
.... بدلاؤ ضروری ہے ....
June 11, 2025 at 06:55 PM
*اردو کے شاعر، گنگا جمنی تہذیب کے امین و پاسدار، مجاہد آزادی جناب پنڈت آنند موہن زتشی "گلزار دہلوی صاحب کی برسی 12 جون*
" 7 جولائی 1926 کو دہلی کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد پنڈت تربھون ناتھ زتشی زارؔ دہلوی اور والدہ رانی زتشی دونوں اپنے زمانے کے معروف شاعر تھے۔ ان کی والدہ کا تخلص بیزارؔ تھا۔ گلزار دہلوی کو زبان و بیان پر غیرمعمولی قدرت حاصل تھی۔ انہوں نے منفرد لب و لہجے کے شاعر کے طور پر اُردو دُنیا میں شناخت قائم کی۔ ان کی ابتدای تعلیم رام جیشن اسکول اور بی۔ وی، جے سنسکرت اسکول میں ہوئی۔ انہوں نے ہندو کالج سے ایم اے کیا اور قانون کی سند حاصل کی۔ گلزار صاحب نے انجمن ترقی اردو ہند سے ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا۔گلزار دہلوی مجاہد آزادی اور ایک اہم انقلابی شاعر تھے۔ 1943ء سے وہ ہندوستان کے مشاعروں کے علاوہ عالمی مشاعروں میں بھی شامل ہوتے رہے اور لگ بھگ 50 ممالک کے مشاعروں میں شرکت کر چکے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی گلزار دہلوی کی شاعری کے معترف تھے اور انہوں نے 1958ء کے کل ہند اردو کانفرنس کا سیکرٹری گلزار دہلوی کو بنایا۔ پھر "کونسل آف سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ سنٹر" کا ڈائرکٹر بھی مقرر کیا۔ اسی ادارے کے تحت گلزار دہلوی نے "سائنس کی دنیا" نامی اردو رسالہ جاری کیا۔ اور یوں بحیثیت ایڈیٹر سائنس کی دنیا، گلزار دہلوی کی اتنی شہرت ہوئی کہ لوگ انہیں "سائنسی شاعر" کہنے لگے۔ گلزار دہلوی اردو زبان کے ایسے پہلے ادیب ہیں جنہیں اقوام متحدہ یعنی یو۔این۔او نے اردو میں خطاب کا شرف بخشا تھا۔ 2000ء میں اقوام متحدہ نے 36 ممالک کے شعرا کی کانفرنس کا امریکہ میں انعقاد کیا تھا جس میں گلزار دہلوی نے ہندوستان کی نمائندگی کرنے کے علاوہ اس کانفرنس کی صدارت بھی کی تھی۔
گلزار دہلوی کی مطبوعات میں ”گلزارِ غزل“ اور ”کلّیاتِ گلزار دہلوی“ ہیں جب کہ ان کی شخصیت اور خدمات پر لکھی جانے والی کتابوں میں ”کچھ دیکھے کچھ سنے“ اور ”مشاعرہ جشنِ جمہوریت 1973“ شامل ہیں۔ موقر رسالہ ”چہارسو“ نے گلزار دہلوی کی شخصیت اور ان کی خدمات پر مشتمل خصوصی شمارہ پیش کیا تھا۔ مارچ 2011 کو نئی دہلی میں ان کا شعری مجموعہ کا اجرا ہوا جس میں نائب صدر جناب حامد انصاری شریک رہے۔ اس جلسہ میں محمد یونس میموریل کمیٹی نے تحفہ میں ایک چیک، سپاس نمہ اور دوشالے سے نوازا تھا۔
متعدد تمغہ جات اور اعزازات سے وہ نوازے گئے جن میں مجاہد اردو اور شاعر قوم کا خطاب، غالب ایوارڈ، اندرا گاندھی میموریل قومی ایوارڈ کے علاوہ مختلف ممالک میں القاب و خطابات سے سرفراز کیے گئے۔ 2009 میں وہ میر تقی میر ایوارڈ سے سرفراز کئے گئے تھے۔ بھارت سرکار نے ان کو پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ گلزار صاحب عالمی وبا کرونا مرض میں مبتلا ہو گئے تھے لیکن جلد ہی اس مہلک مرض سے شفایاب ہوکر وہ ہسپتال سے گھر لوٹے تھے۔ پانچ دن بعد وہ 12 جون 2020ء کو نویڈا میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
موصوف کے کچھ منتخب اشعار پیش خدمت ہیں
*انتخاب و پیشکش.... طارق اسلم*
*کتنی خوش فہمیوں کے بت توڑے*
*تو نے گل زار خوش بیانی سے*
کوئی موج نسیم سے پوچھے
کیسی آوارگی میں گزری ہے
*نظر جھکا کے اٹھائی تھی جیسے پہلی بار*
*پھر ایک بار تو دیکھو اسی نظر سے مجھے*
جہاں انسانیت وحشت کے ہاتھوں ذبح ہوتی ہو
جہاں تذلیل ہے جینا وہاں بہتر ہے مر جانا
*خم و مینا و سبو بزم میں آتے آتے*
*اپنی آنکھوں سے کئی جام پلا دیتے ہیں*
تربیت کو حسن صحبت چاہیے
بیٹھیے استاد کامل کے قریب
*ان کا بیان میری زباں پر جو آ گیا*
*لہجے نے ان کے کر دیا کیا خوش نوا مجھے*
عمر بھر کی مشکلیں پل بھر میں آساں ہو گئیں
ان کے آتے ہیں مریض عشق اچھا ہو گیا
*ان کی آنکھوں کی گلابی سے جو ہم مخمور ہیں*
*اک تعلق ہے قدیمی ہم کو پیمانوں کے ساتھ*
کھلے مرجھا گئیں کلیاں چمن میں کس قدر
زرد رو کس درجہ ہائے ماہ پارے ہو گئے
*مکدر کچھ فضا گلزارؔ دلی میں سہی لیکن*
*کہیں اہل زباں ہم سا بھی اردو میں نظر آیا*
ہم بجھیں بھی تو بجھیں مثل چراغ سحری
اور جو روشن ہوں تو ہوں شمع شبستاں ہو کر
*ہاتھ میں جن کے خوشامد کا ہے گدلا کشکول*
*ان کو اعزاز بھی مل جائیں گے عزت کے سوا*
اپنی زبان اپنا تمدن بدل گیا
لطف کلام اب وہ سخنداں نہیں رہا
*کون دیکھے گا زمانے انقلاب ناز کے*
*بھول بیٹھے ہیں وہ وعدے عشق کے آغاز کے*