
🌙 ROYATE-HILAL-INDIA 🌙
May 18, 2025 at 04:16 AM
۔۔۔۔ *بسم اللہ الرحمن الرحیم*
🍁 *کسی کے انتقال کے بعد جلد از جلد اس کے ترکے کے پیسوں میں سے کرنے والے چار اہم کام، (جن کی طرف عام طور پر ہماری نظر نہیں جاتی)*🍁
(دو بزرگوں مفتی تقی عثمانی صاحب اور مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب کے بیانات سے اخذ کردہ)
👈 *کوئی مرتے وقت اگر کوئی مال ( یا جائیداد) چھوڑ جائے تو* *اس شخص کے مرنے کے فورا بعد درجہ بدرجہ ترتیب وار یہ چار کام* کرنے چاہئیں: ـ
*نمبر1* . *سب سے پہلے، میت کا کفن دفن کا خرچہ اس کے پیسوں سے کیا جائے*
💮۔اج کل کفن دفن اور قبرستان کا خرچہ اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ کیا بتائیں، بہت بڑی رقم بن جاتی ہے، بہتر تھا کہ ہر ادمی کے مرنے کے بعد اس کا کفن دفن حکومت کی طرف سے کیا جائے جیسا سعودی عرب میں کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں ایسا ممکن نہیں لہذا مناسب کفن دفن میں جتنے پیسے لگیں، تو میت کے گھر والے اس کے ترکے میں سے یہ رقم خرچ کر سکتے ہیں۔
💮۔اگر کوئی قریبی عزیز اپنی چاہت سے اس کے کفن دفن میں کچھ پیسے لگا دے تو یہ بھی جائز ہے۔
💮۔کفن دفن میں فضول خرچی سے کام نہ لیں۔ بعض لوگ قبریں بہت شاندار اور پکی سنگ مرمر کی بنواتے ہیں جو ایک نہایت غلط کام ہے، دینی حکم ہے کہ قبر کچی رکھنی چاہیے اور اونچی بھی نہیں ہونی چاہیے، زیادہ سے زیادہ ایک بالشت زمین سے اونچی ہو اور بس۔
💮۔پوری قبر کچی ہو لیکن یاد دہانی کے لیے میت کی سرہانے کی طرف ایک چھوٹی سی کوئی تختی یا کتبہ جس پر میت کا نام لکھا ہو وہ لگا سکتے ہیں ۔ اس میں بھی یہ خیال رکھا جائے کہ اس کتبہ پر بسم اللہ الرحمن الرحیم یا قرآنی آیات نہ لکھی جائیں، تاکہ ان کی بے ادبی نہ ہو۔
(زیادہ تر قبرستانوں میں خیال نہیں رکھا جاتا، کتے اور دیگر جانور بکثرت قبرستان میں پھرتے ہیں، ان کی طرف سے خدشہ ہوتا ہے کہ کتبے پر لکھے ہوئے الفاظ کی بے حرمتی نہ ہو۔)
💮۔میت کے بچے ہوئے پیسوں میں سے قبرستان سے واپس لوٹنے والوں کا *کھانا بھی نہیں* کرنا چاہیے۔ بلکہ میت کے گھر کھانا کھانے کے متعلق اگر ذرا سوچو تو یہ تو بڑی بے غیرتی کا کھانا ہے کہ جس کے گھر میت ہوئی ہے اس کے ہاں بیٹھ کر دعوت اڑائی جائے۔ گھر والے بیچارے اپنے غم میں پریشان ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ قبرستان سے انے والے لوگوں کے لیے بریانی کی دیگ کا ارڈر بھی کر رہے ہوتے ہیں،یہ نہایت نامناسب بات ہے، اس لیے قریبی عزیز رشتہ دار یا پڑوسیوں کو چاہیے کہ اس دن کا کھانا وہ ان کو پہنچا دیں تاکہ وہ کھا سکیں۔
💮۔ قبرستان سے لوٹنے والے لوگوں کو چاہیے کہ قبرستان میں تدفین کے بعد اپنے اپنے گھر چلے جائیں اور کسی بارات کی طرح کھانے کے لیے میت کے گھر نہ بیٹھیں۔
💮۔نہ ہی رشتہ دار لوگ میت کے گھر اتنے زیادہ دن ٹھہریں کہ انہیں مشکل ہو۔
*نمبر 2* . *پھر میت کے ذمے کسی کا مالی قرض تھا تو اس قرض کو ادا کر دیا جائے*
۔💮 *میت پر اگر کسی کا قرض ہو* تو اس کے ترکے کے پیسوں میں سے وہ قرض ادا کر دیا جائے چاہے مرحوم کے سارے چھوڑے ہوئے پیسے قرضے میں چلے جائیں اور کچھ باقی نہ رہے۔
۔ 💮 *حتی الامکان قرض لینے سے بچنا چاہیے۔* شہید ہو جانے والے جیسے عظیم مرتبے والے شخص کا بھی قرضہ معاف نہیں ہوتا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقروض کی نماز جنازہ خود پڑھانے کی بجائے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین سے پڑھوا دیا کرتے تھے۔
اس لیے قرض لینے کو ہلکی بات نہیں سمجھنا چاہیے۔ اگر موت کے بعد کسی کا پیسہ اپ کے ذمے رہ گیا تو اخرت میں اس کی ادائیگی کرنی ہوگی اور وہ بھی نیکیوں کی صورت میں جو کہ ایک بہت خطرناک بات ہے۔
💮 اللہ تعالی ہمیں قرض لینے سے محفوظ فرمائے آمین اور ہمیں اس حالت میں دنیا سے اٹھائے کہ ہم پر کسی کا کوئی قرضہ نہ ہو، آمین ثم آمین ۔
*3*۔ *پھر اگر مرحوم نے کوئی صحیح وصیت کر رکھی ہو تو اب جتنا مال بچا ہے اس میں سے ایک تہائی مال سے اس کی وصیت پوری کر دی جائے_*
💮۔مثلا اگر کسی نے وصیت کی تھی کہ میرے ذمے اتنے قضا روزے اور اتنی قضا نمازیں رہ گئی ہیں، تو جب میں مر جاؤں تو میرے ترکے میں سے ان روزوں اور نمازوں کا فدیہ ادا کر دیا جائے یا میں نے اتنے سالوں کی زکوۃ نہیں دی تھی تو جب میں مر جاؤں تو میرے ترکے سے وہ زکوۃ دے دی جائے، یا مال ہونے کے باوجود میں حج نہیں کر سکا تو میرے مرنے کے بعد میرے ترکے میں سے میرا حج بدل کرا دیا جائے تو اس طرح کی جائز وصیتوں میں ترکے میں سے ایک تہائی مال سے ان جائز وصیتوں کو پورا کر دیا جائے۔ (یعنی میت کے کفن دفن اور قرضہ دینے کے بعد اگر فرض کریں کہ تین لاکھ روپے بچے ہوں، تو ان میں سے ایک تہائی یعنی ایک لاکھ روپے سے اس کی جائز وصیت پوری کر دی جائے)۔
*ایک تہائی مال سے زیادہ اس کی وصیت* میں پیسے خرچ کرنا صحیح نہیں کیونکہ اب باقی بچا ہوا مال اس کے وارثوں کا ہے۔
💮اس سے دنیا کے مال و دولت کی حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جس لمحے انسان کی سانس بند ہو جاتی ہے اسی وقت اگلی لمحے سے ہی وہ مال و دولت اس کی ملکیت سے نکل کر اس کے شرعی ورثاء کی ملکیت میں چلا جاتا ہے اور شرعی ورثاء اس مال کے مالک بن جاتے ہیں۔
💮۔ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ انسان یہ کہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے یہ میرا مال ہے حالانکہ اس کا مال صرف تین طرح کا ہے یعنی ایک جو اس نے کھا لیا اور کھا کر ختم کر لیا، نمبر دو جو اس نے پہن لیا اور پہن کر بوسیدہ کر لیا، اور نمبر تین وہ مال اس کا ہے جو اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اخرت میں اس کو اپنے لیے ذخیرہ اخرت بنا لیا، باقی جو بھی مال ہے وہ اس کے وارثوں کا ہے۔
*غور کیا جائے تو حقیقت یہی ہے* 💯
۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی سمجھ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین ۔
💮۔اگر مرحوم نے کوئی ناجائز اور حرام وصیت کر رکھی ہو تو اس کو پورا کرنا جائز نہیں مثلا اگر کسی نے یہ کہا ہو کہ میرے مرنے کے بعد فلاں مزار پر چادر چڑھا دینا میرے پیسوں میں سے تو ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
4. *پھر میت کے ترکے کا باقی بچا ہوا سارا مال اس کے شرعی وارثوں میں تقسیم کر دیا جائے*
۔ 💮 *شرعی وارث* کون ہوتے ہیں، اس کے احکام بہت تفصیل طلب ہیں، اور ہم جیسا ہر عام ادمی اس کے متعلق درست معلومات نہیں رکھتا، اس لیے کسی کے مرنے کے بعد فورا کسی مستند دارالافتاء سے ٹیلی فون یا خط لکھ کر اس کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں اور پھر اس پر عمل کیا جائے۔
💮۔مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ شہر میں روزانہ اتنی اموات ہوتی ہیں، کہ اگر سب میت کے گھر والے لوگ میت کے شرعی وارثوں کے بارے میں دارالعلوموں سے معلوم کریں تو ہر دارالعلوم کے دارالافتاؤں میں بے انتہا رش ہو جائے لیکن کوئی اس کے بارے میں پوچھتا ہی نہیں، جو پوچھتے اور اس پر عمل کرتے ہیں ان کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہے، افسوس کہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اس پر عمل نہیں کرتی۔
۔ 💮 *شرعی وارثوں میں مال تقسیم کرنا *بہت* *ضروری* ہے،*
اگر کسی نے تقسیم نہ کیا تو میت کا مال جس جس نے غلط طریقے سے لیا ہو تو وہ اس کے لیے حرام ہے۔ اللہ بچائے پھر یہ پیسے اس غلط لینے والے کی نسلوں تک چلتے ہیں اور وہ گنہگار ہوتا رہتا ہے ۔ اس لیے بہت احتیاط کے ساتھ کسی عالم یا مفتی یا کسی مستند دار العلوم کے دارالافتاء سے مسئلہ پوچھ کر اس پر سختی سے عمل کیا جائے اور اس گناہ عظیم اور گناہ جاریہ سے بچا جائے ۔
اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔
💮 ۔ *میت کے مال کی ورثاء میں تقسیم جلد از جلد کرنی چاہیے** ۔
۔ اس میں دیر نہیں کرنی چاہیے ورنہ بعد میں بہت پیچیدیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ میت کا مال اس کے گھر والے مشترکہ طور پر کھاتے رہتے ہیں اور جب ورثاء میں تقسیم کی یاد اتی ہے، تو اس وقت حساب کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ کافی پیسے مشترکہ طور پر وہ لوگ کھا چکے ہوتے ہیں۔
۔💮اج کل *عجیب صورتحال* ہو گئی ہے کہ اگر کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کے رشتہ داروں سے کوئی ترکے کی تقسیم کا کہے تو ناراض ہو جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ابھی تو چند دن ہوئے ہیں ابھی تو مرنے والے کا کفن بھی میلا نہیں ہوا ہوگا اور تم مال جائیداد کی تقسیم کی بات کر رہے ہو ؟ کتنی غلط بات کر رہے ہو؟
لیکن جب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ والد یا والدہ کے انتقال کے بعد بہن بھائیوں میں وراثت تقسیم کرنے کے معاملے میں رنجشیں پیدا ہوتی ہیں ، تو بعض اوقات یہ رنجشیں بہت خطرناک حد تک جھگڑوں میں بدل جاتی ہیں، جائیداد کے لیے عدالتوں میں کیس کر دیے جاتے ہیں، اور خوب لڑائی جھگڑا ہوتا ہے اور اللہ بچائے کبھی کبھی بات یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ایک بھائی دوسرے بھائی کی جان کا دشمن بن جاتا ہے، وکیل حضرات بتاتے ہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کی اکثریت بہن بھائیوں کے درمیان جائیداد کی تقسیم اور وراثت کی تقسیم کے جھگڑوں سے متعلق ہی ہوتی ہے، اس لیے وراثت کے معاملے کو مرحوم کے مرنے کے بعد جلد از جلد طے کر لینا چاہیے تاکہ ائندہ اپس میں لڑائی جھگڑے نہ ہوں اور سب محبت کے ساتھ مل جل کر رہتے رہیں۔
۔ 💮 *بہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دینا*
۔اج کل ایک یہ گناہ بھی معاشرے میں بہت عام ہو گیا ہے کہ بہنوں کو مرحوم والدین کی وراثت میں سے حصہ نہیں دیتے۔
یہ بھی بہت غلط بات ہے اور اگر اس طرح سے بہنوں کے پیسے کھا لیے تو اخرت میں اس کا حساب اور بدلہ دینا ہوگا اور وہاں اخرت میں اس کا بدلہ پیسے نہیں بلکہ نیکیاں ہوں گی۔ اخرت میں نیکیاں اپنے پاس ہوتے ہوئے کسی کے پیسے کھائے جانے کی صورت میں ہماری اپنی نیکیاں اس کو دے دی جائیں تو یہ ہمارے لیے تو بہت ہی گھاٹے کا سودا ہے۔
💮 ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ *مفلس درحقیقت وہ شخص ہے جو* قیامت کے دن پہاڑوں جیسی نیکیاں اپنے ساتھ لے کر ائے لیکن اس نے لوگوں کے حقوق یعنی حقوق العباد تلف کیے ہوں گے، تو پھر اس حق تلفی کی وجہ سے اس کی نیکیاں ان مظلوم لوگوں کو دے دی جائیں گی جن کے حقوق اس نے دبائے تھے، یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی اور پھر بھی دوسروں کے حق اس پر باقی رہیں گے تو پھر اللہ بچائے ان دوسرے مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر یہ شخص جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تو درحقیقت مفلس وہ شخص ہوا جو روز اخرت ایا تو تھا نیکیوں کے پہاڑ لے کر، لیکن حقوق العباد میں زیادتیاں کرنے کی وجہ سے اس کی نیکیاں دوسروں کو دے دی گئیں اور وہ خود بجائے جنت کے، جہنم کا مستحق ہو گیا۔اللہ تعالی ہمیں حقوق العباد میں حق تلفیاں کرنے سے مکمل طور پر محفوظ فرمائے آمین ثم آمین ۔
۔اس لیے بہنوں کو وراثت میں حصہ ضرور دینا چاہیے کہ یہ ان کا شرعی اور دینی حق ہے۔
۔بعض دفعہ بہنیں شرما شرمی میں منع کر دیتی ہیں، اور کہہ دیتی ہیں کہ ہمیں نہیں چاہیے اپ بھائی لوگ ہی رکھیں، تو ایسا سمجھنا بھی غلط ہے۔ حتی کہ عبدالرؤف سکھروی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ وراثت کے پیسے بہنوں کے ہاتھ میں رکھ دو تاکہ وہ گھر لے جائیں اپنے پاس رکھے رہیں، پھر بعد میں اگر وہ کسی دباؤ کے بغیر اپنے کسی بھائی کو جو مالی حیثیت میں ان سے کم ہو، اسے دینا چاہیں تو بعد میں خود سے اس کو ہدیہ کر دیں۔
لہذا بہنوں سے صرف یہ پوچھنا صحیح نہیں کہ کیا تم اپنا حصہ لو گی باپ کی وراثت میں سے یا نہیں؟ کیونکہ وہ بیچاری شرم کے مارے بھائی کے سامنے زبان نہیں کھولیں گی اور وہ چیز نہیں لیں گی جو شرعی طور پر ان کا حق بنتا ہے۔
۔بعض بھائی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہماری بہن کی شادی ہمارے والد صاحب نے کر تو دی تھی ، اتنی دھوم دھام سے کری تھی اتنے لاکھوں روپے خرچ ہو گئے تھے بہن کی شادی میں، تو بس اس کا وراثت میں سے حصہ ختم ہو گیا۔
یہ بات بھی بالکل غلط ہے۔ والد نے اپنی زندگی میں جو کچھ اپنی بیٹیوں اور اپنے دیگر بچوں کے لیے کیا وہ ان کے لیے ہدیہ ہے جب کہ وراثت ایک الگ چیز ہے اور وہ والد کے مرنے کے بعد ان کے چھوڑے ہوئے پیسوں اور جائیداد وغیرہ یعنی ترکہ میں سے سب شرعی وارثوں میں تقسیم ہوگی جس میں مرحوم کی بچیاں بھی بلا شبہ شامل ہیں۔
*اخر میں ایک مختصر مگر پر اثر واقعہ*
ماشاءاللہ الحمدللہ اکابر بزرگوں کا اس معاملے میں احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ایک واقعہ سن لیجئے ۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر ان کے جنازے میں شرکت کے لیے حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم ائے، غم سے نڈھال تھے اور طبیعت کمزور اور خراب معلوم ہو رہی تھی، تو ان کے شاگردوں اور دور حاضر کے دو بڑے علماء کرام مولانا مفتی رفیع عثمانی صاحب رحمت اللہ علیہ اور مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے ڈاکٹر عبدالحی صاحب کی خدمت میں خمیرہ پیش کیا تاکہ اس کے کھانے سے ڈاکٹر صاحب کی نڈھال پنے کی کیفیت میں بہتری ہو، تو اس پر ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمت اللہ علیہ نے یہ فرمایا کہ یہ خمیرہ کہیں مفتی شفیع صاحب رحمت اللہ علیہ کا تو نہیں ہے، اگر ان کا ہے تو میں نہیں کھا سکتا کیونکہ ان کی وراثت کی تقسیم ابھی نہیں ہوئی ہے، اور اس خمیرے (جیسی معمولی چیز) کے وارث اب مفتی شفیع صاحب رحمت اللہ علیہ کے ورثاء ہیں اور اس طرح میرا یہ خمیرہ کھانا جائز نہیں۔
ماشاءاللہ دونوں شاگرد بھی عالم مفتی اور دین کا سمجھ رکھنے والے تھے انہوں نے عرض کی کہ حضرت اپ نوش فرما لیجئے، ہمارے والد کے سارے ورثا اس وقت موجود ہیں، اور سب یہ کھلے دل کے ساتھ اجازت دے رہے ہیں بلکہ سب کی یہ خواہش ہے کہ اپ یہ خمیرہ کھا لیں تاکہ اپ کی طبیعت کچھ سنبھل جائے۔ یہ سننے کے بعد ڈاکٹر عبدالحئی صاحب عارفی رحمۃ اللہ علیہ نے وہ خمیرہ کھا لیا۔ اتنی احتیاط ہوتی تھی بزرگوں میں دین پر عمل کرنے کے معاملے میں۔
مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی فرمایا تھا کہ جب میں اور میرے بھائی رفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے ہوئے اور کسی شیخ کی صحبت اور ان کی خدمت میں اٹھنے بیٹھنے کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے ہم نے اپنے والد مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ اپ ہمیں بیعت کر لیجئے ہم اپ سے بیعت ہونا چاہتے ہیں۔ اس پر ان کے والد مفتی محمد شفیع رحمت اللہ علیہ نے ان سے کہا کہ میرا اور اپ کا باپ بیٹوں کا رشتہ ہے اور اس رشتے کی وجہ سے صحیح تربیت ہو نہیں پائے گی لہذا اپ اپ دونوں ڈاکٹر عبدالحی صاحب سے اصلاحی تعلق قائم کر لیں۔
مولانا تقی عثمانی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ ہمیں سن کر پہلے تھوڑا سا عجیب لگا کہ جن صاحب سے ہمارے والد اصلاحی تعلق قائم کرنے کو کہہ رہے ہیں وہ تو باقاعدہ کسی مدرسے سے سند یافتہ عالم یا مفتی نہیں ہیں بلکہ ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہیں، گو کہ مولانا تھانوی صاحب رحمت اللہ علیہ کے شاگرد اور خلیفہ ہیں لیکن عالم اور مفتی تو نہیں ہیں ، تو ان دونوں بھائیوں نے اپنے والد سے عرض کی کہ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب عالم یا مفتی تو نہیں ہیں تو اپ ہمیں ان کے پاس کیوں بھیج رہے ہیں؟ اس پر مفتی محمد شفیع رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ میرے بیٹوں، وہ عالم نہیں ہیں مگر عالم گر ہیں یعنی عالم بنانے والے ہیں۔
پھر دونوں حضرات مفتی تقی عثمانی صاحب اور مفتی رفیع عثمانی صاحب جو اس وقت تک مفتی کا کورس کر چکے تھے وہ ایک غیر مفتی ہومیوپیتھک ڈاکٹر یعنی ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمت اللہ علیہ سے بیعت ہو گئے اور ان کی نگرانی میں اللہ کے دین پر چلنے پر استقامت جسے تصوف بھی کہا جاتا ہے اس تصوف اور راہ سلوک کی منزلیں حضرت ڈاکٹر صاحب رحمت اللہ علیہ کی شاگردی میں ہی طے کریں۔
یہ اس *غیر مفتی لیکن اللہ والے* حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی رحمت اللہ علیہ کی دین میں احتیاط کا یہ عالم تھا کہ سخت طبیعت خرابی میں بھی وہ خمیرہ نہ کھایا جس میں یہ شک تھا کہ کہیں یہ مرحوم کا نہ ہو، جیسا کہ واقعہ اوپر عرض کیا گیا۔
۔مولانا تقی عثمانی صاحب نے اپنے شیخ ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمت اللہ علیہ کے اس طرح کے سنہری واقعات اپنی کتابوں "ماثر حضرت عارفی" اور "میرے والد میرے شیخ" میں لکھے ہیں جنہیں پڑھ کر بہت حیرت ہوتی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے سب کو۔ انشاءاللہ بہت فائدہ ہوگا۔
💮 *دعا* اللہ تعالی مجھ سمیت سب لوگوں کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔
*(اگر یہ میسج اچھا لگا ہو تو اپنے جاننے والے سب لوگوں اور گروپس میں بھی شیئر کر دیجئے گا۔)*
*. ( جزاک اللہ۔)**