
{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
February 24, 2025 at 04:41 PM
کتاب: تاریخِ اسلام
قسط نمبر 168
سیدنا عمر فاروق ؓ
فتوحات فاروقی
اوپر جن جن ملکوں اور صوبوں کی فتوحات کا ذکر ہوا ہے‘ ان میں فارس و عراق و جزیرہ و خراسان و بلوچستان و شام و فلسطین و مصر و آرمینیا وغیرہ کا تذکرہ آ چکا ہے‘ یہ فتوحات جو فاروق اعظم ؓ کی دس سالہ خلافت کے زمانہ میں ہوئیں معمولی فتوحات نہیں سمجھی جا سکتیں ‘ فاروق اعظم ؓ نے ۲۲ ھ میں اسلامی سلطنت کے جو صوبے مقرر فرمائے تھے ان کی تفصیل اس طرح ہے‘ مکہ‘ مدینہ‘ شام‘ جزیرہ‘ بصرہ‘ کوفہ‘ مصر‘ فلسطین ‘ خراسان آذربائیجان‘ فارس‘ ان میں سے بعض صوبے ایسے بھی تھے جو دو دو صوبوں کے برابر تسلیم کئے جاتے تھے‘ بعض صوبوں کے صدر مقام بھی دو دو تھے اور دونوں جگہ الگ الگ صوبے دار معہ اپنے کامل عملہ کے رہتے تھے‘ ہر صوبہ میں ایک والی یا عامل‘ ایک کاتب یا میر منشی‘ ایک بخشی فوج‘ ایک صاحب الخراج یا کلکٹر‘ ایک افسر پولیس‘ ایک افسر خزانہ اور ایک قاضی ضرور ہوتا تھا۔
خلافت فاروقی پر ایک عام تبصرہ لکھنے سے پیشتر شہادت فاروقی کا حال بھی بیان کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
واقعہ شہادت فاروق اعظم
مدینہ منورہ میں مغیرہ بن شعبہ کا ایک نصرانی غلام فیروز نامی جس کی کنیت ابولولو تھی رہتا تھا‘ اس نے ایک روز بازار میں فاروق اعظم ؓ سے شکایت کی کہ میرا آقا مغیرہ بن شعبہ مجھ سے زیادہ محصول لیتا ہے‘ آپ کم کرا دیجئے‘ فاروق اعظم نے اس سے دریافت کیا کہ کس قدر محصول وہ وصول کرتا ہے ابو لولو نے کہا دو درہم (نصف تولہ چاندی برابر پچاس روپے تقریباً) روزانہ‘ فاروق اعظم نے دریافت فرمایا کہ تو کیا کام کرتا ہے‘ اس نے کہا آہن گری‘ نقاشی اور بخاری‘ آپ نے فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلے میں یہ رقم زیادہ نہیں ہے‘ یہ سن کر ابو لولو اپنے دل میں سخت ناراض ہوا‘ فاروق اعظم ؓ نے پھر اس سے مخاطب ہو کر کہا میں نے سنا ہے تو ایسی چکی بنانا جانتا ہے کہ جو ہوا کے زور سے چلتی ہے تو مجھ کو بھی ایسی چکی بنا دے‘ اس نے جواب میں کہا کہ بہت خوب! میں ایسی چکی بنا دوں گا جس کی آواز اہل مغرب و مشرق سنیں گے۔
دوسرے دن نماز فجر کے لیے لوگ مسجد نبوی میں جمع ہوئے ‘ ابو لولو بھی ایک خنجر لیے ہوئے مسجد میں داخل ہو گیا‘ جب نماز کے لیے صفیں درست ہو گئیں ‘ اور فاروق اعظم امامت کے لیے آگے بڑھ کر نماز شروع کر چکے تو ابو لولو نے جو مسلمانوں کے ساتھ صف اول میں کھڑا تھا نکل کر فاروق اعظم پر خنجر کے چھ وار کئے جن میں ایک وار ناف سے نیچے پڑا‘ فاروق اعظم ؓ نے فوراً سیدنا عبدالرحمن بن عوف کو کھینچ کر اپنی جگہ کھڑا کر دیا اور خود زخموں کے صدمہ سے بے ہوش ہو کر گر پڑے۔
سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے لوگوں کو اس حالت میں نماز پڑھائی کہ فاروق اعظم ؓ زخمی سامنے پڑھے تھے‘ ابو لولو اپنا وار کر کے مسجد نبوی سے بھاگا‘ لوگوں نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی‘ اس نے کئی شخصوں کو زخمی کیا اور کلیب بن ابی بکیر ؓ کو شہید کر دیا‘ بالآخر گرفتار کر لیا گیا‘ لیکن اس نے گرفتار ہوتے ہی خود کشی کر لی‘ نماز فجر پڑھ لینے کے بعد لوگ فاروق اعظم کو مسجد سے اٹھا کر ان کے گھر لائے‘ انہوں نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ میرا قاتل کون تھا‘ لوگوں نے ابو لولو کا نام بتایا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو یا جس نے اللہ تعالیٰ کو ایک سجدہ بھی کیا ہو۔
ایک طبیب نے آ کر آپ کو دودھ اور نبیذ پلایا تو وہ زخم کے راستے باہر نکل آیا‘ یہ حالت دیکھ کر لوگوں کو آپ کی زندگی سے مایوسی ہوئی اور عرض کیا کہ جس طرح سیدنا ابوبکرصدیق ؓ نے آپ کو اپنا جانشین مقرر فرما دیا تھا اسی طرح آپ بھی کسی کو اپنا جانشین مقرر فرما دیں ۔ آپ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف‘ سیدنا سعد بن ابی وقاص‘ سیدنا زبیر بن العوام ؓ ‘ سیدنا طلحہ ؓ سیدنا علی ؓ سیدنا عثمان ؓ بن عفان ؓ کو طلب فرمایا‘ سیدنا طلحہ ؓ مدینہ منورہ میں تشریف نہ رکھتے تھے‘ فاروق اعظم نے باقی پانچ آدمیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تین روز تک طلحہ کا انتظار کرنا‘ اگر وہ تین روز تک آ جائیں تو ان کو بھی اپنی جماعت میں شامل کرنا اور تین روز تک نہ آئیں تو پھر تم پانچ آدمی ہی مشورہ کر کے اپنے آپ میں سے کسی ایک کو اپنا امیر بنا لینا‘ اس کے بعد آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کو بلا کر کہا کہ اگر لوگ خلافت و امارت کے انتخاب میں اختلاف کریں تو تم کثرت کے ساتھ شریک ہونا اور اگر فریقین برابر تعداد کے ہوں تو تم اس گروہ میں شریک ہونا جس میں عبدالرحمن بن عوف شامل ہوں ۔
پھر ابوطلحہ انصاری ؓ اور مقدادبن ؓ الاسود کوبلا کر حکم دیا کہ جب یہ لوگ خلیفہ کے تقرر اور انتخاب کی غرض سے ایک جگہ مشورہ کے لیے جمع ہوں تو تم دونوں دروازے پر کھڑے رہنا اور کسی کو ان کے پاس نہ جانے دینا جب تک وہ مشورے فارغ نہ ہو جائیں ۔
پھر آپ نے مذکورہ بالاحضرات کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص خلافت کے لیے منتخب ہو‘ اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ انصار کے حقوق کا بہت لحاظ رکھے‘ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی مدد کی‘ مہاجرین کو اپنے گھروں میں ٹھہرایا‘ انصار تمہارے محسن ہیں ‘ ان کے ساتھ تم کو احسان کرنا چاہیے‘ ان کی خطاء و لغزش سے حتی الامکان درگذر اور چشم پوشی اختیار کرنا مناسب ہے‘ تم میں سے جو شخص خلیفہ منتخب ہو اس کو مہاجرین کا بھی پاس و لحاظ رکھنا چاہیے‘ کیوں کہ یہی لوگ مادئہ اسلام ہیں ‘ اسی طرح ذمیوں کا بھی پورا پورا خیال رکھنا چاہیے‘ ان کے ساتھ اللہ اور رسول کی ذمہ داری کو کما حقہ ملحوظ رکھا جائے اور ذمیوں سے جو وعدہ کیا جائے اس کو ضرور پورا کیا جائے‘ ان کے دشمنوں کو دور کیا جائے ان کی طاقت سے زیادہ ان کو تکلیف نہ دی جائے۔
پھر اپنے بیٹے سیدنا عبداللہ بن عمر کو بلا کر حکم دیا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں جائو اور سیدنا ابوبکرصدیق کے پہلو میں دفن کئے جانے کی اجازت حاصل کرو‘ وہ سیدنا صدیقہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ اور فاروق اعظم کی التجا پیش کی‘ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ یہ جگہ میں نے اپنے لیے تجویز کی تھی لیکن اب میں عمر فاروق کو اپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں ‘ ان کو ضرور اس جگہ دفن کیا جائے‘ یہ خبر جب سیدنا عبداللہ نے فاروق اعظم ؓ کو سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ میری سب سے بڑی آرزو برآئی۔
چہار شنبہ ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ ھ کو آپ زخمی ہوئے اور یکم محرم ۲۴ ھ کو ہفتہ کے دن فوت ہو کر مدفون ہوئے‘ ساڑھے دس برس خلافت کی‘ نماز جنازہ سیدنا صہیب ؓ نے پڑھائی‘ سیدنا عثمان ؓ ‘ سیدنا علی ؓ سیدنا زبیر ؓ ‘ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ اور سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے قبر میں اتارا۔
ازواج و اولاد
فاروق اعظم کا پہلا نکاح زمانہ جاہلیت میں زینب بنت مظعون بن حبیب بن وہب بن حذافہ بن جمح سے ہوا تھا‘ جن کے بطن سے عبداللہ‘ عبدالرحمن اکبر اور سیدنا حفصہ پیدا ہوئیں ‘ زینب مکہ میں ایمان لائیں اور وہیں فوت ہوئیں ‘ یہ عثمان بن مظعون ؓ کی بہن تھیں جو اول المسلمین تھے اور جن کا اسلام لانے والوں میں چودھواں نمبر تھا‘ دوسرا نکاح عہد جاہلیت ہی میں ملیکہ بنت جرول خزاعی سے کیا‘ جس سے عبیداللہ پیدا ہوئے چونکہ یہ بیوی ایمان نہیں لائی اس لیے اس کو ۶ ھ میں طلاق دے دی‘ تیسری بیوی قریبہ بنت ابی امیہ مخزومی تھی‘ جس سے جاہلیت ہی میں نکاح کیا‘ اور ۶ ھ میں بعد صلح حدیبیہ اسلام نہ لانے کی وجہ سے طلاق دے دی‘ چوتھا نکاح اسلام میں ام حکیم بنت الحرث بن ہشام مخرومی سے کیا جن کے بطن سے فاطمہ پیدا ہوئیں ‘ پانچواں نکاح مدینہ میں آنے کے بعد ۷ ھ میں جمیلہ بنت عاصم بن ثابت بن ابی افلح اوسی انصاری سے کیا جن کے بطن سے عاصم پیدا ہوئے‘ لیکن ان کو بھی کسی وجہ سے طلاق دے دی تھی‘ چھٹا نکاح ۱۷ ھ میں ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب سے چالیس ہزار مہر پر کیا‘ ان کے بطن سے رقیہ اور زید پیدا ہوئے‘ عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل جو فاروق اعظم ؓ کی چچیری بہن تھیں اور فکیہ یمنیہ بھی فاروق اعظم کی بیویوں میں شمار کی جاتی ہیں ‘ فکیہہ کی نسبت بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ وہ لونڈی تھیں ‘ ان کے پیٹ سے عبدالرحمن اوسط پیدا ہوئے تھے۔
فاروق اعظم کی اولاد میں سیدنا حفصہ زوجہ رسول اللہ ﷺ اور سیدنا عبداللہ دو بہت نامور ہیں سیدنا عبداللہ بن عمر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قریباً تمام غزوات میں شریک رہے۔
اولیات فاروقی
فاروق اعظم ؓ نے بہت سی مالی و ملکی ‘ سیاسی و انتظامی‘ معاشرتی و تمدنی باتیں تجویز و ایجاد فرمائی ہیں جن کو اولیات فاروقی کے نام سے پکارتے ہیں ‘ ان میں بعض کی فہرست اس طرح ہے۔
بیت المال یا خزانہ باقاعدہ طور پر قائم کیا‘ سنہ ہجری قائم کیا‘ امیر المومنین کا لقب اختیار کیا‘ فوج کے واسطے باقاعدہ دفتر قائم کیا‘ مالی دفتر الگ قائم کیا‘ رضاکاروں کی تنخواہیں مقرر کیں ‘ ملک کی پیمائش کا قاعدہ جاری کیا‘ مردم شماری کرائی‘ نہریں کھدوائیں ‘ شہرآباد کرائے (مثلاً کوفہ بصرہ جیزہ فسطاط (قاہرہ) صامشرک) مقبوضہ جات کو باقاعدہ صوبوں میں تقسیم کیا‘ حربی تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی درہ کا استعمال کیا‘ جیل خانہ قائم کیا‘ پولیس کا محکمہ قائم کیا‘ راتوں کو خود گشت کر کے رعایا کے حال سے باخبر رہنے کا طریقہ نکالا‘ پرچہ نویس (خفیہ پولیس) مقرر کئے‘ راستے اور مسافروں کے لیے کنویں اور مکانات بنوائے‘ مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے روزینے مقرر کئے‘ نماز تراویح باجماعت پڑھنے کا اہتمام کیا‘ تجارت کے گھوڑوں پر زکو ۃ مقرر کی‘ نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر سب کا اجماع کیا۔
متفرق حالات و خصوصیات
فاروق اعظم کی غذا نہایت سادہ ہوتی تھی‘ یہاں تک کہ بیرونی علاقوں اور صوبوں سے جو قاصد یا وفد آتے تھے وہ فاروق اعظم ؓ کے ساتھ بحیثیت مہمان کھانا کھاتے تھے تو ان کو اس لیے تکلیف ہوتی تھی کہ وہ ایسی سادہ غذا کے عادی نہ ہوتے تھے‘ لباس بھی آپ کا بہت سادہ اور بے تکلفانہ ہوتا تھا‘ کپڑوں میں اکثر پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے‘ بعض اوقات کپڑے کی قمیص میں چمڑے کا پیوند بھی لگا لیتے تھے‘ ایک مرتبہ آپ دیر تک گھر میں رہے‘ جب باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ بدن کے کپڑے جو میلے ہو گئے تھے ان کو دھو کر دھوپ میں ڈالا ہوا تھا‘ جب وہ سوکھ گئے تو پہن کر باہر آئے اور دوسرے کپڑے نہ تھے کہ ان کو پہن لیتے۔
ہجرت کے بعد ابتداء آپ مدینہ منورہ سے دو تین میل کے فاصلہ پر ایک گائوں میں رہتے تھے خلیفہ ہونے کے بعد آپ شہر مدینہ میں آ رہے تھے‘ مدینہ منورہ میں آپ کا مکان مسجد نبوی کے قریب باب السلام اور باب الرحمتہ کے درمیان تھا‘ مرتے وقت آپ مقروض تھے‘ آپ نے حکم دیا کہ میرا یہ مکان فروخت کر کے قرضہ ادا کیا جائے‘ چنانچہ اس مکان کو سیدنا معاویہ نے خریدا اور اس قیمت سے قرضہ ادا کیا گیا۔
ایک مرتبہ آپ نے خطبہ میں فرمایا کہ لوگو! ایک وقت ایسا تھا کہ میں لوگوں کو پانی بھر کر لا دیا کرتا تھا اور وہ اس کے عوض مجھ کو کھجوریں دیتے اور میں وہی کھا کر بسر کرتا تھا‘ بعد میں لوگوں نے کہا کہ اس تذکرے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ نے فرمایا کہ میری طبیعت میں کچھ غرور پیدا ہو گیا تھا یہ اس کی دوا تھی۔
آپ نے بارہا مدینہ سے مکہ تک اور مکہ سے مدینہ تک سفر کیا‘ کبھی کوئی خیمہ یا چھولداری ساتھ نہ ہوتی تھی‘ کسی کیکر کے درخت پر چادر پھیلا دی اور اس کے نیچے آرام کی غرض سے ٹھہر گئے‘ لیٹنے یا سونے کی ضرورت پیش آتی تو زمین پر سنگریزوں اور پتھریوں کو ہموار کر کے اور پتھریوں کو ایک جگہ جمع کر کے تکیہ بنا کر اور کپڑا بچھا کر سو جاتے۔
آپ نے سیدنا ازواج مطہرات‘ اصحاب بدر‘ اصحاب بعیت الرضوان وغیرہ تمام جلیل القدر صحابیوں کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کر رکھی تھیں ‘ جب سیدنا اسامہ کی تنخواہ اپنے بیٹے عبداللہ کی تنخواہ سے زیادہ مقرر کی تو سیدنا عبداللہ بن عمر نے اس پر عذر کیا‘ آپ نے اپنے بیٹے سے کہا رسول اللہ ﷺ اسامہ کو تجھ سے اور اسامہ کے باپ کو تیرے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔
فاروق اعظم ؓ کے مشیر و ندیم سب علماء ہوتے تھے خواہ وہ بوڑھے ہوں یا نو عمر‘ آپ علماء کی بڑی قدر و عزت کرتے تھے‘ مردم شناسی و جوہر شناسی آپ کی خصوصیات میں شامل ہے ہر ایک شخص کی خوبیوں کو آپ بہت جلد معلوم کر لیتے‘ اور پھر ان کی پوری پوری قدر کرتے‘ اسی طرح صحابہ کرام میں سے ہر ایک شخص میں جو جو خاص صفت تھی اسی کے موافق خدمات اور عہدے ان کو عطا کئے تھے‘ فاورق اعظم کسی شخص کے محض روزے نماز سے بھی کبھی دھوکا نہ کھاتے تھے‘ وہ اگرچہ خود بڑی زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے لیکن ذمہ داری کے کاموں پر یا فوجوں کی سرداری اور صوبوں کی حکومت پر جن لوگوں کو مقرر فرماتے‘ ان کے انتخاب میں محض زہد و اتقاء اور زاہدانہ زندگی ہی کو معیار قرار نہ دیتے‘ بلکہ جن کاموں پر جن لوگوں کو مقرر فرماتے ان میں ان کاموں کے سرانجام و اہتمام کی پوری قابلیت دیکھ لیتے‘ آپ کی دس سالہ خلافت کے زمانہ میں سینکڑوں بڑی بڑی لڑائیاں عراق و شام فلسطین اور مصر و خراسان وغیرہ ممالک میں ہوئیں ‘ لیکن آپ خود کسی لڑائی میں بہ نفس نفیس شریک نہ ہوئے‘ تاہم ان لڑائیوں کا اہتمام اور ضروری انتظام فاروق اعظم ؓ ہی کے ہاتھ میں ہوتا تھا‘ ہر ایک سردار کو آپ کی طرف سے نہایت معمولی معمولی باتوں کے متعلق بھی ہدایات پہنچ جاتیں اور اس کو ان ہدایات کے موافق ہی کام کرنا پڑتا تھا‘ کسی لڑائی اور کسی معرکہ میں یہ نہیں بتایا جا سکتا ہے کہ فلاں حکم فاروق اعظم ؓ نے غلط اور غیر مفید دیا تھا‘ یا فلاں انتظام جو فاروق اعظم نے کیا وہ غیر ضروری تھا‘ آپ نے صوبوں کے تمام عمال کو لکھ بھیجا تھا کہ کوئی سپاہی میدان جنگ میں مسلسل چار مہینے سے زیادہ نہ روکا جائے‘ چار مہینے کے بعد اس کو اپنے اہل و عیال میں آنے کی رخصت دے دی جائے۔
ایک مرتبہ آپ کو کسی مرض کی وجہ سے کسی نے شہد کھانے کو بتایا‘ آپ کے یہاں شہد نہ تھا نہ کسی اور جگہ سے مل سکتا تھا‘ البتہ بیت المال میں تھوڑا سا شہد موجود تھا‘ لوگوں نے کہا کہ آپ اس شہد کو استعمال کریں ‘ آپ نے کہا کہ یہ سارے مسلمانوں کا مال ہے‘ جب تک عام لوگ مجھ کو اجازت نہ دیں میں یہ استعمال نہیں کر سکتا۔ القصہ آپ نے شہد استعمال نہ کیا۔
ایک روز آپ اونٹ کے زخم دھوتے جاتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھ کو خوف معلوم ہوتا ہے کہ کہیں قیامت کے دن مجھ اس سے اس کی بابت بھی سوال نہ ہو‘ آپ نے ایک روز سیدنا سلمان سے دریافت کیا کہ میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ‘ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اگر آپ کسی مسلمان سے ایک درہم یا اس سے کم و بیش وصول کر کے بے جا خرچ کریں تو آپ بادشاہ ہیں ‘ ورنہ خلیفہ۔
آپ نے خلیفہ ہونے کے بعد ابتداء مدتوں تک بیت المال سے ایک حبہ بھی نہیں لیا‘ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ آپ پر افلاس مستولی ہونے لگا اور فقرو فاقہ کی نوبت پہنچنے لگی‘ تب آپ نے اصحاب کرام کو مسجد نبوی میں جمع کر کے فرمایا کہ میں کاروبار خلافت میں اس قدر مصروف رہتا ہوں کہ اپنے نفقہ کا کوئی فکر نہیں کر سکتا‘ آپ سب مل کر میرے لیے کچھ مقرر کر دیجئے‘ سیدنا علی ؓ نے فرمایا کہ صبح شام کا کھانا آپ کو بیت المال سے ملا کرے گا‘ فاروق اعظم ؓ نے اسی کو منظور فرما لیا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ فاروق اعظم کو غصہ آیا ہو اور کسی نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا ہو‘ یا اللہ تعالیٰ کا خوف یاد دلایا ہو‘ یا قرآن شریف کی کوئی آیت پڑھی ہو اور آپ کا غصہ فرونہ ہو گیا ہو‘ سیدنا بلال نے ایک مرتبہ سیدنا اسلم ؓ سے سیدنا عمر ؓ کا حال دریافت کیا‘ انہوں نے کہا اس میں شک نہیں کہ آپ تمام آدمیوں سے بہتر ہیں لیکن جب آپ کو غصہ آ جاتا ہے تو غضب ہی ہو جاتا ہے‘ سیدنا بلال نے کہا کہ اس وقت تم کوئی آیت کیوں نہیں پڑھ دیا کرتے کہ سارا غصہ اتر جائے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ فاروق اعظم ؓ نے ایک حصہ فوج پر ساریہ نامی ایک شخص کو سپہ سالار بنا کر بھیجا تھا‘ ایک روز خطبہ میں آپ نے تین مرتبہ بلند آواز سے فرمایا کہ ’’اے ساریہ پہاڑ کی طرف جا‘‘ چند روز (ایک ماہ) کے بعد ایک ایلچی آیا اور اس نے جنگ کے حالات سناتے ہوئے کہا کہ ہم کو شکست ہوا چاہتی تھی کہ ہم نے تین مرتبہ کسی شخص کی آواز سنی کہ ’’ساریہ پہاڑ کی طرف جا‘‘ چنانچہ ہم نے پہاڑ کی طرف رخ کیا اور خدائے تعالیٰ نے ہمارے دشمنوں کو شکست دی‘ جس روز خطبہ میں فاروق اعظم نے یہ الفاظ فرمائے تھے‘ اس روز لوگوں نے کہا کہ آپ یہاں ساریہ کو پکار رہے ہیں وہ تو نہاوند کے مقام پر کفار کے مقابلہ میں مصروف ہے‘ آپ نے فرمایا اس وقت میں نے ایسا ہی نظارہ دیکھا کہ مسلمان مصروف جنگ ہیں اور پہاڑ کی طرف متوجہ ہونا ان کے لیے مفید ہے‘ لہذا بے ساختہ میری زبان سے یہ الفاظ نکل گئے‘ جب ساریہ کا خط اور ایلچی آیا‘ ٹھیک جمعہ کے روز عین نماز جمعہ کے وقت اسی تاریخ کا واقعہ اس خط میں لکھا گیا اور ایلچی نے زبانی بھی بیان کیا۔
ایک مرتبہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے فاروق اعظم سے کہا کہ لوگ آپ سے بہت ڈرتے ہیں اور آپ کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے‘ اور نہ آپ کے سامنے لب ہلا سکتے ہیں ‘ فاروق اعظم نے فرمایا کہ واللہ جس قدر یہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں اس سے زیادہ میں ان لوگوں سے ڈرتا ہوں ۔
فاروق اعظم ؓ نے صوبوں کے عاملوں اور گورنروں کو حکم دے رکھا تھا کہ ایام حج میں سب آ کر شریک حج ہوں ‘ آپ خود بھی ہر سال حج کو جاتے رہے‘ عاملوں کے شریک حج کرنے میں ایک خاص مصلحت یہ تھی کہ حج کے موقعہ پر ہر ملک اور ہر صوبے کے لوگوں کو موقع حاصل ہے کہ وہ آ کر مجھ سے ملیں اور اپنے عامل میں اگر کوئی نقص دیکھتے ہیں تو اس کی شکایت کریں اور اسی وقت اس عامل سے بھی جو وہاں موجود ہے جواب طلب کیا جا سکے‘ اس طرح عاملوں کو اپنی عزت بچانے کا بہت خیال رہتا تھا کہ اگر ذرا سی بھی لغزش ہو گئی‘ تو حج کے مجمع عام میں بڑی فضیحت اور رسوائی ہو گی۔
آپ مساوات و جمہوریت کے حقیقت مفہوم سے واقف‘ اور اس کو قائم کرنا چاہتے تھے‘ نہ یہ کہ آپ آج کل جیسی یورپی جمہوریت کے دل دادہ تھے جو تعلیم اسلامی اور اصول اسلامی کے خلاف ہے‘ ایک مرتبہ سر منبر ایک عورت نے آپ کو ٹوک دیا اور آپ کے قول کو غلط بتایا‘ عورت نے چونکہ صحیح بات کہی تھی لہذا آپ نے مجمع عام میں فوراً اپنی غلطی کو تسلیم کر لیا‘ آج کل جبہ پوش نفس پرور مولویوں کی طرح اپنے قول کو صحیح ثابت کرنے کے لیے تاویلیں اور دوراز حقیقت باتیں بنانے کی مطلق کوشش نہیں کی۔
فتوحات پر ایک نظر
فتوحات فاروقی کا رقبہ ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل بیان کیا جاتا ہے‘ یہ فتوحات ایران اور روم کی شہنشاہیوں کے مقابلے میں عرب کی ایک مفلوک الحال اور چھوٹی سے قوم کو حاصل ہوئیں ۔
روم کی سلطنت جزیرہ نما بلقان‘ ایشیائے کوچک ‘ شام‘ فلسطین‘ مصر‘ سوڈان پر چھائی ہوتی تھی‘ ایران کی سلطنت چند سال پیشتر اس قدر طاقتور تھی کہ رومی سلطنت کو شکست دے کر شام کے ملک میں فاتحانہ بڑھتی ہوئی ساحل بحر اور مصر تک پہنچ گئی تھی‘ ایرانیوں کے قبضہ میں رومیوں سے کم ملک نہ تھے‘ یہ دونوں سلطنتیں مشرقی و مغربی دنیا پر اپنے اثر‘ شہرت اور تمدن کے اعتبار سے مستولی تھیں ‘ اور کوئی تیسری طاقت ان کے مقابلے پر آنے والی دنیا میں پائی نہیں جاتی تھی‘ مسلمانوں کی اس حیرت انگیز کامیابی اور خارق عادت فتوحات کے اسباب بیان کرتے ہوئے عیسائی اور غیر مسلم مؤرخ کہتے ہیں کہ رومی اور ایرانی دونوں سلطنتیں کمزور ہو گئی تھیں ‘ اس لیے مسلمانوں کو بہ آسانی فتوحات کا موقع مل گیا‘ لیکن یہ وجہ بیان کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ عربوں یا مسلمانوں کی طاقت ان کمزور شدہ سلطنتوں کے مقابلے میں کیا تھی‘ جب مسلمانوں اور ان دونوں سلطنتوں کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا ہے تو رومیوں اور ایرانیوں کے درمیان کوئی مخالفت اور لڑائی نہیں تھی‘ نہ رومی ایرانیوں کے دشمن تھے‘ نہ ایرانی رومیوں کے خون کے پیاسے تھے‘ دونوں سلطنتوں کو الگ الگ اپنی اپنی پوری طاقت مسلمانوں کے مقابلے میں صرف کر دینے کی سہولت حاصل تھی جبکہ مسلمانوں کو بہ یک وقت رومیوں اور ایرانیوں دونوں طاقتوں کا مقابلہ کرنا پڑا‘ یہ دونوں سلطنتیں مہذب و متمدن سلطنتیں سمجھی جاتی تھیں اور بہت پرانی حکومتیں تھیں ‘ ان کے پاس سامان حرب بافراط اور انتظامات مکمل‘ فوج باقاعدہ مرتب منتخب فوجی سردار اور انتظامی اہل کار شائستہ و تجربہ کار موجود‘ جبکہ مسلمان اور عرب قوم ان چیزوں سے تہی دست تھی۔
پھر یوں بھی طاقتوں کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ ایرانی بھی اور رومی بھی ایک ایک میدان میں دو دو لاکھ سے زیادہ مسلح اور آہن پوش لشکر لا سکے‘ درانحالیکہ اس دو لاکھ لشکر کی پشت پر کسی عقب کے مقام پر اسی قدر تعداد کا دوسرا مکمل لشکر بھی موجود ہوتا تھا اور اس دو لاکھ کے لشکر کو لڑتے ہوئے اطمینان ہوتا تھا کہ ہماری امداد کے لیے ہمارے پیچھے ہمارے بھائیوں کی اتنی ہی بڑی تعداد اور موجود ہے‘ لیکن مسلمانوں کی بڑی سے بڑی فوج جو کسی میدان میں جمع ہو سکی ہے‘ وہ تیس چالیس ہزار سے زیادہ نہ تھی اور یہ تعداد ہمیشہ اپنے دو دو لاکھ حریفوں کو میدان سے بھگانے اور فتح پانے میں کامیاب ہوئی‘ حالانکہ اس کی پشت پر کوئی زبردست فوجی چھائونی بھی نہ ہوتی تھی‘ پس یہ کہہ کر فارغ ہو جانا کہ ایرانیوں اور رومیوں کی سلطنتیں پہلے کی نسبت کمزور ہو گئی تھیں نہایت ہی احمقانہ بات ہے اور اور اس سے مسلمانوں کی فتح مندی کے اسباب تلاش کرنے کے کام سے ایک متلاشی حقیقت کو فراغت حاصل نہیں ہو سکتی۔
اس حقیقت کو اگر تلاش کرنا ہو تو اس بات پر غور کرو‘ ایرانی اور رومی دونوں شرک میں مبتلا تھے اور عرب ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر توحید پر قائم ہو چکے تھے‘ شرک ہمیشہ انسان کو بزدل اور ایمان ہمیشہ بہادر بنا دیتا ہے‘ بس ایمان و توحید کی بدولت عربوں میں وہ سچی بہادری پیدا ہو چکی تھی ‘ جو ایمان کے لیے شرط لازم ہے اور جو کسی طاقت سے کبھی مغلوب ہو ہی نہیں سکتی۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اسلام نے عربوں کو قرآن کریم اور اسوہ نبی ﷺ کے ذریعہ جہاں بانی کے وہ اصول اورگر سکھا دئیے تھے کہ ان کے مقابلے میں ایرانیوں اور رومیوں کی تہذیب اور اصول جہاں داری کسی طرح ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں ٹھہر سکتے تھے‘ مسلمانوں نے جس بستی‘ جس شہر‘ جس ضلع اور جس صوبے کو فتح کیا وہاں کی غیر مسلم آبادی نے مسلمانوں کی آمد اور مسلمانوں کی حکومت کو جنت خیال کیا اور یہ سمجھا کہ اپنے ہم مذہبوں کی حکومت سے آزاد ہونا گویا ہمارے لیے دوزخ سے آزاد ہونا تھا‘ مفتوح اقوام نے اپنے فاتح عربوں کے اخلاق ‘ شفقت علی خلق اللہ‘ عدل‘ رحم‘ سیر چشمی‘ بلند حوصلگی وغیرہ کو دیکھ کر بخوشی اپنے آپ کو ان کے قدموں میں ڈال دیا اور حقیقت یہ ہے کہ بنی نوع انسان اپنی انسانیت کو ان عرب فاتحین کی بدولت بچا سکی‘ پس رومیوں اور ایرانیوں کا کیا حوصلہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں فتح مند ہو سکتے۔
ایک تیسری بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ اسلام نے عربوں میں نہ صرف بہادری اور شجاعت پیدا کر دی تھی بلکہ ان جیسی اتفاق و ایثار اور قربانی کی مثال کسی قوم اور کسی ملک میں ہرگز دستیاب نہ ہو سکے گی جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں اسلام کی بدولت پیدا ہو گئی تھی۔
خلافت راشدہ کا نصف اول
رسول اللہ ﷺ کے بعد صدیق اکبر ؓ اور فاروق اعظم ؓ کا عہد‘ اسلام کی دینی و مذہبی حکومت یعنی خلافت راشدہ کا نصف اول کہا جا سکتا ہے‘ نصف آخر میں سیدنا عثمان غنی ؓ ‘ سیدنا علی ؓ اور سیدنا امام حسن ؓ کا عہد حکومت ہے‘ خلافت راشدہ کے نصف اول کا حال بیان ہو چکا ہے‘ آئندہ سیدنا عثمان غنی ؓ کے حالات سے خلافت راشدہ کا نصف آخر شروع ہونے والا ہے۔
مذکورہ نصف اول کی خصوصیات میں ایک یہ بات ہے کہ کسی جگہ بھی دین کے مقابلے میں دنیا مقدم نظر نہیں آتی‘ اعلائے کلمۃ اللہ کے مقابلے میں کسی شخص کا واہمہ بھی کسی ذاتی غرض‘ ذاتی منفعت‘ قوم یا قبیلہ کی بے جاحمایت‘ کسی رشتہ داری یا دوستی کے پاس و لحاظ کی طرف نہیں جاتا‘ خالص اسلامی رنگ اور خالص عربی تمدن ہر جگہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہے‘ رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں بیٹھنے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ معرکوں میں شریک ہونے والے حضرات بکثرت موجود تھے‘ وہی سب کی نگاہوں میں واجب التکریم سمجھے جاتے تھے اور ان کا نمونہ سب کے لیے مشعل راہ تھا‘ مسلمانوں میں نا اتفاقی اور پھوٹ کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا تھا‘ میدان جنگ میں مسجدوں میں ‘ قیام گاہوں میں ‘ شہروں میں مسافرت کے قافلوں میں غرض ہر جگہ جہاں جہاں مسلمان تھے اتفاق ‘ اتحاد یک جہتی اور ایثار کے دریا بہتے ہوئے نظر آتے تھے حسد‘ خود غرضی‘ اور عداوت کا جمعیت اسلامی کے اندر کہیں پتہ نہ چلتا تھا‘ مسلمانوں کا ہر ایک کام خدائے تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے تھا‘ وہ اپنی سادگی کے مقابلے میں ایرانیوں اور رومیوں کے سامان تکلف اور اسباب زینت کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے‘ مسلمانوں کے اندر کوئی اختلافی مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا‘ ہر شخص اپنے آپ کو ہر وقت خدائے تعالیٰ کی جناب میں حاضر سمجھتا اور اپنے قلب کو ہمہ وقت گداز پاتا تھا۔
غرض یہ وہ زمانہ تھاجس میں ہر ساعت اور ہر لمحہ رشد و سعادت کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا‘ باقی نصف آخر بھی بہت اچھا اور رشد و سعادت ہی کا زمانہ ہے‘ لیکن وہ اس نصف اول کو ہرگز نہیں پہنچ سکتا‘ اس نصف اول میں رسول اللہ ﷺ کے زمانے کا پورا پورا نمونہ اور عکس موجود نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کی ہمت رضائے الٰہی کے حصول اور اعلائے کلمتہ اللہ کی کوشش میں صرف ہوتی تھی‘ مال و دولت کا حاصل کرنا اور عیش جسمانی کی طلب میں ساعی رہنا قطعاً مفقود و معدوم تھا‘ خلیفہ وقت خلیفہ ہونے سے پیشتر جس طرح پیوند لگے ہوئے کپڑے استعمال کرتا تھا اسی طرح خلیفہ اور تمام اسلامی دنیا کا شہنشاہ بن جانے کے بعد بھی اس کے ملبوس میں کوئی فرق نہ ہوتا تھا‘ وہی پیوند جو مرتبہ خلافت پر فائز ہونے سے پہلے تھے بعد میں برابر دیکھے جاتے تھے۔
مسلمانوں نے عراق و شام و مصر کے سر سبز و زرخیز علاقوں کو فتح کیا‘ اور ایرانی شہروں پر قابض ہوئے‘ لیکن فاروق اعظم ؓ کے آخر عہد خلافت تک ان فاتح مسلمانوں نے شام کے عیسائیوں اور ایران کے مجوسیوں کی عیش پرستی و راحت طلبی سے رتی برابر بھی اثر قبول نہیں کیا‘ عراق و فارس کو مسلمانوں نے فتح کیا‘ لیکن اس فاتح فوج کا قیام کوفہ و بصرہ میں چھپروں اور خیموں کے اندر رہا‘ اسی طرح شام کے ملک میں اسلامی لشکر نے شام کے شہروں کو اپنی قیام گاہ نہیں بنایا‘ بلکہ وہ موصل و دمشق کے صحرائوں اور پہاڑوں میں شہروں اور شہریوں کے عیش و تکلفات سے بے خبر قیام پذیر رہتے‘ اور اپنی اس سپاہیانہ زندگی اور صعوبت کشی پر مسرور و مطمئن تھے‘ جس لشکر نے مصر کو فتح کیا‘ اس نے مصر کے سامان عیش رکھنے والے شہروں کو اپنے قیام کے لیے منتخب نہیں کیا‘ بلکہ فسطاط کی چھائونی کو جو آج شہر قاہرہ کی شکل میں تبدیل ہو گئی ہے پسند کیا‘ صدیق اکبر اور فاروق اعظم ؓ نہ صرف خود لوگوں کو زاہدانہ زندگی بسر کرنے کی ترغیب دیتے تھے بلکہ خود اس کے اوپر عمل کر کے بھی انہوں نے اپنا بہترین نمونہ لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا۔
بیت المال کا ایک پیسہ بھی وہ بے جا خرچ نہ کرتے تھے اور نہ کسی کو ایک پیسہ ناجائز خرچ کرنے کی اجازت دیتے تھے‘ خلیفہ وقت بلا امتیاز خاندان و قبیلہ ہر ایک مسلمان کے ساتھ محبت کرتا‘ اور ہر خطا وار کو بلا امتیاز قبیلہ یکساں سزا دیتا تھا۔
نہ کبھی خلیفہ کو کسی نے اس طرف متوجہ کیا کہ وہ روپیہ حاصل کرنے اور اپنی مالی حالت درست کرنے کی کوشش میں مصروف ہوئے ہوں اور نہ عام مسلمانوں کو اس طرف کوئی خصوصی توجہ تھی کہ وہ مال و دولت حاصل کریں اور متمول بن جائیں ‘ اب اس کے بعد خلافت راشدہ کا دوسرا نصف حصہ شروع ہوتا ہے‘ مذکورہ بالا تمام امتیاز کم ہوتے اور مٹتے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں اور کم ہوتے ہوتے خلافت راشدہ کے ساتھ ہی تمام امتیازات فنا ہو جاتے ہیں ۔
❤️
✍
😂
🫀
8