لَبَّیْک اَلجِہَاد
لَبَّیْک اَلجِہَاد
February 3, 2025 at 06:35 AM
حجاز کی آندھی قسط نمبر 44 حلوان دور نہیں تھا۔ فیروزان شہر کی دیوار پر کھڑا تھا۔ اسے یقینا یہ توقع تھی کہ اتنی قلیل تعداد مسلمانوں کو اس کے سوار کچل کر واپس آرہے ہوں گے۔ لیکن اسے اِکّے دُکّے گھوڑے دور دور بھاگتے دوڑتے نظر آنے لگے۔ سب سے پہلے خسرو شنوم حلوان میں داخل ہوا۔ فیروزان نے اس سے لڑائی کے متعلق پوچھا تو خسرو شنوم کی زبان کانپ رہی تھی۔ پھر میدان سے بھاگے ہوئے سوار شہر میں داخل ہونے لگے ۔ان میں بہت سے زخمی تھے۔ ان کے کپڑے خون سے لال تھے۔ ایسے بھی تھے جن کے جسموں میں تیراترے ہوئے تھے۔ ایک تو ان کی یہ حالت تھی جو شہر کے لوگوں کو ڈرا رہی تھی دورے ان کی باتیں تھیں جو وہ خوفزدگی کے عالم میں شہریوں کو سنا رہے تھے۔ قعقاع ان کے تعاقب میں گئے۔مجاہدین گھوڑے سر پٹ دوڑاتے گئے ۔شہر سے لوگ بھاگنے لگے۔وہاں جو فوج تھی وہ بغیر لڑے بھاگ اٹھی ۔یہ سب مدائن اور جلولا کے بھاگے ہوئے فوجی تھے۔ حلوان بھی مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔ قعقاع نے فوری طور پر دو کام کیے۔ ایک یہ کہ سعدؓ بن ابی وقاص کو پیغام بھیجا کہ حلوان پر بھی قبضہ ہو گیاہے اور دوسراکام یہ کہ شہر کے چند آدمیوں سے کہا کہ وہ شہر میں اور اردگرد کی آبادیوں میں منادی کرہےدیں کہ جو لوگ اسلام قبول کر لیں یاجزیہ ادا کر دیں گے انہیں امن و امان اور تحفظ میں رکھا جائے گا۔ ان کے مال و اموال اور جائیدادوں پر کسی اور کا ناجائز قبضہ نہیں ہو گا۔ مؤرخوں نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ اس علاقے کے لوگوں نے دیکھ لیا تھا کہ عرب کے ان مسلمانوں نے جن علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے وہاں کے لوگ نہ صرف یہ کہ امن و امان میں رہتے ہیں بلکہ اب وہ آزادی سے رہتے ہیں اور وہ اس خوف سے آزاد ہو گئے ہیں کہ شاہی کارندے اچانک آدھمکیں گے اور ان کے کھیتوں کی کمائی کا بیشتر حصہ بلا قیمت اٹھا لے جائیں گے۔ کسی کی خوبصورت لڑکی دیکھیں گے تو اسے اپنے ساتھ لے جائیں گے ۔جسے چاہیں گے بیگار میں پکڑ لیں گے۔ فوج میں جبراً بھرتی کرلیں گے۔ ان آتش پرستوں کو معلوم نہ تھا کہ مسلمانوں کے جس حسنِ سلوک کو وہ اپنے اوپر احسان سمجھ رہے تھے وہ اﷲ کا حکم تھا۔ آتش پرست تکریمِ انسانیت سے نا واقف تھے ۔وہ نہیں جانتے تھے کہ تکریم اور تعظیم انسان کا بنیادی حق ہے اور یہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ بادشاہوں کی سابق رعایاکو انسانیت کے حقوق مل گئے تو کوئی جزیہ لے کے آگیااور کسی نے اسلام قبول کر لیا ۔کسی پر اسلام زبردستی نہ ٹھونسا گیا ۔لوگ جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔ ٭ سعد ؓبن ابی وقا ص نے مجاہدین کی خاصی نفری حلوان بھیج دی۔ انہوں نے حلوان کی فتح کا تفصیلی پیغام امیر المومنین حضرت عمرؓ کے نام لکھوا کر بھیج دیا۔ مدینہ سے سعدؓ بن ابی وقاص کے پہلے پیغام کا جواب آگیا ۔اس پیغام میں سعدؓ نے حضرت عمرؓ کو جلولاکی فتح کی تفصیلات لکھی تھیں اور پیش قدمی کی اجازت مانگی تھی۔ انہوں نے لکھاتھا کہ فارسی بری حالت میں پسپا ہو رہے ہیں ۔ان کی جنگی طاقت ختم ہو چکی ہے اور ان کی اپنی رعایا ان کے خلاف ہو گئی ہے ۔ان حالات میں فارسیوں کا تعاقب جاری رکھا جائے تو پورے فارس کو سلطنتِ اسلامیہ میں شامل کیاجاسکتاہے۔ سعدؓ بن ابی وقاص کو توقع تھی کہ حضرت عمرؓ حکم بھیجیں گے کہ فارسیوں کا تعاقب جاری رکھو اور انہیں کہیں دم نہ لینے دو۔ لیکن حضرت عمرؓ کی دور بین نگاہوں عقل و دانش اور تدبر کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا ۔کوئی سپہ سالار حضرت عمر ؓکی دور اندیشی تک نہیں پہنچ سکتاتھا۔حضرت عمرؓ نے سعد ؓبن ابی وقاص کو جلولاسے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ ان کے اس طویل پیغام کے الفاظ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں: ’’میں چاہتا ہوں کہ سواد اور پہاڑ کے درمیان ایک دفاعی دیوار کھڑی ہوجائے ۔نہ فارسی ہماری طرف آسکیں نہ ہم ان کی طرف جا سکیں ۔ہمارے لیے سواد کا علاقہ ہی کافی ہے۔ مجھے مالِ غنیمت اور مزید زمین کے بجائے مسلمانوں کی سلامتی زیادہ عزیز ہے۔‘‘ سواد دریائے دجلہ اور دریائے فرات کا علاقہ تھا۔ اس کے جنوب میں ڈیلٹا کا علاقہ بھی مسلمانوں نے لے لیا تھا اور شمال میں فارس(ایران)اور شام کی سرحدوں کا درمیانی علاقہ بھی مسلمانوں کا مفتوحہ تھا۔ یہ دراصل آج کا عراق ہے ۔اس دور میں بھی اس خطے کا نام عراق تھا لیکن عربوں نے اسے سواد اور بین النہرین یعنی دو دریاؤں کا درمیانی علاقہ کہنا شروع کر دیا تھا۔ سعد ؓبن ابی وقاص جہاں پہنچ گئے تھے وہاں عراق کی سرحد ختم ہو جاتی تھی۔ حضرت عمرؓ نے سعد ؓبن ابی وقاص کو بڑی واضح اور تفصیلی ہدایات بھیجیں انہوں نے لکھا کہ فارسی پسپا ہو کر اپنے ملک میں پہنچ گئے ہیں اور انہیں پہاڑیوں کی حفاظت مل گئی ہے ۔اگر مجاہدین فارسیوں کے تعاقب میں چلے گئے تو نقصان اٹھائیں گے ۔بہتر یہ ہے کہ ان پہاڑیوں کو فارس اور عراق کے درمیان حدِ فاضل بنا لیا جائے۔ ’’……اگر تم ان پہاڑیوں میں پھنس گئے تو عراق کے لوگ بغاوت پر اتر آئیں گے۔‘‘ حضرت عمرؓ نے لکھا ۔’’اس سے پہلے بھی عراق کے وہ امراء اور جاگیر دار جن کے علاقے فتح کر لیے گئے تھے اور جو ہمارے وفادار ہو گئے تھے، وہ سب اس وقت باغی ہو گئے تھے جب مجاہدین کا لشکر آگے نکل گیا تھا ۔انہوں نے ہمارے ان عمّال کو بھی قتل کر دیا تھا جنہیں ان کے شہروں میں مقرر کیا گیا…… االحمد ﷲ، سلطنتِ اسلامیہ کی وسعت دجلہ اور فرات سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ شام بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا گیا ہے ۔یہ علاقے تو ہمارے زیرِ اقتدار آگئے ہیں لیکن اصل کام یہ ہے کہ ان علاقوں کے لوگوں کو مدینہ کے زیرِ اقتدار لانا ہے۔ علاقے فتح کیے جا سکتے ہیں لیکن ان علاقوں کے لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا بہت مشکل کام ہے ۔علاقے تیر و تلوار سے فتح ہوتے ہیں لیکن دلوں کی فتح نہ تیر سے ممکن ہوتی ہے نہ تلوار سے۔ لوگوں کو امن و امان اور سکون کی زندگی مہیا کرو ۔انہیں انسانیت کے درجے پر لاؤاور انہیں ان کے پورے حقوق دو…… انکے مذہب میں دخل نہ دو، جبر نہ کرو اور اس کے ساتھ ہی انہیں دینِ الٰہی کی طرف مائل کرو لیکن بحث اور حجت نہ کرو۔ پندونصیحت کا انداز اختیار کرو اپنے کردار کو اپنے پندونصیحت میں ڈھالواور دلوں پر اثر کرنے والا نمونہ پیش کرو۔ پھر تم دیکھو گے کہ اﷲ اپنے دین کو خود ہی تمام مذاہب پر غالب کر دے گا۔ ان کے مذہبی پیشوا کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لیں وہ اسلام کے غلبے اور مقبولیت کو نہیں روک سکیں گے…… مفتوحہ علاقوں کا نظم و نسق بحال کرو اور اسے رواں کر کے ایسی شکل دو کہ لوگ خود محسوس کریں کہ اس سے پہلے ان کی حق تلفی ہو تی رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں پر اور ان کے سرداروں پر نظر رکھو کہ کہیں سے بغاوت نہ اٹھنے پائے۔‘‘ مؤرخوں نے حضرت عمرؓ کے ان احکام کو بہت اہمیت دی ہے۔ بعض غیر مسلم تاریخ نویسوں اور مبصروں نے حضرت عمرؓ کے اس تدبر اور پالیسی کوبہت سراہا ہے۔ اگر حضرت عمر ؓکی دلچسپی صرف علاقے فتح کرنے میں ہوتی تو وہ سعدؓ بن ابی وقاص کو پہاڑی علاقوں میں پیش قدمی کرنے کا حکم دے دیتے اور یہ نہ سوچتے کہ صحرا اور میدانوں میں لڑنے والے پہاڑیوں کے اندر نہیں لڑ سکیں گے۔ سعد ؓبن ابی وقاص نے امیر المومنینؓ کا یہ پیغام اپنے تمام سالاروں کو پڑھ کر سنایا۔ ٭ دریائے دجلہ کے کنارے عراق کے شمال میں تکریت نام کا ایک شہر تھا۔ یہ رومیوں کا علاقہ تھا ۔ وہاں عراق اور شام کی سرحد ملتی تھی ۔خالدؓ بن ولید اور ابو عبیدہؓ بن الجراح نے رومیوں کو بہت بری شکستیں دے کر شام سے بے دخل کر دیا تھا۔ رومی اب شمال میں محدود سے علاقے میں جوابی کارروائی کیلئے اکٹھے ہو رہے تھے۔ پہلے کسی باب میں ذکر ہوچکا ہے کہ مجاہدین کے لشکر میں بنو تغلب اور بنو نمر کے عیسائی بھی تھے ۔ایک عیسائی نے ایک فارسی جرنیل کو میدانِ جنگ میں اتنی دلیری سے قتل کیا تھا کہ خود بھی قتل ہو گیا تھا ۔اب مسلمانوں نے پورا عراق فتح کر لیا اور حضرت عمر ؓنے سعد ؓبن ابی وقاص کو حکم بھیج دیا کہ آگے نہ بڑھیں اور مفتوحہ علاقے کے نظم و نسق کو بہتر بنائیں۔ ایک روزز بنو تغلب کا ایک عیسائی مجاہد سعد ؓبن ابی وقاص کے پاس آیا۔ ’’سپہ سالار!‘‘ا س نے کہا۔’’ میں بنو تغلب کا عیسائی ہوں۔‘‘ ’’خدا کی قسم!‘‘سعد ؓنے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔ ’’یہاں کوئی امتیاز نہیں، تو ہمارے ساتھ ہے تو ہمارا بھائی ہے۔ تو عربی ہے اور ہم سب عربی ہیں۔ جو عجمیوں کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ مذہب الگ ہونے سے جذبے الگ نہیں ہو جایا کرتے۔ کہہ کیا کہنے آیا ہے تو ؟‘‘ ’’اے سپہ سالار!‘‘عیسائی نے کہا۔’’ خدا کی قسم، ہم تیرے ساتھ ہیں تو پوری وفا کریں گے۔ ایک خطرہ آرہا ہے۔ اسے تو خود ہی دیکھ لے۔ تکریت ایک شہر ہے شاید موصل سے کچھ دور ہے۔‘‘ ’’ہاں!‘‘سعدؓ بن ابی وقاص نے کہا۔’’ تکریت رومیوں کا شہر ہے۔ کیا ہے اس شہرمیں؟‘‘ ’’وہاں ہم پر حملے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔‘‘ عیسائی مجاہد نے کہا۔’’ میرے قبیلے تغلب کے لوگ بنو نمر اور بنو عیاد کے لوگ وہاں پہنچے ہوئے ہیں اور وہ رومیوں کو اکسا رہے ہیں کہ ہم پر حملہ کریں۔ رومی شاید کہیں سے پسپا ہو کر تکریت میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔‘‘ ’’میں جانتا ہوں۔‘‘سعد ؓبن ابی وقاص نے کہا۔’’ موصل پر ابو عبیدہ اور خالد بن ولید نے قبضہ کر لیا ہے، تکریت میں اگر رومی اکٹھے ہوئے ہیں تو یہ سب پسپا ہو کر آئے ہیں۔‘‘ تکریت شام اور عراق کی سرحد پر ایک بڑا قصبہ تھا ۔ادھر فارسی شکست کھا کر بھاگے تھے ادھر رومی مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھا کر بھاگے ،تو ان میں سے کچھ تکریت میں اکٹھے ہو گئے۔ تاریخ کے مطابق عرب کے کچھ عیسائی قبائل مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے رومیوں کے پاس پہنچ گئے۔ یہ عیسائی جو سعدؓ بن ابی وقاص کو یہ اطلاع دے رہا تھا، اس لیے وسوخ سے بات کر رہا تھا کیونکہ اس کے قبیلے کا ایک عیسائی سردار تکریت سے کسی بہروپ میں یا کسی دھوکے سے جلولا آیا۔ وہ عیسائیوں کے قبیلے بنو تغلب کا سردار تھا۔ جلولا میں وہ اپنے قبیلے کے ان عیسائیوں سے ملا جو مسلمانوں کے ساتھ فارسیوں کے خلاف لڑنے آئے تھے۔ حضرت عمرؓ اور مثنیٰ بن حارثہ نے دل کھول کر خراجِ تحسین پیش کیا تھا اور انہیں مالِ غنیمت میں سے برابر کا حصہ دیتے رہے تھے اور ان میں جو خصوصی بہادری سے لڑے تھے ،انہیں الگ انعام بھی دیا تھا۔ یہ عیسائی سردار جلولا میں ان عیسائی مجاہدین سے ملا اور انہیں کہا کہ وہ مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنے مذہب کے لوگوں کے ساتھ آجائیں ۔یہ سردار انہیں تکریت لے جانا چاہتا تھا تاکہ وہ رومیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کریں۔ عیسائیوں کی اس سازش میں یہودیوں کا ہاتھ بھی تھا۔ ان عیسائی قبائل کو عرب سے یہودی ہی لائے اور انہیں تکریت پہنچایا تھا۔ یہ سعدؓ بن ابی وقاص اور ان کے لشکر کیلئے بڑی ہی خطرناک سازش تھی۔ یہودیوں نے سعدؓ بن ابی وقاص کے لشکر کی اس کیفیت سے فائدہ اٹھانا چاہا تھا کہ یہ لشکر مسلسل لڑتا چلا آرہاتھا ۔ایک تو زخمیوں اور شہیدوں کی وجہ سے اس کی تعداد کم ہو گئی تھی اور باقی لشکر جو بظاہر صحیح سلامت تھا، تھک کر شل ہو چکا تھا۔ یہ تو ان کے جذبوں کا معجزہ تھا، جو وہ فتح حاصل کرتے چلے جا رہے تھے۔ جہاں تک جسموں کا تعلق تھا جسم لڑنا تو دور کی بات ہے تھوڑا سا سفر کرنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ یہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی دور اندیشی تھی کہ انہوں نے اس لشکر کو حلوان سے آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔ دوسری وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لشکر اب کچھ عرصے کیلئے لڑنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ بنو تغلب کے اس عیسائی نے تکریت سے آئے ہوئے سردار کو مایوس نہ کیا۔ دوسرے عیسائیوں نے بھی اسے کہا کہ وہ اُدھر سے بھاگ کر تکریت پہنچ جائیں گے۔ لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی جانے کیلئے تیار نہ تھا۔ سردار کے جانے کے بعد ان سب نے اس عیسائی کو جس کا تاریخ میں نام نہیں ملتا ،کہا کہ وہ سپہ سالار کو خبردار کر دے کہ تکریت میں ہم پر حملہ کرنے کیلئے ایک فوج تیار ہو رہی ہے۔ سعدؓ بن ابی وقاص نے اسی وقت ایک تیز رفتار قاصد کو پیغام دے کر مدینہ بھیجا ۔انہوں نے پیغام یہ لکھوایا کہ انہیں اجازت دی جائے کہ پیشتر اس کے کہ رومی عرب ان عیسائی قبائل سے مل کر حملہ کر دیں ،ادھر سے ان پر حملہ کر دیا جائے۔ قاصد کو بھیج کر سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنے ان دو تین جاسوسوں کو بلایا جو دراصل عربی تھے لیکن کچھ عرصے سے عراق میں آباد تھے انہیں کچھ ہدایات دے کر تکریت بھیج دیا ۔یہ آدمی جاسوسی اور مخبری کی خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ وہ اسی وقت مختلف بھیس بدل کر روانہ ہو گئے۔ ٭ یہ مخبر چند دنوں بعد واپس آئے تو انہوں نے تصدیق کر دی کہ تکریت میں سعد ؓبن ابی وقاص کے لشکر پر حملے کی تیاریاں جوش و خروش سے ہورہی ہیں اور دو چار دنوں میں وہاں سے کوچ کر آئے گا۔ ’’خدا کی قسم!‘‘سعدؓ ابن وقاص نے بڑی جوش سے کہا ۔’’ہم انہیں تکریت سے باہر نہیں آنے دیں گے۔ میرے لشکر کے جسم ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں لیکن اﷲ ہمارے ساتھ ہے اور ہمارے جذبے تروتازہ ہیں۔‘‘ سعدؓ نے اپنے سالاروں کو اور لشکر کو بھی خبردار کر کے تیارکر لیا۔ کچھ دن گزرے تو مدینہ سے حضرت عمرؓ کا جواب آگیا۔ حضرت عمرؓ نے لکھا کہ رومیوں نے ابو عبیدہؓ سے شکست کھاکر سوچا ہو گا، جتنا علاقہ وہ مسلمانوں کو دے آئے ہیں۔ اتناوہ عراق میں مسلمانوں سے لے لیں گے۔ حضرت عمرؓ نے لکھاکہ انہیں تکریت سے نکلنے کی مہلت نہ دی جائے۔ عبداﷲ بن معتم کو پانچ ہزار سوار دے کر فوراً تکریت بھیج دیا جائے۔ سعد ؓبن ابی وقاص نے لشکر کو پہلے ہی تیار رکھا ہوا تھا۔نہیں توقع تھی کہ امیر المومنینؓ حملے کا حکم ضرور دیں گے۔ حضرت عمر ؓکو معلوم تھا کہ تکریت کے اردگرد دور تک کا علاقہ عیسائی قبائل کا علاقہ تھا۔ دجلہ کے ایک طرف بنو ایاد اور دوسری طرف بنو تغلب آباد تھے۔ یہ قبیلے صحرائے عرب میں بھی رہتے تھے۔ حملے کا حکم ملتے ہی سعد ؓبن ابی وقاص نے عبداﷲ بن معتم کوپانچ ہزار منتخب سوار دے کر تکریت کی سمت روانہ کر دیا۔ بوقتِ رخصت سعد ؓبن ابی وقاص نے عبداﷲ بن معتم کو صرف یہ الفاظ کہے کہ’’ ابنِ معتم!میں شکست کی خبر برداشت نہیں کر سکوں گا۔‘‘ دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عبداﷲ بن معتم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے ہونٹوں پرکچھ اور ہی قسم کا تبسم آگیا اور وہ خدا حافظ کہہ کر چل پڑا۔ کچھ دنوں بعد یہ لشکر تکریت پہنچا جوکہ یہ گھوڑ سواروں کا لشکر تھا ،ا سلئے اس کے کوچ کی رفتار خاصی تیز تھی ۔رفتار کو معمول کی رفتار سے زیادہ تیز اس لئے رکھا گیا کہ تکریت کے لشکر کو وہاں سے حملے کیلئے نکلنے کی مہلت نہیں دینی تھی۔ عبداﷲ بن معتم نے بھی اپنی یہ خواہش پوری کر لی۔ تکریت سے ابھی رومیوں اور عیسائیوں کا لشکر نہیں نکلا تھا کہ عبداﷲ بن معتم نے تکریت کو محاصرے میں لے لیا۔ جاری ہے۔۔۔۔۔
❤️ 👍 6

Comments