UNVEILER GUNPAL
UNVEILER GUNPAL
February 14, 2025 at 08:38 AM
کلیسا مولوی راہب پجاری کلس مینار بت محراب دریا خدا کو ٹھونڈ دیکھا ہر جگہ پہ مگر ان کے کسی کوچہ نہ قریہ مِہر مزھب کے سارے کاہنوں کی نہ جانے قید ہے رب کس نگریا کیا یہ جہالت نہیں کہ ایک چپڑاسی سے وزیراعظم ایک سپاہی سے جرنیل تک، ہر شخص ہر سال کک بیکس کمیشن رشوت ، ڈکیتی، چوری، قتل و غارت، ناجائز قبضے، جھوٹے مقدمات، زنا، حرام کاری، سمگلنگ، قحبہ خانہ اور جوئے کے دھندے کرتا رہے، مگر جب شبِ معراج یا لیلۃ القدر آئے تو صرف چند نوافل پڑھ کر، کچھ روزے رکھ کر، چند حج اور عمرے کرکے، داتا صاحب کے دربار پر چند دیگیں چڑھا کر اپنے تمام گناہ معاف کروا لے؟ وہ گناہ جو اسے ان لوگوں سے معاف کروانے چاہیے تھے جن کا اس نے حق مارا تھا، جن پر اس نے ظلم کیا تھا۔ کیا اللہ اتنا بے انصاف ہو سکتا ہے کہ ہر ظالم، چور، رہزن اور لٹیرا بغیر کسی حساب کے محض ایک رات کی عبادت کے عوض بخش دیا جائے؟ اگر ایسا ہوتا تو پھر قیامت کے دن عدل کی کیا ضرورت؟ پھر دنیا میں عدالتوں اور انصاف کے نظام کی کیا حاجت؟ جب مجرم نے بغیر کسی مقدمے کے محض چند نوافل پڑھ کر اور چند وظائف کرکے اپنے جرائم معاف کروانے ہیں، تو پھر عدل کا سارا تصور ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بخشش کی "سیل" صرف مسلمانوں کے لیے لگی ہوئی ہے اور باقی غیر مسلموں کو خدا اس "ڈسکاؤنٹ پلان" سے فائدہ نہیں دینا چاہتا۔ حالانکہ ہم نے سنا ہے کہ اللہ "رحمت اللعالمین" ہے، تو پھر وہ صرف مسلمانوں کی بخشش کا انتظام کرنے والا سہولت کار کیوں بن گیا؟ اگر اللہ نے اگلے سال کی قسمت ایک رات میں لکھنی ہے، تو کیا وہ اس قسمت میں حلال رزق نہیں لکھ سکتا تھا؟ مگر جب ہر نمازی، حاجی، قاری صاحب پورا سال حرام کماتے اور کھاتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اس ایک رات اللہ خوش نہیں ہوا، اسی لیے اس نے انہیں معافی دینے کے بجائے اگلے سال کے لیے مزید حرام رزق لکھ دیا۔ اگر اللہ چاہتا تو حلال رزق بھی لکھ سکتا تھا، مگر جب ہم خود یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ "یہ اللہ کا دیا ہوا رزق ہے" اور ساتھ ہی وہ حرام میں لپٹا ہوتا ہے، تو پھر ہم اللہ کو اپنے جرم میں شریک کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم اللہ کی بڑائی بیان کرنے کے بجائے اسے بدنام کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ نے تقدیر بندے کے ہاتھ میں رکھی ہے، اور رزق محض محنت سے ہی ملتا ہے، نہ کہ گھر بیٹھے نوافل، درود اور وظائف کرنے سے۔ ایسا رزق صرف ان آستانوں پر بیٹھے پیروں اور مسجدوں میں بیٹھے لکیر کے فقیروں ان ملاؤں کو مل سکتا ہے جو مذہب کے خوف، پیروں کی ناراضگی کے خوف، اور جہنم کے خوف میں ڈال کر لوگوں سے خوب دھن مال دولت نوٹ اور ووٹ کماتے ہیں، نذرانوں، خیرات، صدقات اور چندوں کے ذریعے۔ انسان ہوش کرے، حلال کمائے، حلال کھائے اور دوسروں کو کھلائے۔ وظائف اور نوافل کے بجائے اپنے اعمال سے خود کو بچائے۔ خدارا اذان مِہر سے ۔ مِہر کی اذان سنیے۔ اسم ء خدا کو جوڑ مالِ غریب کھائیں کلمے کی اوڑ سیکھے الحاج نے قرینے بہتے ہیں آگ دریا ہر خضر کی نگریا افلاک پہ نہ آئے مالک تجھے پسینے تاتاریوں کا لشکرسنساریوں کے پیچھے پیشہ ہے جن کا خونی آے ہیں خون پینے ‏ ‏ بے دین سارے دینے سینوں میں لے کے کینے مردار کھا کے سارے کعبے چلے ہیں جینے سارے نظام سقے یوں جا رہے ہیں مکے ‏ کھاے حقوق میرے بخشائیں گےمدینے دودھوں ملا کے پانی داڑھی سجاے جانی مسکین کو نہ بخشیں ایمان کے نابینے ‏ ‏ بے عمل مسلماں سے ‏ اچھے ہیں مِہر کافر انصاف کے سمندر جن کے چلیں سفینے شکریہ، مہر لیاقت گنپال

Comments