ھٰذَا القَولُ وَأصْدَقَہٗ … یعنی’’کتنی اچھی اورسچی ہیں اس کی باتیں …‘‘
اوراب بدلے ہوئے اندازاوردھیمے لہجے میں حضرت مصعبؓ سے دریافت کرنے لگا ’’اگرکوئی دینِ اسلام قبول کرناچاہے تواسے کیاکرناہوگا؟‘‘
حضرت مصعبؓ نے جواب دیا’’غسل کرکے پاک صاف لباس زیب تن کرناہوگا،اورپھر خلوصِ دل کے ساتھ تصدیق ٗ نیززبان سے اس بات کااقرارواظہار کرناہوگاکہ ’’أشہدأن لاالٰہ الااللہ ، وأشہدأن محمداً رسول اللہ‘‘۔
یہ بات سنتے ہی اُسیدوہاں سے روانہ ہوگیا،اورپھرکچھ ہی دیرگذری تھی کہ لوگوں نے دیکھاکہ وہ باغ میں موجوداس کنوئیں سے غسل کرکے چلاآرہاہے،تازہ تازہ پانی کے قطرات اس کے جسم سے ٹپک رہے تھے،اورتب اس نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کے سامنے بیٹھ کرتمام مجمع کے سامنے بآوازبلندیہ کلمات کہے’’ أشہدأن لاالٰہ الااللہ ، وأشہدأن محمداً رسول اللہ‘‘۔
اوریوں یہ شخص اب محض اُسیدبن الحُضیرسے ’’حضرت اُسیدبن الحُضیررضی اللہ عنہ‘‘بن گئے…اوراس قافلے میں شامل ہوگئے جوکفروشرک اورہرقسم کی گمراہی کے اندھیروں سے نکل کراب ہدایت اورروشنی کی طرف رواں دواں تھا…
حضرت اُسیدبن الحُضیرؓ کاچونکہ اس قبیلے میں اوراس معاشرے میں بڑااثر ورسوخ تھا،لہٰذاان کے قبولِ اسلام کے بعداب وہاں پورے علاقے میں دینِ اسلام کی نشرواشاعت کاراستہ کافی حدتک ہموارہوگیا،لوگ بڑے پیمانے پردینِ اسلام قبول کرتے چلے گئے…آخروہ وقت بھی آیاکہ مدینہ شہرمیں ایسی مناسب اورسازگافضاء قائم ہوگئی کہ جسے دیکھتے ہوئے خودرسول اللہ ﷺ ودیگرتمام اہلِ ایمان مکہ سے مستقل طورپرہجرت کرکے مدینہ آپہنچے…اورپھررسول اللہ ﷺ کی زیرِقیادت روئے زمین پرمعرضِ وجود میں آنے والی اولین اسلامی ریاست کادارالحکومت یہی شہر’’مدینہ‘‘ہی بنا۔
٭…حضرت اُسیدبن الحُضیرؓ کی زندگی قبولِ اسلام کے بعداب یکسربدل کررہ گئی،سختی کی بجائے مزاج میں اب نرمی اورخوش اخلاقی آگئی،اکثران کی طبیعت پررقت طاری رہتی،بالخصوص قبولِ اسلام کے موقع پرحضرت مصعب بن عمیرؓ کی زبانی جوگفتگوسنی تھی ٗاوراس سے بھی بڑھ کریہ کہ اُس موقع پران کی زبانی جوقرآنی آیات سنی تھیں ،اللہ کاجوکلام سناتھا،وہ نورانی کلام …جسے سنتے ہی پلک جھپکتے میں ان کے دل کی دنیابدل گئی تھی،کفروشرک کے اندھیروں کی جگہ اب وہاں ایمان کی شمع جل اٹھی تھی…
یہی وجہ تھی کہ اُس دن کے بعدسے ہمیشہ تاحیات قرآن کریم کے ساتھ ان کاانتہائی والہانہ تعلق رہا،قرآن کریم کے ساتھ ان کاتعلق بس ایساہی تھاکہ جیسے سخت گرمی کے موسم میں ٗ شدیدقحط کے زمانے میں ٗ کسی تپتے ہوئے صحرامیں ٗ کسی کواچانک ٹھنڈے اورمیٹھے پانی کے چشمے تک رسائی نصیب ہوجائے…
لہٰذاحضرت اُسیدبن الحُضیرؓ بڑے ہی شوق اورشغف کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تلاوتِ قرآن میں مشغول رہاکرتے تھے…بالخصوص دن بھرکی مصروفیات کے بعد…
نیزکاروبارِزندگی کے اس شوروشغب کے بعدجب رات کاسکوت ہرطرف چھاجاتا… خاموشی تمام کائنات کواپنی لپیٹ میں لے لیتی…تب اس پرسکون ماحول میں …خاموشی کی اس فضاء میں …مدینہ منورہ کی مضافاتی بستی’’قباء‘‘میں ایک نخلستان کے قریب واقع ان کے گھرسے نہایت ہی مؤثراوردلنشین اندازاورسریلی آوازمیں تلاوتِ قرآن کی صدا بلندہونے لگتی…اکثران کے پڑوسی اس انتظارمیں ٗنیزموقع کی تلاش میں رہتے کہ کب اُسیدکی وہ دلکش آوازبلندہوگی…تاکہ ہم بھی ان کی سریلی آوازمیں تلاوتِ قرآن سن سکیں …
حضرت اُسیدبن الحُضیرؓ کی وہ دلکش آواز ٗاوروہ دلنشین انداز…اوروہ پرسوز تلاوتِ قرآن…اس چیزکے منتظراورمشتاق صرف یہ زمین والے ہی نہیں تھے…بلکہ آسمانوں پربسنے والے فرشتے بھی ان کی تلاوت سے متأثرہواکرتے تھے،اوران کی تلاوت سننے کیلئے بے چین رہاکرتے تھے…
چنانچہ ایک بارآدھی رات کے قریب حضرت اُسیدؓ اپنے گھرسے متصل کھلی جگہ میں لیٹے ہوئے تھے،فضاء میں ہرطرف خاموشی چھائی ہوئی تھی،بہت ہی پرسکون ماحول تھا،ایسے میں بے اختیاران کادل چاہاکہ قرآن کریم کی تلاوت کی جائے،تب یہ اٹھ کربیٹھ گئے، تلاوت شروع کی ، اپنے پُرکشش اندازمیں ، اوربہت ہی دلنشیں آوازمیں …
انہیں تلاوت کرتے ہوئے ابھی کچھ ہی دیرگذری تھی کہ انہوں نے دیکھاکہ ان کاگھوڑا جوقریب ہی بندھاہواتھا،وہ بدکنے اوراچھل کودکرنے لگا،یہاں تک کہ انہیں اندیشہ ہونے لگاکہ کہیں وہ رسی تڑاکربھاگ نہ جائے…
اس منظرکی وجہ سے چونکہ یہ اپنے گھوڑے کی طرف متوجہ ہوگئے اورتلاوت موقوف کردی ، توگھوڑابھی رک گیا،جس پر انہوں نے دوبارہ تلاوت شروع کی، تب گھوڑے نے بھی فوراًہی دوبارہ اچھل کودشروع کردی…حتیٰ کہ انہیں اندیشہ ہواکہ قریب ہی گہری نیند سوئے ہوئے ان کے بیٹے یحییٰ کوکہیں اچھل کودکرتاہوایہ گھوڑا قدموں تلے کچل نہ ڈالے…یہ سوچ کریہ اپنی جگہ سے اٹھے اوراپنے بیٹے کی طرف جانے لگے تاکہ اسے جگاسکیں ۔
اس طرف جاتے ہوئے اچانک ان کی نگاہ آسمان کی طرف اٹھ گئی ،تب انہیں بادل کاایک ٹکڑانظرآیا،جس میں جابجابہت سے روشن چراغ ٹمٹمارہے تھے،بہت ہی خوشنمااوردلکش منظرتھاوہ…کچھ دیریہ اسی طرح اپنی جگہ ساکت وجامدکھڑے ہوئے بڑے ہی انہماک کے ساتھ یہ خوشنمااورروح پرورنظارہ دیکھتے رہے،اوراسی دلفریب منظرمیں کھوئے رہے ، اورپھروہ بادل آہستہ آہستہ آسمان کی جانب بلندہوتاگیا…حتیٰ کہ رفتہ رفتہ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔
جب صبح ہوئی تورسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اُسیدبن الحُضیرؓ نے یہ تمام ماجرا بیان کیا،جس پرآپؐ نے فرمایا: تِلکَ المَلَائِکَۃُ کَانَت تَستَمِعُ اِلَیکَ یَا اُسَید… یعنی’’اے اُسید!وہ توفرشتے تھے جو آپ کی تلاوتِ قرآن سُن رہے تھے‘‘(۱)
٭…حضرت اُسیدبن الحُضیرؓ کوجس طرح قرآن کریم کے ساتھ بہت زیادہ شغف تھا ٗاوربڑے ہی دلنشین اندازمیں قرآن کریم کی تلاوت کیاکرتے تھے…اسی طرح انہیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بھی بہت زیادہ عقیدت ومحبت تھی ، خصوصاًجب آپؐ خطبہ دے رہے ہوتے ٗ یاکسی موقع پروعظ ونصیحت میں مشغول ہوتے ،تب اُسیددنیاومافیہا سے بے خبرہمہ تن گوش ہوکرآپؐ کی طرف متوجہ ہوجاتے…
رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت اُسیدبن الحُضیرؓ کی جومحبت وعقیدت تھی، اور جو تعلقِ خاطرتھا،اس کااظہاراس واقعے سے بھی ہوتاہے کہ ایک بارکسی محفل میں جب رسول اللہ ﷺ تشریف فرماتھے،اُس وقت وہاں اتفاقاًکچھ بے تکلفی کی فضاء تھی ، دوستانہ قسم کاماحول تھا،شرکائے محفل میں سے ہرکوئی اپنی اپنی کوئی بات سنارہاتھا…اسی دوران اُسیدؓ نے بھی اپنی کوئی بات سنائی ،جس پرسبھی لوگ خوب محظوظ ہوئے اورہنس دیئے، تب آپؐ نے بھی اظہارِپسندیدگی کے طورپران کی کمرمیں ہلکی سی انگلی چبھوئی…تب اچانک اِنہیں ایک ترکیب سوجھی،اوریہ فوراًہی منہ بسورتے ہوئے یوں کہنے لگے : أوجَعْتَنِي یَا رَسُولَ اللّہ! … یعنی’’اے اللہ کے رسول!آپ نے تومجھے دردکردیا…‘‘
اس پررسول اللہ ﷺ نے فوراًجواب میں یہ ارشادفرمایا : اِقتَصّ مِنِّي یَا اُسَید! یعنی’’اے اُسید!آپ مجھ سے اپنابدلہ لے لیجئے‘‘
تب اُسیدؓ نے عرض کیا : اِنّ عَلَیکَ قَمِیصاً ، وَلَم یَکُن عَلَيَّ قَمِیصٌ حِینَ غَمَزْتَنِي… یعنی’’اے اللہ کے رسول! آپ کے جسم پرتوقمیص ہے،جبکہ آپ نے مجھے جب انگلی چبھوئی تھی تب مجھ پرقمیص نہیں تھی‘‘(یعنی چونکہ کسی کھلی جگہ بیٹھے ہوں گے، لہٰذا ہوا کی وجہ سے اتفاقاً ان کے جسم سے اس جگہ سے کپڑاہٹ گیاہوگا)
اس پررسول اللہ ﷺ نے اپنے جسم مبارک سے قمیص ہٹائی …تب فوراًہی عقیدت ومحبت سے سرشار اُسیدؓ نے آپؐ کے جسم مبارک کوبوسہ دیا،اوراس کے بعدعرض کیا : بِأبِي أنتَ وَأمِّي یَا رَسُولَ اللّہ! اِنّھَا لَبُغیَۃٌ کَنتُ أتَمَنّاھَا … یعنی’’اے اللہ کے رسول!میرامقصدتوبس یہی تھا…جس کی آرزوعرصے سے میرے دل میں تھی‘‘(۱)(۲)
٭…جس طرح حضرت اُسیدبن الحُضیرؓ کے دل میں رسول اللہ ﷺ کیلئے انتہائی عزت واحترام اوروالہانہ عقیدت ومحبت کے جذبات موجزن تھے…اسی طرح آپؐ بھی ہمیشہ ان کے ساتھ خاص شفقت وعنایت کامعاملہ فرماتے رہے…آپ نےؐ اس حقیقت کوہمیشہ ملحوظ رکھاکہ اُسیدؓ تومدینہ کے ان باشندوں میں سے تھے جنہوں نے کافی ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیاتھا،چنانچہ ’’بیعتِ عقبہ ثانیہ‘‘کے موقع پریہ شریک تھے،لہٰذایہ ان خوش نصیب افرادمیں سے تھے جن کی طرف سے پرزوردعوت اورمسلسل اصرارکے نتیجے میں ہی آپؐ مکہ سے ہجرت فرماکرمستقل طورپرمدینہ تشریف لے آئے تھے…تب مدنی زندگی میں غزوات کاسلسلہ شروع ہواتھا،اوراس حوالے سے بھی حضرت اُسیدبن الحُضیرؓ کی کیفیت یہ چلی آرہی تھی کہ ہمیشہ ہرغزوے کے موقع پر شریک بلکہ پیش پیش رہے تھے،چنانچہ غزوات کے حوالے سے ہی ان کی یہ بات بھی آپؐ کے ذہن میں تھی کہ غزوۂ اُحدکے دوران جب ایک موقع پرآپؐ دشمنوں کے نرغے میں پھنس گئے تھے ٗ تب آپؐ کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے انہیں تلواروں اورنیزوں کے بہت سے زخم آئے تھے جن میں سے چندزخم اتنے گہرے تھے کہ ان سے شفایاب ہونے میں انہیں طویل عرصہ لگ گیاتھا۔
مزیدیہ کہ اپنی قوم اورقبیلے میں خاندانی طورپرنسل درنسل ان کی بڑی حیثیت چلی آرہی تھی…اللہ کے دین کی خاطراپنے پرانے رسم ورواج ٗاپنی سرداری ٗ جاہ ومنصب ٗاور شان وشوکت سے دستبرداری اختیارکرتے ہوئے اب یہ ہمہ وقت آپؐ کی خدمت اورصحبت ومعیت میں ہی رہنے لگے تھے، اللہ کے دین کی تبلیغ اورنشرواشاعت کوہی اب انہوں نے اپنامقصدِحیات بنالیاتھا…یہ وہ تمام حقائق تھے جن سے آپؐ بخوبی آگاہ تھے ،اوریہی وجہ تھی کہ آپؐ ان کاکافی لحاظ فرمایاکرتے تھے۔لہٰذااگرکسی معاملے میں یہ اپنی قوم کے کسی فردسے متعلق آپؐ کی خدمت میں کوئی گذارش کرتے توآپؐ ان کی گذارش کوردنہیں فرماتے تھے۔
چنانچہ ایک بارحضرت اُسیدبن الحُضیرؓ نے اپنی قوم (بنوعبدالأشہل)کے کسی گھرانے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گذارش کی کہ’’اے اللہ کے رسول!یہ لوگ محتاج اورمفلوک الحال ہیں ‘‘
اس پرآپؐ نے جواب دیا’’اے اُسید!آپ ہمارے پاس ایسے وقت پہنچے ہیں کہ جب ہم سبھی کچھ تقسیم کرچکے ہیں ،لہٰذاآئندہ جب کبھی ہمارے پاس کچھ (مالِ غنیمت ٗ یاصدقات وغیرہ) آئے تب آپ ہمیں ان افرادکے بارے میں یاددلائیے گا‘‘
اس کے بعدکچھ ہی عرصہ گذراتھاکہ ( سات ہجری میں ) ’’فتحِ خیبر‘‘کایادگارواقعہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں بڑی مقدارمیں مالِ غنیمت خیبرسے مدینہ پہنچا۔تب آپؐ نے اس گھرانے کے افرادکوبطورِخاص بہت کچھ عطاء فرمایا…
اسی کیفیت میں وقت کاسفرجاری رہا،حضرت اُسیدبن الحُضیرؓ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کیلئے والہانہ عقیدت ومحبت …جبکہ آپؐ کی طرف سے ان کیلئے شفقت وعنایت کایہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا…حتیٰ کہ آپؐ کامبارک دورگذرگیا…آپؐ تادمِ آخران سے نہایت خوش اورمسرورومطمئن رہے۔
رسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں جس طرح اُس معاشرے میں انہیں بڑی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا…ان کی یہی حیثیت آپؐ کے بعدبھی برقراررہی۔
اورپھر ۲۰ھمیں خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب ؓ کے دورِخلافت میں یہ بیمار پڑگئے،آخر مختصرعلالت کے بعدرسول اللہ ﷺ کے یہ جلیل القدرصحابی حضرت اُسیدبن الحُضیرؓ اس دنیائے فانی سے کوچ کرتے ہوئے اپنے اللہ سے جاملے۔
ان کے جسدِخاکی کومضافاتی بستی’’قباء‘‘(جہاں ان کے خاندان بنو عبدالأشہل کامسکن تھا)سے مدینہ شہر لایاگیا،جہاں مسجدِنبوی میں خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب ؓ کی اقتداء میں ان کی نمازِجنازہ اداکی گئی ،اس کے بعدجب ان کاجسدِخاکی مسجدنبوی سے آخری آرامگاہ یعنی’’بقیع‘‘کی جانب لے جایاجانے لگاتواس موقع پرمسجدسے ’’بقیع‘‘ تک مسلسل حضرت عمربن خطاب ؓ انہیں کندھادینے والوں میں شامل رہے، اورپھر’’بقیع‘‘میں انہیں سپردِخاک کردیاگیا۔
اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں ۔
✍
❤🔥
❤️
3