
دربار عالیہ پیر پھٹان تحریک لبیک یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم
February 25, 2025 at 04:11 AM
*تہجد اور تراویح میں فرق کا ثبوت*
پہلے سرسری جائزہ حوالہ جات کے ساتھ»
*(1) مآخذ Sources کا فرق:*
تہجد قرآن سے ثابت ہے۔
[سورۃ الاسراء:79، المزمل:2]
اور تراویح سنت سے ثابت ہے۔
[ابن ماجه:1328، نسائی:2210]
*(2) مکان کا فرق:*
تہجد مکّہ مکرمہ میں مشروع ہوئی، تراویح مدینہ منورہ میں۔
*(3) زمانہ کا فرق:*
تہجد ہجرت سے پہلے مشروع ہوئی، تراویح بعد میں۔
*(4) درجہ کا فرق:*
تہجد پہلے فرض پھر 12 ماہ بعد اس کی فرضیت امت پر منسوخ ہوکر نفل رہی۔[ابوداؤد:1342،تفسیر سورۃ المزمل:20]
تراویح فرض نہیں ہوئی۔[بیہقی:7955]
بلکہ سنت رہی۔[نسائی:2210]
*(5) جماعت:*
تہجد میں اصل (عادت) بغیر جماعت پڑھنا ہے۔[بخاری:1147]
تراویح میں جماعت سنتِ مؤکدہ کفایۃ ہے۔ [الروض المربع:ص65]
*(6) ساری رات:*
تہجد کیلئے ثابت نہیں [سورۃ المزمل:3+20] اور تراویح کیلئے رمضان کے سوا کسی ایک رات میں بھی صبح تک ساری رات نماز پڑھنا معلوم نہیں [نسائی:2348]
*(7) مہینہ کا فرق:*
تہجد رمضان اور غیر رمضان میں بھی پڑھی جاتی ہے۔ [بخاری:1147]
تراویح فقط رمضان میں پڑھی جاتی ہے۔ [بخاری:37]
*(8) مقدارِ قرأۃ کا فرق:*
تراویح میں ایک مرتبہ پورا قرآن مجید ختم کرنا خلفاء راشدین کی سنت ہے جبکہ تہجد میں قرأۃ کی کوئی مقدار متعین نہیں۔۔۔ تو پڑھو جتنا آسان ہو قرآن میں سے۔۔۔ [سورۃ المزمل:20]
*(9) جگہ کا فرق:*
نبی ﷺ تہجد گھر میں ادا کرتے۔
[بخاری، کتاب التھجد : حدیث#1147]
اور تراویح مسجد میں پڑھائی۔
[بخاری، کتاب الصلاۃ التراویح،حدیث#2012]
*(10) تعینِِ رکعات کا فرق:*
نماز تہجد کی رکعات متعین نہیں ہیں بلکہ وقت کی گنجائش اور اپنی ہمت کے مطابق وتروں کے علاوہ 2 یا 4 یا 6 یا 8 یا 10 رکعت تک پڑھ سکتے ہیں۔[مسلم:737-738]
اور تراویح کی تعداد فریقین کے نزدیک متعین ہے 20 یا 8 سے کم/زیادہ نہیں۔
جبکہ
سلفِ صالحین میں سے کسی صحابی یا امام کا عمل 20 رکعت سے کم تراویح نہیں تھا۔
[ترمذی:806]
*(11) نیند کا وقفہ*
نبی ﷺ کا تہجد اور وتروں کے درمیان سونا ثابت ہے۔
[بخاری:1147،مسلم:738]
مگر
تراویح میں اور وتروں کے درمیان سونا ثابت نہیں کہ حدیث میں ہے:
۔۔۔جب رمضان شروع ہوتا تو آپ ﷺ اس کے گزرنے تک بستر پر قدم نہ رکھتے۔
[صحیح ابن خزیمۃ:2216]
*(12) وتروں کی جماعت*
تہجد کے بعد ثابت نہیں، تراویح کے بعد پڑھانا خلفاء راشدین کی سنت ہے۔[بیہقی:4289-4290]
*(13) وقت کا فرق:*
رسول الله ﷺ رات کے اول حصہ میں سوتے اور آخر حصہ میں (نیند سے اٹھکر) تہجد پڑھتے۔
[بخاری:1146، سورۃ المزمل:6]
جبکہ تراویح اول رات سے پڑھی جاتی رہی ہے۔
[بخاری:2010]
*علمائے اہل حدیث کا فتوی:*
تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد اول رات کا ہے، اور تہجد کا آخر رات کا۔
[فتاویٰ علمائے حدیث: ج٦، ص٢٥١]
جو شخص رمضان میں عشاء کے وقت نماز تراویح پڑھ لے وہ آخر وقت میں تہجد پڑھ سکتا ہے۔۔۔اول شب میں تہجد نہیں ہوتی۔
[فتاویٰ علمائے حدیث: ٦/ ٣٣١]
*(14) نام کا فرق:*
یہ وتر کی طرح رات کی نمازیں ہیں، پر احادیث کی کتابوں میں ان کے ناموں کی طرح "کتاب" بھی جدا جدا لکھے گئے۔
جیسے:
[صحیح بخاری:1120-1187، کتاب التھجد]
[صحیح بخاری:2008-2013، کتاب الصلاۃ التراویح]
*(15) موضوع کا فرق:*
ان کے کتاب کی طرح باب بھی جدا جدا ہیں، لہذا یہ دونوں نمازیں ایک نہیں۔
[صحیح بخاری (باب فضل قیام اللیل) + (باب فضل من قام رمضان)
صحیح مسلم(باب صلاۃ اللیل)+(باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح)]
*(16) معنی کا فرق:*
تراویح، ترویحہ کی جمع ہے جو ایک دفعہ راحت لینے کو کہتے ہیں۔
جبکہ
ھجود کے معنی نیند کے ہیں اور سوئے ہوئے آدمی کو ھاجد کہا جاتا ہے اور ھجدتہ کے معنی ہیں میں نے اس کی نیند کو دور کیا تو وہ جاگ گیا۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ [سورہ الإسراء:79] اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کرو جو تمہارے لیے ایک اضافی عبادت ہے۔ اس آیت میں رات کے قیام میں قرآن پڑھنے کی تر غیب دی گئی ہے ۔ جیسے دوسری جگہ اسی کو قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا - نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا [سورہ المزمل:2- 3] رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی رات میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ، یا آدھے سے کچھ کم کرلو۔ ۔ قیام کیساتھ تعبیر فرمایا ہے ۔ المتھجد کے معنی رات کو نیند سے اٹھ کر نماز پڑھنے والا کے ہیں ۔
[المفردات في غريب القرآن-الراغب الأصفهاني: ص832]
حجاج بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"تم میں سے کوئی رات کو صبح تک قیام کر کے یہ سمجھتا ہے کہ اس نے تہجد پڑھی ہے، تہجد تو یہ ہے کہ تھوڑی دیر سونے کے بعد نماز پڑھی، پھر دوبارہ سونے کے بعد اٹھ کر پڑھی جائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز ایسی ہی تھی۔
[معجم الصحابة للبغوي:527]
*(17) فضیلت کا فرق اور عملِ صحابہ :*
حضرت عمر نے اس نماز کو عمدہ بدعت کہہ کر صحابہ سے فرمایا:
وہ نماز جس سے تم سوجاتے ہو (یعنی تہجد) افضل ہے، اس (تراویح)نماز سے جس کو تم قائم کررہے ہو۔
[بخاری:2010، مؤطا مالک:279، بیھقی:4274، ابوداؤد:1439، نسائی:1679، ترمذی:470]
یعنی رات کی نمازیں دونوں پڑھنی چاہئیں اور تراویح کو وہ شرعی مانتے تھے اور بدعت لغت کی حیثیت سے فرمایا۔
[مجموع الفتاوى-ابن تيمية:10/ 371، فتح الباري لابن حجر:1/ 85]
اور اس بدعت کو نعمت بھی مانا۔
امام ابوالولی سلیمان الباجی قرطبی رح المتوفی 474 ہجری۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسی جملے کے تذکرہ فرماتے ہیں کہ آخر میں آدھی رات کا قیام افضل ہے، پہلی آدھی رات کے قیام سے۔
[المنتقى شرح الموطإ-الباجي : جلد1/ صفحہ 208]
امام ابن بطال رح 449 ہجری۔ (آدھی رات کا قیام پہلی رات سے کیوں افضل ہے، اسکی وجہ بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں:
اخری رات کا قیام (تہجد) اللہ کے ہاں ہمیں وقت نزول اور بندوں کی دعا قبول ہونے کی وجہ سے افضل ہے۔
[شرح صحیح بخاری-لابن بطال: جلد 4 / صفحہ 147]
امام ابن حجر عسقلانی رح المتوفی 852 ہجری فرماتے ہیں کے (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول میں) صراحت ہے آخر رات کی نماز (تہجد) افضل ہے، شروع رات کی نماز (تراویح) سے۔
[فتح الباري لابن حجر: جلد 4 / صفحہ 253]
*(18) امام بخاری بھی اپنے ساتھیوں کو تراویح پڑھاتے۔*
حوالہ
كَانَ مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ يجْتَمع إِلَيْهِ أَصْحَابه فيصلى بهم وَيقْرَأ فِي كل رَكْعَة عشْرين آيَة
[شعب الإيمان - ط الرشد:2058]
اور پھر سحری کے وقت اکیلے تہجد کی 13 رکعات پڑھتے۔
حوالہ
وكان يصلى في وقت السحر ثلاث عشرة ركعة۔
[تاريخ بغداد ت بشار:374(2/ 322) تاريخ دمشق لابن عساكر:52/ 71، صفة الصفوة-ابن الجوزي:2/ 436، تهذيب الأسماء واللغات-النووي؛1/ 75]
[ھدي الساري مقدمة فتح الباري: ص٥٠٥(٦٦٦)، نصرة الباري:ص١٢]
https://whatsapp.com/channel/0029Vb108Bo7DAWpGiBOhR26
❤️
1