
Information.
February 16, 2025 at 04:43 AM
"رمضان کی آمد اور فضلو کی سفید پوشی "
رائٹر: عمران اقبال #imraniqbal
تاریخ: 14 فروری 2025"
Time. 3 35 pm۔
رمضان کی گہما گہمی تھی۔ ہر طرف روشنیوں کی جھلملاہٹ، بازار میں افطار کے سامان کی بہار، مساجد میں رش، اور گھروں میں سحری و افطاری کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ لوگ زکوٰۃ اور خیرات بانٹنے میں مصروف تھے، مگر انہی کے بیچ ایک ایسا شخص بھی تھا جو سفید پوشی کا بھرم رکھتے رکھتے ان لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا جو دوسروں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
یہ فضلو تھا—ایک خوددار اور غیرت مند شخص۔ دو چھوٹے بچوں کا باپ، ایک محنت کش مگر حالات کا مارا ہوا شخص، جس نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا۔ اس کے کپڑوں پر چاہے پیوند لگ چکے تھے، جوتے گھس چکے تھے، مگر اس کی عزتِ نفس سلامت تھی۔
"ابا، ہمیں بھی وہ رنگین شیرے والی جلیبیاں لے دو نا!" چھوٹے بیٹے نے بازار میں ضد پکڑ لی تھی، جبکہ دوسرا بچہ کھلونوں کی دکان کے سامنے رک گیا تھا۔ فضلو نے پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"بیٹا، ان شاءاللہ عید پر سب کچھ لیں گے۔ ابھی چلو، امی انتظار کر رہی ہوں گی!"
بچے اداس ہو گئے، مگر خاموشی سے باپ کا ہاتھ تھام لیا۔
گھر پہنچے تو بیوی چولہے پر دال چڑھائے بیٹھی تھی۔ پانی میں زیادہ پکنے کی وجہ سے دال کا رنگ کچھ عجیب ہو گیا تھا، مگر چمچ چلاتے ہوئے اس کے چہرے پر صبر تھا۔
"کچھ نیا کام ملا؟" بیوی نے نرمی سے پوچھا۔
"نہیں، آج بھی نہیں..." فضلو نے آہستہ سے جواب دیا۔
---
افاقی صاحب کی آمد
محلے میں نیا کرایہ دار آیا تھا—افاقی صاحب۔ ایک وضع دار، سادہ مگر سمجھدار آدمی۔ انہوں نے آتے ہی محسوس کر لیا کہ فضلو کے گھر کے حالات کچھ ٹھیک نہیں۔ بچے اکثر ننگے پیر کھیلتے نظر آتے، بیوی کبھی کھڑکی کے پیچھے سے جھانکتی، جیسے کسی نعمت کا انتظار کر رہی ہو۔ مگر فضلو؟ وہ ہمیشہ مسکراتا نظر آتا، جیسے سب کچھ ٹھیک ہو۔
ایک دن افاقی صاحب نے فضلو کو بلایا۔
"یار فضلو، دروازے کا قبضہ خراب ہو گیا ہے، تمہارے ہاتھ کی کاریگری سنی ہے، دیکھ لو گے؟"
فضلو کے لیے یہ کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ اس نے محنت سے دروازہ مرمت کیا، اور جب افاقی صاحب نے مزدوری کے پیسے دینے چاہے، تو وہ ہچکچایا۔
"یہ تو معمولی کام تھا، میں اس کے پیسے نہیں لوں گا!"
افاقی صاحب مسکرائے۔ "اچھا، پھر مزدوری نہیں، یہ دوست کی طرف سے تحفہ سمجھ لو!"
فضلو نے سر جھکا لیا۔
افاقی صاحب کی حکمت
رمضان کی ایک شام افاقی صاحب فضلو کے دروازے پر پہنچے۔ ہاتھ میں ایک بڑا تھیلا تھا، جس میں کھانے پینے کا سامان تھا۔
"یہ رکھ لو، فضلو!"
فضلو نے حیرانی سے تھیلے کو دیکھا، پھر نظریں جھکا لیں۔ "افاقی صاحب، میں... میں لینے والوں میں سے نہیں ہوں۔"
افاقی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا،"بہت بھولے ہو، فضلو! رکھ لو، یہ صدقہ خیرات نہیں ہے، یہ تمہارا وہ حق ہے جو میری کمائی سے دینا فرض ہے بس ایک دوست کی طرف سے تحفہ سمجھو۔ اور ہاں، ایک درخواست بھی ہے۔"
فضلو نے چونک کر انہیں دیکھا۔ "کیسی درخواست؟"
"رمضان میں دسترخوان لگانے کا ارادہ ہے، تم میرے ساتھ اس میں ہاتھ بٹاؤ۔ اجرت بھی ملے گی، عزت بھی، اور ثواب الگ۔"
فضلو کی بیوی نے خاموشی سے سامان کی طرف دیکھا، اور ایک آنسو چپکے سے اس کے رخسار پر بہہ نکلا۔ فضلو نے گہری سانس لی، پھر آہستہ سے کہا، "افاقی صاحب، آپ نے میرا مان رکھ لیا۔ میں حاضر ہوں۔"
رمضان کے آخری دنوں میں، افاقی صاحب نے فضلو کو اپنے پاس بلایا۔
"فضلو، میں نے تمہیں قریب سے دیکھا ہے۔ تمہاری ایمانداری، تمہاری خودداری، تمہاری محنت—یہ سب کچھ بہت قیمتی ہے۔"
فضلو نے نرمی سے کہا، "یہ تو بس میری عادت ہے، افاقی صاحب۔"
"یہی عادت ہے جو تمہیں آگے لے جا سکتی ہے،" افاقی صاحب نے مسکرا کر کہا۔ "میرے بھائی سعودی عرب میں ایک بڑی کمپنی میں ہیں۔ وہ وہاں اچھے، ایماندار ملازمین ڈھونڈ رہے تھے۔ میں نے تمہارا ذکر کیا، اور انہوں نے کہا کہ اگر تم جانا چاہو، تو فوراً ویزا بھیج دیتے ہیں۔"
فضلو کا دل جیسے رک سا گیا۔ سعودی عرب؟ باہر جانا؟ اتنا بڑا موقع؟
"افاقی صاحب، مگر میں... میرے پاس تو جانے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں،" فضلو کی آواز میں بے بسی تھی۔
"یہ پیسے کی بات نہیں، یہ تمہاری محنت کی بات ہے۔ میں اور میرا بھائی یہ تم پر احسان نہیں کر رہے، ہم تمہیں تمہاری محنت کا حق دے رہے ہیں۔"
فضلو کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ پہلی بار زندگی میں کسی کے آگے جھکا تھا، مگر یہ جھکنا عزت کا تھا، یہ جھکنا ایک نئے راستے کی شروعات تھی۔
---
فضلو کے جانے کے بعد، جب کسی نے فضلو کے دروازے پر دستک دی اور کہا، "فضلو سے ملنا ہے فضلو کو بلا دیں" تو اس کی بیوی نے جواب دیا، "فضلو اب یہاں نہیں رہتا، وہ سعودی عرب چلا گیا ہے... اپنے بچوں کے خواب پورے کرنے۔"
کچھ عرصے بعد، فضلو کے گھر کے باہر نیا دروازہ لگ گیا۔ بچے اب صاف ستھرے اور اچھے کپڑوں میں نظر آنے لگے۔ گھر کے آنگن میں پہلے جیسی ویرانی نہ تھی، بلکہ خوشحالی کی ہلکی سی جھلک دکھائی دینے لگی تھی۔
لیکن فضلو اپنی تنگدستی کے دن نہیں بھولا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ بھوک اور محتاجی کیسی ہوتی ہے۔ اسی لیے جب اللہ نے اسے نوازا، تو اس نے اپنے یتیم بھتیجے کی کفالت کا بیڑا اٹھایا۔ وہ بچہ جو کل تک دوسروں کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھتا تھا، آج فضلو کی شفقت کے سائے میں پڑھنے لکھنے لگا تھا۔
کیونکہ فضلو جان چکا تھا کہ جو حق پہچان کر دیا جائے، وہی سب سے بڑی نیکی ہوتی ہے۔
اور وہ سفید پوش شخص، جو کبھی لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھا، اب اپنے خاندان کی زندگی میں روشنی بن چکا تھا۔
---
ایک سوال: کیا آپ کے آس پاس بھی کوئی فضلو ہے؟
ہم سب کے محلے، خاندان، یا دفتر میں کوئی نہ کوئی فضلو موجود ہوتا ہے—وہ جو اپنی خودداری کے باعث کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا، مگر اندر سے حالات سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ شاید وہ درزی ہو، رکشہ چلانے والا ہو، کسی دفتر میں چھوٹا ملازم ہو، یا کوئی ایسا شخص جو بظاہر سب کچھ ٹھیک دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں مشکلات کے گرداب میں پھنسا ہوا ہو۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے لوگوں کو پہچانیں، ان کی مدد کریں، مگر اس طرح کہ ان کی عزتِ نفس سلامت رہے۔
مدد ہمیشہ پیسوں کی صورت میں نہیں ہوتی، بعض اوقات صرف ایک موقع دینے سے، کسی کو اس کی محنت کا صلہ دلوانے سے، یا صرف اس کے حال چال سے باخبر رہنے سے بھی کسی کی زندگی بدل سکتی ہے۔
تو کیا آپ کے آس پاس بھی کوئی فضلو ہے؟ اگر ہاں، تو آج ہی افاقی صاحب بن کر کسی کا مان رکھ لیجیے!
#imraniqbal
رائیٹر.
imraniqbal
Imran Iqbal