
لَبَّیْک اَلجِہَاد
February 4, 2025 at 01:14 PM
آخری قسط
حجاز کی آندھی قسط نمبر 45 اور آخری قسط
کچھ دنوں بعد یہ لشکر تکریت پہنچا .چونکہ یہ گهڑسواروں کا لشکر تھا اسلئے اسکے کوچ کی رفتار کافی تیز تھی
رفتار کو معمول کی رفتار سے زیادہ تیز اسلئے رکھا گیا کہ تکریت کے لشکر کو وہاں سے حملے کے لئے نکلنے کی مہلت نہیں دینی تھی
عبداللہ بن معتم نے اپنی یہ خواہش پوری کر لی-تکریت سے ابھی رومیوں اور عیسائیوں کا لشکر نہیں نکلا تھا کہ عبداللہ بن معتم نے تکریت کو محاصرے میں لے لیا***
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ محاصرہ چالیس دن تک رہا شہر کے اندر جو رومی تھے وہ خالدبن ولید اور بعد میں ابوعبیدہ بن الجراح سے بری طرح پٹ کر بھاگے اور یہاں پہنچے تھے-
أن پر مسلمانوں کی دہشت کا طاری ہونا قدرتی امر تھا-انہیں توقع ہی نہیں تھی کہ یہ شہر محاصرے میں آ جائیگا .انہیں یہ بھی توقع نہیں تھی کہ مسلمانوں کی جاسوسی کا نظام اتنا تیز اور اتنا ہوشیار ہےکہ انہیں ان کے ارادوں کا قبل از وقت علم ہو جائیگا-
وہ خوش فہمی میں مبتلا رہے اور اس وجہ سے انہوں نے شہر میں نہ خوراک کا ذخیرہ کیا نہ پانی کا-نہ انہوں نے وہ انتظامات کیے جو محصور ہو کر ضروری سمجھے جاتے ہیں. .
مسلمانوں نے ان چالیس دنوں میں دروازے توڑنے اور رات کو کمندیں پھینک کر دیوار پر لگاتار چڑھنے کی کوششیں کیں_مسلمان اپنی ان کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن ان کوششوں کا شہر کے اندر ایک نفسیاتی اثر پڑا-
شہر کے لوگوں میں بددلی پیدا ہونے لگی-لوگوں پر خوف طاری ہونا ہی تھاکیونکہ ان تک نہ صرف یہ کہ شام سے رومیوں اور عراق سے فارسیوں کی پسپائی کی خبریں پہنچتی رہتی تھیں بلکہ شام سے بھاگے ہوئے رومی بھی انکے درمیان موجود تھے.
رومیوں نے کچھ اپنے آپ کو حوصلہ دینے کے لیے
اور کچھ لوگوں کا حوصلہ مضبوط کرنے کے لیے دوتین مرتبہ باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کیا لیکن ہر بار انہیں کئی لاشیں اور زخمی پیچھے چھوڑ کر بھاگنا پڑا_
عبداللہ بن معتم اور اس کے دو عیسائی جاسوسوں نے ایک معجزہ نما کارنامہ کر دکھایا .
وہ اس طرح تھا کہ عبداللہ بن معتم نے دو ہوشیار قسم کے عیسائیوں کو تیار کیا کہ اب اگر رومی باہر آ کر حملہ کریں تو یہ دونوں عیسائی آگے بڑھ کر اس طرح ان سے جا ملیں جیسے وہ ادھر سے بھاگ کر انکے پاس چلے گئے ہوں
یہ تو یورپی مؤرخوں اور مبصروں نے بھی لکھا ہے کہ اس دور کے عربوں میں ایک خصوصی ذہانت تھی جو کسی اور قوم میں کم ہی پائی جاتی تھی. .عبداللہ بن معتم نے اس ذہانت کو بروئے کار لا کر یہ اسکیم تیار کی تھی-
اس نے ان دونوں عیسائیوں کو یہ بتایا تھا کہ وہ شہر کے اندر جا کر یہ ظاہر کریں کہ وہ اپنے عیسائی بھائیوں کے پاس آ گئے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف لڑینگے لیکن انہیں اندر جاکر عیسائی قبائل کے سرداروں سے ملنا اور انہیں اپنے سالار عبداللہ بن معتم کا یہ پیغام دینا تھا
کہ وہ مسلمانوں کی مدد کریں اور رومیوں کے ساتھ رہتے ہوئے انکے خلاف ہو جائیں انہیں مال غنیمت سے وہی حصہ دیا جائیگا جو مسلمانوں کو دیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ شہر سے جتنی رومی قیدی ملینگے اور انکی جتنی عورتوں کو لونڈیوں اور کنیزوں کے طور پر پکڑا جائیگا وہ سبکی سب عیسائیوں کو دے دی جائیگی_
عبداللہ بن معتم نے ان دونوں عیسائی جاسوسوں کو جو پیغام دیا تھا، اس میں یہ بھی کہا تھا کہ ہم یہ شہر آخر لے ہی لینگے اگر ہماری یہ پیشکش قبول نہیں کی گئی تو کسی ایک بھی عیسائی سے کوئی مروت نہیں کی جائے گی اور سب کو غلام بنا کر مدینہ بھیج دیا جائے گا
***
اللہ کی مدد شاملِ حال ہو تو حالات خود ہی سازگار ہو جاتے ہیں _تین چار دنوں بعد رومیوں نے ایک بار پھر باہر آکر حملہ کیا؛؛ مجاہدین نے حملہ آوروں کو گھیرے میں لے نے اور عقب میں جا کر دروازے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن رومی اتنے محتاط تھے کہ زیادہ آگے آتے ہی نہیں تھے_
مجاہدین نے ان رومیوں کی حالت بگاڑ دی تھی اور وہ رومی بہت سی لاشیں اور زخمی باہر چھوڑ کر واپس چلے گئے.
دونوں جاسوس بھی انکے ساتھ شہر میں داخل ہو گئے
ان دونوں نے بنو تغلب، بنو ایاد، اور بنو نمر کے سرداروں سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور انہیں عبداللہ بن معتم کا پیغام دیا_یہ بڑے ہوشیار جاسوس تھے دوسروں کو اپنے زیرِ اثر کرنے کی مہارت رکھتے تھے.. انہوں نے سرداروں کو بتایا کہ مسلمانوں کے لشکر میں فارسیوں کے خلاف لڑ کر انہیں مسلمانوں نے اتنی دولت دی ہے جو ان کی آنے والی نسلوں کے لیے کافی ہوگی، ایسی بہت سی باتیں کرکے اور کچھ سبز باغ دکھا کر ان سرداروں کو رام کر لیا -
ایک تو ان جاسوسوں کا کمال تھا کہ سرداروں نے عبداللہ بن معتم کی پیشکش قبول کر لی دوسرے وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ رومی حوصلہ ہار بیٹھے ہیں اور نقصان بھی اٹھا رہے ہیں اور پھر شہر کے لوگ تھے جو اس قدر تنگ آ گئے تھے کہ انہوں نے رومیوں کو پریشان کرنا شروع کر دیا تھا -
یہ محاصرے کا چالیسواں دن تھا
ایک رات کسی عیسائی نے دیکھا کہ رومیوں نے دجلہ میں کشتیاں اکٹھی کرلی ہیں اور ان میں سامان لاد رہے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی بٹھا رہے ہیں - صاف پتہ چل گیا کہ وہ کشتیوں سے دریا پار کرینگے اور اسی طرح وہ چوری چھپے بھاگینگے..
دونوں عیسائی جاسوسوں کو پتہ چلا تو دریا کی طرف کھلنے والے دروازے سے دونوں نکل آئے_
انکے لئے نکل آ نا کوئی مشکل کام نہ تھا.. انہوں نے نکلنے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ اندر سے کچھ سامان اٹھا یا جو باہر جا کر ایک کشتی میں رکھا - وہاں تو ایک ہجوم تھا جو کشتیوں میں سامان لاد رہا تھا -
ان دونوں جاسوسوں نے کشتیوں میں سامان رکھا اور رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے نکل آئے_
اور اپنے سالار عبداللہ بن معتم کو اس صورت حال سے آگاہ کیا -
تم دونوں ایک بار پھر اندر چلے جاؤ عبداللہ بن معتم نے ان جاسوسوں سے کہا
اپنے عیسائی سرداروں سے کہو کہ وہ دروازوں پر قبضہ کر لیں اور دروازہ کھول دیں..
دونوں جاسوس پھر دریا کے کنارے چلے گئے
وہاں سے اندر جانا کوئی مشکل کام نہ تھا. عیسائی سردار خود بھی مسلمانوں کی مدد کرنے پر اتر آئے تھے
اور انہوں نے اپنے قبیلوں کوبھی تیار کر لیا تھا
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کی اندر کے عیسائیوں نے دروازہ کھول دیا
عبداللہ بن معتم نے یہ کیا اپنا آدھا لشکر ان دروازوں سے شہر میں داخل کیا
اور آدھے لشکر کو دریا کی طرف بھیج دیا
شہر میں ہڑبونگ افراتفری بپا ہو گئ
رومیوں کو پسپائی کا حکم مل چکا تھا اسلئے وہ دریا کی طرف کھلنے والے دروازے کی طرف بھاگنے لگے..
وہ مطمئن تھے کہ کشتیاں تیار ہیں جو انہیں دجلہ کے پار لے جائینگی -
وہ جب اس دروازے سے نکل رہے تھے تو انہیں معلوم نہ تھا
کہ وہ بڑی تیزی سے موت کے منھ میں جا رہے ہیں..
آگے مجاہدین تلوار اور برچھیاں
لیے ان کے انتظار میں تیار کھڑے تھے -
انہوں نے باہر نکلنے والے رومیوں کو کاٹنا اور برچھیوں سے چھلنی کرنا شروع کر دیا -
پیچھے سے ان عیسائیوں نے جو انکے اپنے ساتھی تھے، انہیں کاٹنا شروع کر دیا
رات بھر مسلمان اور عیسائی رومیوں کا قتل عام کرتے رہے
صبح ہوئی تو شہر کے اندر اور باہر رومیوں کی لاشوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا..
عیسائی سردار عبداللہ بن معتم سے ملے
خدا کی قسم؛؛_____عبداللہ بن معتم نے ان سرداروں سے کہا___میں تمہیں اس سے زیادہ دونگا جو میں نے وعدہ کیا تھا - -
ان کشتیوں میں جتنا مال و اسباب ہے سب اٹھا لو اور اپنے قبیلوں میں تقسیم کر دو
یہ خیال رکھنا کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو
شہر میں جتنے عورتیں بچے رہ گئے ہیں سب تمہارے ہیں لیکن میں تم سے اسلامی رسوم کی پابندی کرواؤنگا_وہ یہ ہے کہ کسی بھی عورت کے ساتھ زیادتی نہ ہو اور کوئی بچہ لاوارث محتاج نہ رہ جائے..
ان عورتوں کے ساتھ شادیاں کرو؛ اور انکے بچوں کو زندہ رہنے کا پورا حق دو
تین مورخوں نے لکھا ہے کہ جب عبداللہ بن معتم کے جاسوسوں نےعیسائ سرداروں سے بات کی تھی تو ان تمام عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا تھا..
کسی اور مستند مورخ نے یہ بات نہیں لکھی - یہ قابلِ یقین بھی نہیں لگتا کہ عیسائیوں نے اتنی جلدی اسلام قبول کر لیا تھا_عیسائت ایک ٹھوس مذہب کی حیثیت رکھتا تھا
اسکے پیروکاروں کو اجتماعی طور پر اسلام قبول کرنا قابل یقین نہیں لگتا..
بہرحال ایک خطرہ جو اس طرف سے تیار ہو رہا تھا وہ وہیں ختم ہو گیا...
****
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم کے پیچھے کہ فارسیوں کے تعاقب میں آگے نہ بڑھا جائے
ایک ایسی دانشمندی تھی جسکا سبکو بعد میں احساس ہوا - اگر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
فارسیوں کے تعاقب میں پہاڑوں میں چلے جاتے تو تکریت کے رومیوں نے جس طرح سے عیسائی قبائل کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا، اسی طرح عراق کے مفتوحہ علاقوں کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر عراق میں بغاوت پھیلا سکتے تھے..
اور پھر انہوں نے پہاڑی علاقوں میں پھنسے ہوئے سعد بن ابی وقاص کے لشکر پر عقب سے حملہ کر دینا تھا
اسکے فوراً بعد ایک اور خطرہ آگیا - یہ خطرہ قرقیسیا سے سر اٹھا رہا تھا
یہ شہر عراق اور شام کی سرحد پر دریائے فرات اور چھوٹے سے ایک دریا خابور کے سنگم پر واقع تھا -
اس کی اطلاع بھی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو قبل از وقت مل گئی -
انہوں نے اسی وقت تیز رفتار قاصد کو مدینہ بھیج کر امیرالمومنین کا حکم لیا کہ قرقیسیا پر حملہ کر دیا جائے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم بھیجا کہ عمرو بن مالک کی قیادت میں پانچ ہزار کا لشکر قرقیسیا بھیجا جائے..
عمرو بن مالک نے وہاں جا کر تھوڑی سی مزاحمت کے بعد فتح کر لیا
اور اسکے ساتھ ہی حارث بن یزید کو دو ڈھائی ہزار سوار دیکر ایک اور چھوٹے سے شہر کی طرف بھیج دیا
کیونکہ وہاں سے بھی اطلاع آئی تھی کہ دشمن حملے کی تیاری کر رہا ہے
پھر اطلاع آئی کی فارس کی فوجیں ایک اور شہر ماسبدان میں اکٹھی ہو رہی ہیں - وہاں ضرار بن خطاب کو بھیجا گیا - فارس کی فوج شہر سے باہر آ گئی - اور کھلے میدان میں بڑی خونریز لڑائی ہوئی
لیکن زیادہ تر خونریزی فارسیوں کی ہوئی -
فارسیوں کا جرنیل بھی مارا گیا، وہ ضرار بن خطاب کے ہاتھوں مارا گیا تھا _
عراق کی فتح کی تاریخ ایسی مختصر نہیں کہ اسے ایک ہی کتاب میں سمیٹا جا سکے -
یہ داستان جو پیش کی گئی ہے صرف ان سالاروں سے تعلق رکھتی ہے جنہوں نے عراق کے شمالی، مغربی اور مشرقی حصے فتح کئے تھے -
جنوبی علاقوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن غزوان کو بھیجا تھا - انکے ساتھ ایک اور سالار عرفہ بن ہرثمہ بارقی تھا-
یہ ابلہ کو روانہ ہوئے ابلہ ایک مشہور اور بڑی مصروف بندرگاہ تھی
خلیج فارس کےراستے وہاں چین اور ہندوستان کے تجارتی جہاز لنگر انداز ہوتے تھے -
شہر میں ہندوستانی تاجروں کی تعداد کافی زیادہ تھی
یہی وہ مقام ہے جہاں آج کل بصرہ آباد ہے..
تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فارسیوں نے یہاں فوج کچھ کم ہی رکھی تھی -
وہ زیادہ تر فوج کو قادسیہ کے علاقوں میں استعمال کر رہے تھے
عتبہ اور عرفہ نے ابلہ پر چڑھائی کی تو فارسی دفاع میں ڈٹ کر لڑے
لیکن وہاں چین اور ہندوستان کے تاجروں کی تعداد خاصی تھی -
انہوں نے شہر سے نکل جانے میں عافیت سمجھی - وہ شہر سے ہلکا پھلکا سامان لیکر نکلے،
دروازہ کھلنے کی دیر تھی کہ مسلمان لشکر شہر میں داخل ہو گیا
***
محمد حسنین ہیکل نے متعدد مورخوں کے حوالے دیکر لکھا ہے کہ عراق کے جنوبی حصے میں عتبہ نے جو فتح حاصل کی وہ ایسی دشوار نہ تھی جیسی قادسیہ اور مدائن کے علاقوں میں مثنی بن حارثہ سعد بن ابی وقاص اور دیگر سالاروں نے حاصل کی تھی -
وہ تو فتوحات کا ایک سلسلہ تھا جس میں مجاہدین نے بےدریغ قربانیاں دی، یہ تفصیلات بیان ہو چکی ہیں -
عتبہ بن غزوان نے ابلہ کا مشہور بڑا
اور امیر شہر لے لیا تو اسنے بھاگتی ہوئی فارسی فوج کا تعاقب کیا -
فارس کی فوج نے دریا پار کر لیا-
مجاہدین نے فارسیوں کو پل تباہ کرنے کی مہلت نہیں دی اور انکے تعاقب میں دریا پار کیا اور ان سے ایک بڑا قصبہ دست میسان لے لیا -
اس قصبے میں ایک فارسی سردار تھا - "اسکی ایک نوجوان بیٹی بہت ہی خوبصورت تھی
عتبہ نے اس لڑکی کو اپنے قبضے میں لے لیا -
حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ خبر سن کر پریشان ہو گئے - پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مدائن اور جلولہ سے مالِ غنیمت آیا تھا تو حضرت عمر رو پڑے تھے -
انہوں نے کہا تھا کہ میں ڈرتا ہوں کہ اتنی زیادہ دولت دیکر اللہ نے ہمیں بہت بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے
کہیں ایسا نہ ہو ہم دولت کے طلسمت میں گرفتار ہو کر صراط مستقیم سے بھٹک جائیں
اب انہیں ایسی رپورٹ ملی جس سے وہ ڈرتے تھے -
انہوں نے اسی وقت ایک تیز رفتار قاصد کو یہ حکم دیکر بھیجا کی عتبہ کو فوراً مدینہ بھیجو -
عتبہ بن غزوان کو جونہی حکم ملا وہ مدینہ کو روانہ ہو گیا -
کئ دنوں کی مسافت طے کر کے وہ مدینہ پہنچا اور سیدھا امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہوا
ابن غزوان______حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عتبہ سے پہلی بات یہ پوچھی اپنا قائم مقام کسے مقرر کر کے آئے ہو -
لشکر کے لئے مجاشع بن مسعود کو قائم سالار مقرر کیا ہے___عتبہ نے جواب دیا___اور نماز پڑھانے کے لئے مغیرہ بن شعبہ کو مقرر کیا ہے..
خدا کی قسم ابن غزوان____حضرت عمر نے سخت غضیلی آواز میں کہا___میں نے جو سنا وہ سچ سنا کہ فارسیوں کی چھوڑی ہوئی نعمتوں نے تمہارا دماغ تمہارے قبضے سے نکال دیا ہے..
کیا مجاشع بدو نہیں ہے؟ کیا کسی بدو میں اتنی عقل ہے کہ وہ مجاہدین کے لشکر کا امیر اور مفتوحہ شہروں کے شہریوں کا حاکم بن سکے؟...
مغیرہ نے مرغاب میں فارسیوں کو شکست دی تھی
لیکن امیرالمومنین - - - - - - عتبہ نے کہا___مجاشع کو میں فاتح فرات سمجھتا ہوں اسکے قبیلے نے فرات کے کنارے فارسیوں کو شکست دی ہے..
کیا تم نہیں سمجھ سکے___حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا___کوئی بدوی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی پر امیر نہیں مقرر ہو سکتا اور کسی بدوی میں اتنی دانشمندی اور اتنا تدبر ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ابلہ جیسے بڑے شہر کا امیر مقرر کر دیا جائے_
مغیرہ رضی اللہ عنہ نے مرغاب کے میدان میں فارسیوں کو جو شکست دی تھی وہ کوئی معمولی سی لڑائی نہیں تھی -
بڑا ہی خونریز معرکہ تھا - فارسیوں نے تو جیسے قسم کھا لی تھی کہ وہ یہ معرکہ جیت کر رہینگے -
مغیرہ اور انکے مجاہدین کو بڑی سخت مشکل کا سامنا تھا
قریب تھا کہ مجاہدین کے پاؤں اکھڑ جاتے - معرکہ ایسا گھماسان کا تھا کہ مجاہدین کی ترتیب بکھر گئی تھی
اچانک اللہ کی مدد آ گئی.. یہ مدد اس طرح آئی کہ پہلو کی طرف سے ایک لشکر گھوڑے سرپٹ دوڑاتے آ رہا تھا -
ان میں پیادے بھی تھے اور اس لشکر نے پرچم زیادہ تعداد میں اٹھا رکھے تھے -
ان میں زیادہ تر پرچم سبز رنگ کے تھے
اس لشکر کو دیکھ کر فارسی اس خطرے کے پیش نظر معرکے سے نکلنے لگے کہ مسلمانوں کی کمک آ رہی ہے - فارسیوں نے سنبھلنے کی کوشش کی تو مجاہدین نے زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کے انداز میں ان پر غالب آنا شروع کر دیا
کمک جو آئی تھی اس نے مجاہدین کا کام آ سان کر دیا -
فارسی بری طرح پسپا ہونے لگے اور آخر میں مرغاب کے میدان میں بےاندازہ لاشیں اور زخمی چھوڑ کر بھاگ گئے..
یہ کمک کوئی باقاعدہ مجاہدین کا لشکر نہیں تھا بلکہ یہ مجاہدین کی بیویاں؛ جوان بیٹیاں؛ بہنیں وغیرہ تھیں جو اس زمانے کے دستور کے مطابق لشکر کے ساتھ جایا کرتی تھیں.. اسلام کی بیٹیوں نے دیکھا کہ انکے مردوں کے قدم اکھڑ رہے ہیں اور فارسی غالب آتے جا رہے ہیں -
تو ان خواتین نے اپنے آنچلوں کے پرچم بنا لئے - "انکے پاس ہتھیار موجود تھے - فارسیوں کے گھوڑے بھی موجود تھے
سالار کا حکم لئے بغیر ان خواتین نے پہلو سے حملہ کردیا -
مغیرہ کی یہ فتح کوئی معمولی فتح نہیں تھی کچھ اس فتح کی وجہ سے اور زیادہ تر اس وجہ سے کہ مغیرہ صحابی تھے؛ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ہی امیر لشکر مقرر کر دیا -
عتبہ بن غزوان کو مدینہ میں کئ دن گزر گئے تھے..
حضرت عمر نے اس سے کہا کہ وہ اپنے محاذ پر واپس چلا جائے
عتبہ نے کچھ عزر اور کچھ بہانے پیش کر کے محاذ پر جانے سے معذوری کا اظہار کر دیا_
حضرت عمر سمجھ گئے کہ یہ کیوں واپس نہیں جانا چاہتا..
امیر لشکر مغیرہ ہی رہیگا________حضرت عمر نے اپنے مخصوص انداز میں عتبہ کو حکم دیا___تم آج ہی محاذ پر چلے جاؤ
مجھے یقین ہے کہ تم اپنے امیرالمومنین کی حکم عدولی نہیں کروگے..
عتبہ نے حکم عدولی کی جرآت نہیں کی اور اسی روز روانہ ہو گیا لیکن عراق کے محاذ تک نہ پہنچ سکا
کیونکہ بطن نخلہ کے مقام پر کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا_
کہ جانبر نہ ہو سکا
*****
یہاں ہم کچھ اور اہم باتیں بتانا ضروری سمجھتے ہیں
مجاہدین کو عراق میں مہینوں نہیں سال گزر گئے ایک روز جلولا تکریت، حلوان اور موصل سے تین چار مجاہد مدینہ آئے اور حضرت عمر سے ملے_
خدا کی قسم____حضرت عمر نے انہیں دیکھ کر کہا. تمہاری صورتیں بدلی بدلی سی لگتی ہیں
قادسیہ اور مدائن سے کچھ اور لوگ بھی آئے تھے میں نے انکے چہروں پر بھی یہی تبدیلی دیکھی ہے-
کیا ہو گیا ہے تمہیں
یہ وہاں کی آب و ہوا کا اثر ہے امیرالمومنین حضرت عمر کو جواب ملا
ہاں مجھے یاد آیا_____حضرت عمر نے کہا حذیفہ بن یمان نے مجھے یک بار مدائن سے لکھا تھا کہ یہاں عربوں کے پیٹ پچک گئے ہیں
اور جسم سوکھتے چلے جا رہے ہیں اور چہروں کی رنگتیں بھی پھیکی
پڑ گئی ہیں میں نے ایک بار سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا میرا خیال ہے حذیفہ نے سعد کے کہنے پر خط لکھا تھا... میں اس کا کچھ انتظام کرتا ہوں..
عراق دریاؤں ندیوں اور ہرے بھرے جنگلات اور سبزپوش پہاڑیوں کا خوبصورت خطہ تھا..
ظاہر ہے اس خطے میں نمی زیادہ تھی جو عربوں کو راس نہیں آ سکتی تھی -
کیونکہ عرب کے لوگ صحرا کی خشک فضاؤں میں رہنے والے تھے..
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجاہدین کی صحت کے متعلق خاصی تشویش کا اظہار کیا اور سعد بن ابی وقاص کو ایک طویل خط لکھا
جسکے الفاظ یہ تھے
عربوں کو وہی آب و ہوا راس آئیگی جو انکے اونٹوں کو راس آتی ہے کوئی ایسا خطہ تلاش کرو جس میں خشکی اور تری ایک جیسی ہو
..
یہ بھی خیال رکھو میرے اور اس خطّے کے درمیان کوئی پل اور کوئی دریا حائل نہ ہو..
حضرت عمر نے اس پیغام میں پوری وضاحت کی تھی کہ ایسی جگہ تلاش کرو جو صحرا کی طرح خشک ہو لیکن اس میں صاف ستھرے پانی کی نہریں اور چشمے بھی ہوں. حضرت عمر کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ جو خطّہ تلاش کیا جائے اس کے راستے میں سمندر یا دریا حائل نہ ہو.. تاکہ کوئی مدد یا کمک بھیجنے کی ضرورت پڑے تو رکاوٹ نہ ہو.
سعد بن ابی وقاص نے موصل سے عبداللہ بن معتم اور جلولا سے قنتاع بن عمرو کو بلا کر حضرت عمر کا پیغام سنایا اور انہیں کہا کہ وہ مقام تلاش کریں.. ان دونوں سالاروں نے اسی وقت فیصلہ دے دیا کی کوفہ ایک ایسا مقام ہے جو فرات کے قریب ہونے کی وجہ سے سرسبز اور شاداب بھی ہے اور صحرا بھی اتنا قریب ہے جو اس علاقے کی نمی کو زیادہ بڑھنے نہیں دیتا کہ عربوں پر برا اثر پڑے..
دوسرے سالاروں نے بھی اس تجویز کی تائید کر دی اور سعد بن ابی وقاص اسی وقت کوفہ کو روانہ ہو گئے_
وہاں انہوں نے ایک بلند جگہ منتخب کی اور حکم دیا کہ یہاں مسجد کی تعمیر شروع کر دی جائے..
عربوں کا اپنا ایک انداز ہوا کرتا تھا..
ایک تیر انداز کو مسجد کی جگہ کھڑا کر کے کہا گیا کہ وہ چاروں طرف ایک ایک تیر پھینکے.. تیر انداز نے کمان میں تیر ڈال کر چاروں طرف ایک ایک تیر چھوڑا..
سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ جہاں جہاں تک تیر پہنچے ہیں اس تمام جگہ کو بازار اور آبادی بنا دی جائے..
****
مسجد تعمیر ہوئی. اس کی چھت کے نیچے جو ستون رکھے گئے وہ کسری کے محل سے لائے گئے تھے اور مسجد کی تعمیر ایک فارسی معمار نے کی تھی.. یہ معمار اس خاندان سے تعلق رکھتا تھا جس خاندان نے کسر١ی کے محل تعمیر کئے تھے..
اس معمار نے مسجد کے قریب ایک بڑا ہی خوبصورت مکان تعمیر کیا جس میں بیت المال کی تعمیر بھی شامل تھی.. اس عمارت کا نام قصر سعد رکھا گیا
مجاہدین کے لشکر کو اجازت دی گئی کہ وہ اس علاقے میں اپنے اپنے مکان تعمیر کر لیں
لیکن اس سے پہلے سعد بن ابی وقاص نے حضرت عمر کو لکھا کہ انہوں نے حیرہ اور فرات کے درمیان کوفہ کو منتخب کر لیا ہے جہاں خشکی نمی برابر ہیں اور مجاہدین سے کہدیا گیا ہے کہ وہ یہاں آکر آباد ہو جائیں -
حضرت عمر نے اس پیغام کا جواب یہ دیا کہ لشکر کا مرکز اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ لشکر کی حفاظت کر سکے -
اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ خیموں کے بجائے بانسوں کے مکان بنائے جائیں..
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد دراصل یہ تھا کہ عرب کے لوگ بلند بالا اور خوبصورت مکانوں میں رہنے لگے تو انکے دماغ اسی طرح خراب ہو جائیں گے جس طرح دولت خراب کیا کرتی ہے..
وقت گزرتا چلا گیا.. اس علاقے میں بانسوں کی کمی نہیں تھی مجاہدین نے اس علاقے کے کاریگروں کی خدمات حاصل کر کے بانسوں کے مکان بنا لئے یہ سب مکان ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے کسی بھی تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ وجہ کیا ہوئ یا عربی لوگ اس قسم کے مکانوں میں رہنے کے عادی نہیں تھے
اور کسی سے کوئی بےاحتیاطی ہو گئی
ہوا یوں کہ اچانک ایک مکان میں آگ بھڑک اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے بانسوں کی یہ بستی جل کر راکھ ہو گئی..
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ لوگ اینٹ اور پتھروں سے مکان بنا لیں
وہاں اینٹ اور پتھروں کے مکان بنانے کی اجازت دے دو.....حضرت عمر نے پیغام کا جواب دیا.... لیکن سختی سے حکم جاری کر دو کہ کوئی شخص تین کمروں سے زیادہ مکان نہ بنائے اور دیواریں اونچی نہ ہوں.. تم سنت کے پیچھے چلو دولت تمہارے پیچھے چلےگی
....
مجاہدین نے اینٹوں اور پتھروں کے مکان تعمیر کروانے شروع کر دئے
تاریخوں میں لکھا ہے کہ چند ہی برسوں میں
یہ بستی اتنی خوبصورت ہو گئ کہ کوفہ کو دارالخلافہ بنا دیا گیا..
سعد بن ابی وقاص مدائن سے کوفہ منتقل ہو گئے اور نئے مکان میں رہنے لگے. انہوں نے خود ہی اس جگہ کے ارد گرد بازار بنوائے تھے جہاں تاجروں کی آمدورفت شروع ہو گئی شورغل اتنا ہوتا تھا کہ سعد پریشان ہو گئے انہوں نے معمار کو بلوا کر کہا کہ مجھے اس شور وغل اور ہنگامے سے نجات دلاؤ..
میں اس شور وغل کو بند نہیں کر سکتا اس شور و غل کے لیے میرے دروازے بند کر دو..
. معمار نے اس مکان میں کچھ ایسے اضافے کئے کہ وہ چھوٹا سا محل بن گیا اس کے معمار نے ایک مضبوط اور نہایت خوبصورت دروازہ لگا دیا
جو بند ہوتا تھا تو زرا بھی شور غل اندر نہیں آتا تھا..
ایک بار وہاں سے کوئی شخص مدینہ آیا اور امیرالمومنین سے ملا.. کوفہ کے متعلق بات چلی
تو اس شخص نے امیرالمومنین کو بتایا کہ امیر لشکر سعد بن ابی وقاص نے محل جیسا مکان تعمیر کروایا ہے
اور اسکے سامنے محل جیسا دروازہ لگوایا ہے
حضرت عمر نے یہ بات سنی تو ایک صحابی محمد بن مسلمہ کو بلایا
ابن مسلمہ____حضرت عمر نے انہیں کہا__ابھی کوفہ روانہ ہو جاؤ
سعد کے مکان کے دروازے کو بغیر پوچھے آگ لگا دینا اور پھر یہ خط اسے دے دینا اور وہیں سے واپس چلے آنا..
محمد بن مسلمہ اسی وقت روانہ ہو گئے
لمبی مسافت کے بعد کوفہ پہنچے.. سعد بن ابی وقاص کو اطلاع ملی تو انہوں نے انہیں بلایا.. وہ سعد کے گھر گئے لیکن اندر نہیں گئے.. سعد بن ابی وقاص باہر آئے اور ان سے کہا پہلے اندر چل کر کھانا کھا لیں
محمد بن مسلمہ نے انکار کر دیا اور دروازے پر تیل پھینک کر آگ لگا دی
سعد بن ابی وقاص اس خیال سے چپ رہے کہ یہ کوئی حکم ہے جسکی تعمیل ہو رہی ہے ابن مسلمہ نے حضرت عمر کا خط سعد کو دیا - انہوں نے خط پڑھا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا
مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے اپنے لئے محل تعمیر کروایا ہے اور تم نے اس کا نام قصر سعد رکھا ہے میں سمجھ سکتا ہوں کہ تمہارے دروازے پر ان لوگوں کے لیے رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے جو تم تک پہنچنا چاہتے ہیں.. یہ تمہارا محل نہیں، یہ تمہاری اور امت کی ہلاکت کا محل ہے. اس میں تم نے بیت المال تعمیر کروا کے اسے اپنے محل کا ایک حصہ بنا ڈالا ہے.
بیت المال پر پہرہ کھڑا کیا جاتا ہے
اس پہرے کی وجہ سے تمہارے محل میں بھی کوئی بھی داخل نہیں ہو سکتا.. بیت المال کو فوراً وہاں سے ہٹا دو تاکہ کوئی تم تک پہنچنا چاہے تو اسکے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہو..
دروازہ جل رہا تھا سعد بن ابی وقاص نے حضرت عمر کا حکم نامہ پڑھ کر مسلمہ کو بتایا کہ انہوں نے یہ دروازہ کیوں لگوایا تھا
انہوں نے کہا کہ میں اس ملک کا امیر ہوں اور امیر لشکر بھی ہوں..
مجھے اطمینان اور سکون چاہیے کہ میں صحیح فیصلہ کر سکوں اور لوگوں کی بھلائی کے لیے سوچ سکوں..
مسلمہ واپس اور عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ وہ حکم کی تعمیل کر آئے ہیں
اسکے ساتھ ہی انہوں نے سعد کا عذر بھی پیش کیا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عظمت ملاحظہ ہو.. انہوں نے جو حکم دیا تھا وہ بالکل صحیح تھا..
انہوں نے محمد بن مسلمہ سے کہا انہیں یہ عذر قبول کر لینا چاہئے تھا..
اندھا دھند حاکم کے حکم کی تعمیل نہیں کرنی چاہیے
حضرت عمر نے کہا اگر تم اپنی آنکھوں سے کوئی اور صورت حال دیکھی تھی اور اس کی صحیح وجہ تمہیں معلوم ہو گئی تھی تو تم میں اتنی سوجھ اور جرآت ہونی چاہئے تھی کہ میرے حکم کی تعمیل نہ کرتے
حضرت عمر نے اسی وقت سعد بن ابی وقاص کو پیغام بھیجا کہ انہوں نے جو عذر پیش کیا ہے وہ قبول کیا جاتا ہے وہ اپنے مکان کو پہلے جیسا رہنے دیں
یہ تھا مسلمانوں کا کردار جس نے انہیں عراق اور شام سے رومیوں اور فارسیوں کا صفایا کرنے کی طاقت دی اور انہوں نے وہاں ایسی حکومت قائم کی کہ وہاں کے لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرتے گئے ۔اختتام
دعاوں میں یاد رکھیں اپنا اور اپنے اردگرد سب کا خیال رکھیں
❤️
🌸
🥳
7