قناة مقامات قرآنية مقام الصبا مقام البيات مقام السیکا مقام الحجاز مقام النهاوند مقام الرست
قناة مقامات قرآنية مقام الصبا مقام البيات مقام السیکا مقام الحجاز مقام النهاوند مقام الرست
February 15, 2025 at 01:23 AM
https://whatsapp.com/channel/0029VayvhYN84OmD3CFv5G2L مقامات سیکھنے کے لیے جینل فالو کرے اور واٹسپ گروپ جواٸن کریں اور دوستوں کے ساتھ شیئر کریں شکریہ السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ *قناۃ مقامات۔۔۔۔* *گروپ اور چینل* بنانے کا مقصد یہ ہی ہے کہ ہمارے جو قراء کرام قرآن کریم کے لہجات سبعہ سیکھنا چاہتے ہیں ان کے لیئے لہجات سبعہ میں معروف ومشہور قراء کرام کی تلاوات حدر اور ترتیل میں بھیجی جائیں گی۔۔۔۔ اور ساتھ میں لہجہ کی نشاندہی کر دی جائے گی تاکہ ہر لہجہ اور نغمہ پر مکمل دسترس اور مکمل عبور حاصل کیا جا سکے۔۔۔۔۔ *علم النغمات* ، قرآن کریم کی تلاوت کے لہجوں کے نام ۔۔۔ ۔۔۔۔ پوری دنیا میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے قاری کی قراءت سات لہجات میں سے کسی بھی لہجے سے باہر نہیں ہوتی، یعنی اس کی قراء ت سات لہجوں میں سے کسی ایک لہجے کے موافق ضرور ہوگی۔ وہ سات لہجات اہل فن نے اس جملے میں جمع کئے ہیں *:’’صنع بسحر* ‘‘ ،’’ *ص* ‘‘سے *صباء* ’’ *ن* ‘‘ سے *نہاوند* ’’ *ع* ‘‘سے *عجم* *(چہارگاہ)* ’’ *ب* ‘‘ سے *بیات* ’’ *س* ‘‘ سے *سیگاہ* ’’ *ح* ‘‘ سے *حجاز* اور’’ *ر* ‘‘ سے *رست* ۔ اس فن کو *علم النغمات* بھی کہتے ہیں، *علم المقامات* بھی کہتے ہیں، *ترانیم قرآنی* بھی کہتے ہیں اور اس کو لہجات کا علم بھی کہا جاتا ہے۔ بلادِ عرب یعنی مصر، امارات، سعودیہ، شام، عراق اور دیگر ممالک جیسے: ایران، انڈونیشیا وغیرہ میں اس علم کو سیکھنے کا کافی اہتمام کیا جاتا ہے اور بعض ممالک میں تو اس کا اس قدر اہتمام ہے کہ قراء کے علاوہ بعض عام لوگ بھی اس فن کو جانتے ہیں، لیکن برصغیر یعنی پاکستان، ہندوستان اور افغانستان اور دیگر وہ ممالک جہاں کی اکثریت عجمیوں پر مشتمل ہے، وہ اس فن سے ناواقف ہیں۔ بلکہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان ممالک کے اکثر خواص ،مشہور قراء اور علماء کوبھی اس فن سے مناسبت نہیں ۔ راقم الحروف بذات خود اس فن کا طالب علم ہے، اس لیے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس علم اور اس فن کے متعلق کچھ بنیادی باتیں لکھ لی جائیں، تاکہ اس فن کو بھی سیکھنے کا اہتمام کیا جائے۔ علم النغمات اور قرآن کریم کے لہجات کو سیکھنے سے پہلے جو چیز سب سے اہم اور ضروری ہے، وہ ہے قرآن مجید کو اچھی طرح تجوید سے پڑھنا اور اس کی تلاوت کے دوران تجوید کے تمام قواعد کا مکمل خیال رکھنا۔ اگر کوئی شخص قرآن مجید کی تجوید سے ادائیگی میں کمزور ہے تو وہ پہلے تجوید سیکھے، قرآن کے حروف کے ادائیگی میں درستگی اور پختگی پیدا کرے، اس کے بعد نغمات اور لہجات سیکھے *تعارف* *مقامات و لہجات* : مقامات کے ضمن میں کثرت سے لہجات کا ذکر مقامات کے مترادف کے حیثیت سے ہوتا ہے ۔ اور اکثر احباب ان دونوں کا ایک سمجھتے ہیں اور میرا بھی ایک عرصے تک یہی خیال تھا ۔ لیکن بعد میں جب تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ ان دونوں کا آپس میں تعلق ضرور ہے لیکن مقامات اور لہجات ایک نہیں ہے ۔ مقامات سے مراد وہ الحان اور نغمات ہے جو دنیا کے تقریبا ہر خطے میں ناموں اور انداز کے اختلاف سے پائے جاتے ہیں ۔ لہجہ کے لفظی معنی وہ خاص طرز تکلم ہے جو ہر زبان کا مخصوص ہوتا ہے ۔ یہاں اس سے مراد کسی خاص علاقے کے لوگوں کا مقامات کو ایک خاص انداز جو ان کے علاقے کے ساتھ مخصوص ہو ، سے پڑھنے یا پیش کرنے کو کہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ لہجہ کا اطلاق کسی بھی قاری کا اپنے ذوق اور مزاج کے مطابق تلاوت میں مقامات کے استعمال میں ایک خاص روش اختیار کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ شیخ صدیق المنشاوی رحمہ اللہ کا لہجہ ہے یہ شیخ عبد الباسط عبد الصمد رحمہ اللہ کا لہجہ ہے یہ شیخ عبد الرحمن سدیس کا لہجہ شیخ مشاری العفاسی کا لہجہ ہے وغیرہ۔۔۔ اس وقت دنیا میں خطوں کے اعتبار سے تلاوت میں تین ان انداز یا لہجات رائج اور مشہور ہیں ۔ *1- مصری لہجہ* *2- حجازی لہجہ* *3- عراقی لہجہ* ان تینوں خطوں میں تلاوت کے اندر مقامات پڑھنے کا اپنا الگ انداز ہے جس کو سن کر کہا جاتا ہے کہ یہ مصری لہجہ ہے، یہ حجازی اور یہ عراقی ۔( ان کی مکمل تفصیل اور باہمی اختلاف ان شاءاللہ کسی وقت پیش کی جائے گی) اس کے علاوہ بھی کئی ایک انداز ہیں لیکن وہ اپنے علاقے اور ان کے بعض قراء تک ہی محدود ہے ۔ جیسے کہ ہمارے ہاں پانی پتی انداز تلاوت اور لہجہ مشہور ہے ۔ واللہ اعلم یہ آٹھ مقامات، جنہیں عرف عام میں مقاماتِ صوتی یا مقاماتِ موسیقی اور فن تلاوت میں مقاماتِ قرآنی کا نام دیا جاتا ہے ، مختصراً *” صنع بسحرك ”* کے علامتی مجموعے میں اکٹھے کر دیے گئے ہیں ۔جس کا ہر کلمہ ایک خاص مقام کی جانب اشارہ کرتا ہے ( صبا ، نہاوند، عجم ، بیات، سیکا، حجاز ، رست، کرد)۔ ان میں سے ہر مقام آواز کے اتار چڑھاؤ ، انداز و اسلوب اور آواز کے درمیانی فاصلوں کے بُعد یا قرب کی بنا پر مزید کئی ذیلی شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ۔عربی زبان کا مشہور مقولہ ” لکل مقام مقال ” ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ ہر مقام ہر آیت کی تلاوت کے لیے نہیں ہوتا بلکہ آیات کے معانی اور مضامین کے اعتبار سے مختلف مقامات ہو سکتے ہیں۔ پس قاری، دورانِ تلاوت ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل ہو سکتا ہے مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ ۔ سو یہ مہارت ہر قاری کے بس کی بات نہیں ۔ بہت سے حضرات اس میں چوک جاتے ہیں ۔ *1۔مقامِ بیات:۔* یہ سب سے آسان اور ابتدائی مقام ہے اسکی تاثیر پرسکون گہرے سمندر کے مماثل ہے ۔ بیات کو مقامات میں بنیادی حیثیت حاصل ہے جس سے بقیہ مقامات پھوٹتے ہیں ۔ قراء حضرات اپنی قرآت کا آغاز و اختتام عموما اسی مقام سے کرتے ہیں۔ ایک عام آدمی بھی عام طور اپنی تلاوت میں اسی مقام کی پیروی کر رہا ہوتا ہے *2۔مقامِ رست:۔* یہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی استقامت اور جماو کے ہیں ۔ اسے بہت قوت اور شدت سے ادا کیا جاتا ہے شیر کی دھاڑ اسکی عمومی مثال ہے جس میں ایک مخصوص شدت اور زور پایا جاتا ہے۔ عام طور پر قراء حضرات تلاوت کا آغاز بیات سے کر کے فوراً رست پر چلے جاتے ہیں۔ سعودی قراء خصوصا سدیس، حذیفی اور محیسنی وغیرہ عموما اسی مقام کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ رست کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ قاری تلاوت کا آغاز بہت قوت و شدت سے کرے پھر آہستہ آہستہ اپنی آواز اور لہجے کو سکون اور ٹھہراؤ کی طرف لے آئے۔ شیخ منشاوی کی ” الم تر كيف فعل ربك بأصحاب الفيل” کی تلاوت اور قاری عبدالباسطؒ کی زبانی “إذا الشمس كورت ” مقام رست کو سمجھنے کیلیے مددگار ہیں ۔ *3۔مقام عجم:۔* یہ مقام بیک وقت حزن ، شدت ، نرمی اور امید کے تاثرات کا مجموعہ ہے ۔ قاری عبدالباسطؒ عجم کے تحت درج ذیل آیات کی تلاوت کرتے ہیں : ” و مريم عمران التى احصنت فرجها …………… …….الخ ” پاکستان میں مروج محافل حسن قرات میں بھی زیادہ تر یہی مقام سننے کو ملتا ہے۔ *4۔ مقامِ نہاوند:۔* ایران کے شہر نہاوند سے منسوب یہ مقام خوشی و غم ، خوف و رجا، محبت و عاطفت کے جذبات کی ادائیگی کیلیے موزوں ترین ہے۔ قاری عموما اس میں آواز کی پہلی سیڑھی پر چڑھتا ہے اور آخری تک جا پہنچتا ہے پھر اسی رفتار سے آواز کا سفر نیچے کی جانب شروع کر دیتا ہے ۔قاری عفاسی اور شاطری اپنی تلاوت میں اسی مقام کو پیش نظر رکھتے ہیں ۔ *5۔مقامِ صبا:۔* یہ درد و غم اور آنسوؤں میں ڈھالنے والا مقام ہے اسکی سب سے خوبصورت ادائیگی شیخ عبدالباسط عبدالصمد کے ہاں ملتی ہے جو ایک ہی نشست میں بار بار اس مقام کی جانب پلٹتے ہیں۔قیامت کی ہولناکیوں کے ذکر پر مشتمل آیات کی تلاوت کیلیے یہ مقام بہترین سمجھا جاتا ہے۔خالد القحطانی کے علاوہ شیخ محمد رفعت اور شیخ المنشاوی کے ہاں بھی اسکی پیروی بکثرت ملتی ہے۔ *6۔مقامِ سیکا* :۔ یہ مقام آہستہ روی اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں تلاوت کیلیے مخصوص ہے ۔ عموما قاری ان آیات کی تلاوت میں اسکی پیروی کرتا ہے جن میں دو متضاد چیزوں کا ذکر ایک ہی جگہ پر ہو۔ جیسے ایک جانب خوشی کا ذکر ہے اور ساتھ ہی غم کا ۔ اگر قاری اسکی ادائیگی مہارت سے کرنے پر قادر ہو تو یہ سامع کا دل چیر کر رکھ دیتا ہے ۔قاری عبدالباسط نے پوری زندگی میں صرف ایک مقطع اس مقام کی پیروی میں پڑھا ہے ۔ ” قدأفلح من زكاها و قد خاب من دساها……………. الخ” *7۔ مقامِ حجاز:۔* یہ خوبصورت ترین اور مشکل ترین مقام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بقیہ مقامات کے برعکس ( جو عجمی الاصل ہیں) یہ مقام عربی الاصل ہے۔یہ شدید حزن و الم ، آواز کی پوری قوت لیکن انتہائی عاجزی سے ادا ہونے والا مقام ہے۔ اسکی ادائیگی میں جو مشقت اور مہارت درکار ہے وہ ہر قاری کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے عموما بڑے بڑے قراء بھی اس مقام کی بلا تکلف پیروی سے پرہیز کرتے ہیں ۔ ایک ایک گھنٹے کی تلاوت کے دوران میں قاری اسے صرف ایک آدھ آیت کی تلاوت میں برتتے نظر آتے ہیں سوائے شیخ عبدالباسط کے جو سورہ مریم کی تلاوت کے دوران پہلے ” و حنانا من لدنا و زكوة……….. و يوم يبعث حيا” کی تلاوت میں اسکی پیروی کرتے ہیں اور پھر آگے “فحملته فانتبذت به مكانا قصيا…………. نسيا منسيا ” کی تلاوت میں پھر اسی کی جانب لوٹ آتے ہیں۔ خادم القرآن الكريم الفاضل انعام الحسن مقیم سلطنة عمان

Comments