
JAMAT RAZA E MUSTAFA BHIWANDI OFFICIAL
June 10, 2025 at 08:17 AM
(1)اللہ تعالٰی کی ایک نشانی مقامِ ابراہیم
(2)کعبہ شریف کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام پتھر پر کھڑے ہوئے
(3)شِرک اور تَبَرُّک کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے
(4)مسئلہ
(5)قبولیتِ دعا کی جگہ
(6)مقامِ ابراہیم کی بلندی
(7)مبارک پتھر کا تحفظ
(8)شِرک سے حفاظت
قرآنِ مجید
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ
ترجمۂِ کنز الایمان
اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ
(پارہ ٤ سورة آلِ عمران آیة ٩٧)
(1)
مقامِ ابراہیم:
خانہ کعبہ سے تقریبًا سوا،13 میٹر مشرق کی جانب مقامِ ابراہیم قائم ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جو بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے قد سے اونچی دیوار قائم کرنے کیلئے استعمال کیا تھا تاکہ وہ اس پر اونچے ہوکر دیوار تعمیر کریں۔
1967ء سے پہلے اس مقام پر ایک کمرہ تھا مگر اب سونے کی ایک جالی میں بند ہے۔
اس مقام کو مصلّٰی کا درجہ حاصل ہے اس پتھر پر بطورِمعجزه حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے صاف نشانات بقدرِسات انگشت گڑھے ہوۓ ہیں ۔
اب یہ پتھر جالی دار ستونوں کے چھوٹے سے قُبَّہ میں بند ہے یہ قبہ بابِ كعبہ كے سا منے مشرقی طرف ہے۔ اس کے اِرد گِرد طواف کے نفل پڑھے جاتے ہیں۔
ہزاروں برس کے طویل زمانے سے اس بابرکت پتھر پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے مبارک قدموں کے نشان موجود ہیں۔ اس طویل مدت سے یہ پتھر کھلے آسمان کے نیچے زمین پر رکھا ہوا ہے۔ اس پر ہزاروں برساتیں گزر گئیں، ہزاروں آندھیوں کے جھونکے اس سے ٹکرائے بارہا حرمِ کعبہ میں سیلاب آیا اور یہ مقدس پتھر سیلاب کے تیز دھاروں میں ڈوبا رہا، کروڑوں انسانوں نے اس پر ہاتھ پھیرا مگر اس کے باوجود آج تک حضرت خلیل اللّٰه علیہ السلام کے قدموں کے نشان اس پتھر پر باقی ہیں جو بلاشبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک بہت ہی بڑا اور نہایت ہی معظم معجزہ ہے ۔اور یقینًا " یہ پتھر خداوند قدوس کی آیات بَیِِّنات اور کھلی ہوئی روشن نشانیوں میں سے ایک بہت بڑا نشان ہے ۔ اور اس کی شان یہ ہے کہ مقدس گھر خانہ کعبہ کے طواف کے بعد اسی پتھر کے پاس دو رکعت نماز ادا کریں ۔
نماز تو اللّٰہ تعالٰی کے لئے پڑھیں سجده اللّٰہ تعالٰی کے لئے کریں لیکن اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے کہ سجدوں کے وقت پیشانیاں اس مقدس پتھر کے پاس زمین پر لگیں کہ جس پتھر پر اللّٰہ تعالٰی کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کا نشان بنا ہوا ہے۔
درسِ ہدایت
مسلمانو! مقامِ ابراہیم کی عظمت سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس جگہ اللہ کے مقدس بندوں کا کوئی نشان موجود ہو وہ جگہ اللہ تعالٰی کے نزدیک بہت زیادہ عزت و عظمت والی ہے اور اس جگہ خدا کی عبادت خدا کے نزدیک بہت ہی بہتر اور محبوب تَر ہے۔
اب غور کرو کہ مقامِ ابراہیم جب حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے قدموں کے نشان کی وجہ سے اتنا معظم ومکرم ہو گیا تو خدا کے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزارِانور کی عظمت و بزرگی اور اس کے تقدس وشرف کا کیا عالَم ہوگا کہ جہاں حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف نشان ہی نہیں بلکہ خدا کے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا جسمِ انور موجود ہے اور اس زمین کا ذرہ ذرہ انوارِ نبوت کی تجلیوں سے رشکِ آفتاب و غیرتِ ماہتاب بنا ہوا ہے۔
مقامِ ابراہیم پر کھڑے ہو کر سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کعبہ شریف کی تعمیر کرتے جس قدر عمارت بلند ہوتی جاتی تھی یہ پتھر بھی اونچا ہوتا جاتا تھا۔ یہ پتھر آپ کے کھڑے ہونے سے نرم بھی ہو جاتا تھا کہ سختی کی وجہ سے آپ کے قدموں کو تکلیف نہ ہو اس لئے آپ کے قدموں کے نشان اس میں پڑ گئے تھے۔ یہ اس پتھر کی کرامت رب تعالٰی کی قدرت کا ظہور اور قدمِ ابراہیم علیہ السلام کا معجزہ تھا ۔
بزرگوں کی چیزوں کی تعظیم کرنا اور اس سے برکت لینا قرآن کریم سے ثابت ہے اور ساری امت کا اس پر عمل ۔۔۔
اس پتھر کی تعظیم و توقیر اس لئے ہے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کا جاۓِقیام ہے ۔
اللہ تعالٰی کو اپنے محبوبوں کی ہر ادا اور ان سے تعلق رکھنے والی ہر چیز بڑی پیاری ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ وہ بےجان حقیر پتھر جسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے پاؤں سے چھو جانے کا شرف حاصل ہو وہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں اتنا عزیز اور ذیشان ہے کہ امتِ مصطفوی کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اسے اپنی جائےِ نماز بنائیں ۔
مقامِ ابراہیم کے قریب نماز ادا کرنا مقامِ ابراہیم کی عظمت اور شرف کی وجہ سے ہے مقامِ ابراہیم کی عظمت اور شرف کا لحاظ عین نماز میں ہے ۔
ظاہر ہے کہ حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی عظمت اور شرف سب عظمتوں سے بڑھ کر ہے اس لئے نماز کی حالت میں حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی عظمت کا لحاظ نماز کومزید محبوب تََر اور کامل تَر بنا دے گا ۔
(2)
کعبہ شریف کی تعمیر کے بعد:
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پتھر پر کھڑے ہو کر جبلِ بوقبیس پر سے لوگوں کو حج کی دعوت دی ۔
جب آپ کھڑے ہوۓتو یہ پتھر(مقامِ ابراہیم) بلند ہوا حتّٰی کہ تمام پہاڑوں سے بلند ہو گیا ۔ پس آپ نے نیچے دیکھا اور فرمایا : اے لوگو اپنے رب کا حکم قبول کرو ۔پس لوگوں نے کہا((لَبَّيۡك اَللّٰهُمَّ لَبَّيۡك))، پس آپ دائیں بائیں دیکھتے تھے اور کہتے تھے اے اللہ کے بندو حج کے لئے آؤ
اللہ تعالٰی فرماتا ہے :
قرآنِ مجید
وَ اَذِِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِِّ فَجٍٍّ عَمِیْقٍ
ترجمۂِ کنز الایمان
اور لوگوں میں حج کی عام نِدا کر دے وہ تیرے پاس حاضر ہوں گے پِیادہ اور ہر دُبلی اونٹنی پر کہ ہر دُور کی راہ سے آتی ہیں ۔
(پارہ،١٧،سورۃ الحج آیة،٢٧)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس آواز کو اللہ پاک کے حکم سے زمین و آسمان مشرق و مغرب شمال و جنوب میں رہنے والی مخلوق نے سنا ۔
یہ آواز سارے عالم میں گونج گئی ۔ نہ صرف دنیا میں موجود انسانوں کے کانوں تک یہ دِلَرُبا اور ایمان افروز آواز پہنچی بلکہ عورتوں کے اَرحام اور مردوں کے اَصلاب میں جو بچے تھے انہوں نے بھی یہ آوازسنی ۔ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی روحوں نے بھی حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا یہ اعلان سُنا ۔ جس نے اس دعوت ابرا ہیمی پر ((لَبَّیۡک))کہی اسے ہی حج کی سعادت نصیب ہوگی ۔
جتنی بار جس نے لبَّیۡک کہی اتنی بار وہ حج کرے گا ۔
(تفسیرِ رُوۡحُ الۡبَیَان،
تاریخِ مكه)
سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک بار فرما دیا کہ حج کے لئے آؤ تا قیامت اس کے جواب میں لَبَّيۡك کہا جاۓ گا ۔
حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے جب مقامِ ابراہیم کی عظمت کو بیان کیا تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کی خدمت میں عرض کیا کہ:(جب یہ پتھر اتنا معظم ہے تو ہم اسے مصلّٰی کیوں نہ بنالیں؟ یعنی اس کے سامنے کھڑے ہو کر کعبہ کو رخ کر کے نماز کیوں نہ پڑھیں)تو حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا کہ مجھے اس کا حکم نہیں دیا گیا (وحی کے انتظار میں خاموشی اختیار کی)تب آفتاب ڈوبنے سے پِیۡشتَر ہی اسی دن اللہ تعالٰی کی طرف سے آیت کریمہ کا نزول ہو گیا ۔
(تفسیرِ مدارک،
تفسیرِ احمدی)
قرآنِ مجید
وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّی
ترجمۂ کنز الایمان
اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔
(پارہ،۱.سورۃ البقرۃ آیت ۱۲۵)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی نیک و احسن راۓ اور تجویز کو حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم نے پسند فرمایا اور اللہ تعالٰی نے ان کی خواہش کے مطابق تائید میں آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
یہ آیت ان آیتوں میں سے ہے جو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی رائے کے موافق اُتریں۔
اس آیت کے شان نزول سے معلوم ہوا کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نہ تو برکاتِ بزرگان کے خلاف تھے نہ انہیں مٹانا چاہتے تھے ۔
دیکھو مقامِ ابراہیم جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار اور ان کا تبرک ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی راۓ سے مصلّٰی بنا ۔
حضور نبی مکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم نے فرمایا:((لـو كـان بـعـدى نـبـي لـكان عمر بن الخطاب))
یعنی:اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے ۔
حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلّم کے زمانہ ظاہری جس میں نزولِ قرآن ہوا کرتا تھا اس مبارک و مقدس زمانے میں بھی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تجاویز راۓ و مشوروں اور فیصلوں کو حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم کی تائید و پسندیدگی حاصل تھی اور قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر آپ کی تجاویز مشوروں اور فیصلوں کی حمایت و تائید میں آیات کا نزول ہوا ہے ۔
(3)
شرک اور تبرک کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے:
تبرک اللہ تعالٰی کی ذات اور اس کی قدرت پر ایمان کو پختہ کرتا ہے اور اعمال صالحہ کے آثار کے باقی و جاری رہنے پر دلالت کرتا ہے ۔
اہلِ ایمان ہمیشہ سے آثار مبارکہ(تبرکات) مقدس مقامات(اللہ تعالٰی کی قدرت کی نشانیوں) کی زیارت کو اپنی خوش نصیبی یقین کرتے ہیں ۔ مقام ابراہیم کو مصلّٰی بنانے کے معنٰی ہیں کہ اس کو سامنے لے کر طواف کے نفل ادا کرو جیسا کہ آج بھی حاجی کرتے ہیں ۔
اس سے معلوم ہوا کہ جس پتھر کو نبی کی قدم بوسی حاصل ہو جاۓ اس کی عظمت ہو جاتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عین نماز کی حالت میں غیر اللہ کی تعظیم جائز ہے کہ مقامِ ابراہیم کا احترام نماز میں ہوتا ہے لہٰذا عین نماز کی حالت میں حضور صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم کی تعظیم نماز کو ناقص نہ کرے گی بلکہ کامل بنائے گی۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ جب پتھر نبی کے قدم لگنے سے عظمت والا ہو گیا تو حضور اکرم صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم کے ازواجِ مطہرات و اصحابِ کرام کی عظمت کا کیا پوچھنا ہے ۔
اس سے تبرکات کی تعظیم کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بنانے کے حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے نزدیک انبیاءِکرام کا مقام کس قدر بلند ہے اور آثارِانبیاء سے برکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔
(تفصیل کے لئے دیکھیں کتاب آثارِ مبارکہ اور تبرکاتِ نبوی)
(4)
مسئلہ:
مقامِ ابراہیم پر طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم ہے ۔ طوافِ کعبہ کے بعد طواف کی رکعتیں اسی مقامِ ابراہیم کے پیچھے( دو رکعت) نماز پڑھو طواف کعبہ کے سات چکر مکمل کرنے کے بعد طواف کعبہ کی دو رکعت مسجدِحرام میں پڑھنا واجب ہے لیکن مستحب یہ ہے کہ انہیں مقامِ ابراہیم کے پیچھے پڑھا جائے ۔
(تفسیر تبیان القرآن شارح بخاری ومسلم علامہ غلام رسول سعیدی)
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت تک یہ پتھر کعبہ کی دیوار سے مُتَّصِل اپنی اسی قدیم جگہ پر جہاں اسے استعمال کیا گیا تھا رکھا رہا پھر آپ نے اسے دیوار سے تھوڑا سا ہٹا دیا تاکہ طوافِ کعبہ کر نے والے اور اس کے نزدیک نماز ادا کرنے والوں کے لئے باعثِ رکاوٹ نہ ہو ۔
(قصص الانبیاء)
اب اس پتھر کو دروازہ کعبہ کے سامنے ایک شیشے میں محفوظ کر دیا گیا ہے جسے ہر حاجی اور عمره ادا کرنے والا طواف کے دوران بآ سانی دیکھتا ہے ۔
(5)
قبولیت دعا کی جگہ :
حضرت حسن بصری رحمۃ اللّٰہ علیہ اور دیگر علماء سے منقول ہے کہ مقامِ ابراہیم کے پیچھے دعا قبول ہوتی ہے ۔
(رسالۃ الحسن البصری)
رسولُ اللہ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشادفرمایا کہ حجرِاسود اور مقامِ ابراہیم جنت کے یاقوتوں میں سے دو یاقوت ہیں ۔ اگر اللہ تبارک و تعالٰی نے ان کی چمک اور نورانیت کو ختم نہ کیا ہوتا تو ان کی چمک سے مشرق و مغرب کے درمیان سب کچھ روشن ہو جاتا
بیہقی کی ایک روایت میں ہے اگر بنو آدم کے گناہوں نے ان کو آلودہ نہ کیا ہوتا تو یہ مشرق سے لیکر مغرب تک ہر چیز کو روشن کر دیتے ۔
(السنن الکبرٰی)
(6)
مقامِ ابراہیم کی بلندی:
مقامِ ابراہیم کی موجودہ بلندی صرف بیس(۲۰) سینٹی میٹر ہے اور یہ اللہ تعالٰی کی نشانی اور معجزه ابراہیمی تھا کہ کعبہ شریف کی تعمیر جیسے جیسے اوپر کی جاتی یہ پتھر معمارِ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اوپر اٹھاتا جاتا تھا یہاں تک کہ اس مبارک گھر کی تعمیر پوری ہوگئی ۔
(فضل الحجر الاسود و مقام ابراہیم)
اِس دور میں اِلیکٹرک لِفٹ سِسۡٹَم سے اس کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔
(7)
مبارک پتھر کا تحفظ و بقا:
اللہ تبارک و تعالٰی کو جس طرح سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے اعمال اداؤں اور سنتوں کو باقی و قائم رکھنا منظور تھا اسی طرح اس نشان(مقامِ ابراہیم) کا بھی باقی رکھنا منظور تھا اس لئے یہ محفوظ ہے جب کہ اس کی چوری کی بھی بہت کوششیں ہوئیں نیز ہزاروں سال کی طویل مدت میں نہ جانے کتنی مرتبہ زبردست قسم کے سیلاب اور طوفان بھی آۓ ۔ جب کہ زمانہ ماضی میں اس کی حفاظت کا کوئی ظاہری انتظام نہ تھا۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مقامِ ابراہیم سیلاب کی نذر ہوگیا تھا جب پانی خشک ہوا تو مکہ کی نَشِیبِی جگہ میں مل گیا اسے اٹھا کر لایا گیا پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تشریف لاۓ اور اپنے دستِ مبارک سے مقامِ ابراہیم کو اس کی اصل جگہ پر رکھا۔
(الجامع اللطيف)
آج جو قوم آثار و منسوبات کی دشمن ہے اور ہر ہر برکت والے نشانوں کو مٹا دینے کے دَرپے ہے وہی قوم اس اثرِ ابراہیمی کی حفاظت کر رہی ہے۔
(8)
شرک سے حفاظت :
زمانہ جاہلیت میں عرب پتھروں کو پوجتے تھے لیکن کسی نے بھی حجرِ اسود یا مقامِ ابراہیم کی پرستش نہیں کی باوجودیکہ کفار و مشرکین کے دلوں میں ان دونوں پتھروں کی عظمت جاگزیں تھی گویا اللہ تعالٰی نے حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کو ہرقسم کی پرستش و پوجا سے محفوظ رکھا ۔
طالبِ دعا:-
گدائےِ غوث و خواجہ و رضا
عبد الوحید قادری
مقام و پوسٹ پرسونا تحصیل اترولہ ضلع بلرام پور یو ۔پی
نوٹ:-
ٹائپنگ(لکھنے)میں اگر کوئی غلطی پائیں تو فورًا مطّلع فرمائیں نوازش ہوگی
❤️
1