{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
February 25, 2025 at 05:10 PM
کتاب: تاریخِ اسلام قسط نمبر 169 سیدنا عثمان غنی ؓ نام و نسب عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب‘ آپ کی کنیت ابوعمرو ابوعبداللہ تھی‘ زمانہ جاہلیت میں آپ کی کنیت ابوعمرو تھی‘ مسلمان ہونے کے بعد سیدنا رقیہ سے آپ کے یہاں سیدنا عبداللہ پیدا ہوئے‘ تو آپ کی کنیت ابوعبداللہ ہو گئی‘ سیدنا عثمان کی نانی رسول اللہ ﷺ کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب کی حقیقی بہن تھیں ‘ جو سیدنا عبداللہ کے ساتھ تو ام یعنی جڑواں پیدا ہوئی تھیں اس طرح سیدنا عثمان رسول اللہ ﷺ کی پھوپی زاد بہن کے بیٹے تھے۔ فضائل آپ خلق حیا میں خاص طور پر ممتاز تھے‘ سیدنا زید بن ثابت کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ عثمان میرے پاس سے گذرے تو مجھ سے ایک فرشتے نے کہا کہ مجھے ان سے شرم آتی ہے‘ کیوں کہ قوم ان کو قتل کر دے گی‘ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس طرح عثمان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے حیا کرتے ہیں فرشتے ان سے حیا کرتے ہیں ۔۱ سیدنا امام حسن ؓ سے سیدنا عثمان غنی ؓ کی حیا کا ذکر آیا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر کبھی سیدنا عثمان نہانا چاہتے تو دروازہ کو بند کر کے کپڑے اتارنے میں اس قدر شرماتے کہ پشت سیدھی نہ کر سکتے تھے۔ آپ ذوہجر تین تھے یعنی آپ نے حبش کی ہجرت بھی کی اور مدینہ کی بھی‘ آپ شکل و شمائل میں رسول اللہ ﷺ سے بہت مشابہ تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے قبل از ہجرت اپنی بیٹی رقیہ کی شادی سیدنا عثمان غنی ؓ سے کر دی تھی‘ جب جنگ بدر کے روز وہ فوت ہو گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی دوسری بیٹی سیدنا ام کلثوم کی شادی آپ سے کر دی‘ اسی لیے آپ ذی النورین کے خطاب سے مشہور ہیں ام کلثوم بھی ۹ ھ میں فوت ہو گئیں ‘ سوائے سیدنا عثمان غنی ؓ کے اور کوئی شخص دنیا میں ایسا نہیں گذرا جس کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں رہی ہوں ۔ مناسک حج سب سے بہتر سیدنا عثمان جانتے تھے‘ آپ کے بعد سیدنا عبداللہ بن عمر۔ سیدنا عثمان غنی ؓ چوتھے مسلمان تھے‘ یعنی آپ سے پیشتر صرف تین شخص ایمان لا چکے تھے۔ آپ سیدنا ابوبکرصدیق ؓ کی تحریک سے مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صحابہ کرام میں بہت مال دار تھے اور اسی طرح سب سے زیادہ سخی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے تھے۔ آپ سیدنا رقیہ ؓ کی سخت علالت کے سبب جنگ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور رسول اللہ ﷺ کی اجازت و حکم کے موافق مدینہ منورہ میں رہے تھے‘ لیکن جنگ بدر کے مال غنیمت میں سے آپ کو حصہ اسی قدر ملا جس قدر شرکاء جنگ کو ملا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عثمان ؓ کو اصحاب بدر میں شامل سمجھنا چاہیے۔۱ چنانچہ اصحاب بدر میں آپ کا شمار کیا جاتا ہے۔ آپ صحابہ کرام میں کثرت عبادت کے لیے خصوصی شہرت رکھتے تھے‘ رات بھر کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرتے اور برسوں روزے رکھا کرتے تھے‘ مسجد نبوی کی بغل میں ازواج مطہرات کے لیے کچھ زمین آپ نے اپنے خرچ سے خریدی تھی۔ ایک سال مدینہ میں قحط پڑا تو آپ نے تمام محتاجوں کو غلہ دیا‘ مسلمان جب مدینہ میں آئے تو پانی کی وہاں سخت تکلیف تھی‘ ایک یہودی کا کنواں تھا‘ وہ پانی نہایت ہی گراں فروخت کرتا تھا‘ آپ نے وہ کنواں اس یہودی سے ۳۵ ہزار درہم کو خرید کر وقف کر دیا‘ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘ مسلمان ہونے کے بعد ہر ہفتے ایک غلام خرید کر آزاد کیا کرتے تھے‘ آپ نے کبھی اپنے مال دار ہونے پر فخر نہیں کیا اور زمانہ جاہلیت میں بھی آپ نے کبھی شراب نہیں پی‘ آپ حدیث نبوی ﷺ کو نہایت عمدگی اور احتیاط کے ساتھ روایت کیا کرتے تھے‘ آپ نے جنگ تبوک کے واسطے ساڑھے چھ سو اونٹ اور پچاس گھوڑے راہ اللہ تعالیٰ میں پیش کئے‘ عہد جاہلیت میں آپ امرائے مکہ میں شمار ہوتے تھے۔ حلیہ مبارک آپ میانہ قد چیچک زدہ خوبصورت شخص تھے‘ ڈاڑھی گھنی تھی‘ اس کو حنا سے رنگین رکھتے تھے‘ آپ کی ہڈی چوڑی تھی‘ رنگت میں سرخی جھلکتی تھی‘ پنڈلیاں بھری بھری تھیں ‘ ہاتھ لمبے لمبے تھے‘ جسم پر بال تھے‘ سر کے بال گھونگھر والے تھے‘ دونوں شانوں میں زیادہ فاصلہ تھا‘ دانت بہت خوبصورت تھے‘ کنپٹی کے بال بہت نیچے تک آئے ہوئے تھے‘ سیدنا عبداللہ کا قول ہے کہ میں نے سیدنا عثمان سے زیادہ حسین و خوبصورت کسی مرد و عورت کو نہیں دیکھا۔ انتخاب سیدنا فاروق اعظم ؓ نے انتخاب خلیفہ کے لیے تین دن کی مہلت مقرر فرما کر سیدنا مقداد کو حکم دے دیا تھا کہ نامزد شدہ چھ اشخاص کی مجلس میں جب تک کہ وہ اپنے آپ میں سے کسی کو خلیفہ منتخب نہ کر لیں ‘ کسی دوسرے کو نہ جانے دینا‘ صرف عبداللہ بن عمر کو رائے دینے کے لیے شریک ہونے کی اجازت تھی تاکہ اس طرح رائے دہندوں کی تعداد طاق یعنی سات ہو جائے‘ لیکن عبداللہ بن عمر کے لیے پہلے سے آپ نے یہ حکم صادر فرما دیا تھا کہ ان کو ہرگز خلیفہ منتخب نہ کیا جائے‘ اس وقت کسی نے عبداللہ بن عمر ؓ کے لیے کہا تو آپ نے فرمایا تھا کہ بار خلافت کی ذمہ داری میرے لیے ہی کیا کم ہے کہ میں اپنے خاندان میں دوسروں پر بھی یہ محنت ڈالوں ‘ اور ان کو بہت سی آسائشوں سے محروم کر دوں ‘ فاروق اعظم ؓ سے جب کسی شخص نے خلیفہ کے متعین و نامزد فرما دینے کے لیے کہا تو آپ نے جواب دیا کہ میں صدیق اکبر ؓ کی سنت پر عمل کر کے کسی کو اپنے بعد نامزد کروں تو یہ میرے لیے جائز ہے‘ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کر کے کسی کو اپنے بعد نامزد نہ کروں تو یہ بھی میرے لیے جائز ہے‘ میں اگر اپنے بعد کسی کو خلیفہ مقرر کرتا تو وہ ابوعبیدہ ابن الجراح تھے جو مجھ سے پہلے فوت ہو گئے‘ یا پھر میں ابو حذیفہ کے غلام سالم کو خلیفہ بناتا وہ بھی مجھ سے پہلے فوت ہو گئے‘ یہ فرما کر پھر آپ نے ان چھ شخصوں کے نام لیے جو اوپر درج ہو چکے ہیں ۔ سیدنا مقدادالاسود اور سیدنا ابوطلحہ انصاری نے وصیت فاروقی کے موافق فاروق اعظم ؓ کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو کر سیدنا صہیب کو تو عارضی طورپر تین دن کے لیے تا انتخاب خلیفہ مدینہ کا حکمراں اور امام مقرر کیا اور خود اپنے آدمیوں کی جمعیت لے کر سیدنا علی ‘ سیدنا عثمان‘ سیدنا زبیر ‘ سیدنا سعد عبدالرحمن‘ اور سیدنا عبداللہ بن عمر کو مسور بن مخرمہ اور بقول دیگر سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے مکان میں جمع کر کے دروازے پر حفاظت کی غرض سے بیٹھ گئے‘ سیدنا طلحہ مدینہ میں موجود نہ تھے‘ کوئی اور اس مکان میں داخل نہیں ہو سکتا تھا‘ سیدنا عمرو بن العاص اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ دروازے پر آکر بیٹھ گئے تھے‘ سیدنا سعد بن ابی وقاص کو معلوم ہوا تو انہوں نے ان دونوں کو دروازے پر بھی نہ بیٹھنے دیا‘ اور وہاں سے اٹھوا دیا تاکہ وہ کہیں یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم بھی اصحاب شوریٰ میں شامل تھے۔ جب سب صاحب اطمینان سے آ کر بیٹھ چکے تو سب سے اول سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے کھڑے ہو کر کہا کہ جو لوگ خلافت کے لیے نامزد کئے گئے ہیں ان میں سے کون ایسا ہے جو اپنے آپ کو خلافت سے دست بردار قرار دیتا ہے‘ اسی کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ جس کو تم میں سب سے افضل و لائق سمجھے اس کو خلیفہ مقرر کر دے‘ اس بات کو سن کر اس مختصر مجمع میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا‘ سب خاموش رہے‘ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے پھر اعلان کیا کہ میں اپنے آپ کو خلافت سے دست بردار قرار دیتا ہوں اور انتخاب خلیفہ کے کام کو انجام دینے پر تیار ہوں ‘ یہ سن کر سب نے تائید کی اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف کو اختیار دیا کہ آپ جس کو چاہیں ہم میں سے خلیفہ منتخب فرما دیں مگر سیدنا علی بن ابی طالب بالکل خاموش رہے‘ انہوں نے ہاں یا ناں کچھ نہیں کہا‘ تب سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے سیدنا علی ؓ کی طرف مخاطب ہو کر کہا آپ نے کچھ نہیں فرمایا‘ آپ بھی اپنی رائے کا اظہار کیجئے‘ سیدنا علی ؓ نے کہا میں بھی اس رائے سے متفق ہوں ‘ لیکن شرط یہ ہے کہ تم پہلے یہ اقرار کر لو کہ جو فیصلہ کرو گے بلا رو رعایت‘ اور نفسانیت کو دخل دئیے بغیر محض حق پرستی اور امت کی خیر خواہی کے لیے کرو گے‘ سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ میں تم سے عہد کرتا ہوں کہ بلا رو رعایت بلا نفسانیت اور محض امت کی بہتری و بھلائی کے لیے حق پرستی کی بنا پر فیصلہ کروں گا‘ لیکن تم سب اس بات کا اقرار کرو کہ جس کو میں منتخب کروں گا اس پر رضا مند ہو جائو گے اور جو میری رائے اور میرے فیصلے کی مخالفت کرے گا تم سب اس کے مقابلہ میں میری مدد کرو گے‘ یہ سن کر سیدنا علی اور تمام مجمع نے اقرار کیا کہ ہم سب تمہارے فیصلہ کی تائید اور اس کے نفاذ میں تمہاری امداد کریں گے۔ یہ عہد و پیمان ہو جانے کے بعد مجمع منتشر ہوا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے کیونکہ ابھی تین دن کی مہلت باقی تھی‘ اس دن کے عرصہ میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف برابر صاحب الرائے اور جلیل القدر صحابہ کرام سے ان کی رائیں دریافت کرتے رہے‘ خود بھی غور و خوض میں مصروف رہے‘ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان ؓ سے الگ لے جا کر دریافت کیا کہ اگر میں آپ سے بیعت نہ کروں تو تو آپ مجھے کس کی بیعت کرنے کی رائے دیتے ہیں ‘ انہوں نے کہا کہ آپ کو سیدنا علی ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہیے‘ پھر میں نے سیدنا علی ؓ سے بھی تنہائی میں یہی سوال کیا تو انہوں نے سیدنا عثمان ؓ کا نام لیا‘ پھر میں نے سیدنا زبیر ؓ سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ سیدنا علی یا سیدنا عثمان دونوں میں سے کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کر لو‘ پھر میں نے سیدنا سعد سے تنہائی میں دریافت کیا تو انہوں نے سیدنا عثمان ؓ کا نام لیا‘ پھر میں نے اور صاحب الرائے حضرات سے دریافت کیا‘ تو کثرت رائے سیدنا عثمان ہی کی نسبت ظاہر ہوئی‘ سہ روزہ مہلت کی آخری شب کو پھر مذکورہ بالا حضرات کا مجمع اسی مذکورہ مکان میں ہوا‘ سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے سیدنا زبیر ؓ اور سیدنا سعد ؓ کو الگ بلا کر کہا کہ عام طور پر علی و عثمان کی نسبت لوگوں کی زیادہ رائیں ظاہر ہوئی ہیں ‘ ان دونوں حضرات نے بھی انہیں دونوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کی‘پھر سیدنا سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ آپ ہم سے تو بیعت لے لیں اور ہم کو ان جھگڑوں سے آزاد کر دیں ‘ سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا یہ کیسے ممکن ہے‘ میں تو ان لوگوں کے دائرہ سے آزاد ہو چکا ہوں جو خلافت کے لیے نامزد ہوئے تھے۔ پھر سیدنا عبدالرحمن نے سیدنا علی ؓ اور سیدنا عثمان ؓ کو الگ لے جا کر کچھ باتیں کیں ‘ انہیں مشوروں اور باتوں میں صبح ہوگئی‘ یہی صبح انتخاب خلیفہ کے اعلان ہونے کی صبح تھی‘ لوگ منتظر تھے‘ نماز فجر کے بعد تمام مسجد نبوی آدمیوں سے کھچا کھچ بھر گئی‘ تمام حضرات مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھئے سیدنا عبدالرحمن بن عوف کیا فیصلہ سناتے ہیں ۔ سیدنا عبدالرحمن ؓ کے کچھ فرمانے سے پہلے بعض لوگوں نے اپنی اپنی رائے ظاہر بھی کرنی شروع کر دی‘ یہ لوگ اصحاب شوریٰ میں نہ تھے مثلاً سیدنا عمار نے کہا کہ میں سیدنا علی کو مستحق خلافت سمجھتا ہوں ‘ ابن ابی سرح اور عبداللہ بن ابی ربیعہ نے کہا کہ ہم سیدنا عثمان ؓ کو زیادہ مستحق و مناسب پاتے ہیں ‘ اس قسم کی چہ می گوئیاں شروع ہوئیں تو سیدنا سعد بن ابی وقاص نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف سے کہا کہ تم اب دیر کیوں کر رہے ہو‘ اندیشہ ہے کہ مسلمانوں میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہو جائے‘ تم جلد اپنی رائے کا اظہار کر کے اس مسئلہ کو ختم کر دو‘ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ اٹھے اور تمام مجمع کو مخاطب کر کے کہا کہ جہاں تک میری طاقت میں تھا‘ میں نے ہر طبقہ اور ہرگروہ کی رائے معلوم کر لی ہے اور اس کام میں کسی غفلت و کم التفاتی کو مطلق راہ نہیں دی ‘ میرے فیصلے سے اب کسی کو انکار کا موقع حاصل نہیں ہے‘ کیونکہ بہ رضاورغبت تمام اصحاب شوریٰ اور نامزدگان خلافت نے میرے فیصلے کو ناطق تسلیم کر لیا ہے‘ اور میں اپنی تمام طاقت صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے صرف کر چکا ہوں ‘ یہ کہہ کر انہوں نے سیدنا عثمان غنی ؓ کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اور رسولؐ کے احکام اور سنت شیخین پر چلنے کا اقرار کرو‘ انہوں نے اقرار کیا کہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کے حکم اور صدیق ؓ و فاروق ؓ کے نمونے پر چلنے کی کوشش کروں گا‘ اس کے بعد سیدنا عبدالرحمن بن عوف ؓ نے سیدنا عثمان ؓ غنی ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان کے بعد سب لوگ سیدنا عثمان ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے‘ سیدنا علی ؓ کو اول اس نظارہ سے کچھ دل گرفتگی ہوئی اور مسجد سے اٹھ کر باہر جانے لگے‘ لیکن پھر کچھ خیال آیا تو فوراً بڑی عجلت و بے تابی کے ساتھ صفوں کو چیرتے ہوئے بڑھے اور سیدنا عثمان غنی ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی‘ سیدنا طلحہ اس روز یعنی یکم محرم کو مدینہ میں موجود نہ تھے اور اسی لیے وہ شریک مشورہ نہ ہو سکے تھے‘ سیدنا طلحہ اگلے روز یعنی ۲ محرم ۲۴ ھ کو مدینہ میں تشریف لائے اور یہ سن کر کہ تمام لوگوں نے بالاتفاق سیدنا عثمان غنی ؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے سیدنا عثمان کی خدمت میں بغرض بیعت حاضر ہوئے‘ سیدنا عثمان ؓ غنی نے ان سے کہا کہ آپ کی غیر موجودگی میں میرا انتخاب ہو گیا ہے اور زیادہ دنوں آپ کا انتظار نہیں ہو سکتا تھا‘ اگر آپ مدعی خلافت ہوں تو میں آپ کے حق میں خلع خلافت کرنے کو تیار ہوں ‘ سیدنا طلحہ ؓ نے کہا کہ جب تمام لوگوں نے آپ کی خلافت پر بیعت کر لی ہے تو میں بھی آپ کی خلافت پر رضا مند ہوں ‘ میں مسلمانوں میں کوئی فتنہ اور اختلاف ڈالنا نہیں چاہتا‘ یہ کہہ کر انہوں نے بھی سیدنا عثمان غنی ؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد سیدنا عثمان غنی منبر پر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو مخاطب کر کے اعمال صالحہ کی رغبت دلائی‘ مال و دولت کی فراوانی سے جو غفلت پیدا ہوتی ہے اس سے ڈرایا اور رضائے الٰہی کو ہمیشہ مقدم رکھنے کی نصیحت کی‘ اس کے بعد صوبوں کے عاملوں اور حاکموں کے نام ایک حکم جاری کیا جس میں فاروق اعظم ؓ کی وفات اور اپنے انتخاب کا تذکرہ تھا‘ نیز ان کو تاکید کی گئی تھی کہ جس طرح فاروق اعظم ؓ کے عہد خلافت میں دیانت اور امانت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے ہو اسی طرح انجام دیتے رہو۔ دربارعثمانی میں پہلا مقدمہ فاروق اعظم ؓ کی شہادت سے چند روز پیشتر ایک روز ابو لولو ایک خنجر لیے ہوئے ہرمزان کے پاس گیا‘ یہ وہی ایرانی سردار ہرمزان ہے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے‘ جو فاروق اعظم ؓ کے ہاتھ پر مسلمان ہو کر مدینہ منورہ میں رہنے لگا تھا‘ ابو لولو تھوڑی دیر تک ہرمزان کے پاس بیٹھا ہوا باتیں کرتا رہا‘ اس وقت وہاں حیرہ کا باشندہ ایک عیسائی غلام جفینہ نامی بھی بیٹھا تھا‘ ان تینوں کو ایک جگہ بیٹھے اور باتیں کرتے ہوئے سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ نے دیکھا‘ سیدنا عبدالرحمن ؓ بن ابی بکر کو قریب آتے دیکھ کر ابولولو وہاں سے اٹھ کر چل دیا‘ اٹھتے وقت خنجر جو وہ لیے ہوئے تھا‘ اس کے ہاتھ سے گر گیا تھا‘ جس کو گرتے ہوئے اور ابو لولو کو اٹھاتے ہوئے بھی سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ نے دیکھا تھا‘ اس وقت ان کو نہ کوئی شبہ گذرا تھا‘ نہ کسی قسم کا خیال ان کے دل میں پیدا ہوا تھا‘ لیکن جب ابولولو نے سیدنا فاروق اعظم ؓ کو زخمی کیا اور اس کے بعد گرفتار ہو کر مقتول ہوا تو اس کے پاس سے جو خنجر نکلا اس کو سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ نے پہچانا کہ یہ وہی خنجر ہے جو چند روز ہوئے اس کے پاس دیکھا تھا‘ ساتھ ہی انہوں نے مذکورہ بالا تمام واقعہ بھی سنا دیا۔ ابولولو کے ہرمزان کے پاس جانے اور باتیں کرنے وغیرہ کا حال جب فاروق اعظم ؓ کی شہادت کے بعد ان کے دوسرے صاحبزادے سیدنا عبیداللہ بن عمر نے سنا تو طیش اور انتقام کے جوش میں انہوں نے موقع پا کر ہرمزان پر حملہ کیا‘ ہرمزان کو زخمی ہو کر گرتا ہوا دیکھ کر سعد بن ابی وقاص عبیداللہ بن عمر ؓ کے گرفتار کرنے کو‘ اور عبیداللہ بن عمر جفینہ عیسائی غلام کے بھی قتل کرنے کو دوڑے‘ قبل اس کے کہ عبیداللہ بن عمر ؓ جفینہ کے قتل پر قادر ہوں سعد بن ابی وقاص نے ان کو گرفتار کر لیا‘ چونکہ ابھی تک کوئی خلیفہ منتخب نہیں ہوا تھا اور سیدنا صہیب ؓ ہی عارضی طور پر خلافت کے ضروری کام انجام دے رہے تھے‘ لہذا سیدنا سعد بن ابی وقاص نے عبیداللہ بن عمر کو سیدنا صہیب ؓ کی خدمت میں پیش کیا‘ سیدنا صہیب ؓ نے ان کو خلیفہ کے منتخب ہونے تک کے لیے قید کر دیا۔ اب جب سیدنا عثمان غنی ؓ خلیفہ منتخب ہوئے اور بیعت عامہ مسجد نبوی میں ہو چکی اور سیدنا عثمان غنی ؓ خطبہ خلافت بھی لوگوں کو سنا چکے‘ تو سب سے پہلے آپ کی خدمت میں یہ مقدمہ پیش ہوا اور سیدنا عبیداللہ کو آپ کے سامنے لایا گیا ‘ سیدنا عبیداللہ بن عمر ؓ سے جب ہرمزان کے قتل کی نسبت دریافت کیا گیا تو انہوں نے قتل کا اقرار کیا‘ اس پر سیدنا عثمان غنی ؓ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مشورہ لیا‘ سیدنا علی نے فرمایا کہ عبیداللہ بن عمر ؓ کو ہرمزان کے قصاص میں قتل کر دینا چاہیے‘ لیکن سیدنا عمروبن العاص ؓ نے سیدنا علی کی اس رائے سے مخالفت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ کسی طرح مناسب نہیں ‘ ابھی کل پرسوں کی بات ہے کہ باپ مارا گیا ہے‘ آج اس کے بیٹے کو قتل کرتے ہو‘ اور لوگوں نے بھی عمروبن العاص کی رائے کی تائید کی‘ سیدنا عثمان غنی ؓ کچھ شش و پنج میں پڑے لیکن فوراً ہی انہوں نے فرمایا کہ یہ معاملہ نہ عمر فاورق ؓ کے عہد خلافت کا ہے اور نہ میری خلافت کے زمانہ کا‘ کیونکہ میرے خلیفہ منتخب ہونے سے پہلے یہ واقعہ ظہور میں آ چکا تھا‘ لہذا میں اس کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا‘ اس کے بعد سیدنا عثمان غنی ؓ نے یہ بہترین صورت اختیار کی کہ خود عبیداللہ بن عمر ؓ کا ولی بن کر اپنے پاس سے ہرمزان کے قتل کی دیت ادا کر دی اور منبر پر چڑھ کر ایک پراثر تقریر کی‘ اس طرح تمام لوگ اس فیصلے سے خوش ہو گئے اور سیدنا عبیداللہ بن عمر قصاص سے بچ گئے۔ ولایات کے عامل یا گورنر جب سیدنا عثمان غنی ؓ خلیفہ منتخب و مقرر ہوئے ہیں ‘ تو اسلامی صوبوں اور ولایتوں پر فاروق اعظم ؓ کے مقرر کئے ہوئے مندرجہ ذیل عمال حکمراں تھے۔ مکہ میں نافع بن عبدالحارث‘ طائف میں سفیان بن عبداللہ ثقفی‘ یمن میں یعلیٰ بن امیہ‘ عمان میں حذیفہ بن محصن‘ دمشق میں معاویہ بن ابی سفیان مصر میں عمروبن العاص‘ حمص میں عمر بن سعد‘ اردن میں عمر بن عتبہ‘ بصرہ میں ابوموسیٰ اشعری‘ کوفہ میں مغیرہ بن شعبہ‘ بحرین میں عثمان بن ابی العاص ؓ ۔ عاملوں کے عزل و نصب کے متعلق سب سے پہلا حکم سیدنا عثمان غنی نے یہ جاری کیا کہ مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ کی گورنری سے معزول کر کے مدینہ میں بلا لیا اور ان کی جگہ سیدنا سعد بن ابی وقاص کو کوفہ کا گورنر مقرر کر کے بھیجا‘ لوگوں نے اس تقرر و برطرفی کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مغیرہ کو کسی خطا پر معزول نہیں کیا گیا‘ بلکہ میں نے یہ انتظام وصیت فاروقی کے موافق کیا ہے‘ کیوں کہ سیدنا فاروق ؓ اپنے اس منشا کو مجھ سے فرما چکے تھے۔
❤️ 5

Comments