PTM Dir Official
February 18, 2025 at 03:48 PM
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی قانونی ٹیم نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت پی ٹی ایم پر عائد کی گئی پابندی کے خلاف پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) میں بھرپور قانونی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ سات سماعتوں کے باوجود حکومت عدالت میں کوئی قانونی جواز یا کابینہ کی منظور شدہ نوٹیفکیشن پیش نہیں کر سکی جو اس پابندی کی تصدیق کرے۔ اس کے برعکس، حکومت مسلسل تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے، پہلے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی رائے لینے کے بہانے کیس کو مؤخر کیا گیا اور اب ایک ایسے نوٹیفکیشن کے لیے مزید وقت مانگا جا رہا ہے جو ہماری معلومات کے مطابق سرے سے موجود ہی نہیں۔
پی ٹی ایم کے وکلاء نے آئینی اصولوں، عدالتی نظیروں اور انسداد دہشت گردی قانون کے تحت جامع قانونی دلائل پیش کیے ہیں جو درج ذیل نکات پر مبنی ہیں:
سپریم کورٹ کے مصطفی امپیکس بمقابلہ حکومت پاکستان (2016) کے فیصلے کے مطابق، کوئی بھی حکومتی فیصلہ صرف کابینہ کی اجتماعی منظوری سے نافذ العمل ہو سکتا ہے، نہ کہ کسی ایک وزارت یا وزیراعظم کی جانب سے یکطرفہ طور پر۔
اگر پی ٹی ایم پر واقعی قانونی طور پر پابندی عائد کی گئی تھی تو اس کا باقاعدہ فیصلہ وفاقی کابینہ نے کیا ہونا چاہیے تھا اور اس کا نوٹیفکیشن باضابطہ طور پر جاری ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ابھی تک حکومت ایسا کوئی بھی ثبوت عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی ایم کی پابندی غیر قانونی اور بے بنیاد ہے۔
انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے مطابق کسی تنظیم پر پابندی صرف ان صورتوں میں لگائی جا سکتی ہے اگر:
- وہ دہشت گردی میں ملوث ہو یا تشدد کو ہوا دے؛
- قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالے؛ یا
- پاکستان کے مفادات کے خلاف کوئی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہو۔
پی ٹی ایم ایک پرامن انسانی حقوق کی تحریک ہے جو عدم تشدد، انصاف اور آئینی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ ریاست نے اب تک کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا جو پی ٹی ایم کو دہشت گرد تنظیم ثابت کرے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پابندی قومی سلامتی کا نہیں بلکہ سیاسی دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے۔
حکومت نے قانونی جواز پیش کیے بغیر پی ٹی ایم کے کارکنان پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں جن میں:
- قومی شناختی کارڈ (CNIC) کی بندش؛
- بینک اکاؤنٹس منجمد کرنا؛ اور
- نقل و حرکت پر پابندیاں، بشمول سفری پابندیاں اور پولیس کی نگرانی۔
یہ تمام اقدامات آئینی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہیں:
حکومتی تاخیری حربے: عدالتی کارروائی میں رکاوٹ
حکومت مسلسل کیس کو طول دینے کے لیے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ پہلے مختلف محکموں کی رائے لینے کے بہانے مہینوں کی تاخیر کی گئی، اور اب جب حکومت خود یہ دعویٰ کرتی ہے کہ پی ٹی ایم پر پابندی لگ چکی ہے تو وہ اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔
یہ تاخیری ہتھکنڈے نہ صرف عدالتی کارروائی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی بھی ہیں۔ ریاست کو قانونی اصولوں اور شفاف عدالتی عمل کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
آئین اور قانون کی حکمرانی کا تحفظ
چونکہ حکومت کوئی باضابطہ نوٹیفکیشن پیش کرنے میں ناکام رہی ہے اور مسلسل تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی ایم پر لگائی گئی پابندی غیر قانونی اور بے بنیاد ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس غیر قانونی اقدام کو کالعدم قرار دے اور ریاستی جبر کے خلاف شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔
پی ٹی ایم کی قانونی ٹیم نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ:
1. پی ٹی ایم کی پابندی کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ اس کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں؛
2. پی ٹی ایم کارکنان کے خلاف غیر قانونی اقدامات، بشمول شناختی کارڈ بلاک کرنے، بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور دیگر پابندیوں کو فوری ختم کیا جائے؛ اور
3. عدالت یہ واضح کرے کہ انسداد دہشت گردی قوانین کو سیاسی کارکنان کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
انصاف کا تقاضا ہے کہ ریاستی اختیارات کو آئین اور قانون کے دائرے میں رکھا جائے۔ عدالت کو جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے مضبوط اور فوری فیصلہ لینا ہوگا تاکہ اس غیر آئینی دباؤ کا خاتمہ کیا جا سکے۔
❤️
2