✒️ FIKR E RAZA فکر رضا 💻
✒️ FIKR E RAZA فکر رضا 💻
February 28, 2025 at 02:47 AM
طاہر القادری کی شخصیت کا شرعی تجزیہ مسند احمد کی حدیث پاک ہے” عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ قَوْمٌ يَأْكُلُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ كَمَا يَأْكُلُ الْبَقَرُ بِأَلْسِنَتِهَا“ ترجمہ:حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہو گی حتی کہ ایک قوم کا ظہور ہو گا وہ اپنی(چرب) زبانوں کے ذریعے ایسے کھائے گی جیسے گائے اپنی زبان کے ساتھ کھاتی ہے۔ (مسند احمد،جلد3،صفحہ154،حدیث1597، مؤسسة الرسالة،بیروت) موجودہ دور میں اس حدیث پاک کے مصداق کئی لوگ ہیں جن میں ایک شخص ڈاکٹر طاہری القادری بھی ہے جو اپنی چرب زبانی سے لوگوں کو گرویدہ کرکے ان کے ایمان خراب کرتا آیا ہے۔پاک وہند میں جس شخص نے صلح کلیت کو عام کرنے میں بڑا کردار ادا کیا وہ طاہر القادری ہے۔اِس وقت نیم رافضی ٹولہ جن عقائد میں فتنے پھیلارہے ہیں ان کی بنیاد اسی ڈاکٹر نے رکھی تھی ۔ طاہر القادری کے بیانات یورپ کے چینل پر کچھ اور پاکستان میں الٹ ہوتے ہیں تاکہ عام عوام اسی طرح بے وقوف اور عقیدت میں پھنسی رہے اور انگریزوں سے بھی ذاتی مفاد ملتا رہے۔ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں” أخبرنَا عَليّ بن المحسن عَن أَبِيه قَالَ أَخْبرنِي جمَاعَة من شُيُوخ بَغْدَاد أَنه كَانَ بهَا فِي طرف الجسر سائلان أعميان أَحدهمَا يتوسل بأمير الْمُؤمنِينَ عَليّ وَالْآخر بِمُعَاوِيَة ويتعصب لَهما النَّاس ويجمعان الْقطع فَإِذا انصرفا فيقتسمان الْقطع وَكَانَا يحتالان بذلك على النَّاس “ترجمہ:علی بن محسن اپنی والد سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے بغداد شریف کے بزرگ بیان کرتے ہیں کہ یہاں پُل کی طرف دو نابینے بھکاری آیا کرتے ۔ایک امیرالمومنین حضرت علی کے نام پر بھیک مانگتا اور دوسرا حضرت معاویہ کے نام پر ۔کافی لوگ بطور تعصب انھیں دیتے ،یوں وہ ٹکڑے جمع کرتے رہتے ، جب ( رات کو گھر ) لوٹنے لگتے تو آپس میں ( آدھے آدھے ) تقسیم کرلیتے یوں لوگوں کو دھوکہ دیتے تھے۔ ( الاذکیا ، الباب الخامس عشر في سياق المنقول من ذلك عن العرب وعلماء العربية ، ص 100، دارالفکر بیروت) طاہر القادری میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ طاہر القادری کی زندگی کو دیکھیں تو اس کی بے دینی بتدریج کچھ یوں ہے: ٭ فرقہ پرستی کے خاتمہ کے متعلق بیانات ٭اجماعی مسائل سے بغاوت ٭بدمذہبوں سے تعلقات ٭ اپنی یونیورسٹی میں بدمذہبوں کو بطور مدرس رکھنا ٭ شیعوں سے اتحاد اوران کے ہاں جانا ٭ خمینی کی تعریف اور خمینی کے باطل نظریات ٭ کرسمس منانے کو عام کرنا ٭ یہودو نصاریٰ کو بلیورز کہنا ٭ گستاخِ رسول کے متعلق بیانات ٭ تمام مذاہب میں اتحادکی مذموم کوشش ٭ حسام الحرمین اور طاہر القادری اب ان نکات پر مختصر کلام پیش خدمت ہے: فرقہ پرستی کے خاتمہ کے متعلق بیانات امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے جمع الجوامع میں ،علامہ ابن منظور رحمۃ اللہ علیہ نے مختصر تاریخ دمشق میں،قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے الشفاء میں،خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ بغدادی میں حدیث پاک نقل فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدمذہبوں کے متعلق فرمایا” فان مرضوا فلا تعودہم وان ماتوا فلا تشہدوہم ولا تناکحوہم ولا توارثوہم ولا تسلموا علیہم ولا تصلوا علیہم“ترجمہ:اگر ایسے لوگ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت نہ کرو ،اگر مر جائے تو جنازہ میں شرکت نہ کرو،ان سے نکاح نہ کرو،ان کو وارث نہ بناؤ،ا ن سے سلام نہ کرو ، ان کی نمازِ جنازہ نہ پڑھو۔ (تاریخ بغداد،جلد8،صفحہ142،دارالکتب العلمیہ،بیروت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو بدمذہبوں (دیوبندی،وہابیوں اور شیعوں وغیرہ)سے دور رہنے کا کہیں لیکن صلح کلی طاہر القادری جیسے ہی کچھ چرب زبانی سے مشہور ہوا تو بجائے عوام اہل سنت کو بدمذہبوں دے دور رہنے کے الٹا ان کو بدمذہبوں کے قریب فرقہ واریت کی مذمت کرتے ہوئے کردیا۔ پہلے بدمذہبوں سے محبت بڑھائی وہاں زیادہ فوائد نہ ملے تو کفار سے اتحاد کی طرف چل نکلا۔ اجماع مسائل سے بغاوت عورت کی دیت مرد سے نصف ہے اور اس پر امت کااجماع ہے اور اجماع پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔ لیکن طاہر القادری نے اس اجماع امت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کے برابر ہے، جس پر حضرت علامہ قاری محبوب رضا خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی زبر دست گرفت کی ہے اور سخت لہجے میں اس کے خلاف ایک استفتاء کے جواب میں لکھا ہے اور اس کو ضال مضل خارجہ معتزلی کہا۔ آپ نے لکھا: عورت کی دیت مرد سے نصف ہے۔ یہ مسئلہ مسلمانوں میں متفق علیہ ہے۔ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور ائمہ اربعہ علیہم الرحمہ کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ ایک عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف ہے اور یہ اجماع سکوتی ہے۔ اجماع پر عمل واجب ہوتا ہے، اس پر بحث کی اجازت نہیں ۔ صحیح العقیدہ سنی کے لیے اجماع سکوتی کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اجماع صحابہ واجماع ائمہ اربعہ کا منکر ضال مضل، خارجی یا معتزلہ ہوسکتا ہے۔ صحیح العقیدہ سنی ہر گز نہیں ہوسکتا۔ پروفیسر صاحب نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے دیت عورت ، مرد کی دیت کے برابر ہونے کا ادعاء کیا اور حدیث پاک کو ضعیف کہنے کی جسارت کی ہے۔ (فتنہ طاہریہ کی حقیقت/https://urdumehfil.net/2007/04/25) بدمذہبوں سے تعلقات حُب جاہ اور صلح کلیت میں پہلے توڈاکٹر صاحب نے فرقہ واریت کی مذمت کی پھرعملی کردار ادا کرتے ہو ئے بدمذہبوں سے اتحاد کی طرف نکل پڑا۔ یوٹیوب پر ایک کلپ ہے جس میں ڈاکٹر صاحب مسند خطابت پر بیٹھے ہیں۔ پھر دیوبندیوں کے ایک مشہور خطیب مولوی طارق جمیل کو دعوت دی کہ وہ آئیں اور دعا فرمائیں وہ ہمارے مہمان ہیں اس کے بعد مولوی طارق جمیل آتا ہے اور دعا کرتا ہے۔ اسی طرح یوٹیوب پر ایک تقریر ہے جس میں طاہر القادری کے ساتھ ایک دیوبندی مولوی بھی ہے اور آپ نے تقریر کے دوران کہا کہ ابھی عصر کی نماز انھوں نے پڑھائی اور میں نے انکے پیچھے پڑھی اور مغرب کی نماز میں نے پڑھائی اور انھوں نے میرے پیچھے پڑھی۔ ایک جگہ کہتا ہے:میں فرقہ واریت پر لعنت بھیجتا ہوں میں کسی فرقہ کا نمائندہ نہیں بلکہ حضور کی امت کا نمائندہ ہوں۔ (رسالہ دید شنید لاھور 4تا19 اپریل 1986ء بحوالہ رضائے مصطفٰے گوجرنوالہ) ایک انٹرویو میں کہا: میں شیعہ اور وہابی علماء کے پیچھے نماز پڑھنا صرف پسند ہی نہیں کرتا بلکہ جب بھی موقع ملے اُن کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں۔(انٹرویو۔ رسالہ دید و شنید لاہور، ۴ / مارچ ۱۹۸۶ء، بحوالہ سابق ، ص۱۰۵) اپنی یونیورسٹی میں بدمذہبوں کو بطور مدرس رکھنا اپنے تعلیمی ادارے میں بدمذہب بھرتی کرلینا سب سے بڑی صلح کلیت ہے چنانچہ طاہر القادری کا بیان ہے: ہمارے ادارے منہاج القرآن میں جماعت اسلامی کے لوگ بھی رکن بن سکتے ہیں۔ اہل حدیث، شیعہ، دیوبندی بھی منہاج القرآن کے رکن ہیں۔ (انٹرویو۔ روز نامہ جنگ ، ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء، بحوالہ خطرہ کی گھنٹی ، ص ۹۳) ایک جگہ کہتا ہے: ہمارے ممبران میں دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ حضرات کی تعداد بیسوں تک پہنچتی ہے۔ (نوائے وقت میگزن لاہور ، ۱۹ ستمبر ۱۹۸۷ء، بحوالہ مصدر سابق، ص ۱۳۱) شیعوں سے اتحاد اوران کے ہاں جانا طاہر القادری کو جب دیوبندی وہابیوں سے زیادہ مفاد حاصل نہ ہو ا تو شیعوں کی طرف مائل ہوا اور وہاں اس نے اہل سنت کے بنیادی عقائد کو کمزور کرنے کی کوشش کی جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تمام صحابہ سے افضل ہونا اجماعی عقیدہ تھا لیکن طاہر القادری نے اس نظریہ کو سب سے پہلے کمزور کرتے ہوئے کہا: سیدنا صدیقِ اکبر محض سیاسی خلیفہ تھے روحانی خلیفہ نہیں تھے۔ (السیف الجلی،صفحہ9) یوٹیوب (You Tube )ہی پر ڈاکٹر صاحب کی ایک تقریر ہے ،جو شیعوں کی مسجدمیں جاکرکی ہے۔ اس میں اس نے کہا ہے: اسلام ان ہی دونوں میں ہے یا تو شیعوں میں یا سنیوں میں، جو ان دونوں میں ہے وہ اسلام میں ہے ، اور جو ان دونوں میں نہیں وہ اسلام میں نہیں۔ خمینی کی تعریف اور خمینی کے باطل نظریات ایران میں خمینی نے مختلف ممالک سے علماء کو بلایا ،اس وقت پاکستان کے سنی علماء کے ساتھ طاہر القادری بھی گیا ،جب جمعہ کا دن آیا تو سارے علماء نے فیصلہ کرلیا کہ ہم شیعوں کے پیچھے جمعہ نہیں پڑھیں گے، لیکن ایک ڈاکٹر صاحب فرد واحد تھے کہ شیعوں کی مسجد میں جاکر ان کے پیچھے نماز جمعہ پڑھی تھی۔ پھر جب خمینی مر گیا تو پاکستان میں شیعوں نے ایک تعزیتی جلسہ رکھا تھا جس میں طاہر القادری نے جاکر تقریر کی تھی اور خمینی کے بارے میں کہا :امام خمینی تاریخ اسلام کے شجاع اور جری مردان حق میں سے ہیں۔ جن کا جینا علی اور مرنا حسین کی طرح ہے۔ خمینی کی محبت کا تقاضہ یہ کہ ہر بچہ خمینی بن جائے۔ (روز نامہ نوائے وقت لاہور ۱۹۸۹ء ) اور خمینی کے بارے میں قطعی طور پر معلوم ہے کہ وہ معمولی درجے کا شیعہ نہیں بلکہ نہایت ہی سخت اورمتشدد قسم کا شیعہ تھا، ایسے عقائد کے حامل خمینی کی حیات طاہر القادری کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی حیات کی طرح تھی اور خمینی کی موت، امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی طرح تھی ؟پھرتو ثابت ہورہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب پاکستان کے بچے بچے کو صحابہ کا دشمن اور خلفاء ثلاثہ کو گالی دینے والا بنانے کی تمنا کررہے ہیں۔ کرسمس منانے کو عام کرنا بدمذہبوں کے ساتھ اتحاد کا جب کوئی خاص فائدہ نہ ہو ا تو موصوف عالمی سطح پر نام نہاد اسلامی امن پسند سفیر بننے کے چکر میں عیسائیوں کے ساتھ اتحاد پر چل پڑے اور پاکستان میں سب سے پہلے مسلمانوں میں کرسمس منانے کا رواج بھی اسی طاہر القادری نے عام کیا۔ ڈاکٹر موصوف نے باقاعدہ دسمبر 2005 میں منھاج القرآن لاہور کے پلیٹ فارم پر کرسمس تہوار کا نہ صرف انعقاد کیا بلکہ باقاعدہ کیک کاٹا گیا اور اس دوران بیک گراؤنڈ پر یہ پڑھا جاتا رہا ”آؤ مل کر کرسمس منائیں “ (ویڈیو کا لنک: https://youtu.be/ioxS7Q9JKko?si=mJxiZAJG6ebxWEzZ ) یہودو نصاریٰ کو اہلِ ایمان کہنا کرسمس کے موقع پر ڈاکٹر موصوف نے عیسائیوں اور یہودیوں کو کفار کے زمرے سے نکالتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں اپنے ایک بیان میں یہ کہا :” پوری دنیا میں جب تقسیم کی جاتی ہے تو بیلیو رز(Believers ) ( مومن ) اور نان بیلور (Non Believers) (کفار) کی تقسیم کی جاتی ہے۔ نان بیلیورز کو کفار کہتے ہیں علمی اصطلاح میں ، اور بیلورز اُن کو کہتے ہیں جو اللہ کی بھیجی ہوئی وحی پر ، آسمانی کتابوں پر ، پیغمبروں پر ایمان لاتے ہیں۔ مذہب اُن کا کوئی بھی ہو ۔ تو جب بیلورز اور نان بیلیورز کی تقسیم ہوتی ہے تو یہودی عقیدے کے ماننے والے لوگ اور مسیحی برادری اور مسلمان یہ تین مذاہب بیلیورز (مومن) میں شمار ہوتے ہیں ، یہ کفار میں شمار نہیں ہوتے (یہاں پر اسٹیج پر تالیاں بجتی ہیں۔جو ویڈیو میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ) اور جو کسی بھی آسمانی کتاب پر، آسمانی نبی اور رسول اور پیغمبر پر ایمان نہیں لاتے وہ نان بیلیورز (کفار) کے زمرے میں آتے ہیں اور بیلیورز میں پھر آگے تقسیم ہے ، اہل اسلام اور اہل کتاب کی۔ خود قرآن مجید میں کفار کے لئے احکام اور ہیں اور اہل کتاب کے لئے احکام اور ہیں ۔ “ ویڈیو لنک: https://youtu.be/2DVHtJT0Rrc?si=sQ5aY4jxWXC6y5vN (اگر لنک ورک نہ کرے تو ڈائریکٹ یوٹیوب پر لکھیں ” Dr Tahil ul Qafri real view on belivers and non believers “ ویڈیو آجائے گی) ڈاکٹر موصوف نے نان بیلیورز کا معنی خود ہی بیان کیا کہ نان بیلیورز کفار کو کہتے ہیں۔ پھر یہ کہا: ”یہودی عقیدے کے ماننے والے لوگ اور مسیحی برادری اور مسلمان یہ تین مذاہب بیلیورز میں شمار ہوتے ہیں، یہ کفار میں شمار نہیں ہوتے ۔ “ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ڈاکٹر موصوف عیسائیوں اور یہودیوں کو کافروں میں شمار نہیں کرتے ۔ حالاں کہ قرآن مجید کی صریح آیات سے ثابت ہے کہ عیسائی اور یہودی کفار میں شمار ہوتے ہیں۔ صرف دو قرآنی آیات ملاحظہ ہوں ۔ سورہ مائدہ آیت نمبر 73 میں ہے”لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُـوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍۘ وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌؕوَ اِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ“ ترجمہ کنزالایمان : بیشک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں اللہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے اور خدا تو نہیں مگر ایک خدا اور اگر اپنی بات سے باز نہ آئے تو جو ان میں کافر مریں گے ان کو ضرور دردناک عذاب پہونچے گا۔ یہود ونصاری کو مشرک قرار دیتے ہوئے سورہ توبہ آیت نمبر 30 میں ارشاد فرمایا: ”وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْۚ- یُضَاهِــٴُـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُۚ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ“ ترجمہ کنزالایمان:اور یہودی بولے عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی بولے مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ باتیں وہ اپنے منہ سے بکتے ہیں اگلے کافرو ں کی سی بات بناتے ہیں اللہ انہیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں۔ مذکور ہ قرآنی آیات واضح اور صریح طور پر اس بات کو ثابت کررہی ہیں کہ یہودونصاری کا شمار کفار میں ہے،ڈاکٹر موصوف کا یہ کہنا کہ ”یہ (یہودونصاری)کفار میں شمار نہیں ہوتے“ نصوص قرآنیہ کے خلاف صریح سخت گمراہی اور کفر کا راستہ ہے ۔ اقناع فی فقہ الامام احمد بن حنبل اور علامہ ابن حجر ہیتمی رحمة اللہ علیہ (متوفی،974ھجری) نے تحفة المحتاج فی شرح المنھاج میں فرمایا:”أو لم يكفر من دان بغير الإسلام: كالنصارى أو شك في كفرهم أو صحح مذهبهم أو قال قولا بتوصل به إلى تضليل الأمة أو تكفير الصحابة - فهو كافر وقال الشيخ: من اعتقد أن الكنائس بيوت الله وأن الله يعبد فيها وأن ما يفعل اليهود والنصارى عبادة لله وطاعة له ولرسوله أو أنه يحب ذلك أو يرضاه أو أعانهم على فتحها وإقامة دينهم وأن ذلك قربة أو طاعة فهو كافر“ ترجمہ:جواسلام کے علاوہ دوسرے دین کے ماننے والے کو کافر نہ سمجھے ، جیسے کہ نصاریٰ (عیسائی)، یا ان کے کفر میں شک کرے، یا ان کے مذہب کو درست سمجھے، یا ایسا قول کہے جس سے امت کی گمراہی یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کا پہلو نکلتا ہو؟ تو وہ کافر ہے۔اور شیخ (امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ ) نے فرمایا: جو یہ اعتقاد رکھے کہ گرجا گھر (Churches) اللہ کے گھر ہیں، اور اللہ کی عبادت وہاں کی جاتی ہے، اور یہ کہ یہودی اور عیسائی جو کچھ کرتے ہیں وہ اللہ کی عبادت اور اس کے رسول کی اطاعت ہے، یا وہ اس (اعتقاد) کو پسند کرے یا اس پر راضی ہو، یا ان کی مدد کرے ان گرجا گھروں کو کھولنے میں، یا ان کے دین کو قائم کرنے میں، اور یہ سمجھتا ہو کہ یہ ایک قربت یا طاعت ہے، تو وہ بھی کافر ہے۔ (اقناع فی فقہ الامام احمد بن حنبل،باب حکم المرتد،جلد 4،صفحہ نمبر 298،التراث) گستاخِ رسول کے متعلق بیانات پاکستان چھوڑ کر کینیڈا کو اپناوطن بنالینے اور ملکہ برطانیہ کی اطاعت و وفاداری کا حلف اٹھا لینے اور کینیڈا شفٹ ہوجانے کے بعد ڈاکٹر موصوف کا حال یہ ہے کہ پاکستان ہو یا یورپی ممالک جب بھی توہین رسالت ہوئی ہے طاہر القادری نے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہوئے گستاخوں کا ساتھ دیا ہے ۔ڈنمارک میں انگریزی چینل پر بے پردہ عورتوں کے ساتھ بیٹھ کر انگلش زبان میں کہتا ہے کہ توہین رسالت( کارٹون وغیرہ بنانے) والا ہرگز گستاخ نہیں اور اسلامی قوانین کفار پر لاگو نہیں ہوتےچنانچہ کہتا ہے: Blasphemy law is not applicable on non Muslims ,i.e. This law is not applicable on Christian ,Jews and other non Muslims minorities but it is only applicable on Muslims according to Hanafi school of thought . ویڈیو کا لنک https://youtu.be/8PUn5maCNc8? )) اسی ویڈیو میں مزید کہتا ہے کہ جب یہ قانون 1980 کی دہائی میں بنایا گیا تو میں اس کا حصہ نہیں بنا میں اس قانون کے خلاف رہا اور پاکستان میں آکر عشق رسول کا ٹھیکیدار بن جاتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ گستاخ رسول کی سزا کا قانون ہی میں نے بنوایا ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں جب اس کے یہ دونوں اردو اور انگلش والے متضاد بیانات اس کے سامنے رکھے تو موصوف ڈاکٹر کا چہرہ اتر گیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرکے بچ نکلا پھر بعد میں ڈنمارک والی ویڈیو بھی copyright کے بہانے ڈلیٹ کروادی اور اس وقت کچھ احباب نے اس ویڈیو کو محفوظ کرلیا جو آج بھی یوٹیوب پر مختلف چینل نے اپلوڈ کی ہے۔ تمام مذاہب میں اتحادکی مذموم کوشش ڈاکٹر طاہرالقادری نے ۲۴ستمبر۲۰۱۱ء کو ویمبلے،لندن میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا جس میں اس نے ہندوؤں ، سکھوں، یہودیوں، عیسائیوں، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے پیشواؤں کو مدعو کیا اوراس پروگرام کو انسانیت کے لئے امن کی کانفرنس“ کا نام دیا۔پورا پروگرام QTV اور Minhaj TV پر براہ راست دکھا یا گیا اور اس کی خبریں الیکٹرانک میڈیا اور اخباروں میں شائع کی گئیں۔ یہ پروگرام منہاج القرآن کی ویب سائٹ پر ابھی فخریہ طور پر موجود ہے۔ اور کئی ویڈیو کلپ You Tube پر ڈالے گئے۔ اس پروگرام میں ڈاکٹر کی تقریر سے چند اقتباسات درج ذیل ہیں: ہم مل کر امن اور محبت کا گیت گائیں گے۔ انجیل سے سریلا پن ، توریت سے نغمے، اور قرآن سے ترنم، جب کہ دوسرے مذاہب کی مقدس کتابوں سے، امن، اشاعت اور عاجزی وانکساری سے کام لیں گے۔اور تو اور ہمیں اس پر فخر ہے کہ ہمارے درمیان بدھ مذہب کے ماننے والے اوران کے بڑے پجاری موجود ہیں۔ میں ان سب کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ ہندو مذہب کے ماننے والے اور ان کے نمائندے اور عظیم مذہبی رہنما۔ اور سکھوں کے نمائندے اور ان کے عظیم مذہبی رہنما موجود ہیں۔ میں آج سب کو اس تقریب میں خوش آمدید کہتا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ آج سب مل کر اپنے خدا کو پہچانیں اور یاد کریں۔ہمارا خدا! ایک خدا۔ اور ہر کوئی یقین رکھتا ہے کہ وہ ایک ہے ،آج ہم یاد کریں گے ۔۔۔۔۔۔ میں بات کو اختتام کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ آج ہم سب مل کر خدا کو پکاریں، وہ خدا جو تمام خوبصورتی اور وقار رکھتا ہے۔ دورانِ تقریب مختلف مذاہب کے رہنماؤں کو دعوت دی گئی کہ وہ سُر میں اپنی کتابوں سے بھجن اور دعائیں سنائیں۔ مذکورہ بالا کانفرنس کو دیکھ کر دل کانپ جاتا ہے کہ کیسے اسلامی کی بے دردی کے ساتھ دھجیاں اڑائی گئی جبکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ موجودہ انجیل وتورات تحریف شدہ ہیں لیکن ڈاکٹر موصوف نے اپنے بیان میں انجیل ، تورات اور قرآن پاک کو ایک مقام ومرتبہ میں رکھا، اس سے موصوف ثابت کیا کرنا چاہتے ؟ مسلمان اپنے بنیادی عقائد یاد کریں کہ ہمارا بنیادی عقیدہ اللہ کی وحدانیت ہے۔ ہم صرف ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔کفر بڑا گناہ ہے اور شرک اس کی بدترین صورت ہے۔ شرک سمیت کفر کی تمام قسمیں قابل معافی نہیں۔یہ عقیدہ رکھنا کفر ہے کہ اللہ عزوجل کے یہاں اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب بھی قابلِ قبول ہے،یونہی کفر پر راضی ہونا اور کفر کی ترقی کی دعا کرنا کفر ہے۔کسی کافر کو اس وجہ سے عزت دینا کہ وہ کفریہ مذہب کا پیشوا ہے، یہ کفر ہے۔ کسی غیر آسمانی کتاب یا تحریف شدہ آسمانی کتاب کو قرآن کے برابر ٹھہرانا کفر ہے۔اسلام کو کسی دوسرے مذہب کے برابر ٹھہرانا کفر ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے:” وَالهُكُم إِلهُ وَاحِدٌ لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ“ترجمہ: اور تمہارا معبود ایک معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی رحمت والا مہربان۔ (البقره:١٦٣) دوسری آیت ہے:”وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ تُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الخسرین“ ترجمہ: اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے گا وہ ہرگز اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں ریا کاروں میں سے ہے۔ ( آل عمران:۸۵) حسام الحرمین اور طاہر القادری حُسام الحرمین امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے جس میں مرزا غلام احمد قادیانی اور دیوبندی کے چار مولویوں(قاسم نانوتوی،رشید احمد گنگوہی،خلیل انبیٹھوی اور اشرف تھانوی)کو کفریہ عقائد وگستاخیوں پرکافر و مرتد قرار دیا گیا ہے اور مکہ و مدینہ کے جید مفتیان کرام نے کفر کے فتاوی صادر فرمائے اور لکھا کہ جو ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ طاہر القادری نے شروع سے ہی کہ حسام الحرمین کی کبھی کھل کر تائید نہیں کی بلکہ دیوبندی مولوی طاہر القادری کو اپنی حمایت میں شمار کرتے ہیں۔دیوبندی مولوی الیاس گھمن لکھتا ہے: ڈاکٹر طاہر القادری فرماتے ہیں: میں تکفیری مہم کا فرد نہیں ہوں۔۔۔۔ دوسرے مسلک کی توہین اور تکفیر دینداری نہیں بلکہ عین فرقہ واریت ہے ،ہم پر لازم ہے کہ امت مسلمہ کے مختلف طبقات کو ساتھ لے کر چلیں۔ خطرہ کی گھنٹی،صفحہ233۔ (حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ،صفحہ149،مکتبہ اہل السنۃ والجماعۃ،سرگودھا) کچھ سال پہلے طاہر القادری کا قول منہاج القرآن کی ویب سائیٹ پر اس طرح موجود تھا کہ انہوں نے حسام الحرمین کے متعلق کہا:’’وہ اِس زمانے میں قابل قبول نہیں ۔‘‘ (http://minhajulquran.wordpress.com/category) حالیہ دنوں میں طاہرالقادری نے رشید احمد گنگوہی کی کتاب کا حوالہ تعریفی انداز میں دیا اور پھر کہا : ” ہم ایک دوسرے کی کتابیں پڑھتے ہی نہیں ،اتنی نفرتیں ہوگئی ہیں،فاصلے ہوگئے ہیں،کوئی کسی کو کافرو مرتد اور گستاخ رسول بنائےجارہا ہے،کوئی کسی کو بدعتی و مشرک بنائے جارہا ہے،مسلمان بچا کون ہے ہمارے پاس،یہ دیواریں گرا دیں اور آج آپ اس درس بخاری کے بعد دیواریں گرانے کو تیار ہیں(پھر سامنے بیٹھی پبلک کے ہاتھ کھڑے کروائے)اور اعلان کیا کہ میں اس تکفیر کی دیوار کو گرانا چاہتا ہوں ڈیڑھ سو سال بڑا خسارا ہوگیا،تباہی ہوگئی برصغیر پاک وہند میں ،یہ تکفیریت وطبعیدیت ایک دوسرے کو بدعتی بنا کے جہنم دکھیلنا پھر ایک دوسرے کو کافر ومشرک بنانا اور پھر ایک دوسرے کو گستاخ رسول بنا کر جہنمی بنانا ان دیواروں کو گرا دینے کا اعلان کررہا ہوں۔ “ یعنی رشید احمد گنگوہی کا ذکر کرکے کافر و مرتد اور گستاخ رسول قرار دینے کی مذمت کرنا قرینہ ہے کہ اس کا اشارہ حسام الحرمین کی طرف ہے۔مطلب یہ کہ اعلیٰ حضرت نےدیابنہ کی صریح کفریہ عبارات پر جو فتوی لگایا اس کو تکفیری دیوار کہہ کر گرا دینے کا اعلان کرنے کا صاف صاف مطلب ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس فتویٰ کو نہیں مانتے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے اپنی آخری عمر میں اس طرح کی بات کہنے کا مطلب ہےکہ زندگی بھر جو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا، محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد صاحب، سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب اور اپنے درس نظامی کے اساتذہ اور اپنے والد مولوی فریدالدین کی ساری زندگی تعریفیں کی ہیں وہ سب جھوٹی تھیں یا اب غلط ہیں کیونکہ یہ سارے لوگ تو پوری زندگی دیوبندی پر تکفیر کے فتوے کو پروموٹ کرتے رہے ، گویا طاہر القادری کے نزدیک ساری زندگی فتنے پیدا کرتےرہے، معاذاللہ۔ خلاصہ کلام طاہر القادری کی شخصیت کا شرعی تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہے کہ یہ شخص حُب جاہ کا مارا ہوا،صلح کلی اور اسلامی عقائد سے بہت دور ہے۔ بعض احباب کسی کی چرب زبانی اور تھوڑے بہت دینی کاموں سے مرعوب ہوکر اس کی گمراہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے دینی کاموں کی تعریفیں کرتے ہیں،حالانکہ ایسے لوگوں کی زیادہ مذمت ہونی چاہیے جو اپنے آپ کو شیخ الاسلام جیسے القابات کہلوا کر لوگوں کو دین سے دور کریں۔ نیز جب عقید ہ ہی درست نہ ہو تو عبادات ہی قبول نہیں ہوتی ہیں۔سنن ابن ماجہ کی حدیث ہے”عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَقْبَلُ اللَّهُ لِصَاحِبِ بِدْعَةٍ صَوْمًا، وَلَا صَلَاةً، وَلَا صَدَقَةً، وَلَا حَجًّا، وَلَا عُمْرَةً، وَلَا جِهَادًا، وَلَا صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا، يَخْرُجُ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا تَخْرُجُ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِينِ»“ترجمہ:حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اللہ عزوجل بدعتی (بدعت اعتقادی والے یعنی گمراہ)کا نہ روزہ قبول فرماتا ہے ،نہ نماز ،نہ زکوٰۃ،نہ حج،نہ عمرہ،نہ جہاد، نہ فرض ،نہ نفل ،ایسا شخص دین سے ایسے نقل جاتا ہے جیسے آٹے میں سے بال۔ (سنن ابن ماجہ،باب اجتناب البدع والجدل،جلد1،صفحہ19، دار إحیاء الکتب العربیۃ ،الحلبی)

Comments