
دربار عالیہ پیر پھٹان تحریک لبیک یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم
May 26, 2025 at 10:12 AM
سوال:
کیا ولی اللہ غیب کا علم جانتے ہیں؟
جواب:
جو آپ کو معلوم ہو گیا وہ آپ کا علم ہے اور جو آپ سے رہ گیا وہ لاعلمی ہے۔ بزرگ یہ بتاتے ہیں کہ علم سے زیادہ لاعلمی ہوتی ہے۔ کس پیر نے آج تک یہ نہیں کہا کہ میں نے جان لیا۔ سب نے یہی فرمایا کہ ہم نہیں جان سکتے۔ گویا کہ معرفت الہی کا آخری فقرہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا۔ پوچھا گیا کہ کیا پہچاناہے؟ کہنے لگے کہ ہم اس کو نہیں پہچان سکتے۔ پھر یہ کہا کہ ہم نے اللہ کو جان لیا۔ پوچھا گیا کہ کیا جان گئے آپ؟ کہنے لگے کہ ہم اس کو نہیں جان سکتے ۔ اللہ تعالیٰ ایک ذات ہے اور آپ ذات کی لا محدودیت کا اندازہ لگائیں کہ اس ذات کی صفات لا محدود ہیں اور ہر صفت کی تفسیر لامحدود ہے اور ہر دور میں وہ صفت لا محدود رخ پہ نکل جاتی ہے انسان کی زندگی محدود ہے۔ تولا محد وذات کی لامحدود صفات کا کوئی ایک حصہ بھی اپنی محدود زندگی میں آپ نہیں جان سکتے۔ یہ تو آپ کا کُل علم ہے اور جو علم آپ سے بچ گیا، آپ سے دُور ہے وہ بے شمار ہے۔ تاریخ کے بے شمار واقعات ایسے ہیں جو جاننے والے جانتے ہیں لیکن جاننے والوں کی جانی ہوئی بات کے علاوہ بھی بے شمار واقعات بچ جاتے ہیں۔ یہاں سے اللہ کی Domain حد شروع ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت کچھ عطا کرنے کے بعد بھی اپنی الہیات میں داخل نہیں ہونے دیا۔ تو اللہ جو ہے وہ اللہ ہے! اس نے کہا اس کور بو بیت میں شامل کر لو مثلا بارش کا بھی ربوبیت کا سا کام ہے بارش بھی رزق دیتی ہے پیسہ دیتی ہے مال دیتی ہے۔ اسی طرح اس نے رحیم بھی بنایا ہے متوکل بھی بنایا ہے مگر الہیات میں کسی کا دخل نہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار علم عطا فرمادیا لیکن معبود نہیں بننے دیا اور وہاں شرک کی حد لگا دی "لا تشرك باللہ " تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معبود نہ بناؤ اور یہ بھی مطلب ہے کہ خود بھی معبود نہ بنو۔ تو شرک کا یہ نیا رُخ بھی دیکھتے جاؤ کہ کسی کو معبود نہ بناؤ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم خود بھی معبود نہ بن جانا کہ لوگوں کو اپنے سجدے کا حکم دے دو۔ گویا کہ غیب کا سہارا علم اس کو ہوتا ہے جس کی عبادت کی جائے اور تمہاری عبادت کبھی نہیں کی جانی۔ وہ عبادت جو انسان چاہتا ہے اس کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا کہ اُسے پتہ چلے کہ موسیٰ علیہ السلام کہاں ہیں؟ جو یہ کہتا ہے کہ "انار بکم الاعلیٰ "فرعون کہتا ہے کہ میں تمہارا رب عظیم ہوں میری اطاعت کرو میرا ادب کرو میری پوجا کرو اور اس کا اپنا علم اتنا نہیں کہ وہ بچہ جو موسیٰ بنے گا وہ کون سا ہے اور کون سا بچہ مارنے والا ہے اور کون سا بچہ بچانے والا ہے۔ اس نے بہت سارے بچے مار دیئے اور جس کو مارنا تھا وہ بچہ بچ گیا۔ گویا کہ اس کے پاس علم نہیں تھا۔ انسان جب بھی رب بنا اس کے پاس علم نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ جب معبود بنا تو وہ ایسا معبود ہے جس کو سب کچھ معلوم ہے کیونکہ وہ علم کا خالق ہے۔ اگر آپ اس لمحے میں تمام علوم سے آشنا ہو جائیں اور یہ کہیں کہ میں علم جان گیا تو عین اس لمحے میں نیا علم پیدا ہو چکا ہو گا نئی بستیاں وجود میں آچکی ہوں گی نئے زمانے تخلیق ہو چکے ہوں گئے نیا آرڈر Issue ہو گیا ہوگا۔ پھر جب وہ کہے گا کہ میں جان گیا کہ فلاں بستی موجود ہے تو پتہ چلے گا کہ وہ بستی تو غرق بھی ہوگئی۔ گویا کہ آپ کے علم میں آنا اور علم کے اظہار میں آنے کے درمیان کے فاصلے میں بے شمار علوم پیدا ہو چکے ہوں گے۔ اس لیے انسان کا علم محدود ہی رہے گا۔ انسان کا غیب، غیب ہی رہے گا ،عالم الغیب اللہ ہی رہے گا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سفر میں انسان جانتا چلا جاتا ہے۔ حضور پاک ﷺ پر سارے زمانے آشکار ہو گئے سارے واقعات ہو گئے کیونکہ وہ معبود کے محبوب ﷺہیں، لہذا ان کو معلوم ہے لیکن خود حضور پاک ﷺ نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ میں سب جانتا ہوں بلکہ انہوں نے فرمایا کہ میں انسان ہوں اور مجھ پر وحی آتی ہے۔ جب آپﷺ نے یہ فرما دیا کہ مجھ پر وحی آتی ہے تو سارا مسئلہ حل فرما دیا کہ جب وحی آئے تو علم ہے اور وحی نہ آئے تو علم نہیں ہے۔ تو وحی آپ ﷺکے علم کا ذریعہ ہے جو Fresh آتی ہے ،تازہ ہوتی ہے ،آتی اللہ کریم سے ہے اور بہت آتی ہے۔ جب وحی نہ آئے تو آپ ﷺبولتے نہیں۔ لہذا وہ علم جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے اندر نہیں بھیجا وہ علم آشکار نہیں ہوتا اور اس طرح علم آشکار نہ ہونا اُن کی شان میں کوئی کمی نہیں ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک رخ ہے۔ مثلاً قہار کا جو اسم ہے اس سے کبھی آپ نے محبت کی ؟ اس سے آپ محبت نہیں کر سکتے ۔ محبت کرنے والا عام طور پر مٹھاس میں ہوتا ہے محبوب آ جائے تو طبیعت میں ویسے ہی مٹھاس آ جاتی ہے ،اللہ کریم محبت کرنے والا ہے اور آپ ﷺمحبوب خود ہیں نور ہیں، جلوہ ہیں۔ لیکن اللہ قہار بھی ہے۔ اب قہار کی جو صفت ہے یہ محبوب کے سامنے استعمال نہیں ہو گی۔ تو قہار اور جبار کی صفت کا اظہار محبوب کے سامنے نہیں ہوگا ۔ اللہ تعالی مذلِ عظیم بھی ہے زوال دینے والا بھی ہے ،عزت دینے والا اور ذلت دینے والا بھی ہے۔ اب ان صفات کا وہ اپنے محبوب ﷺ کے سامنے اظہار نہیں کرے گا بلکہ اُن کے بارے میں کہتا ہے کہ میں آپ کو عام انسانوں سے اُٹھا کے "ورفعنا لک ذکرک "آپ ﷺکا ذکر بلند کر دیا آپ ﷺکو عزت دے دی ۔ تو وہ محبوب کو قہار والاعلم نہیں دے گا۔ تو وہ اللہ ہے محبت کرتا ہے آپ پر سلام بھی بھیجتا ہے اور باغی کو اُڑا کے رکھ دیتا ہے۔ اب یہ آپ کو سمجھ نہیں آئے گی کہ وہ کیسے اُڑا کے رکھ دیتا ہے۔ تو بے شمار علوم ہیں جو اللہ تعالیٰ بندوں کو نہیں دیتا۔ ایک دفعہ اللہ نے اپنے ایک پیغمبر کو علم دے دیا کہ بستی پر عذاب آنے والا ہے انہوں نے لوگوں کو بتا دیا وہ لوگ ڈر گئے لیکن پھر عذاب نہیں آیا۔ لوگوں نے پیغمبر سے کہا کہ یہ کیا کہ آپ کی زبان سے صداقت کے علاوہ کچھ نکل گیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے آگے گلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا میں نے جو کہا تھا وہ ٹھیک تھا لیکن پھر ارادہ بدل لیا اب یہ میری بادشاہت ہے کہ میں نے کسی کی دعا کی وجہ سے وہ عذاب ٹال دیا تم مجھ سے Question کرنے کی بجائے یہ پڑھو کہ "لا الہ الا انت سبخٰنک اني كنت من الظلمین "تو اللہ کا اپنا علم ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ
اک مہرہ ناچیز ہے چھوٹا سا پیاده
فرضی سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
تو جو یہ پیدل چل رہا ہے پیادہ ہے یہ کیا جانے، یہ تو قصہ ہی الگ ہے۔ تو وہ تو مالک ہے اس نے کائنات کے ساتھ کیا کرنا ہے یہ کسی کو پتہ نہیں کسی بستی کے ساتھ کیا ہونے والا ہے یہ پتہ نہیں۔ ولی اللہ کو کہ دیا جاتا ہے کہ آپ وہاں تبلیغ کے لیے چلے جائیں۔ وہاں کیا ہوتا ہے؟ No body knows کسی کو پتہ نہیں ۔ ولی اللہ تو حضور پاک ﷺ کی خاک پا ہوتے ہیں ،آپ اس بات پر زور دینا چھوڑ دیں کہ انسان پر غیب کا علم کتنا آشکار ہے اور حضور پاک ﷺ کتنا جانتے ہیں ۔ آپ ﷺکیا چیز نہیں جانتے ہوں گے لیکن جو حضور پاک ﷺ نے خود نہیں کہا وہ تم کیوں کہتے ہو۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ حضور پاکﷺ خود وہی ہیں ، تو کیا حضور پاک ﷺ نے کہا ہے کہ میں وہ ہوں۔ کیا حضور پاک ﷺ نے اذان سے پہلے درود شریف پڑھا؟ تم کہاں سے لے آئے ہو۔ جو اسلام میں مقرر ہو گیا ہے تم اس کے علاوہ کیا کرتے ہو ،اپنے جذبات میں اسلام کو رنگے جا رہے ہو۔ تمہارے اپنے محبت کے جذبات ہیں اور یہ کہے جا رہے ہو کہ وہ وہی ہیں۔ اور یہ اس طرح بھی بیان کرتے ہیں کہ معراج شریف کی رات حضور پاک ﷺ اللہ کے پاس تشریف لے گئے اور آمنے سامنے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے محبوب حکم کر اب کیا چاہیے۔ تو وہ یہ بیان اپنی محبت میں دے گیا مگر اللہ تعالیٰ سے تو سب درخواست کرتے ہیں۔ اس لیے آپ لوگ جو اولیاء اللہ سے محبت کرنے والے ہیں آپ اللہ تعالیٰ کے مقام اور اس کی عظمت کا بہت خیال رکھا کریں۔ اسی طرح ایک قوم ہے نُصیری ، وہ مولا علی ؑکو رب مانتے ہیں مگر کیا مولا علی ؑنے کبھی کہا کہ میں رب ہوں ۔ کیا مولا علی ؑنے نماز ادا کی ہے سجدہ ادا کیا ہے؟ تو اگر وہ خود رب ہیں تو پھر کس کا سجدہ ادا کر رہے ہیں ؟ تو جس نے اپنے بارے میں یہ نہیں کہا کہ میں رب ہوں تو آپ اس کو رب نہ بنائیں۔ داتا صاحب نے ااپنی زندگی میں جو کام نہیں کیے وہ تم ضرور کرتے ہو جس بات سے انہوں نے منع کیا تم وہی کرو گئے اگر انہوں نے کہا تھا کہ میری قبر کو سجدہ نہ کرنا تو آپ ضرور سجدہ کرو گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ سجدہ صرف اللہ کا کرنا کسی اور کا نہ کرنا اور آپ یہ کہو گے کہ واہ کیا اچھی بات بتائی ہے کہ صرف اللہ کا سجدہ کرنا ہے اتنی اچھی بات بتانے پر آپ کو ہمارا سجدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔تو جو حکم ماننے والے ہیں وہ کبھی ایسا مسئلہ بیان نہیں کرتے جس مسئلے سے کوئی فرق پڑ جائے۔ تو حضور پاک ﷺ کا مقام اس طرح رہنے دو کہ جہاں حضور پاک ﷺ کے مقام اور اللہ کے مقام میں فرق مٹنے لگ جائے تو وہاں سے بچ جاؤ۔ دونوں ذاتوں کا حکم یہی ہے۔ اللہ کا حکم یہ ہے کہ بندے کا مقام بندے تک رکھو اور حضور پاک ﷺ کا حکم یہ ہے کہ اللہ کا مقام پہچانو ۔ یہ دونوں مقامات Confuse نہ کرنا محبت میں بھی نہ کرنا یہ نہ کہنا کہ دونوں ایک ہی ہیں۔ جب یہ کہو گے تو غلط ہے۔ کہنا وہی کچھ ہے جو کہنا ہے جو فرمایا گیا ہے جو بتایا گیا ہے کہ جس کی عبادت حضور پاک ﷺکر رہے ہیں وہی اللہ ہے اور جس سے اللہ محبت کر رہا ہے وہ حضور پاک ﷺ ہیں۔ اس طرح یہ دونوں مقامات کبھی کنفیوز نہیں ہوں گے۔ اللہ آج بھی خی و قیوم ہے اور حضور پاک ﷺ پر ایک دور کے بعد دوسرا دور شروع ہو گیا۔ آپ زندہ ہیں یہ بالکل بجا ہے مگر اس حالت میں نہیں جس حالت میں تھے ،گرچہ اس سے بہتر حالت ہے ظاہر بھی ہیں، چھپے ہوئے بھی ہیں مگر وہ بات نہیں ہے کیونکہ اگر وہ بات ہے تو پھر یہ آستانہ کیا ہے؟ اور اگر آستانہ ہے تو پھر وہ بات کیا ہے۔ اس لئے Common Sense کی بات کیا کرو تو یہ ایسی بات ہے تفصیل بتانا بھی گستاخی ہو جاتی ہے اور قبول کرنا بھی گستاخی ہو جاتی ہے۔ اس بات کے ذکر سے بچ جایا کرو۔ اگر کوئی کہے کہ کیا داتا صاحب ہیں؟ بالکل ہیں۔ کیا آج کل بھی ہیں؟ ضرور ہیں۔ جو داتا صاحب کو "ہیں" سمجھتے ہیں وہ داتا صاحب کے آستانے پر نہیں جاتے جو مولا علی ؑکو زندہ سمجھتے ہیں وہ پھر مولا علیؑ کے آستانے پر نہیں جائیں گئے جو امام عالی ؑمقام کو زندہ سمجھتے ہیں یا زندہ دیکھا ہوا ہے اُن کے لیے کر بلا کیا ہے۔ گویا کہ یہ مشاہدات کے فرق ہیں، جس پر جتنا آشکار ہوا اتنا صحیح ہے۔ باقی سب وہی ہے جو شریعت ہے۔ آگے پردہ ہے۔ آگے کوئی بول نہیں سکتا کہ یہ نام کیا ہے یہ واقعہ کیا ہے؟ اللہ کی ذات اور حضور اکرم ﷺ کی ذات کے درمیان فرق کیا ہے؟ یہ ہے میم کا پردہ۔ جب کسی اور نے بیان نہیں کیا تو تم کیا بیان کرو گے۔ اللہ تعالیٰ حضور پاک ﷺ سے محبت فرماتے ہیں لیکن عبادت کرواتے ہیں۔ اللہ نے کہا کہ نماز پڑھیں کھائیں پئیں فاقہ بھی رکھیں اور آپﷺ پر ہم درود بھیج رہے ہیں ۔ تو آپ پر درود آ رہا ہے کلام پاک آرہا ہے کلام پاک میں ذکر آ رہا ہے ،محبت آرہی ہے ،سب سے اعلیٰ ذکر آرہا ہے کہ "ورفعنالک ذکرک "تو تا قیامت ذکر آرہا ہے یہ راز ہے۔ اب یہ نہ کہنا کہ وہ سارا غیب جانتے ہیں اللہ نے کلام پاک میں کہا ہے کہ غیب میرے پاس ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا تو غیب ہے ہی نہیں۔ "غیب "تو ایک لفظ ہے۔ جب مشاہدے میں بات آگئی تو پھر وہ غیب نہیں رہے گا کہ جو شخص یہ کہہ رہا ہے کہ وہ غیب جانے والا ہے تو وہ آدمی جھگڑالو ہے وہ فساد مچا رہا ہے۔ مثلا آپ نے سورج کو دیکھ لیا چاند ستارے دیکھ لیے تو کیا آپ ان سے آشنا ہو گئے؟ یہ سارا غیب ہے سارا حاضر ہی غیب ہے جس ستارے کو آپ ستارہ سمجھ رہے ہیں وہ دراصل کچھ اور ہے چاند کو آپ جو کچھ سمجھ رہے ہیں وہ اندر سے کچھ اور ہے اسے روشن سمجھ رہے ہیں تو یہ روشن نہیں ہے۔ گویا کہ حاضر بھی تمہارا غیب ہے تو تم اصل غیب کیسے جانو گے۔ تو تمہیں پتہ ہی نہیں کہ یہ سب کیا ہے جس کو تم دیکھ رہے ہوتم اس کو بھی نہیں دیکھ رہے ہو۔ دیوار کے پرے کیا ہے یہ کیسے پتہ چلے۔ ولی اللہ تلوار کے نیچے کلمہ پڑھ سکتا ہے لیکن وہ تلوار کو نہیں دیکھتا۔ اگر تلوار کو چلنے سے پہلے دیکھا تو پھر تو شہادت کا مقام اس نے خراب کر لیا شہادت کا مطلب یہ ہے کہ موت کو موت سمجھا جائے اور پھر کلمہ پڑھا جائے۔ اگر یہ پتہ چل جائے کہ شہادت کے پیچھے اللہ کی محبت آ رہی ہے تو پھر یہ اور واقعہ بن جاتا ہے آپ بات سمجھ رہے ہیں ناں؟ اس لیے یہ بڑا خیال رکھنا۔ آپ نے یہ صحیح سنا ہے کہ دلی اللہ غیب کو جانتے ہیں مگر جب یہ بات کہو گے تو غلط ہو جائے گی۔ جب آپ پوچھو گے کہ کیا وہ غیب کو جانتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ غیب نہیں جانتے تھے سمجھو گے تو پھر سمجھتے جاؤ ۔ بے شمار علوم ایسے ہیں جن کا پتہ نہیں ہے۔ کسی ولی اللہ سے اگر کیمسٹری کا سوال حل کراؤ گے تو میرا خیال ہے مشکل ہو جائے گا۔ جس ولی اللہ نے روحانی تعلیم حاصل کی ہے اُس سے اگر کہو گے کہ آئن سٹائن کی تھیوری ہمیں سمجھا دیں تو یہ کیسے ہوگا۔ تو وہاں یہ علم نہیں ہوگا۔ سائنس والے کے پاس آرٹس کا علم نہیں ہوگا، آرٹس والوں کے پاس سائنس کا علم نہیں ہو گا میتھ والے کو کیمسٹری کا پتہ نہیں ہوگا، کیمسٹری والے کو اور علم نہیں آتا ہو گا۔ بعض اوقات کسی ولی اللہ کو شعر کا پتہ نہیں ہوگا ۔ کچھ ولی اللہ اظہار میں آتے ہیں اور کچھ اظہار میں نہیں آتے ۔ اُردو جاننے والا ولی اللہ انگریزی میں تقریر نہیں کرتا' فارسی والا ولی اللہ پنجابی میں تقریر نہیں کرے گا۔ یہ ادب کا مقام ہے۔ اللہ کی خوبی یہ ہے کہ اللہ کے دوست ہر زمانے میں اور ہر زبان میں ہوتے ہیں وہ اتنے یہ راضی ہوتے ہیں جتنے پہ وہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں اور جاننے کی ضرورت ہی نہیں ہے، جب اللہ کو جان لیا ،تو سب کچھ جان لیا جب مالک سے آشنائی ہوگئی تو پھر مخلوق کیا ہے۔ یہ جھگڑا مخلوق آپس میں کرتی رہتی ہے کہ کس کے پاس کیا ہے ،علم کتناہے۔ اس لیے علم کے بارے میں بحث مت کرنا ۔ اللہ بہر حال اللہ ہے۔ اللہ حادث نہیں ہے۔ اللہ ہمیشہ رہنے والا ہے وہ ہر آغاز سے پہلے تھا ہر انجام کے بعد ہوگا؟ جوں کا توں، جیسے کا جیسا نہ اس میں کمی آئے گی اور نہ اس میں بیشی آئے گی وہ مالک ہے ہمیشہ سے ہمیشہ تک۔ اس کا "تک "ہے ہی نہیں۔ انسان کی ایک تاریخ پیدائش ہوتی ہے اور ایک تاریخ وصال ہوتی ہے۔ تاریخ پیدائش اور تاریخ وصال رکھنے والا "حی و قیوم "کا سارا علم نہیں رکھتا۔ اللہ خی و قیوم ہے اور ہمیشہ ہمیشہ ہے اور انسان حادث ہے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ خی و قیوم کا سارا علم حادث نے بیان کیا ہے اللہ کی بات جتنی کہی ہے انسان نے کہی ہے۔ لہذا کوئی ایک مقام ایسا ہے جہاں پر انسان اللہ کے بارے میں بات جانتا ہے۔ لیکن ہمارا ایمان کیا ہونا چاہیے؟ ہمیں جتنا بتایا گیا اتنا ہی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ پھر ہوا جو ہوا۔ کہا جو کہا سنا جو سنا ۔ اب تم کون ہو بولنے والے۔ بس پھر دو قوسین کا فاصلہ رہ گیا اور اسکے بعد اپنے بند ے پر جو ہوا سو ہوا، تمہیں بات سمجھ نہیں آسکتی ۔ اس کے بعد کیا ہے ؟ راز ہے راز کو کوئی ایسا آدمی فاش کرنے کی کوشش نہ کرے جو ہم راز نہ ہو، کلام الہٰی کی تفسیر کوئی نہ لکھے جب تک اُسے الہامی کلام کے مطلب کا پتہ نہ ہو۔ الہام جو ہے ، وحی جوہے ،وہ وحی والا ہی جانتا ہے ۔ اس لئے جاننے والوں نے کبھی تفسیر نہیں لکھی ۔ کلام کا مفہوم کیا ہے یہ اللہ ہی جانے اور تم جو تفسیریں بیان کرتے ہو تمہارا اور ہی مضمون ہے ۔ تو مفہوم یا مفاہیم قرآن جو تفسیریں بیان کرتے ہو تمہارا اور ہی مضمون ہے ۔ تو مفہوم یا مفاہیم قرآن جو بیان کیئے جاتے ہیں وہ اور ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کللام سے کیا کام لے رہا ہے ، یہ اللہ کو ہی پتہ ہے ۔ تو انسان جو ہے وہ مشیت کے بارے میں خاموش ہی رہے تو بہتر ہے ۔ اگر تم "ادراکِ پیغمبر ﷺ " پر کتاب لکھو تو ہمیشہ غلطی کر جاؤگے ، مار کھاؤ گے ، مقام نبوت پر کتاب لکھو گے تو مار کھاؤ گے ،تو حید پر تفسیر لکھو گے تو مار کھاؤ گے ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو مقامات کو تفسیر کرنے سے گریز کرو۔ مقام نبوت بیان نہیں ہوسکتا ، مقام الہٰیات بیان نہیں ہوسکتا ۔ فرشتے کیا ہوتے ہیں؟ تم یہ عم بیان کرو گے اور حقیقت میں فرشتے اس علم کے علاوہ بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے اس بات سے بچو۔ ولی اللہ اگر غیب کا علم جانتا ہو تب بھی ٹھیک ہے اور نہ جانتا ہو تب بھی ٹھیک ہے ۔ ولی اللہ خود یہ کہے گا کہ میں اتنا جاتنا ہوں جو میں جانتا ہوں اور جو میں نہیں جانتا وہ میں نہیں جانتا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تین باتیں کوئی نہیں جانتا، یہ کہ کون سی زمین میں اس نے دفن ہونا ہے "وما تدری نفس مابای ارض تموت" اور یہ کہ کیا بچہ پیدا ہونے والا ہے اور اس آدمی کو رزق کہاں سے ملنا ہے ۔ پتہ نہیں اس نے کہا ں کا رزق رکھا ہوا ہے ، پتہ نہیں کیا ہے ۔اللہ نے اس کے لیے ایک مخرج رکھا ہوا ہے جس سے خارج ہو کے اُس کے پاس رزق آئے گا۔ مثلاً اللہ کا کوئی فقیر بڑا بھوکا پیاسا بیٹھا ہوا ہے اور کھانا چلتا چلتا کہیں سے چکر لگا کے آئے گا اور اُسے وہ آدمی کہے گا کہ ہم آپ کے لیے چاول لائے ہیں۔ تو اس کے پاس پکا پکایا آ گیا۔ اس لیے ان باتوں کے بارے میں مت پریشان ہوا کریں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے۔ جو اللہ کا خیال رکھتا ہے اللہ اس کا خیال رکھتا ہے۔ اللہ علم دیتا ہے۔ پیغمبر کے پاس بڑا علم ہوتا ہے اور پیغمبر ہی ہد ہد سے پوچھتا ہے کہ تو کدھر تھا تو ہد ہد نے کہا کہ میں کیا بتاؤں کہ ایک الگ مخلوق ہے اس کی ملکہ ہے اور تخت ہے۔ تو آپ غور کریں کہ ہد ہد جو ہے یہ علم رکھتا ہے مزاج کا بھی علم رکھتا ہے کہ میرے مالک کا مزاج کیسا ہے ؟تو یہ ہد ہد ہے جو پرندہ ہے۔ تو پھر انہوں نے فرمایا کہ ہے کوئی جو تخت لے آئے ،کب تک لا سکتے ہو؟ کسی نے کہا ایک دن کسی نے کہا دو دن ایک اور نے کہا کہ جب تک آپ تخت سے اتریں گے میں لے آؤں گا۔ ایک اور علم والا آ گیا جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا یہ لو تخت آ گیا علم لدُنیّ والا بندہ تھا۔ یہ وہ علم ہے یہ
کہ آپ اگر دعوی کریں گے تو علم ختم ہوجائے گا۔ ایک اور پیغمبر تھے انہوں نے اللہ سے پوچھا کہ یا اللہ میں توپیغمبر ہوں ،رسول ہوں ،کیا اس بستی میں کوئی اور علم والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تو سہی ، تم اس جگہ چلے جاؤ ،وہاں وہ مل جائے گا۔ تو آپ وہاں گئے تو وہاں تلی ہوئی مچھلی زندہ ہوگئی۔ وہ بندہ پہچان گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں اور موسیٰ علیہ السلام پہچان گئے کہ یہ وہی بندہ ہے۔ اس بندے نے کہا کہ تیرا میرا جو ساتھ ہے اس میں شرط یہ ہے کہ بولنا نہیں اور بس چلتے چلو۔ آگے جا کے اس بندے نے ایک کشتی دیکھی اور اسے توڑ دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ کیا کیا۔ اس نے کہا بولنا نہیں۔ تو وہ بندہ جانتا تھا کہ وہ یہ کیوں کر رہا ہے۔ پھر اس نے ایک جگہ جا کے ایک بچے قتل کر دیا اور پھر ایک جگہ کسی بیلچہ اُٹھا کے دیوار بنانی شروع کر دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ہر جگہ سوال کیا کہ یہ کیا ہے؟ آخر میں اس نے کہا کہ تم شریعت کے بندے ہو اور ہم مشیعت کی بات کر رہے ہیں۔ میں بات سمجھاتا ہوں لیکن "ھذا فراق بینی و بینک "اس کے بعد ہم جدا ہو جائیں گے۔ تو سنوکشتی اس لیے توڑی تھی کہ اس غریب شخص سے بادشاہ کے بندے کشتی لے نہ جائیں ۔ بچے کو مارنے کی وجہ بھی بتائی ۔ دیوار اس لیے بنا دی کہ اس کے نیچے ایک یتیم کا مال تھا، خزانہ تھا بڑا ہو گا تو اُسے مل جائے گا۔ مدعا یہ کہ ایک پیغمبر کے پاس وہ علم نہیں تھا جو اس شخص کے پاس تھا۔ تو یہ کیا ہے؟ یہ وہ والا علم ہے۔ مثنوی لکھنے والے مولانا روم کے پاس ایک آدمی آیا اور پوچھا کہ تم لوگوں کو کیا بتاتے رہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں علم سکھاتا رہتا ہوں قرآن ،حدیث ،فقہ ،تفسیر و غیره ______ لوگوں کو عالم دین بناتا ہوں۔ اس نے کہا کہ عالم دین کیا ہوتا ہے؟ مولانا نے کہا یہ تم نہیں جانتے کہتے یہ ہیں کہ انہوں نے مولانا روم کی کتابیں اٹھا کے پانی کے تالاب میں پھینک دیں۔ مولانا بڑا روئے کہ تو نے میری ساری عمر کی کمائی ضائع کر دی ہے یہ میرے نوٹس تھے میری کتابیں تھیں۔ مولانا نے بڑا شور مچایا تو اُس آدمی نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ اس نے پانی میں ہاتھ ڈالا اور خشک کتا بیں باہر نکال دیں۔ مولانا نے کہا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا یہ تم نہیں جانتے۔ تو ساری عمر یہ فرق رہے گا کہ کچھ تو جانے گا اور کچھ میں جانوں گا اور کچھ تو نہیں جانے گا اور کچھ ہم نہیں جائیں گے۔ اس لیے مکمل علم صرف مکمل ذات کے پاس ہے۔ تو مکمل علم کس کے پاس؟ مکمل ذات کے پاس۔ اس کے علاوہ کسی کی ذات مکمل نہیں ہوئی۔ اور جو نبی کی بات ہے وہ اللہ جانے اور نبی جانیں ۔ ان کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ" لا نفرق بين احد من رسله "کہ ہم رسولوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ نبیوں نے اپنے بارے میں جو بتا یا تم لوگ اس کے علاوہ نہ بتاؤ تم ایساکر تے ہو۔ نہ کیا کرو۔ کسی پیغمبر نے یہ نہیں کہا کہ میں اللہ کا سارا راز جانتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ عرفان نہیں جانتے اللہ کی معرفت وہی جانے۔ اللہ کے محبوبﷺنے یہ فرمایا ہے کہ معرفت کو حق معرفت تک میں نہیں جانتا۔ اب تم کیا کہو گے جب کہ اللہ کے حبیبﷺ نے یہ فرمادیا ۔ تم تو انہیں بہت ہی Close کر دیتے ہو کچھ فقیر یا درویش کہتے ہیں کہ ایسے سمجھو جیسے کہ ویلڈ ہو گئے ہوں۔ نعوذ باللہ من ذلک۔ تو میں ان کی بات کر رہا ہوں جو ایسا بھی کہتے رہتے ہیں۔ تو یہ جو باتیں آپ کرتے ہو ان سے بچو اور وہ جو آپ کے سامنے دوسری مسجد والے ہیں وہ تو ویسے ہی نہیں مانتے اور پیغمبر کو عام انسان مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فرمان ہے انا بشر مثلکم ۔ وہ اتنے بھی مثلکم نہیں ہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو۔ تم کہتے ہو کہ اللہ کے محبوب ﷺ انسان ہی ہیں اچھے انسان ہیں ۔ مگر ان کا نام ہمارا ایمان ہے۔ تو یہ بڑا فرق ہے۔ اور تمہیں یہ بڑا فرق سمجھ نہیں آرہا کہ ایک نام جو تمہارا ایمان بنا دیا گیا ایک نام جو تمہارا کلمہ بنا دیا گیا ایک نام جسے ورفعنا لک ذکرک بنا دیا گیا اور وہ نام اللہ کا محبوب ﷺبن گیا۔ اور تم اسے عام
انسان سمجھتے ہو۔ تم تو عقل نہیں رکھتے ۔ یہ جھگڑا کرنے والا ہے تو یہ اللہ اور للہ کے محبوب ﷺ کے نام پر جھگڑا کرنے والے ہیں دونوں کو دونوں سے آشنائی نہیں ہے۔ ایک گروہ یا رسول ؐاللہ کہنے والوں کے خلاف ہے اور دوسرا ان کے خلاف ہے۔ اور آپس میں دونوں کو پتہ نہیں ہے کہ راز کیا ہے۔ تو یہ جھگڑے اب بس کرو۔ پیغمبر ﷺکا مقام وہ ہے جو پیغمبر ﷺنے بتایا۔ عرفانِ حقیقت اتنی ہے جتنی بزرگوں نے بتائی ۔ ولی اللہ کا مقام ولی اللہ جانے_______ اگر چہ بہت کچھ ہو چکا لیکن ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ وہ جو باقی ہوتا ہے وہ غیب ہے۔ جو آ گیا ہے وہ علم ہے اور جو باقی بچ گیا وہ غیب ہے۔ ابھی تو آپ شکر کریں کہ آپ کو قبر کے علم کا پتہ نہیں ورنہ آپ سب یوں نہ بیٹھے ہوتے جیسے اب بیٹھے ہیں۔ ابھی تو آپ کو اتنا غیب بھی نہیں پتہ کہ کل آپ کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ماں کے پیٹ کے اندر کا پتہ نہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ تو آپ کے دو غیوب تو یہ ہیں کہ ماں کے پیٹ میں جو بچہ غیب میں ہے اس کا نہیں پتہ اور جو قبر کے اندر کا غیب ہے اس کا بھی پتہ نہیں ۔ آپ کو یہ بھی پتہ نہیں کہ آپ کے ابا جان کدھر چلے گئے۔ بچے کدھر سے آگئے یہ بھی پتہ نہیں۔ بیٹھے بیٹھے کیسے ماحول بدل گیا۔ اس کا بھی پتہ نہیں۔ آگے کیا ہونے والا ہے اس کا بھی پتہ نہیں ۔ جوانی کد ھر چلی گئی یہ بھی پتے نہیں۔ علم کے باوجود فریبی کیوں آگئی ہے یہ بھی پتہ نہیں ۔ دولت کدھر سے آئی ہے یہ بھی پتہ نہیں۔ یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ موت کیسے آ جاتی ہے۔ یہ بھی نہیں پر کہ رات دن کے بنی ہے اور دن رات کے بنتا ہے عزت سے ذلت اور ذلت سے عزت کیسے بنتی ہے۔ تو آپ یہ سب دیکھا کریں، غور کیا کریں۔ پرندےآپ سے زیادہ غیب جانتے ہیں اور بالکل جانتے ہیں ۔ کس طرح؟ زلزلہ اگر آپ کے سر سے گزرے گا تو معلوم ہوگا مگر پرندہ پندرہ منٹ پہلے شور مچادے گا وہ جان لے گا اپنے گھونسلے سے پرندہ اڑ جائے گا۔ حالانکہ پرندے کو زلزلے سے فرق نہیں پڑتا مگر اُسے پتہ چل جائے گا کہ آ رہا ہے۔ انہیں طوفان کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔ بعض اوقات چیونٹیاں اپنے بل سے باہر نکل آتی ہیں کیونکہ بارش آنے والی ہوتی ہے۔ تو جانور بہت ساری چیزیں جان لیتے ہیں۔ گھوڑا بعض اوقات رات کو بد کنا شروع ہو جاتا ہے۔ کیوں کرتا ہے؟ وہ کوئی چیز دیکھ لیتا ہے جن کو دیکھ لیتا ہے۔ آپ نہیں دیکھ سکتے۔ تو یہ سارے واقعات ہیں۔ تو وہ غیب کو جان گئے ۔ آپ کے اندر دو فرشتے بیٹھے ہوتے ہیں۔ کیا آپ نے دیکھا ؟ آپ کہیں گے کہ ہم مانتے ہیں۔ مگر بات ماننا اور چیز ہے دیکھنا اور چیز ہے۔ اگر آپ دیکھ لیتے تو جو فرشتہ آپ کی منفی بات کو لکھتا ہے آپ اُسے رشوت دے دیتے تا کہ کچھ نہ لکھے۔ گویا کہ فرشتے آپ نہیں دیکھ سکتے ،روح آپ کے ساتھ ہو تو وہ بھی آپ نے نہیں دیکھی۔ نفس آپ کے ساتھ ہے مگر آپ نے نفس نہیں دیکھا۔ زندگی آپ کے ساتھ ہے مگر زندگی آپ نے نہیں دیکھی۔ موت آپ کے ساتھ چل رہی ہے مگر آپ نے موت نہیں دیکھی۔ تو اتنا قریب غیب بھی آپ نے نہیں دیکھا اور جو وہ غیب ہے آپ وہ کیسے دیکھیں گے۔ اس لیے آپ دعا کرو کہ آپ کو جھوٹ بولنے کا موقع نہ ملے۔ کسی کی تعریف کرتے کرتے آپ اُسے اس کے مشن سے غائب نہ کر دیں ۔ لوگ تعریفیں کر کے اگلے کو غائب کر دیتے ہیں۔ یا اللہ سب کو مبالغے سے بچا ،اُتنی بات کریں جتنی پتہ ہے۔ ہم گواہی نہیں دیتے کہ کوئی آدمی غیب جانتا ہے۔ اللہ جس پر چاہے جتنا غیب آشکار کر دے۔ جب اللہ اپنے بندے کو آسمانوں کی سیر کراتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اپنے بندے کو آسمانوں کی سیر کرائی زمینوں کی سیر کرائی اپنے دربار کی سیر کرائی اپنے واقعات کی سیر کرائی تو کیا اللہ آپ کو اپنے غیب کی سیر نہیں کرائے گا۔ ضرور کرائے گا۔ مگر جب غیب تم بیان کرو گے تو یہ جھوٹ ہو گا۔ بات کچی ہو سکتی ہے مگر بیان جھوٹ ہے۔ یہ یا درکھنا۔ یہ تو تم فساد کر رہے ہو دین میں فساد کر رہے ہو۔
گفتگو والیم 22
بابا حضور حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ
❤️
🫀
2