{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
February 27, 2025 at 02:28 AM
کتاب: حیاۃ الصحابہ ؓ قسط نمبر 173 خُلَفَا اور اُمرَا کا احترام کرنا اور اُن کے احکامات کی تعمیل کرنا امیر کے سامنے زبان کی حفاظت کرنا حضرت عُروہ ؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطّاب ؓ کی خدمت میں آیا اور میں نے ان سے کہا: اے ابو عبد الرحمن! (یہ حضرت عبد اللہ بن عمر کی کنیت ہے) ہم اپنے ان امیروں کے پاس بیٹھتے ہیں ، اور وہ کوئی بات کہتے ہیں ، اور ہمیں معلوم ہے کہ (یہ بات غلط ہے اور) صحیح بات کچھ اور ہے، لیکن ہم ان کی بات کی تصدیق کر دیتے ہیں اور وہ لوگ ظلم کا فیصلہ کرتے ہیں اور ہم ان کو تقویت پہنچاتے ہیں اور ان کے اس فیصلے کو اچھا بتاتے ہیں ، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ انھوں نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! ہم تو حضورِ اکرم ﷺ کے زمانہ میں اسے نفاق شمار کرتے تھے (کہ دل میں کچھ اور ہے اور زبان سے کچھ اور ظاہر کر رہا ہے) لیکن مجھے پتہ نہیں تم لوگ اسے کیا سمجھتے ہو؟ (یعنی امیر کے سامنے حق بات نہ کہہ سکے تو اس کے غلط کو بھی صحیح تو نہ کہے) (حضرت عاصم کے والد) حضرت محمد ؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابنِ عمر ؓ سے کہا: ہم اپنے بادشاہ کے پاس جاتے ہیں اور ہم کو اس کے سامنے (اس کی وجہ سے) کچھ ایسی باتیں زبان سے کہنی پڑتی ہیں کہ اس کے پاس سے باہر آکران کے خلاف کہتے ہیں ۔ حضرت ابنِ عمر نے کہا: ہم اسے نفاق شمار کرتے تھے۔ امام بخاری نے حضرت محمد بن زید ؓ سے اس جیسی حدیث روایت کی ہے، جس میں یہ مضمون بھی ہے کہ ہم اسے حضورِ اقدس ﷺ کے زمانے میں نفاق شمار کرتے تھے۔ حضرت مجاہد ؓ کہتے ہیں : ایک آدمی حضرت ابنِ عمر ؓ کے پاس آیا تو اس سے حضرت ابنِ عمر نے فرمایا: تمہارا حضرت ابو اَنیس (ضحّاک بن قیس) کے ساتھ کیسا رویہ ہے؟ اس نے کہا: جب ہم ان سے ملتے ہیں تو ہم ان کے سامنے وہ بات کہتے ہیں جو اُن کو پسند ہو، اور جب ان کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو پھر کچھ اور کہتے ہیں ۔ حضرت ابنِ عمر نے فرمایا: حضور ﷺ کے زمانہ میں تو ہم اسے نفاق شمار کیاکرتے تھے۔ حضرت شَعبی ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابنِ عمر ؓ کی خدمت میں عرض کیاکہ ہم جب ان (امیروں ) کے پاس جاتے ہیں تو وہ بات کہتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں ، اور جب اُن کے پاس سے باہر چلے جاتے ہیں تو اس کے خلاف کہتے ہیں ۔ حضرت ابنِ عمر نے فرمایا: حضور ﷺ کے زمانہ میں ہم اسے نفاق شمار کرتے تھے۔ حضرت علقمہ بن وقاص ؓ کہتے ہیں : ایک بے کار آدمی تھاجو امیروں کے پاس جاکر ان کو ہنسایا کرتا تھا۔ اس سے میرے دادا نے کہا: اے فلانے! تیرا ناس ہو۔ تم ان امیروں کے پاس جا کر کیوں ہنساتے ہو؟ (ایسا کرنا چھوڑ دو) کیوں کہ میں نے حضور ﷺ کے صحابی حضرت بلال بن حارث مُزنی ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: بعض دفعہ بندہ اللہ کی رضا والا ایک بول ایسا بول دیتاہے جس کا انسانوں پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے اور اتنا مؤثر ہونے کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا اور اس ایک بول کی وجہ سے اللہ اس سے راضی ہوجاتے ہیں اور اس سے ملاقات کے دن یعنی قیامت کے دن تک اس سے راضی رہتے ہیں ۔ اور کبھی بندہ اللہ کی ناراضگی والا ایک بول ایسا بول دیتا ہے جس کا انسانوں پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے اور اسے اتنا مؤثر ہونے کاگمان بھی نہیں ہوتا، اس ایک بول کی وجہ سے اللہ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں اور اس سے ملاقات کے دن یعنی قیامت کے دن تک اس سے ناراض رہتے ہیں ۔ حضرت علقمہ ؓ کہتے ہیں : حضرت بلال بن حارث مُزَنی ؓ نے ان سے فرمایا: میں نے دیکھا ہے کہ تم ان امیروں کے پاس کثرت سے جاتے ہو۔ دیکھ لو! تم ان سے کیا باتیں کرتے ہو؟ کیوں کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آدمی اللہ کی رضا والا ایک بول ایسا بول دیتا ہے۔ اور پھر پچھلی حدیث جیسا مضمون ذکر کیا۔ حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں : اپنے آپ کو فتنے کی جگہوں سے بچائو۔ کسی نے ان سے پوچھا: اے ابو عبد اللہ! فتنوں کی جگہیں کون سی ہیں ؟ انھوں نے فرمایا: امیروں کے دروازے کہ تم میں سے ایک آدمی امیر کے پاس جاتا ہے اور اس کی غلط بات کی تصدیق کرتا ہے اور (اس کی تعریف کرتے ہوئے) ایسی خوبی کا تذکرہ کرتا ہے جو اس میں نہیں ہے۔ حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں : مجھ سے میرے والد (حضرت عباس ؓ ) نے فرمایا: اے میرے بیٹے! میں دیکھ رہاہوں کہ امیر المؤمنین (حضرت عمر ؓ ) تمہیں بلاتے ہیں اور تمہیں اپنے قریب بٹھاتے ہیں اور حضور ﷺ کے دیگر صحابہ کے ساتھ تم سے بھی مشور ہ لیتے ہیں ، لہٰذ ا تم میری تین باتیں یاد رکھنا: اللہ سے ڈرتے رہنا ، کبھی ان کے تجربہ میں یہ بات نہ آئے کہ تم نے جھوٹ بولا ہے یعنی کبھی ان کے سامنے جھوٹ نہ بولنا۔ اور ان کا کوئی راز فاش نہ کرنا۔ اور کبھی ان کے پاس کسی کی غیبت نہ کرنا۔ حضرت عامر کہتے ہیں : میں نے حضرت ابنِ عباس سے کہا: ان تین باتوں میں سے ہر بات ایک ہزار (درہم) سے بہتر ہے ۔ انھوں نے فرمایا: نہیں ، ان میں سے ہر ایک دس ہزار (درہم) سے بہتر ہے۔ حضرت شعبی ؓ کہتے ہیں : حضرت عباس ؓ نے اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ ؓ سے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ آدمی یعنی حضرت عمر بن خطاب ؓ تمہارا بڑا اِکرام کرتے ہیں اور تمہیں اپنے قریب بٹھا تے ہیں اور تمہیں ان لوگوں میں یعنی ان بڑے صحابہ میں شامل کر دیا ہے کہ ان جیسے تم نہیں ہو۔ میری تین باتیں یاد رکھنا: کبھی ان کے تجربہ میں یہ بات نہ آئے کہ تم نے جھو ٹ بولا ہے، اور کبھی ان کا کوئی راز فاش نہ کرنا، اور ان کے پاس کسی کی غیبت بالکل نہ کرنا۔ امیر کے سامنے حق بات کہنا اور جب وہ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی حکم دے تو اس کے حکم کو ماننے سے انکار کر دینا کوئی حکم دے تو اس کے حکم کو ماننے سے انکار کر دینا حضرت حسن ؓ کہتے ہیں : حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے ایک مرتبہ حضرت اُبی بن کعب ؓ کی (پڑھی ہوئی)ایک آیت کا انکار کیا (کہ یہ قرآن میں نہیں ہے، یا قرآن میں اس طرح نہیں ہے)۔ حضرت اُبی نے کہا: میں نے اس آیت کو حضور ﷺ سے سنا ہے اور تم تو بَقِیْع بازار میں خرید وفروخت میں مشغول رہا کرتے تھے (اس لیے تمہیں یہ آیت حضور ﷺ سے سننے کا موقع نہیں ملا)۔ حضرت عمر نے فرمایا: تم نے ٹھیک کہا، میں نے تمہاری آیت کا قصداً اِنکار تم لوگوں کو آزمانے کے لیے کیا تاکہ پتہ چلے کہ تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جو (امیر کے سامنے) حق بات کہہ سکے ۔ اس امیر میں کوئی خیر نہیں ہے جس کے سامنے حق بات نہ کہی جا سکے اور نہ وہ خود حق بات کہہ سکے۔ حضرت ابو مِجْلَز ؓ کہتے ہیں : حضرت اُبی بن کعب ؓ نے یہ آیت پڑھی: {مِنَ الَّذِیْنَ اسْتَحَقَّ عَلَیْھِمُ الْاَوْلَیٰنِ} تو حضرت عمر نے ان سے فرمایا: تم نے غلط پڑھا۔ حضرت اُبی نے کہا: (میں نے ٹھیک پڑھا ہے) آپ کی غلطی زیادہ ہے۔ کسی آدمی نے (حضرت اُ بی سے کہا): آپ امیر المؤمنین (کی بات) کو غلط کہہ رہے ہیں ۔ حضرت اُبی نے کہا: میں تم سے زیادہ امیرالمؤمنین کی تعظیم کرنے والا ہوں ، لیکن چوں کہ ان کی بات قرآن کے خلاف تھی اس وجہ سے میں نے قرآن کے مقابلہ میں ان کی بات کو غلط کہا ہے، اور یہ نہیں ہو سکتا کہ میں قرآن کو غلط کہوں اور امیر المؤمنین کی (غلط )بات کو ٹھیک کہوں ۔ حضرت عمر نے فرمایا: حضرت اُبی ٹھیک کہتے ہیں ۔ حضرت نعمان بن بشیر ؓ فرماتے ہیں : حضرت عمر بن خطّاب ؓ ایک مجلس میں تھے اور ان کے اِردگرد حضراتِ مہاجرین اور اَنصار بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت عمر نے فرمایا: ذرا یہ بتانا کہ اگر میں کسی کام میں ڈھیل برتوں تو تم کیا کرو گے؟ تمام حضرات اَدباًخاموش رہے۔ حضرت عمر نے اپنی اس بات کو دو تین مرتبہ دہرایا تو حضرت بشیر بن سعد نے فرمایا: اگر آپ ایسا کریں گے تو ہم آپ کو ایسا سیدھا کردیں گے جیسے تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے۔ اس پر حضرت عمر نے (خوش ہو کر) فرمایا: پھر تو تم لوگ ہی (امیر کی مجلس میں بیٹھنے کے قابل ہو) پھر تو تم لوگ ہی (امیر کی مجلس کے قابل ہو)۔ حضرت موسیٰ بن ابی عیسیٰ ؓ کہتے ہیں : حضرت عمر بن خطّاب ؓ قبیلہ بنو حارثہ کی پانی کی سبیل کے پاس آئے ، وہاں انھیں حضرت محمد بن مَسْلَمہ ؓ ملے۔ حضر ت عمر نے فرمایا: اے محمد! مجھے کیسا پاتے ہو؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ کو ویسا پاتا ہوں جیسا میں چاہتا ہوں اور جیسا ہر وہ آدمی چاہتا ہے جو آپ کے لیے بھلا چاہتا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مال جمع کرنے میں خوب زور دار ہیں ، لیکن آپ خود مال سے بچتے ہیں اور اسے انصاف سے تقسیم کرتے ہیں ۔ اگر آپ ٹیڑھے ہو گئے تو ہم آپ کو ایسا سیدھا کر دیں گے جیسے اَوزار سے تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے۔ حضرت عمر نے (خوش ہو کر) فرمایا: اچھا (تم مجھے کہہ رہے ہو کہ) اگر آپ ٹیڑھے ہو گئے تو ہم آپ کو سیدھا کر دیں گے جیسے اَوزار سے تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے۔ پھر فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ایسے لوگوں میں (امیر) بنا یا کہ میں اگر ٹیڑھا ہو جائوں تو وہ مجھے سیدھا کر دیں ۔ حضرت ابوقَبِیْل کہتے ہیں : حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ جمعہ کے دن منبر پر چڑھے اور اپنے خطبہ میں فرمایا: یہ اجتماعی مال ہمارا ہے، اور خراج کا مال اور لڑے بغیر ملنے والا مالِ غنیمت بھی ہمارا ہے، جسے چاہیں گے دیں گے اور جسے چاہیں گے نہیں دیں گے۔ اس پر کسی نے کچھ نہیں کہا۔ اگلے جمعہ کو بھی انھوں نے (خطبہ میں ) یہی بات کہی، پھر کسی نے کچھ نہیں کہا۔ جب تیسرا جمعہ آیا تو انھوں نے خطبہ میں پھر وہی بات کہی تو حاضرینِ مسجد میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: ہر گز نہیں ،یہ (اجتماعی) مال ہمارا ہے، اور یہ خِراج کا مال اور مالِ غنیمت ہمارا ہے، لہٰذا جو ہمارے اور اس کے درمیان حائل ہوگا ہم اپنی تلواروں سے اس کو اللہ کے فیصلہ کی طرف لے جائیں گے۔ حضرت معاویہ (منبر سے) نیچے اُتر آئے اور اس آدمی کو بلانے کے لیے پیغام بھیج دیا۔ (اور جب وہ آگیا تو) اسے اندر بلا لیا۔ لوگ کہنے لگے: یہ آدمی تو ہلاک ہو گیا۔ پھر لوگ اندر گئے تو انھوں نے دیکھا کہ وہ آدمی تو حضرت معاویہ کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہوا ہے۔ حضرت معاویہ نے لوگوں سے کہا: اس آدمی نے مجھے زندہ کردیا، اللہ اسے زندہ رکھے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میرے بعد ایسے امیر ہوں گے کہ اگر وہ کوئی (غلط) بات کہیں گے توکوئی ان کی تردید نہ کر سکے گا۔ وہ آگ میں ایک دوسرے پر ایسے اندھا دُھند گریں گے جیسے (کسی درخت کے اوپر سے) بندر ایک دوسرے پر چھلانگ لگاتے ہیں ۔ چنانچہ میں نے پہلے جمعہ کو یہ (غلط) بات (قصداً) کہی تھی۔ کسی نے میری تردید نہیں کی، جس سے مجھے ڈر ہوا کہ کہیں میں (آگ میں گرنے والے) ان امیروں میں سے نہ ہوں ۔ پھر میں نے دوسرے جمعہ کو وہی بات دوبارہ کہی تو پھر کسی نے میری تردید نہ کی۔ اس پر میں نے اپنے دل میں کہا: میں تو ضرور ان ہی امیروں میں سے ہو ں ۔ پھر میں نے تیسرے جمعہ کو وہی بات تیسری مرتبہ کہی تو اس آدمی نے کھڑے ہو کر میری تردید کی۔ اس طرح اس نے مجھے زندہ کر دیا، اللہ تعالیٰ اسے زندہ رکھے۔ حضرت خالد بن حکیم بن حِزام ؓ کہتے ہیں : حضرت ابو عبیدہ ؓ ملکِ شام کے گورنر تھے۔ انھوں نے ایک مقامی ذِمی (کافر) کو (جزیہ نہ دینے پر) سزا دی۔ حضرت خالد (بن الولید ؓ ) نے کھڑے ہو کر حضرت ابو عبیدہ سے (سزا دینے کے بارے میں ) بات کی۔ لوگوں نے حضرت خالد سے کہا: آپ نے تو امیر کو ناراض کر دیا۔ انھوں نے کہا: میرا ارادہ تو انھیں ناراض کرنے کا نہیں تھا، بلکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں ایک حدیث سنی تھی وہ حدیث انھیں بتانا چاہتا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو دنیا میں لوگوں کو سب سے زیادہ سزا دیں گے۔ حضرت حسن ؓ کہتے ہیں : زِیاد نے حضرت حکم بن عمرو غِفاری ؓ کو (لشکر کا ا میر بناکر) خراسان بھیجا۔ ان کو وہاں بہت سا مالِ غنیمت ملا۔ زِیاد نے ان کویہ خط لکھا: اَمابعد! امیر المؤمنین (حضرت معاویہ ؓ ) نے (مجھے) یہ لکھا ہے کہ مالِ غنیمت میں سے سارا سونا چاندی ان کے لیے الگ کر لیا جائے، لہٰذا آپ سونا چاندی مسلمانوں میں تقسیم نہ کریں ۔ حضرت حَکم نے جواب میں زِیاد کو یہ خط لکھا: اَما بعد! تم نے مجھے خط لکھا ہے جس میں تم نے امیر المؤمنین کے خط کا تذکرہ کیاہے، لیکن مجھے اللہ کی کتاب امیر المؤمنین کے خط سے پہلے مل چکی ہے (اور امیر المؤمنین کا خط اللہ کے حکم کے خلاف ہے، اس لیے میں اسے نہیں مان سکتا)۔اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر سارے آسمان اور زمین کسی بندے پر بند ہوجائیں ، اور وہ آدمی اللہ سے ڈرتا رہے تواللہ تعالیٰ اس کے لیے ان کے درمیان میں سے نکلنے کا راستہ ضرور بنا دیں گے۔ والسلا م۔ اور حضرت حَکم نے ایک آدمی کو حکم دیا اس نے مسلمانوں میں یہ اعلان کیا کہ صبح اپنا مالِ غنیمت لینے کے لیے آجاؤ۔ (چنانچہ لوگ صبح آئے) اور انھوں نے مسلمانوں میں وہ سارا مالِ غنیمت (سونے چاندی سمیت) تقسیم کردیا۔ جب حضرت معاویہ کو پتہ چلاکہ حضرت حَکم نے مالِ غنیمت سارا تقسیم کردیاہے تو انھوں نے آدمی بھیجے جنھوں نے حضرت حَکم کے پائوں میں بیڑیاں ڈال کر قید کر دیا۔ اسی قید میں ان کا انتقال ہوا اور ان کو خراسان ہی میں دفن کیا گیا۔ انھوں نے یہ بھی فرما یا تھا کہ میں (اس بارے میں حضرت معاویہ ؓ سے اللہ کے ہاں ) جھگڑا کروں گا۔ ابنِ عبد البر نے اسی جیسی حدیث ذکر کی ہے، لیکن اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت حَکم نے مسلمانوں میں مالِ غنیمت تقسیم کر دیا اور اللہ سے یہ دعا مانگی کہ اے اللہ! (ان حالات میں ) اگر تیرے پاس میرے لیے خیر ہو تو تُو مجھے اپنی طرف بلالے۔ چنانچہ ان کا علاقۂ خراسان کے مَرْو شہر میں انتقال ہوگیا ۔ اور’’اِصابہ‘‘ میں یہ ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ جب اُن کے پاس زِیاد کی ناراضگی کا خط آیا تو انھوں نے اپنے لیے (مرنے کی) دعا کی اور ان کا انتقال ہوگیا۔ حضرت ابراہیم بن عطاء اپنے والد (حضرت عطاء) سے نقل کرتے ہیں کہ زِیاد یا ابنِ زِیاد نے حضرت عمران بن حصین ؓ کو صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ جب وہ واپس آئے تو ایک درہم بھی لے کر نہ آئے تو ان سے زِیاد یا ابنِ زِیاد نے کہا: مال کہاں ہے؟ انھوں نے کہا: کیا تم نے مجھے مال کے لیے بھیجا تھا؟ حضور ﷺ کے زمانہ میں جیسے ہم صدقات لیا کرتے تھے ویسے ہم نے صدقات لیے اور حضور ﷺ کے زمانہ میں جہاں خرچ کیا کرتے تھے وہاں ہم نے خرچ کر دیے (یعنی وہاں کے مستحقین میں تقسیم کر دیے)۔ امیر پر رعایا کے حقوق حضرت اَسود (بن یزید) ؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓ کے پاس کوئی وفد آتا تو ان سے ان کے امیر کے بارے میں پوچھتے کہ کیا وہ بیمار کی عیادت کر تا ہے؟ کیا غلام کی بات سنتا ہے؟ جو ضرور ت مند اس کے دروازے پر کھڑا ہو تا ہے اس کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟ اگر وفد والے ان باتوں میں سے کسی کے جواب میں ’’نہ‘‘کہہ دیتے تو اس امیر کو معزول کر دیتے۔ حضرت ابراہیم ؓ کہتے ہیں : جب حضرت عمر ؓ کسی کو (کسی علاقہ کا) گورنر بنا تے اور اس علاقہ سے ان کے پاس وفد آتا تو حضرت عمر اُن سے (اس گورنر کے بارے میں ) پوچھتے کہ تمہارا امیر کیسا ہے؟ کیا وہ غلاموں کی عیادت کرتا ہے؟ کیا وہ جنازے کے ساتھ جاتا ہے؟ اس کا دروازہ کیسا ہے؟ کیاوہ نرم ہے؟ اگر وہ کہتے کہ اس کا دروازہ نرم ہے (ہر ایک کو اندر جانے کی اجازت ہے) اور غلاموں کی عیادت کر تا ہے تب تو اسے گورنر رہنے دیتے ورنہ آدمی بھیج کر اس کو گورنری سے ہٹادیتے ۔ حضرت عاصم بن ابی نَجُود کہتے ہیں : حضرت عمر بن خطّاب ؓ جب اپنے گورنروں کو (مختلف علاقوں میں گورنر بنا کر) بھیجا کرتے تو اُن پر یہ شرطیں لگاتے کہ تم لوگ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوا کرو گے اور چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی نہیں کھایا کرو گے اور باریک کپڑا نہیں پہنا کرو گے اور حاجت مندوں پر اپنے دروازے بند نہیں کرو گے۔ اگر تم نے ان میں سے کوئی کام کر لیا تو تم سزا کے حق دار بن جائو گے۔ پھر رخصت کرنے کے لیے ان کے ساتھ تھوڑی دور چلتے۔ جب واپس آنے لگتے تو ان سے فرماتے: میں نے تم کو مسلمانوں کے خون (بہانے) پر اور ان کی کھال (ادھیڑنے) پر، اور انھیں بے آبرو کرنے پر، اور ان کے مال (چھیننے) پر مسلط نہیں کیا ہے، بلکہ میں تمہیں (اس علاقہ میں ) اس لیے بھیج رہا ہوں تا کہ تم وہاں کے مسلمانوں میں نماز قائم کرو اور ان میں ان کا مالِ غنیمت تقسیم کرو اور ان میں انصاف کے فیصلے کرو۔ اور جب تمہیں کوئی ایسا امر پیش آجائے جس کا حکم تم پر واضح نہ ہو تو اسے میرے سامنے پیش کرو۔ ذرا غور سے سنو! عربوں کو نہ مارنا اس طرح تم ان کو ذلیل کردو گے، اور ان کو اسلامی سرحد پر جمع کر کے وطن واپسی سے روک نہ دینا اس طرح تم ان کو فتنہ میں ڈال دو گے، اور ان کے خلاف ایسے جرم کا دعویٰ نہ کرنا جو انھوں نے نہ کیا ہو اس طرح تم ان کو محروم کردو گے، اور قرآن کو (احادیث وغیرہ) سے الگ اور ممتاز کر کے رکھنایعنی قرآن کے ساتھ حدیثیں نہ ملانا۔ حضرت ابوحُصَین سے اسی حدیث کے ہم معنیٰ مختصر حدیث مروی ہے، اور اس میں مزید یہ مضمون بھی ہے کہ قرآن کو الگ اور ممتاز کر کے رکھو، اور حضرت محمد ﷺ سے روایت کم کیا کرو اور اس کام میں میں تمہارا شریک ہوں ۔ اور حضرت عمر ؓ اپنے گورنروں سے بدلہ دلوایا کرتے تھے۔ جب ان سے ان کے کسی گورنر کی شکایت کی جاتی تو اس گورنر کو اور شکایت کرنے والے کو ایک جگہ جمع کرتے، (اور گورنر کے سامنے شکایت سنتے) اگر اس گورنر کے خلاف کوئی ایسی بات ثابت ہوجاتی جس پر اس کی پکڑ لازمی ہو تی تو حضرت عمر اس کی پکڑ فرماتے۔ حضرت ابو خُزیمہ بن ثابت ؓ کہتے ہیں : جب حضرت عمر ؓ کسی کو گورنر مقرر فرماتے تو اَنصار اوردوسرے حضرات کی ایک جماعت کو اس پر گواہ بنا تے اور اس سے فرماتے: میں نے تم کو مسلمانوں کا خون بہانے کے لیے گورنر نہیں بنایا ہے۔ آگے پچھلی حدیث جیسامضمون ہے۔ حضرت عبد الرحمن بن سابِط ؓ کہتے ہیں : حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے آدمی بھیج کر حضرت سعید بن عامر جمحی ؓ کو بلایا اور ان سے فرمایا: ہم تمہیں ان لوگوں کا امیر بنا رہے ہیں ۔ ان کو لے کر دشمن کے علاقہ میں جائو اور ان کو لے کردشمن سے جہا د کرو۔ انھوں نے کہا: اے عمر! آپ مجھے آزمایش میں نہ ڈالیں ۔ حضرت عمر نے فرمایا: میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ تم لوگ خلافت کی ذمہ داری میرے کندھوں پر ڈال کر مجھے اکیلا چھوڑ کر خود الگ ہو جانا چاہتے ہو۔ میں تمہیں ایسے لوگوں کا امیر بنا کر بھیج رہا ہوں کہ تم ان سے افضل نہیں ہو، اور میں تمہیں اس لیے بھی نہیں بھیج رہا ہوں کہ تم مار مار کر ا ن کی کھال ادھیڑ دو اور تم ان کی بے عزتی کرو، بلکہ اس لیے بھیج رہا ہوں کہ تم ان کو لے کر ان کے دشمن سے جہاد کرو اوران کا مالِ غنیمت ان میں تقسیم کرو۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ نے فرمایا: (اے لوگو!) امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے مجھے تمہارے پاس اس لیے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں تمہارے ربّ کی کتاب اور تمہارے نبی کریم ﷺ کی سنت سکھائوں اور تمہارے لیے تمہارے راستے صاف کردوں ۔ جاری ھے ان شاء اللہ
❤️ 5

Comments