
لَبَّیْک اَلجِہَاد
February 1, 2025 at 12:36 PM
حجاز کی آندھی قسط نمبر 42
بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مجاہدین نے ظہرکی نماز اشاروں میں ادا کی ۔دراصل یہ نمازِ خوف تھی جس کی ادائیگی کا ایک خاص طریقہ ہے ۔دشمن کی طرف سے اتنی مہلت مل گئی تھی کہ مجاہدین نے ٹولیوں میں تقسیم ہو کر نمازِ خوف ادا کر لی۔
٭
’’اﷲ کے مجاہدو!‘‘قعقاع نے اپنے دستوں سے کہا۔’’ کیا تم ڈر تو نہیں گئے؟‘‘
’’ڈرے ہوئے نہیں ،ہم تھکے ہوئے ہیں۔‘‘ ایک مجاہد نے کہا۔’’ اگر ایسا اور حملہ ہوا تو وہ تازہ دم فوج سے ہوگا۔‘‘
’’ہاں! ‘‘قعقاع نے کہا۔’’ ایسا حملہ ہوا تو اب ہم ذرا پیچھے ہٹ کر ان پرحملہ کریں گے اور انہیں اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک اﷲ ان کے اور ہمارے درمیان کوئی فیصلہ نہیں کر دیتا۔ قعقاع کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ اس نے کہا۔’’ اب وہ آئے تو انہیں روکنے کے بجائے ان کے اندر گھس کر پیچھے چلے جانا۔‘‘
قعقاع کی یہ بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ شہر کے دو دروازے ایک بار پھر کھلے اور فارسیوں کے حملے کی دوسری طوفانی لہر آئی جو پہلے حملے جیسی ہی طوفانی اور تیزوتند تھی۔ یہ فارس کی فوج کے تازہ دم دستے تھے۔
ایک بار پھر گھمسان کا رن پڑا۔
’’مجاہدو!‘‘بڑی ہی بلند آوازیں سنائی دینے لگیں ۔’’مسلمانو!ہے…تمہارے سردار خندق کے حصار کے اندر چلے گئے ہیں۔ آگے بڑھو ‘راستہ صاف ہے۔‘‘
یہ قعقاع کی بہادری کا غیر معمولی کمال تھا کہ چند ایک مجاہدین کو ساتھ لے کر دشمن کے پیچھے چلے گئے اور خندق کے دونوں راستوں پر قبضہ کرلیاتھا۔
یہاں کچھ مؤرخوں کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ آندھی کا ذکر نہیں آیا۔ یوں لکھا ہے کہ گردوغبار سے فضا تاریک ہو گئی ۔کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اس تاریکی سے فائدہ اٹھا کر قعقاع نے خندق کے دو راستے بند کر دیئے۔
جب قعقاع نے یہ اعلان کروا دیا کہ وہ خندق کے اندر چلے گئے ہیں اور راستہ صاف ہے ۔تو فارسی پریشان ہو گئے۔ وہ پیچھے کو بھاگنے لگے لیکن راستے بند پائے ۔دوسرے ایک دو راستے دوسرے سالاروں نے بند کر دیئے۔ فارسی سوار افراتفری اور نفسانفسی کے عالم میں گھوڑوں سمیت خندق میں گرنے لگے ۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فارس کے گھوڑ سواروں پر خوف زدگی کی جو کیفیت طاری ہوئی اس کے زیرِ اثر وہ خندق کے باہر کی طرف خندق کے ساتھ ساتھ گھوڑے دوڑاتے پھرتے تھے ۔آندھی کی تاریکی مجاہدین کیلئے بھی یکساں تھی لیکن انہوں نے آنکھیں کھلی اور حوصلہ قائم رکھا۔
ان حالات میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ مسلمانوں کے ہاتھوں فارسیوں کا قتلِ عام تھا۔ بعض فارسی سواروں نے گھبراہٹ میں خندق کو پھلانگنے کیلئے گھوڑوں کو ایڑیں لگائیں لیکن خندق اتنی چوڑی تھی کہ گھوڑے خندق میں گرے۔ خندق کے اندر یہ حال تھا کہ سینکڑوں گھوڑے اس کے اندر سواروں کے بغیر بدکے ہوئے دوڑے پھر رہے تھے اور زخمی سوار اور پیادے گھوڑوں تلے کچلے جا رہے تھے۔
تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ کم و بیش ایک لاکھ فارسی مارے گئے۔ ا س سے پتہ چلتا ہے کہ فارسیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ فارسی فوج کے جن پہلے دستوں نے باہر آکر حملہ کیا تھا ‘وہ دوسرے مرحلے میں بھی شامل تھے۔
فارس کے بچے کھچے فوجی شہرمیں نہ جا سکے ۔وہ باہر سے ہی حلوا ن کی طرف بھاگ گئے ۔
جلولا کا ایک جرنیل مہران قعقاع کو نظر آگیا۔ وہ اپنے محافظ دستے کے چند ایک سواروں کے ساتھ بھاگ رہا تھا۔ قعقاع نے اس کا تعاقب کیا اور ایک مقام خانقین میں اسے جا لیا۔ اس کے محافظ اس کا ساتھ چھوڑ گئے ۔قعقاع نے اپنے ہاتھ سے مہران کو قتل کیا۔ مہران نے مقابلہ تو کیا تھا لیکن اس کے مقابل قعقاع تھا جو قتل ہونا نہیں قتل کرنا زیادہ بہتر جانتا تھا۔
دوسرا فارسی جرنیل فیروزان تھا۔ وہ جلولا سے فرار ہو کر حلوان پہنچ گیا تھا۔ تیسرے جرنیل خرزاد کے انجام کے متعلق تاریخ خاموش ہے ۔
مجاہدین جلولا میں داخل ہو گئے ۔اس وقت قعقاع اور ان کے مجاہدین حلوان پہنچ گئے تھے۔
٭٭
اُس گھوڑ سوار کی رفتار بڑی ہی تیز تھی ۔اتنی تیز کہ یوں لگتا تھا جیسے گھوڑا بدک کر بے لگام ہو گیا ہو اور سوار کے قابو میں نہ آرہا ہو ۔ مدائن کی دیوار پر کھڑے ایک مجاہد نے دیکھا۔
’’جلولا سے ایک سوار آرہاہے۔‘‘ مجاہد نے چلّا کر کہا۔’’ گھوڑا بے لگام لگتا ہے۔‘‘
’’جلولا سے ایک سوار آرہا ہے ۔‘‘نیچے کھڑے ایک مجاہد نے بلند آواز سے اعلان کیا ۔’’سپہ سالار کو اطلا ع کر دو۔‘‘
سپہ سالار سعد ؓبن ابی وقاص مدائن میں کسریٰ کے محل میں قیام پزیر تھے۔ اپنے بھتیجے ہاشم بن عتبہ کی زیرِ کمان بارہ ہزار مجاہدین کا لشکر جلولا بھیج کر سعد ؓبن ابی وقاص کی بیتابی کا یہ عالم تھا کہ فجر کی نماز کے بعد شہر کی جلولا کی طرف والی دیوار پر جا کھڑے ہوتے اور قاصد کی راہ دیکھنے لگتے تھے۔ انہوں نے بارہا افسوس کا اظہار کیا کہ وہ خود جلولا نہ جا سکے۔ ہر بار ان کے اظہارِ افسوس کی تان ان الفاظ پر ٹوٹتی تھی ’’……لیکن امیر المومنین مجھ سے زیادہ بہتر سوچا کرتے ہیں۔‘‘
کمک اور رسد ہر وقت تیار رہتی تھی۔ جوں ہی جلولا سے زخمی اور شہیدوں کی لاشیں آتی تھیں، اسی وقت اتنی ہی تعداد میں مجاہدین جلولا کو روانہ ہو جاتے تھے۔ اُدھر سے رسد کی جو بیل گاڑیاں او ر گھوڑا گاڑیاں خالی واپس آتی تھیں ،اتنی ہی گاڑیاں رسد سے بھر کر روانہ کر دی جاتی تھیں۔
سعدؓ بن ابی وقاص نے اسّی دن اور راتیں قاصدوں کے انتظار میں اور قاصدوں سے جلولا کے محاصرے کی خبریں سنتے ، انہیں ہدایات دیتے اور احکام دے کر رخصت کرتے ،زخمیوں کی عیادت کرتے اور ذہن میں کشمکش اور اعصاب پر سخت دباؤ لیے گزارے تھے۔ وہ اکیاسیواں دن تھا جب ان کے کانوں میں آوازپڑی کہ جلولا سے ایک سوار آرہا ہے۔
سعد ؓکا گھوڑا ہر وقت تیار رہتا تھا۔ یہ اعلان سنتے ہی سعدؓ دوڑتے باہر نکلے۔ رکاب میں پاؤں رکھ کر سوار ہونے کے بجائے اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر جا بیٹھے اور باگ کو جھٹکا دے کر گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ جلولا کی طرف والے دروازے سے نکلے۔ گھوڑ سوار ابھی کچھ دور تھا۔ سعدؓ نے اس کی طرف گھوڑا سر پٹ دوڑا دیا۔
’’دور سے بولو۔‘‘ سعدؓ نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔’’ کوئی خبر لائے ہو؟‘‘
’’فتح مبارک ہو سپہ سالار!‘‘گھوڑ سوار نے جواب دیا ۔’’ہم جلولا میں داخل ہو گئے ہیں۔‘‘
سوارسعدؓ بن ابی وقاص کے قریب آگیا ۔سعدؓ نے اپنا گھوڑا موڑا اور دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو مدائن کی طرف دوڑنے لگے۔
’’رکنا نہیں۔‘‘ سعدؓ نے سوار سے کہا ۔’’وہ دیکھو۔ مدائن کی دیوار پر کتنا ہجوم تمہارے انتظار میں کھڑا ہے۔‘‘
’’خدا کی قسم!‘‘شہر کے قریب جا کر سعدؓ بن ابی وقاص نے دیوار پر کھڑے ہجوم سے کہا۔’’ میرے بھتیجے نے اپنا عہد پورا کر دیا ہے۔‘‘
جلولا کی فتح کی خبر نے مدائن میں خوشیوں کا ہنگامہ بپا کر دیا۔ مجاہدین کی بیویاں اور بچے مدائن میں آگئے تھے ۔عورتیں بھی باہر نکل آئیں اور مسرت و شادمانی اور فتح و نصرت کے جنگی ترانے گانے لگیں۔
سعدؓ بن ابی وقاص قاصد کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس سے آخری لڑائی کی تفصیلات سنیں۔
’’آپ کا جلولا پہنچنا بہت ضروری ہے۔‘‘ قاصد نے سعدؓ سے کہا۔’’آتش پرست تو حلوان بھاگ گئے ہیں ۔ایساکوئی خطرہ نظر نہیں آتا کہ وہ جوابی حملہ کریں گے یا جلولا کو محاصرے میں لے لیں گے ۔ سردار قعقاع بن عمرو حلوان تک پہنچ گئے ہیں۔ آپ کا وہاں فوراً پہنچنا اس لئے ضروری ہے کہ جلولا میں مدائن کی طرح بہت ہی قیمتی اور خاصا زیادہ مالِ غنیمت ہے۔‘‘
سعدؓ نے پہلا کام یہ کیا کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کے نام جلولا کی فتح کا پیغام لکھوایا ۔قاصد سے جو تفصیلات معلوم ہوئی تھیں وہ لکھوائیں اور اس کے بعد لکھا کہ فارسی بھاگ رہے ہیں۔ ان کے قدم کہیں بھی جم نہیں رہے اور ان کے لڑنے کا جذبہ ختم ہو چکا ہے۔ اجازت دی جائے کہ ان کا تعاقب جاری رکھا جائے ا ور انہیں اتنی مہلت نہ دی جائے کہ کچھ دنوں کیلئے سستا سکیں۔ انہیں اتنی مہلت مل گئی تو وہ اپنی بکھری ہوئی فوج کو یکجا کر لیں گے اور شہریوں کی بھی فوج بنا لیں گے۔ وہ اب حلوان میں ہیں ۔ہمیں فوراً حلوان کا محاصرہ کر لینا چاہیے۔
یہ پیغام مدینہ کو بھجوا کر سعدؓ ابن وقاص اپنے محافظ دستے کے ساتھ جلولا کو روانہ ہو گئے۔
***
٭٭٭
جلولا مدائن جیسی اہمیت کا شہر نہ تھا، لیکن وہاں سے مدائن جیسا ہی قیمتی اور بے انداز غنیمت کا مال ملا ۔جلولا میں شاہی خاندان کے دو چار ملازم وہیں رہ گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ وہ مال ہے جو شاہی محل کے کارندے مدائن سے لائے تھے اور بڑے بڑے جاگیردار اور تاجر بھی مدائن سے اپنے ساتھ بہت سا سونا، چاندی اور نقدی لائے تھے۔ جلولا کے اسّی دنوں کے محاصرے کے دوران شہریوں کو یزدگرد اور جرنیل خوشخبری سناتے رہے کہ انہوں نے محاصرہ توڑ دیا ہے اور عربوں کواتنا زیادہ نقصان پہنچایا جا چکا ہے کہ وہ کسی بھی وقت بھاگ جائیں گے۔
شہر کی دیوار پر کسی شہری کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے لوگوں کو محاصرے کی صحیح صورتِ حال کا پتہ ہی نہیں چل سکتا تھا۔ انہیں یہ بھی پتہ نہ چلا کہ انہیں جھوٹی تسلیاں دی جا رہی ہیں۔ وہ اطمینان سے شہر میں بیٹھے رہے اور قیمتی مال و متاع اپنے اپنے طور پر چھپا دیا مگر ایک روز اچانک انہیں پتہ چلا کہ مسلمان خندق کے اندرونی طرف آگئے ہیں اور ان کی اپنی فوج خندق کے باہر چلی گئی ہے اور مسلمانوں کے ہاتھوں بری طرح کٹ رہی ہے۔
پھر اچانک مسلمان شہر میں داخل ہونے لگے اور فارس کی فوج کی جو نفری شہر کے اندر تھی وہ بھاگنے لگی۔ دیوار پر جو تیر انداز اور برچھی باز تھے وہ دیوار سے غائب ہونے لگے ۔شہر میں افراتفری بپا ہو گئی اور یہ خبر بھی شہر میں پھیل گئی کہ شہنشاہِ فارس یزدگرد اپنے شاہی خاندان کے ساتھ رات کو ہی بھاگ کر حلوان پہنچ گیا ہے۔
’’کہاں ہے شہنشاہ جو ہمیں کہتا تھا کہ فارس کی آن پر مر مٹو۔‘‘
’’پوران کہاں گئی جو کہتی تھی کہ سلطنتِ فارس پر اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہا دے گی۔‘‘
ؔؔ’’شہنشاہ کی ماں کو بلاؤ جو اپنے بیٹے کو بچاکر لے گئی ہے۔‘‘
’’بھاگو لوگو بھاگو‘ ہمیں اپنے جرنیلوں نے دھوکا دیا ہے۔‘‘
جلولا کے اندر میدانِ حشر کا منظر بپا تھا۔ جاگیرداروں، تاجروں اور امرأ کو اپنی جانوں کا، اپنی نوجوان بیٹیوں اور جوان عورتوں کا اور اپنے بچوں کا غم اور فکر لگ گیا۔ عورتیں اور بچے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ بھاگنے والی فوج کے گھوڑوں کے ٹاپوں کا شور تھا۔ بعض فارسی سواروں نے بچوں کو روند ڈالا۔ اُدھر مسلمان شہر میں داخل ہو رہے تھے۔ لوگ بلند آواز میں اپنے شہنشاہ، اس کے خاندان اور جرنیلوں کو کوس رہے تھے۔ وہاں صورتِ حال کچھ اور تھی ورنہ یہی لوگ اپنے شہنشاہ کے خلاف بغاوت کر دیتے ۔اب تو ان کو جان کے لالے پڑ گئے تھے۔
قیامت کی اس صورتِ حال میں لوگ اپنے اہل و عیال کو بچا کر بھاگ جا نے کے سوا کچھ بھی نہیں سوچ سکتے تھے۔جن کے گھروں میں زرو جواہرات اور دولت تھی، وہ سب کچھ بھول گئے اور اپنی جانیں لے کر شہر سے نکل گئے۔ شہر کے باہر انہو ں نے جو منظر دیکھا اس سے ان کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ انہیں اپنی فوج نظر آرہی تھی، جس کے سوار اور پیادے وسیع علاقے میں بکھرے ہوئے مُڑ کے پیچھے دیکھے بغیر سر پٹ بھاگے جا رہے تھے۔
مجاہدین ابھی اپنی پوری تعداد میں شہر میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ شہر خالی ہو گیا۔ پھر بھی کچھ لوگ پیچھے رہ گئے ۔ان میں بوڑھے تھے ،بچے تھے،مریض تھے اور خاصی تعداد ان لوگوں کی تھی جو محنت مزدوری یا امرأ کے گھروں میں نوکری کر کے روز مرہ کی ضروریات پوری کرتے تھے۔ ان میں ان کی نوجوان لڑکیاں اور عورتیں بھی تھیں۔
مکانوں کی تلاشی شروع ہوئی۔ مکان خالی تھے۔ بعض مکانوں میں سے بے انداز دولت، ہیرے جواہرات ملے اور کچھ مکانوں میں چھپی ہوئی عورتیں بھی ملیں۔ انہیں گھر والے بھاگتے وقت بھول گئے تھے۔ ان عورتوں نے چھپ جانا ہی بہتر سمجھا ۔مجاہدین جب مکانوں کی تلاشی لے رہے تھے، تب یہ عورتیں اپنے آپ ہی سامنے آگئیں۔
ان میں بہت کم ایسی عورتیں تھیں جنہوں نے رو رو کر مجاہدین سے التجا کی ہو کہ ان کے ساتھ وحشیوں جیسا سلوک نہ کیا جائے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ زیادہ تر عورتیں خود ہی مجاہدین کے سانے آگئیں ۔وہ اپنی فوج کو اپنے مردوں کو بزدل اور دھوکے باز کہہ رہی تھیں۔ ان میں بعض نے خوشی کا اظہار کیا کہ ان کے بزدل مرد بھاگ گئے۔ دو تین مؤرخوں نے ان کے متعلق ذرا تفصیل سے لکھا ہے ۔سعدؓبن ابی وقاص جلولا میں آئے تو ان تمام عورتوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے سعدؓ کو بتایا گیا ۔سعدؓ وہاں آئے۔
’’میں تمہارے چہروں پر خوف دیکھ رہا ہوں۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے ترجمان کی وساطت سے عورتوں سے کہا۔’’ اور میں تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھ رہاہوں۔ خدا کی قسم!تم اس قوم کے ہاتھوں میں ہو جو عورت کا احترام اور مریض کی تیمارداری کرتی ہے ۔تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو گا جو فاتح مفتوح شہر کی عورتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔‘‘
’’اے عربی سپہ سالار!‘‘ایک جواں سال فارسی عورت بلند آواز سے بولی۔’’ ہم بزدلوں کی بیویاں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں ۔اس سے زیادہ بزدلی اور کیا ہو گی کہ وہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ تمہیں پورا حق حاصل ہے کہ تم ہمارے ساتھ وحشیوں جیسا سلوک کرو اور ہمارے مردوں کو اس کا پتہ چلے کہ ان کی عزت کے ساتھ عربی کھیل رہے ہیں ۔ہمارے جسموں کو مٹی کے کھلونے سمجھ کر توڑ پھوڑ دو۔ تم فاتح ہو ،تم بہادر ہو۔‘‘
’’خدا کی قسم!اے عجم کی بیٹی ‘‘سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ تیری شادی تجھ جیسے بہادر عربی سے کراؤں گا۔ تم میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی وہ سلوک نہیں ہو گا جو فاتح مفتوح شہر کی عورتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں ۔ہم جسموں پر نہیں بلکہ جسموں کے اندر دھڑکتے ہوئے دلوں پر قبضہ کیا کرتے ہیں ۔یہ ہمارا ایمان ہے اور یہ ہمارا دین ہے اور یہ ایک آسمانی تحفہ ہے جو ہم تمہارے لیے لائے ہیں۔‘‘
’’پھر ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ ‘‘ایک نوجوان لڑکی نے پوچھا۔
’’تم سب کو ہم اپنی عورتوں کے حوالے کر دیں گے۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے جواب دیا۔’’ پھر تمہیں عرب کے شہر مدینہ بھیجا جائے گا ۔تمہیں ہمارے امیر المومنین دیکھیں گے اور پھر باقاعدہ شادیاں کرادی جائیں گی۔ تم میں کسی کو بھی داشتہ یعنی بے نکاحی بیوی بنا کر نہیں رکھا جائے گا……کیا تم پسند کرو گی کہ تمہیں تمہارے اُن ہی مردوں کے حوالے کر دیا جائے جو تمہیں پیچھے چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں ؟ کیا ایسانہیں ہو سکتا کہ آج وہ تمہیں ہمارے حوالے کر گئے ہیں اور کل وہ تمہیں رومیوں کے آگے پھینک کر بھاگ جائیں؟‘‘
’’نہیں، نہیں!‘‘بہت سی عورتوں نے انکار کر نا شروع کر دیا اور ان کی اس قسم کی آوازیں سنائی دیں ۔’’ہم اب اپنے مردوں کے پاس نہیں جائیں گی……خدائے آفتاب کا قہر نازل ہو اُن بے غیرت اور بزدل مردوں پر ……اگر تم ہمیں دھوکا نہیں دے رہے تو ہم تمہارے پاس رہیں گی……تمہارا دین سچا ہے تو ہم پر اس کی صداقت ثابت کرو۔‘‘
’’ہم نے عراق کے کتنے ہی شہر فتح کیے ہیں۔‘‘ سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ اُن شہروں کے لوگ دوسرے شہروں میں جاتے رہے ہیں۔ کیا تم نے کبھی کسی سے سنا ہے کہ عربوں نے کسی عجمی عورت کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے؟‘‘
’’نہیں!‘‘بہت سی عورتوں نے جواب دیا ۔’’ہم نے ایسا کبھی نہیں سنا۔‘‘
سعدؓ بن ابی وقاص نے حکم دیا کہ ان عورتوں کو اپنی عورتوں کے حوالے کر دیا جائے۔ مالِ غنیمت کے ساتھ انہیں مدینہ بھیجا جائے گا۔
٭
سعدؓ بن ابی وقاص جلولا کے محل میں گئے ،جہاں مالِ غنیمت اکٹھا کیا جارہا تھا۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ جلولا مدائن جیسا بڑا شہر نہ تھا لیکن وہاں سے جو مالِ غنیمت ملا وہ مدائن والے مالِ غنیمت سے اگر زیادہ اور قیمتی نہ تھا تو اس سے کم بھی نہ تھا۔ تاریخوں کے مطابق جلولا سے باربرداری کے جانور یعنی اونٹ ،گھوڑے اور بَیل اتنے زیادہ ملے کہ ہر سوار کے حصے میں نو نو گھوڑے آئے ۔ سعدؓ بن ابی وقاص نے مالِ غنیمت اپنے تمام لشکر میں تقسیم کیا۔ جن مجاہدین نے اسّی روز لڑ کر جلولا فتح کیا تھا انہیں انعام کے طور پر خاصا زیادہ حصہ دیا گیا۔ شہیدوں کی بیوگان کو ان سے بھی زیادہ حصہ دیا گیا ۔یہ تقسیم اس حکم کے مطابق تھی جوحضرت عمرؓ نے شروع سے ہی دے رکھا تھا۔ حضرت عمرؓ نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا کہ خمس یعنی خلافت کا حصہ کم آیا ہے یا زیادہ ۔وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ گھروں سے دور صحراؤں دریاؤں اور سنگلاخ چٹانوں میں لڑنے اور جانیں قربان کرنے والوں کو اتنا حصہ ملے کہ ان کے بچے جوان ہونے تک کسی کے محتاج اور دستِ نگر نہ رہیں۔
مالِ غنیمت کا خُمس زیاد بن ابی سفیان کی نگرانی میں مدینہ بھیجا گیا ۔جلولا شہر کے جن آدمیوں اور عورتوں کو پکڑا گیا تھا انہیں بھی اس قافلے کے ساتھ مدینہ بھیج دیا گیا۔
بہتر معلوم ہوتا ہے کہ مالِ غنیمت کا جو حصہ مدینہ جا رہا تھا، اس کی بات پہلے کرلی جائے۔
زیاد بن ابی سفیان کے قافلے نے ایک ایسی جگہ پڑاؤ کیاجو صحرا تھا۔ اردگرد صحرائی چٹانیں تھیں ۔دور دور تک آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ قافلے کے پاس پانی کی کوئی کمی نہیں تھی ورنہ وہاں دور دور تک پانی نہیں مل سکتا تھا۔ رات کھانے کے بعد زیاد بن سفیان اپنے ساتھیو ں کے ساتھ بیٹھا اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہا تھا۔
’’میرے رفیقو!‘‘زیاد نے کہا۔ ’’یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے تاجروں کا کوئی خوش قسمت قافلہ ہی خیریت سے گزر جایا کرتا تھا۔ ڈاکو ان قافلوں کو لوٹ لیتے تھے ۔اب کتنی ہی بار مالِ غنیمت کے قافلے یہاں سے لُٹے بغیر گزر گئے ہیں۔ اگر ڈاکو آجائیں تو ہم سے انہیں اتنا زیادہ مال و دولت ملے جس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔‘‘
’’ہاں زیاد!‘‘زیاد کے ایک ساتھی نے کہا۔ ’’وہ آئیں تو ہمیں لوٹ سکتے ہیں ۔وہ تو پوری فوج کی صورت میں آتے ہیں ۔ہم ان کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت کم تعداد میں ہیں۔‘‘
’’اب وہ نہیں آئیں گے ۔‘‘ایک ادھیڑ عمر مجاہد نے کہا۔’’ جانتے ہو کیوں؟ ……پہلے عرب کے یہ لوگ بڑی سخت محنت و مشقت کر کے روزی کماتے تھے ،پھر بھی ان کے پیٹ پوری طرح نہیں بھرتے تھے۔ انہوں نے یمن شام اور عر ب کے تاجروں کے قافلوں کو لوٹناشروع کر دیا۔ ایک قافلے کو لوٹ کر وہ بہت دن محنت و مشقت کے بغیر اپنے بچوں کے پیٹ بھر لیتے تھے ۔جب سے شام اور عراق سے مالِ غنیمت آنے لگا ہے قافلوں پر ڈاکوؤں کے حملے کم ہو گئے ہیں۔ تم شاید نہیں جانتے کہ بہت سے ڈاکو مجاہدین کے لشکر میں شامل ہو کر شام اور عراق کے محاذوں پر لڑنے کیلئے چلے گئے تھے۔وہ بہادری اور دیانت داری سے لڑے اور ان کے حصے میں جو مالِ غنیمت آتا رہا وہ اپنے بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرنے پر صرف کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔‘‘
’’تمہاری یہ بات میرے لیے قابلِ قبول نہیں۔ ‘‘ایک اور مجاہد بولا۔’’ جو ایک بار ڈاکو بن جائے وہ سار ی عمر یہی کام کرتا ہے ۔جہاد میں شامل ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔‘‘
’’نہیں میرے دوست! ‘‘ادھیڑ عمر مجاہد نے کہا۔’’ ڈاکو مجاہد بن سکتا ہے۔ میں ہوں ایک مجاہد جو پہلے ایک ڈاکو ہوا کرتا تھا۔ میرے قبیلے نے تو ڈاکہ زنی اور رہزنی کو اپنا باقاعدہ پیشہ بنا لیا تھا ۔اب میرے قبیلے میں ایک بھی آدمی ڈاکو نہیں۔ سب محاذ پر لڑ رہے ہیں……جب سے عمر الخطاب خلیفہ بنے ہیں ،ڈاکہ زنی کی وارداتیں تقریباً ختم ہو گئی ہیں۔ اس خلیفہ نے تمام عرب میں ایسے سخت حکم بھیجے ہیں کہ لوگ ہاتھ پاؤں کٹنے کے ڈر سے ڈاکہ زنی اور رہزنی چھوڑ گئے ہیں ۔ہم لوگوں نے دیکھا کہ مالِ غنیمت میں سے سالار کو بھی اتنا ہی حصہ ملتا ہے جتنا مجھ جیسے گناہگار کو تو پھر کمزوروں کے قافلوں کو لوٹنے کی کیا ضرورت ہے ؟آدمی کو اس کا پورا حق اور انصاف مل جائے تو وہ ڈاکو اور راہزن کیوں بنے۔‘‘
مشہور تاریخ دان محمد حسنین ہیکل نے مختلف مؤرخوں اور مبصروں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ صحرا کے وہ تمام علاقے جن میں ڈاکوؤں کی حکمرانی تھی جہاد کی وجہ سے محفوظ ہو گئے تھے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسا ن کو کوئی بلند اور مقدس نصب العین دے دیا جائے تو وہ از خود ہی جرم اور گناہ کا راستہ چھوڑ کر صراطِ مستقیم پر آجاتا ہے ۔اگر لوگوں کو حکم ران اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنے لگیں اور انہیں انعام و اکرام سے بھی نوازیں تو وہ لوگ کیوں دین اور ایمان کی پابندیوں کو قبول کریں گے۔ حکمران قیادت میں مخلص ہوں اور لوگوں کو ایک عظیم نصب العین دیں تو وہاں وعظ اور خطبے کی ضرورت نہیں رہتی۔ لوگ خود ہی ایک قوم بن جاتے ہیں اور پھر ان کا قدم راہِ راست پر آگے ہی اٹھتا ہے،پیچھے نہیں آتا نہ ان کے قدم لڑکھڑاتے ہیں۔
٭٭
مالِ غنیمت کا قافلہ مدینہ پہنچا ۔وہاں بھی جلولا جیسا مسرت و شادمانی اور فتح و نصرت کا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے خود آگے بڑھ کر زیاد بن ابی سفیان کا استقبال کیا اور قافلے کا رُخ مسجدِ نبویﷺ کی طرف کر دیا اور وہاں پہنچ کر تمام مال مسجد کے صحن میں رکھوا دیا۔
مدائن کا مالِ غنیمت آیا تھا تو حضرت عمرؓ سمیت ہر وہ شخص حیران و ششدرہ رہ گیاتھا جس نے یہ مال دیکھا تھا۔ سب یہ سوچ کر حیران ہوئے تھے کیا انسان اپنی آسائش اور عیش و عشرت کیلئے اتنے خزانے اور ایسی عجیب و غریب اشیاء اپنی ملکیت میں رکھتا ہے؟اب جلولا کا مالِ غنیمت آیاتو ایک بار پھر عربوں کی آنکھیں اور منہ حیرت سے کھل گئے۔ انہو ں نے جب ان فارسی عورتوں کو دیکھا جو جلولا سے لائی گئی تھیں تو وہ زیادہ حیران ہوئے ۔وہ سب فارس کے حسن کے چلتے پھرتے دل کش مجسمے تھے۔ ان میں شاہی خاندان کی کنیزیں بھی تھیں ،جن کا حسن بے مثال تھا۔
حضرت عمرؓ نے ان تمام عورتوں کو وہاں بھیج دیا، جہاں ان کی نگرانی عورتوں نے ہی کرنی تھی۔
عشاء کی نماز کا وقت ہو رہا تھا۔ اذان ہوئی اور امیر المومنین ؓنے نماز کی امامت کی ۔ نماز سے فارغ ہو کر مالِ غنیمت کھولا گیا ،چراغوں اور مشعلوں کی روشنی میں ہیرے اور نایاب پتھر چمکنے لگے ۔ان میں سے رنگا رنگ شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ سونے اور چاندی کی اشیاء کی چمک الگ تھی۔ نظریں خیرہ ہو رہی تھیں۔ چمکتی ہوئی یہ بیش قیمت اشیاکچھ کم نہ تھیں بلکہ یہ ایک انبار تھا ۔ان کے علاوہ اور بھی بے شمار چیزیں تھیں۔ جن کی قیمت کا اندازہ لگانا محال تھا۔ مال بھی اتنا زیادہ جو کم از کم عربوں کے تصور میں نہیں سما سکتاتھا۔
حضرت عمر ؓکا جو ردِ عمل تھا وہ تاریخ کے دامن میں آج تک محفوظ ہے۔ لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کے آنسو بہہ نکلے اور حضرت عمر ؓکی سسکیاں نکل گئیں۔
’’امیر المومنین! ‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’ خدا کی قسم!یہ تو شکر اور شادمانی کا موقع ہے اور آپ رو رہے ہیں؟‘‘
’’تو نے ٹھیک کہا ابنِ عوف! ‘‘حضرت عمرؓ نے کہا۔’’میں اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں اس شادمانی پر۔ یہ بے بہا دولت دیکھ کر مجھے رونا نہیں آیا نہ میں اس لیے رویا ہوں کہ یہ تقسیم ہو جائے گی۔ میرے آنسو یہ سوچ کر نکلے ہیں کہ جس قوم کو اﷲ اتنے بے بہا خزانے دے دیتا ہے وہ قوم اپنے دل میں کینہ اور حسد بھی پیدا کر لیتی ہے۔ یاد رکھ ابنِ عوف!جس انسان اور جس قوم میں کینہ اور حسد پیدا ہوا وہ وقار سے بھی محروم ہو گئی۔ دولت انسان کو عیش و آرام میں ڈال دیتی ہے۔ عمل اور جہاد کی قوتوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ اخوت باہمی تعاون اور ہمدردی کا جذبہ مرجاتا ہے ۔سکون اور فراغت سے کمزوری اور کینہ پروری جنم لیتی ہے۔ بندہ بندے کا دشمن ہو جاتا ہے کہ اس کے پاس زیادہ اورمیرے پاس کم ہے……خدا کی قسم!میں صبح کا اجالا سفید ہونے سے پہلے یہ مال و دولت نظروں سے اوجھل کر دینا چاہتا ہوں۔‘‘
’’یہ بیت المال میں رکھ دیا جائے امیر المومنین!‘‘کسی نے مشورہ دیا۔
اس کی تائید میں کئی آوازیں اٹھیں۔
’’نہیں۔ ‘‘حضرت عمرؓ نے کہا۔’’ بیت المال کی چھت کے نیچے رکھنے سے پہلے میں اس مال کو تقسیم کردوں گا۔‘‘
وہاں جو صحابہ کرامؓ موجود تھے وہ غالباً نہیں چاہتے تھے کہ تقسیم اتنی عجلت میں کی جائے۔ خدشہ تھا کہ جلد بازی میں کسی کا حق مارا جائے گا۔ انہوں نے حضرت عمر ؓکو قائل کر لیا کہ تقسیم صبح کی جائے گی۔
’’ہاں امیر المومنین! ‘‘ایک صحابیؓ نے کہا۔’’ تقسیم کا یہ وقت موزوں نہیں۔ ہم نے ابھی محاذ کی رُوداد تو سنی ہی نہیں۔ کیا بہتر نہیں ہو گا کہ اس وقت ہم سنیں کہ ہمارے مجاہدین نے اتنے طاقتور دشمن سے اتنے بڑے دو شہر یکے بعد دیگرے کس طرح لے لیے ہیں؟‘‘
تاریخوں کے مطابق حضرت عمرؓ زیاد بن ابی سفیان سے سن چکے تھے کہ جلولا کس طرح لیا گیا ہے۔ یہ ساری بات حضرت عمرؓ سب کو خود سناسکتے تھے لیکن انہوں نے زیاد بن ابی سفیان سے کہا کہ وہ محاذ کے پورے حالات سب کو سنائے۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ زیاد بن ابی سفیان حضرت عمرؓ کی موجودگی میں بولنے سے گھبرا رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اسے ایک بار پھر کہا۔ دراصل محاذ کی لمحہ بہ لمحہ دستان زیاد بن ابی سفیان ہی سنا سکتا تھا کیونکہ وہ خود لڑا تھا۔ حضرت عمر ؓکی حوصلہ افزائی سے وہ بولنے پر آمادہ ہوگیا۔
’’امیر المومنین! ‘‘زیاد بن ابی سفیان نے کہا۔’’ میں اگر کسی سے مرعوب ہوں تو وہ صرف آپ ہیں۔ ڈرتا ہوں کہ آپ کے مقد س رعب اور احترام سے میری زبان رُک نہ جائے۔ پھر سوچتا ہوں کہ آپ کو سنادیا ہے تو سب کو بھی سنا سکوں گا۔‘‘
زیاد بن ابی سفیان کی یہ جھجک بے معنی معلوم ہوتی ہے ۔ یہ بھی بھلا کوئی بات تھی کہ جو لڑائی زیاد خود لڑا تھا اس کا پورا حال وہ سنا نہ سکتا۔ اصل بات یہ تھی کہ عرب شاعرانہ انداز میں بات کرتے تھے۔ تشبیہوں اور استعاروں کا استعمال بھی خوب کرتے تھے ۔اس فن کی مہارت ہر کسی کو حاصل نہیں تھی ۔ ۔ان کی باتیں اور واقعات منظومنثر جیسے ہوتے تھے ۔سیدھے سادے انداز میں بات کی جاتی تو وہ اسے روکھی پھیکی بات سمجھتے تھے۔
زیاد اپنے آپ میں یہی جھجک محسوس کررہا تھا۔ کیونکہ اس محفل میں صحابہ کرامؓ بھی تھے جن کا اندازِ تکلم پر اثر اور دلکش تھا۔ حضرت عمرؓ تو اس فن کی خصوصی مہارت رکھتے تھے ۔بہرحال زیاد بن ابی سفیان نے جلولا کے محاصرے کا اور لڑائیوں کی رُوداد سنانی شروع کر دی۔ اس کے اندازِ تکلم میں فصاحت و بلاغت اور چاشنی ایسی تھی کہ حضرت عمرؓ بیساختہ بول اٹھے:
’’خداکی قسم!یہ ہے خطیب اور یہ زبان کا ماہر خطیب ہے۔‘‘
’’امیر المومنین!‘‘زید حضرت عمرؓ جیسے عظیم خطیب سے دادو تحسین پاکر حوصلہ مند ہو گیا اور بولا۔’’ ہمارے مجاہدین نے میدانِ جنگ میں جو کارنامے کر دکھائے ہیں۔ انہو ں نے ہماری زبانیں کھول دی ہیں۔‘‘
زیاد نے تمام واقعات سنا دیئے ۔یہ بھی سنایا کہ قعقاع بن عمرو فارسیوں کے تعاقب میں حلوان تک جا پہنچے ہیں۔
اس کے بعد محفل برخاست ہوئی۔ مالِ غنیمت پر دو صحابہ کرام ؓعبدالرحمٰن بن عوفؓ اور عبداﷲؓ بن ارقم نے پہرہ دیا۔ فجر کی نماز کے بعد حضرت عمرؓ نے مالِ غنیمت تقسیم کر دیا۔
٭
اب ہم جلولا کے اس دن کی طرف لوٹتے ہیں جس دن سعدؓ بن ابی وقاص جلولا پہنچے اور حضرت عمر ؓکے نام پیغام لکھ کر بھجوایا تھا۔ ایک روایت یہ ہے کہ فتح کا یہ پیغام زیاد بن ابی سفیان کے ہاتھ بھیجا گیا تھا ۔یعنی یہ پیغام مالِ غنیمت کے ساتھ مدینہ گیا تھا اور اس کا جواب زیاد ہی جلولا لے کر گئے تھے۔
پیغام کے جانے اور امیر المومنین ؓکا جواب آنے کیلئے کم و بیش ایک مہینے کا عرصہ درکار تھا۔ سعدؓ بن ابی وقاص نے جلولا سے آگے پیش قدمی اور حلوان کے محاصرے کی اجازت مانگی تھی۔ حضرت عمرؓ کی اجازت کے بغیر سعدؓ ایک قدم نہیں اٹھاتے تھے۔ لیکن وہاں صورتِ حال ایسی پیدا ہو گئی تھی کہ حضرت عمرؓ کے احکام آنے تک مجاہدین نقصان سے دوچارہو سکتے تھے۔
یہ صورتِ حال قعقاع اور اس کے قبیلے نے پیدا کی تھی۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ قعقاع جلولا سے بھاگے ہوئے فارسیوں کے تعاقب میں حلوان پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے فارسیوں کے ایک نامور جرنیل مہران کو تھوڑے سے مقابلے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ قبیلے کی مختصر سی نفری سے حلوان کو محاصرے میں نہیں لیا جا سکتا تھا۔ لیکن قعقاع واپس بھی نہیں آنا چاہتے تھے۔ انہوں نے حلوان سے تین میل دور قصرِ شیریں کے قریب پڑاؤ ڈال دیا۔
سعدؓ بن ابی وقاص کو جب یہ اطلاع ملی تو انہوں نے قعقاع کو واپس بلانا مناسب نہ سمجھا۔ ایک اس لئے کہ قعقاع اور اس کے قبیلے کا دل ٹوٹ جائے گا اور دوسرے یہ کہ انہیں واپس بلایا تو فارسی اسے پسپائی سمجھیں گے اور یہ بھی کہ مسلمان نفری کی قلت کی وجہ سے کمزور ہو گئے ہیں، یہ سوچ کر وہ جلولا پر جوابی حملہ بھی کر سکتے تھے۔
اپنے سالاروں سے صلاح و مشورہ کر کے سعد ؓبن ابی وقاص نے قعقاع بن عمرو کو کمک بھیج دی۔
٭اس وقت یزدگرد حلوان میں تھا۔ اسے ابھی کچھ خبر نہیں تھی کہ جلولا کاانجام کیاہوا ہے ۔وہ آخری دن کی لڑائی شروع ہونے سے کچھ دن بعد جلولا سے نکل گیاتھا ۔اسے اپنے فوج کے حالات مخدوش نظر آرہے تھے۔ پھر بھی اسکے دل میں یہ امید زندہ تھی کہ اس کی فوج مسلمانوں کو پسپا کر دے گی۔
مؤر خ لکھتے ہیں کہ یزدگرد کی ذہنی حالت بگڑ گئی تھی ۔کبھی تو وہ غصے سے پھٹنے لگتا اور کبھی بولنا شروع کرتا اور بولتا ہی چلا جاتا ۔چونکہ وہ شہنشاہ تھا اس لیے سننے والے اپنا فرض سمجھتے تھے کہ وہ جو کچھ بھی بول رہا ہے وہ سنتے رہیں ۔پھر ایسے بھی ہوتا کہ اس پرخاموشی طاری ہو جاتی اور وہ بیٹھا خلا میں ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہتا۔ وہ جب تخت نشین ہوا تھا اس وقت اس کی عمر سولہ سال تھی۔ اب وہ تقریباً انیس سال کا نوجوا ن آدمی تھا۔ چنانچہ اب یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کم سن اور نا تجربہ کار ہے۔
حلوان کے محل میں وہ کچھ ایسی ہی کیفیت میں بیٹھاتھا۔ اس کے سامنے شراب کی صراحی رکھی تھی جس سے وہ خاصی شراب پی چکا تھا ۔اس کے پینے کا انداز بتاتا تھا کہ وہ اب بیدار نہیں رہنا چاہتا اور اپنی زندگی کے اتنے بڑے حادثے کو شراب میں ڈبو دینا چاہتا ہے۔ وہ حقیقت کا سامنا کرنے سے گھبرا رہا تھا ۔اس کی ماں اور پوران ا س کے سامنے بیٹھی اسے دیکھ رہی تھیں۔ کہنے اور سننے کیلئے ا ن کے پاس اب کوئی بات نہیں رہ گئی تھی۔ ماں اب صرف یہ چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا زندہ رہے ۔مدائن کے بعد جلولا ان کا آخری اور مضبوط مورچہ تھا ۔وہ بھی ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا ۔
باہر سے کوئی آہٹ سنائی دیتی تو یزدگرد چونک کر اس طرف دیکھتا ۔اسے جلولا کی خبر کا انتظار تھا۔ اس نے ایک بار پھر صراحی اٹھائی اور پیالے میں شراب انڈیلنے لگا تو پوران نے لپک کر اس کے ہاتھ سے صراحی چھین لی۔
’’اور نہیں یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ یہ وقت مدہوش ہونے کا نہیں ،بیدار رہنے کا ہے میرے بھائی!‘‘
یزدگرد نے پوران کی طرف دیکھا ۔اس کی آنکھوں میں مایوسی اور بے بسی تھی ۔پوران نے صراحی الگ رکھ دی۔
’’مجھے جھوٹی امیدوں کے سہارے کب تک ہوش میں رکھو گی پوران!‘‘یزد گرد نے شکست خوردہ لہجے میں کہا،۔’’اگر تم یہ آس لگائے بیٹھی ہو کہ جلولا سے فتح کی خبر آئے گی تو یہ تمہاری خوش فہمی ہو گی۔‘‘
دربان اندر آیا۔ یزدگرد نے اسے دیکھا جیسے موت کا فرشتہ آیا ہو۔
’’جرنیل فیروزان آئے ہیں۔‘‘ دربان نے کہا۔
’’فوراً اندر آجائے۔‘‘ یزدگرد نے مخمور آواز میں کہا۔
دربان اُلٹے قدموں باہر نکل گیا۔
٭
جاری ہے
❤️
🥳
7