{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
{🌹} تبلیغی بیانات {🌹}
February 28, 2025 at 06:25 PM
کتاب: تاریخِ اسلام قسط نمبر 172 سیدنا عثمان غنی ؓ اشاعت قرآن مجید سیدنا حذیفہ بن الیمان ؓ جب بصرہ‘ کوفہ‘ رے ‘ شام وغیرہ ہوتے ہوئے مدینہ منورہ میں واپس تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ عراق والے قرآن مجید کو ایک اور قرات پر پڑھتے اور شام والے کسی دوسری قرات کو پسند کرتے ہیں ‘ بصرہ والوں کی قرات کوفہ والوں سے اور کوفہ والوں کی قرات فارس والوں سے الگ ہے‘ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب کو ایک ہی قرات پر جمع کیا جائے‘ سیدنا عثمان غنی ؓ نے صحابہ کرام کو جمع کر کے مجلس مشاورت منعقد کی‘ سب نے حذیفہ بن الیمان ؓ کی رائے کو پسند کیا‘ اس کے بعد سیدنا عثمان غنی ؓ نے سیدنا حفصہ ؓ کے پاس سے قرآن مجید کا وہ نسخہ منگوایا جو خلافت صدیقی میں سیدنا زید بن ثابت ؓ اور دوسرے صحابہ کے زیر اہتمام جمع اور مرتب ہوا تھا‘ اور اول سیدنا ابوبکرصدیق ؓ کے پاس‘ پھر ان کے بعد فاروق اعظم ؓ کے زیر تلاوت رہا‘ اور فاروق اعظم کی شہادت کے بعد سیدنا حفصہ کے پاس تھا‘ اس قرآن مجید کی نقل اور کتابت پر عثمان غنی ؓ نے کئی معقول و موزوں حضرات کو مامور کیا‘ جب بہت سی نقلیں تیار ہو گئیں تو ایک ایک نسخہ بڑے بڑے شہروں میں بھیج کر ساتھ ہی حکم بھیجا کہ سب اسی کے موافق قرآن مجید نقل کرائیں ‘ اور پہلی جو نقل جس کسی کے پاس ہو وہ جلا دی جائے‘ کوفہ میں جب قرآن مجید پہنچا تو صحابہ کرام بہت خوش ہوئے‘ لیکن عبداللہ بن مسعود ؓ نے اپنی ہی قرات پر اصرار کیا۔ ۳۱ ھ کے واقعات دربار خلافت سے جو احکام جاری ہوئے ان کے موافق ہرم بن حسان یشکری‘ ھرم بن حیان العندی ‘ حرث بن راشد بلاد فارس کے اضلاع میں ‘ احنف بن قیس خراسان میں اور حبیب بن قرہ مرو میں خالد بن عبداللہ بلخ میں ‘ قیس بن ہبیرہ طوس میں عامل مقرر ہوئے‘ خراسان کے کئی شہروں میں بغاوت نمودار ہوئی‘ عبداللہ بن عامر ؓ نے فوج کشی کر کے تمام بغاوتوں کو فرو کیا پھر نیشاپور پر چڑھائی کر کے وہاں کے سرکشوں کو درست کیا‘ نیشا پور سے فارغ ہو کر سیدنا عبداللہ بن عامر ؓ نے ایک لشکر سرخس کی طرف روانہ کیا اور ایک جمعیت لے کر خود ہرات کی جانب گئے‘ ہرات کو فتح کر کے بلخ و طبرستان کی بغاوتوں کو فرو کیا‘ اس کے بعد کرمان سبحستان اور فارس کے صوبوں میں جا کر وہاں کے تمام سرکشوں کو مطیع و منقاد کیا‘ اس طرح تمام بلاد ایران و عراق میں عبداللہ بن عامر کی دھاک بیٹھ گئی اور لوگ ان کے نام سے خوف کھانے لگے۔ یزد جرد کی ہلاکت ایرانی سلطنت تو فاروق اعظم ؓ ہی کے عہد خلافت میں برباد ہو چکی تھی‘ سلطنت کے بعض سرحدی صوبے یا بعض شہر جو باقی تھے وہ خلافت عثمانی میں مسخر ہو گئے تھے‘ لیکن یرد جرد شاہ فارس کی حالت یہ تھی کہ کبھی رے میں ہے‘ کبھی بلخ میں ‘ کبھی مرد میں ہے تو کبھی افہان میں ‘ کبھی اصطخر میں ہے تو کبھی جیحون کو عبور کر کے ترکستان میں چلا گیا ہے‘ کبھی چین میں ہے کبھی پھر فارس کے اضلاع میں آ گیا ہے‘ غرض اس کے ساتھ کئی ہزار ایرانیوں کی جمعیت تھی‘اور وہ اپنی خاندانی عظمت اور ساسانی اقتدار و بزرگی کی بدولت لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا اور لوگ بھی اس توقع میں کہ شاید اس کا ستارہ اقبال پھر طلوع ہو اس کے ساتھ ہو جاتے تھے‘ یہی سب سے بڑی وجہ تھی کہ ایران کے اکثر صوبوں ‘ ضلعوں اور شہروں میں کئی کئی مرتبہ بغاوت ہوئی اور مسلمان سرداروں نے اس کو بار بار فرو کیا۔ اس مرتبہ یعنی ۳۱ ھ میں یزد جرد چین و ترکستان کی طرف سے ایک جمعیت کے ساتھ نواح بلخ میں آیا‘ یہاں اس نے بعض شہروں پر چند روز قبضہ حاصل کر لیا‘ لیکن اس کے اقبال کی نحوست نے اس کو وہاں سے ناکام فرار ہونے اور مسلمانوں کی قید میں پڑنے کے ڈر سے بھاگ کر ایک پن چکی والے کی پناہ میں جانے پر مجبور کیا‘ پن چکی والے نے اس کے قیمتی لباس کے لالچ میں جب کہ وہ سو رہا تھا قتل کر دیا‘ اور لباس و زیور اور ہتھیار وغیرہ اتار کر اس کی لاش کو پانی میں ڈال دیا‘ یہ واقعہ نواح مرو میں مقام مرغاب کے متصل ۲۳ اگست ۶۵۱ء کو وقوع پذیر ہوا۔ یزد جرد کے چار سال تو عیش و عشرت کی حالت میں گذرے‘ سولہ برس تباہی اور آوارگی کے عالم میں بسر ہوئے‘ ان سولہ برس میں آخری دس سال مفروری کے عالم میں گذرے‘ اس کے بعد ایرانی فتنے سب فرو ہو گئے۔ اسی سال محمد بن ابی حذیفہ ؓ اور محمد بن ابی بکر نے جو مصر میں والی مصر عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کے پاس مقیم تھے عبداللہ بن سعد سے مخالفت و ناخوشی کا اظہار کیا‘ عبداللہ بن سعد کے ساتھ ان دونوں بزرگوں کی ناخوشی بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچی کہ انہوں نے علانیہ سیدنا عثمان غنی ؓ پر اعتراض و طعن کیا کہ انہوں نے عبداللہ بن سعد جیسے شخصوں کو جن سے رسول اللہ ﷺ ناخوش رہے صوبوں کا گورنر بنا رکھا ہے اور ان کی زیادتیاں اور مظالم دیکھ کر بھی معزول نہیں کرتے۔ ۳۲ ھ کے واقعات ۳۱ ھ کے ماہ ذی الحجہ میں جب عبداللہ بن عامر حج بیت اللہ کے لیے خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوئے‘ تو ملک ایران کے ایک ایرانی سردار مسمیٰ قارن نے ملک کے مختلف صوبوں سے چالیس ہزار کا ایک لشکر جمع کر کے ایران کے صوبوں پر قبضہ کر لینے کا مناسب موقع پایا‘ قارن کی اس شرارت و دلیری کے مقابلہ میں عبداللہ بن حازم ایک سردار نے صرف چند ہزار مسلمانوں کی جمعیت سے وہ کار نمایاں کیا کہ ایرانیوں کو سخت ترین ذلت و نامرادی کے ساتھ شکست کھانی پڑی‘ عبداللہ بن حازم اپنی تین چار ہزار کی جمعیت کو لے کر ایرانیوں کے چالیس ہزار لشکر کی طرف روانہ ہوئے‘ قریب پہنچ کر انہوں نے مجاہدین کو حکم دیا کہ اپنے اپنے نیزوں پر کپڑا لپیٹ دیں اور کپڑے تیل یا چربی سے تر کر لیں ‘ جب لشکر قارن کے قریب پہنچا تو شام ہو کر رات ہو چکی تھی‘ عبداللہ بن حازم نے حکم دیا کہ تمام نیزوں کے کپڑوں کو آگ لگا دیں اور دشمن پر حملہ آور ہوں اس اچانک حملہ آوری اور ان مشعلوں کی روشنی کو دیکھ کر ایرانی حواس باختہ ہو کر بھاگے اور کسی کو مقابلہ کرنے کا ہوش نہ رہا‘ مسلمانوں نے بہتوں کو قتل اور بہتوں کو گرفتار کیا‘ بہت سے اپنی جان بچا کر لے گئے اور بچ کر نکل گئے‘ عبداللہ بن عامر حج بیت اللہ سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ سیدنا عثمان کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے تھے۔ بعض روایات کے بموجب سیدنا عبدالرحمن بن عوف نے ۷۵ برس کی عمر میں اس سال یعنی ۳۲ ھ میں وفات پائی اور بہت سی دولت اور اولاد چھوڑی۔ ۳۳ ھ کے واقعات ولید بن عقبہ کی معزولی کے بعد کوفہ کی گورنری پر سعید بن العاص مقرر ہوئے تھے‘ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے‘ سعد بن العاص ؓ نے کوفہ میں پہنچ کر اہل کوفہ کی دل جوئی اور مدارات میں کوئی کوتاہی نہ کی‘ مالک بن حارث نخعی جو مالک بن اشتر کے نام سے مشہور ہے‘ ثابت بن قیس ہمدانی‘ اسود بن یزید‘ علقمہ بن قیس‘ جندب بن زہیر‘ جندب بن کعبہ ازدی‘ عروہ بن الجعد ‘ عمروبن الحمق خزاعی‘ صعصعہ وزید پسران سوحان بن عبدی‘ کمیل بن زیاد وغیرہم‘ سب سعید بن العاص کی صحبت میں آ کر بیٹھتے اور بے تکلفانہ باتیں کرتے‘ کبھی ہنسی مذاق کی باتیں بھی ہو جاتیں ‘ ایک روز سعید بن العاص گورنر کوفہ کی زبان سے نکلا کہ یہ علاقہ تو قریش کا باغ ہے‘ یہ سن کر مالک اشتر نے فوراً غصہ کے لہجہ میں کہا‘ کہ جس علاقہ کو اللہ تعالیٰ نے ہماری تلواروں کے زور سے فتح کیا ہے تم اس کو اپنی قوم کا بستان خیال کرتے ہو‘ ساتھ ہی دوسرے لوگوں نے بھی اس قسم کی باتیں شروع کیں ‘ شور و غل بلند ہوا تو عبدالرحمن اسدی نے لوگوں کو شورو غل مچانے سے منع کیا‘ اس پر سب نے مل کر عبدالرحمن کو مارا اور اس قدر زد و کوب کیا کہ بیچارہ بیہوش ہو گیا‘ اس واقعہ کے بعد سعید بن العاص نے رات کی صحبت موقوف کر کے دربان مقرر کر دئیے کہ لوگوں کو آنے سے باز رکھیں اس رات کی روزانہ مجلس کے برخاست ہونے کا لوگوں کو بہت ملال ہوا اور اب عام طور پر جہاں دو چار آدمی مل کر بیٹھتے یا کھڑے ہوتے سعید بن العاص کی اور ان کے ساتھ سیدنا عثمان غنی ؓ کی بھی شکایات زبان پر لاتے‘ ان شکایت کرنے والوں کے گرد اور بہت سے بازاری آدمی جمع ہو جاتے۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ طویل ہوا اور فتنہ بڑھنے لگا تو سعید بن العاص نے یہ تمام روئیداد سیدنا عثمان غنی کی خدمت میں لکھ کر بھیج دی‘ عثمان غنی ؓ نے جواباً سعید بن العاص کو لکھا کہ ان لوگوں کو کوفہ سے شام کی طرف امیر معاویہ ؓ کے پاس بھیج دو‘ چنانچہ سعید بن العاص ؓ نے سب کو شام کی طرف روانہ کر دیا‘ وہاں سیدنا امیر معاویہ ؓ نے ان کی خوب خاطر مدارت کی‘ ان کے ساتھ ہی بیٹھ کر کھانا کھاتے اور سب کا روزینہ بھی مقرر کر دیا‘ بات یہ تھی کہ سیدنا عثمان غنی نے سیدنا معاویہ ؓ کو لکھ دیا تھا کہ چند سرکش لوگوں کی ایک جماعت تمہاری طرف بھجوائی جاتی ہے تم کوشش کرو کہ وہ راہ راست پر آ جائیں ‘ اسی لیے امیر معاویہ نے ان لوگوں کے ساتھ نہایت محبت و ہمدردی کا برتائو کیا‘ چند روز کے بعد انہوں نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ قریش کی سیادت کو تسلیم کریں اور مسلمانوں کے باہمی اتفاق کو درہم برہم نہ ہونے دیں ‘ لیکن صعصہ بن صوحان نے امیر معاویہ کی نہایت معقول اور ہمدردانہ باتوں کا بہت ہی غیر معقول اور سراسر نادرست جواب دیا اور اپنی ضد پر اڑا رہا‘ مجبوراً امیر معاویہ ؓ نے سیدنا عثمان غنی ؓ کو لکھا کہ یہ لوگ راہ راست پر آنے والے نظر نہیں آتے‘ سیدنا عثمان غنی ؓ نے ان کو لکھا کہ ان لوگوں کو حمص کی جانب عبدالرحمن بن خالد کے پاس بھیج دو‘ سیدنا امیر معاویہ ؓ نے ان کو حمص کی جانب روانہ کر دیا‘ عبدالرحمن بن خالد والی حمص نے ان کے ساتھ ان کے حسب حال سختی و درشتی کا برتائو کیا‘ حتی کہ اپنی مجلس میں ان کو بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں دی‘ چند روز کے بعد یہ لوگ سیدھے ہو گئے اور اپنی سابقہ سرکشی کی حرکات پر اظہار افسوس کیا‘ عبدالرحمن بن خالد نے اس کی اطلاع دربار خلافت کو لکھ کر بھیجی‘ وہاں سے اجازت آ گئی کہ اگر یہ لوگ اب کوفہ کی طرف جانا چاہیں تو جانے دو۔ عبداللہ بن سبا عبداللہ بن سبا المعروف بہ ابن السوداء شہر صنعا کا رہنے والا ایک یہودی تھا‘ وہ سیدنا عثمان غنی کے عہد خلافت میں یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کو دولت خوب حاصل ہوتی ہے اور اب یہی دنیا میں سب سے بڑی فاتح قوم بن گئی ہے مدینہ میں آیا اور بظاہر مسلمانوں میں شامل ہو گیا‘ مدینہ میں اس کا آنا اور رہنا بہت ہی غیر معروف اور ناقابل التفات تھا لیکن اس نے مدینہ میں رہ کر مسلمانوں کی اندرونی اور داخلی کمزوریوں کو خوب جانچا اور مخالف اسلام تدابیر کو خوب سوچا‘ انہیں ایام میں بصرہ کے اندر ایک شخص حکیم بن جبلہ رہتا تھا‘ اس نے یہ وطیرہ اختیار کیا کہ اسلامی لشکر کے ساتھ ھکسی فوج میں شریک ہو جاتا تو موقعہ پا کر ذمیوں کو لوٹ لیتا‘ کبھی کبھی اور لوگوں کو بھی اپنا شریک بناتا اور ڈاکہ زنی کرتا‘ اس کی ڈاکہ زنی کی خبریں مدینہ میں سیدنا عثمان غنی ؓ تک پہنچیں ۔ انہوں نے گورنر بصرہ کو لکھا کہ حکیم بن جبلہ کو شہر بصرہ کے اندر نظر بند رکھو اور حدود شہر سے باہر ہرگز نہ نکلنے دو‘ اس حکم کی تعمیل میں وہ بصرہ کے اندر محصور و نظر بند رہنے لگا‘ عبداللہ بن سبا حکیم بن جبلہ کے حالات سن کر مدینہ سے روانہ ہوا اور بصرہ میں پہنچ کر حکیم بن جبلہ کے مکان پر مقیم ہوا‘ یہاں اس نے حکیم بن جبلہ اور اس کے ذریعہ اس کے دوستوں اور دوسرے لوگوں سے مراسم پیدا کئے‘ اپنے آپ کو مسلمان اور حامی و خیر خواہ آل رسول ظاہر کر کے لوگوں کے دلوں میں اپنے منصوبے کے موافق فساد انگیز خیالات و عقائد پیدا کرنے لگا‘ کبھی کہتا کہ مجھ کو تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان اس بات کے تو قائل ہیں کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے لیکن اس بات کو نہیں مانتے کہ سیدنا محمد ﷺ بھی دنیا میں ضرور آئیں گے‘ چنانچہ اس نے لوگوں کو {اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَاد} (القصص : ۲۸/۸۵) کی غلط تفسیر سنا سنا کر اس عقیدہ پر قائم کرنا شروع کیا کہ سیدنا محمد کی مراجعت دوبارہ دنیا میں ضرور ہو گی‘ بہت سے احمق اس فریب میں آ گئے‘ پھر اس نے ان احمقوں کو اس عقیدے پر قائم کرنا شروع کیا کہ ہر پیغمبر کا ایک خلیفہ اور وصی ہوا کرتا ہے اور سیدنا محمد کے وصی سیدنا علی ؓ ہیں ۔ جس طرح رسول اللہ خاتم الانبیاء ہیں اسی طرح سیدنا علی خاتم الاوصیاء ہیں ‘ پھر اس نے علانیہ کہنا شروع کیا کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد سیدنا علی ؓ کے سوا دوسروں کو خلیفہ بنا کر بڑی حق تلفی کی ہے‘ اب سب کو چاہیے کہ سیدنا علی ؓ کی مدد کریں اور موجودہ خلیفہ کو قتل یا معزول کر کے سیدنا علی ؓ کو خلیفہ بنا دیں ۔ عبداللہ بن سبا یہ تمام منصوبے اور اپنی تحریک کی ان تمام تجویزوں کو مدینہ منورہ سے سوچ سمجھ کر بصرہ میں آیا تھا اور اس نے نہایت احتیاط اور قابلیت کے ساتھ بہ اقساط اپنی مجوزہ بد عقیدگیوں کو شائع کرنا اور لوگوں کے سامنے بیان کرنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ اس فتنے کا حال بصرے کے گورنر عبداللہ بن عامر کو معلوم ہوا تو انہوں نے عبداللہ بن سبا کو بلا کر پوچھا کہ تم کون ہو‘ کہاں سے آئے ہو اور یہاں کیوں آئے ہو‘ عبداللہ بن سبا نے کہا مجھ کو اسلام سے دلچسپی ہے‘ میں اپنے یہودی مذہب کی کمزوریوں سے واقف ہو کر اسلام کی طرف متوجہ ہوا ہوں اور یہاں آپ کی رعایا بن کر زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں ‘ عبداللہ بن عامر نے کہا کہ میں نے تمہارے حالات اور تمہاری باتوں کو تحقیق کیا ہے مجھ کو تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تم کوئی فتنہ برپا کرنا اور مسلمانوں کو گمراہ کر کے یہودی ہونے کی حیثیت سے جمعیت اسلامی میں افتراق و انتشار پیدا کرنا چاہتے ہو‘ چونکہ عبداللہ بن عامر کی زبان سے پتے کی باتیں نکل گئی تھیں ‘ لہذا اس کے بعد عبداللہ بن سبا نے بصرے میں اپنا قیام مناسب نہ سمجھا اور اپنے خاص الخاص راز دار اور شریک کار لوگوں کو وہاں چھوڑ کر اپنی بنائی ہوئی جماعت کے لیے مناسب تجاویز و ہدایات سمجھا کر بصرہ سے چل دیا اور دوسرے اسلامی فوجی مرکز یعنی کوفہ۱ میں آیا‘ یہاں پہلے سے ہی ایک جماعت سیدنا عثمان غنی ؓ اور ان کے عامل کی دشمن موجود تھی‘ عبداللہ بن سبا کو کوفہ میں آ کر بصرہ سے زیادہ بہتر موقع اپنی شرارتوں کو کامیاب بنانے کا ملا۔ عبداللہ بن سبا کو ایک طرف تو اسلام سے مخالفت تھی‘ دوسری طرف اس کو سیدنا عثمان غنی ؓ سے خاص ذاتی عداوت تھی اور وہ سیدنا عثمان غنی سے کوئی انتقام یا بدلہ لینے کا خواہشمند معلوم ہوتا تھا‘ کوفہ میں آ کر بہت جلد عبداللہ بن سبا نے اپنے زہدو اتقاء کا سکہ لوگوں کے دلوں پر بٹھا دیا‘ عام طور پر لوگ اس کو تعظیم و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے اور اس کا ادب و لحاظ کرنے لگے‘ جب کوفہ میں عبداللہ بن سبا کے پھیلائے ہوئے خیالات کا چرچا ہوا تو یہاں کے گورنر سعید بن العاص نے اس کو بلا کر ڈانٹا اور وہاں کے سمجھ دار اور شریف آدمیوں نے بھی اس کو مشنتبہ آدمی سمجھا‘ چنانچہ عبداللہ بن سبا کوفہ سے نکل کر شام کی طرف روانہ ہوا‘ مگر جس طرح بصرہ میں وہ اپنی ایک جماعت چھوڑ آیا تھا‘ اسی طرح کوفہ میں بھی اس نے اپنی ایک زبردست جماعت چھوڑی‘ جس میں مالک اشتر وغیرہ مذکورہ بالا اشخاص اور ان کے احباب و اقارب زیادہ تر شامل تھے۔ کوفہ سے جب وہ شام یعنی دمشق میں پہنچا تو یہاں اس کی دال زیادہ نہ گلی اور جلدی ہی اسے یہاں سے شہر بدر ہونا پڑا‘ عبداللہ بن سبا کی عداوت سیدنا عثمان غنی ؓ اور بنو امیہ سے دم بہ دم ترقی کر رہی تھی اور ہر جلاوطنی اس کے لیے ایک نیا میدان اور نیا موقع کامیابی کا پیدا کر دیتی تھی‘ شام سے خارج ہو کر وہ سیدھا مصر میں پہنچا‘ وہاں کے گورنر عبداللہ بن سعد ؓ تھے‘ مصر میں عبداللہ بن سبا نے اپنے سابقہ تجربے سے فائدہ اٹھا کر زیادہ احتیاط اور زیادہ گہرے پن کے ساتھ کام شروع کیا‘ یہاں اس نے اپنی خفیہ سوسائٹی کا مکمل نظام مرتب کیا اور محبت اہل بیت اور حمایت علی ؓ کے اظہار کو خاص الخاص ذریعہ کامیابی بنایا‘ مصر کے گورنر عبداللہ بن سعد کی نسبت بھی مصریوں کو اور وہاں کے مقیم عربوں کو شکایات تھیں ‘ عبداللہ بن سعد کو افریقہ بربر‘ نیز قیصر قسطنطنیہ کے معاملات کی وجہ سے داخلی باتوں کی طرف زیادہ متوجہ رہنے کی فرصت بھی نہ تھی۔ یہاں سے عبداللہ بن سبا نے اپنے بصرہ اور کوفہ کے دوستوں سے خط و کتابت جاری کی اور مقررہ و مجوزہ نظام کے موافق مصر‘ کوفہ اور بصرہ سے وہاں کے عاملوں کی شکایت میں مدینہ والوں کے پاس پیہم خطوط جانے شروع ہوئے‘ ساتھ ہی بصرہ والوں کے پاس کوفہ اور مصر سے خطوط پہنچے کہ یہاں کے گورنروں نے بڑے ظلم پر کمر باندھ رکھی ہے‘ اور رعایا پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے‘ اسی طرح بصرہ اور کوفہ سے مصر والوں کے پاس اور بصرہ و مصر و دمشق سے کوفہ والوں کے پاس خطوط پہنچنے لگے‘ چونکہ کسی جگہ بھی عاملوں اور گورنروں کے ہاتھ سے رعایا پر ظلم نہ ہوتا تھا‘ لہذا ہر جگہ کے آدمیوں نے یہ سمجھا کہ ہم سے زیادہ اور تمام صوبوں پر ظلم و تشدد اور بے انصافی روا رکھی جا رہی ہے اور سیدنا عثمان غنی ؓ ظالمانہ طور پر اپنے عاملوں اور گورنروں کو ان کے عہدے پر بحال رکھنے اور معزول کرنے سے انکار کرتے ہیں ۔۱ چوں کہ ہر ایک صوبے اور ہر ایک علاقے سے مدینہ منورہ میں بھی برابر خطوط پہنچ رہے تھے لہذا سیدنا عثمان غنی ؓ نے عمار بن یاسر ؓ کو مصر کی جانب اور محمد بن مسلمہ کو کوفے کی طرف روانہ کیا کہ وہاں کے حالات دیکھ کر آئیں اور صحیح اطلاع دربار خلافت میں پہنچائیں ‘ عمار بن یاسر ؓ جب مصر میں پہنچے تو وہاں کے ان لوگوں نے جو عبداللہ بن سعد گورنر مصر سے ناخوش تھے‘ اور ان لوگوں نے جو عبداللہ بن سبا کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے عمار بن یاسر ؓ کو اپنا ہم نوا و ہم خیال بنا لیا اور ان کو مدینہ منورہ میں واپس جانے سے یہ کہہ کر روک لیا کہ سیدنا عثمان دیدہ و دانستہ ظلم و ستم کو روا رکھتے ہیں ‘ ان کی امداد و مصاحبت سے پرہیز کرنا مناسب ہے۔ ۲ محمد بن مسلمہ نے کوفہ پہنچ کر سیدنا عثمان غنی ؓ کو اطلاع دی کہ یہاں کے عوام بھی‘ اور بعض شرفاء‘ بھی علانیہ زبان درازی اور طعن و تشنیع پر زبان کھولتے اور عذر و بغاوت کے علامات کا اظہار کر رہے ہیں ۔ انہیں ایام میں اشعث بن قیس‘ سعد بن قیس صائب بن اقرع‘ مالک بن حبیب‘ حکیم بن سلامت‘ جریر بن عبداللہ‘ سلمان بن ربیعہ وغیرہ حضرات جو صاحب اثر اور عزم و ہمت کے وارث اور خلافت اسلامیہ کے حامی تھے کوفہ سے دوسرے مقامات کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔ سعید بن العاص نے ہر طرف شورش اور لوگوں کی زبانوں پر علانیہ شکایات کو دیکھ کر قعقاع بن عمرو کو اپنا قائم مقام بنایا اور کوفہ سے مدینہ کا عزم کیا کہ خلیفہ وقت کو جا کر خود زبانی تمام حالات سنائیں اور اندیشہ و خطرہ کی پوری کیفیت سمجھائیں ‘ سعید بن العاص کے روانہ ہونے کے بعد کوفہ کے لوگوں نے مالک اشتر وغیرہ کو جو حمص میں مقیم تھے لکھا کہ آج کل کوفہ بالکل خالی ہے جس طرح ممکن ہو اپنے آپ کو کوفہ میں پہنچا دیں ‘ کوفہ میں بارعب عمال خلافت کے موجود نہ رہنے کے سبب عوام کی زبانیں بالکل بے لگام ہو گئیں اور علانیہ لوگ عثمان غنی ؓ اور ان کے عاملوں کو برا کہنے اور طعن و تشنیع کرنے لگے۔۱ اس ہنگامہ نے یہاں تک ترقی کی کہ یزید بن قیس کوفہ والوں کی ایک جمعیت ہمراہ لے کر اس ارادے سے نکلا کہ مدینہ میں پہنچ کر سیدنا عثمان غنی ؓ کو خلع خلافت پر مجبور کرے‘ قعقاع بن عمرو یہ دیکھ کر سدراہ ہوئے‘ اور ایک جمعیت اپنے ہمراہ لے جا کر یزید بن قیس کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یزید نے قعقاع بن عمرو کی منت سماجت کر لی اور کہا کہ مجھ کو سعید بن العاص ؓ سے بعض شکایات ہیں ‘ اس کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا کہ سعید بن العاص کو کوفہ کی گورنری سے معزول کرایا جائے‘ قعقاع بن عمرو نے یزید کو چھوڑ دیا‘ لیکن اس کے بعد ہی مالک اشتر اپنی جمعیت کے ساتھ حمص سے کوفہ میں پہنچ گیا‘ ان لوگوں کے کوفے پہنچنے پر شورش پسندوں میں ایک تازہ قوت اور جوش پیدا ہوا‘ مالک اشتر نے علانیہ لوگوں کو یزید بن قیس کی جماعت میں شامل ہونے کی ترغیب دی اور خود بھی یزید بن قیس کے لشکریوں میں شامل ہو کر کوفہ سے روانہ ہوا‘ قعقاع اس جمعیت کا مقابلہ نہ کر سکے‘ یہ لوگ کوفہ سے روانہ ہو کر قادسیہ کے قریب مقام جرعہ میں پہنچے جاری ھے ان شاء اللہ
❤️ 4

Comments