
تحقيق الأحاديث الحنفيہ القادريہ
February 14, 2025 at 04:40 AM
کیا ۱۵ شعبان پر مرفوع روایت نہیں؟
۱۵ شعبان کی فضیلت پر علمی مذاکرہ کے اہم اور علمی نکات قارئین کے لئے پیش خدمت ہیں۔
حدیث نمبر (1)
یہ وہ رات ہے، جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
أخبرنا محمد بن المعافی العابد بصيدا وابن قتيبة وغيره قالوا: حدثنا هشام بن خالد الأزرق قال حدثنا أبو خليد عتبة بن حماد عن الأوزاعی وابن ثوبان عن أبيه عن مکحول عن مالک بن يخامر عن معاذ بن جبل عن النبي صلی الله عليه وآله وسلم قال: يَطَّلِعُ اﷲُ إِلٰی خَلْقِهِ فِی لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيْعِ خَلْقِهِ إلَّا لِمُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ.
عن مُعاذ بنِ جبلٍ عن النبيِّ ﷺ قال: یَطَّلِعُ اللّٰہُ إِلٰی خَلْقِہٖ فِيْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہٖ ،إِلَّا لِمُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ ۔
تخریج:۔
(أخرجہ ابن حبان في الصحیح ۱۲/۴۸۱(۵۶۶۵) ،والطبراني في مسند الشامیین ۱/۱۲۸(۲۰۳) ،وفي الکبیر ۲۰/۱۰۸ (۲۱۵)،وفي الأوسط ۷/۲۸ (۶۷۷۶) ، و في مسند الشامیین ۱/۱۲۹۔۱۳۰(۲۰۳۔۲۰۵)،و(۳۵۷۰)،وابن أبي عاصم في السنۃ ۱/۲۲۴ (۵۱۲)، ،والشجري في أمالي الخمیسیۃ (۱۳۷۹۔۱۵۲۵۔۱۸۸۱)،وابن أبي حاتم في العلل (۱۹۶۸)، والدارقطني في العلل ۶/۵۰،وفي کتاب النزول ۱۵۸(۷۷)، و أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء ۵/۱۹۱،والبیہقي في شعب الایمان ۵/۳۶۰(۳۵۵۲)،وفي فضائل الأوقات ۱۱۹۔۱۲۰(۲۲) ،وابن عساکر في تاریخہ ۳۸/۲۳۵، و۵۴/۹۷،وأبو الحسن القزویني في جزء فیہ مجالس من أمالیہ (۲۰)[ق] ،والمقدسیي في أحادیث الجماعیلي (۲۵)[ق]، والجوھري في أمالیہ (۷)[ق]، وغیرہم ۔
ترجمہ :۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’اللہ تعالی نصف شعبان کی رات اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، پس مشرک اور کینہ پرور کے سوا ہر ایک کی مغفرت فرما دیتا ہے۔‘‘
قال الہیثمي في مجمع الزوائد۸/۶۵ :رواہ الطبراني في الکبیر والأوسط ورجالھما ثقات۔
’’یعنی امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو معجم کبیر اور اوسط میں روایت کیا اور دونوں کے رجال (راوی) ثقہ ہیں‘‘ ۔
غیر مقلدین کے محدث ناصر الدین البانی نے امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا قول’’مکحول لم یلق مالک بن یخامر‘‘۔ نقل کرنے کے بعد لکھا :’’قلت : ولولا ذلک لکان الاسناد حسنا ، فان رجالہ موثوقون ، وقال الھیثمي في مجمع الزوائد ۸/۶۵: رواہ الطبراني في الکبیر والأوسط ورجالھما ثقات ۔(1) (1) (السلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ۳/۱۳۵ (۱۱۴۴)
یہی البانی’’صحیح موارد الظمان الی زوائد ابن حبان۲/۲۶۳(۱۶۶۲)‘‘ میں لکھتا ہے: ’’حسن‘‘ ۔التعلیق الرغیب ۳/۲۸۲ و ۲۸۳، الصحیحۃ (۱۱۴۴)۔
یہی البانی’’صحیح الترغیب والترھیب ،، (۱۰۲۶)(۲۷۶۷)‘‘میں کہتا ہے’’حسن صحیح‘‘۔
اور شعیب الارنؤوط نے لکھا:’’حدیث صحیح بشواھدہ رجالہ ثقات إلا أن فیہ انقطاعا ، مکحول لم یلق مالک بن یخامر‘‘ ۔آگے دوسری روایات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے’’وھذہ الشواھد وان کان في کل واحد منھما مقال تقوي حدیث الباب ۔(2) (2)(صحیح ابن حبان ۱۲/۴۸۱۔۴۸۲)
سند کی تحقیق
اس سند کے راویوں کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
1۔محمد بن المعافى هو ابن أبي حنظلة بن أحمد بن بشير بن أبي كريمة، أبو عبد الله العابد،
حافظ ابن حبان نے کہا: "كتبنا عنه أشياء مستقيمة". ثقاته 9/ 155
2- هشام بن خالد الأزرق
امام ابو حاتم نےکہا : صدوق. الجرح والتعديل: 9 / الترجمة 235.
امام ابْن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا: كتاب "الثقات" 9 / 233.
3۔ أبو خُلَيْد (1) عتبة بن حماد
امام أبو حاتم نے کہا: شيخ
امام أبو علي النيسابوري والخطيب بغدادی نے کہا: ثقة
امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں لکھا۔ [ تهذيب التهذيب7/95]
4- الأَوْزَاعِيُّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ عَمْرِو بنِ يُحْمَدَ
علامہ ذہبی نے فرمایا:شَيْخُ الإِسْلاَمِ، وَعَالِمُ أَهْلِ الشَّامِ، [سير أعلام النبلاء،رقم48]
اس روایت کو الاوزاعی کے ساتھ ایک اور راوی ابن ثوبان عن ابیہ سے بھی روایت نقل کرکے کے متابعت کر رہے ہیں۔
5 - ابْنُ ثَوْبَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ ثَابِتٍ العَنْسِيُّ
الشَّيْخُ، العَالِمُ، الزَّاهِدُ، المُحَدِّثُ،[سير أعلام النبلاء،رقم103]
6-ثابت بن ثوبان:
امام معاوية بن صالح نےکہا:عنه ثقة لا بأس به
امامأبو حاتم ےکہا: ثقة
امام العجلي نےکہا: لا بأس به أبو مسهر أعلى أصحاب مكحول سليمان بن موسى ومعه يزيد بن جابر ثم العلاء بن الحارث وثابت بن ثوبان واليه أوصى مكحول
امام دحيمنےکہا: العلاء أفقه وثابت قليل الحديث
امامأبو زرعةنےکہا: واعدت عليه تقدم سن ثابت ولقيه بن المسيب فلم يدفعه عن ثقة وتقدم وقدم العلاء بن الحارث عليه لفقهه
امام عبد الله عن أبيه شامي نےکہا:ليس به بأس
امام بن حبان في کتاب الثقات میں ذکر کیا۔[ تهذيب التهذيب2/4]
7-مَكْحُوْلٌ الدِّمَشْقِيُّ أَبُو عَبْدِ اللهِ
علامہ ذہبی فرماتے ہیں:عَالِمُ أَهْلِ الشَّامِ[سير أعلام النبلاء:57 ]
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتےہیں۔ ابو عبداللہ مکحول شامی ثقہ ہے۔
(تقريب التهذيب، 1: 545)
8- مَالِكُ بْنُ يُخَامِرَ السَّكْسَكِيُّ الْحِمْصِيُّ.
علامہ ذہبی لکھتے ہیں۔يُقَالُ: لَهُ صُحْبَةٌ، وَكَانَ ثِقَةً كَبِيرَ الْقَدْرِ مُتَأَلِّهًا. [تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام،رقم: 96]
علامہ مزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ مالک بن یخامر السکسکی تابعی ثقہ ہے، انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف، معاذ بن جبل اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے اور ان سے مکحول شامی نے روایت کیا ہے۔[ تهذيب الکمال، 27: 167]
کیا علامہ البانی نے اس روایت کو ضعیف کہا؟
اعتراض:
مخالفین نے علامہ البانی کے حوالہ سے اس روایت کو ضعیف ثابت کرتے ہیں۔جو کچھ یوں ہے۔
علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث صحیحہ،رقم:، ۱۱۴۴ (الصحیحة: ۳/۱۳۵) پر علامہ ذہبی کے حوالےسے لکھا کہ " مکحول لم یلق مالک بن یخافر" یعنی مکحول نے مالک بن یخامر سے ملاقات نہیں کی [یعنی یہ روایت منقطع ہے]۔
بلکہ یہ ہی طریقہ غیر مقلد زبیر علی زئی نے اپنے ماہانامہ الحدیث،رسالہ نمبر:۵ صفحہ۵ نے اپنایااور اپنا مطلب نکالا۔
جواب: عرض یہ ہے کہ علامہ ناصر الدین البانی نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی نصف الشعبان کے فضائل میں روایت کو سلسلۃ الاحادیث صحیحہ رقم:۱۱۴۴ پر نقل کیا اور اس کے بعد اس کی تخریج کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔وابن المحب في " صفات رب العالمين " (7 / 2 و 129 /
2) وقال: " قال الذهبي: مكحول لم يلق مالك بن يخامر ".
قلت: ولولا ذلك لكان الإسناد حسنا، فإن رجاله موثوقون، وقال الهيثمي في
" مجمع الزوائد " (8 / 65) : " رواه الطبراني في " الكبير " و " الأوسط "ورجالهما ثقات ".
بعض لوگوں نے امام ذہبی کا قول" مکحول لم یلق مالک بن یخافر" یعنی مکحول نے مالک بن یخامر سے ملاقات نہیں کی [(الصحیحة: ۳/۱۳۵) یعنی یہ روایت منقطع ہے] کوالبانی کی تحقیق سے جوڑا۔ مگر یہ ایک مغالطہ اور غلطی ہے۔کیونکہ یہ الفاظ ناصر الدین البانی کی نہیں بلکہ امام ابن المحب کی صفات رب العالمین سے نقل شدہ ہے۔کیونکہ علامہ البانی کا قول لفظ" قلت" یعنی میں کہتا ہوں سے شروع ہوتی ہے۔
لہذا علامہ البانی کی آڑ لے کر یہ کہنا کہ علامہ البانی وسیع النظر و مطالعہ ہیں،اور یہ علامہ ذہبی کا قول ضرور ان کے مطالعہ سے گذرا ہوگا،غلط اور تحقیق کے خلاف ہے۔ اور البانی کے اسی الفاظ کو آڑ بنا کر زبیر علی زئی اور دیگر لوگوں کا علامہ البانی کے قول کو مستدل بنانا فضول ہے۔
دوم: یہ کہ علامہ البانی نے اپنی کسی کتاب میں اس کے منقطع یا مرسل ہونے کا ہونے کا تذکرہ نہیں کیا۔اس کے برعکس علامہ البانی نے اپنی متعدد کتب میں اس روایت کو صحیح اور حسن صحیح قرار دیا ہے۔
1۔صحيح الترغيب الصفحة ، الرقم: 1026 قال : حسن صحيح
2۔إصلاح المساجد الصفحة ، الرقم: 99 قال : صحيح
3۔صحيح الترغيب الصفحة ، الرقم: 2767 قال : حسن صحيح
4۔تخريج كتاب السنة الصفحة ، الرقم: 512 قال : صحيح
جب خود ہی صحیح اور حسن قراد دیا ہے تو پھر مرسل اور منقطع ہونے کی تحقیق کو علامہ البانی کی طرف منسوب کرنا غلط ہے۔اور اس سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوئی کہ علامہ البانی نے ابن المحب کی اس نقل پر بھی اعتماد نہیں کیا اوراس حدیث کو حسن صحیح متعدد مقامات پر کہا۔
اعتراض: جب راقم کی چند مخالفین سے اس روایت کے متعلق بات ہوئی اور راقم نے جواباً کہا کہ یہ قول تو علامہ ذہبی سے بھی ثابت نہیں، تو غیر مقلدین کے ایک نام نہاد شیخ الحدیث نے کہا کہ اچھا تو سماع ثابت کردیں۔
جواب:تو ان کے گوش گذار کیا گیا کہ جب ایسا اعتراض ہی علامہ ذہبی کے اپنی کتاب میں موجود نہیں ہے تو پھر ان کی سماع کو ثابت ہم کیوں کریں؟کیونکہ اعتراض تو آپ کا ہے بجائے اس کے کہ آپ اپنی تحقیق پر نظر ثانی کریں آ پ ہمیں فضول جواب دے رہے ہیں۔آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ آپ کتب اسماء الرجال اور اصول سے علامہ ذہبی رحمہ اللہ یا کسی بھی محدث کا حوالہ پیش کریں۔ایسی چالاکہ ہوشیاری کو اپنے پاس ہی سنبھال کر رکھیں یا اپنی جاہل شاگروں کو خوش کرنے کے لیے یہ بے ہودہ اعتراض سنائیں۔علم اور تحقیق کے میدان میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔
مگر اس مقام پر مناسب یہ ہے کہ قارئین کے لیے امام مکحول کا امام مالک بن یخامر سے سماع کے بار ے میں تحقیق پیش کردی جائے تاکہ آئندہ کوئی عوام الناس کو بہکانے کی ہمت نہ کرسکے۔
مکحول کا مالک بن یخامر سے سماع
محدثین کرام نے مالک بن یخامر کے شاگروں میں مکحول شامی کا نام درج کیا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ،رقم:۷۷۱۷،تہذِیب التہذیب،رقم۱۴۰،
علامہ ذہبی نے الکاشف،رقم:۵۲۶۷ اور تاریخ الاسلام،رقم:۹۶ پر تو واضح طو ر عامر بن یخامرکے ترجمہ میں لکھا: حدث عنه معاوية على المنبر، وجبير بن نفير، وعمير بن هانئ، ومكحول، وسليمان بن موسى، وخالد بن معدان۔
یعنی عامر بن یخامرسے روایت کرنے والاے مکحول،سلیمان بن موسی اور خالد بن معدان وغیرہ شامل ہیں۔
علامہ مزی نے مالک بن یخامر کے شاگردوں اور رویات کرنے والوں میں مکحول کا نام لکھا ہے۔
علامہ مزی لکھتے ہیں کہ مالک بن یخامر السکسکی تابعی ثقہ ہے، انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف، معاذ بن جبل اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے اور ان سے مکحول شامی نے روایت کیا ہے۔[ تهذيب الکمال، 27: 167]
امید ہے کہ اس تحقیق کے بعد کچھ انصاف و تحقیق پسند لوگ اپنی تحریروں میں ضرور نظر ثانی کریں گے۔
ان محدثین کرام نے عامر بن یخامر سے روایت کرنے والوں میں مکحول کا تذکرہ کیا ہےاور کسی ارسال کی تذکرہ نہیں کیا۔
اعتراض:جب یہ دلائل منکرین اور مخالفین کے ملتانی شیخ الحدیث کے سامنے واضح کیے تو بجائے حق سچ بات ماننے کے،یہ اعتراض کیا کہ مکحول کا عامر بن یخامر سے سماع کے تصریح کسی روایت میں مل جائے تو پھر بات مانی جا سکتی ہے۔
جواب:
عرض یہ ہے کہ محدثین کے حوالاجات کے بعد اس اعتراض کی حیثیت کچھ بھی نہیں بلکہ مردود ہے۔مگر پھر بھی ان کی تسلی اور تشفی کے لیے
راقم نے مکحول کی چند روایت کی نشاندہی کی جس میں مکحول نے خود اپنی سماعت اور روایت کا تذکرہ کیا۔قارئین اور محققین کے ذوق مطالعہ کے لیے روایت پیش خدمت ہیں۔
1۔امام ابو عمر الدانی(المتوفى: 444ھ) اپنی کتاب السنن الوردہ فی الفتن ج۴ ص۹۳۰ پر ایک روایت نقل کرتے ہیں،جس میں مکحول اپنی سماعت حدثنی کے الفاظ کر رہے ہیں۔
عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ , عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ مَكْحُولًا يَقُولُ: حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ يَخَامِرَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ»
[السنن الواردة في الفتن وغوائلها والساعۃ وأشراطها،رقم:،۴۵۹،ج۴ ص۹۳۰]
2۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (المتوفى : 852ھ)اپنی کتاب اتحاف المھرۃ ،رقم ا لحدیث ۱۶۷۳۰ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں امام مکحول نے امام مالک بن یخامر سے اپنی سماعت کا ذکر لفظ ثنا[سنا]سے کیا ہے،روایت پیش خد مت ہے۔
16730 - حديث (قط) : "ما أحل الله تعالى شيئاً أبغض إليه من الطلاق، فمن طلق واستثنى فله ثنياه".
قط في الطلاق: ثنا عثمان بن أحمد الدقاق، ثنا إسحاق بن إبراهيم بن سنين، ثنا عمر بن إبراهيم بن خالد، ثنا حميد ابن عبد الرحمن، بن مالك اللخمي، ثنا مكحول، ثنا مالك بن يَخَامِر، بهذا.
[إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة،رقم الحدیث:۱۶۷۳۰]
3۔امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفى: 385ھ)نے اپنی کتاب العلل الوردہ ،رقم ۹۷۲ میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں مکحول اپنی سماعت کا ذکر حدثنی سے کیا ہے۔
972- وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ يُخَامِرَ، عَنْ مُعَاذٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابٌ لِيَثْرِبَ، وَخَرَابُ يثرب خروج الملحمة، وخروج الملحمة فتح القسطنطينية.
فَقَالَ: يَرْوِيهِ ابْنُ ثَوْبَانَ، وَاخْتُلِفَ عَنْهُ؛
فَرَوَاهُ أَبُو حَيْوَةَ شُرَيْحُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ يُخَامِرَ، عَنْ مُعَاذٍ.
[العلل الواردة في الأحاديث النبويۃ،رقم:۹۷۲]
امید ہے کہ اگر کس میں انصاف کا ذرہ بھی ہوا تو وہ اس رویات کو صحیح مانے گا،وگرنہ میں نہ مانوں کا علاج نہیں۔
اعتراض:
کچھ لوگوں نے اس حدیث کو نہ ماننے کے لیئے چند اعتراض کیے ہیں مناسب ہوگا کہ ان کا بھی تحقیقی جواب دیا جائے تاکہ کسی کو کچھ کہنےکا موقعہ نہ مل سکے اور بھولے بھالے عوام الناس کو بہکا نہ سکے۔
جس میں ایک اعتراض امام ابو حاتم کی کتاب العلل سے نقل کیا جاتا ہےکہ امام ابوحاتم نے اس حدیث کی سند کو منکر کہا ہےکیونکہ اس سند کے ساتھ ابی خلید کے علاوہ کسی اور راوی نے روایت نہیں کیا۔
2012 - وسألتُ أَبِي عَنْ حديثٍ رواه أبو خُلَيدٍ القَارِئُ ی
عَنِ الأَوْزاعيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ - وعَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ -
عَنْ مالكٍ بْنِ يُخَامِرَ، عَن معاذِ بْنِ جَبَلٍ؛ قَالَ: قَالَ رسولُ الله (ص) : يَطَّلِعُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى خَلْقِهِ ... ؟
قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ بهذا الإسنادِ ، لم يَرْوِ بهذا الإسنادِ [غير] أَبِي خُلَيدٍ، وَلا أَدْرِي مِنْ أَيْنَ جَاءَ بِهِ!
قلتُ: ما حالُ [أَبِي] خُلَيدٍ؟
قَالَ: شيخٌ
[ العلل لابن أبي حاتم،رقم:۲۰۱۲]
الجواب:
اس عبارت کا بغور مطالعہ کیجئے۔ امام ابو حاتم نے اس حدیث میں جو علت بیان کی وہ یہ ہے:
قَالَ أَبِي: هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ بهذا الإسنادِ ، لم يَرْوِ بهذا الإسنادِ [غير] أَبِي خُلَيدٍ، وَلا أَدْرِي مِنْ أَيْنَ جَاءَ بِهِ!
یعنی میرے والد امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ حدیث اس سند کے ساتھ منکر ہے۔[آگے منکر ہونے کی وجہ لکھتے ہیں] اس سند کے ساتھ یہ روایت ابی خلید کے علاوہ کسی[ راوی] سے مروی نہیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کہا سے آیا ہے۔[مفہوم یہ کہ اس کے علاوہ کسی اور نے روایت کیا ہو تو مجھے نہیں معلوم۔]
اب امام ابو حاتم نے اپنے علم کے مطابق اس حدیث پر حکم لگایا کہ اس روایت کو ابی خلید کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا۔
مگر کیا یہ ضروری ہے کہ امام ابوحاتم کی رائے کے مطابق ہی فیصلہ کیا جائے۔کیونکہ اگر کوئی اور راوی روایت نہیں بھی کرے تو روایت کو ضعیف کیسے کہا جاسکتا ہے۔کیونکہ خود غیر مقلدین ثقہ کی روایت کو قبول کرنے کا اصول مانتے ہیں۔
اگر اعتراض کرنے والوں نے امام بیہقی کی کتاب شعب الایمان رقم ۳۸۳۳ کا ہی مطالعہ کر لیا ہوتا تو ان کو اپنی رائے پر نظر ثانی ضرور کرنی پڑتی۔اسی لیے غیر مقلدین میں سے کسی نے بھی امام ابو حاتم کے قول کو علت نہیں بنایا۔میرے مطالعے میں اب تک اس موضوع پر جتنی بھی کتابیں لکھیں گئیں ہیں کسی نے بھی اس کو پیش نہیں کیا اور اگر کسی نے پیش کیا بھی ہو تویہ اعتراض علت معلول نہیں جس کی وجہ سے روایت ضعیف ہوسکے۔
امام بیہقی کے سند پیش خدمت ہے۔اس سند میں امام الاوزاعی سے ۲ مزید راوی روایت نقل کرتے ہیں۔جو کہ ابو خلید کے علاوہ ہیں۔
۱۔ محمد بن كثير المصيصي نا الأوزاعي عن مكحول
۲۔ أبو خليد يعني عتبة بن حماد الحكمي عن الأوزاعي عن مكحول
اس کے بعد امام بیہقی نے اس روایت کے اصل ہونے کی بھی نشاندہی کی اور امام بیہقی کا قول ان لوگوں کے اعتراضات کا جواب ہے جنھوں نے امام ابو حاتم کے قول کے معنی یہ کیَے کہ اس روایت کو کوئی اصل نہیں۔
3833 - أخبرنا أبو عبد الله الحافظ نا أبو أحمد الحافظ نا أبو جعفر محمد بن عمران النسوي النيسابوري نا أبو الوليد محمد بن أحمد بن برد الأنطاكي نا محمد بن كثير المصيصي نا الأوزاعي عن مكحول ح و أخبرنا أبو عبد الله الحافظ و إسحاق بن محمد بن يوسف السوسي و أبو بكر القاضي قالوا : ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب نا يزيد بن محمد بن عبد الصمد الدمشقي نا هشام بن خالد نا أبو خليد يعني عتبة بن حماد الحكمي عن الأوزاعي عن مكحول و ابن ثابت يعني عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان عن أبيه عن مكحول عن مالك بن يخامر عن معاذ بن جبل : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال :
يطلع الله في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا المشرك أو مشاحن ۔
و في رواية المصيصي قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم و الباقي سواء۔
و قد روينا هذا من وجه و في ذلك دلالة على أن للحديث أصلا من حديث مكحول۔
شعب الإيمان:۳۸۳۳
اس روایت کے بعد اگر کسی میں مسلکی تعصب باقی ہے تو اللہ تعالی سے اپنی ہدایت کے دعا کرے اور حق سچ بات ماننے کا حوصلہ دے۔
اعتراض: امام دارقطنی اس حدیث کو اپنی کتاب العل رقم:۹۷۰ پر غیر ثابت کہا ہے۔
الجواب:۔
مسلکی تعصب میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی روایات سے انکار کرنے کے لیے چند لوگوں نے اما م دارقطنی کی کتاب العلل سے ایک اعتراض کیا ہے۔
970- وسُئِل عَن حَدِيثِ مالِكِ بنِ يُخامِر ، عَن مُعاذٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيه وسَلم ، قال : يَطَّلِعُ الله عَزّ وجَلّ إِلَى خَلقِهِ لَيلَة النِّصفِ مِن شَعبان ، فَيَغفِرُ لِجَمِيعِ خَلقِهِ إِلاّ لِمُشرِكٍ أَو مُشاحِنٍ.
قال : يُروَى عَن مَكحُولٍ ، واختُلِف عَنهُ ؛ فَرَواهُ أَبُو خُلَيدٍ عُتبَةُ بن حَمّادٍ القارِيُّ ، عَنِ الأَوزاعِيِّ ، عَن مَكحُولٍ ، وعن ابن ثوبان ، عن أبيه ، عن مكحول ، عَن مالِكِ بنِ يُخامِر ، عَن مُعاذِ بنِ جَبَلٍ.
قال ذَلِك هِشامُ بن خالِدٍ : عَن أَبِي خُلَيد.
حَدَّثناهُ ابن أَبِي داوُد ، قال : حَدَّثنا هِشامُ بن خالِدٍ بِذَلِكَ.
وَخالَفَهُ سُلَيمانُ بن أَحمد الواسِطِيُّ ، فَرَواهُ عَن أَبِي خُلَيدٍ ، عَنِ ابنِ ثَوبان ، عَن أَبِيهِ ، عَن خالِدِ بنِ مَعدان ، عَن كَثِيرِ بنِ مُرَّة ، عَن مُعاذِ بنِ جَبَلٍ ، كِلاَهُما غَيرُ مَحفُوظٍ.
وَقَد رَوَى عَن مَكحُولٍ فِي هَذا رِواياتٍ ، وقال هِشامُ بن الغازِ : عَن مَكحُولٍ ، عَن عائِشَة ، وقِيل : عَنِ الأَحوَصِ بنِ حَكِيمٍ ، عَن مَكحُولٍ ، عَن أَبِي ثَعلَبَةَ.
وَقِيل : عَنِ الأَحوَصِ ، عَن حَبِيبِ بنِ صُهَيبٍ ، عَن أَبِي ثَعلَبَةَ.
وَقِيل : عَن مَكحُولٍ ، عَن أَبِي إِدرِيس مُرسَلاً.
وَقال : الحَجّاجُ بن أَرطأة ، عَن مَكحُولٍ ، عَن كَثِيرِ بنِ مُرَّة مُرسَلاً ، أَنَّ النَّبِيّ صَلَّى الله عَلَيه وسَلم ، قالَ.
وَقِيل : عَن مَكحُولٍ مِن قَولِهِ ، والحَدِيثُ غَيرُ ثابِتٍ.
[العلل الواردة في الأحاديث النبويۃ،رقم:۹۷۰]
عرض یہ ہے کہ امام دارقطنی کی عبارت تو پیش کردی،مگر ان متعصب قسم کے لوگوں نے جس عبارت سے استدلال کیا،وہ یہ ہے۔
وَقِيل : عَن مَكحُولٍ مِن قَولِهِ ، والحَدِيثُ غَيرُ ثابِتٍ.
مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ یہ عبارت امام دارقطنی کی نہیں بلکہ یہ قول امام دارقطنی نے"قیل" جو مجہول کا صیغہ ہے۔اور یہ عبارت کسی مجہول شخص کی ہے۔
مزید یہ کہ چند جاہل لوگ اس پوری عبارت سے صرف والحَدِيثُ غَيرُ ثابِتٍ کو امام دارقطنی سے منسوب کیا۔اور پہلی عبارت وَقِيل : عَن مَكحُولٍ مِن قَولِهِ کو مجہول شخص کی مان لی ۔
اور ایسے جاہل لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ لفظ والحَدِيثُ غَيرُ ثابِتٍ میں" واو" کا عطف کس عبارت پر ہے؟اور یہ عبارت امام دارقطنی کی نہیں بلکہ اسی سابقہ عبارت وَقِيل : عَن مَكحُولٍ مِن قَولِهِ مجہول شخص کی عبارت کا تسلسل ہےاور بنتے شیخ الحدیث۔
جبکہ ایسے شیخ الحدیث کے جاہل اور بدتمیز اور بے لگام شاگرد،اپنے شیخ کی دفاع میں ہر قسم کے غلط بات کرنے کو ثواب سمجھتے ہیں۔جبکہ ان کے شیخ الحدیث کووہ عبارات بھی نہیں معلوم ہوتیں جو ان کے شتر بے مہار شاگرد ان کی دفاع میں پیش کرتے ہیں۔
اگر سمجھ نہیں آتا تو کسی سے بھی ترجمہ کرا کر دیکھ لیں کہ واو کا عطف سابقہ عبارت پر ہے کہ نہیں۔
ہوسکتا ہے کہ کوئی خود سر اور بد مغز اپنے شیخ کی دفاع میں شیخ الحدیث کے شاگردوں کو یہ کہے کہ نہیں نہیں ایسا نہیں ہے۔اور ادھر ادھر کی لغو اور فضول قسم کی باتیں کرے۔
مناسب یہ ہے کہ امام دارقطنی کی ہی کتاب سے ثابت کیا جائے کہ والحَدِيثُ غَيرُ ثابِتٍ امام دارقطنی کی جرح نہیں ہے۔
امام دارقطنی اپنی دوسری کتاب النزول ،رقم:۶۴ پر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
64 - حدثنا أبو بكر عبد الله بن سليمان بن الأشعث لفظا ، أنا هشام بن خالد ، قال : أنا أبو خليد عتبة بن حماد القاري عن الأوزاعي ، عن مكحول ، وابن ثوبان ، عن أبيه ، عن مكحول ، عن مالك بن يخامر السكسكي ، عن معاذ بن جبل عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : « يطلع الله عز وجل إلى خلقه ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا مشركا أو مشاحنا
[ النزول للدارقطني،رقم:۶۴]
قال الدارقطني : اختلف على مكحول في إسناد هذا الحديث . فقال أبو خليد عن الأوزاعي ، عن مكحول ، وعن ابن ثوبان ، عن مالك بن يخامر ، عن معاذ ، وقال المحاربي ، عن الأحوص بن حكيم ، عن المهاصر بن حبيب ، عن مكحول عن أبي ثعلبة الخشني . وقال الحجاج بن أرطاة : عن مكحول ، عن كثير بن مرة عن النبي صلى الله عليه وسلم .
وقال الفريابي : عن أبي ثوبان عن أبيه ، عن مكحول ، عن خالد بن معدان ، عن كثير بن مرة من قوله . وقال زيد بن أبي أنيسة : عن جنادة بن أبي خالد ، عن مكحول ، عن أبي إدريس الخولاني قوله . وقال هشام بن الغار : عن مكحول ، عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم . وقال عتبة بن أبي حكيم : عن مكحول بهذا مرسلا عن النبي صلى الله عليه وسلم . وقال : برد بن سنان : عن مكحول أراه عن كعب الأحبار [النزول للدارقطني،رقم:64]
اس پوری عبارت میں امام دارقطنی نے کسی بھی جگہ والحَدِيثُ غَيرُ ثابِتٍ کے الفاظ نقل نہیں کیے۔بلکہ : اختلف على مكحول في إسناد هذا الحديث کے الفاظ لکھے ہیں۔اور یہ بات اہل علم پر مخفی نہیں کہ اسناد کے اختلاف پر ہر روایت ضعیف نہی ہوتی۔اور عجب بات یہ کہ جب ترک رفع الیدین کی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کی تصحیح امام دارقظنی کریں تو پھراس کو ماننے سے بھاگتے ہیں۔
اس تحقیق کے بعد اگر کسی میں دینی حمیت ہوئی تو حق کو مانے گا وگرنہ اپنے مسلکی دفاع میں گمراہی میں ہی گم رہے گا اور اپنے دل کو تسلی دے گا کہ میرے نام نہاد شیخ الحدیث نے اپنے مسلک کا دفاع کیا۔ اللہ تعالی اس گمراہی سے بچائے۔
فیصل خان رضوی۔
❤️
👍
🌹
💚
💝
😂
😮
🙏
🫶
89