لَبَّیْک اَلجِہَاد
لَبَّیْک اَلجِہَاد
February 17, 2025 at 04:05 PM
داستان مجاہد قسط نمبر 4 *بچپن* بستی کے نخلستانوں میں سے ایک بدی گزرتی تھی۔ بستی والوں نے مویشیوں کے لیے اس ندی کے کنارے ایک تالاب کھو د رکھا تھا جو ندی کے پانی سے ہر وقت بھرا رہتا تھا۔ تالاب کے ارد گرد کھجوروں کے درخت ایک دلفریب منظر پیش کرتے تھے۔ بہتی کے بچے اکثر اوقات اس جگہ آکر کھیلا کرتے تھے ۔ ایک دن عبد اللہ ، نعیم اور عذ را بستی کے دوسرے بچوں کے ساتھ اس جگہ کھیل رہے تھے۔ عبداللہ نے اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ تالاب میں نہانا شروع کیا۔ نعیم اور عذرا تالاب کے کنارے کھڑے بڑے لڑکوں کو پانی میں تیرتے ، اچھلتے اور کودتے دیکھ کو خوش ہو رہے تھے۔ نعیم کو کسی بات میں بھی اپنے بھائی سے پیچھے رہنا گوارا نہ تھا۔ ابھی اس نے تیرتا نہیں سیکھا تھا لیکن عبداللہ کو تیرتے ہوئے دیکھ کر ضبط نہ کر سکا۔ اس نے عذرا کی طرف دیکھا اور کہا ۔ آؤ عذرا ہم بھی نہائیں ۔! عذرا نے جواب دیا۔ امی جان خفا ہوں گی۔ عبداللہ ۔ للہ سے کیوں خفا نہیں ہوں گی ۔ ہم سے کیوں ہوں گی۔ وہ بڑا ہے۔ اسے تیرنا آتا ہے ۔ اس لیے امی جان خفا نہیں ہوتیں ۔ ہم گہرے پانی میں نہیں جائیں گے ۔ چلو ! اوں ہوں۔ عذرا نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ تم ڈرتی ہو ؟ نہیں تو۔ چلو پھر ! جس طرح نعیم ہر بات میں عبد اللہ کی تقلید کرنے بلکہ اس سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ اس طرح عذرا بھی نعیم کے سامنے اپنی کمزوری کا اعتراف کرنا گوارا نہ کرتی۔ نعیم نے ہاتھ بڑھایا اور عذرا اس کا ہاتھ پکڑ کر پانی میں کود گئی۔ کنارے پر پانی زیادہ گہرا نہ تھا لیکن وہ آہستہ آہستہ گہرے پانی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عبداللہ اور دوسرے بچے مقابل کے کنارے کھجور کے ایک خم دار درخت پر چڑھ کر باری باری پانی ان کی گردنوں کے برابر آیا ہوا تھا اور دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ بدستور پکڑا ہوا تھا۔ عبداللہ نے گھبرا کر چلا نا شروع کیا لیکن اس کی آواز پہنچنے سے پہلے عذرا اور نعیم گہرے پانی میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ۔ عبداللہ تیزی سے تیرتا ہوا ان کی طرف بڑھا۔ اس کے پہنچنے سے پہلے نعیم کا پاؤں زمین پر لگ چکا تھا لیکن عذرا ڈبکیاں کھا رہی تھی ۔ عبداللہ نعیم کو محفوظ دیکھ کر عذرا کی طرف بڑھا۔ عذرا ابھی تک ہاتھ پاؤں مار رہی تھی ۔ وہ عبد اللہ کے قریب آتے ہی اس کے گلے میں بازو ڈال کر لپٹ گئی۔ عبداللہ اس کا بوجھ سہار کر تیرنے کی طاقت نہ تھی۔ عذرا اس کے ساتھ بری طرح چمٹی ہوئی تھی ۔ اور اس کے بازو پوری طرح حرکت نہیں کر سکتے تھے۔ وہ دو تین بار پانی میا ں ڈوب ڈوب کر ابھرا ، اتنی دیر میں نعیم کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے باقی باقی لڑکوں کے ساتھ مل کر چیخ پکار شروع کر دی۔ ایک چرواہا اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے تالاب کی طرف آرہا تھا، لڑکوں کی چے و پکار سن کر بھاگا اور تالاب کے کنارے پر سے یہ منظر دیکھتے ہی کپڑوں سمیت پانی میں کود پڑا ۔ اتنی دیر میں عذرا بے ہوش ہو کر عبداللہ کو اپنے ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کر چکی تھی ۔ اور وہ ایک ہاتھ سے عذرا کے سر کے بال پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے تیرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ چرواہے نے تیزی کے ساتھ جھپٹ کر عذرا کو اوپر اٹھا لیا ۔ عبداللہ عذرا سے نجات پا کر آہستہ آہستہ تیرتا ہوا کنارے کے طرف بڑھا ۔ چرواہا عذرا کو لے کر پانی سے باہر نکالا اور تیزی سے صابرہ کے مکان کی طرف چل دیا ۔ کے منہ پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ چاند کی روشنی دروازے کے راستے عبداللہ کے منہ پر پڑ رہی تھی۔ نعیم نے کھانا اس کے سامنے رکھ دیا اور کہا۔ ”امی جان نماز پڑھ رہی ہیں۔ جلدی سے کھا لو! عبد اللہ نعیم کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔ ”لے جاؤ میں نہیں کھاؤں گا۔“ ”کیوں مجھ سے ناراض ہونا ؟“ اس نے آنکھوں میں آنسو لا کر کہا۔ ”نہیں نعیم، امی جان کا حکم ہے تم جاؤ!“ میں نہیں جاؤں گا، میں بھی یہیں رہوں گا۔“ ”جاؤ نعیم، تمہیں امی جان ماریں گی!“ ”نہیں میں نہیں جاؤں گا۔“ نعیم نے عبد اللہ سے لپٹتے ہوئے کہا۔ نعیم کے اصرار پر عبد اللہ خاموش ہو گیا۔ ادھر صابرہ نے نماز ختم کی۔ مامتا زیادہ ضبط کی طاقت نہ رکھتی تھی۔ ’’اف! میں کتنی ظالم ہوں۔‘‘ اسے خیال آیا اور نماز ختم کرتے ہی اصطبل کی طرف چل دی۔ نعیم نے ماں کو آتے دیکھا تو چھپنے کی بجائے بھاگ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا اور چلایا: ’’امی! بھائی کا کوئی قصور نہیں۔ میں عذرا کو گہرے پانی میں لے گیا تھا۔ بھائی تو اسے بچا رہا تھا۔‘‘ صابرہ کچھ دیر پریشانی کی حالت میں کھڑی رہی۔ بالآخر اس نے کہا۔ ’’میرا بھی یہی خیال تھا۔ عبد اللہ ادھر آؤ!‘‘ عبد اللہ اٹھ کر آگے بڑھا۔ صابرہ نے پیار سے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور اس کا سر سینے سے لگا لیا۔ عبد اللہ نے کہا۔ ’’امی آپ نعیم کو معاف کر دیں !‘‘ صابرہ نے نعیم کی طرف دیکھا اور کہا : ’’بیٹا تم نے اپنی غلطی کا اعتراف کیوں نہ کیا؟‘‘ نعیم نے جواب دیا ’’مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ بھائی کو سزا دیں گی۔‘‘ ’’اچھا تم کھا اٹھا لو۔‘‘ نعیم نے کھانا اٹھا لیا اور تینوں مکان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ عذرا سو رہی تھی۔ ان تینوں میں سے کسی نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا تھا۔ تمام ایک جگہ بیٹھ کر کھانے لگے۔ ان بچوں کی تعلیم و تربیت صابرہ کی زندگی کی تمام دلچسپیوں کا مرکز تھی۔ اس تنہائی کے باوجود جو ایک عورت کو خاوند کی موت کے بعد محسوس ہوا کرتی ہے، صابرہ کا اجڑا ہوا گھر اس کے لیے ایک پر رونق شہر سے کم نہ تھا۔ رات کے وقت جب وہ عشاء کی نماز سے فارغ ہوتی تو عبد اللہ، عذرا اور نعیم اس کے قریب بیٹھ کر کہانی سنانے کا مطالبہ کرتے۔ صابرہ انہیں کفر و اسلام کی ابتدائی جنگوں کے واقعات سناتی اور رسول بر حقﷺ کے حالات بتاتی۔ ان بچوں کی بے فکری کا زمانہ گزرتا گیا۔صابرہ کی تربیت کے باعث ان کے دلوں میں سپاہیانہ زندگی کے تمام خصائص روز بروز ترقی کر رہے تھے۔عبد اللہ عمر میں جس قدر بڑا تھا، عذرا اور نعیم کے مقابلے میں اتنا ہی سنجیدہ اور متین تھا۔ وہ تیرہ سال کی عمر میں قرآن پاک اور چند ابتدائی کتابیں ختم کر چکا تھا۔ نعیم ایک تو کم عمر ہونے کی بناء پر اور دوسرے کھیل کود میں زیادہ حصہ لینے کی وجہ سے پڑھائی میں عبد اللہ سے پیچھے تھا۔ اس کی شوخی اور چلبلا پن تمام بستی میں مشہور تھا۔ وہ اونچے سے اونچے درخت پر چڑھ سکتا تھا اور تند سے تند گھوڑے پر سواری کرنے کا عادی تھا۔ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتے ہوئے اس نے کئی بار گر کر چوٹیں کھائیں۔ لیکن وہ ہر بار ہنستا اور خطرے کے مقابلے کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ جرات لے کر اٹھتا۔ تیر اندازی میں بھی اس نے اتنی مہارت پیدا کر لی تھی کہ گاؤں میں بڑی عمر کے لڑکے بھی اس کا لوہا مانتے تھے۔ ایک دن عبد اللہ صابرہ کے سامنے بیٹھا سبق سنا رہا تھا اور نعیم تیر کمان ہاتھ میں لیے مکان کی چھت پر کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا صابرہ نے آواز دی۔’’نعیم ادھر آؤ! آج تم نے سبق یاد نہیں کیا؟‘‘ ’’آتا ہوں امی۔‘‘ صابرہ پھر عبد اللہ کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ اچانک ایک اڑتا ہوا کوا آیا۔ نعیم نے جلدی سے نشانہ لیا۔ کوا قلابازیاں کھاتا ہوا صابرہ کے قریب آ گرا۔ صابرہ نے گھبرا کر اوپر دیکھا۔ نعیم کمان ہاتھ میں لیے فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا تھا۔ صابرہ نے اپنی مسکراہٹ کو چھپاتے ہوئے کہا۔’’بہت نالائق ہو تم!‘‘ ’’امی! آج بھائی نے کہا تھا کہ تم اڑتے ہوئے پرندے کو نشانہ نہیں بنا سکتے!‘‘ ’’اچھا، بہت بہادر ہو تم، آؤ، اب سبق سناؤ!‘‘ چودہ سال کی عمر میں عبد اللہ علوم دینی اور فنون سپہ گری کی تکمیل کے لیے بصرہ کے ایک مکتب میں داخل ہونے کے لیے رخصت ہوا اور عذرا کی دنیا کی آدھی خوشی اور ماں کے محبت بھرے دل کا ایک ٹکڑا ساتھ لیتا گیا۔ ان تینوں بچوں کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا ضروری نہیں کہ عذرا کو نعیم اور عبد اللہ سے بے حد محبت تھی۔ لیکن یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان دونوں میں سے کسی کو زیادہ چاہتی تھی۔اس کے معصوم دل پر کون زیادہ گہرے نقوش پیدا کر چکا تھا۔ اس کی آنکھیں کس کو بار بار دیکھنے کے لیے بے قرار رہتیں اور اس کے کانوں میں کس کی آواز ایک نغمہ بن کر گونجتی تھی۔ بظاہر خود عذرا بھی اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے لیے نعیم اور عبد اللہ ایک ہی وجود کے دو مختلف نام تھے اور نعیم کے بغیر عبداللہ اور عبد اللہ کے بغیر نعیم کا تصور اس کے لیے نا ممکن تھا۔ اس نے اپنے دل میں کبھی ان دونوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ان دونوں کی موجودگی میں بھلا اسے کسی گہری سوچ میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ہنستا ہوا نظر آتا تو وہ اس کی ہنسی میں شریک ہو جاتی اور جب کسی کو سنجیدہ دیکھتی تو فوراً سنجیدہ ہو جاتی۔ عبد اللہ کے بصرہ چلے جانے کے بعد اسے ان باتوں کے متعلق سوچنے کا موقع ملا۔ اسے معلوم تھا کہ کچھ عرصہ بعد نعیم بھی وہاں چلا جائے گا۔ لیکن نعیم سے جدائی کا تصور بھیا سے عبد اللہ کی جدائی سے زیادہ صبر آزما محسوس ہوتا تھا۔ عبد اللہ کا عمر میں بڑا ہونا، اس کی متانت و سنجیدگی عذرا کے دل میں اس کی محبت کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت اور بلندی کا احساس پیدا کر چکی تھی۔ وہ محبت سے زیادہ اس کا احترام کرتی تھی۔ اسے نعیم کی طرح بھائی جان کہہ کر پکارتی اور اپنے سے ارفع اور اعلیٰ سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ میل جول اور باتوں میں قدرے تکلف سے کام لیتی۔ نعیم کی عظمت بھی اس کے دل میں کم نہ تھی۔ لیکن اس کے ساتھ گہرے لگاؤ نے اسے تکلفات سے بے نیاز کر دیا تھا۔ اس کی دنیا میں عبد اللہ ایک سورج کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس کی طرف ہم اس کی خوشنمائی کے باوجود آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے اور اس کے قریب جانے کے خیال سے گھبراتے ہیں لیکن نعیم کی ہر بات اسے اپنے منہ سے نکلی ہوئی معلوم ہوتی۔ عبداللہ کے چلے جانے کے بعد نعیم کی عادات میں ایک عجیب تغیر رونما ہوا۔ شاید اس خیال سے کہ صابرہ عبد اللہ کی جدائی بہت زیادہ محسوس نہ کرے یا اس کی وہ بھی بصرہ کے مدرسے میں داخل ہونے کے لیے بے تاب تھا۔ بہر حال وہ بچپن کی تمام عادات چھوڑ کر پڑھائی میں دلچسپی لینے لگا۔ اس نے ایک دن عابدہ سے سوال کیا ’’امی! آپ مجھے بصرہ کب بھیجیں گی؟‘‘ ماں نے جواب دیا ’’بیٹا جب تک تم اپنی ابتدائی تعلیم ختم نہیں کر لیتے۔ میں تمہیں وہاں بھیج کر لوگوں سے یہ کہلوانا پسند نہیں کرتی کہ عبد اللہ کا بھائی بے علم ہے۔ گھوڑے پر چڑھنے اور تیر چلانے کے سوا کچھ نہیں جانتا۔ ماں کے الفاظ نعیم کے دل میں نشتر کی طرح چبھے۔ اس نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ’’امی ! مجھے کوئی جاہل کہنے کی جرات نہیں کر ے گا۔ میں تمام کتابیں اسی ختم کر لوں گا۔‘‘ صابرہ نے پیار سے نعیم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: ’’بیٹا! تمہارے لیے کوئی بات مشکل نہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ تم کچھ کرتے نہیں !‘‘ ’’ضرور کروں گا۔ امی اب آپ کو مجھ سے یہ شکایت نہ رہے گی۔‘‘ ماہ رمضان کی چھٹیوں میں عبد اللہ گھر آیا۔ وہ سپاہیانہ لباس پہنے ہوئے تھا۔ بستی کے لڑکے اسے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ نعیم اسے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سماتا۔ عذرا اسے دور ہی دور سے دیکھ کر شرما جاتی اور صابرہ بار بار اس کی پیشانی چومتی۔ نعیم نے عبداللہ سے مدرسے کے متعلق بہت سے سوالات کیے۔ عبد اللہ نے اسے بتایا کہ وہاں پڑھائی کے علاوہ زیادہ فنون جنگ کی تحصیل میں صرف ہوتا ہے۔ نیزہ بازی، تیغ زنی اور تیر اندازی سکھائی جاتی ہے۔ تیز اندازی کے متعلق سن کر نعیم کا دل خوشی سے اچھلنے لگا۔ ’’بھائی جان مجھے بھی ساتھ لے چلو۔‘‘ اس نے ملتجی ہو کر کہا! ’’تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ وہاں تمام لڑکے تم سے بہت بڑے ہیں۔ تمہیں کچھ مدت صبر کرنا پڑے گا۔‘‘ نعیم نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سوال کیا۔ ’’بھائی جان! مدرسے میں آپ سب لڑکوں پر سبقت لے جاتے ہوں گے؟‘‘ عبد اللہ نے جواب دیا۔ ’’نہیں بصرہ کا ایک لڑکا میرا مد مقابل ہے۔ اس کا نام محمد بن قاسم ہے۔ وہ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں تمام مدرسے کے لڑکوں سے اچھا ہے۔ تیغ زنی میں ہم دونوں برابر ہیں۔ اس سے کبھی کبھی تمہارا ذکر کرتا ہوں۔ وہ تمہاری باتیں سن کر بہت ہنسا کرتا ہے۔‘‘ ’’ہنسا کرتا ہے؟‘‘ نعیم نے تیوری چڑھا کر کہا۔ ’’ میں اسے جا کر بتاؤں گا کہ میں ایسا نہیں ہوں کہ لوگ مجھ پر ہنسا کریں۔‘‘ عبد اللہ نے نعیم کو برگشتہ دیکھ کر گلے لگا لیا اور اسے خوش کرنے کی کوشش کی۔ رات کے وقت عبد اللہ لباس تبدیل کر کے سو گیا۔ نعیم اس کے قریب بستر پر پڑا کافی دیر تک جاگتا رہا۔ جب نیند آئی تو اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ بصرہ کے مدرسے کے طلبا کے ساتھ تیر اندازی اور نیزہ بازی میں مصروف ہے۔
❤️ 🌹 👍 4

Comments