{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
February 22, 2025 at 06:27 AM
کتاب: تاریخِ اسلام قسط نمبر 165 سیدنا عمر فاروق ؓ فتح بغراس‘ مرعش‘ حدث اب شام کی طرف سے مطمئن ہو کر اور تمام شہروں میں عامل مقرر کرنے اور فوجی دستے متعین فرما دینے کے بعد سیدنا ابوعبیدہ نے فلسطین کی طرف توجہ فرمائی اور ایک لشکر میسرہ بن مسروق کی سرداری میں مقام بغراس کو روانہ کیا جو علاقہ انطاکیہ میں ایشیائے کوچک کی سرحد پر ایک مقام تھا ‘ یہاں بہت سے عرب قبائل غسان‘ تنوخ ایاد وغیرہ آباد تھے اور عیسائی مذہب رکھنے کی وجہ سے فتح انطاکیہ کا حال سن کر ہرقل کے پاس جانے کی تیاریاں کر رہے تھے‘ میسرہ بن مسروق نے جاتے ہی ان پر حملہ کیا‘ بڑا بھاری معرکہ ہوا‘ سیدنا ابوعبیدہ نے انطاکیہ سے مالک بن اشتر نخعی کو میسرہ کی کمک پر روانہ کیا‘ اس نئی فوج کو آتے ہوئے دیکھ کر عیسائی گھبرا گئے اور حواس باختہ ہو کر بھاگے‘ سیدنا خالد بن ولید ایک چھوٹا سا لشکر لے کر مرعش کی طرف گئے اور عیسائیوں نے جلاوطنی کی اجازت حال کر کے شہر خالد بن ولید کے سپرد کر دیا‘ اسی طرح ایک لشکر لے کر حبیب بن مسلمہ قلعہ حارث کی طرف گئے اور اس کو فتح کیا۔ فتح قیساریہ(قیرہ) و فتح اجنادین انہیں ایام میں انطاکیہ و علاقہ انطاکیہ کو اسلامی لشکر فتح کر رہا تھا‘ دمشق کے عامل سیدنا یزید بن ابی سفیان نے اپنے بھائی معاویہ بن ابی سفیان کو حکم فاروق کی بنا پر فوج دے کر قیساریہ کی طرف بھیجا‘ وہاں سخت معرکہ پیش آیا اور اسی ہزار عیسائی میدان جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ مارے گئے اور قیساریہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔ مہم مرج روم اور فتح بیسان کے بعد قیصر ہرقل نے ارطبون نامی بطریق کو جو نہایت بہادر اور مشہور سپہ سالار تھا مقام اجنادین میں فوجیں جمع کرنے کا حکم دیا‘ ارطبون نے ایک زبردست فوج تو اپنے پاس مقام اجنادین میں رکھی اور ایک فوج مقام رملہ میں اور ایک بیت المقدس میں تعینات کی‘ یہ افواج اسلامی حملہ آوروں کی منتظر اور ہر طرح کیل کانٹے سے لیس اور تعداد میں بے شمار تھیں ‘ سیدنا عمروبن العاص ؓ نے جو اس سمت کے حصہ افواج کی سرداری رکھتے تھے بحکم ابوعبیدہ‘ علقمہ بن حکیم فراسی اور مسرور بن العکی کو بیت المقدس کی طرف‘ اور ابوایوب المالکی کورملہ کی جانب روانہ کیا‘ عمروخود ارطبون کے مقابلہ کو اجنادین کی جانب بڑھے‘ اجنادین میں نہایت سخت معرکہ آرائی ہوئی‘ یہ لڑائی جنگ یرموک کی مانند تھی‘ بالآخر ارطبون سیدنا عمرو ؓ کے مقابلہ سے شکست کھا کر بیت المقدس کی طرف بھاگا‘ سیدنا علقمہ بن حکیم فراسی نے جو بیت المقدس کا محاصرہ کئے ہوئے تھے راستہ دے دیا‘ ارطبون بیت المقدس میں داخل ہو گیا اور اجنادین فتح بیت المقدس ارطبون جب بیت المقدس میں داخل ہو گیا تو سیدنا عمرو ؓ نے غزہ سبنطیہ‘ نابلس‘ لد‘ عمواس‘ بیت جبرین‘ یافا وغیرہ مقامات پر قبضہ کیا‘ اور بیت المقدس کے اردگرد کے تمام علاقے پر قابض ہو کر بیت المقدس کی طرف بڑھے‘ اور محاصرہ کو سختی سے جاری رکھا‘ انہیں ایام میں سیدنا ابوعبیدہ شام کے انتہائی اضلاع قنسرین وغیرہ کی فتح سے فارغ ہو کر فلسطین و بیت المقدس کی طرف روانہ ہو چکے تھے‘ عیسائی قلعہ بند ہو کر نہایت سختی سے محاصرین کی مدافعت اور مقابلہ کررہے تھے‘ ابوعبیدہ کے آ جانے کی خبر سن کر ان کی ہمت کچھ پست سی ہو گئی اور سپہ سالاراعظم یعنی سیدنا ابوعبیدہ ؓ کے پہنچنے پر انہوں نے صلح کے سلام و پیام جاری کئے‘ مسلمانوں کی طرف سے صلح میں کوئی تامل ہوتا ہی نہ تھا‘ مسلمانوں کی طرف سے جو شرائط پیش ہوتے تھے وہ بہت سادہ اور ایسے مقررہ معینہ تھے کہ تمام عیسائی ان سے واقف تھے‘ لیکن بیت المقدس کے عیسائیوں نے صلح کی شرائط میں ایک خاص شرط کا اضافہ ضروری و لازمی قرار دیا‘ وہ یہ کہ عہد نامہ خود خلیفہ وقت آ کر لکھے۔ ارطبون بطریق بیت المقدس سے نکل کر مصر کی طرف بھاگ گیا تھا‘ رئوسا شہر اور شرفائے بیت المقدس ہی مدافعت میں استقامت دکھا رہے تھے اور اب شہر کا قبضہ میں آ جانا کچھ بھی دشوار نہ تھا‘ لیکن سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح نے یہی مناسب سمجھا کہ جہاں تک ہو سکے کشت و خون کا امکان محدود کیا جائے اور جنگ پر صلح کو فوقیت دی جائے۔ چنانچہ انہوں نے فاروق اعظم ؓ کو ان حالات کا ایک خط لکھا اور اس میں تحریر کیا کہ آپ کے یہاں تشریف لانے سے بیت المقدس بلا جنگ قبضہ میں آ سکتا ہے‘ فاروق اعظم نے اس خط کے پہنچنے پر اھل الرائے حضرات کو مسجد نبوی میں بغرض مشورہ طلب کیا‘ سیدنا عثمان غنی ؓ نے فرمایا کہ عیسائی اب مغلوب ہو چکے ہیں ‘ ان میں مقابلے اور مدافعت کی ہمت و طاقت نہیں رہی‘ آپ بیت المقدس کا سفر اختیار نہ کریں ‘ خدائے تعالیٰ عیسائیوں کو اور بھی زیادہ ذلیل کرے گا اور وہ بلاشرط شہر کو مسلمانوں کے سپرد کر دیں گے‘ سیدنا علی ؓ نے فرمایا کہ میری رائے میں آپ کو ضرور جانا چاہیے۔ فاروق اعظم کا سفر فلسطین فاروق اعظم ؓ نے سیدنا علی کی رائے کو پسند کیا اور روٹیوں کا ایک تھیلا‘ ایک اونٹ‘ ایک غلام‘ ایک لکڑی کا پیالہ ہمراہ لے کر اور اپنی جگہ سیدنا عثمان غنی ؓ کو مدینہ کا عامل مقرر فرما کر روانہ ہو گئے‘ آپ کے اس سفر کی سادگی و جفاکشی عام طور پر مشہور ہے‘ کبھی غلام اونٹ کی مہار پکڑ کر چلتا اور سیدنا فاروق اعظم اونٹ پر سوار ہوتے اور کبھی غلام اونٹ پر سوار ہوتا اور فاروق اعظم اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے آگے چلتے‘ یہ اس عظیم الشان شہنشاہ اور خلیفہ اسلام کا سفر تھا جس کی فوجیں قیصرو کسریٰ کے محلات اور تخت و تاج کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں میں روند چکی تھیں ۔ یہ مہینہ جس میں فاروق اعظم کا یہ سفر شروع ہوا ہے رجب کا مہینہ تھا اور ۱۶ ھ جب کہ مدائن و انطاکیہ فتح ہو چکے تھے‘ عزم روانگی کے ساتھ ہی روانگی سے پہلے آپ نے دمشق و بیت المقدس کی اسلامی افواج کے سردار کو اطلاع دے دی تھی‘ سب سے پہلے یزید بن ابی سفیان‘ ان کے بعد ابوعبیدہ بن جراح‘ ان کے بعد سیدنا خالد بن ولید نے آپ کا استقبال کیا‘ آپ نے ان سرداروں کو خوبصورت اور شان و شوکت کے لباس میں اپنے استقبال کو آتے دیکھا‘ دیکھ کر طیش و غضب کا اظہارفرمایا اور فرمایا کہ تم لوگوں نے دو ہی برس میں عجمیوں کی خوبو اختیار کر لی‘ مگر جب ان سرداروں نے فرمایا کہ ہماری ان پر تکلف قبائوں کے نیچے سلاح حرب موجود ہیں اور ہم عربی اخلاق پر قائم ہیں تب آپ کو اطمینان ہوا۔ عیسائیوں کو امان نامہ آپ مقام جابیہ میں مقیم ہوئے‘ یہیں رئوساء بیت المقدس آپ کی ملاقات کو حاضر ہوئے اور یہ عہد نامہ آپ نے اپنے سامنے ان کو لکھوایا۔ ’’یہ وہ امان نامہ ہے جو امیرالمومنین عمر نے ایلیا والوں کو دیا ہے‘ ایلیا والوں کی جان و مال ‘ گرجے‘ صلیب‘ بیمار‘ تندرست سب کو امان دی جاتی ہے اور ہر مذہب والے کو امان دی جاتی ہے‘ ان کے گرجائوں میں سکونت نہ کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے یہاں تک کہ ان کے احاطوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے گا‘ نہ ان کی صلیبوں اور مالوں میں کسی قسم کی کمی کی جائے گی‘ نہ مذہب کے بارے میں کسی قسم کا کوئی تشدد کیا جائے گا اور نہ ان میں سے کسی کو کوئی ضرر پہنچائے گا‘ اور ایلیا میں ان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے‘ اور ایلیا والوں کا فرض ہے کہ وہ جزیہ دیں ‘ اور یونانیوں کو نکال دیں ‘ پس یونانیوں یعنی رومیوں میں سے جو شہر سے نکل جائے گا اس کے جان و مال کو امان دی جاتی ہے جب تک وہ محفوظ مقام تک نہ پہنچ جائیں ‘ اور اگر کوئی رومی ایلیا ہی میں رہنا پسند کرتا ہے تو اس کو باقی اہل شہر کی طرح جزیہ ادا کرنا ہو گا‘ اور اگر اہل ایلیا میں سے کوئی شخص رومیوں کے ساتھ جانا چاہے تو اس کو امن و امان ہے یہاں تک کہ وہ محفوظ مقام پر پہنچ جائیں ‘ جو کچھ اس عہد نامہ میں درج ہے اس پر خدا‘ رسول اور خلفاء اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے بشرطیکہ اہل ایلیاء مقررہ جزیہ کی ادائیگی سے انکار نہ کریں ‘‘۔ اس عہد نامہ پر سیدنا خالد بن ولید‘ عمروبن العاص‘ عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان کے دستخط بطور گواہ ثبت ہوئے‘ بیت المقدس والوں نے فوراً جزیہ ادا کر کے شہر کے دروازے کھول دئیے‘ اسی طرح اہل رملہ نے بھی مصالحت کے ساتھ شہر مسلمانوں کے سپرد کر دیا‘ فاروق اعظم ؓ پیادہ پابیت المقدس میں داخل ہوئے‘ سب سے پہلے مسجد اقصیٰ میں گئے اور محراب دائود کے پاس پہنچ کر سجدہ دائود کی آیت پڑھ کر سجدہ کیا‘ پھر عیسائیوں کے گرجے میں گئے اور اس کی سیر کر کے واپس تشریف لائے‘ بیت المقدس کی فتح کے بعد فاروق اعظم ؓ نے صوبہ فلسطین کے دو حصے کر دئیے‘ ایک حصہ پر علقمہ بن حکیم کو عامل مقرر کر کے رملہ میں قیام کا حکم دیا‘ دوسرے حصہ پر علقمہ بن محزر کو عامل مقرر فرما کر بیت المقدس میں رہنے کا حکم دیا۔ فتح تکریت و جزیرہ مذکورہ بالا واقعات کے پڑھنے سے رجب ۱۶ ھ تک کی اسلامی تاریخ جو شام و عراق سے تعلق رکھتی ہے ہماری نظر سے گذر گئی‘ اب آگے روم و ایران کے واقعات میں سے کسی ایک کے سلسلہ کو شروع کرنے سے پیشتر تکریت کی فتح اور صوبہ جزیرہ پر لشکر اسلام کے قبضہ کا حال اس لیے بیان کرنا ضروری ہے کہ تکریت میں رومیوں اور ایرانیوں نے مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا تھا‘ اسی طرح جزیرہ کے قبضہ میں لانے کا باعث مسلمانوں کی عراقی و شامی دونوں فوجیں ہوئی ہیں ‘ نیز یہ کہ مذکورہ بالا واقعات کے بعد ہی تکریت والجزیرہ کے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں ۔ تکریت میں ایک ایرانی صوبہ دار رہا کرتا تھا‘ اس نے جب سنا کہ مدائن پر مسلمانوں کا قبضہ ہو چکا ہے تو اس نے رومیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا‘ رومی لوگوں پر بھی چوں کہ اسلامی فوجوں کی ضربیں پڑ رہی تھیں وہ بہت آسانی سے اس سرحدی صوبہ دار کی اعانت پر آمادہ ہو گئے ساتھ ہی ایاد‘ تغلب‘ نمر وغیرہ عرب قبائل جو عیسائی تھے رومیوں کی ترغیب سے مرزبان تکریت کے ساتھ شریک ہو گئے۔ فاروق اعظم ؓ کی ہدایت کے مطابق سیدنا سعد ؓ بن ابی وقاص نے عبداللہ بن معتم کو پانچ ہزار کی جمعیت کے ساتھ تکریت کی جانب روانہ کیا‘ اسلامی لشکر نے جا کر تکریت کا محاصرہ کر لیا‘ بڑی خوں ریز جنگ کے بعد رومیوں اور ایرانیوں کو شکست فاش حاصل ہوئی‘ عرب قبائل میں اکثر نے دین اسلام قبول کر لیا‘ بہت ہی تھوڑے ایرانی اور رومی جان بچا کر بھاگ سکے ورنہ سب وہیں مقتول ہوئے‘ اس لڑائی میں مال غنیمت اس قدر ہاتھ آیا کہ جب خمس نکال کر لشکر پر تقسیم کیا گیا تو ایک ایک سوار کے حصہ میں تین تین ہزار درہم آئے۔ صوبہ جزیرہ بھی شام و عراق کے درمیان کبھی رومی سلطنت کے زیر اثر ہوتا ‘ کبھی ایرانی سلطنت کی ماتحتی میں آ جاتا تھا‘ اہل جزیرہ نے اسلامی فتوحات کے نقشے دیکھ دیکھ کر ہرقل کو لکھا کہ آپ شام کے مشرقی شہروں کی طرف حفاظتی افواج بھیجیں ‘ ہم سب مل کر آپ کی اور آپ کی فوجوں کی مدد کریں گے‘ ہرقل نے اہل جزیرہ کی اس درخواست کو تائید غیبی سمجھ کر شام کے مشرقی شہروں کی طرف فوجیں روانہ کیں ‘ فاروق اعظم ؓ نے ان حالات سے واقف ہو کر ایک طرف سعد بن ابی وقاص کو لکھا کہ اہل جزیرہ کو ان کی حدود سے باہر نہ نکلنے دو‘ دوسری طرف سیدنا ابوعبیدہ کو لکھا کہ قیصر کی فوجوں کو حمص و قنسرین کی طرف بڑھنے سے روکو‘ چنانچہ عراقی و شامی ہر دو افواج نے اپنا اپنا کام عمدگی سے انجام دیا اور تمام صوبہ جزیرہ سیدنا عیاض بن غنم ؓ کے ہاتھ پر بہت سی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کے بعد ایک سرے سے دوسرے سرے تک مفتوح ہو گیا‘ یہ واقعہ ۱۷ ھ کا ہے۔
❤️ 👍 3

Comments