لَبَّیْک اَلجِہَاد
لَبَّیْک اَلجِہَاد
January 31, 2025 at 03:59 PM
"حجاز کی آندھی" قسط نمبر 40 میرا فیصلہ سن لو۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ ایک وہ وقت تھا جب ہم کہتے تھے کہ عربوں کو عراق کی سرحد سے باہر کر دیں گے اور رستم کہتا تھا کہ وہ پورے عرب کو تباہ و برباد کر کے مدینہ پر قبضہ کرے گا اور اسلام کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دے گا۔ پھر وہ وقت آیا کہ ہم نے بے انتہا نفری کا لشکر تیار کیا کہ عرب کے ان مسلمانوں کو قادسیہ کے میدان میں کچل ڈالیں گے…… پھر تم جانتے ہو کہ قادسیہ کے میدان میں کیا ہوا۔ عرب کو تباہ کرنے والا رستم خود تباہ ہو گیا۔ ہمارا لشکر اس طرح بکھر گیا جس طرح آندھی میں خشک گھاس کے تنکے اُڑ جایا کرتے ہیں۔ پھر ہم نے کہا کہ عربوں کو بُہر شیر تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ مگر اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم مدائن کو بھی شاید نہ بچا سکیں۔‘‘ ’’یوں مت کہو یزدی!‘‘یزدگرد کی ماں نے تڑپ کر کہا۔’’ مدائن کی طرف کو ئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ یورپی مؤرخوں نے حضرت عمرؓ کے اس فیصلے کا مذاق اڑا یا اور لکھا ہے کہ عرب اتنی خوبصورت اور نادر چیز کی قدر نہ کر سکے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ عرب کے مسلمانوں کا ذوق بہت ہی پست تھا۔ یورپ کے یہ مؤرخ سمجھ نہیں سکے اور وہ سمجھنا چاہتے بھی نہیں تھے کہ مسلمان دنیاوی لالچ سے آشنا نہیں تھے ۔وہ اﷲ کی خوشنودی اور آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ ا ٭ اب ہم مدائن چلتے ہیں جہاں مجاہدین مالِ غنیمت لالا کر سعد ؓبن ابی وقاص کے آگے ڈھیر کرتے جا رہے ہیں۔ بات ہو رہی تھی کہ مدائن کی فتح کے حالات بیان کرتے ہوئے مؤرخین نے مالِ غنیمت کے معاملے میں مجاہدین کی دیانتداری کا خصوصی تذکرہ کیا ہے ۔امیر المومنین ؓکا کردار بیان ہو چکا ہے۔ اتنا زیادہ قیمتی قالین جس میں آج کے حساب سے اربوں روپے کے ہیرے جواہرات اور سونے کے تار لگے ہوئے تھے، انہیں پیش کیا گیا ۔ان کے ساتھیوں مشیروں اور صحابہ کرام ؓنے بھی کہا کہ امیر المومنین ؓیہ تحفہ صرف آپ کیلئے ہے ۔اس میں کسی اور کا حصہ نہیں ،لیکن حضرت عمر ؓنے انکار کر دیا۔ ادھر محاذ پر قعقاع بن عمرو اور عصمت بن خالد ضبّی کے ہاتھ جو خزانہ لگا تھا ،اس میں سے وہ کچھ نہ کچھ رکھ سکتے تھے۔ شہر سے دور ویرانے میں دیکھنے و الا کون تھا۔ لیکن انہیں جو ملا وہ انہوں نے سپہ سالار کے آگے لا کر رکھ دیا ۔ قعقاع نے مختلف بادشاہوں کی تلواریں زرہیں اور ڈھالیں پیش کی تھیں۔ ’’ابنِ عمرو!‘‘سعدؓ بن ابی وقاص نے قعقاع سے کہا۔’’ ان چیزوں میں سے تمہیں جو پسند ہیں تم وہ لے لو۔‘‘ تاریخ گواہ ہے کہ قعقاع نے بجائے اس کے کہ کوئی بہت ہی قیمتی چیز لیتے جس میں سونے اور ہیروں کی بہتات ہوتی ، انہیں روم کے بادشاہ ہرقل کی تلوار اچھی لگی، اور انہوں نے وہ لے لی۔ مشہور مؤرخوں طبری، ابنِ اثیر، ابنِ خلدون اور ابنِ کثیر نے ایک نہایت معمولی سے مجاہد کا واقعہ لکھاہے ۔لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس کا نام نہیں لکھا۔ یہ گمنا م مجاہد ایک ڈبہ لایا جو جواہرات سے بھرا ہو اتھا۔ ڈبے میں بڑے قیمتی ہیرے بھی تھے۔ اس وقت تک ایک خزانچی مقرر کر دیا گیاتھا جو مالِ غنیمت وصول کرتا تھا۔ اس کی مدد کیلئے چار پانچ مجاہدین اس کے ساتھ رہتے تھے۔ گمنام مجاہد نے یہ ڈبہ خزانچی کو دیا۔ خزانچی نے ڈبہ کھولا تو اس نے یوں بدک کر سر پیچھے کر لیا جیسے ڈبے میں سانپ ہو۔ اس کے ساتھیوں کا ردِ عمل بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ’’کیا تجھے معلوم ہے اس ڈبے میں کتنی مالیت کا خزانہ ہے؟‘‘ خزانچی نے گمنام مجاہد سے پوچھا۔ ’’میں صحیح مالیت نہیں بتا سکتا۔ ‘‘مجاہد نے کہا۔’’ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ یہ ایک خزانہ ہے۔‘‘ ’’میں تجھے بتاتا ہوں ۔‘‘خزانچی نے کہا۔’’ اس وقت تک ہمارے پاس جتنے بھی ہیرے جواہرات آئے ہیں ،ان میں ایک بھی اس قابل نہیں جو تو لایا ہے۔‘‘ ’’اس میں سے تو نے کچھ لیا تو نہیں؟‘‘ خزانچی کے ایک معاون نے پوچھا۔ ’’اﷲ گواہ ہے۔‘‘ مجاہد نے انگلی آسمان کی طرف کر کے کہا۔’’ اگر ایک بات نہ ہوتی تو میں ڈبہ یہاں لاتا ہی نہ……میں نے اس میں سے کچھ نہیں لیا۔‘‘ ’’وہ بات کیاہے؟‘‘ مجاہد سے پوچھا گیا۔ ’’یہ نہیں بتاؤں گا۔‘‘ مجاہد نے جواب دیا۔ ’’یہ بات تم سب تک پہنچ گئی تو تم سب میری تعریف کرو گے لیکن تعریف صرف اﷲ کیلئے ہے۔ میں اﷲ کی ہی تعریف کرتا ہوں اور وہ جو اجر اور صلہ مجھے دیتا ہے میں اس سے مطمئن اور خوش ہوں۔‘‘ اس مجاہد کو رخصت کرکے خزانچی یہ ڈبہ سعدؓ ب ابی وقاص کے پاس لے گیا ۔سعد ؓنے ڈبہ کھولا تو ان کے چہرے پر بھی حیرت زدگی کے آثار نظر آنے لگے ۔ڈبہ لانے والے مجاہد کے ساتھ خزانچی نے جو باتیں کی تھیں وہ بھی اس نے سعد ؓکو بتائیں ۔اس وقت تک کئی مجاہدین بڑا قیمتی مالِ غنیمت لائے تھے اور پوری دیانتداری سے اور ذمہ داری سے خزانچی کے حوالے کر دیا تھا۔ ’’خدا کی قسم!پورا لشکر امین ہے۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ اگر اصحابِ بدر کو ایک خاص قدرومنزلت حاصل نہ ہوتی تومیں کہتا کہ میرے لشکرکے مجاہدین اصحابِ بدر کے ہم رتبہ ہیں۔‘‘ ’’خدا کی قسم! ‘‘ایک نامور صحابی اور مجاہدین کے سردار جابرؓ بن عبداﷲ نے اس موقع پرکہا۔’’ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ قادسیہ کے مجاہدین میں ہمیں ایک بھی مجاہد ایسا نہیں ملا جس نے آخرت کے بجائے دنیا طلب کی ہو۔ ہم نے تین آدمیوں پر الزام لگایا تھا کہ وہ دنیا کے طلب گار ہیں ۔یہ ہیں طلیحہ، عمرو بن معدی کرب اور قیس بن مکثوح۔ لیکن ان کے زہد، امانت اور دیانت کی بھی مثال نہیں ملتی۔ ان تینوں کا پہلے ذکر آچکا ہے ۔یہاں چونکہ بات الزام کی ہوئی ہے ،اس لئے مزید وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ جابرؓ بن عبداﷲ کا اشارہ اس دَور کی طرف تھا جب یہ تینوں شخصیتیں مرتدین کی قیادت کر رہی تھیں۔ طلیحہ نے تو نبوت کا دعویٰ بھی کیا تھا ۔اس کی تفصیلات ہم اپنی کتاب شمشیرِ بے نیام میں پیش کر چکے ہیں۔ وہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ کا دورِ خلافت تھا جب فتنۂ ارتداد ایک تیز و تند طوفان کی طرح اٹھا تھا اور جس طرح اس فتنے کو دبایا گیاتھا اس کی تفصیلات بھی ہم اپنی مذکورہ کتاب میں پیش کر چکے ہیں۔ جب خونریز لڑائیوں کایہ سلسلہ ختم ہوا تو ارتداد کے کچھ لیڈر مارے جا چکے تھے اور جو زندہ تھے انہوں نے ارتداد سے توبہ کر لی تھی اور دل کی گہرائیوں سے اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے جہاد کے مختلف میدانوں میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے وہ سنائے جا چکے ہیں۔ ان میں طلیحہ، عمرو بن معدی کرب اور قیس بن مکثوح بھی تھے۔ انہو ں نے اسلام کی آغوش میں آکر اپنے دامن سے وہ سارے داغ دھو ڈالے تھے جو انہوں نے خود ہی لگائے تھے۔ اﷲ کی راہ میں یہ جس طرح لڑے اور دنیاوی لالچ کو انہوں نے جس طرح ٹھکرایا اور جس طرح انہو ں نے میدانِ جنگ میں شجاعت کے ناقابلِ یقین مظاہرے کیے، ان سے انہوں نے اﷲ کا قرب حاصل کر لیا اور عربوں میں انہیں بڑا ہی بلند اور قابلِ احترام مقام حاصل ہوا۔ مالِ غنیمت اکٹھا کرنے کے سلسلے میں یہ تینوں پیش پیش تھے۔ انہیں جو بھی ملا وہ سعدؓ بن ابی وقاص کے سامنے رکھ دیا۔ ٭ مختلف مؤرخوں میں تعداد کا تھوڑا تھوڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ محمد حسنین ہیکل نے جن مؤرخوں کے حوالے دیئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مجاہدین کی تعداد اس وقت ساٹھ ہزار تھی۔ یہ تعداد اس وجہ سے صحیح تسلیم کی جا سکتی ہے کہ مدینہ سے وقتاً فوقتاً کمک جاتی رہتی تھی۔ یہاں تعداد کا ذکر اس لئے آیا ہے کہ مالِ غنیمت تقسیم کیا گیا تھا اورہر مؤرخ نے تعداد لکھی ہے کہ یہ مالِ غنیمت کتنے ہزار مجاہدین میں تقسیم ہوا تھا۔ ہم زیادہ تر مؤرخوں کی تعداد کو ہی مستند سمجھتے ہیں جو ساٹھ ہزار ہے۔ سعد ؓبن ابی وقاص نے اس لشکر میں مالِ غنیمت تقسیم کیا۔ مالیت کے لحاظ سے ہر مجاہد کے حصے میں بارہ بارہ ہزار دینار مالیت کا مالِ غنیمت آیا۔ ابھی خاصا مالِ غنیمت بچا ہوا تھا ۔کچھ مجاہدین ایسی شجاعت اور دلیری سے لڑے تھے تھے جو غیر معمولی ہی نہیں بلکہ نا وقابلِ یقین تھی۔ انہیں انعام کے طور پر کچھ فالتو حصہ دیا گیا۔ ایہ امیر المومنین ؓکا حکم تھا کہ مالِ غنیمت بچ جائے تو وہ اُن مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے جو سب سے زیادہ شجاعت سے لڑے ہوں ۔شجاعت کے ان کارناموں میں یہ کارنامہ خاص طورپر شامل تھا کہ بعض مجاہدین نے فارسی جرنیلوں کا حفاظتی حصار توڑکر انہیں قتل کیا تھا۔ مدینہ کو بھیجنے کیلئے خمس الگ کر دیا گیا تھا ۔یہ ایک قبیلے کے سردار بشیر بن خصاصیہ لے کر مدینہ کو روانہ ہوئے ۔یہ خاصا بڑا قافلہ تھا، جس کے ساتھ باڈی گارڈز کے طور پر مجاہدین کی چھوٹی سی ایک جماعت بھی بھیجی گئی تھی۔ تاریخ کے مطابق سعد ؓبن ابی وقاص نے حضرت عمرؓ کو مدائن کی فتح اور مالِ غنیمت کی تفصیلات لکھ کر بھیج دی تھیں اور یہ خاص طور پر لکھا تھا کہ مجاہدین نے مالِ غنیمت اکٹھا کرکے خزانچی کے حوالے کرنے میں خصوصی دیانتداری کی ہے۔ مالِ غنیمت کا قافلہ مدینہ سے کچھ دور ہی تھا کہ مدینہ والوں کو اطلا ع مل گئی۔ مدینہ کی ساری آبادی امڈ کر اس راستے پر دوڑ پڑی جس راستے سے قافلہ آرہا تھا۔ لوگوں کے دلوں میں مالِ غنیمت کا لالچ نہیں تھا۔ وہ فاتح مجاہدین کے استقبال کیلئے گئے تھے۔ قافلہ جب مدینہ میں داخل ہوا تو فتح و نصرت کے نعروں سے زمین و آسمان ہل رہے تھے۔ مالِ غنیمت امیر المومنین ؓتک پہنچ گیا اور کھولا گیا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ سعدؓ بن ابی وقاص نے حضرت عمر ؓکو تفصیل سے لکھا تھا کہ مالِ غنیمت حیرت انگیز ہے ۔پھر بھی حضرت عمر ؓنے یہ مال و دولت دیکھی تو ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور کچھ دیر ان کا بھی منہ کھلا رہا۔ یہ حیرت زدگی کا تاثر تھا۔ وہاں جتنے لوگ بھی موجود تھے ان سب پر سناٹا طاری ہو گیا تھا۔ ’’خدا کی قسم!‘‘حضرت عمرؓ نے یکلخت سناٹا توڑا۔’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ انتہا درجے کے امانت دار اور دیانتدار ہیں جنہوں نے یہ چیزیں نہ جانے کہاں کہاں سے لیں اور اپنے سپہ سالار کے حوالے کردیں!‘‘ ’’حیران مت ہو ابنِ الخطاب!‘‘حضرت علیؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا۔’’ تیرا دامن پاک ہے۔ اس لئے تیری رعایا کا دامن بھی پاک ہے۔اگر تیری نیّت ٹھیک نہ ہوتی تو ہمارے لوگوں کی نیّتوں میں بھی فتور آجاتا۔‘‘ ’’میں کسریٰ کی یہ پوشاکیں ، تلواریں اور یہ زرہیں سب کو دکھاؤں گا۔‘‘حضرت عمرؓ نے کہا۔ ٭٭ حضرت عمرؓ کے حکم سے ایک میدان میں لکڑیاں گاڑی گئیں ۔ان پر فارس کے بادشاہوں کی پوشاکیں ،تلواریں، زرہیں اور ڈھالیں لٹکا دی گئیں۔ مدینہ کے اردگرد دیہات میں بھی منادی کرائی گئی کہ مدینہ آکر یہ چیزیں دیکھیں ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ مدینہ میں میلہ لگ گیا۔ لوگ فارس کے بادشاہوں کی پوشاکیں دیکھ دیکھ کر حیران ہو تے تھے کہ ایسے انسان بھی ہیں جو یہ پوشاکیں پہنتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک دلچسپ کام کیا۔ انہوں نے مدینہ کے ایک جسیم آدمی سراقہ بن حعبثم کو بلایا اور کسریٰ پرویز کا لباس اسے پہنایا۔ اس کے ہتھیار بھی اس کی کمر سے باندھے اور سر پر کسریٰ کا تاج رکھا۔ ’’پیچھے ہٹو۔‘‘ حضرت عمر ؓنے سراقہ سے کہا۔ سراقہ دو چار قدم پیچھے ہٹ گیا۔ ’’آگے آؤ۔‘‘ حضرت عمر ؓنے کہا۔ سراقہ آگے بڑھا۔ ’’اﷲ ،اﷲ!‘‘حضرت عمرؓ نے کچھ جذباتی سے لہجے میں کہا۔ ’’بنو مدلج کا ایک عربی اور اس کے جسم پر کسریٰ کا لباس……اے سراقہ!ایسے دن بھی آنے تھے کہ تیرا جسم کسریٰ کے شاہانہ لباس میں ملبوس ہو۔ یہ تیرے لیے اور تیری قوم کیلئے باعثِ شرف اور باعثِ فخر ہے۔‘‘ حضرت عمرؓ نے دو تین اور جسیم آدمیوں کو مختلف بادشاہوں کے شاہانہ لباس پہنائے اور انہیں بڑی ہی غور سے دیکھا۔ لوگوں پر تو جیسے سحر طاری ہو گیاتھا۔ حضرت عمرؓ کے سامنے صرف یہ شاہانہ ملبوسات اور تاج ہی نہیں تھے بلکہ ان کے سامنے وہ تمام مالِ غنیمت تھا جو مدائن سے آیا تھا۔ ’’یا اﷲ!‘‘حضرت عمرؓ نے دونوں ہاتھ پھیلا کر آسمان کی طرف دیکھا اور بلند آواز سے بولے۔’’ تو نے اتنا مال و دولت اپنے رسولﷺ کو نہیں دیا حالانکہ وہ تجھے مجھ سے زیادہ عزیز تھے، اور تیرے محبوب تھے۔ تو نے اپنے محبوب کے پہلے خلیفہ ابو بکر کو بھی یہ مال و دولت نہیں دیا ۔وہ بھی تجھے مجھ سے زیادہ عزیز تھے۔ تو نے مجھے اس اتنے بڑے انعام سے کیوں نوازا ہے ؟میں اس قابل تونہ تھا……میرے اﷲ میں تیری پناہ مانگتا ہوں ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ تیری ذاتِ باری نے مجھے اتنے سخت امتحان میں ڈال دیا ہے۔ مجھے اتنی کٹھن آزمائش میں نہ ڈال میرے اﷲ!‘‘ طبری اور بلاذری نے لکھا ہے کہ پہلے تو حضرت عمرؓ کی آنکھیں نمناک ہوئیں ۔پھر آنسو بہہ نکلے اور پھر وہ ایسا روئے کہ ان کی ہچکی بندھ گئی۔ لوگوں کو اُن پر رحم آگیا۔ تین چار آدمی آگے بڑھے اور انہیں اپنے اپنے الفاظ اور انداز میں سمبھالا دیا۔ کچھ دیر بعد حضرت عمر ؓاپنے آپ پر قابو پا سکے۔ غور فرمائیے، یہ وہ عمرؓ بن الخطاب تھے جن کے سامنے جلیل القدر صحابہ ؓبھی بات کرتے تو سوچ کرکرتے تھے ۔ان کی شخصیت سے ہر کوئی مرعوب تھا۔ اس رعب میں تقدس بھی تھا۔وہ حضرت عمرؓ بچوں کی طرح روئے تھے۔ اﷲ کی پناہ مانگو لوگو!‘‘حضرت عمرؓ نے حاضرین سے کہا۔’’ اتنی زیادہ دولت ،اتنی زیادہ نعمتیں اور اتنی زیادہ آسودگی ایک طلسم ہے۔ ایسا طلسم جس میں ابلیس کا فتنہ ہے اور یہ ہر کسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسکے جال میں آنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ دانشمند ہو گئے ہیں۔ لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ ان میں جو عقل و دانش تھی وہ بھی نہیں رہی اور ان کی روحانی قوتیں او ر صلاحیتیں بیکار ہو گئی ہیں……اے عرب کے لوگو!دولت اور یہ زروجواہرات انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا دیتے ہیں۔ اپنے پاس اتنا ہی رکھو جس سے تمہاری ہر ضرورت پوری ہو جائے اور تم کسی کے محتاج نہ رہو۔ اصل دولت اﷲ کی خوشنودی ہے ……یہ بھی سوچو کہ اﷲ تعالیٰ نے آلِ ساسان کی یہ دولت تمہیں آزمائش کیلئے ہی عطا نہ کی ہو۔‘‘ ’’آلِ ساسان کی دولت سے اتنا بھی مرعوب نہ ہو ابن الخطاب!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے حضرت عمرؓ سے کہا۔’’ یہ فاتح مجاہدین کا جائز حق ہے۔‘‘ ’’خداکی قسم!‘‘حضرت عمر ؓنے کہا۔’’ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے یہ مال و دولت تقسیم کر دوں گا۔اسے میں اپنی نظروں کے سامنے زیادہ وقت رکھوں گا ہی نہیں۔‘‘ حضرت عمر ؓنے وہی کیاجو کہا تھا ۔کچھ اپنی مرضی سے اور کچھ مشیروں اور صحابہ کرامؓ کے مشوروں سے، سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے تمام مالِ غنیمت تقسیم کر دیا۔ جن شہیدوں کے نام ان تک پہنچے تھے، ان کے پسماندگان کو کچھ حصہ فالتو دیا۔ پیچھے وہ قالین رہ گیا جسے فارسی بہار کہتے تھے ۔اس کی جس طرح سے تقسیم ہوئی وہ پہلے بیان ہو چکی ہے۔ ٭ سعدؓ بن ابی وقاص نے مدائن کے محل سے بادشاہوں کا تخت اٹھوا کر منبر رکھوا دیااور کسریٰ کے اس دربار کو مسجد بنا لیا۔ سعدؓ نے اس ایوانِ شاہی میں جو پہلی نماز پڑھی وہ نمازِ جمعہ تھی۔ وہ جمعہ کا دن تھا اور نمازِ جمعہ کا وقت تھا۔ جب سعد ؓاس محل میں داخل ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہاں ہرنماز با جماعت پڑھی جاتی تھی۔ ایک روایت ہے کہ جب مجاہدین مدائن کے محل میں جا رہے تھے تو محل کے دروازے پر لکھا تھا ’’آتش کدہ نو بہار۔‘‘ اس کے نیچے فارسی زبان میں لکھا تھا ۔’’بادشاہ کے دربار میں وہ حاضری دے جس کے پاس علم حوصلہ اور دولت ہو۔‘‘ ایک مجاہد نے ایک فارسی سے پوچھا کہ یہ کیا لکھا ہے؟ فارسی نے اس تحریر کا ترجمہ کر کے سنایا ۔مجاہد نے اس تحریر کے نیچے عربی زبان میں لکھ دیا: ’’جس کے پاس علم، حوصلہ یا دولت یا ان میں سے ایک بھی چیز ہو گی اسے شاہی دربار میں حاضری دینے کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘ جس وقت کسریٰ کے محل میں نمازیں پڑھی جا رہی تھیں اس وقت یزدگردحلوان میں اس حالت میں تھا کہ کسی کے ساتھ بات بھی نہیں کرتا تھا اور زیادہ تر تنہا رہتا تھا ۔یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ شہنشاہیت سے ہی نہیں بلکہ زندگی سے ہی بیزار ہو گیا ہو۔ اس کے کمرے میں اس کی ماں جاتی تھی یا پوران ۔ کبھی کبھی وہ انہیں بھی کہہ دیا کرتا تھا کہ وہ اسے تنہا چھوڑ دیں۔ اس کی ماں نورین اسے اس کیفیت میں دیکھتی تو بہت روتی تھی ۔وہ جانتی تھی کہ اس کے نوجوان بیٹے کو کون سا غم کھائے جا رہا ہے۔ وہ صرف ایک امید دل میں لیے ہوئے تھا۔ اس کا خیال تھا کہ شکست کو فتح میں بدلنا تو ممکن نہیں رہا لیکن جنگ اور مسلمانوں کی پیش قدمی کو روکا جا سکتا ہے۔ اس نے اپنا ایک وفد مدائن میں اس پیش کش کے ساتھ بھیجا کہ دجلہ کو عرب اور عجم کے درمیان حدِ فاضل بنا دیا جائے اور جنگ بند کر دی جائے۔ ’’کیا تمہارے بادشاہ یزدگرد کا دماغ ٹھیک نہیں رہا؟ ‘‘سعد ؓبن ابی وقاص نے یزدگرد کے ایلچی سے کہا ۔’’کیا وہ بھول گیا ہے کہ وہ پہلے بھی یہ پیش کش کر چکا ہے اور میں اس کی آدھی سلطنت کی پیش کش کو ٹھکرا چکا ہوں۔ اب جب کہ ہم نے مدائن بزورِ بازو قبضہ کر لیا ہے اور مالِ غنیمت کی تقسیم بھی ہو رہی ہے تو میں ایسا احمق کیوں بن جاؤں کہ اتنی جدوجہد اور قربانی سے جو چیز حاصل کی ہے وہ میں تمہیں دے دوں ……اور اپنے شہنشاہ سے کہنا کے اس کے باپ نے ہمارے رسولﷺ کے پیغالِ حق کی توہین ایسی کی تھی کہ جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ یزدگرد کا وفد مایوس و نامراد واپس چل گیا۔ ٭ اور یہ مایوسی حلوان پر سیاہ گھٹا بن کر چھا گئی ۔اس جیسے بادشاہ جب غمگین ہوتے تو حسین و جمیل کنیزوں سے رقص و سرور اور شراب سے دل بہلایا کرتے تھے۔ لیکن یزدگرد تمام کنیزوں اور حرم کی تمام عورتوں کو مدائن میں ہی چھوڑ آیاتھا، ان میں سے چند ایک نوجوان لڑکیاں بھاگ گئی تھیں اور جو محل میں ہی رہ گئی تھیں انہوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا تھا اور سعدؓ بن ابی وقاص نے انہیں مدینہ بھیج دیا تھا۔ انہیں یقین دلا دیاگیا تھا کہ ان کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہو گا جو اس محل میں ہوتا رہا ہے۔ بلکہ انہیں باقاعدہ بیویاں بنایا جائے گا اور معاشرے میں انہیں با عزت مقام حاصل ہو گا۔ یزدگر نے شراب بھی چھوڑ دی تھی۔ یزدی!‘‘ایک روز پوران اس کے پاس جا بیٹھی اور اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ پھر اس کا سر اپنے سینے سے لگا کر کہا۔’’ میں جانتی ہوں تمہارے سینے میں کیسے کیسے زہریلے سانپ بل کھا رہے ہیں، لیکن جوان مرد اپنی یہ حالت نہیں بنا لیا کرتے۔ میں بھی وہی محسوس کر رہی ہوں جو تم کر رہے ہو۔‘‘ یزدگرد آخر نوجوان تھا۔ اسے ماں نے اپنے سینے سے لگا کر اور شہر سے دور گمنام سے ایک گاؤں میں چھپا کر پالا تھا۔ اسے عملی زندگی کا کوئی تجربہ نہ تھا ۔فنِ حرب و ضرب سے وہ بے بہرہ تھا ۔اس کے پاس جوش و خروش تھا اور اس کے دل میں سلطنتِ فارس کی محبت تھی۔ پوران نے اسے پیار سے اپنے ساتھ لگایا تو وہ بچوں کی طرح رو پڑا اور روتا ہی گیا۔ ’’دنیا مدائن پر نہیں ختم ہوجاتی یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ اور سلطنتِ فارس بھی مدائن پر ختم نہیں ہو گئی۔ اگر تم نے اس طرح حوصلہ ہار دیاتو عرب پورے عجم پر غالب آجائیں گے ۔‘‘ ’’اپنی بد نصیبی پر رونا آتا ہے پوران! ‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ وہ وقت یاد آتا ہے جب لوگ مجھے میری ماں کی مرضی کے خلاف مدائن لائے تھے اور تم میرے حق میں تخت وتاج سے دستبردار ہوئی تھیں۔ لوگوں نے یہ توقع مجھ سے وابستہ کر لی تھی کہ میں عربوں کو تباہ و برباد کر کے فارس کا وقار اور رعب بحال کر دوں گا مگر میں ناکام رہا۔ مجھے اپنی عظیم سلطنت کی تاریخ یاد آتی ہے ۔ہمارے آباؤ اجداد نے عراق پر یلغار کر کے یہ اتنا وسیع و عریض اور اتنا سر سبز اور زرخیز علاقہ سلطنتِ فارس میں شامل کر لیا تھا۔ ہم جو بنی ساسان تھے ہم نے ساری دنیا پر اپنی جنگی طاقت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ رومی ساسانیوں کے آگے نہ ٹھہر سکے۔ یونانی نہ ٹھہر سکے۔ مگر آج معمولی سی ایک قوم نے جس کا کوئی ماضی نہیں، سلطنتِ فارس کی عظمت کو پامال کر دیا ہے۔ آنے والی نسلیں کہیں گی کہ اس شکست کا قصور وار یزدگرد تھا۔‘‘ ’’ہم مر تو نہیں گئے یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ہمارے پاس فوج ہیں ،وسائل ہیں۔‘‘ ’’مجھے رستم کی پیش گوئی یاد آتی ہے۔‘‘ یزدگرد نے شکست خوردہ لہجے میں کہا ۔’’وہ کہتا تھا کہ سلطنتِ فارس کا انجام بہت برا ہو گا۔ وہ شاید ٹھیک کہتا تھا۔‘‘ ’’رستم مر گیا ہے۔‘‘ پوران نے جھنجھلا کر کہا ۔’’اس کی پیش گوئیاں مر گئی ہیں۔ یہ اس نے اپنے متعلق کہا تھا کہ اس کا انجام بہت برا ہو گا۔ وہ بہت ہی برے انجام کو پہنچا ۔تم اس انجام سے بچنے کی کوشش کرو۔‘‘ ’’لیکن کیسے؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔’ فوج کہاں ہے ؟ہمارے بزدل جرنیل کہاں ہیں؟ کچھ تو مارے گئے ہیں باقی چھپتے پھر رہے ہیں۔‘‘ ’’فوج بھی ہے ،جرنیل بھی ہیں۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ سب جلولامیں ہیں ۔مہران، فیروزان، خرزاد ۔یہ تینوں جرنیل وہاں موجود ہیں۔ وہ فوج کو اکٹھا کر کے منظم کر رہے ہیں۔‘‘ ’’نہیں پوران!‘‘یزدگرد نے حقارت آمیز لہجے میں کہا۔’’ ان پر عربوں کا خوف طاری ہو چکا ہے۔ یہ سب میدان کے بھگوڑے ہیں۔ ان پر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔میں ایک اور شکست کا صدمہ برداشت نہیں کر سکوں گا ۔‘‘ ’’کیا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ عرب کے یہ مسلمان مدائن میں ہی بیٹھے رہیں گے؟‘‘ پوران نے قدرے غصے سے کہا۔’’ وہ وہاں تک پہنچیں گے جہاں تم ہو گے۔ کیاتم ان کے آگے بھاگے بھاگے پھرو گے؟ بھاگو گے تو کہاں تک جاؤ گے؟ ہمارے جرنیل اتنے بزدل نہیں جتنے تم ہو گئے ہو؟ تم ڈر پو ک ہو یزدی!پوری سلطنت عربوں کو دے کر دم لو گے۔‘‘ ’’تم مجھے تنہا کیوں نہیں چھوڑ دیتیں؟‘‘ یزدگرد نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’تم تنہا رہو۔‘‘ پوران نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’میں لڑوں گی۔ میں نے تینوں جرنیلوں سے بات کر لی ہے۔ جلولا کو ہم بڑا مضبوط مرکز بنا رہے ہیں اور جرنیلوں نے جلولا کے دفاع کا انتظا م ایسا کیا ہے کہ مسلمان وہاں سر ٹکرا تے رہیں گے اور ختم ہو جائیں گے۔‘‘ پوران غصے کے عالم میں باہر کو چل پڑی۔ ’ٹھہر جاؤ پوران! ‘‘یزدگرد نے کہا۔ پوران رک گئی اور پیچھے کو مُڑی۔ ’’مجھے جلولا لے چلو۔‘‘یزدگر دنے کہا۔ پورا ن اسی وقت اسے جلولا لے گئی۔ جاری ہے
❤️ 👍 4

Comments