لَبَّیْک اَلجِہَاد
لَبَّیْک اَلجِہَاد
February 6, 2025 at 03:10 PM
داستان مجاہد قسط نمبر 1 صابره سورج کئی بار مشرق سے نکل کر مغرب سے غروب ہوا۔ چاند نے اپنے مہینے بھر کا سفر ہزاروں بار طے کیا۔ ستارے لاکھوں بار رات کی تاریکی میں چھکے اور صبح کی روشنی میں غائب ہو گئے ۔ ابنِ آدم کے باغ میں کئی بار بہار اور خزاں نے اپنا اپنا رنگ جمایا۔ جنت سے نکالے ہوئے انسان کی نئی بستی ایک ایسی رزم گاہ تھی جس میں درت کے مختلف عناصر ہمیشہ برسر پیکار رہے۔ طرح طرح کے انقلابات آئے ۔ تبریب و تمدن نے کئی چولے بدلے۔ ہزاروں تو میں قعر مذلت سے انھیں اور آندھی اور بگولہ بن کر ساری دنیا پر چھا گئیں لیکن قانون فطرت میں مال اور زوال کا رشتہ ایسا مضبوط ہے کہ کسی کو بھی ثبات نہیں ۔ وہ قو میں جو تلواروں کے سائے میں فتح کے نقارے بجاتی ہوئی انھیں، طاؤس اور رباب کی تانوں میں مدہوش ہو کر سو گئیں ۔ کوئی اس نیلگوں آسمان سے پوچھے جس کے وسیع سینے پر گورے ہوئے زمانے کی ہزاروں داستانیں نقش ہیں۔ جس نے قوموں کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔ جن نے بڑے بڑے جابر بادشاہوں کو تاج و تخت سے محروم ہو کر گداؤں کا لباس پہنتے اور گداؤں کو اپنے سر پر تاج رکھتے دیکھا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان داستانوں کے بار بار دہرائے جانے سے کچھ بے نیاز ہو گیا ہو لیکن ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ صحرا نشینان عرب کی ترقی اور تنزل کی طویل داستان جو ربع مسکوں کی تمام داستانوں سے مختلف ہے، اسے ابھی تک یاد ہو گی ۔ اگر چہ اس داستان کا کوئی حصہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں لیکن اس وقت ہمارے سامنے اس کا وہ رنگین باب ہے جب کہ مغرب و مشرق کی وادیاں ، پہاڑ اور صحرا مسلمانوں کے سمند اقبال کے قدم چوم رہے تھے اور ان کی خارا شگاف تلواروں کے سامنے ایران اور روما کے سلطان عاجز آچکے تھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جن کہ ترکستان اندلس اور ہندوستان کی سرزمین مسلمانوں کو قوت تسخیر کے امتحان کی دعوت دے رہی تھی۔ بصرہ سیکوئی پیش میل کے فاصلے پر سرسبز و شاداب نخلستان کے درمیان ایک چھوٹی سے بہتی تھی، جس کے ایک سیدھے سادے مکان کے حسن میں صابرہ ، ایک ادھیڑ ر عمر کی عورت عصر کی نماز پڑھ رہی تھی ۔ دوسری طرح تین بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ دولڑکے اور ایک لڑکی لڑکوں نے ہاتھوں میں لکڑی کی دو چھوٹی چھوٹی چھڑیاں پکڑی ہوئی تھیں۔ لڑکی غور سے ان کے حرکات کا معائنہ کر رہی تھی۔ بڑے لڑکھے نے چھڑی گھماتے ہوئے چھوٹے کی طرف دیکھا اور کہا: دیکھو نیم امیری تلوار ! چھوٹے لڑکے نے بھی اپنی چھڑی گھمائی اور کہا: میرے پاس بھی تلوار ہے ۔ آؤ ہم جنگ کریں ۔ د تم رو پڑو گے! بڑے لڑکے نے کہا۔ نہیں۔ تم رو پڑو گے ! چھوٹے لڑکے نے جواب دیا۔ تو پھر آؤ! بڑے نے تن کر کہا۔ معصوم بچے ایک دوسرے پر وار کرنے لگے اور لڑ کی قدرے پریشان ہو کر یہ تماشہ دیکھنے لگی ۔ اس لڑکی کا نام عذرا تھا۔ چھوٹیلو کے کا نام نعیم اور بڑے کا نام عبداللہ تھا۔ عبداللہ نعیم سے تین سال بڑا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی لیکن نعیم کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ واقعی میدان کارزار میں کھڑا ہے۔ نعیم وار کرتا اور عبداللہ متانت سے روکتا۔ اچانک نعیم کی چھڑی اس کے بازو پر لگی ۔ عبداللہ نے قدرے غصے میں آکر وار کیا۔ اب نعیم کی کلائی پر چوٹ لگی اور اس کے ہاتھ سے چھڑی گر پڑی ۔ عبد اللہ نے کہا۔ دیکھو اب رونا مت ! میں نہیں تم رو پڑو گے ! نعیم نے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے جواب دیا اور زمین سے ایک ڈھیلا اُٹھا کر عبد اللہ کے ماتھے پر دے مارا ۔ اس کے بعد اس نے اپنیچھڑی اٹھالی اور گھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ عبداللہ بھی سر سہلا تا ہوا اس کے پیچھے بھا گا لیکن اتنی دیر میں نعیم صابرہ کی گود میں چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ امی ! بھائی مارتا ہے ۔ اس نے کہا عبد اللہ غصے سے ہونٹ کاٹ رہا تھا۔ لیکن ماں کو دیکھ کر خاموش ہو گیا۔ ماں نے پوچھا ۔ عبداللہ ! کیا بات ہے؟ اس نے جواب دیا ۔ امی ! اس نے مجھے پتھر مارا ہے۔ تم لڑے کیوں تھے بیٹا ؟ صابرہ نے نعیم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔ ہم تلواروں سے جنگ کر رہے تھے ۔ اس نے میرا ہاتھ تو ڑ دیا۔ پھر میں نے بھی بدلہ لیا۔ تلواروں سے؟ تلواریں تم کہاں سے لائے؟ یہ دیکھو امی ! نعیم نے اپنی چھڑی دکھاتے ہوئے کہا ۔ یہ لکڑی کی ہے لیکن مجھے لو ہے کہ تلوار چاہیے ۔ لے دونا ، میں جہاد پر جاؤں گا ! کم سن بیٹے کے منہ سے جہاد کا لفظ سننے کی خوشی وہی مائیں جان سکتی ہیں جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو لوری دیتے وقت یہ گایا کرتی تھے اے رب کعبہ میرا یہ لال مجاہد بنے اور تیرے محبوب کے لگاتے ہوئے درخت کو جوانی کے خون سے سیراب کرے نعیم کی زبان سے تلوار اور جہاد کے الفاظ سن کر صابرہ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور اس کی رگ وریشہ میں مسرت کی لہریں دوڑنے لگیں ۔ اس نے فرط انبساط سے آنکھیں بندک لیں ۔ وہ ماضی اور حال کو فراموش کر چکی تھی اور تصویر میں اپنے بیٹوں کونو جوان مجاہدوں کے لباس میں خوبصورت گھوڑوں پر سوار میدانِ جنگ میں دیکھ رہی تھی۔ وہ یہ دیکھ رہی تھی کہ اس کے لال دشمن کی صفوں کو چیرتے اور روندتے ہوئے جارہے ہیں اور دشمن کے گھوڑے اور ہاتھی ان کے بے پناہ حملوں کی تاب نہ لا کر آگے آگے بھاگ رہے ہیں۔ اس کے نوجوان بیٹے ان کے تعاقب میں ٹھانھیں مارتے ہوئے دریاؤں میں گھوڑے ڈال رہے ہیں۔ وہ دشمن کے نرے میں کئی بار اُٹھ اُٹھ کر گرتے ہیں اور بالآخر زخموں سے نڈھال ہو کر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے خاموش ہو جاتے ہیں ۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ جنت کی حوریں ان کے لیے شراب طہور کے جام لیے کھڑی ہیں ۔ صابرہ نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور سجدے میں سر رکھ کر دنا مانگی۔ اے زمین و آسمان کے مالک! جب مجاہدوں کی مائیں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں تو کسی سے پیچھے نہ رہوں گی ۔ ان بچوں کو اس قابل بنا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی روایات کو قائم رکھ سکیں ۔“ دنیا کے بعد صابرہ انھی اور بچوں کو گلے لگالیا۔ انسانی زندگی کی ہزاروں واقعات ایسے ہیں جو عقل کی محدود چار دیواری سے گزر کر مملکت دل کی لامحد و دو سعتوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ہم دنیا کے ہر واقعہ کو نقل کی کسوٹی پر پرکھیں تو ہمارے لیے بعض اوقات نہایت معمولی باتیں بھی طلسم بن کر رہ جاتی ہیں ۔ ہم دوسروں کے احساسات و جذبات کا اندازہ اپنے احساسات و جذبات سے کرتے ہیں ۔ اس لیے ان کی وہ حرکات جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں ہمارے لیے ایک معما بن جاتی ہیں۔ آج کل کی ماؤں کو قرون اولی کی ایک بہادر ماں کی تمنائیں اور دُعائیں کس قدر عجیب معلوم ہوں گی۔ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو آگ اور خون میں کھیلتے ہوئے دیکھنے کی آرزو انہیں کسی قدر بھیا تک نظر آتی ہو گی اپنے بچوں کو بلی کا خوف دلا کر سلا نے والی مائیں ان کے متعلق شیروں کے مقابلے میں کھڑے ہونے کا خواب کب دیکھتی ہوں گی !۔ ہمارے کالجوں، ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میں پلے ہوئے نوجوانوں کا علم اور عقل پہاڑوں کی بلندی اور سمندروں کی گہرائی کو خاطر میں نہ لانے والے مجاہدوں کے دلوں کا راز کیسے جان سکتی ہے۔ رباب کے تاروں کی جنبش کے ساتھ لرز جانے والے نازک مزاج انسانوں کو تیر اور نیزوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے والے جواں مردوں کی داستانیں کس قدر حیرت زا معلوم ہوں گی۔ اپنے گھونسلے کے اردگرد چکر لگانے والی چیز یا عقاب کے انداز پرواز کس طرح واقف ہو سکتی ہے!
❤️ 🤍 🥳 5

Comments