
لَبَّیْک اَلجِہَاد
February 2, 2025 at 09:09 AM
حجاز کی آندھی قسط نمبر 43
دربان اندر آیا۔ یزدگرد نے اسے دیکھا جیسے موت کا فرشتہ آیا ہو۔
’’جرنیل فیروزان آئے ہیں۔‘‘ دربان نے کہا۔
’’فوراً اندر آجائے۔‘‘ یزدگرد نے مخمور آواز میں کہا۔
دربان اُلٹے قدموں باہر نکل گیا۔
٭
فیروزان اندر آیا ۔ آداب بجا لانے کیلئے اس نے گھٹنے فرش پر ٹیک دیئے اور سجدے میں جانے کے انداز سے جھکنے لگا۔
’’کھڑے ہو جاؤ۔‘‘یزدگرد نے گرج کر کہا۔’’ کیا خبر ہے؟……تمہارا چہرہ بتارہا ہے خبر اچھی نہیں۔‘‘
فیروزان جو خبر زبان پر لانے سے گھبرا رہا تھا وہ آنکھوں نے آنسوؤں کی زبان میں کہہ دی۔
’’مہران کہاں ہے؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔
’’خانقین کے قریب مارا گیا ہے ۔‘‘فیروزان نے دبی دبی آواز میں جواب دیا ۔’’عربی سوار ہمارے پیچھے آرہے تھے۔‘‘
’’اور تم جان بچا کر بھاگ آئے!‘‘یزدگرد نے مدہوش سے لہجے میں طنزیہ کہا۔
’’شہنشاہِ فارس!‘‘فیروزان نے بیدار ہوتے ہوئے جاندار لہجے میں کہا ۔’’اگر آپ ایک بھی ایسی مثال دے دیں کہ اکیلے ایک یا دو جرنیلوں نے فوج کے بغیر جنگ جیتی ہو تو میں اپنا سر پیش کرتا ہوں۔ اپنی تلوار سے میرا جسم الگ کر دیں۔ میں آج ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جو شاہی دربار میں اس لئے نہیں کہی جاتی کہ شہنشاہ کا عتاب نازل ہو گا۔‘‘
’’اور اسی لیے ہم پسپا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ میں نے تم سب کو اجازت دے رکھی تھی کہ جو کہنا ہے کہو ۔میں ہر وقت اور ہر حالت میں سچ سننے کیلئے تیار رہتا تھا۔ یہ تم لوگوں کی بزدلی ہے اور بد دیانتی بھی کہ تم نے اپنا انداز خوشامدانہ رکھا اور مجھے حقیقتِ حال نہ بتائی……کہو، بات کتنی ہی کڑوی اور مایوس کن کیوں نہ ہو ، میں سنوں گا اور برداشت بھی کروں گا ، فوراً کہو۔‘‘
’’شہنشاہِ معظم!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ سب سے پہلی اور بہت بری خبر یہ ہے کہ ہم جلولا ہار بیٹھے ہیں ۔ہماری ایک لاکھ سے کچھ زیادہ فوج ماری گئی ہے۔‘‘
’’کیا عربوں کو زیادہ کمک مل گئی تھی؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔’’ کیا عربوں نے منجیقوں سے شہر پر سنگ باری کی تھی؟‘‘
’’نہیں شہنشاہ!‘‘فیروزان نے جواب دیا۔’’ عرب اتنے ہی تھے جتنے پہلے روز تھے ۔میرا اندازہ دس بارہ ہزار ہے۔ انہو ں نے منجیقیں استعمال ہی نہیں کیں۔‘‘
’’پھر ہوا کیا؟‘‘
’’شہنشاہ!‘‘فیروزان نے جواب دیا۔’’ ہم نے آخری حملہ اپنی پوری تعدادسے کیا۔ہم عربوں سے تعدادمیں دس گنا تھے۔ ہمارے دس آدمیوں کے حصے میں صرف ایک عربی آتا تھا ۔لیکن ہوا یہ کہ ہماری فوج خندق کے راستوں سے باہر نکلی تو عربوں نے خندق کے راستوں پر قبضہ کر لیا اور اس کے ساتھ ہی عربوں کی طرف سے اعلان ہونے لگے کہ خندق ان کے قبضے میں آگئی ہے ۔یہ سنناتھا کہ ہماری فوج نے آگے بڑھ کر عربوں کو کاٹ دینے کے بجائے خندق کے اندر آنے کے جتن شروع کر دیئے۔‘‘
’’میں سمجھ گیا ۔‘‘یزدگرد نے آہ لے کر کہا۔’’ ان بد بختوں کے دلوں پر عربی سواروں کا جو خوف طاری تھا وہ ہم نہیں اتار سکے۔‘‘
’’پھر جو ہوا وہ ہماری فوج کا قتلِ عام تھا۔‘‘ فیروزان نے کہا۔’’ ہماری فوج اندھا دھند پیچھے ہٹ رہی تھی۔ بے شمار سوارگھوڑوں سمیت خندق میں گرے اور اپنے ہی گھوڑوں تلے کچلے گئے ۔اس صورتِ حال سے عربوں کا حوصلہ بلند ہو نا ہی تھا۔ وہ ایک ہڑبونگ تھی اورا فراتفری نفسانفسی کا عالم تھا، جس میں ہماری للکار اور چیخ و پکار رائیگاں جا رہی تھی ۔ہماری فوج نے جب دیکھا کہ خندق کے اندرونی علاقے میں جانا ممکن نہیں تو فوج تتّر بتّر ہو کر بھاگنے لگی۔ عربوں نے تعاقب کیا اور ہمیں مزید نقصان پہنچایا۔‘‘
’’کیاتم کچھ اور بھی کہنا چاہتے ہو؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔
’’ہاں شہنشاہ! ‘‘فیروزان نے کہا۔’’ کہنے والی بات یہ ہے کہ جلولا کے لوگ باغی ہوتے جا رہے ہیں۔ جلولا بالکل خالی ہو گیا ہے۔ انہوں نے جو لعن طعن مجھے کی ہے وہ میں آپ تک نہیں پہنچا سکتا ۔مختصر بات یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں ہمیں جانیں قربان کرنے کے سبق دینے والے بادشاہ خود بھاگ گئے ہیں۔ شہنشاہِ فارس!اب ان لوگوں سے کسی تعاون کی ہمیں امید نہیں رکھنی چاہیے۔‘‘
فیروزان نڈر ہو کر یزدگرد کو جلولا کے لوگوں رد عمل پوری تفصیل سے بتاتا رہا اور یہ رائے بھی دی کہ لوگ فوج سے متنفّر ہو گئے ہیں۔ یزدگرد خاموشی سے سنتا رہا۔
کیا ہمارے پاس کوئی عربی جنگی قیدی ہے؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔
’’میرا خیال ہے تین ہیں۔‘‘ فیروزان نے جواب دیا۔’’ شہنشاہ!فاتح فو ج کا کوئی قیدی مشکل سے ہی ہاتھ آیا کرتا ہے ۔عرب کے یہ مسلمان قید ہو جانے کے بجائے مرجانا بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ تین قیدی اس طرح ہاتھ آئے کہ زخمی پڑے تھے چلنے سے معذور تھے۔ ہمارے کسی فوجی افسر نے حکم دیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے لیکن دو تاجروں نے انہیں بچا لیا اور کہاکہ وہ انہیں ٹھیک کر کے اپنے ہاں غلام بنا کر رکھیں گے۔ اس طرح دو کو ایک تا جر اور ایک کو دوسرا لے گیا ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم مدائن سے نکلے تھے۔میرا خیال ہے کہ تینوں اب تک ٹھیک ہو چکے ہوں گے۔‘‘
’’کیا وہ مل سکتے ہیں؟‘‘ یزدگر دنے پوچھا۔’’ میں انہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ہاں شہنشاہ!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ اگر وہ حلوان میں ہوئے تو مل جائیں گے۔‘‘
یزدگرد نے فیروزان کو یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ وہ ذرا سستا لے اور پھر اس نے حکم دیا کہ جن تاجروں کے پاس تین غلام ہیں انہیں دربار میں پیش کیا جائے۔
’’شہنشاہِ فارس!‘‘فیروزان نے جانے سے پہلے کہا۔’’ عربوں کا ایک دستہ قصرِ شیریں کے قریب پہنچا ہوا ہے۔ ایسالگتا ہے جیسے یہ دستہ واپس نہیں جائے گا۔‘‘
’’اس کا بندوبست کر لیں گے۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔
٭
اُسی رات کا واقعہ ہے۔ یزدگرد کھانے سے فارغ ہو کر شراب سے دل بہلا رہا تھا۔ اس کی ماں اور پوران اس کے پاس بیٹھی تھیں ۔شہنشاہ کے ساتھ بڑی ہی دلکش کنیزوں کی موجود گی لازمی سمجھی جاتی تھی لیکن یزدگرد اتنا دلبرداشتہ ہو گیا تھا کہ اس نے اپنی تمام کنیزوں اور حرم کی عورتوں کو مدائن میں ہی چھوڑ دیا تھا اور اب وہ مسلمانوں کے پاس تھیں۔ یزدگرد کے ساتھ اب دو ہی عورتیں رہتی تھیں۔ ایک اس کی ماں تھی اور دوسری اس کی سوتیلی بہن پوران ۔وہ دیکھ رہی تھیں کہ یزدگرد کا ذہنی توازن بگڑتا جا رہا ہے، اس لیے اسے تنہا نہیں چھوڑتی تھیں۔
کچھ دیر پہلے اسے اطلاع مل گئی تھی کہ تینوں عرب غلام مل گئے ہیں اور وہ لائے جا رہے ہیں۔یزدگرد کی ماں نورین اور پوران نے اس سے پوچھا کہ وہ ان قیدیوں کو کیوں بلا رہا ہے؟ توقع تھی کہ وہ ان تینوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر کے دل کی بھڑاس نکالے گا۔
’’میں ان سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘ یزدگرد نے اپنی ماں اور پوران کو بتایا۔’’ میرا خیال تھا کہ جادو اور سحر صرف یہودیوں کے پاس ہے ۔وہ میں نے آزما لیا ہے ۔اُس یہودی ربی نے دریا کے کنارے اپنا عمل شروع کیا تھا اور خود ہی اپنے ساتھی سمیت مگر مچھوں کا نوالہ بن گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان عربوں کے پاس کوئی ایسا جادو ہے جو یہودیوں کے جادو سے زیادہ تیز ہے۔ میں ان تین عربوں سے اس جادو کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
نورین اور پوران پریشانی اور غم کی حالت میں یزدگرد کو دیکھ رہی تھیں۔ وہ یقین کی حد تک محسوس کر رہی تھیں کہ یزدگرد کا دماغی توازن بہت ہی بگڑ گیا ہے۔ کبھی تو وہ خود بھی حیران ہو جاتی تھیں کہ چند ہزار مسلمان ایک لاکھ سے زیادہ فوج کو کس طرح کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ ایک آدمی کس طرح دس آدمیوں کا خون بہا دیتا ہے۔ لیکن جب یزدگرد نے اسے جادو کا کرشمہ سمجھا تو یہ دونوں عورتیں پریشان ہو گئیں کہ ان کے لڑکے کے دماغ پر پے بہ پے شکستوں کا بہت برا اثر ہو اہے۔انسان کی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ جن بادشاہوں نے اپنے ذہن میں کوئی وہم پیدا کر لیا، وہ اپنی سلطنت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ دراصل انسان کی نفسیات ہے کہ اسے جب ناکامیوں سے پالا پڑتا ہے تو وہ اصل وجہ معلوم کرنے کے بجائے کسی نہ کسی وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
ان آتش پرست بادشاہوں میں وہم کا مرض عام تھا۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ رستم اپنے آپ کو علمِ نجوم کا ماہر سمجھتا تھا ۔اس کی پیش گوئی یہ تھی کہ سلطنتِ فارس کا انجام بہت برا ہو گا ۔اس کی اپنی پیش گوئی نے اسے اتنا کمزور کر دیا تھا کہ وہ قادسیہ کے میدان میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے سے گھبرا رہا تھا ۔آخر اسی میدان میں مارا گیا۔
یزدگرد بھی مؤرخوں کے مطابق کچھ کم توہم پرست نہ تھا ۔آتش پرست کوئی کام شروع کرنے سے پہلے زائچے بنواتے تھے ،یہ تو باعثِ حیرت تھا ہی کہ مٹھی بھر مسلمان آتش پرستوں کے اتنے بڑے لشکر کو کاٹتے اور بھگاتے چلے جا رہے ہیں ۔یزدگرد کو بجا طور پر یہ وہم ہو گیا کہ ان عربوں کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے۔
یزدگرد کی ماں اور پوران بھی جادو اور زائچوں کی قائل تھیں لیکن یزدگر دکو دیکھ کر انہیں افسوس ہو رہا تھا کہ وہ حقیقت کو دیکھنے کے بجائے کس چکرمیں پڑ گیا ہے ۔ وہ اسے روکتی بھی نہیں تھیں کیونکہ یزدگرد کو غصہ آجاتا تھا۔
تھوڑی ہی دیر بعد اطلاع ملی کہ وہ تینوں غلام آگئے ہیں ۔یزدگرد نے تینوں کو اندر بلا لیا۔ وہ تینوں اندر آئے تو ان میں سے کوئی بھی شہنشاہِ فارس کی تعظیم کیلئے ذرا سا بھی نہ جھکا۔
’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم شہنشاہِ فارس کے دربار میں آئے ہو؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔
’’ہمیں معلوم ہے۔ ‘‘اسے جواب ملا۔
ؔؔ’’کیا تم یہ نہیں جانتے کہ بادشاہوں کے دربار میں آکر جھکا کرتے ہیں؟‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ تم شاید بھول گئے ہو کہ تم یہاں غلام ہو۔‘‘
’’ہم صرف اﷲ کے دربار میں جھکا کرتے ہیں۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’اور ہمارے یہاں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا۔‘‘
’’ہمیں یہاں زبردستی قید میں رکھا گیا ہے ۔‘‘دوسرے قیدی نے کہا۔’’ ہم کسی کے غلام نہیں ۔اگر ہیں تو ہم صرف اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے غلام ہیں۔‘‘
’’تم صحرائی بدو ہو۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ تم کیا جانو کہ بادشاہی کیا چیز ہوتی ہے۔‘‘
’’یزدی!‘‘نورین نے کہا۔’’ کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہو ۔ان سے جو پوچھنا چاہتے ہو وہ پوچھو۔‘‘
یزدگرد نے تینوں کو اپنے سامنے فرش پر بٹھا دیا۔
’تم بھول جاؤ کہ میں بادشاہ اور تم غلام ہو۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ میں تم سے ایک بات معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ اگر تم نے صحیح بات بتا دی تو میں تم تینوں کو آزاد کر دوں گا اور تم اپنے لشکر میں واپس چلے جانا۔‘‘
’’ہم سے جھوٹ کی توقع نہ رکھیں۔‘‘ ایک قیدی نے کہا۔’’ ہماری سب سے بڑی قوت یہ ہے کہ ہم جھوٹ نہیں بولا کرتے۔‘‘
’’کیا تم میں کوئی خاص پراسرار طاقت ہے؟‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ میرا مطلب یہ ہے کہ تمہارے سالاروں کے پاس کوئی جادو ہے کہ تم اتنی تھوڑی تعداد میں ایک لاکھ سے زیادہ لشکر پر غالب آجاتے ہو۔‘‘
تینوں مسلمان قیدیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
’’ہاں شہنشاہ!‘‘ایک قیدی نے کہا ۔’’ہم اپنی ایک طاقت آپ کوبتا چکے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہم سچ بولا کرتے ہیں۔‘‘
’’ہمارا دین سچا ہے۔‘‘دوسرے قیدی نے کہا۔’’ یہ سچا دین آپ کیلئے لائے ہیں ،لیکن آپ سچائی سے بھاگتے ہیں۔ آپ ہمارا مذہب قبول کر لیں تو آپ میں بھی یہ طاقت آجائے گی۔‘‘
’’تمہاری یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ تم مجھے صحیح بات نہیں بتا رہے ۔میں تم سے سیدھی سی بات پوچھا رہا ہوں ۔یہ بتاؤ تم اتنی بڑی فوج پر کس طرح غالب آجاتے ہو؟‘‘
’’آپ کی بدقسمتی یہ ہے کہ آپ حقیقت کی بات کو تسلیم نہیں کر رہے ۔‘‘ایک قیدی نے کہا۔’’ دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ کی فوج بزدل ہے اور بزدل اس لیے ہے کہ یہ فوج آپ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم اﷲ کے سامنے جواب دہ ہیں ۔‘‘
’’نہیں!‘‘یزدگردنے کہا۔ ’’تم اصل بات چھپا رہے ہو ۔تم آسمانوں سے اترے ہوئے فرشتے نہیں ہو ۔میں کہتا ہوں کہ تمہارے ساتھ کوئی جادو گر ہیں۔‘‘’’اے فارس کے شہنشاہ! ‘‘ایک قیدی نے کہا ۔’اگر آپ جادو کی بات کرتے ہیں تو ہم سب جادو گر ہیں۔ اگر آپ ہماری بات سمجھ جائیں تو یہ جادو آپ کو بھی مل سکتا ہے لیکن آپ اس اﷲ کو نہیں مانتے جو اپنے سچے بندوں کو یہ جادو عطا کرتا ہے۔آپ اس کے بجائے سورج اور آگ کی عبادت کرتے ہیں۔ ہم معمولی سے اور جاہل سے آدمی ہو کر بھی اس حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ مگر آپ اتنی بڑی سلطنت کے بادشاہ ہو کر بھی نہیں سمجھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ سورج اﷲ کے حکم کا پابند ہے اور آگ بھی اﷲ کے حکم سے جلتی ہے۔ آپ یہ نہیں سوچتے کہ سورج کو گرہن لگ جاتا ہے اور کچھ دیر کیلئے نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔لیکن اﷲ پلک جھپکنے کے وقت کیلئے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ بے شک اﷲ نظر نہیں آتا لیکن ہماری آنکھوں میں اور ہمارے دلوں میں اﷲ ہر وقت موجود رہتا ہے ۔آپ کی فوج آپ کو خوش کرنے کیلئے لڑتی ہے کیونکہ آپ اس فوج کو تنخواہ اور انعام دیتے ہیں ۔ہم اﷲ کو خوش کرنے کیلئے لڑتے ہیں ۔اس کی ہمیں کوئی تنخواہ نہیں ملتی۔ ہمیں روحانی سکون ملتا ہے۔ آپ کے سپاہی تنخوا ہ اور انعام لینے کیلئے زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم اﷲ کی راہ میں لڑتے اور اس لیے اپنی جان قربان کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے اﷲ کے حضور جلدی پہنچیں ۔‘‘
’’اصل بات ایک اور ہے شہنشاہ!‘‘ایک اور قیدی نے کہا۔’’ ہم سینوں میں انتقام لے کر لڑتے ہیں۔‘‘
’’کیسا انتقام؟ ‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جس کا تم انتقام لینے آئے ہو۔‘‘
’’ہم اپنے رسول ﷺکی توہین کا انتقام لے رہے ہیں ۔‘‘قیدی نے جواب دیا۔’’ مدائن کے محل میں ہمارے رسولﷺ کے پیغامِ حق کو کسریٰ پرویز نے پھاڑ ڈالا اور ان ٹکڑوں کو اپنے دربار میں بکھیر دیا تھا ۔اﷲ کے رسول ﷺکو جب بتایا گیا تو آپ ﷺ نے کہا تھا کہ سلطنتِ فارس کے ٹکڑے اسی طرح بکھر جائیں گے اور یہ سلطنت بہت برے انجام کو پہنچے گی۔ ہم اس پیش گوئی کو پورا کرنے کا سبب ہیں۔ چونکہ اﷲ نے اس پیش گوئی کو عملی طور پر پورا کرنا ہے۔ اس لیے اﷲ نے ہمیں کوئی ایسی طاقت عطا کر دی ہے کہ ہم میں سے ایک ایک آدمی آپ کے دس سے بیس آدمیوں تک کو ہلاک کر دیتا ہے۔‘‘
’’اور شہنشاہ!‘‘ایک اور قیدی بولا۔’’ اﷲ نے ہمارے رسولﷺ پر ایک کتاب اتاری ہے جسے ہم قرآن کہتے ہیں۔ اس میں اﷲ نے وعدہ کیا ہے کہ ایک سو کفار کے مقابلے میں صرف دس ایمان والے ہوئے تو وہ ایک سو پر غالب آئیں گے اور اگر بیس ایمان والے ہوئے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے……ہم سب ایمان والے ہیں۔ہمارا تعلق براہِ راست اﷲ کے ساتھ ہے۔ یہی ہماری طاقت ہے اور یہی ہمارا جادو ہے۔‘‘
یزدگرد خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر تینوں قیدیوں کو دیکھتا رہا۔ پھر کسی گہری سوچ میں کھوگیا۔ سر جھکا کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔ پھر رک گیا اور تالی بجائی۔ دربان دوڑا آیا۔ یزدگرد نے اسے کہا کہ ان غلاموں کے مالکوں کو اندر بھیجو۔
دونوں تاجر اندر آئے۔
’’ان تینوں کو آزاد کر دو۔‘‘ یزدگرد نے تاجروں سے کہا۔
تاجر کچھ بھی نہ بولے۔ وہ شہنشاہ کے حکم کی تعمیل کرنے پر مجبور تھے۔ تینوں قیدی آزاد ہو گئے اور رات کو ہی حلوان سے نکل گئے۔
٭٭٭
اﷲ جب کسی قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تواس کے رہنماؤں حکمرانوں اور مذہبی پیشواؤں کو گمراہی کے اس مقام تک پہنچا دیتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں رہتی ۔رہنما اور پیشوا اپنے آپ کو بے مثال ،دیدہ ور اور لا زوال دانشور سمجھنے لگتے ہیں ۔مگر ان کے کردار اور گفتار سے حماقت اور جہالت ٹپکتی ہے ۔حکمران اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگتے ہیں مگر حقائق سے دور ہی دور ہٹتے چلے جاتے ہیں اور تباہی کی کھائی میں جا گرتے ہیں۔
آتش پرست فارسی اس مقام تک پہنچ گئے تھے اور ان کا شہنشاہ تین مجاہدین سے پوچھ رہا تھا کہ ان کے پاس کون سا جادو ہے۔ وہ وثوق سے کہہ رہا تھاکہ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ جادوگر ہیں اور وہ تین مجاہدین اسے سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ جادو کیا ہے۔ یہ تینوں مجاہدین عالم نہیں تھے ۔سالار نہیں تھے۔ اپنے اپنے قبیلے کے سردار نہیں تھے۔ وہ عام قسم کے مجاہدین تھے۔ لشکری تھے۔ چونکہ وہ ایمان والے تھے اور ایک سچے عقیدے کی خاطر لڑ رہے تھے اس لیے ان کے ذہنوں میں کوئی الجھاؤ نہیں تھا۔‘‘
یزدگرد کا ذہن ایسا الجھا تھا کہ وہ ذہنی مریض بن گیا۔ اگر پوران اور نورین اس کے ساتھ نہیں ہوتیں تو وہ پاگل ہو چکا ہوتا۔ یہ دونوں عورتیں اسے جذباتی سہارا دیتی رہتی تھیں۔
’’یزدی!‘‘دوسری صبح نورین نے یزدگرد سے کہا ۔’’کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم اس حقیقت کو قبول کر لیں کہ عراق سلطنتِ فارس سے نکل گیا ہے؟‘‘
یزدگرد نے کوئی جواب دینے کے بجائے ماں کے چہرے پرنظریں گاڑھ دیں۔
’’ہاں یزدی!‘‘پوران نے کہا۔’’ ہمارے پاس اب کچھ نہیں رہ گیا۔ ذرا دیکھو ہمارے پاس فوج کتنی رہ گئی ہے۔ جرنیل کتنے رہ گئے ہیں۔ ہمیں اب عراق کی سرحد سے نکل جانا چاہیے۔‘‘
یزدگرد کے چہرے پر ایساتاثر آگیا جیسے یہ مشورہ اسے اچھا لگا ہو۔ وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ باہر شور اٹھنے لگا اور یہ شور بڑھتا ہی گیا۔
’’شہنشاہِ فارس!‘‘اسے بڑی بلند آواز سنائی دی۔’’ ہمیں بتاؤ ہم کہاں جائیں۔‘‘
’’باہر آؤ۔‘‘ ایک اور آواز آئی۔
شور اور زیادہ بلند ہو گیا۔ یہ ایک ہجوم کا شور تھا۔
پھر ایسی آوازیں سنائی دینے لگیں جیسے شاہی محافظ دستہ ہجوم کو زبردستی منتشر کر رہا ہو ……یزدگرد دوڑتا ہوا باہر نکلا۔ باہر مدائن جلولا اور حلوان کے شہریوں کا ہجوم تھا۔ لوگ اپنے جرنیلوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ یزدگرد کے خلاف بھی نعرے لگا رہے تھے اور محافظ دستے کے سپاہی ہجوم کو پیچھے دھکیل رہے تھے۔
’’تم لوگ فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘ محافظ دستے کے کمانڈر نے ہجوم کو خبردار کیا۔’’ نہ گئے تو تم پر گھوڑے دوڑا دیئے جائیں گے۔‘‘
’’دشمن کے آگے بھاگے والوں کے گھوڑے اپنی رعایا پرہی دوڑائے جاتے ہیں۔‘‘ ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا۔
’’یہ دھمکی باہر جا کر عربی مسلمانوں کو کیوں نہیں دیتے؟‘‘ایک اور نے کہا۔
’’مسلمانوں کے سامنے جانے کی ان میں جرأت ہی کہاں ہے؟‘‘ طنز کاایک اور تیر چلا۔
’’تم لوگ کیا چاہتے ہو؟ ‘‘یزدگرد نے آگے ہو کر پوچھا۔
’’اپنی حفاظت ۔‘‘اسے جواب ملا۔
’’اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں دھوکے میں نہ رکھا جائے۔‘‘ ایک اور آواز۔
یہ اس ہجوم کی آوازیں تھیں اور آوازے بھی تھے ۔یزدگرد یوں بے حال ہو تا جا رہا تھا جیسے اس کے جسم میں تیر اترتے جا رہے ہوں۔ اس کے آگے سجدے کرنے والے لوگ اسے اپنے آگے جھکنے پر مجبور کر رہے تھے اور وہ جھکتا چلا جا رہا تھا۔ وہ ذہنی طور پر بیدار ہو گیا تھا۔ اس نے حقیقت کو قبول کرنا شروع کر دیا تھا۔
اس کی شاہانہ زندگی میں بلکہ کسریٰ کی شہنشاہی کی تاریخ میں یہ حقیقت پہلی بار ایک بادشاہ کے سامنے آئی تھی کہ لوگ اپنے آپ کو رعایا کے بجائے قوم سمجھ لیں اور متحد ہو کر اپنے بادشاہ کے غلاف باغی اور سرکش ہوجائیں تو دنیا کا سب سے زیادہ جابر اور ظالم بادشاہ بھی قوم کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔
یزدگرد کے پاس دو جرنیل کھڑے تھے۔ ایک فیروزان تھا اور ایک جواں سال جرنیل خسروشنوم تھا۔
’’دیکھ رہے ہو تم دونوں؟‘‘یزدگرد نے دونوں جرنیلوں سے کہا۔’’لعنتیں جو تم جرنیلوں پر پڑنی چاہئیں وہ میرے منہ پر ملی جا رہی ہیں۔تم ہی کچھ بتاؤ کہ میں ان لوگوں کو کس طرح مطمئن کروں۔ کیا ان کے آگے سجدے کروں؟ یا میں خود فوج کی کمان لے کر ان عربی مسلمانوں پر حملہ کروں جو خانقین کے پاس آچکے ہیں؟کیا ہم ہمت کریں تو یہیں سے جوابی حملہ نہیں ہو سکتا؟‘‘
ہجوم میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور باغیانہ اور احتجاجی شوروغل بڑھتا جا رہا تھا ۔اس جگر پاش شوروغل میں، نعروں میں یزدگرد بڑی اونچی آواز میں اپنے جرنیوں کے ساتھ صلاح و مشورے کر رہا تھا۔ اس کے جرنیل یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ جوابی حملہ نہیں کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ وہ اسی وقت حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں ۔فیروزان نے یہ بھی کہا کہ حملہ فوراً ہونا چاہیے اور ضرور ہونا چاہیے۔
’’یہ حملہ تم کرو گے۔‘‘ یزدگرد نے فیروزان سے کہا۔’’ جتنی فوج کی تمہیں ضرورت ہے وہ فوراً تیار کرو اور جس قدر جلدی ہو سکے حملہ کردو۔ میں اتنی دیر میں ان لوگوں کے ساتھ باتیں کر کے انہیں مطمئن کرتا ہوں،اور میں کوشش کروں گا کہ ان میں سے کچھ لوگ لڑائی کیلئے تیار ہو جائیں۔‘‘
’’شہنشاہِ فارس!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ اب یہ لوگ لڑائی میں شامل ہونے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ ان لوگوں نے ہمیں ہر لڑائی اور ہر محاصرے میں ہمیں اپنے جوان بیٹے دیئے ہیں۔ میں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کے باپوں کو میدانِ جنگ میں دیکھا ہے۔ انہیں ہم نے تنخواہ کے بغیر جذبات میں الجھا کر لڑایا ہے یا ہم نے انہیں انعام کے لالچ دیئے تھے ۔پھر ہوا کیاشہنشاہ!ہمارےفوجی جو تنخواہ بھی ہم سے لیتے تھے اور روٹی بھی ہم سے کھاتے تھے اور شراب بھی مفت پیتے تھے بھاگ گئے اور مرے تو ان شہریوں کے بیٹے مرے یا چھوٹے چھوٹے بچوں کے باپ مرے……ہم نے کسے انعام دیا ہے؟……اب یہ لوگ بپھر گئے ہیں۔ ہمارا ساتھ یہ صرف اس صورت میں دیں گے کہ ہم انہیں کچھ کر کے دکھائیں۔‘‘
’’پھر کچھ کر کے دکھاؤ۔‘‘ یزدگرد نے کہا ۔’’خانقین میں ابھی مسلمانوں کی تعداد خاصی کم ہے ۔ہوسکتا ہے وہ اپنے باقی لشکر کا انتظار کر رہے ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ واپس چلے جائیں یا ان کا باقی لشکر آجائے۔ انہیں یہیں ختم کردو۔‘‘
فیروزان اپنے ماتحت جرنیل خسرو شنوم کو ساتھ لے کر چلا گیا اور یزدگرد لوگوں کے ہجوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
٭
فیروزان جب وہاں سے چلا تو کچھ آگے جا کر ایک شاہی ملازم نے اسے کان میں کہا کہ اسے ملکہ عالیہ نورین بلا رہی ہیں۔ فیروزان نے خسرو شنوم سے کہا کہ وہ چند ایک سوار دستے حملے کیلئے تیار رکھے۔ وہ خود نورین کے پاس چلا گیا ۔نورین کو پتا چل چکا تھا کہ یزدگر دنے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
’’فیروزان!‘‘نورین نے فیروزان کو الگ کمرے میں لے جا کر کہا۔’ ’ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ میں ماں ہوں اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ مجھے کس طرح مجبور کیاگیا تھا کہ اپنے بیٹے کو مدائن لاکر تخت پر بٹھاؤں ۔یہ امراء اور عوام کا مطالبہ تھا جو میں نے پورا کیا۔ لیکن میں اپنے بیٹے کو اس حال میں نہیں مروانا چاہتی کہ شکست بھی ہو سلطنتِ فارس سے عراق جیسا زرخیز اور بڑا خطہ نکل جائے اور میرا بیٹا مارا بھی جائے ۔اب تک یزدگرد بچتا چلا آرہا ہے۔ اسے سب سے پہلا اور بہت بڑا دھوکا رستم نے دیا تھا۔ اگر رستم قادسیہ پہنچنے میں اتنا زیادہ وقت ضائع نہ کرتا تو شاید اس کے بعد ہمیں اتنا زیادہ پسپا نہ ہونا پڑتا کہ مدائن اور جلولا بھی ہاتھ سے نکل جاتا۔۔‘‘
’’ملکہ عالیہ!‘‘فیروزاننے کہا۔ ’’وقت بہت تھوڑا ہے۔ آپ کی بات لمبی معلوم ہوتی ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ آپ بات کو ذرا مختصر کر دیں۔ آپ جو کہنا چاہتی ہیں ۔وہ چند لفظوں میں کہہ دیں ۔میں اسے راز رکھوں گا۔‘‘کہنا یہ ہے فیروزان!‘‘نوریننے کہا۔’’ عراق ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ میرے بیٹے کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا۔ مجھے خطرہ نظر آنے لگا ہے کہ یزدگرد جوش میں آکر لڑائی میں جا شامل ہو گا اور مارا جائے گا یا وہ دماغی خرابی کی وجہ سے اپنے آپ کو خود ہی مار لے گا۔ اگر میرا یزدی پاگل ہو گیا تو مجھے یہ اطمینان تو ہو گا کہ پاگل ہی صحیح، زندہ تو ہے۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ تم یزدگرد کو قائل کرو کہ وہ حلوان سے نکل جائے۔ آگے ہمارا بڑا شہر رے ہے۔ میں اسے وہیں لے جاؤں گی۔‘‘
’’ہاں ملکہ عالیہ!‘‘فیروزاننے کہا۔’’ شہنشاہ کو یہاں سے نکالنے کیلئے میرے پاس ایک جواز ہے۔ میں انہیں کہوں گا کہ اپنی فوج کی کیفیت بہت ہی مخدوش ہو گئی ہے۔ ہمارے کتنے ہی قابل اور نامور جرنیل مارے گئے ہیں۔ جرنیل تو لڑائی میں مرا ہی کرتے ہیں لیکن شہنشاہ مارا جائے یا دشمن کی قید میں چلا جائے تو پھر کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ اتنی زیادہ بے عزتی پوری سلطنت کو اور ساری قوم کو لے ڈوبتی ہے۔ میں شہنشاہ سے کہوں گا کہ وہ سلطنت کے وقار کا خیال کریں اور یہاں سے نکل جائیں۔‘‘
’’فیروزان!‘‘نورین نے فیروزان کو اپنے بازوؤں میں لے کر اور اسے اپنے ساتھ لگا کر بڑے جذباتی لہجے میں کہا۔’’ یہ کام کر دو اور پھر بولو کہ تمہیں کیسا اور کتنا انعام چاہیے ۔‘‘
’’پہلے میں یہ کام کر لوں ملکہ عالیہ!‘‘فیروزاننے کہا۔’’ میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ شہنشاہ کو یہاں سے نکال دوں گا۔‘‘
فیروزان وہاں سے چلاگیا۔
٭
’ہاں ملکہ عالیہ!‘‘فیروزاننے کہا۔’’ شہنشاہ کو یہاں سے نکالنے کیلئے میرے پاس ایک جواز ہے۔ میں انہیں کہوں گا کہ اپنی فوج کی کیفیت بہت ہی مخدوش ہو گئی ہے۔ ہمارے کتنے ہی قابل اور نامور جرنیل مارے گئے ہیں۔ جرنیل تو لڑائی میں مرا ہی کرتے ہیں لیکن شہنشاہ مارا جائے یا دشمن کی قید میں چلا جائے تو پھر کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ اتنی زیادہ بے عزتی پوری سلطنت کو اور ساری قوم کو لے ڈوبتی ہے۔ میں شہنشاہ سے کہوں گا کہ وہ سلطنت کے وقار کا خیال کریں اور یہاں سے نکل جائیں۔‘‘
’’فیروزان!‘‘نورین نے فیروزان کو اپنے بازوؤں میں لے کر اور اسے اپنے ساتھ لگا کر بڑے جذباتی لہجے میں کہا۔’’ یہ کام کر دو اور پھر بولو کہ تمہیں کیسا اور کتنا انعام چاہیے ۔‘‘
’’پہلے میں یہ کام کر لوں ملکہ عالیہ!‘‘فیروزاننے کہا۔’’ میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ شہنشاہ کو یہاں سے نکال دوں گا۔‘‘
فیروزان وہاں سے چلاگیا۔
٭
٭
اُدھر یزدگرد نے لوگوں کے ہجوم کے ساتھ جھوٹے سچے وعدے کر کے اور شکستوں کی ذمہ داری جرنیلوں پر ڈال کر اور جذباتی باتیں کرکے انہیں ٹھنڈا کر لیا تھا۔ لوگ بڑے آرام سے وہاں سے چلے گئے۔ یزدگرد اپنے اس چھوٹے سے محل میں چلا گیا جو شہنشاہوں کیلئے حلوان میں تعمیر کیاگیا تھا۔ اس نے لوگوں کو تو ٹھنڈا کر دیا تھا لیکن اس کے اپنے سینے میں آگ بھڑک رہی تھی۔
وہ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ فیروزان آگیا۔
’’کیا فوج تیار ہو گئی ہے؟‘‘ یزدگر دنے پوچھا ۔’’تم کس وقت نکل رہے ہو؟‘‘
’’ہاں شہنشاہ!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ میں نکل ہی جاتا لیکن ایک بہت ہی ضروری بات کرنے رک گیا ہوں۔‘‘
’’اب باتوں میں وقت ضائع نہ کرو فیروزان!‘‘یزدگرد نے کہا ۔’’باتیں بہت ہو چکیں۔ اب یہ مت بھولنا کہ فارس کے امراء وزراء ہماری رعایا کی اس خواہش پر مجھے مدائن لائے تھے کہ اس تخت و تاج پر کسریٰ کے خاندان میں ایک دوسرے کا خون بہا دیا تھا۔ اس خونی سلسلے کو روکنے کیلئے مجھے لایا گیا تھا اور اس لئے بھی کہ تخت پر کسریٰ کے خاندان کا کوئی مرد ہو نا چاہیے ۔جو فارس کو عربوں سے اس طرح بچا لے کہ عربوں کو یہیں تباہ و برباد کر کے عرب پر حملہ کیا جائے۔ لیکن فیروزان جو ہوا وہ تمہارے سامنے ہے ۔وہی لوگ جنہوں نے مجھے ایک فرشتہ سمجھ کر بلایا تھا۔ آج مجھ سے باغی ہو کر میرے منہ پر شکست کی سیاہی مل رہے ہیں۔ شہنشاہِ فارس!‘‘فیروزان نے کہا۔’’ فتح و شکست ایک الگ بات ہے لیکن اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ آپ کی ذات سلطنتِ فارس کی آبرو کی علامت ہے۔ اب ہم زندگی کی آخری بازی لگا کر لڑیں گے لیکن آپ کو حلوان سے نکل جانا چاہیے۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘ یزدگرد نے پوچھا۔’’ کیا یہ بہتر نہیں کہ میں اپنی فوج اور اپنی رعایا کے ساتھ رہوں؟‘‘
’’نہیں شہنشاہ!‘‘فیروزان نے جواب دیا۔’’ لڑنا ہم نے ہے ۔ہو سکتا ہے ہم حلوان چھوڑ دیں اور باہر مسلمانوں کو نرغے میں لاکر ختم کر دیں ۔ہو سکتا ہے میں حلوان کو مسلمانوں کے لئے ایساپھندہ بنا دوں کہ ان کی لاشیں ہی یہاں سے نکلیں گی ۔یہ ایسی صورتِ حال ہو گی کہ اس میں اگر آپ موجود رہے تو ہمیں آپ کی اور شاہی خاندانوں کی حفاظت بھی کرنی پڑے گی۔ آپ ہم پر کرم کریں اور اس ذمہ داری سے ہمیں فارغ کر دیں ۔اگر آپ یہاں رہے تو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ عرب آپ تک پہنچ جائیں اور آپ کو قتل کردیں یا اپنے ساتھ ہی زندہ لے جائیں۔ اگر ایسی صورتِ حال پیدا ہو گئی تو پھر فارس کی تمام سلطنت میں بد دلی اور خوف پھیل جائے گا، اور عربوں کی دھاک بیٹھ جائے گی ۔آپ یہاں سے نکل جائیں اور رے پہنچ جائیں ۔‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ یزدگرد اپنے شاہی خاندان کے ساتھ رات کے وقت چپکے سے حلوان سے نکل گیا اور رے جا پہنچا۔
یزدگرد کو رخصت کر کے فیروزان نے فوج کے کچھ دستے تیار کر لئے اور خسروشنوم کو خانقین کے قریب مسلمانوں پر تیز اور شدیدحملہ کرنے کی ہدایات دینے لگا۔ سب جانتے تھے کہ اس حملے کی قیادت فیروزان کرے گا ۔لیکن وہ خسروشنوم کو کمان دے کر بھیج رہا تھا۔ اس کے ایک ماتحت افسر نے اس سے پوچھا کہ وہ خود کیوں نہیں جا رہا؟ یہ افسر اس کا معتمد اور راز دار معلوم ہوتا تھا۔
’’ملکہ عالیہ اپنے بیٹے کو زندہ رکھنا چاہتی تھیں۔‘‘ فیروزان نے کہا۔’’ اس کے کہنے پر میں نے شہنشاہ کو یہاں سے نکال دیا ہے۔ اگر شاہی خاندان موت سے ڈرتا ہے تو میں موت کے منہ میں کیوں جاؤں؟ خسروشنوم میرا ماتحت ہے۔ میں اسے جہاں چاہوں بھیج سکتا ہوں اور اسے بھیج رہا ہوں ۔‘‘
ایک روایت یہ بھی ہے کہ خسروشنوم کو اپنے کسی مخبر یا جاسوس کے ذریعے پتا چل گیا تھا کہ فیروزان لڑائی سے بچنے کیلئے لڑنے کیلئے بھیج رہا ہے۔ لیکن خسروشنوم اس کے ماتحت تھا ۔اس لئے نہ وہ بحث کر سکتا تھا نہ حکم عدولی ۔ وہ سوار دستے لے کر نکل گیا ۔
٭
خانقین سے کچھ آگے قصرِ شیریں تھا۔ جو حلوان سے صرف تین میل دور تھا۔ قعقاع بن عمرو مجاہدین کی قلیل سی تعداد کے ساتھ قصرِ شیریں کے قریب کمک کے انتظار میں رکے ہوئے تھے ۔انہوں نے جلولا اپنے ایک مجاہد کو بھیجا تھا کہ سپہ سالار سعدؓ بن ابی وقاص سے کہے کہ پیچھے آنے کے بجائے آگے بڑھ کر حلوان کو محاصرے میں لینا چاہتے ہیں تاکہ فارسیوں کو سنبھلنے اور سستانے کی مہلت نہ ملے اور وہ حلوان سے بھی نکل جائیں۔
’’اور امیرِ لشکر سے کہنا۔‘‘ قعقاع نے اپنے قاصد سے کہا تھا ۔’’کہ حلوان کے ساتھ ہی عراق کی سرحد ختم ہو جاتی ہے۔ اگر ہم نے حلوان لے لیا تو پورا عراق لے لیا ۔فارسی اپنے فارس میں چلے جائیں اور شام کی طرف سے ابو عبیدہ اور خالد بن ولید ہم سے آملیں گے اور یہ بھی کہنا کہ فارس کا بادشاہ یزدگرد بھی حلوان میں ہے۔ میں اسے گرفتار یا ہلاک کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔ اس طرح ہم پورے فارس کی کمر توڑ سکتے ہیں۔‘‘
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ سعد ؓبن ابی وقاص ایک شہر فتح کر کے قاصد کو مدینہ بھیج کر حضرت عمر ؓسے حکم لیتے تھے۔ حضرت عمرؓ اس علاقے سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس لئے وہ دونوں طرف کی فوجوں کی کیفیت، جنگی صورتِ حال اور دیگر احوال و کوائف پر غور کر کے حکم بھیجا کرتے تھے۔
جلولا فتح کر کے بھی سعدؓ بن ابی وقاص نے قاصد مدینہ بھیج دیا تھا ۔ادھر سے قعقاع بن عمرو نے کمک مانگ لی ۔ سعدؓ نے اپنے سالاروں سے صلاح و مشورہ کرنے میں خاصا وقت لے لیا۔ آخر ان سب نے فیصلہ کیا کہ مدینے سے امیر المومنین کا حکم بہت دنوں بعد آئے گا۔ قعقاع کے ارادے اور دلائل کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا تھا ۔اس کی اس تجویز اورعزم کو نظر انداز کرنا نقصان کا باعث بن سکتا تھا ۔زیادہ انتظار میں فارسیوں کو سستانے کا اور بکھری ہوئی فوج کو یکجا ہو جانے کا موقع مل جانے کا خطرہ تھا۔
حلوان میں قعقاع کی مختصر کی جماعت پر حملہ کرنے کا حکم مل چکا تھا۔
سعدؓ بن ابی وقاص نے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کر دیا کہ قعقاع کو کمک بھیج دی جائے۔
حلوان سے خسرو شنوم کی قیادت میں سوار دستے نکل آئے ۔
جلولا سے کمک چل پڑی ۔
حلوان سے قصرِ شیریں تک کا فاصلہ صرف تین میل تھا لیکن جلولا سے قصرِ شیریں زیادہ دور تھا۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے خسرو شنوم نے ایک جست میں قصرِ شیریں میں پہنچ جانا تھا اور مجاہدین کی کمک کو خاصا فاصلہ طے کرنا تھا۔
٭
قعقاع بن عمرو کی پوزیشن ایسی تھی جیسے دشمن کے پیٹ میں بیٹھے ہوئے ہوں ۔اس لئے وہ دن رات اس طرح چوکنے رہتے تھے کہ انہوں نے دیکھ بھال کیلئے اپنے تین چار مجاہدین حلوان بھیج رکھے تھے۔ ان کے ذمے یہ کام تھا کہ حلوان یا کسی بھی طرف سے فارسیوں کی فوج آئے تو فوراًپیچھے اطلاع دیں ۔آخر یہ اطلاع آگئی۔ آگے گئے ہوئے ایک مجاہد نے پیچھے آکر قعقاع کو بتایا کہ حلوان سے سوار دستے قصرِ شیریں کی طرف آرہے ہیں ۔ان کی اندازاً تعداد بھی بتائی ۔
٭
قعقاع نے یہ اطلاع ملتے ہی اپنے مجاہدین کو اس طرح تقسیم کر دیا کہ تھوڑی سی تعداد کو سامنے رکھا اور باقی سب کو مکانوں اور دیگر تعمیرات کی اوٹوں میں چھپا دیا۔ ظاہر یہ کیا گیا کہ کل مجاہدین یہی ہیں جو سامنے ہیں۔
قعقاع نے ایک چال یہ چلی کہ ان مجاہدین کو جنہیں انہوں نے سامنے رکھا تھا۔ اس طرح اِدھر اُدھر کرنے لگے جیسے وہ بھاگ نکلنے کے راستے دیکھ رہے ہوں۔ فارسی سوار اکٹھے ہی ان کی طرف آئے۔ قعقاع اپنے مجاہدین کے ساتھ بھاگنے کے اندا زسے پیچھے ہٹنے لگا اور ہٹتے ہٹتے مکانوں کے قریب چلا گیا۔ لڑائی کی وجہ سے مکان خالی تھے۔
خسرو شنوم للکارتا آرہا تھا۔’’ انہیں جانے نہ دینا ۔گھوڑوں تلے کچل دو۔ ایک ایک کو کاٹ دو۔‘‘
فارسی جب مکانوں کے قریب آئے تو چھتوں سے ان پر تیر برسنے لگے۔ تیر انداز مجاہدین کی تعداد کم تھی۔ اس کمی کو مجاہدین بہت ہی تیز تیر اندازی سے پورا کر رہے تھے۔ نشانہ لینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ فارسی سوار ہجوم کی صورت آرہے تھے ۔کوئی تیرضائع نہیں ہوتا تھا۔
اس اچانک اور غیر متوقع تیر اندازی سے فارسی بوکھلا اٹھے ۔اگلے سواروں نے یکلخت گھوڑے روک لیے تو پیچھے آنے والے ان سے ٹکرا کر رکے۔ جن گھوڑوں کو تیر لگتے تھے وہ بے لگام ہو کر اپنی ہی فوج کیلئے قیامت بپا کر دیتے تھے ۔ فارسیوں پریقینا یہ خوف طاری ہو گیا ہو گا کہ مسلمانوں کی تعداد ان کے اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔
جب فارسیوں کے گھوڑے آپس میں پھنس گئے اور زخمی گھوڑے بے قابو ہو کر اچھے بھلے گھوڑوں کو ڈراے لگے تو قعقاع نے ان پر حملہ کردیا ۔خسرو شنوم چلّا رہا تھا کہ اس کے سوار کھُل جائیں ۔وہ دائیں بائیں پھیلنے لگے تاکہ لڑنے اور پینترے بدلنے کیلئے جگہ نکل آئے لیکن دائیں اور بائیں سے ان پر مجاہدین نے حملہ کر دیا جنہیں قعقاع نے دور دور مکانوں کی اوٹ میں چھپایا تھا۔
ان مجاہدین کی تعداد اتنی کم تھی کہ و ہ اتنے زیادہ سواروں پر غالب نہیں ا ٓسکتے تھے۔ یہ قعقاع کی غیر معمولی دلیری تھی کہ اس نے اتنے کثیر دشمن سے ٹکر لے لی تھی۔ وہ اس جنگی دانش اور ہنر مندی سے لڑ رہاتھا۔ جو اس کی فطرت کا لازمی حصہ تھا ۔اس کی یہ چال خاصی کامیاب تھی کہ اس نے تیر اندازوں کو مکانوں کی چھتوں پر اور دوسرے مجاہدوں کو مکانوں کے پیچھے چھپا دیا تھا ۔پھر بھی فارسیوں کا دباؤ کم نہیں ہو رہا تھا۔ حالانکہ پہلے ہلّے میں ان کا خاصا نقصان ہوا تھا۔قعقاع ہمت ہارنے والے سردار نہیں تھے۔ ان کی للکار میں جوش بڑھتا جا رہا تھا لیکن کامیابی مخدوش نظر آرہی تھی۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فارسیوں کا جرنیل خسروشنوم پہلے اپنے سواروں کے آگے تھا پھر وہ پیچھے ہٹتے ہٹتے اپنے سواروں میں کہیں غائب ہو گیا۔ قعقاع اسے ڈھونڈ رہے تھے لیکن وہ انہیں کہیں نظر نہیں آتا تھا۔
معرکہ گھمسان کا تھا ۔خونریز بھی تھا۔ اچانک فارسی سواروں میں ایسی ہڑبونگ مچ گئی، جسے کچھ دیر کیلئے قعقاع بھی نہ سمجھ سکا پتہ اس وقت چلا جب فارسیوں کا کشت و خون اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ انہوں نے بھاگنا شروع کر دیا۔ یہ جلولا کی کمک تھی جو بر وقت پہنچ گئی تھی ۔تعداد اس کی بھی کچھ زیادہ نہیں تھی۔ لیکن ان مجاہدین نے دیکھا کہ معرکہ لڑا جا رہا ہے تو انہوں نے فارسیوں پرعقب اور ایک پہلو سے حملہ کر دیا۔
خسرو شنوم پہلے ہی بد دل ہوا جا رہا تھا۔ اسے فیروزان کا یہ حکم اچھا نہیں لگا تھا کہ وہ خود باہر نہیں آیا اور اسے آگے بھیج دیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے سوار گھِر گئے ہیں اور گھوڑے اندر ہی اندر ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو دبا رہے ہیں اور زخمی گھوڑے اپنی اچھل کود کر رہے ہیں ۔اس پوزیشن میں آکر سوار لڑ نہیں سکتے تھے ۔یہ دیکھ کر خسرو شنوم وہاں سے کھسک گیا ۔وہ کوئی چال نہیں چل سکتا تھا ۔مجاہدین تعداد میں بہت تھوڑے تھے لیکن قعقاع کی عقل اور مجاہدین کے جذبے نے فارسیوں کو بے بس اور مجبور کر دیا تھا۔
فارسی سوار ایک ایک دو دو کر کے معرکے سے نکل کر بھاگنے لگے اور زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میدان میں فارسیوں کی لاشیں ان کے زخمی اور ان کے گھوڑے اِدھر اُدھر بھاگتے دوڑتے رہ گئے ۔مجاہدین نے گھوڑوں کو پکڑنا اور مرے ہوؤں اور زخمیوں کے ہتھیار اکٹھے کرنے شروع کر دیئے۔
جاری ۔۔۔۔
❤️
🥳
6