Ⲯ﹍︿﹍︿﹍ الکمونیا ﹍Ⲯ﹍Ⲯ﹍︿﹍☼
Ⲯ﹍︿﹍︿﹍ الکمونیا ﹍Ⲯ﹍Ⲯ﹍︿﹍☼
June 11, 2025 at 07:31 AM
🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ پنجم🌴 تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم 🕌⭐🌴کوفہ میں مسلم بن عقیل کا والہانہ استقبال 🌴⭐🕌 ✍🏻 حماد حسن خان ☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼ ☰☲☷ گذشتہ قسط☷☲☰ https://bit.ly/Haq-O-Batil04 *ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼* ٍ حضرت مسلم بن عقیل  اپنے کچھ ساتھیوں اور دو بیٹوں ،جو آپ کو بہت پیارے تھے، ان کو ساتھ لے کر کوفہ روانہ ہوئے۔آپ  نے کوفہ پہنچ کر مختار بن عبید  کے مکان پر قیام فرمایا۔کوفہ کے شیعانِ علی نے آپ کا شاندار استقبال کیا اور حضرت امام حسین  کے نمائندہ کے طور پر جوق در جوق آپ  کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ پہلے ہی دن بارہ ہزار افرادنے حضرت مسلم بن عقیل  کے ہاتھ پر حضرت امام حسین  کے حق میں بیعت کر لی ۔پھر اس تعداد میں اضافہ ہو تا گیا حتیٰ کہ ان کی تعداد اٹھارہ ہزار تک پہنچ گئی ۔آپ  نے لوگوں کے شوق ، عقیدت و محبت ، جوش ولولہ دیکھ کر حضرت امام حسین کو خط لکھا کہ بھائی جان !حالات دعوتِ حق اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ساز گار ہیں۔ آپ  بلا تامل اور بلا جھجک تشریف لائیں ۔ (البدایہ و النہایہ ۸: ۱۵۲ ) یزید کو اطلاع اس وقت کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیر تھے۔آپ  صحابیٴ رسول ﷺ ہونے کے ساتھ ساتھ محب ِ اہل ِ بیت بھی تھے۔اس لیے آپ  نے حضرت مسلم بن عقیل  کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی اور خاموشی سے سب کچھ گوارہ کیا۔ جب یزیدی حکومت کے حامیوں نے دیکھا کہ حالات پلٹ جانے کا امکان ہے تو وہ نعمان بن بشیر  کے پاس آئے اور کہا کہ کوفہ شہر یزید کی حکومت سے نکلا جا رہا ہے ۔اور تو خاموشی سے تماشہ دیکھے جا رہا ہے۔مسلم بن عقیل  کو گرفتار کر اور قتل کر کے ان کا صفایا کر دو تاکہ فتنہ و فساد کا امکان نہ ہو ۔نعمان بن بشیر  نے کہا کہ : ” میرے ساتھ جو جنگ نہیں کرے گا میں بھی اس کے خلاف جنگ نہیں کروں گا ۔ جو مجھ پر حملہ نہیں کرے گا میں بھی اس پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا ۔اور نہ ہی میں ان کو محض گمان کی بنا پر پکڑوں گا ۔لیکن خدائے واحد کی قسم !اگر تم اپنے امیر سے جدا ہوئے اور اپنی بیعت توڑی تو میں تم سے اس وقت تک لڑوں گا جب تک میرے ہاتھ میں میری تلوار کا قبضہ ہے۔“ یہ سن کر ایک آدمی عبد اللہ بن مسلم نے کہا کہ اے امیر ! یہ کام اندھی لاٹھی کے بغیر نہیں سلجھے گا اور آپ  نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ کمزوروں کا طریقہ ہے ۔ اس پر نعمان بن بشیر  نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کمزوری، مجھے اس کی نافرمانی میں طاقت سے زیادہ محبوب ہے۔ جب یزید کے حامیوں نے دیکھا کہ نعمان بن بشیر ، حضرت امام ِ حسین  کے خلاف کوئی اقدام کرنے پر تیار نہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کی بیعت کرتے جا رہے ہیں تو انہوں نے اپنا ایک وفد یزید کے پاس بھیجا کہ نعمان بن بشیر قطعاََ تیری حکومت کے مفادات کے حق میں نہیں ہے ۔ امام حسین  کی آمد آمد ہے اور لوگ مسلم بن عقیل  کے ہاتھ پر جوق در جوق بیعت کر رہے ہیں ۔کوفہ اور بصرہ ہاتھ سے نکل جانے کو ہے ۔تم فوراً اس کے لیے کوئی بند و بست کرو۔عمار بن عقبہ اور عمر بن سعد نے بھی اس مضمون کے خطوط لکھے جن پر یزید بہت غضب ناک ہوا ۔ نعمان بن بشیر  کی معزولی اور ابن ِ زیاد کا تقرر کوفہ کی صور تحال کے بارے میں اطلاع کے حوالے سے یزید نے اپنے ایک خاندانی غلام سرجون کو بلایا۔ سرجون امیر معاویہ کا خاص اعتماد والا غلام اور خاندان کا راز دار تھا ۔یزید نے اس کی گود میں پرورش پائی تھی۔یزید نے اس کو تمام حالات بتائے اور پوچھا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ سرجون نے کہا کہ امیر معاویہ زندہ ہوتے تو کیا آ پ ان کا مشورہ قبول کر لیتے؟ یزید نے کہا کہ ہاں ! سرجون نے کہا کہ تو میرا یہ مشورہ بھی قبول کر لیں کہ کوفہ کی امارت کے لیے عبید اللہ بن زیاد سے بہتر کوئی آدمی نہیں ۔ اس لیے کوفہ کی امارت اس کے سپرد کر دیں۔ (البدایہ و النہایہ ۸:۱۵۶ ) ابن زیادبصرہ کا گورنر تھا۔ کوفہ میں شیعان ِ علی و حسین  کا زورتوڑنے کے لیے یزید نے اسے کوفہ کا بھی گورنر مقرر کروایا اور اسے حکم نامہ جاری کیا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل  کو تلاش کرو۔ اور جب وہ تمہارے ہاتھ آ جائیں تو انہیں قتل کر دو یا جلا وطن کر دو۔ (البدایہ و النہایہ ۸:۱۵۶ ۔ ابن اثیر۴:۲۳ ) جس دن بصرہ میں ابن زیاد کو یزید کا حکم نامہ ملا اسی دن بصرہ میں حضرت امام ِ حسین  کا قاصد بھی اہل بصرہ کے نام آپ  کا ایک خط لایا۔کیونکہ اہل بصرہ بھی آ پ  کی طرف مائل تھے اس لیے آپ  نے اس خط میں اہلِ بصرہ کو لکھا تھا کہ: ” میں نے اپنے قاصد کو یہ مکتوب دے کر بھیجا ہے میں تمہیں اللہ کی کتاب اور اس کے نبی ﷺ کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔ اس لیے کہ سنت مٹا دی گئی ہے اور بدعت زندہ کر دی گئی ہے۔اگر تم لوگ میری سنو گے اور میرے علم کی اطاعت کرو گے تو میں تمہیں راہ ِ ہدایت پر چلاؤں گا“ بصرہ کے سرداروں میں جس شخص نے امام حسین  کا خط پڑھا اس نے اسے پوشیدہ رکھا۔ مگر منذر بن الجارود کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ قاصد عبید اللہ بن زیاد کا کوئی جاسوس نہ ہو اور اس نے اشرافِ بصرہ کے پاس بھیجا ہو ۔ جس صبح کی رات ابن زیادنے کوفہ کے لیے روانہ ہونا تھا ، اس رات منظر بن الجارود قاصد کو لے کر ابن زیاد کے پاس آیا اور مکتوب اسے پڑھایا۔ابن زیاد نے اسی وقت امام ِ حسین  کے قاصد کو قتل کروا دیا ۔اوربصرہ میں لوگوں کے سامنے سخت تہدیدآمیز تقریر کی اور کہا : خدا کی قسم ! مجھے مصیبت، دشواری یا دشمن کے اسلحہ سے ڈرایا نہیں جا سکتا ۔ جو مجھ سے دشمنی رکھے میں اس کے لیے عذاب ہوں ۔ اور جو مجھ سے جنگ کرے اس کے لیے میں جنگ کی آگ ہوں ۔امیر المومنین (یزید) نے مجھے کوفہ کی ولایت سونپی ہے۔میں کل وہاں جانے والا ہوں اور اپنے پیچھے عثمان بن زیادہ بن ابو سفیان کو تم پر نائب بنائے چھوڑے جا رہا ہوں ۔تم لوگ اختلافات اور بغاوت سے اجتناب کرو ۔ورنہ قسم اس ذات کی کہ جس کے سوا اور کوئی خدا نہیں، اگر میرے پاس تم میں سے کسی کی مخالفت کی خبر پہنچی تو میں اس کو اور اس کے حامیوں اوردوستوں کو بھی نہیں چھوڑوں گا ۔ میں بعید( دور) کے بدلے قریب کو پکڑوں گا ۔یعنی روپوش مجرموں کے وارثوں اور حامیوں کو پکڑوں گا جو موجود ہوں گے۔یہاں تک کہ معاملہ سلجھ جائے اورتم میں کوئی مخالفت کرنے والا اور پھوٹ ڈالنے والا باقی نہ رہے۔یاد رکھو ! میں اپنے باپ کے مشابہ ہوں ، اس باپ کے جس نے کنکر پتھر روند ڈالے تھے۔ (الطبری ۶:۲۵ ۔ ابن اثیر ۴:۲۳ ۔ البدایہ و النہایہ ۸: ۱۵۸ ) ابن ِ زیاد کا کوفے میں داخلہ عبیدالله بن زیاد، بصرہ سے اپنے اہلِ خانہ اور۵۰۰سواروں کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔ان میں سے کچھ راستے میں ہی ٹھہر گئے مگر اس نے کچھ پرواہ نہ کی اور برابر چلتا رہا۔قادسیہ کے مقام پر پہنچ کر اس نے سترہ افراد کو اپنے ساتھ لیا اور باقی کو وہیں چھوڑااور دھوکہ دینے کے لیے حجازی لباس پہن کر اونٹ پر سوار ہوا اور چند آدمیوں کو ساتھ لے کر حجازی راستے سے مغرب اور عشاء کے درمیان کوفہ میں داخل ہوا۔ رات کے اندھیرے میں مکر و فریب کے ساتھ پہنچنے سے ا س کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت کوفیوں میں یزید کے خلاف اک لہر دوڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا ایسے طور پر داخل ہونا چاہیے کہ وہ ابنِ زیاد کوپہچان نہ سکیں اور سمجھیں کہ حضرت اما م حسین تشریف لے آئے ہیں تاکہ امن و امانیت کے ساتھ وہ کوفہ میں داخل ہو سکے۔ اور ایسا ہی ہوا۔اہلِ کوفہ جن کو امامِ عالی مقام  کی آمد کا انتظار تھا ۔ حجازی رستے سے حجازی ساز و سامان کے ساتھ آتا دیکھ کر رات کی تاریکی میں ہر شخص نے یہی سمجھا کہ حضرت امامِ حسین  تشریف لا رہے ہیں۔ سب لوگوں نے نعرے بلند کیے۔ابنِ زیاد بد نہاد کسی کو کچھ جواب نہ دیتا تھا بلکہ آوازوں کو سنتا اور سب کو بغور دیکھتا ہوا چلا جا رہا تھا۔شور سن کر اور بھی لوگ گھروں سے نکل آئے ۔ اور ہر شخص فرزندِ رسول ﷺ سمجھ کر آگے بڑھنے لگا۔ جب مجمع بہت زیادہ ہو گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ راہ چلنے میں رکاوٹ پیدا ہونے لگی تو اس وقت مسلم بن عمرو باہلی جو ابنِ زیاد کے ساتھ تھا اس نے پکار کر کہا کہ” راستہ چھوڑو “ یہ امیر عبیداللہ بن زیاد ہیں۔ان الفاظ کو سن کر لوگوں کو بہت رنج ہوا۔افسوس کرتے ہوئے سب اپنے اپنے گھروں کو واپس ہو گئے اور صرف دس بیس آدمیوں کے ساتھ ابنِ زیا د گورنر ہاوس میں داخل ہوا۔ (طبری ۱۸۴ ج ۲ ) گورنر ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد ابنِ زیاد نے عا م اعلان کرنے کا حکم دیا۔منادی کی گئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ابنِ زیاد گورنر ہاؤس سے نکل کر لوگوں کے پاس آیا اور اللہ کی حمدو ثنا ء کے بعدخطاب کیا۔ امیرالمومنین(یزید) نے مجھے تمھارے امور ، تمھاری حدود اور تمھارے اموال پر حاکم بنا کر بھیجا ہے۔ انھوں نے حکم دیا ہے کہ میں تمھارے مظلوموں کے ساتھ انصاف کروں، حاجت مندوں کوعطا کروں۔ مطیع و فرمانبردار پر احسان کروں اور تم میں سے مشکوک اور نافرمان لوگوں پر سختی کروں ۔میں تم پراس کے احکام نافذکروں گا اور ان احکام کی پیروی کراؤں گا۔ (البدایہ و النہایہ ۸ ۔ ابن اثیر ۴:۲۴ ) ٍ اس تقریر کے بعد ابنِ زیاد نے کوفہ کے سرکردہ لوگوں کو گرفتا ر کر لیا اور ان سب سے تحریری ضمانت مانگی کہ وہ اور ان کے قبیلے کے افراد کسی مخالف کو اپنے ہاں پناہ نہیں دیں گے اور نہ کسی قسم کی مخالفانہ سرگرمیوں میں حصہ لیں گے ۔ اور اگر کسی نے حکومت کے کسی مخالف کو پناہ دے رکھی ہے تو وہ اس کو پیش کرے گا۔ اور جو اپنی تحریر کی پابندی کرے گا وہ بری ہو جائے گا۔ جو ایسا نہیں کر پائے گا اس کا مال اور جان دونوں حلال ہو جائیں گے ۔اس کو قتل کر کے اسی کے دروازے پر لٹکا دوں گا اور اس کے تمام لواحقین بھی محفوظ نہیں رہیں گے ۔ابنِ زیاد کی آمد اور ڈرانے دھمکانے سے اہل ِ کوفہ خوف زدہ ہو گئے اور ان کے خیالات میں تبدیلی آنے لگی۔ ان حالات کے پیش ِ نظر حضرت مسلم بن عقیل نے مختار بن عبیدہ کے ہاں رہنا مناسب نہ سمجھاکیونکہ کوفہ میں مشہور ہوچکا تھا کی آپ یہاں قیام پذیر ہیں۔ آپ رات کی تاریکی میں وہاں سے نکل کر ہانی بن عروہ کے ہاں چلے آئے جو قبیلہ مز حج کے سرداراور محبِ اہل ِ بیت تھے۔ وہ کہنے لگے کہ آپ یہاں نہ آتے تو اچھا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ میں خاندان ِ رسالت کا ایک غریب الوطن مسافر ہوں مجھے پناہ دیں۔ ہانی نے کہا کہ اگر آپ میرے مکان میں داخل نہ ہو چکے ہوتے تو میں یہ کہتا کے آپ یہاں سے چلے جائیں ۔لیکن اب میری غیرت کے خلاف ہے کہ میں آپ کو گھر سے نکال دوں۔ہانی نے مکان کے عورتوں والے حصے کے محفوظ کمرے میں آپ کو چھپا دیا۔ اور سوائے محدود و مخصوص لوگوں کے دوسروں کو اس راز سے مطلع نہ کیا ۔ (ابن اثیر ۴:۲۵) حضرت مسلم بن عقیل کی تلاش حضرت مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ کے گھر میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ کافی لوگ خفیہ طور پر آتے جاتے تھے اور بیعت کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ادھر ابن ِ زیادمسلسل اس تلاش میں تھا کہ کسی طرح پتہ چلے کہ حضرت مسلم بن عقیل کو کس شخص نے پناہ دی ہے۔ آخر اس نے اپنے ایک غلام کو بلایا اور اسے 3000 درہم دیتے ہوئے کہا کہ مسلم بن عقیل اور ان کے ساتھیوں کو تلاش کر کے ان سے ملاقات کرنا اور انہیں یہ مال دے کر بتانا کہ تم بھی اہل ِ بیت کے محبین میں سے ہو۔ اس طرح وہ غلام جامع مسجد میں حضرت مسلم بن عوسجہ کے پاس آیا جو نماز پڑھ رہے تھے۔ غلام نے لوگوں سے کہتے سنا کہ یہی شخص حضرت اما م حسین کے نمائندہ کے طور پر لوگوں سے بیعت لیتے ہیں۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو اس غلام نے حضرت مسلم بن عوسجہ سے کہا کہ بندئہ خدا میں شامی ہوں۔ اور اللہ کا مجھ پہ خاص کرم ہے کہ میں محبِ اہل ِ بیت ہوں۔ میرے پاس یہ 3000 درہم ہیں۔ میں اہل ِ بیت کے اس فرد کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کر کے ان کی بیعت کرنا چاہتا ہوں جو میری معلومات کے مطابق مکہ سے کوفہ تشریف لائے ہوئے ہیں ۔اور نواسہٴ رسول ﷺ حضرت امام ِ حسین کے لیے بیعت لیتے ہیں۔ اوریہ بھی کہ آپ وہ گھر جانتے ہیں جہاں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔آپ سے درخواست ہے کہ میرے ساتھ اس واقعہ کے حصول میں تعاون فرمائیں اور مجھے ان کی خدمت میں لے جائیں۔ حضرت مسلم بن عوسجہنے اسکی غیرت مندی پر خوشی کا اظہار کیا۔ اور فرمایا کہ جس سے تم محبت کرتے ہو تم اسے پا لو گے ۔اور اللہ تعالیٰ تمہارے سبب سے اپنے نبی ﷺ کے اہل ِ بیت کی مدد فرمائے گا۔ (ابن اثیر ۴:۲۵) مسلم بن عوسجہبغیر کسی تحقیق و تفتیش کے اس مکار غلام کو حضرت مسلم بن عقیل کے پاس لے گئے۔ جو لگاتار پندرہ دن وہاں مقیم رہ کے مسلم بن عقیل کی نشست و برخاست اور سرگرمیوں کے بارے میں پوری پوری معلومات حاصل کرتا رہا۔ غلام نے حضرت مسلم بن عقیل کے حکم پر ابنِ زیاد کا دیا ہوا مال عرب کے مشہور شاہ سوار ابو ثمامہ عامری کو دے دیا جو امام کی جانب سے اموال کا ذمہ دار تھا ۔غلام نے واپسی پر حضرت مسلم بن عقیل  کی قیام گاہ اور اس گھر کے مالک کا پتہ اور آپ کی سرگرمیوں کی مکمل تفصیل ابن ِ زیاد کو بتا دی۔(البدایہ والنہایہ ۸:۱۵۳) *ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼* cxxx{}::::::::::::اگلی قسط :::::::::::::::> https://bit.ly/Haq-O-Batil06

Comments