
لَبَّیْک اَلجِہَاد
January 31, 2025 at 03:59 PM
حجاز کی آندھی قسط نمبر 41
٭
’’لیکن کیسے؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔’ فوج کہاں ہے ؟ہمارے بزدل جرنیل کہاں ہیں؟ کچھ تو مارے گئے ہیں باقی چھپتے پھر رہے ہیں۔‘‘
’’فوج بھی ہے ،جرنیل بھی ہیں۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ سب جلولامیں ہیں ۔مہران، فیروزان، خرزاد ۔یہ تینوں جرنیل وہاں موجود ہیں۔ وہ فوج کو اکٹھا کر کے منظم کر رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں پوران!‘‘یزدگرد نے حقارت آمیز لہجے میں کہا۔’’ ان پر عربوں کا خوف طاری ہو چکا ہے۔ یہ سب میدان کے بھگوڑے ہیں۔ ان پر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔میں ایک اور شکست کا صدمہ برداشت نہیں کر سکوں گا ۔‘‘
’’کیا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ عرب کے یہ مسلمان مدائن میں ہی بیٹھے رہیں گے؟‘‘ پوران نے قدرے غصے سے کہا۔’’ وہ وہاں تک پہنچیں گے جہاں تم ہو گے۔ کیاتم ان کے آگے بھاگے بھاگے پھرو گے؟ بھاگو گے تو کہاں تک جاؤ گے؟ ہمارے جرنیل اتنے بزدل نہیں جتنے تم ہو گئے ہو؟ تم ڈر پو ک ہو یزدی!پوری سلطنت عربوں کو دے کر دم لو گے۔‘‘
’’تم مجھے تنہا کیوں نہیں چھوڑ دیتیں؟‘‘ یزدگرد نے جھنجھلا کر کہا۔
’’تم تنہا رہو۔‘‘ پوران نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’میں لڑوں گی۔ میں نے تینوں جرنیلوں سے بات کر لی ہے۔ جلولا کو ہم بڑا مضبوط مرکز بنا رہے ہیں اور جرہے
لوں نے جلولا کے دفاع کا انتظا م ایسا کیا ہے کہ مسلمان وہاں سر ٹکرا تے رہیں گے اور ختم ہو جائیں گے۔‘‘
پوران غصے کے عالم میں باہر کو چل پڑی۔
’ٹھہر جاؤ پوران! ‘‘یزدگرد نے کہا۔
پوران رک گئی اور پیچھے کو مُڑی۔
’’مجھے جلولا لے چلو۔‘‘یزدگر دنے کہا۔
پورا ن اسی وقت اسے جلولا لے گئی۔
٭
جلولا مدائن سے تقریباً چالیس میل دور ایک شہر تھا۔ سعد ؓبن ابی وقاص نے مدائن میں اپنے لشکر کے ساتھ قیام کر رکھا تھا اور انہوں نے اپنے جاسوس حلوان اور جلولا تک بھیجے ہوئے تھے ۔ان جاسوسوں میں مقامی آدمی تھے۔ جن میں وہ عربی تھے جو بڑی لمبی مدت سے عراق میں آباد تھے ۔ایک روز دو جاسوس آئے۔
’’جلولا میں فارسیوں نے بہت بڑی فوج جمع کر لی ہے۔‘‘ ان جاسوسوں نے سعد ؓبن ابی وقاص کو بتایا۔’’ خر زاد نے جو رستم کا بھائی ہے، ایسی جنگی تدبیر پر عمل کیا ہے جو مجاہدین کے لشکر کیلئے بہت ہی زیادہ مشکلات پیدا کر دے گی۔ شہر کے اردگرد گہری اور اتنی چوڑی خندق کھود دی گئی ہے، جسے کوئی طاقتور گھوڑا بھی نہیں پھلانگ سکتا ۔شہر کے باہر آنے جانے کیلئے کچھ جگہیں چھوڑی گئی ہیں ،جہاں خندق نہیں ہے۔خندق کے اردگرد لوہے کے نوکیلے تار بچھا دیئے گئے ہیں۔ انہی تاروں سے شہرمیں آنے جانے والے راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔‘‘
’’شہر کے اندر کیا کیفیت ہے؟‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے پوچھا۔’’ لوگوں کے ،فوج کے اور جرنیلوں کے ارادے اور خیالات کیسے ہیں ؟ کیا ان سب پر ہمارا رعب پہلے جیسا طاری ہے یا نہیں؟‘‘
’’یزدگرد اور پوران وہاں پہنچ چکے ہیں ۔‘‘ایک جاسوس نے کہا ۔’’انہوں نے اپنی فوج کو ایساگرمایا اور بھڑکایا ہے کہ شہری بھی فوج میں شامل ہو گئے ہیں ۔وہ بھگوڑے جو قادسیہ اور مدائن سے بھاگے تھے ،وہ سب جلولا میں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ہم نے ان کے جرنیلوں کی تقریریں سنی ہیں۔ انہوں نے اپنی فوج سے اور دوسرے لوگوں سے کہا ہے کہ ہم یہاں مقابلے میں جم گئے تو مسلمان محاصرے میں بیٹھے بیٹھے ہی کمزور ہو جائیں گے، اور اگر ہم یہاں بھی پیٹھ دکھا گئے تو پھر ہمیں اور ہماری نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ جرنیلوں نے فوج سے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں عربوں سے ہم بڑا ہی زبردست مقابلہ کریں گے۔ اگر ہم نے انہیں شکست دیدی تو سلطنت کے وہ تمام علاقے جو مسلمانوں کے قبضے میں چلے گئے ہیں واپس آجائیں گے، اور یہاں کے لوگ ہمیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے ۔اگر فتح مسلمانوں کی ہوئی تو فارس کے لوگ ہم پر یہ الزام نہیں لگائیں گے کہ ہم لڑے نہیں تھے۔‘‘
’’یزدگرد جلولا میں ہی ہو گا۔‘‘
’’نہیں امیرِ لشکر!‘‘دوسرے جاسوس نے جواب دیا۔’’وہ پوران کے ساتھ جلولا آیا تھا۔ پوران بہت ہی جوشیلی عورت ہے۔ وہ لوگوں کے گھروں میں جا کر عورتوں اور کم سن لڑکیوں اور لڑکوں کو بھی جنگ کیلئے تیار کر رہی ہے۔ اس کے بولنے کا انداز ایسا پُر اثر ہے کہ جو اسے سنتا ہے وہ آگ بگولا بن جاتا ہے۔ یزدگرد واپس حلوان چلا گیا ہے۔ جلولا میں اس قدر اناج پانی اور روز مرہ ضرورت کی تمام اشیاء جمع کر لی گئی ہیں جو فوج کیلئے بھی اور شہریوں کیلئے بھی ایک سال سے زیادہ عرصے کیلئے کافی ہوں گی۔‘‘
’’اور امیرِ لشکر!‘‘اس جاسوس کے ساتھی نے کہا۔’’ جرنیلوں نے اور ہر ایک فوجی نے حلف اٹھا کر عہد کیا ہے کہ عربوں کو جلولا کی دیوارکے باہر ختم کر کے ان کی لاشیں خندق میں پھینک کر مٹی ڈال دیں گے۔ ‘‘
’’کیا بھگوڑے فوجی ابھی تک آرہے ہیں؟‘‘
’’ہاں امیرِ لشکر!‘‘جاسوس نے جواب دیا۔’’ وہ خود بھی آرہے ہیں اور انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بھی لایا جا رہا ہے۔ جلولا کے لوگ ہر آنے والے فوجی کا والہانہ استقبال کرتے ہیں اور پھر اس سے وہی حلف لیا جاتا ہے جو دوسروں سے لیا گیا ہے ۔مدائن سے بھاگے ہوئے شہری جلولا میں خیموں میں رہ رہے ہیں۔ وہ سب لڑنے کیلئے تیار ہیں۔تیغ زنی اور تیر اندازی کی مشق کرتے رہتے ہیں ۔‘‘
بعض مؤرخوں نے جلولا کے دفاعی انتظامات اور شہر میں جو فوج تھی اس کی تفصیلات لکھی ہیں ۔اتنی زیادہ فوج کے مارے جانے کے باوجود جلولا میں مقیم فوج مسلمانوں کی نسبت کم و بیش تین گنا زیادہ تھی۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ سعدؓ بن ابی وقاص کسی بہروپ میں جلولا گئے اور کچھ دور سے خندق اور خار دار تار دیکھی۔
٭
سعد ؓبن ابی وقاص نے امیر المومنینؓ کو آتش پرستوں کی ان تیاریوں کی تفصیل لکھی اور یہ بھی لکھا کہ معلوم ہو تا ہے کہ یہ فارسیوں کا آخری مضبوط مورچہ ہے اور وہ وہاں آخری معرکہ لڑنا چاہتے ہیں۔
امیر المومنین ؓنے فارسیوں کے دفاعی انتظامات اور تیاریوں کی تفصیلات پڑھ کر لکھا کہ ہاشم بن عتبہ کو بارہ ہزار مجاہدین دے کر جلولا بھیجا جائے۔ ہراول میں قعقاع بن عمرو ہوں گے۔ دائیں پہلو پر مشعر بن مالک بائیں پہلو پر عمرو بن مالک اور پیچھے والے حصے کے کماندار عمرو بن مرّہ ہوں گے۔
حضرت عمرؓ نے اور بھی کچھ ہدایات دی تھیں۔ انہوں نے زور دے کر لکھا کہ ایک ہی بار سارا لشکر جلولا کی لڑائی میں نہ جھونک دینا۔ مدائن کا دفاع مضبوط رکھنا۔ جلولا سے اپنی پسپائی بھی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں مدائن کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔ اس مشکل کا حل پہلے ہی تیار رکھنا۔
امیر المومنینؓ کا حکم ملتے ہی سعد ؓبن ابی وقاص نے بارہ ہزار کا لشکر تیار کیا، اور اسے چار حصوں میں تقسیم کر کے اس کے سالار مقر ر کیے اور انہیں بتایا کہ جلولا میں انہیں کیسا دفاع ملے گا۔
’’اور یاد رکھ میرے بھائی کے بیٹے!‘‘سعد ؓبن ابی وقاص نے اپنے بھتیجے ہاشم بن عتبہ سے کہا۔’’ تو بڑی سخت آزمائش میں جا رہا ہے۔ ہمارا خاندان ناکامی اور شکست کے صرف نام سے واقف ہے، کبھی شکست کھائی نہیں۔ ہم کبھی ناکا م نہیں ہوئے۔ اگر تو ناکام رہا تو زندہ واپس نہ آنا۔ تیری لاش آئی تو میں اسے نہیں دیکھوں گا۔‘‘
’’کیا مجھے کمک کی امید رکھنی چاہیے؟ ‘‘ہاشم نے پوچھا۔
’’میں تیری پیٹھ پیچھے رہوں گا۔‘‘ سعد ؓبن ابی وقاص نے کہا۔’’ میں خود محسوس کر لوں گا کہ تجھے کمک کی ضرور ت ہے اور وقت سے پہلے تجھے کمک مل جائے گی۔ قعقاع بن عمرو تیرے ساتھ ہے اور تیرے ماتحت دوسرے جو سالار جا رہے ہیں، وہ امیر المومنین کے منتخب کیے ہوئے ہیں ۔ان میں سے کوئی بھی تجھے دھوکا نہیں دے گا ۔ایسا نہ ہو کہ تو ہی انہیں دھوکا دے جائے۔ یہ بھی سن لے ۔آگ کے پجاریو نے قسم کھائی ہے کہ وہ ہمیں خندق کے باہر ہی تباہ کر کے لاشیں خندق میں پھینک دیں گے۔‘‘
سعدؓ بن ابی وقاص نے ہاشم بن عتبہ کو بتایا کہ فارس کی فوج کا محصور ہو کر لڑنے کاانداز یہ ہے کہ اس کے دو چار دستے باہر آکر زور دار حملہ کرتے اور قلعے میں واپس چلے جاتے ہیں۔
’’میں فارسیوں سے ہی لڑتا آرہا ہوں۔‘‘ ہاشم نے کہا۔’’ اگر میں قادسیہ اور بُہرشیر کی لڑائی میں بزدل نہیں رہا تو اب بھی بزدل نہیں بنوں گا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ میں جلولا کی طرف چل پڑوں؟‘‘
’’ہاں میرے بھائی کے بیٹے!‘‘سعد ؓبن ابی وقاص نے کہا۔’’ اﷲ حافظ۔ تو ہر جگہ اﷲ کو اپنے ساتھ پائے گا۔‘‘
٭٭٭
ہاشم بن عتبہ کا لشکر فجر کی نماز پڑھ کر چلا اور سورج غروب ہونے سے پہلے جلولا پہنچ گیا۔ ہاشم اور اس کے سالاروں کو بتا دیا گیا تھا کہ جلولا کے دفاعی انتظامات کیا ہیں۔ لیکن انہوں نے وہاں جاکر یہ انتظامات دیکھے تو پریشان ہوگئے۔ وہاں تو محاصرے میں بیٹھنے والی بات تھی۔ دیوار تک پہنچنا ہی ناممکن تھا ۔اتنی چوڑی خندق اور جہاں تین چار جگہوں پر خندق نہیں راستے تھے ،وہاں لوہے کے نوکیلے تاروں کے گچھے تھے۔
شہر کی دیوار پر شہری اور فوجی کھڑے قہقہے لگا رہے تھے اور آوازے کَس رہے تھے۔
دو دروازے کھلے اور بہت سے لوگ خندق کے دو راستوں تک دوڑے آئے۔ انہوں نے بہت تیزی سے ان راستوں سے تار ہٹا دیئے۔ فوراً ہی شہر کے کھلے ہوئے دروازوں سے گھوڑ سواروں کا سیلاب نکلا اور ان دونونں راستوں سے ہی باہر آکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔ مسلمان ابھی ایسی ناگہانی آفت کیلئے تیار نہیں تھے۔ پھر بھی انہوں نے ان سواروں کا مقابلہ کیا۔
’’ان کی واپسی کے راستے ر وک لو۔‘‘ یہ قعقاع بن عمرو کی گرجدار آواز تھی، جو بار بار گرجتی تھی۔
مجاہدین نے بھی ’’ان کے راستے روک لو ‘‘کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ ان کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ فارسی سواروں نے ضرب لگاؤ اور بھاگو کے اصول پر حملہ کرنا، زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا اور واپس چلے جانا تھا۔ ان کے کانوں میں جب یہ للکار پڑی کہ ان کے واپسی کے راستے بند کر دو تو ان کا دھیان آگے کے بجائے پیچھے کو ہو گیا۔ وہ زندہ سلامت واپس جانے کی کوشش کرنے لگے۔
مسلمان راستے تو بند نہ کر سکے لیکن تیر انداز مجاہدین نے انہیں بہت نقصان پہنچایا ۔راستے تنگ تھے اور ہر سوار دوسروں سے پہلے واپس چکے جانے کی کوشش میں تھا۔ اسلئے سوار ان تنگ راستوں میں پھنس گئے۔ مجاہدین نے تلواروں اور برچھیوں سے بھی انہیں بہت نقصان پہنچایا ۔مجاہدین کا نقصان معمولی تھا ۔
راستے پھر نوکیلی تاروں سے بند کر دیئے گئے۔ مجاہدین نے مرے ہوئے فارسیوں کو خندق میں پھینکنا شروع کر دیا۔ زخمی گھوڑوں کو بھی خندق میں دھکیل دیا۔
تصور میں لائیں کہ مجاہدین کی تعداد صرف بارہ ہزار تھی اور جلولا ایک بڑا شہر تھا۔ اس کے محاصر ے میں بارہ ہزار مجاہدین بالکل نا کافی تھے۔ اندر سے حملہ آنے کی صورت میں مجاہدین کو اکٹھا ہونا پڑتا تھا ،جس سے محاصرہ ٹوٹ جاتا تھا ۔شہر کے ایک طرف محاصرہ ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس طرف پہاڑی تھی اور اس میں سے ایک راستہ شہر میں آتا تھا۔ یہ راستہ حلوان اور جلولا کو ملاتا تھا۔ اس سے فارسیوں کو یہ سہولت حاصل تھی کہ کمک اور رسد آسانی سے بھیج سکتے تھے ۔پہلے حملے میں جلولا کے جتنے فوجی مارے گئے حلوان سے اس سے زیادہ فوجی جلولا بھیج دیئے گئے ۔
٭یہی معمول بن گیا ۔دو دن گزرتے تھے تو جلولا سے سوار نکلتے اور اسی طر ح حملہ کرتے جس طرح انہوں نے پہلا حملہ کیاتھا ۔ہر حملے میں بہت سے فارسی گھوڑ سوار اور پیادے ہلاک یا زخمی ہو کر پیچھے رہ جاتے اور باقی واپس چلے جاتے۔
سعدؓ بن ابی وقاص نے زخمیوں کو مدائن لے جانے اور ان کی جگہ تازہ دم مجاہدین کو جلولا بھیجنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ مدائن سے انہیں گھوڑا گاڑیاں اور بیل گاڑیاں مل گئی تھیں۔
دو مہینے گزر گئے۔ پہلے دن سے ہی پوران نے اپنا یہ معمول بنا لیا تھا کہ جلولا کے اندر فوجیوں کو اکٹھا کر کے بڑی ہی جذباتی اور جوشیلی تقریر کرتی ،جس سے فوجیوں کے حوصلوں میں نئی جان پیدا ہو جاتی اور ان کے جذبے بیدار ہو جاتے ۔وہ شہریوں کو بھی اسی طرح تقریریں کرکے مشتعل کرتی رہتی تھی۔
دو مہینوں میں جلولا والوں کا اتنا زیادہ جانی نقصان ہو چکا تھا ،جو شہریوں کیلئے نا قابلِ برداشت تھا۔ فوجیوں کے ساتھ شہر کے لوگ بھی باہر آ کر مسلمانوں پر حملے کرتے اور مارے جاتے یا زخمی ہو تے تھے۔ زخمیوں کو پیچھے ہی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ انہیں مسلمان مدائن بھیج دیتے تھے ۔یہ جنگی قیدی تھے جنہیں مدینے جا کر غلاموں کی طرح فروخت ہونا تھا۔
ایک روز پوران حسبِ معمول شہر کے گشت کیلئے نکلی تو ایک جگہ بہت سی عورتوں نے اسے گھیر لیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ پوران کو بولنے کا موقع نہ ملا۔ عورتوں نے اسے دیکھتے ہی ہنگامہ بپا کر دیا۔ جوں جوں عورتوں کا شوروغل بڑھتا جا رہا تھا۔ عورتوں کے ہجوم میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ عورتیں بھول گئی تھیں کہ پوران ملکہ تھی یا شہنشاہِ فارس کی سوتیلی بہن ہونے کی وجہ سے اب بھی اس کا درجہ ملکہ جیسا ہے اور یہ وہ شاہی خاندان ہے، جو قتل کو یوں سمجھتا ہے جیسے دو چار مکھیاں مار ڈالی ہوں۔
’’پوران تو ماں ہوتی تو تجھے ان ماؤں کے دلوں کی حالت معلوم ہوتی ،جن کے جوان بیٹے تو نے باہر بھیج کر مروا دیئے ہیں ۔‘‘
’’تو نے شادی نہیں کی تو بیوہ ہوتی تو ……‘‘
’’تیرا کوئی بھائی نہیں مرا پوران‘‘
’’تو ملکہ‘ تجھے کیا غم‘‘
’’ہماری دولت یہی لڑکے تھے جنہیں تو نے مروا دیا ہے۔‘‘
عورتیں واویلا بپا کیے جا رہی تھیں ۔ان کے بیٹے بعض کے بھائی باپ اور خاوند پوران کی للکار پر جوش میں آکر فوج میں شامل ہو گئے تھے اور گذشتہ دو مہینوں میں فوج سے مل کر شہر سے باہر مسلمانوں پرحملے میں شامل ہو تے رہے اور مارے جاتے رہے تھے۔
’’کیا تم اپنے ملک کیلئے کوئی قربانی دینا نہیں چاہتیں؟‘‘ پوران کو بڑی مشکل سے یہ کہنے کا موقع ملا۔’’ کیا تم نہیں جانتیں کہ اس شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تو تمام جوان لڑکیوں کو یہ وحشی عرب اپنی لونڈیاں اور کنیزیں بنا لیں گے۔‘‘
’’تم اپنے بھائی کوباہر کیوں نہیں نکالتیں؟ ‘‘ایک عورت نے کہا۔’’ یہ ملک ہمارا نہیں یہ یزدگرد اور اس کے خاندان کا ملک ہے۔ یہ بزدل اور عیاش فوج کا ملک ہے ۔بیٹے ہمارے مرواتی ہو ،عیش و عشرت تمہارا خاندان کرتا ہے۔‘‘
وہاں تو بغاوت جیسی صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی۔ ان حالات میں کہ شہر محاصرے میں تھا اور فوج کی خاصی نفری ماری گئی تھی، ان لوگوں کو جبر و تشدد سے دبانا خطرناک تھا ۔پوران دیکھ رہی تھی کہ پہلے صرف عورتیں پھر مرد بھی جمع ہونے لگے تھے۔ ان میں سے بعض نے مدائن کے طعنے بھی دیئے۔
پوران تو دب کے رہ گئی۔ اس نے عورتوں کو تسلی دلاسا دیا ۔اپنے مخصوص اور پر اثر انداز میں بول کر اس نے مردوں کو بھی ٹھنڈا کردیا ،مگر خود اتنی مضطرب اور پریشان ہو گئی کہ گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں سے چلی تو اس کا سر اوپر نہیں اٹھ رہا تھا ۔
اس نے ایک جگہ جرنیلوں کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ سب حلوان پہنچیں ۔وہ خود بھی حلوان پہنچ گئی۔
٭٭
مہران، فیروزان اور خرزاد اس کے پیچھے پیچھے حلوان پہنچے ۔پوران انہیں یزدگرد کے پاس لے گئی۔
’’معلوم ہوتا ہے جلولا کی شکست بھی ہماری قسمت میں لکھ دی گئی ہے ۔‘‘پوران نے کہا۔’’ آج جلولا کی عورتوں نے مجھے جو طعنے دیئے ہیں ،وہ تم سنتے تو دجلہ میں ڈوب مرنے کیلئے چل پڑتے ۔لیکن تم دجلہ میں ڈوب مرنے کے حق سے بھی محروم کر دیئے گئے ہو۔د جلہ اب تمہارا نہیں رہا۔‘‘
’’کیا تم تینوں جرنیل بتا سکتے ہو کہ ہماری فوج میں کس چیز کی کمی ہے؟‘‘ یزدگرد نے اپنے جرنیلوں سے پوچھا۔
’’حوصلے کی۔‘‘ مہران نے جواب دیا۔’’ عربوں کی تعداد دس سے بارہ ہزار تک ہے لیکن ان کا حوصلہ مضبوط ہے۔ وہ شکست کھانے کے بجائے مر جانے کو بہتر سمجھتے ہیں۔پے بہ پے فتوحات نے بھی ان کے حوصلے بلند کر دیئے ہیں ۔ہماری فوج پر ان کا خوف غالب آگیا ہے۔ جب سے انہوں نے گھوڑوں کی پیٹھ پر دجلہ پار کیا ہے ہماری فوج میں یہ بات پورے یقین سے تسلیم کر لی گئی ہے کہ مسلمان جن بھوت ہیں یا ان کے پاس کوئی جادو ہے۔ ہم نے انہیں بہت سمجھایا ہے کہ مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت طاقت نہیں لیکن ہمارے سپاہی جب ان کے سامنے جاتے ہیں تو بھاگنے کا راستہ پہلے دیکھ لیتے ہیں۔‘‘
’’شہنشاہِ فارس!‘‘فیروزان نے کہا۔ ’’مسلمان اپنے عقیدے کے پکے ہیں۔‘‘
’’ان باتوں کا ہمارے پاس کوئی وقت نہیں۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ میں نے تمہیں یہ رائے دینے کیلئے نہیں بلایا کہ عقیدہ کس کا پکا اور کس کا سچا ہے۔ میں تم سب کو یہ بتا رہی ہوں کہ ہم نے جلولا کا محاصرہ توڑ کر عربوں کو پسپانہ کیا تو جلولا کے شہری ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔وہ باغی ہو جائیں گے تو اپنی فوج کیلئے ایک مصیبت بن جائیں گے ۔وہ دروازے کھول کر باہر نکل جائیں گے اور خندق کے رستوں سے تار ہٹا دیں گے ۔تم بھی غور کرو یزدی!ہمیں کچھ کرنا چاہیے اور بہت جلدی کرنا چاہیے۔‘‘
’’یہ میں پہلے ہی سوچ چکا ہوں۔‘‘ مہران نے کہا ۔’’ ہمیں اپنی پوری فوج سے عربوں پر حملہ کرنا چاہیے۔ محاصرے کو پچھتر دن گزر گئے ہیں۔ ہم بہت جانی نقصان اٹھا چکے ہیں ۔مجھے پوری امید ہے کہ میں ایک بھی عربی کو زندہ واپس نہیں جانے دوں گا۔ میں پوری فوج سے حملہ نہیں کروں گا۔ حملہ آدھی فوج سے ہوگا۔ یہ دستے تھکنے لگیں گے تو آہستہ آہستہ پیچھے آنا شروع کر دیں گے اور باقی آدھی فوج جو شہرمیں تیار ہو گی، وہ باہر آجائے گی اور لڑائی جاری رہے گی ۔عرب اتنی کم تعداد میں ہیں کہ لڑائی جاری نہیں رکھ سکیں گے۔‘‘
’’یہ حملہ کب ہو سکے گا؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔
’’تین چار دنوں بعد۔‘‘ مہران نے جواب دیا ۔’’میں اور فیروزان فوج کے ساتھ باہر جائیں گے ۔ہم ساتھ ہوں گے تو فوج جم کر لڑے گی۔‘‘
’’جاؤ! ‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ ابھی تیاری شروع کر دو۔‘‘
٭
اور تین دنوں میں تیاریاں مکمل ہو گئیں۔
جلولا میں دوسری جگہوں سے نقل مکانی کر کے پہنچنے والے شہریوں اور بھگوڑے فوجیوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیاتھا۔ یزدگرد ،نورین اور پوران نے ان تین دنوں میں یہ معمول بنائے رکھاتھا کہ ان میں سے کوئی فوج کو اور کوئی شہریوں کو اکٹھا کرکے بڑے ہی جذباتی اور جوشیلے انداز اور الفاظ میں گرماتا اور اس طرح لڑائی کیلئے تیار کیا جاتا تھا۔
’’اب بھاگ کر کہاں جاؤ گے؟‘‘ یہ الفاظ ان تینوں کی زبانوں پر چڑھے ہوئے تھے ۔’’تمہیں فارس کی دوسری سرحد کے قریب پہنچا دیا گیا ہے۔ آگے رومیوں کا علاقہ ہے۔ تم عربوں کے نرغے میں آگئے ہو۔ اب عورتوں اور بچوں کو بھی لڑنا پڑے گا ۔اگر تم اس کیلئے تیار نہیں تو پھر عربوں کے غلام اور لونڈیاں بننے کیلئے تیار ہو جاؤ۔‘‘
مدائن کے دولت مند تاجر اور جاگیر دار بھی مدائن سے بھاگ کر جلولا چلے گئے تھے ۔ان کے خزانے مدائن میں ہی رہ گئے تھے۔ جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کی وہ وسیع و عریض اراضی جو سونا اور چاندی اگلتی تھی وہ مسلمانوں کے قبضے میں آگئی تھی ۔وہ تو کنگال ہو گئے تھے۔
ان میں سے ایک نے اعلان کر دیا کہ جو فوجی یا شہری بے مثال بہادری سے لڑے گا اسے سونے اور چاندی کی صورت میں وہ جھولی بھر کے انعام دے گا۔
فوراً ہی ایک اور جاگیردار نے اعلان کر دیا کہ بہاردری سے لڑنے والے کو وہ اپنی جاگیر میں سے حصہ دے گا۔
ایک ہی دن میں تقریباً تمام تاجروں اور جاگیرداروں نے بہادر ی سے لڑنے والوں کیلئے انعامات کا اعلان کر دیا۔
یزدگرد، نورین اور پوران کے اشتعال انگیز الفاظ کے ساتھ اتنے زیادہ انعامات کے اعلان نے فوج اور شہریوں میں نئی روح پھونک دی۔ کم سن لڑکے بھی مرنے مارنے پر تیار ہو گئے۔ عورتوں نے اعلان کر دیا کہ عربی اگر شہرمیں داخل ہو گئے تو وہ شہر کی گلیوں اور گھروں میں لڑیں گی۔ کسی عربی مسلمان کو زندہ نہیں چھوڑیں گی یا خود زندہ نہیں رہیں گی۔
ایک طوفان تھا یا آتش فشاں میں ابلتا ہوا لاوا تھا ،جو جلولا کو محاصرے میں لیے ہوئے بارہ ہزار مجاہدین کو خس و خاشاک کی طرح اڑا اور بہا لے جانے کیلئے تیار تھا۔
مجاہدین کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ پہلے معرکوں کے زخمیوں اور شہیدوں کو مدائن بھیج دیا گیا تھا۔ان کی جگہ تازہ دم مجاہدین آگئے تھے ۔اس طرح جلولا کے مجاہدین کی نفری پوری بارہ ہزار ہی رکھی گئی تھی۔ تیروں اوربرچھیوں کے تو انبار تھے جو مجاہدین کیلئے بھیجے گئے تھے ۔مجاہدن کے دلوں میں کوئی دنیاوی لالچ نہیں تھا۔ ان کے دلوں میں اﷲ اور رسولﷺ کی محبت تھی۔
جلولا کے اندر لڑنے کیلئے جو نفری تیار ہوئی تھی وہ ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔
٭
تاریخوں کے مطابق محاصرے کے اسّی دن پورے ہوئے تو شہر کے دروازے کھلے۔ کچھ آدمیوں نے آگے آکر خندق پر بنائے ہوئے راستوں سے خاردار تار ہٹا دیئے۔ بڑا ہی زبردست سیلاب تھا جو بند توڑ کر مجاہدین کی طرف آیا۔ یہ گھوڑوں اور انسانوں کا تیز و تند سیلاب تھا جس کے آگے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بارہ ہزار مجاہدین زندہ کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ مجاہدین کیلئے یہ حملہ غیر متوقع اور ناگہانی تھا ۔
’’انہیں خندق کی طرف دبائے رکھو ۔‘‘یہ مجاہدین کے سالار ہاشم بن عتبہ کی آواز تھی جو بلند آواز مجاہدین نے محاصرے کے ایک سرے سے دوسرے تک پہنچا دی۔
فارسی لشکر میں نیا ہی جوش و خروش نظر آرہا تھا لیکن وہ زیادہ آگے آنے سے بھی گریز کر رہے تھے کیونکہ انہیں واپس بھی جانا تھا۔ واپسی کے راستے تین چار ہی تھے۔
علامہ شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ فارسیوں نے باہر آکر حملہ کیا تو بڑی تیز آندھی آگئی۔ مجاہدین نے اس آندھی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے شدید حملے کیے کہ فارسی خندق میں گرنے لگے اور ان کا آدھا لشکر تباہ ہو گیا۔
کسی اور مؤرخ نے آندھی کا ذکر نہیں کیا۔ سب لکھتے ہیں کہ یہ لڑائی غیر معموی طور پر خونریز تھی۔ ابنِ کثیر نے لکھا ہے کہ ایسی گھمسان کی لڑائی ہوئی کہ برچھیاں ٹوٹ گئیں ،تیر ختم ہو گئے، تلواریں نکلیں اور کلہاڑے نکلے ۔ فارسی اتنے زیادہ تھے کہ مجاہدین ان میں نظر نہیں آتے تھے ۔مجاہدین نے وہی طریقہ اختیار کیا کہ فارسیوں کو خندق کی طرف دباتے تھے اور فارسی پیچھے ہٹتے ہٹتے خندق میں گرتے تھے۔ بعض اپنے گھوڑوں کے نیچے آتے اور مرتے تھے ۔
مؤرخوں نے اس معرکے کو بیان کرتے ہوئے بار بار قعقاع کا ذکر کیا ہے۔ دوسرے سالاروں کی شجاعت بھی کچھ کم نہ تھی لیکن قعقاع نے تو معجزہ کر دکھایا تھا۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ خندق کے راستے بند کر دیئے جائیں تاکہ فارسی واپس نہ جا سکیں۔ لیکن قعقاع اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے۔
مؤرخوں نے اس معرکے کو عراق کی جنگ کا سب سے زیادہ خونریز اور انتہائی گھمسان کا معرکہ کہا ہے۔ فارسیوں کی ایک کمزوری یہ تھی کہ وہ ہجوم کی صورت میں آئے تھے اور ہجوم کی صورت میں ہی لڑ رہے تھے۔ مجاہدین انہیں بکھرنے نہیں دے رہے تھے۔ اس سے فارسیوں کیلئے یہ دشواری پیدا ہو گئی تھی کہ وہ ایک دوسرے میں پھنس گئے تھے ۔انہیں گھوم پھر کر لڑنے کا موقع نہیں ملتا تھا ۔دوسری کمزوری یہ کہ انہیں واپس بھی جانا تھا اور واپسی کے راستے تھوڑے بھی تھے اور تنگ بھی۔
ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ بہادری سے لڑنے اور مرنے کا حلف اٹھانے کے باوجود ان پرمسلمانوں کی دہشت طاری تھی۔ یزدگرد، نورین اور پوران کی جوشیلی تقریریں بھی انہیں اس دہشت سے نجات نہیں دلا سکی تھیں۔
پھر فارسیوں کی ایک کمزوری اور بھی تھی ۔وہ یہ کہ مسلمان پہلے سے کہیں زیادہ جوش و خروش سے ان کا مقابلہ کر رہے تھے اور مسلمان نعرے لگاتے تھے کہ امیر المومنین کا حکم ہے کہ بارہ ہزار مجاہدین دشمن کو شکست دیں ۔
ظہر کے وقت فارسی واپس جانے لگے ۔ مجاہدین نے بہت کوشش کی کہ واپسی پر انہیں مزید نقصان پہنچائیں ۔اس کوشش میں وہ خاصی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔
جب آخری فارسی بھی خندق کی دوسری طرف چلا گیا تو کسی مجاہد نے اذان دی۔ سالار ہاشم بن عتبہ نے اعلان کرایا کہ نمازِ خوف ادا کی جائے گی۔
بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مجاہدین نے ظہرکی نماز اشاروں میں ادا کی ۔دراصل یہ نمازِ خوف تھی جس کی ادائیگی کا ایک خاص طریقہ ہے ۔دشمن کی طرف سے اتنی مہلت مل گئی تھی کہ مجاہدین نے ٹولیوں میں تقسیم ہو کر نمازِ خوف ادا کر لی۔
٭
جاری ہے
❤️
👍
4