
ABNA e Thana Bhawan Dawat Tabligh Islamic Knowledge HARF RAHI HIJAZI KASHKOL URDU News Hindi News HD
February 12, 2025 at 03:35 AM
*ترک موالات کے نظریے کا بانی کون ہے؟*
*محمد یاسین جہازی*
جب ہندستان میں تیروتشدد اور جنگ و حرب کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں، تو بھارتیوں نے ہندستان کو انگریزوں کے پنجے سے آزاد کرانے کے لیے عدم تشدد اور ترک موالات کا سہارا لیا۔ اور بالآخر اسی طاقت نے ہندستان میں اس برطانوی حکومت کا سورج غروب کردیا، جس کے بارے میں یہ مثل مشہور ہوگئی تھی کہ اس کی حکومت کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ اسی بیچ ہندستان کے تاریخ نگاروں کے درمیان یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے کہ ترک موالات کے نظریہ کا بانی کون ہے؟۔ اس تحریر میں اسی کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
اگر نظریہ کی بات کریں، تو اس کی تفصیلات ذیل کی سطروں میں پیش کی گئی ہیں؛ لیکن اگر ہندستان میں تحریک کی بات کریں، تو یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ اسے مہاتما گاندھی جی نے ہی تحریک کی شکل دی تھی، جس کا باقاعدہ آغاز رولٹ ایکٹ پاس ہونے کے بعد 30/مارچ 1919 میں ہوا تھا۔
*کیا گاندھی جی ترک موالات کے نظریے کا بانی ہیں؟*
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ نظریہ مہاتما گاندھی جی کی پیدہ کردہ ہے۔جو انھوں نے پہلی مرتبہ رولٹ بل کے نفاذ کے خلاف فروری 1919 میں پیش کیا تھا۔ اور اس کے نفاذ کی وجہ سے 30/مارچ 1919 کو باقاعدہ طور پر ترک موالات کی تحریک کا آغاز کردیا تھا۔
یہ نظریہ گاندھی جی کی جانب منسوب ہونے کی وجہ سےبعض لوگ جمعیت علمائے ہند سے وابستہ علمائے کرام پر یہ طنز کرتے تھے کہ گاندھی جی جو کچھ فرماتے ہیں، وہ یہ علماان کی اندھی تقلید میں فتویٰ بناکر پیش کردیتے ہیں۔ چنانچہ اس حوالے سے مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں جمعیت علمائے ہند کے دوسرے سالانہ اجلاس منعقدہ (19-20-21/نومبر1920) کے خطبہ استقبالیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ :
” اب میں نون کو اپریشن (non-cooperation)کے مخالفین کے باقی دو غیر اہم اعتراضات کے جواب کو چھوڑ کر صرف اِس اعتراض کا جواب دیتا ہوں، جو مہاتما گاندھی کی شرکت پر کیا جاتا ہے۔ مہاتما گاندھی کی شرکت پر اعتراض ان کے اس بڑے احسان کو دیکھتے ہوئے ایک شرم ناک اعتراض ہے،جس سے ایک نہایت ہی حقیر بدگمانی اور جلن کی بو آتی ہے۔ ترکِ موالات درحقیقت ہمارا ایک مذہبی مسئلہ ہے۔ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ واقعی مہاتما گاندھی کا مشورہ اِس تحریک کی ابتدا ہے، تو اس مسئلہ کی صداقت اور حقیقت پر اس کا کچھ اثر نہیں پڑسکتا۔ اگر کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کو فریضہئ صوم و صلوٰۃ کے ادا کرنے کی ترغیب دے، تو اس سے نماز، یا روزے کی فرضیت نہیں جاتی رہے گی۔ نیز اِس بارے میں کہ کیا ہم اپنے مذہبی کاموں میں غیر مسلموں کو شریک کرسکتے ہیں، اس بارے میں ہمارے نبی کریم علیہ التحیۃ واتسلیم کا اسوہئ حسنہ موجود ہے کہ آپ نے احد کی مقدس لڑائی میں – جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا- قزمان کی شرکت کو قبول فرمایا۔ اور اُن کی خدمت پر خوشنودی بھی ظاہر فرمائی۔ جب فریضہئ جہاد میں – جوکہ ایک فریضہئ اعظم اوراہم ہے-غیر مسلم کی شرکت جائز ہے، تو ہمارے اور کسی مذہبی کام میں کیوں نہیں ہوسکتی؛ ضرور ہوسکتی ہے۔ اور اس کو پسند اور قبول کرنا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی سنت کا اتباع ہے۔ اور اس پر اعتراض خدا کی شریعت کی توہین کرنا ہے۔بے شک ہر مسلمان مہاتما گاندھی کا زیر بار ہے، منت و احسان ہے؛ اس لیے کہ وہ ہمارے ایک مذہبی کام میں کس ایثار و ہمدردی اور انہماک و تندہی کے ساتھ مشغول ہیں۔ صرف چند ہستیاں ہیں، جو مہاتما گاندھی کی شکر گزاری میں سواد اعظم سے الگ ہیں اور ہماری ہم نوا نہیں؛ لیکن جو قلوب دوسروں کی انگلیوں سے متحرک ہوجاتے ہوں،یا جن قلوب میں ایک محسن کے لیے جذبہ شکر گزاری کی گنجائش ہی نہ ہو، ان سے اِس کے سوا اور توقع ہی کیا ہوسکتی ہے۔”
اسی طرح شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب جمعیت علمائے ہند کے پانچویں سالانہ اجلاس عام (منعقدہ: 29/دسمبر1923 تا یکم جنوری 1924)کے خطبہ صدارت میں فتویٰ جمعیت علما کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ:
”ان امور کی ممانعت علما نے کانگریس کے پروگرام کی بنا پر نہیں کی تھی، جیسا کہ بعض دریدہ دہن کہا کرتے ہیں کہ جس چیز کو گاندھی جی فرماتے ہیں، علما اُس کو شرعی فتویٰ بنا دیتے ہیں؛ بلکہ یہ جملہ امور ہمیشہ سے اِسی طور پر بحکم شرعی محکوم بہ چلے آتے ہیں، جن کو علمائے اسلام ہمیشہ اپنے فتاوے میں ذکر کرتے رہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب، حضرت مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی، حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہم اللہ تعالیٰ اور دیگر مقدس اکابر کے فتاوے ایسے ہی موجود ہیں؛مگر فرق یہ ہوا کہ اُن کو ایک جگہ جمع کرکے انفرادی طور پر شائع کردیا گیا تھا۔”
*کیا ترک موالات کے بانی مولانا محمد علی صاحب ہیں؟*
جناب مسیح الملک کے مطابق ترک موالات کے نظریے کے بانی مولانا محمد علی صاحب ہیں۔ چنانچہ وہ اسی خطبہ استقبالیہ(دوسرا سالانہ اجلاس عام منعقدہ :19-20-21/نومبر1920) کے میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
"مہاتما گاندھی کو تحریک ترک موالات کا بانی سمجھنا میرا خیال ہے کہ شاید صحیح نہ ہو؛ اِس لیے کہ سب سے پہلے امرتسر کی مسلم لیگ میں مولانا محمدعلی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ایسی حالت میں جب کہ گورنمنٹ ترکوں کے ساتھ ناانصافی کررہی ہے، ہم اپنے تعلقات اس کے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ شوکت علی صاحب نے بھی یہی کہا تھا، حالاں کہ اس وقت تک نون کو اپریشن کا کوئی ذکر نہ تھا۔
نون کو اپریشن کا ریزولیوشن آل انڈیا خلافت کانفرنس میں پاس ہوا تھا۔ اِس کانفرنس میں مہاتما گاندھی کے علاوہ سب مسلمان تھے۔ جن میں علما بھی تھے۔ مولانا عبدالباری صاحب کی رائے بھی حاصل کی گئی تھی اور نہایت غور و بحث کے بعد یہ تجویز پاس ہوئی تھی۔ پس ترک موالات پر عمل ہرگز مہاتما گاندھی کی پیروی نہیں؛ بدیہی طور پر حکمِ خدا اور رسول کی پیروی ہے۔”
*کیا ترک موالات کے نظریے کے بانی مولانا برکت اللہ بھوپالی ہیں؟*
گاندھی جی اور مولانا محمد علی صاحب سے بھی بہت پہلےترک موالات کا تذکرہ مولانا برکت اللہ صاحب بھوپالی کے ایک مکتوب میں ملتا ہے، جو انھوں نے 21/فروری 1905 کو ہندو مسلمان در ہندستان کے عنوان سے مولانا حسرت موہانی کے نام نیویارک امریکہ سے فارسی زبان میں لکھ کر بھیجا تھا، اور مولانا فضل الحسن حسرت موہانی نے اسی زبان میں اپنے رسالہ اردوئے معلیٰ میں سب سے پہلے اس وقت شائع کیا تھا، جب کو اس کو پڑھتے ہوئے اور دیکھتے ہوئے بہت سے دل و دماغ خوف و ہراس محسوس کرتے تھے۔ اور جس کا ترجمہ مولانامحمد عبدالجبار صاحب القادری البدایونی 1923 میں کیا تھا۔ چنانچہ مولانا بھوپالی صاحب ہندستان میں ہندو مسلمانوں کے عدم اتفاق، جہالت اور معاشیات میں پس روی کے اسباب و وجوہات بیان کرنے کے بعد ان کا علاج بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
”مٹھی بھر انگریز جو محض غیر ہیں اور ہمیشہ غیر رہنا چاہتے ہیں ، اہل ہند کے لیے قانون وضع کرتے ہیں۔ اجرائے قانون کے لیے حکام بھی مقرر کرتے ہیں اور خراج بھی اہل ملک پر معین کر دیتے ہیں ، اورہندستانیوں پر غلبہ وتسلط کی خاطر لشکر اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں، لازم ہے کہ اس نظام فاسد کے رفع کرنے کے لیے ہندو مسلمان ایک ہو جائیں اور انگریزوں سے کہہ دیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ انگریز اپنے اور ہندیوں کے حقوق مساوی سمجھیں اورتمام ممالک برطانیہ میں ہندہی ایسے ہی ممتاز رہیں جیسے خود انگریز رہتے ہیں۔ اگر یہ منظور نہیں ہے، تو قانون فطرت جو حفظ ذات کا حکم دیتا ہے، ہندستان کو ممالک متحدہ امریکہ کی طرح ایک مستقل ( آزاد) ملک بنا دے گا۔
اس مقصد کی تکمیل کے لیے نہ بغاوت ضروری ہے، نہ لشکر، نہ سامان جنگ، نہ توپ و تفنگ؛ صرف اس قدر کافی ہے کہ ہرہندی تمام طول و عرض ہند میں یک بارگی کی حکومت کی خدمت سے دست کش ہو جائے ۔ ملک کا تمام کا روبار آن واحد میں معطل ہو جائے۔ اگر ایسا ہو، تو ہر انگریز بجائے خود ایک اسیر کے حال میں آجائے گا۔”۔(سیاسی پیشن گوئی یا ہندو مسلمان در ہندستان، ص/20)
*کیا یہ ٹالسٹائی کا نظریہ تھا؟*
20/جنوری1920 کو دہلی میں کانگریسی لیڈروں کا ایک اجلاس ہوا، جس میں یہ طے ہوا کہ ایک وفد وائسرائے ہند سے مل کر خلافت کے مسعئلہ پر ایک عرض داشت پیش کرے۔ مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں کہ میں نے عرض داشت پر دستخط تو کردیا، مگر وفد میں شریک نہیں ہوا۔ لیکن وائسرائے نے کوئی بھی کارروائی کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ اس کے بعد گاندھی جی نے عدم تعاون کی تجویز بیان کی۔ جیسے ہی گاندھی جی نے اپنی تجویز بیان کی ، مجھے یاد آیا کہ یہ وہی پروگرام ہے، جس کا خاکہ ٹالسٹائی نے بہت سال پہلے پیش کیا تھا۔1901 ء میں ایک انارکسٹ نے اٹلی کے بادشاہ پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت ٹالسٹائی نے انارکسٹ جماعت کے نام ایک کھلا خط شائع کیا، جس میں لکھا تھا کہ تشدد کا طریقہ اخلاقی اعتبار سے غلط اور سیاسی نقطہ نظر سے بے سود ہے۔ اگر ایک شخص قتل کیا گیا ، تو ہمیشہ کوئی دوسرا اس کی جگہ لینے کے لیے مل جائے گا۔ در حقیقت تشدد کا نتیجہ ہمیشہ زیادہ سخت تشدد ہوا کرتا ہے۔ یونانیوں کی ایک داستان میں ہے کہ ہر سپاہی جو مارا جاتا تھا ، اس کے خون کے چھینٹوں سے 999 سپاہی پیدا ہوتے جاتے تھے۔ دراصل سیاسی مقصد سے قتل کرنا اپنے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔ ٹالسٹائی نے مشورہ دیا کہ اگر کسی جابر حکومت کو بے بس کرنا ہو، تو صحیح طریقہ یہ ہے کہ ٹیکس دینے سے انکار کر دیا جائے ، ملازمتوں سے استعفا دے دیا جائے اور ان تمام اداروں کا بائیکاٹ کیا جائے، جن سے حکومت کو سہارا مل رہا ہو۔ اسے یقین تھا کہ ایسا پروگرام کسی بھی حکومت کو ہتھیار ڈال دینے پر مجبور کر دے گا۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے بھی "الہلال“ کے بعض مضامین میں ایسا ہی پروگرام تجویز کیا تھا ۔(انڈیا ونس فریڈم۔ بحوالہ: شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری، جلد دوم، ص/103)
یعنی ٹالسٹائی نے یہ نظریہ مولانا برکت اللہ بھوپالی سے بھی پہلے 1901 میں پیش کیا تھا۔
*ترک موالات کا نظریہ اس سے بھی قدیم ہے؟*
پادری فزبرو کوے کی کتاب "نان کوآپریشن ان ادر لینڈس” -جس کا ترجمہ مولانا سید نجیف اشرف ندوی صاحب نے "ترک موالات دوسرے ممالک میں” کے نام سے کیا ہے-سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نظریہ مولانا بھوپالی سے بھی دو سو سال پہلے سے موجود تھا۔ چنانچہ وہ باب اول میں تحریر فرماتے ہیں کہ
"ترک موالات کوئی جدید حکمت عمل نہیں ہے ۔ ہنگری قوم نے گذشتہ صدی میں اسٹریا کے قبضہ واقتدار سے آزادی حاصل کرنے کے لیے یہ حکمت عملی اختیار کی تھی۔ اس کے بعد سے آئر لینڈ، مصر اور کو ریہ میں اس پر عمل در آمد ہو رہا ہے ۔ انڈین نیشنل کانگریس کے فیصلہ کو دیکھتے ہوئے اُس جگہ کے ترک موالات کی ارتقائی کیفیت- جہاں یہ حکمت عملی پوری طور پر اختیار کی جاچکی ہے-خالی ازدل چسپی نہ ہوگی۔
سب سے پہلے ہم ہنگری کولیتے ہیں، کیوں کہ اس کا معاملہ ہر حیثیت سے فوقیت رکھتا ہے۔ یہ ہنگری میں ترک موالات ہی کی کامیابی تھی، جس نے مسٹر آر تھر گریفتہ کو آئرلینڈ میں اس قسم کی حکمت عملی اختیار کر لینے پرمستعد کیا ۔ اُس نے اس واقعہ کا اپنی کتاب (ہنگری کا یوم الفعل) میں نہایت وضاحت سے ذکر کیا ہے۔ ذیل کی تخصیص تقریبا تمام تر اسی سے ما خود ہے:
دو سو برس قبل اسٹریا اور ہنگری نے اپنے ممالک کو آزاد کرکے ایک بادشاہ کے ماتحت رہنے کا تصفیہ کیا۔ صلح کی شرائط میں یہ تھا کہ وہ ایک آزاد اور مساوی قوم ہوں گے ، لیکن دار السلطنت دائنا میں تھا، اور ہنگری شرفا جواس سے متعلق تھے بہت جلد اپنی قومیت کھو بیٹھے ۔ اسٹروی بادشاہوں نے ان شرفائے ہنگری کے فقدان جذبہ حب وطن سے فائدہ اُٹھا کر ہنگری کے حقوق کو پس انداز کرنا شروع کر دیا ۔ جب کبھی اسٹروی حکومت کے خلاف سازش کا پتہ چلا، اس کے لیڈر قتل کر دیے گئے اور ہنگری محکوم بنا دیا گیا۔
چند الو العزم اصحاب نے بہر حال "ہنگری ایک قوم ہے” کے خیال کو زند یکھا اور اس وقت جب کہ بادشاہ نے فوجی بھرتی کا حکم دیا، ان لوگوں نے ہنگری کے باشد وں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اس کے اختیارات کو تسلیم نہ کریں۔انھوں نے کہا کہ فوج کی بھرتی کا اختیار صرف ہمارے ڈائیٹ (پارلیمنٹ) کو ہے۔ پانچ سالوں کے بعد بادشاہ مجبور ہو گیا اور اس نے ڈائٹ کے انتخاب کا حکم دے دیا۔
1833ء کے ڈائٹ کا افتتاح اپنے ایک خاص واقعہ کی بنا پر –جس نے تمام ہنگری میں آگ لگادی تھی- ممتاز ہے۔”( ترک موالات دوسرے ممالک میں،ص/7-8)
اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ ترک موالات کا نظریہ 1833 میں عملی طور پر دنیا میں موجود تھا۔ اور اس کا آغاز اسی تاریخ سے ہوتا ہے۔
مضمون نگار جمعیت علمائے ہند کے تصنیفی شعبہ مرکز دعوت اسلام کا انچارج ہے.
👍
2