
📚fikr-e-akhirat📚
February 21, 2025 at 09:23 AM
*سقوطِ دمشق و صدر ٹرمپ کی آمد ملحمہ الکبریٰ کی طرف ایک بڑی پیش رفت ؟*
20 فروری، 2025
رسول اللّٰہﷺ نے اخرالزماں کو فتنوں کا دور قرار دیا اور فتنوں میں بھی سب سے بڑا فتنہ "فتنہ دجال" قرار دیا گیا "دجل" یعنی کسی بھی چیز کی حقیقت اس سے بالکل برعکس ہو گی کہ جو ظاہری آنکھوں سے ہمیں نظر آ رہی ہے۔
https://www.facebook.com/Mujay-Hai-Hukam-e-Azan-256585368181276/
اخرالزماں کے آغاز کی سب سے بڑی نشانی خود رسول اللّٰہﷺ کی بعثت مبارکہ ہے اور اسکے بعد پھر انکے وصال کیساتھ اسکا باقاعدہ آغاز ہو جاتا ہے۔
دجال اگرچہ ایک مخصوص کردار کا صفاتی نام ہے مگر دجالیت اسکے وہ تمام کارنامے کہلائیں گے کہ جسمیں خیر کی آڑ میں بدترین شر، صحت کے جھانسے میں بیماریوں کی بانٹ اور نیکی کے سائے میں نہ صرف برائیوں کا معاشرہ قائم کیا جائیگا بلکہ لوگ اسمیں نہ صرف بہت مطمئن بلکہ اپنے آپکو حامل خیر سمجھیں گے۔
اگرچہ قرآن دجالی وسوسوں کے شکار ایسے کرداروں کی بہت بھیانک منظر کشی کرتا ہے اور اپنے آپکو حامل خیر سمجھنے والے ایسے تمام اشخاص کو روز حشر بدترین اعمال کے حاملین قرار دیتا ہے مگر افسوس کہ آج دجال اپنی اس چال میں بہت کامیاب دیکھائی دیتا ہے اور انسانیت کی بڑی اکثریت بدترین شر کو وقت کی سب سے بڑی خیر سمجھ کر سینے سے لگائے ہوئے ہے۔
*قُلۡ هَلۡ نُـنَبِّئُكُمۡ بِالۡاَخۡسَرِيۡنَ اَعۡمَالًا ۞الَّذِيۡنَ ضَلَّ سَعۡيُهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَهُمۡ يَحۡسَبُوۡنَ اَنَّهُمۡ يُحۡسِنُوۡنَ صُنۡعًا*
(اے رسولﷺ آپ ان سے) کہ دیجئے کہ کیا تمہیں بتاوں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے (روز حشر) سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں ؟
وہ لوگ جنکی ساری جد و جہد دنیا ہی کی زندگی میں گم ہو کر رہ گئی اور وہ یہی سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ الکھف ۔ 103 ۔ 104
اس محکم آیت مبارکہ کی روشنی میں اگر آج ہم اپنی زندگیوں کی جدو جہد کا جائزہ لیتے ہیں تو صورتحال بہت اطمینان بخش دیکھائی نہیں دیتی اور یہی دجل ہے اور اسکی کی روشنی میں اگر ہم دیکھتے ہیں کہ 1981 میں ایک مصری ملٹری آفیسر بزور طاقت مصر کی کرسی صدارت پر قابض ہو جاتا ہے اور 2011 یعنی 30 سال تک مصر کا مطلق العنان مالک تصور کیا جاتا ہے۔
یہاں "حسنی مبارک" کے ذکر کا مقصد اسکے 30 سالہ دور حکومت پر تبصرہ نہیں ہے صرف اسی پہلو پر بات کرنا مقصود ہے کہ اس نے مصر کے اسلامی تشخص کو بہت نقصان پہنچایا اور اسکے 30 سالہ دور کے جبر میں "اخوان المسلمین" خصوصاً عتاب کا شکار رہی۔
مگر اللّہ کا بھی ایک مرتب نظام ہے اور اس نظام کی ایک بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ اسمیں وقت رکتا نہیں بدلتا رہتا ہے۔
*وَتِلۡكَ الۡاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيۡنَ النَّاسِۚ*
یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ البقرة. 140
وقت پر اللہ ربالعزت کے اسی قاعدے کے مطابق جب "مصر" میں وقت کی گردش آگے بڑھی تو اسی آسمان دنیا نے دیکھا کہ حسنی مبارک کے ہاتھوں 30 سال سے معتوب "اخوان المسلمین" اسطرح مصری منظر نامے میں ابھرے کہ نہ صرف مصر کی کرسی صدارت پر انکا قبضہ ہو گیا بلکہ 30 سال سے جبر کی حکمرانی کرنیوالے حسنی مبارک کو بھی مصر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
30 جون 2012 کو "محمد مرسی" مصر کے نئے سربراہ منتخب ہوئے اور نہ صرف مصر بلکہ اقوام عالم میں تمام تر اسلام پسند قوتیں اسے اپنی عظیم فتح قرار دیتے ہوئے خوشی سے سرشار تھی۔
مصر کی تمام تر قابل فخر اسلام پسند مذہبی شخصیات مصر کو ایک "اسلامی فلاحی ریاست" کے خواب کیساتھ منظر عام پر آئیں اور اپنا تن من دھن اس مقصد عظیم پر قربان کرنے میں جت گئیں۔
تمام تر اسلام پسندوں کی خوشی کو اس وقت زبردست جھٹکا لگا کہ جب دجال غائب کے پردے سے باہر ایا اور اس نے محمد مرسی سمیت تمام تر اسلامی ہیروز کہ جنھیں وہ 30 سالہ جہدوجہد میں بھی تلاش نہ کر پایا تھا ایک ہی سال کے مختصر عرصے میں ان سب سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو گیا۔
3 جولائی 2013 کو ایک اور ملٹری آفیسر "عبدالفتاح السیسی" نے محمد مرسی سمیت اخوان المسلمین کی تمام قابل ذکر قیادت کو قید میں ڈالتے ہوئے مصر کی کرسی صدارت پر قبضہ کر لیا اور مصر جو "اسلامی فلاحی ریاست" کی منزل پر نکلا تھا آج اسرائیلیوں سے زیادہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ میں سرگرم ہے اور غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل سے بڑھ کر کردار ادا کرنے پر بھی اسے کوئی شرمندگی نہیں۔
مصر آج نہ صرف اخوان المسلمین کے وجود سے پاک ہو چکا ہے بلکہ مستقبل بعید میں بھی اسکے کسی دوسری شکل میں بھی وجود کے کوئی آثار نہیں ہیں اور ایک یہودی ماں کا سپوت "عبدالفتاح السیسی" مسلمانوں کے سینے پر دھڑلے سے پچلے ساڑھے 11 سال سے یہودیوں کا ترجمان بن کر دو ارب کے قریب مسلمانوں کا منہ چڑا رہا ہے۔
یعنی تحریر اسکوائر پر حسنی مبارک کے خلاف نفرت کی تحریک اور پھر اخوان المسلمین کی فتح سب ایک تحریری ڈرامہ تھا کہ جسکا اخوان المسلمین بروقت ادراک نہ کر سکے اور بجائے اسکے کہ اخوان المسلمین کو گلی گلی تلاش کیا جاتا انکو اقدار کے اعوان میں جمع کر کے ایک ہی حلے میں شکار کر لیا گیا کیونکہ بلد الشام کو ہی خیر و شر کے فیصلہ کن معرکے کا مرکز بننا ہے اور اسکے لئے مصر کو اسلام پسندوں سے صاف کرنا بہت ضروری تھا
8 دسمبر 2024 کو اسی طرح کی صورتحال کا شام میں بھی مشاہدہ ہوا کہ جب شامی عوام 5 لاکھ سے زائد مسلمانوں کے قاتل "بشار الاسد" کہ جس میں اگر اسکے باپ "حافظ الاسد" کی حکمرانی کا دورانیہ بھی شامل کر لیا جائے تو یہ باپ بیٹا پچھلے 50 سال سے شام پر جبری حکمرانی کر رہے تھے 8 دسمبر کی رات "بشار الاسد" کو رات کی تنہائی میں شام چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
شامی عوام میں خوشی کا عجب منظر تھا اور انقلابی گروپ "حیت التحریر" کے سربراہ "ابو محمد جولانی" کو نہ صرف شام بلکہ عالم اسلام میں بھی ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا اور خود "ابو محمد جولانی" کی آنکھوں میں شکرانے کے آنسو تھے اور وہ فتح مکہ طرز پر عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے عصر حاضر کے "صلاح الدین ایوبی" نظر آ رہے تھے۔
اور اہل رائے امت رسولﷺ کی اس سادگی پر فرطہ حیرت میں تھے کہ "ابو محمد جولانی" :
☜ القاعدہ،داعش، اور النصرہ کے بہت سرگرم رکن بھی رہ چکے ہیں۔
☜ تمام مغربی ذرائع انکا شمار اس درجے کے دھشت گردوں میں کرتے رہے ہے کہ ایک وقت پر انکے سر کی قیمت 10 ملیں ڈالر بھی رہی ہے۔
☜ بشار کو شام سے فرار ہوئے ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ابو محمد جولانی کے انٹرویوز CNN, ABC, PBS پر شروع ہو جاتے ہیں اور ماضی میں موسٹ وانٹڈ دھشت گرد کو آج ہیرو اور فاتح عظیم بنا کر پیش کیا جا رہا تھا اور کسی کو بھی اسکے نئے شامی سربراہ ہونے پر اعتراض نہ تھا ؟
☜ بشار کے تختہ الٹنے کے محض 48 گھنٹوں میں اسرائیل نے شام پر 480 فضائی حملے کر کے شام کو ہمیشہ کیلئے فضائی قوت (ائر فورس) سے محروم کر دیا اور تا وقت تحریر اس اسرائیلی جارحیت پر "ابو محمد جولانی" کا کوئی اعتراضی بیان سننے میں نہیں آیا ؟
☜ 73 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد شامی "گولان ہائیٹس" کا بڑا حصہ اسرائیل نے ہتھیا لیا تھا وہاں ایک پہاڑی چوٹی جسے "ماوئنٹ ہاروان" کے نام سے جانا جاتا ہے جو کہ دفاعی اعتبار سے بہت اہم مانی جاتی ہے کیونکہ اس پر لگے ریڈارز کی مدد سے آپ ترکی، لبنان، شام کے تمام حصوں کی با آسانی نگرانی کر سکتے ہیں۔
آج نہ صرف "ماؤنٹ ہاروان" اسرائیلی قبضے میں جا چکی ہے بلکہ "ماؤنٹ ہاروان" اور "گولان ہائٹس" کے درمیانہ 20کم کے علاقے کو بھی بفر زون قرار دیتے ہوئے اسرائیل کا علاقہ قرار دیا جا چکا ہے اور آج دو ماہ سے زائد گزرنے کے باوجود بھی "ابو محمد جولانی" کی طرف سے اسرائیل کیخلاف کسی بھی طرح کی کاروائی کا اعلان سامنے نہیں ایا۔
اسرائیل جو کام حافظ الاسد و بشار الاسد کے 50 سالہ دور حکمرانی میں نہ کر سکا وہ "ابو محمد جولانی" کے 5 روزہ اقدار نے ممکن بنا دیئے۔
اس سب کیساتھ تمام تر جنگی ماہرین اس بات پر بھی حیران ہیں کہ کیسے "ابو محمد جولانی" اپنے تمام تر جنگی لاؤ لشکر کیساتھ چند گھنٹوں میں دمشق پر قابض ہو جاتے ہیں کیونکہ دنیا بھر کی انٹیلیجنس کی موجودگی میں یہ کاروائی کسی معجزے سے کم نہیں۔
یاد رہے کہ حالات کا حقیقی تجزیہ واقعات سے نہیں بلکہ ان کے نتائج ہی سے ممکن ہوتا ہے اور نتائج تو سارے کے سارے اسرائیل ہی کے حق میں جاتے دیکھائی دیتے ہیں۔
یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ یہاں بات کسی عام سرزمین کی نہیں ہو رہی یہ "ارض شام" ہے کہ جسکے نہ صرف ماحول میں برکت رکھی گئی بلکہ دنیا کے سب سے سچے انسانﷺ کی زبان مبارک کے مطابق تو "اہل شام میں جب شر پیدا ہو جائے گا تو تم میں بھی کوئی خیر باقی نہ رہے گی"
"ارض شام" ہی وہ سرزمین ہے کہ جہاں ایک ہی وقت میں آخر الزماں کے تینوں بڑے کردار (سیّدنا مہدی، سیّدنا عیسیٰ و دجال) ایک ہی وقت میں اکٹھے ہونگے.
ارض شام ہی وہ سرزمین ہے کہ جہاں کا ایک مسلمان حاکم "صفیانی" سیدنا مہدی کیخلاف ایک لشکر روانہ کریگا کہ جیسے مکہ کے قریب مقام "بیضا" پر زمین میں دھنسا دیا جائیگا اور یہ بھی ذہن نشین رہے کہ یہ صفیانی ایک نیک طبہ مسلم حکمران کے طور پر جانا جاتا ہو گا۔
شام ہی وہ سرزمین ہے کہ جہاں نہ صرف نزول عیسیٰ، قتل دجال و ہرمیجیدون کے میدان میں "آرمیگڈون" جیسے بڑے واقعات کو وقوع پزیر ہونا ہے بلکہ اسی خطے سے اسلامی خلافت کے ذریعے تکمیل دین بھی ہونا ہے۔
یوں تو پچھلے ایک سو سال سے "ارض شام" عالمی سازشوں کا شکار ہے مگر حالیا چند سالوں میں یہاں دجال و دجالی فورسز بہت متحرک ہیں کئی یہودی ربائی دجال سے نہ صرف ملاقاتوں کا ذکر کر چکے ہیں بلکہ وہ اپنے اس مسیحا کی جلد آمد کی بھی نوید سناتے ہیں اور یہ کوئی میرا تجزیہ یا رائے نہیں بلکہ انکی اڈیوز تو "یو ٹیوب" پر بھی با آسانی سنی جا سکتی ہیں اور حالیا "ڈونلڈ ٹرمپ" کی امریکی صدر کی حیثیت سے آمد کو تو ظہور دجال کیطرف ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔
حالات کا آپ کسی رخ سے بھی تجزیہ کریں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ درحقیقت حق و شر کے ایک ہی معرکے کا تسلسل ہے کہ جو سیدنا آدم و ابلیس سے شروع ہوا اور اسے سیّدنا عیسیٰ کے ہاتھوں قتل دجال پر ختم ہونا ہے۔
دجال جو صدیوں سے زنجیروں کی جکڑ میں رہا عہد رسالتﷺ تک زنجیروں سے آزاد تھا (موقع نہیں کہ اسکی تفصیل میں جایا جا سکے اگر آپ ہمارے مستقل قاری ہیں تو بار ہا اس پر تفصیلی بات ہو چکی ہے) اور جب سیدنا مہدی کے ہاتھوں اسکی دجالی سلطنت زوال پزیر ہو گی تو بحثیت شخصیت ہم میں ظاہر ہو جائیگا۔
یہودی اسکو اپنا مسیحاء مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسکے ظہور پر انکی عالمی حکومت قائم ہو جائیگی، عیسائیوں کا ایک گروہ سیّدنا عیسیٰ کی واپسی پر یقین رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ انکی واپسی اسوقت تک ممکن نہیں کہ جب تک اسرائیلیوں کی عالمی حکومت نہ قائم ہو جائے اور وہ اسوقت تک ممکن نہیں کہ جب تک یہودی مسجد اقصیٰ کی جگہ تیسرے ہیکل سلیمانی کی تعمیر نہیں کر لیتے اسی بنا پر آپکو یہ عیسائی گروپ ہمیشہ ذائنسٹ یہودیوں کی پشت پر ہی ملے گا۔
یہ ایک مختصر سا خاکہ ہے کہ جس سے ہمیں سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ عیسائی حکومتیں کیوں آخر اسرائیل کی غیر مشروط مدد کو تیار رہتی ہیں اور ان میں بھی یورپ کی بجائے خاص طور پر امریکہ ؟
یہ درحقیقت عالمی بالا دستی کی ایک کشمکش ہے کہ جسمیں سبھی دجال ہی کے دجل کا شکار ہیں۔
تینوں ابراہیمی مزاہب اسلام، یہودیت و عیسائیت ایک نتیجہ خیز آخری معرکے ملحمہ الکبری/ آرمیگڈون پر یقین رکھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اس تباہ کن جنگ کا فاتح دنیا پر اپنی عالمی حکومت قائم کر لے گا۔
یہود سمجھتے ہیں کہ دجال کی سربراہی میں وہ یہ جنگ جیت جائیں گے۔
عیسائی سمجھتے ہیں کہ اس جنگ میں ہر کوئی تباہ ہو جائیگا بچت صرف اسکی ہو گی کہ جسے سیدنا عیسیٰ اپنے ساتھ آسمانوں پر اٹھا لیں گے اور سیدنا عیسی تب تک ظاہر نہیں ہونگے کہ جب تک دجال ظاہر نہ ہو جائے اور دجال کے ظاہر ہونے کیلئے آزاد اسرائیلی ریاست کیساتھ ساتھ ھیکل سلیمانی کی تعمیر ضروری ہے۔
یہ عقائد پروٹیسٹنٹ عیسائیوں میں انکے ایک خاص گروہ "اوینجلسٹ" کے ہیں اور شائد آپکے لئے یہ باعث حیرت ہو کہ نئے امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرمپ" کٹر "ایونجلسٹ" عیسائی ہیں کہ جو اپنے مسیحاء کی آمد کیلئے ظہور دجال کی خاطر آزاد اسرائیلی ریاست میں تیسرے ھیکل سلیمانی کی تعمیر پر یقین رکھتے ہیں۔
اب اگر آپ میری کہی ہوئی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں تو آپکو تمام سابقہ امریکی صدور کے مقابلے میں ٹرمپ کی والہانہ اسرائیلی سپورٹ کیساتھ ساتھ اسکے اسرائیلی ریاست کو مضبوط کرنے کے بہت سے اقدامات کی بھی سمجھ آنی شروع ہو جائیگی۔
70ء جب سے ٹائٹس رومی نے یہود کو یروشلم سے بے دخل کیا تھا ٹرمپ ہی واحد وہ شخصیت ہے کہ جس نے 6 دسمبر 2017 کو یروشلم کو اسرائیلی کیپٹل کے طور پر تسلیم کیا اور اسی کے اعزاز میں اسرائیل نے اپنا ایک کرنسی سکہ بھی جاری کیا تھا کہ جہاں صدر ٹرمپ کو سیدنا ذوالقرنین کیساتھ دیکھایا گیا۔ (یہودی سیدنا ذوالقرنین کو اپنا محسن سمجھتے ہیں کیونکہ انہوں نے ہی بابل کی فتح کے بعد نہ صرف انکو غلامی سے آزاد کیا تھا بلکہ یروشلم میں دوبارہ بسنے کی اجازت بھی دے دی تھی)
یہی ڈونلڈ ٹرمپ آج امریکہ کے 47 ویں صدر کی حیثیت سے اوول آفس میں بیٹھ چکے ہیں انہیں نے آتے ہی جو قابل ذکر اقدام کیے اس میں ایک 46 ارب ڈالرز کی امریکی ایڈز جو دنیا بھر میں بانٹی جاتی ہے اور اسکے کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک کو امریکی پالیسی کے تحت چلنے پر مجبور کیا جاتا ہے اسکو اسرائیل اور مصر کے سوا دنیا بھر کیلئے روک دیا ہے۔
ایسا کیوں کیا گیا یہ ایک علیحدہ تفصیل طلب موضوع ہے کہ جس پر ابھی بات ممکن نہیں مگر یہاں حیرت طلب بات یہ ہے کہ اسرائیل تو سمجھ میں آتا ہے مگر آخر "مصر" کیوں ؟
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ فلسطین و اسرائیل کا تنازعہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنا چاہتے ہیں اور اسکے لئے انکے پاس وقتی جو حل ہے وہ یہ کہ غزہ کو فلسطینیوں سے پاک کر دیا جائے اور 15 لاکھ کے قریب اہلیان غزہ کو مصر اور باقی 5 لاکھ کو جارڈن میں بسانے کی تجویز نہ صرف پیش کی گئی ہے بلکہ اسکے لئے عملی اقدامات بھی شروع کر دئیے گئے ہیں۔
اور اسکے لئے ٹرمپ نے جن الفاظ کا چناؤ کیا ہے وہ یہ ہیں کہ " کوڑ کباڑ کے ڈھیر کے سوا تو آج غزہ میں کچھ بھی نہیں بچا اور ہم غزہ کے لوگوں کیلئے ایک محفوظ و دیرپا پناہ گاہوں کے خواہشمند ہیں۔
ٹرمپ کے الفاظ کسقدر خوشنما ہیں جبکہ حاصل یہ کہ فلسطینیوں کو ہمیشہ کیلئے انکے گھروں سے ہی بے دخل کر دیا جائے اور غزہ کہ جسکو اسرائیل 461 روزہ جنگ میں نہ حاصل کر سکا اسکو پلیٹ میں رکھ کر اسرائیل کو پیش کر دیا جائے۔
قرآن اسطرح کی بیان بازی کیلئے "زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ" یعنی "خوشنما سنائی دینےوالے الفاظ" کی ٹرم استعمال کرتا ہے مگر بہت کلیئر الفاظ میں اسمیں چھپے دھوکے کی بھی نشاندھی کر دیتا ہے *زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا ؕ* "دھوکہ دھی سے لبریز خوبصورت سنہری الفاظ" (الانعام ۔ 112)
اور مصر میں یہ "صحرائے سینا" کہ جسکو 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے مصر سے چھین لیا تھا اور بعد میں ایک امن معاہدے کے نتیجے میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور یہ علاقہ مصر کے حوالے کر دیا گیا آج اس میں فلسطینیوں کی آباد کاری چاہ رہے ہیں وہی صحرائے سینا کہ جہاں اللہ ربالعزت کی مسلسل نافرمانیوں کے باعث بنی اسرائیل پر "ارض مقدس" کو 40 سال کیلئے ان پر حرام کرتے ہوئے انہیں اسی صحرائے سینا میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیا گیا تھا اور آج اسی صحرائے سینا میں یہ اہلیان غزہ کا مسکن بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
*قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيۡهِمۡ اَرۡبَعِيۡنَ سَنَةً ۚ يَتِيۡهُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ ؕ فَلَا تَاۡسَ عَلَى الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِيۡنَ*
اللہ ربالعزت نے فرمایا اب یہ (بنی اسرائیلی) چالیس سال تک زمیں میں بھٹکتے ہی پھریں گے اور (ارض مقدس) ان پر حرام رہے گی مگر (اے موسیٰ ( (علیہ السلام) ) آپ ان پر افسوس مت کیجئے کیونکہ یہ ایک فاسق قوم ہے ۔ المائدہ ۔ 26
یہ فاسق قوم صدیوں پرانی کسی چیز کو بھی نہیں بھولی اور اسی طرح بچوں کا قتل اور عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں کہ جسطرح فرعون انکی عورتوں اور بچوں کیساتھ کیا کرتا تھا اور جس صحرائے سینا میں اسی ارض مقدس (فلسطین) کی خاطر انہوں نے ذلت کے چالیس سال گزارے وہیں بیٹھ کر یہ اہلیان فلسطین کو اسی صحرائے سینا میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
اللہ ربالعزت کا ایک دفعہ ہی بات کو کہ دینا کافی ہے مگر بنی اسرائیل کو قرآن میں 41 دفعہ مخاطب کیا گیا اس سے آپ یہود/ بنی اسرائیل اور آج کے اسرائیل کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔
جسطرح قرآن کا بڑا حصہ صرف بنی اسرائیل کے تذکرے ہی کے گرد گھومتا ہے اسی طرح آج دنیا کے حالات کا مرکز بھی اسرائیل ہی ہے مگر قرآن کی ہماری زندگیوں میں اہمیت نہ ہونے کے سبب ہم اس نعمت سے کچھ بھی فائیدہ حاصل نہیں کر پا رہے اور شائد اسی وجہ سے ہمارے رسولﷺ اللّہ ربالعزت سے ہمارے اس رویے کا شکوہ بھی کریں گے۔
*وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا*
اور رسول (ﷺ) کہیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑی ہوئی چیز بنا رکھا تھا ۔ الفرقان ۔ 30
اسی قرآن نے ہمیں باخبر کیا کہ ایک تو کافروں میں تمھارے سب سے بڑے دشمن یہود و مشرک ہونگے قرآن کی یہ اصطلاح آج اسرائیل اور بھارت پر ہی فٹ بیٹھتی ہیں یہیں قرآن نے ایک اور راز سے بھی پردہ اٹھایا کہ کافر اگرچہ ایک ہی ملت ہے مگر اکٹھتے نظر آنے کے باوجود بھی یہ دلی طور پر ایک دوسرے سے بغض ہی رکھتے ہیں۔
*بَاۡسُهُمۡ بَيۡنَهُمۡ شَدِيۡدٌ ؕ تَحۡسَبُهُمۡ جَمِيۡعًا وَّقُلُوۡبُهُمۡ شَتّٰىؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَعۡقِلُوۡنَۚ*
تم انہیں متحد گمان کرتے ہو حالانکہ ان کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے آپس کے جھگڑے بہت شدید ہیں ۔ الحشر ۔ 14
جیسے آج عالمی منظر نامے میں تاریخ کے سب سے پاور فل فوجی اتحاد "نیٹو" کہ جسکے ممبر ممالک کی تعداد 32 ہے۔ بظاہر ناقل تسخیر نظر انیوالا یہ فوجی اتحاد کہ جسمیں اگر ایک ملک پر حملہ ہو گا تو پورے نیٹو پر حملہ تصور ہو گا یعنی 32 کے 32 ممالک کا آپس کا اتحاد بظاہر اسقدر مضبوط ہے کہ سب مل کر حملہ اور کا مقابلہ کریں گے جبکہ قرآن کا کہنا ہے کہ آپس کے بے انتہا اختلافات کے سبب یہ محض بظاہر ہی متحد نظر آتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جب سویت یونین ایک قوت بن کر ابھرا تو جس ملک میں سویت افواج اترتیں وہ سویت یونین کا حصہ بن جاتا۔ ہنگری، رومانیا، سلواکیہ، آذربائجان، ازبکستان، تاجکستان، ۔۔۔۔۔۔۔ حتی کہ آدھا جرمنی بھی سویت یونین کا حصہ بن چکا تھا۔
یورپ کے باقی ممالک کیلئے بھی تنہا اپنے آپ کو سویت یونین کے خطرے سے محفوظ رکھنا ممکن نہ رہا تھا اور یوں اس خطرے کے پیش نظر ایک فوجی اتحاد کی تجویز سامنے آئی اور یوں 4 اپریل 1949 کو 14 ممالک نے واشنگٹن میں "نیٹو" (نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن) کی بنیاد رکھی۔
یوں پچھلے 75 سال سے یہ اتحاد قائم و دائم ہے مگر اس تمام عرصے میں روس کے مقابلے میں یورپ کو کبھی کوئی خاص خطرہ محسوس نہیں ہوا کہ جسقد آج یورپ روس کے مقابلے میں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہا ہے۔
باضابطہ سازش کے تحت روس یوکرائن کی جنگ کا آغاز کروا کر یورپ کو یوکرائن کی پشت پناہی پر مجبور کیا گیا اور یوں 2 سالہ مسلسل جنگ کے باعث یورپی معیشت کو کمزور کیا گیا اور جب یورپی معیشت لڑکھڑاتے ہوئے گھٹنوں کے بل آن گری تو صدر ٹرمپ نے تمام نیٹو ممبر ممالک کو اپنے GDP کا %5 ادا کرنے پر مجبور کیا اور خود یوکرائن کی جنگ کے مسائل سلجھانے کیلئے یورپ اور یوکرائن کی کسی بھی رضا مندی کے بغیر سعودی کیپٹل ریاض میں براہ راست روس کیساتھ مذاکرات شروع کر دئیے۔
آج یورپ کی یوکرائن جنگ کہ جسکو سب سے زیادہ امریکہ نے ہوا دی کے سبب روس سے تجارت ختم ہو چکی ہے اور نہ ہی روس یورپ کو آئل و گیس سپلائی کر رہا ہے۔
یورپی انڈسٹری آخری ہچکیوں پر ہے اور امریکہ یورپ کو روسی رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے روس کیساتھ یوکرائنی بندر بانٹ میں مصروف ہے جی ہاں "بندر بانٹ" اسلئے کہ یہ مفادات کی جنگ ہے اور Rear Earth Minerals سے مالا مال یوکرائنی سرزمین پر امریکہ کیلئے روسی مرضی کے بغیر اترنا ممکن ہی نہیں تھا۔
یوں یہاں بھی قرآن سچا ثابت ہوا کہ"یہ محظ بظاہر ہی متحد نظر آتے ہیں ورنہ انکے آپس میں بہت اختلافات ہیں" امریکہ نے اپنے کسی 75 سالہ ساتھ کا خیال نہ کیا اور یورپ و یوکرائن کو جنگ کے دھانے پر لا کھڑا کرنے کے بعد خود روس سے نئے رومانس کا آغاز کر دیا۔
یوکرائن کا مستقبل اور Rear Earth Minerals کی کہانی اپنی جگہ علیحدہ سے ایک تفصیل طلب موضوع ہے کہ جس پر ان شاءاللہ پھر بات ہو گی یہاں فالحال سوچنے کا یہ مقام ہے کہ اسقدر منظم انداز میں دنیا کو فساد میں کون دھکا دے رہا ہے۔
قرآن میں فساد کو یاجوج و ماجوج سے ہی نسبت دی گئی ہے۔
*اِنَّ يَاۡجُوۡجَ وَمَاۡجُوۡجَ مُفۡسِدُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ*
یہ یا جوج اور ماجوج ہی ہیں جو زمین پر فساد برپا کرتے ہیں ۔ الکھف ۔ 94
اور آپ میری اس بات سے بھی اتفاق کریں گے آجکی عالمی سیاست کا محور "اسرائیل" ہی ہے اور بنی اسرائیل کیلئے اللّہ ربالعزت کے واضع احکامات ہیں کہ یاجوج و ماجوج کھلنے کے بعد اپنی قوت کے زور پر ہی بنی اسرائیل کو واپس یروشلم لا کر بسائی
سکیں گے۔
ق
*وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرۡيَةٍ اَهۡلَكۡنٰهَاۤ اَنَّهُمۡ لَا يَرۡجِعُوۡنَ ۞ حَتّٰٓى اِذَا فُتِحَتۡ يَاۡجُوۡجُ وَمَاۡجُوۡجُ وَهُمۡ مِّنۡ كُلِّ حَدَبٍ يَّنۡسِلُوۡنَ*
اور بستی (یروشلم) کہ جسکو ہم نے ہلاک کر دیا تھا اس پر حرام ہے کہ (اس سے نکالے جانیوالے) اس میں اس وقت تک نہیں لوٹ سکتے کہ جب تک یاجوج و ماجوج اپنے خروج کے بعد ہر بلندی (قوت کے مراکز) پر فائز نہ ہو جائیں ۔ الانبیاء 95 ۔ 96
یروشلم جو کہ یہود پر تقریبا 1900 سال تک حرام رہا آج وہ یہود یروشلیم میں واپس آ چکے ہیں اور قرآن کے مطابق اگر ہم ان یہود کو واپس یروشلم لانے والے ہاتھوں کو تلاش کر لیں گے تو نہ صرف یاجوج و ماجوج تک پہنچ جائیں گے بلکہ دنیا میں فساد کے زمہ داران کا تعیّن کرنا بھی آسان ہو جائیگا۔
قرآن کیساتھ احادیث رسولﷺ نے آخر الزماں کے جن بڑے کرداروں کا ذکر کیا ان کے بارے میں بھی تھوڑے تدبر سے کچھ قیاس کیا جا سکتا ہے:
رسول اللّٰہﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ ہرمیجیدون میں آپکا آخری معرکہ رومیوں سے ہو گا کہ جہاں 40 جھنڈوں کہ جسمیں ہر جھنڈے کے نیچے 8,000 فوجی ہونگے۔
آج 32 ممالک نیٹو ممبر ہیں اور بہت سے نئے یورپی ممالک نیٹو ممبرشپ کیلئے تیار ہیں کیا شائد یہی وہ فورس ہے کہ جس سے عنقریب ہمارا مقابلہ ہونیوالا ہے ؟
"ابو محمد جولانی" شام کے ایک نئے اسلام پسند حکمران ہیں کہ جنکے ابھی تک کے کسی ایک عمل سے بھی اسرائیل کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی کیا یہی یا انہی افواج میں "صفیانی" نامی کردار کہ جو سیدنا مہندی کے خلاف افواج بھیجے گا کو تلاش کیا جا سکتا ہے ؟
رسول اللّٰہﷺ کے فرمان مبارک کے مطابق خلیفہ کی وفات کے بعد قیادت کیلئے اسکے بیٹوں میں جھگڑا ہو گا اور یہی وہ وقت ہو گا کہ جب سیّدنا مہدی کا ظہور ہو گا۔
کیا 89 سالہ سعودی بادشاہ میں اس خلیفہ کو دیکھا جا سکتا ؟
یہودی ربائیوں کی دجال سے ملاقات کی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔
یاجوج و ماجوج کے خروج پر قرآن کی وضاحت پر بات ہو چکی اور شام بھی فسادات کا شکار ہے ۔۔۔۔
دنیا کا سب سے طاقتور انسان امریکی صدر آج ایک ایسا شخص نامزد ہو چکا ہے کہ جو مسجد اقصیٰ کی جگہ ھیکل سلیمانی کی تعمیر کو عبادت سمجھتا ہے۔
میں نہیں جانتا کہ آرمیگڈون کا بغل کب بجے گا، سیدنا مہدی و دجال کا ظہور کب ہو گا مگر میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ آخر الزماں کے بڑے واقعات کے آغاز کا آغاز ضرور ہو چکا ہے۔
اسکے علاؤہ بھی واقعات کا ایک تسلسل ہے جو بہت بہت تیزی سے وقوع پزیر ہو رہے ہیں اور ان سب کا تعلق درحقیقت حق و باطل کی اسی ایک ہی لڑائی سے ہے چاہے بات مودی ٹرمپ ملاقات کی ہو، انڈیا کیلئے F.35 فائٹر کی منظوری ہو، پاکستان کے موجودہ حالات ہوں یا پھر ترکی صدر اردگان کے پاکستان کا وزٹ ہو یہ سب ایک ہی کہانی کا تسلسل ہیں کہ جن پر بات ہوتی رہے گی مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ساریے حالات و واقعات سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ شیطانی فورسز اسلام پر غالب آ چکی ہیں آخری منزل بحرحال غلبہ اسلام ہی کی ہے کہ درحقیقت جسکا آغاز بھی ہو چکا ہے اور اسی پر اپنی بات کا اختتام کرتے ہیں کہ آج دنیا عالمی طاقتوں کے ایک بڑے ٹکراؤ کے قریب ترین کھڑی ہے اور تاریخ شاہد ہے جب بھی عالمی عالمی طاقتیں ٹکرائی ہیں ایک تیسری قوت ہی ابھر کر آئی ہے۔
ابتداء اسلام میں جب روم و فارس آپس میں دست و گریباں تھے تو اس ماحول میں اسلام کو پنپنے کا موقع ملا کہ جسکا نتیجہ مسلمانوں کے ہاتھوں روم و ایران کی فتح کے نتیجے پر نکلا۔
جب ترک سلجوق منگولوں سے ٹکرائے تو عثمانی ترک فاتح بن کر نکلے اور تین براعظموں پر سات سو سال حکمرانی کی۔
امریکہ و سویت یونین جب آپس کی کولڈ وار میں حد درجہ مصروف تھے تو چائنہ لڑکھڑاتا ہوا ایسا ترقی کے راستے پر چڑھا کہ آج روس اسکا ہمنواہ اور امریکہ ہم پلہ دشمن ہے۔
اور آج ایک بار پھر مغرب چین و روس کیخلاف سرگرم ہے اور یقین رکھیے یہیں سے اسلام کو ایک بار پھر سر اٹھانے کا موقع ملے گا اور اپنے غلبے کی معراج کو پہنچے گا۔
*آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں*
*محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی*
*شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے*
*یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے*
*" ۞ *وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ* ۞
۞آئیے اسلام کے حقیقی تصور کو دوبارہ اجاگر کرنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۞
طالبِ دُعا؛ سجّاد اَحمد مُحمّد
*"سچ کے اس سفر میں ہمارا ساتھ دیجئے"