لَبَّیْک اَلجِہَاد
لَبَّیْک اَلجِہَاد
February 7, 2025 at 04:51 PM
داستان مجاہد قسط نمبر 2 صابرہ کا بچپن اور جوانی زندگی کے ناہموار ترین راستوں سے گزر چکے گے۔ اس کے رگ و ریشہ میں عرب کے ان شہواروں کا خون تھا جو کفر و اسلام کی ابتدائی جنگوں میں اپنی تلواروں کے جوہر دکھا چکے تھے ۔ ان کا دادا جنگ یرموک سے غازی بن کر لوٹا اور قادسیہ میں شہید ہوا ۔ وہ بچپن ہی سے نازی اور شہید کے الفاظ سے آشنا تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب وہ پانی تو تلی زبان سے ابتدائی حروف ادا کرنے کی کوشش کیا کرتی تو اس کی ماں کا سکھلایا ہوا پہا انقرہ ابا غازی اور چند دنوں کے بعد کا سبق ابا شہید تھا۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے کے بعد اس کی جوانی اور بڑھاپے سے ہر وہ توقع کی جاسکتی تھی جو ایک مسلمان فرض شناس عورت سے وابستہ کی جاسکتی ہے۔ وہ بچپن میں عرب عورتوں کی شجاعت کے افسانے سنا کرتی تھی۔ میں سال کی معمر میں اس کی شادی عبدالرحمن کے ساتھ ہوئی ۔ نوجوان شو ہر ایک مجاہد کی تمام خوبیوں سے آراستہ تھا اور وفا شعار بیوی کی محبت اسے گھر کی چار دیواری میں بند کر دینے کی بجائے ہمیشہ جہاد کے لیے اُبھارتی رہی۔ عبدالرحمن جب آخری مرتبہ جہاد پر روانہ ہوا تو اس وقت عبداللہ کی عمر تین سال اور نعیم کی عمر تین مہینے سے کچھ کم تھی ۔ عبدالرحمن نے عبداللہ کو اُٹھا کر گلے لگا لیا اور نعیم کو صابرہ کی گود سے لے کر پیار کیا ۔ چہرے پر قدرے ملال کے آثار پیدا ہوئے لیکن فوراً ہی مسکرانے کی کوشش کی ۔ رفیق حیات کو میدانِ جنگ کی طرف رخصت ہوتا دیکھ کر صابرہ کے دل میں تھوڑی دیر کے لیے طوفان سا اند آیا لیکن اس نے اپنی آنکوں میں چھلکتے ہوئے آنسوؤں کو بہنے کی اجازت نہ دی۔ عبد الرحمن نے کہا ۔ صابر !! مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر میں جنگ سے واپس نہ آیا تو میرے بیٹے میری تلوروں کو زنگ آلو دنہ ہونے دیں گے! آپ تسلی رکھیں۔ صابرہ نے جواب دیا۔ میرے لال کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے ۔ عبد الرحمن نے خدا حافظ کہہ کر گھوڑے کی رکاب میں پاؤں رکھا۔ صابرہ نے اس کے رخصت ہونے کے بعد سجدے میں سر رکھ کر دعا کی: اے زمین و آسماں کے مالک! اسے ثابت قدم رکھنا ! جب شوہر اور بیوی صورت اور سیرت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے قابل رشک ہوں تو محبت کے جذبات کا مال کی حد تک پہنچ جانا کوئی نئی بات نہیں بیشک صابرہ اور عبد الرحمن کا تعلق جسم اور روح کا تعلق تھا اور رخصت کے وقت لطیف جذبات کو اس طرح دبا لینا کسی حد تک عجیب معلوم ہتا ہے۔ لیکن وہ کونسا عظیم الشان مقصد تھا جس کے لیے یہ لوگ دنیا کی تمام خواہشات اور تمناؤں کو قربان کر دیتے تھے؟ وہ کونسا مقصد تھا جس نے تین سو تیرہ کو ایک ہزار کے مقابلہ میں لاکھڑا کیا تھا؟ وہ کونسان جذبہ تھا جس نے مجاہودوں کو دریاؤں اور سمندروں میں گودنے ، پیتے ہوئے وسیع محروؤں کو عبور کرنے اور فلک بوس پہاڑوں کو روندنے کی قوت عطا کی تھی؟ ان سوالات کا جواب ایک مجاہد ہی دے سکتا ہے ۔ عبدالرحمن کو رخصت ہوئے سات مہینے گزر چکے تھے۔ اس بستی کے چار اور آدمی بھی اس کی ہمراہ گئے تھے۔ ایک دن عبد الرحمن کا ایک ساتھی واپس آیا اور اونٹ سے اترتے ہی صابرہ کے گھر کی طرف بڑھا۔ اس کے آتے ہی بہت سے لوگ اس کی اردگر دا کٹھے ہو گئے۔ کسی نے عبدالرحمن کے متعلق پوچھا۔ نووارد نے کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ صابرہ کے مکان میں داخل ہو گیا ۔ صابرہ نماز کے لیے وضو کر رہی تھی۔ اسے دیکھ کر اُٹھی۔ نو وارد آگے بڑھا اور چند قدم کے فاصلے پر کھڑا ہو گیا ۔ صابرہ نے دھڑکتے ہوئے دل پر قابو پا کر پوچھا: وہ نہیں آئے ؟ وہ شہید ہو گئے ۔ شہید اضبط کے باوجود صابرہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چند قطرے بہہ نکلے۔ نو وارد نے کہا۔ اپنے آخری لمحات میں جب وہ زخموں سے چور تھے ۔ انہوں نے یہ خط مجھے اپنے خون سے لکھ کر دیا تھا۔ صابرہ نے اپنے شوہر کا آخری خط کھول کر پڑھا: صابرہ! رہ میری آرزو پوری ہوئی۔ اس وقت جب کہ میں زندگی کے آخری سانس پورے کر رہا ہوں۔ میرے کانوں میں ایک عجیب راگ گونج رہا ہے ۔ میری روح جسم کی قید سے آزاد ہو کر اس راگ کی گہرائیوں میں کھو جانے کے لیے پھڑ پھڑا رہی ہے۔ میں زخموں سے چور ہونے کے باوجود ایک فرحت کی محسوس کرتا ہوں میری روح ایک ابدی سرور کے سمندر میں غوطے کھا رہی ہے۔ میں اس بستی کو چھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں جا رہا ہوں جس کا ہر ذرہ اس دُنیا کی تمام رنگینیاں اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے۔ میری موت پر آنسو نہ بہانا۔ میں اپنے مقصود کو پاچکا ہوں ۔ یہ خیال نہ کرنا کہ میں تم سے دُور جا رہا ہوں ۔ ہم کسی دن ایسے مقام پر اکھٹے ہوں گے جو دائمی سرور کا مرکز ہے، جہاں کی صبح شام سے اور بہار خزاں سے آشنا نہیں۔ یہ مقام اگر چہ چاند اور ستاروں سے کہیں بلند ہے ۔ مگر مرد مجاہد وہاں ایک ہی جنت میں پہنچ سکتا ہے ۔ عبد اللہ اور نعیم کو اس مقام پر پہنچ جانے کا راستہ دکھانا تمہارا فرض ہے! میں تمہیں بہت کچھ لکھتا مگر میری روح جسم کی قید سے آزاد ہونے کے لیے بے قرار ہے۔ میں آقائے نامدار کے پاؤں چومنے کے لیے بے تاب ہوں۔ میں تمہیں اپنی تلوار بھیج رہا ہوں ۔ بچوں کو اس کی قدر و قیمت بتانا ۔ جس طرح میرے لیے تم ایک فرض شناس بیوی تھیں۔ میرے بچوں کے لیے ایک فرض شناس ماں بنا ۔ مامتا کو اپنے ارادوں میں حائل نہ ہونے دینا۔ انہیں یہ بتانا کہ مجاہد کی موت کے سامنے دنیا کی زندگی بے حقیقت اور بیچ ہے۔ (تمہارا شوہر )
❤️ 👍 🤍 5

Comments