
{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
February 28, 2025 at 02:08 AM
کتاب زبدةالفقہ
قسط نمبر 131
قربانی کی اہمیت
قربانی ایک عظیم الشان عبادت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے شروع ہوئی اور اُمتِ محمدیہ علی صاحبہا السلام تک مشروع چلی آرہی ہے، ہر مذہب وملت کا اس پرعمل رہا ہے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے:
’’وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللہ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ‘‘الآیۃ سورۃ حج:34
ترجمہ: ہم نےہر امت کےلئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپائیوں کےمخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نےعطاء فرمائے۔
قربانی کاعمل اگرچہ ہرامت میں جاری رہا ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں خصوصی اہمیت اختیار کر گیا، اسی وجہ سے اسے ’’سنتِ ابراہیمی‘‘کہاگیاہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محض خدا کی رضامندی کے لیے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کیلئے پیش کیا تھا۔ اسی عمل کی یاد میں ہر سال مسلمان قربانیاں کرتے ہیں۔
اس قربانی سے ایک اطاعت شعار مسلمان کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ رب کی فرمانبرداری اور اطاعت میں ہرقسم کی قربانی کے لئے تیار رہے اورمال ومتاع کی محبت کو چھوڑ کرخالص اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا کرے۔نیز قربانی کرتے وقت یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ قربانی کی طرح دیگر تمام عبادات میں مقصود رضاء الٰہی رہے،غیر کےلیے عبادت کاشائبہ تک دل میں نہ رہے۔ گویا مسلمان کی زندگی اس آیت کی عملی تفسیر بن جا ئے.
’’اِنَّ صَلاَ تِی وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَا تِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔‘‘سورۃ انعا م:162
تر جمہ: میری نماز، میری قربانی، میرا جینا ،میرامرنا،سب اللہ کی رضا مندی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کاپالنے والا ہے۔
قربانی کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشگی فرمائی ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔
’’اَقَامَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ عَشَرَسِنِیْنَ یُضَحِّیْ‘‘ (جامع الترمذی:ج 1، ص:409: ابواب الاضاحی)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا(اس قیام کے دوران) آپ قربانی کرتے رہے۔
قربانی کے فضائل:
کئی احادیث میں قربانی کے فضائل وارد ہیں، چند یہ ہیں:
(1):عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَارَسُوْلَ اللہِ! مَا ھٰذِہِ الاَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلاَم قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ۔(سنن ابن ماجہ ص 226 باب ثواب الاضحی)
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا:یارسول اللہ!یہ قربانی کیا ہے؟(یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت (اور طریقہ) ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا کہ ہمیں اس قربانی کے کرنے میں کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کےبدلے میں ایک نیکی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (پھر سوال کیا) یا رسول اللہ!اون (کے بدلے میں کیا ملے گا) فرمایا:اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔
(2) ’’عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَاعَمِلَ آدَمِیٌ مِنْ عَمَلٍ یَوْ مَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ اَنَّہْ لَیَتَأ تِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلاَفِھَا وَاِنَّ الدَّمَّ یَقَعُ مِنَ اللہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ مِنَ الْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْساً‘‘ (جا مع تر مذی ج1ص275 با ب ما جاء فی فضل الاضحیہ)
ترجمہ: عید الاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نز دیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں،سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کےہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، لہذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔
(3) ’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اُنْفِقَتِ الْوَرَقُ فِیْ شَئْیٍ اَفْضَلُ مِنْ نَحِیْرَۃٍ فِیْ یَوْ مِ الْعِیْدِ۔‘‘(سنن الدارقطنی ص774باب الذبا ئح ،سنن الکبریٰ للبیہقی ج9 ص 261)
تر جمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:کسی خرچ کی فضیلت اللہ تعا لیٰ کے نزدیک بہ نسبت اس خرچ کے جو بقرہ عید والے دن قربانی پر کیا جا ئے ہرگز نہیں۔
قربانی کے مسائل: قربانی واجب ہے
ہر صاحبِ نصاب پر قربانی کرنا واجب ہے۔ اس بارے میں قر آن وسنت میں کئی دلائل موجود ہیں۔ چند یہ ہیں:
(1)’’فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ‘‘(الکوثر:2)
ترجمہ: آپ اپنے رب کی نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔
مشہورمفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں۔
’’قَالَ عِکْرَمَۃُ وَعَطَا ئُ وَقَتَا دَۃُ فَصَلِّ لِرَ بِّکَ صَلوٰۃُ الْعِیْدِ یَوْمَ النَّحْرِ وَنَحْرُ نُسُکِکَ فَعَلیٰ ھٰذَا یَثْبُتُ بِہِ وُجُوْبُ صَلوٰۃِ الْعِیْدِ وَ الْاُضْحِیَّۃِ ‘‘(تفسیرمظہری :ج:10:ص:353)
ترجمہ: حضرت عکرمہ،حضرت عطاء اورحضرت قتادۃ رحمہم اللہ فرماتےہیں کہ ’’فَصَلِّ لِرَ بِّکَ‘‘ میں’’فصل‘‘سے مراد’’عید کی نماز‘‘ اور ’’وانحر‘‘سے مراد ’’قربانی ‘‘ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نماز عید اور قربانی واجب ہے۔
(2)علامہ ابو بکر جصاص رحمہ اللہ اپنی تفسیر’’احکام القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں۔
’’قَالَ الْحَسَنُ صَلوٰۃُ یَوْمِ النَّحْرِ وَنَحْرُ الْبَدَنِ …قَالَ اَبُوْ بَکْرٍ ھٰذَاالتَّاوِیلُ یَتَضَمَّنُ مَعْنَیَیْنِ؛اَحَدُھُمَا اِیْجَابُ صَلوٰۃِ الْاَضْحیٰ وَالثَّانِیْ وُجُوْبُ الْاُضْحِیَّۃِ‘‘(احکا م القر آن للجصا ص ج3ص 419 تحت سورۃ الکوثر)
ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فر مایاکہ اس آیت ’’فَصَلِّ لِرَ بِّکَ‘‘ میں جو نماز کا ذکر ہے اس سے عید کی نماز مراد ہے اور ’’وانحر‘‘سےقربانی مراد ہے۔ حضرت ابو بکر جصا ص رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ اس سے دو با تیں ثا بت ہو تی ہیں :
1: عید کی نماز واجب ہے۔ 2: قربانی واجب ہے۔
(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
’’اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ کَا نَ لَہُ سَعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلاَ یَقْرَبَنَّ مُصَلَّا نَا‘‘
(سنن ابن ماجہ ص226باب الاضاحی ھی واجبۃ ام لا،مسنداحمد ج2ص321 رقم8254، السنن الکبریٰ ج9ص260کتاب الضحایا،کنز العمال رقم 12261)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کر ے تو وہ ہما ری عید گاہ کے قر یب نہ بھٹکے۔
وسعت کے با وجود قربانی نہ کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سخت وعید ارشاد فر ما ئی اور وعید ترک واجب پر ہو تی ہے۔ تومعلوم ہوا قربانی واجب ہے۔
(4) حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
’’کُنَّاوُ قُوْفاً عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَۃَ فَقَالَ یَااَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ عَلٰی کُلِّ اَہْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَۃً وَعَتِیْرَۃً‘‘
(سنن ابن ماجہ ص226باب الاضاحی ھی واجبۃ ام لا،سنن نسا ئی ج2ص 188)
تر جمہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:اے لوگو ! ہرگھروالوں پر ہر سال قربانی اور عتیرہ واجب ہے۔
اس حدیث سے دوقسم کی قربانیوں کا حکم معلوم ہوا ایک عید الاضحیٰ کی قربانی اور دوسرا عتیرہ۔
فا ئدہ: ’’عتیرہ ‘‘اس قربانی کو کہا جاتا ہے جو زمانہ جاہلیت میں رجب کے مہینے میں بتوں کے نام پر ہوتی تھی پھراسلام آنے کے بعد اللہ تعالی کے نام پر ہونے لگی، لیکن بعد میں اسے منسوخ فرمادیاگیا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
’’نَھیٰ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْفَرْعِ وَالْعَتِیْرَۃِ‘‘(سنن النسائی ج2 ص188 کتا ب الفرع والعتیرہ)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرع اور عتیرہ سے منع فرما دیا۔
فائدہ: ’’فرع‘‘ اس بچہ کو کہا جاتا تھا جو اونٹنی پہلی مرتبہ جنتی تھی اور اس کو بتوں کے نام پر قربان کیا جاتا تھا، ابتدا اسلام میں یہ اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح ہوتی رہی لیکن بعداسے میں منسوخ کر دیا گیا۔(زھر الربیٰ علی النسائی للسیوطی ج2 ص188)
(5) حضرت جندب بن سفیا ن البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں۔
’’شَھِدْتُّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْ مَ النَّحْرِ فَقَالَ : مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلوٰۃِ فَلْیُعِدْ مَکَانَھَا اُخْریٰ وَمَنْ لَّمْ یَذْ بَحْ فَلْیَذْبَحْ‘‘
(صحیح البخاری ج2ص843 باب من ذبح قبل الصلوٰۃ اعاد)
ترجمہ: میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عید الاضحی کےدن حاضر ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے عید کی نماز سے پہلے (قربانی کا جانور) ذبح کر دیا تو اسے چاہیے کہ اس جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے (عید کی نماز سے پہلے ) ذبح نہیں کیا تو اسے چا ہئے کہ (عید کی نماز کے) بعد ذبح کر ے۔
اس میں آپ علیہ السلام نے عید سے پہلے قربانی کرنے کی صورت میں دوبارہ لوٹانے کا حکم دیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی واجب ہے۔
قربانی کس پر واجب ہے
جس مرد وعورت میں قربانی کے ایام میں درج ذیل باتیں پائی جاتی ہوں اس پر قربانی واجب ہے:
(1) مسلمان ہو۔
دلیل:’’ لِاَنَّھَا قُرْ بَۃٌ وَالْکَافِرُ لَیْسَ مِنْ اَہْلِ الْقُرَبِ‘‘(بدائع الصنائع:ج4،ص195)
قربانی عبادت و قربت کا نام ہے اور کافر عبادت اور قربت کا اہل نہیں۔
(2) آزاد ہو۔
دلیل:’’لِاَنَّ الْعَبْدَ لَا یَمْلِکُ‘‘(البحر الرائق:ج2 ،ص:271)
تر جمہ:قربانی غلام پر واجب نہیں کیو ں کہ وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔
(3) صاحب نصاب ہو۔
دلیل:’’عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَ لَہُ سَعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا ‘‘
(سنن ابن ماجہ:ص226)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:جس شخص کو وسعت ہو اس کے باوجود قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔
معلوم ہوا کہ قربانی کےلیے صاحب ِوسعت ہونا ضروری ہےجسے ’’صاحب نصاب‘‘ سےتعبیر کیاجاتا ہے۔ (اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے)
(4) مقیم ہو،مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
دلیل:’’عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ لَیْسَ عَلَی الْمُسَا فِرِ اُضْحِیَّۃٌ‘‘(المحلیٰ بالآثار لابن حزم:ج6،ص37،مسئلہ نمبر979)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
قربانی کا نصا ب
قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو نصاب صدقۃ الفطر کے واجب ہونے کا ہے۔
(الفتاویٰ الہندیہ:ج5ص360، کتاب الاضحیہ)
پس جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا تجارت کا سامان یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں یا بعض کامجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو ایسے مردو عورت پر قربانی کرنا واجب ہے۔(الجوہرۃ النیرۃ:ج1ص160،باب من یجوز دفع الصدقۃ الیہ ومن لایجوز)
یاد رہے کہ وہ اشیاء جو ضرورت و حاجت کی نہ ہوں بلکہ محض نمود ونمائش کی ہوں یا گھروں میں رکھی ہوئی ہوں اور سارا سال استعمال میں نہ آتی ہوں تو وہ بھی نصاب میں شامل ہوں گی۔
(بدائع الصنائع ج2ص،158،ردالمحتارج3ص346باب مصرف الزکوٰۃ والعشر)
قربانی کے جانور
جوجانور قربانی کے لیے ذبح کئے جا سکتے ہیں :بھیڑ،بکری،گائے، بھینس،اونٹ(نر،مادہ) ہیں۔
دلیل :قال اللہ تعالیٰ: ’’ثَمَانِیَۃَ اَزْوَاجٍ مِّنَ الضَاْ نِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ … وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ‘‘
(انعام: 143، 144)
ترجمہ: آٹھ جانور ہیں دو بھیڑوں میں سے اور دو بکریوں میں سے ، دو اونٹوں میں سے اور دو گائیوں میں سے۔
فائدہ: قربانی کے جانوروں میں بھینس بھی داخل ہے کیونکہ یہ بھی گائے کی ایک قسم ہے ،لہذا بھینس کی قربانی بھی جائز ہے۔
اجماع امت :
’’وَاَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّ حُکْمَ الْجَوَامِیْسِ حُکْمُ الْبَقَرِ۔‘‘(کتاب الاجماع لابن المنذر:ص37)
ترجمہ: ائمہ حضرات کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے۔
لغت:
’’اَلْجَا مُوْسُ ضَرْبٌ مِّنْ کِبَا رِ الْبَقَرِ‘‘(المنجد:ص101)
ترجمہ: بھینس گائے کی ایک قسم ہے۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے۔
’’اَلْجَا مُوْسُ بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ:ج7،ص65 رقم:10848)
تر جمہ: بھینس گائے کے درجہ میں ہے۔
امام مالک بن انس مدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’اِنَّمَا ھِیَ بَقَرٌ کُلُّہَا‘‘(مؤطا امام مالک:ص294 ،باب ما جا ء فی صدقۃ البقر)
ترجمہ: یہ بھینس گائے ہی ہے(یعنی گائے کے حکم میں ہے)
ایک مقام پرفرماتے ہیں۔
’’اَلْجَوَامِیْسُ وَالْبَقَرُ سَوَائٌ‘‘(کتاب الاموال لابن عبید:ج2،ص385،رقم:812)
ترجمہ: گائے اور بھینس برابر ہیں (یعنی ایک قسم کی ہیں)
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’تُحْسَبُ الْجَوَا مِیْسُ مَعَ الْبَقَرِ‘‘(مصنف عبدالرزاق:ج4ص23،رقم الحدیث:6881)
ترجمہ: بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیا جائے گا۔
فائدہ: حلال جانور کے سات اعضاء کھانا مکروہ ہیں۔
دلیل:
عَنْ مُجَاھِدٍقَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکْرَہُ مِنَ الشَّاۃِ سَبْعًا،اَلدَّمَ وَالْحَیَائَ وَالْاُنْثَیَیْنِ وَالْغُدَّ وَالذَّکَرَ وَالْمَثَانَۃَ وَالْمَرَارَۃَ(مصنف عبدالرزاق ج4ص409،سنن الکبری للبیہقی:ج10،ص7)
ترجمہ: حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بکری کے سات اعضاء کھانے کوپسند نہیں کرتے تھے۔
(1)خون(2)مادہ جانور کی شرمگاہ (3)خصیتین (4)غدود(5)نرجانورکی پیشاب گاہ (6)مثانہ (7)پِتَّہ
(5)جانورکی عمر:
قربانی کے جانوروں میں بھیڑ،بکری ایک سال،گائے،بھینس دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے،البتہ وہ بھیڑ اور دنبہ جو دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
دلیل: ’’عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّۃً اِلَّا اَنْ یُّعْسَرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْ بَحُوْا جَذْ عَۃً مِّنَ الضَأنِ‘‘(صحیح مسلم:ج2،ص155باب سن الاضحیہ)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قربانی کے لیے عمر والا جانور ذبح کرو ،ہاں اگر ایسا جانور میسر نہ ہو تو پھر چھ ما ہ کا دنبہ ذبح کرو جو سال کا لگتا ہو۔
اس حدیث میں دو باتیں قابل غور ہیں:
نمبر1: اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کے جانور کے لیے لفظ ’’مسنہ‘‘ استعمال فرمایا ہے،بقول امام ترمذی رحمہ اللہ فقہاء کرام احادیث کے معانی ومطالب زیادہ جانتے ہیں۔ (جامع الترمذی:ج1،ص193 باب غسل المیت)
چنانچہ جمہور فقہاء کرام رحمہم اللہ نے ’’مسنہ ‘‘ کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ اس سے مراد ’’الثنی‘‘ یعنی وہ جانور ہے جس میں عمر کا لحاظ رکھا گیا ہو، چنانچہ بھیڑ،بکری ایک سال کی ہو،گائے اوربھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو۔ چند تصریحات ملاحظہ ہوں:
(1)مشہور محدث وفقیہ علامہ ابوالحسین القدوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔
’’اِنَّ الْفُقَہَائَ قَالُوْا…وَالثَّنی[مِنَ الْغَنَمِ اِبْنُ سَنَۃٍ] وَالثَّنی مِنْہُ [مِنَ الْبَقَرِ ]اِبْنُ سَنَتَیْنِ وَالثَّنی[مِنَ الْاِبِلِ ] اِبْنُ خَمْسٍ‘‘(الفتاویٰ عالمگیریہ:ج5،ص367)
ترجمہ: حضرات فقہاء کرام یہ فرماتے ہیں کہ بھیڑ،بکری ایک سال کی، گائے دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہو۔
(2)محدث وفقیہ علامہ زین الدین ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’وَالثَّنی مِنَ الضَّأ نِ وَالْمَعْزِ اِبْنُ سَنَۃٍ وَمِنَ الْبَقَرِ اِبْنُ سَنَتَیْنِ وَمِنَ الْاِبِلِ اِبْنُ خَمْسِ سِنِیْنَ‘‘
(البحر الرائق:ج8ص201 کتاب الاضحیہ)
ترجمہ: بھیڑاوربکری ایک سال کی،گائے دوجبکہ اونٹ پانچ سال کا ہو۔
اور یہی تعریف مندرجہ ذیل کتب میں بھی موجود ہے:
(1)بذل المجہود:ج4ص71 (2) تکملہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم:ج3ص558
نمبر2: مذکورہ حدیث میں’’مسنہ‘‘ نہ ملنے کی صورت میں’’جَذْعَۃٌ مِّنَ الضَّأنِ‘‘ کا حکم فرمایا اس سے مراد وہ دنبہ ہے جو چھ ماہ کا ہو۔مگر دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو۔چنانچہ علامہ زین الدین ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’وَقَالُوْا ھٰذَا اِذَاکَانَ الْجَذَعُ عَظِیْماً بِحَیْثُ لَوْخَلَطَ بِالثَّنِیَّاتِ یَشْتَبِہُ عَلَی النَّا ظِرِیْنَ وَالْجَذَعُ مِنَ الضَّأ نِ مَا تَمَّتْ لَہُ سِتَّۃُ اَشْھُرٍ عِنْدَ الْفُقَہَاء‘‘(البحر الرائق:ج8ص202 کتاب الاضحیہ)
ترجمہ: حضرات فقہاء فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ دنبہ ہے جو اتنا بڑا ہو اگراس کوسال والے دنبوں میں ملا دیا جائے تو دیکھنے میں سال والوں کے مشابہ ہو اور حضرات فقہاء کے نزدیک جذع (دنبہ) وہ ہے جو چھ ماہ مکمل کر چکا ہو۔
جاری ھے ان شاء اللہ
❤️
👍
5