
Urdu Writers Society of Kashmir
February 24, 2025 at 02:44 PM
دلّی سے دوستی
مصلحت ،مجبوری یا سمجھوتہ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلّی نے د ل سے اپنایانہ کوئی وعدہ نبھایا
عمر حکومت کے چا رماہ مایوسی سے عبارت،مسائل جوں کے توں!
رہبر ڈیسک
وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کہتے ہیںکہ ان کی جانب سے آنے والے بجٹ اجلاس میں پیش کیاجانے والا بجٹ بنیاد ہے ،حل نہیں ہے اور مسائل کا حل آنے والوں پانچ برسوں میںہوگا او ر اس بجٹ کے ذریعے اس کی بنیاد ڈالی جائے گی ۔جمعہ کو سرینگرمیں نامہ نگاروں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ انہیں پانچ سال کا منڈیٹ ملا ہے اور ایسا نہیںہے کہ سارے مسائل پہلے ہی بجٹ میں حل ہوجائیںگے لیکن ایک ٹھوس شروعات کی جائے گی اور مرحلہ وار بنیادوںپر مسائل حل کئے جائیںگے۔
سیاسی مبصرین وزیراعلیٰ کے اس بیان کو اُن کے حالیہ بی بی سی انٹرویو کے تناظرمیں انتہائی اہم سمجھتے ہیںکیونکہ اُس انٹرویو میں بھی عمر عبداللہ نے کم و بیش ایسے ہی خیالات کا اظہار کیاتھا اور کسی بھی ایک مسئلہ پرسینہ ٹھوک کر یہ نہیں کہاتھا کہ یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعلیٰ مسائل کو کھینچنا چاہتے ہیںکیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بھلے ہی انہوںنے اپنے چنائو منشور میں عوام سے بے پناہ وعدے کئے لیکن یہ وعدے وفا کرنا اتنا آسان نہیںہیں۔اب وزیراعلیٰ ان وعدوں کو بھی یوٹی اور سٹیٹ کے زاویہ سے دیکھنا شروع کرچکے ہیں اور ایک نیا بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کچھ وعدے بلا شبہ یوٹی میں پورے ہوسکتے ہیں لیکن کچھ وعدوں کیلئے سٹیٹ ضروری ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امن وقانون کی صورتحال پر وزیراعلیٰ کا کوئی اختیار نہیںہے اور وہ برا ہ راست لیفٹیننٹ گورنر کے ہاتھ میں ہے ۔ایسے میں وزیراعلیٰ نہ ہی سیاسی قیدیوںکی رہائی سے متعلق کیا گیا وعدہ فی الحال نبھاسکتے ہیں اور نہ ہی وہ پبلک سیفٹی ایکٹ منسوخ کرسکتے ہیں لیکن دیگر کم و کم سبھی وعدوں کا تعلق عوامی حکومت سے ہے اور عمر عبداللہ یوٹی درجہ کے پیچھے نہیں چھپ سکتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جو بھاری منڈیٹ نیشنل کانفرنس کو ملا ہے ،وہ محض اقتدار کے مزے اٹھانے کیلئے نہیںملا ہے بلکہ عوام نے اپنی مشکلات کے ازالہ کیلئے عمر سرکار کو ووٹ دیا ہے اور اس حکومت کو وہ وعدے وفا کرنا ہی ہونگے ۔فی الحال عمر عبداللہ حکومت اُنہی پالیسیوں اور پروگراموںکو آگے بڑھا رہی ہے ،جو گورنر راج میں یہاں شروع ہوئے تھے اور جن بھی کاموں کا افتتاح کیاجارہا ہے ،یا سنگ بنیاد رکھا جارہا ہے ،وہ بھی پہلے ہی زیر عمل تھیں یا
ان کی منصوبہ بندی ہوچکی تھی ،تو اس صورتحال میں وہ کریڈٹ لینا چاہیں تو کس بات کا ؟۔
عمر عبداللہ اور اُن کی کابینہ کے علاوہ اُن کی جماعت کے لوگ یہ کہتے تھکتے بھی نہیں ہیں کہ انہوںنے روزگار کا عمل شروع کیا جس کا وعدہ انہوںنے چنائو منشور میں کیاتھا لیکن کیا عمر عبداللہ حکومت سے پوچھا جاسکتا ہے کہ انہوںنے اس ضمن میںکون سے ٹھوس اقدامات اٹھانا شروع کئے ۔جن چند ہزار پوسٹوںکو انہوںنے بھرتی ایجنسیوں کو ریفر کیا،وہ ایک معمول کا عمل تھا اور وہ آج نہیںتو کل بھرتی ہونے ہی تھے لیکن آئوٹ آف باکس انہوںنے کیا ؟۔مبصرین حیران ہیں کہ کس روزگار کی باتیں کی جارہی ہیں جب زمینی سطح پر روزگار کی فراہمی کیلئے عملی طور کچھ کیا ہی نہیں جارہا ہے ۔سرکاری محکموں میںایک لاکھ کے قریب اسامیاں خالی ہیں،اگر روزگار کی اتنی ہی فکر ہوتی تو ان ایک لاکھ اسامیوں کو بیک وقت مشتہر کرکے فاسٹ ٹریک بنیادوںپر بھرتی کا عمل شرو ع کیاجاتا لیکن یہاں الٹا معاملات کچھوے کی چال چل رہے ہیں اور بھرتی کا عمل بالکل اُسی طرح سست ہے جس طرح پہلے ہوا کرتا تھا۔اتنا نہیں ،اس کیلئے مزید اسامیاں تخلیق کرنے کی ضرورت تھی تاکہ روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوتے لیکن اس ضمن میں بھی کچھ نہیں کیاجارہا ہے۔سب جانتے ہیں کہ جموںوکشمیر میں پرائیوٹ سیکٹر نا کے برابر ہے اور یہاں روزگار کا سب سے بڑا وسیلہ سرکاری سیکٹر ہے لیکن جب سرکاری سیکٹر میں روزگار کی فراہمی کا یہ حال ہو تو بے روزگار نوجوانوںکا خدا ہی حافظ ہے ۔اب جہاں تک نجی سیکٹر میں روزگار فراہم کرنے کی بات ہے تو اس ضمن میں بھی ابھی ساری پرانی سکیموں سے ہی کام چلا یا جارہا ہے اور کسی ایک بھی نئی سکیم کا اعلان نہیں کیاگیا جس سے یہ لگتاکہ حکومت روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں سنجیدہ ہے ۔
اسی طرح ایک اور کامیابی ،جس پر عمر عبداللہ حکومت فخر کرتی ہے ،وہ تعلیمی سیشن کی تبدیلی ہے ۔بلاشبہ کشمیر مارچ سیشن کشمیر کے موسمی اور جغرافیائی ماحول سے میل نہیں کھاتا تھا اور وہ ایک زبردستی تھوپا گیا فیصلہ تھا تاہم یہ بھی سچ ہے کہ تعلیمی سیشن کی تبدیلی چنائو منشور میں تھی ہی نہیں اور اگر یہ فیصلہ کیابھی گیا تو اس سے کوئی انقلاب نہیں آیا کیونکہ یہ محض ایک انتظامی فیصلہ تھا جس میں کوئی مالی مسائل حائل نہ تھے ۔تعلیمی سیشن کی تبدیلی سے بلا شبہ نویں جماعت تک طلاب کو راحت ملی لیکن اگر فوری طور یہ نہ بھی ہوتا تو کوئی بڑا انقلاب نہیں آتا اور طالب علم مارچ سیشن میں امتحان دیتے جس طرح پچھلے سال دیاتھا ۔اب اس کو اپنی کامیابی سے تعبیر کرنا ہضم نہیںہوتا ہے کیونکہ اس کا مجموعی طور عوام کو کوئی راحت نہیں ملا اور نہ ہی اُن وعدوںکی وفائی ہوئی جو ان کے ساتھ کئے گئے تھے۔
آج جب کہا جارہا ہے کہ پانچ سال کا منڈیٹ ملا ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ عوام کو وعدوں کی وفائی کیلئے پانچ سال انتظار کرنا پڑے گا۔نیشنل کانفرنس کے چنائو منشور میں باضابطہ کہاگیا ہے کہ کون سے وعدے فوری طور وفا کئے جائیںگے اور کن میں وقت لگے گا لیکن فی الحال کوئی وعدہ وفا نہیں ہورہا ہے ۔اس ضمن میں سب سے بڑا وعدہ دو سو یونٹ مفت بجلی کا تھا ۔حکومتی ذرائع کے مطابق صرف یہ ایک وعدہ پورا کرنے کیلئے حکومت کو سالانہ 1200کروڑ روپے کا بندو بست کرناپڑے گا لیکن سرکار کی حالت یہ ہے کہ خزانہ خالی ہے ۔یہاں 12000کروڑ روپے کے واجبات ہیں ۔سرکار ی ملازمت سے سبکدوش ہونے والے ملازمین کی جی پی فنڈ،گریجویٹی ،لیو سیلری اور سٹیٹ لائف انشورنس کے مد میں اپریل2024سے کوئی ادائیگی نہیں کی گئی ہے اور حد تو یہ ہے کہ تین فیصد مہنگائی بھتہ کی معمولی سی رقم بھی ڈیمانڈ میں بھیجی جارہی ہے اور وہ بھی ان ملازمین کو ادا نہیں کی جارہی ہے ۔جب صورتحال یہ ہو کہ ملازمین کو اُنکا اپنا پیسہ ایک سال سے نہیں دیاجارہا ہو اور انہیں
ایک ایک پیسے کیلئے ترسایا جارہا ہو تو ان حالات میں سالانہ مزید12سو کروڑ روپے کا بندو بست کہاں ہو پائے گاحالانکہ یہ وہ وعدہ تھا جو سرکار کو فوری طور پورا کرنا تھا ۔اب کہا جارہا ہے کہ مارچ کے بعد اس پر عمل ہوگا تو یہی سمجھا جارہا تھا کہ شاید بجٹ میں ا س کا اعلان ہوگا تاہم جس طرح عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ بجٹ محض بنیاد ہوگا ،حل نہیںہوگا تو یہ امیدیں بھی دم توڑنے لگی ہیں۔
اسی طرح راشن کوٹا دوگنا کرنے اور چینی و تیل خاکی کی سپلائی کا نظام دوبار ہ شروع کرنے کا وعدہ کیاگیاتھا تاہم اس ضمن میں بھی ابھی تک کچھ نہیںہوا ۔گوکہ وزیر خوراک و رسدات ستیش شرما نے جنوری کی ڈیڈلائن دی تھی تاہم فروری ختم ہونے کو ہے ،اور ابھی تک اس ضمن میں کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی ۔صارفین کو نہ ہی مفت راشن دوگنا ملا اور نہ ہی چینی یا تیل خاکی کی سپلائی دوبارہ شروع کی گئی ۔ظاہر یہ ہے کہ یہ وعدہ وفا کرنے میں بھی مالیاتی دشواریاں ہیں کیونکہ عمر عبداللہ حکومت کو مرکز سے یا فوڈ کارپوریشن آف انڈیا سے صرف اتنا ہی راشن ملے گا،جو نفسا کے تحت موجودہ راشن کارڈوںکو ملتاہے اور اضافی راشن کا بندوبست عمر حکومت کو اوپن مارکیٹ سے کرنا پڑیگا جس کیلئے زر کثیر درکار ہے تاہم خزانہ خالی ہے اور سرکار اس وقت12ہزار کروڑ روپے کی صرف ملازمین اور ٹھیکیداروںکی مقروض ہے۔جب خزانہ کی ایسی پتلی حالت ہو کہ ایک ایک سال سے بلوںکی ادائیگی ٹریجریوںسے نہیں ہوپارہی ہو،تو اس صورتحال میں راشن ،چینی یا تیل خاکی کیلئے مزید پیسے کا بندو بست کرنا ناممکن ہی لگتا ہے۔
اسی طرح اوپن میرٹ امیدواروںکے حقوق پر شب خون مارنے والی موجودہ ریزرویشن پالیسی پر نظر ثانی کا وعدہ کیاگیا تھا تاہم اپنے ہی ممبر پارلیمنٹ آغاروح اللہ کے دبائو کے باوجود اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں ہورہی ہے ۔بلا شبہ کابینہ سب کمیٹی بنائی گئی ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ وہ عوام کی آنکھوںمیں دھول جھونکنے کیلئے بنائی گئی ہے کیونکہ حکومت کے اندر ریزرویشن پالیسی میں نظر ثانی کرنے پر شدید ناراضگی پائی جارہی ہے ۔اب تو خود عمر عبداللہ اس معاملہ کو عدالتوں کے بھروسے چھوڑے جارہے ہیں اور بی بی سی انٹرویو میں انہوںنے برملا کہا کہ یہ معاملہ عدالت کے زیر غورہے تو کیا اس کا یہ مطلب لیاجائے کہ سرکار اپنے بل پر اس اہم مسئلہ پر کوئی فیصلہ نہ لیکر اس کو عدالتوں پر ہی چھوڑنے جارہی ہے حالانکہ عمر عبداللہ کو ووٹوںکا غالب حصہ اوپن میرٹ سے ہی ملا ہے ۔
انتظامی معاملات کے علاوہ سیاسی معاملات پر بھی یوٹرن لیاجارہا ہے ۔چنائو منشور میں کہاگیاتھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہندوپاک مذاکرات کی بحالی کی وکالت کی جائے گی لیکن حالیہ بی بی سی انٹرویو میں عمر عبداللہ نے بنا کسی لگی لپٹی کے کہا کہ موجودہ حالات میں جب پاکستان کی جانب سے جموںوکشمیر میں درپردہ ملی ٹینسی کی پشت پناہی جاری ہے ،بات چیت کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے ۔بہ الفاظ دیگر انہوںنے بھی وہی لائن اختیار کی ،جو اس وقت مرکزی حکومت کی ہے اور دونوںکے مواقف میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آرہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خارجہ امور ہم نے 1947میں اُس وقت سرینڈر کئے جب شیخ محمد عبداللہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا اور اُس کے بعد اس مسئلہ پر بات کرنے کا اختیار بھی ہم سے اُس وقت چھن گیا جب ہماری نیم خودمختاری بھی 5اگست2019کو چھینی گئی تو اب خارجہ امور پر بات کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بچتا ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہندوپاک کشیدگی کے سب سے زیادہ متاثر جموںوکشمیر کے لوگ ہیں لیکن یہ بھی اتنی ہی سچائی ہے کہ ہم اس مسئلہ پر بات نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ہم نے بات کرنے کا اختیار 1947میں ہی دلّی کو
سونپا ہے ۔اب جب اس مسئلہ پر بات کی جاتی ہے تو یہ محض مقامی سطح پر عوامی جذبات کو ایڈرس کرنے کی کوشش ہوتی ہے حالانکہ بات کرنے والے خود بھی جانتے ہیں کہ ان کی کوئی سننے والا نہیں ہے ۔
اس پر طرہ یہ کہ موجودہ حکومت مرکزی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کی وکالت کررہی ہے حالانکہ خود یہ بھی کہتی ہے کہ انہیں اس حکومت سے کچھ زیادہ ملنے کی امید نہیں ہے لیکن اس کے باوجود دوستی کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں اور مودی کے حق میں قصیدے پڑھے جارہے ہیں ۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نیشنل کانفرنس کو منڈیٹ بی جے پی پالیسیوں اور ان کی حرکات کے خلاف ملا ہے ،تو اسی بی جے پی کے ساتھ قربت پیدا کرنے کا جواز کہاںسے بنتا ہے؟۔ اس میں کوئی دورائے نہیںکہ جموںوکشمیر کو مرکز سے رقوم ملنے ہیں لیکن کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ وہ رقوم ویسے بھی ملنے ہیں۔اگر عمر عبداللہ کا مرکز کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے رکھنے کا اتنا ہی اثرہوتا تو اس سال مرکزی بجٹ میں جموںوکشمیر کیلئے مختص رقوم میں گزشتہ برس کے مقابلے میں1000کروڑ روپے کی کمی نہیں کی گئی ہوتی ۔عموماً ہوتایہ ہے کہ ہر سال ایسے رقوم میں اضافہ ہوتا ہے لیکن شاید پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ رقوم میں ماضی کی نسبت بھاری کمی کی گئی ۔کیا یہ عمر عبداللہ حکومت کو آئینہ دکھانے کی کوشش نہیں تھی؟۔جائزہ نگار کہتے ہیں کہ یہ عمر حکومت کیلئے واضح پیغام تھا کہ بھلے ہی دلّی کے نزدیک جانے کی کتنی بھی کوششیں کیوں نہ کریںلیکن اُنہیں گھاس نہیں ڈالی جائے گی اور قدم قدم پر ان کیلئے مشکلات پیدا کی جائیں گی ۔ظاہر ہے کہ ایک ہزارکروڑ روپے کی کمی کرکے جموںوکشمیر کے ترقیاتی بجٹ کو ہدف بنایاگیا اور عمر حکومت کے ہاتھ مزید ٹائٹ کئے گئے ،اس کے باوجود بھی عمر عبداللہ دلّی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے قصیدہ خوانی کرتے رہیں تو بات سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔
جائزہ نگاروںکا ماننا ہے کہ جن حالات میںاور جن مدعوںپر عمر عبداللہ حکومت کو عوامی منڈیٹ ملا ہے ،وہ بالکل اس سوچ کے منافی ہیں اور وہ منڈیٹ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ زیاد موثر اندازمیں اور زیادہ زور سے ریاستی مفادات کی بات کی جاتی لیکن فی الحال چار ماہ میںایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ایسالگ رہا ہے کہ عمر عبداللہ نے دلّی سے دوستی کرنے کا من بنالیا ہے اور وہ کسی طرح اپنی حکومت چلانا چاہتے ہیں جبکہ حساس معاملات میں وہ یہ کہہ کر بچ نکلنے کی صاف کوشش کررہے ہیں کہ امن وقانون کا مسئلہ ان کے ڈومین میں نہیںہے ۔حالیہ سوپور اورکٹھوعہ ہلاکتیں اس بات کا بین ثبوت ہے کہ عمر عبداللہ حکومت سنگین معالات میں دامن بچانے کی کوشش کرتی ہے اور ایل جی انتظامیہ کے ماتھے سب کچھ تھوپ کر خودکسی تنازعہ میں پڑے بغیر حکومت کرنا چاہتی ہے حالانکہ اس کا قطعی انہیں منڈیٹ نہیں ملا ہے بلکہ انہیں منڈیٹ دلّی کی آنکھوںمیں آنکھوں ڈال کر اپنی بات کرنے کا ملا ہے تاہم فی الحال ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان نظر آرہا ہے کیونکہ بادی النظر میں عمر عبداللہ حکومت نے موجودہ حالات سے سمجھوتہ کرلیا ہے اور وہ محض مناسب موقعہ کا انتظار کررہے ہیںکہ کب دلّی کا دل بھر آئے اوروہ ریاستی درجہ بحال کریں لیکن اپنے طور سے و ہ اس کیلئے کوئی جدوجہد کرنے کے موڑ میں نظر نہیں آرہے ہیں جو عوامی منڈیٹ کے ساتھ سراسر دھوکہ بازی ہے ۔