غازی میڈیا نیٹورک
February 21, 2025 at 10:54 AM
جامعہ حفصہ کے خلاف ریاستی جبر کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ۔
پاکستان کی تاریخ میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے واقعات ریاستی جبر، ظلم اور وحشت کی علامت کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں بدنام زمانہ ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے دورِ حکومت میں لال مسجد پر ہونے والے سفاک آپریشن نے نہ صرف ملکی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کو داغدار کیا اس ظالمانہ آپریشن میں مولانا عبدالرشید غازی سمیت سینکڑوں معصوم طلبہ شہید کیے گئے، جن کا جرم صرف مذہبی تعلیم حاصل کرنا یا اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرنا تھا، اس ظلم نے پاکستان میں اسلام پسندوں کے دلوں میں جذبۂ جہاد کو مزید تقویت دی اور ملک کے اندر ایک انقلاب کی بنیاد رکھی ۔
دو دن قبل جامعہ حفصہ کی پرنسپل امِ حسان صاحبہ کی بلاجواز گرفتاری نے ایک بار پھر ریاستی جبر کی یاد تازہ کر دی ہے۔ یہ گرفتاری ایسے وقت میں عمل میں آئی جب ملک پہلے ہی لال مسجد جیسے واقعات کے نتیجے میں جنگ زدہ ہے۔ ریاستی اداروں کی جانب سے جامعہ حفصہ اور اس سے منسلک شخصیات کے خلاف اقدامات اس تاثر کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ ریاست اسلام پسندوں یا اسلامی نظام کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ اقدامات کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں اور ان کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ۔
انتقام کا جذبہ بیدار ہوگا:
2007 کے لال مسجد آپریشن کے بعد مجاہدین اور جہادی تحریکوں نے ریاستی مظالم کا انتقام لینے کے لیے بھرپور کارروائیاں کیں اگر ریاست کی جانب سے موجودہ اقدامات میں بھی ظلم و جبر کا یہی سلسلہ جاری رہا تو مجاہدین دوبارہ جذبۂ انتقام سے سرشار ہو کر ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے میدان میں اتریں گے جو ریاست کے لیے کسی طور نیک شگون نہیں ہوگا ۔
ملکی سالمیت کو خطرہ:
ماضی میں اس قسم کے اقدامات نے پاکستان کے اندرونی حالات کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا اب ریاست دوبارہ اس طرح کی کارروائیاں کر کے ایک ایسی آگ کو ہوا دینا چاہتی ہے جو ملکی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے ۔
بین الاقوامی سطح پر ساکھ کا متاثر ہونا ۔
انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں اور ریاستی جبر کے باعث پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ مزید متاثر ہو سکتی ہے اگرچہ پیڈ (Paid) انسانی حقوق کی تنظیمیں اکثر ریاستی مظالم میں حکومتوں کی شراکت دار ہوتی ہیں، مگر سوشل میڈیا کے اس دور میں عام عوام اور سول سوسائٹی کے نزدیک ایک جابرانہ ریاست کا وحشیانہ چہرہ مزید بے نقاب ہوگا ۔
سیاسی اور سماجی انتشار ۔
ان ظالمانہ اقدامات سے ملک کے اندر سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں میں شدید اختلافات پیدا ہوں گے جو سماجی انتشار کو جنم دے کر ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں پاکستان پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، اور ریاستی اداروں بالخصوص فوج اور اس کے ذیلی اداروں کے خلاف بغاوت کا رجحان بڑھ رہا ہے ایسے اقدامات اس عمل کو مزید تیز کر دیں گے ۔
ریاست کا بنیادی فرض اپنے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور ان کے آئینی حقوق کی پاسداری ہے لیکن افسوس کہ حکومت نے ایک بار پھر طاقت کے وحشیانہ استعمال کا راستہ اختیار کیا ہے امِ حسان صاحبہ کی بلاجواز گرفتاری اور جامعہ حفصہ کے خلاف جاری کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ریاستی ادارے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں، مذہبی حلقوں میں اس ظلم کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جو مستقبل میں خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے ۔
اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ مولانا عبدالعزیز غازی یا ان کا خاندان تنہا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے کیونکہ پاکستان کے تمام اسلام پسند، بالخصوص مجاہدین مولانا صاحب اور ان کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے خلاف ہر ریاستی جبر کا بھرپور جواب دیا جائے گا ۔
غازی میڈیا نیٹ ورک
#جمعہ
22 شعبان المعظم 1446 ھ ق/ بمطابق 21 فروری 2025
❤️
1