
.... بدلاؤ ضروری ہے ....
June 11, 2025 at 07:10 PM
*گنگا جمنی تہذیب کی علامت...اعلیٰ پائے کے شاعر..ادیب....مترجم....جج و سیاست داں آنند نرائن ملا صاحب کی برسی 12 جون*
آنند نرائن ملا ہندوستان کے مشترکہ تہذیبی ، سماجی اور لسانی کلچر کی ایک زندہ علامت تھے ۔ ان کا یہ جملہ کہ *’’ میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں لیکن اردو کو نہیں چھوڑ سکتا ‘‘* ان کی شخصیت کی اسی روشن جہت کو سامنے لاتا ہے ۔
ملا کشمیری الاصل تھے لیکن ان کے بزرگ پنڈت کالی داس ملا لکھنؤ آکر بس گئے تھے اور یہیں پنڈت جگت نرائن ملا کے یہاں ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۱ کو آنند نرائن ملا کی پیدائش ہوئی ۔ ملا کی ابتدائی تعلیم فرنگی محل لکھنؤ میں ہوئی ، ان کے استاد برکت اللہ رضا فرنگی محلی تھے ۔اس کے بعد ملا نے انگریزی میں ایم، اے کیا اور قانون کی پڑھائی کی اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے ۔ ۱۹۵۵ میں لکھنؤ ہائی کورٹ کے جج مقرر کئے گئے ۔ وکالت کے پیشے سے سبکدوش ہوکر ملا نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا ۔ ۱۹۶۷ میں لکھنؤ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے پارلیمینٹ کے رکن منتخب کئے گئے ۔ ۱۹۷۲ میں راجیہ سبھا کے رکن منتخب کئے گئے ۔ ملا انجمن ترقی اردو ہند کے صدر بھی رہے ۔
ملا نے ابتدا میں انگریزی میں شاعری کی ، انگریزی ادب کا طالب ہونے کی وجہ سے ان کی نظر انگریزی ادبیات پر بہت گہری تھی لیکن وہ دھیرے دھیرے اردو کی طرف آگئے ، پھر لکھنؤ کے شعری وادبی ماحول نے بھی ان کی شاعرانہ شخصیت کو نکھارنے اور جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ شاعری میں ملا کا نظریہ بہت تعمیری اور اخلاقی تھا ۔ اقبال سے اثر پزیزی نے اسے اور مستحکم کیا ۔ سماج کو بہتر بنانے کی اس جد وجہد میں ملا اپنی شاعری ، نثر اور عملی زندگی کے ساتھ شامل تھے ۔ جوئے شیر ، کچھ ذرے کچھ تارے ، میری حدیث عمر گریزاں ، کرب آگہی ، جادۂ ملا ، ان کے شعری مجموعے ہیں ۔ انہوں نے نہرو کے مضامین کا ترجمہ بھی کیا ۔ ملا کو ان کی ادبی اور سماجی خدمات کے لئے کئی انعامات اور اعزازات سے بھی نوازا گیا ۔
۱۲ جون ۱۹۹۷ کو دہلی میں ملا اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
موصوف کی برسی کے موقع پر ان کے کچھ منتخب اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں
*انتخاب و پیشکش....طارق اسلم*
*رونے والے تجھے رونے کا سلیقہ ہی نہیں*
*اشک پینے کے لیے ہیں کہ بہانے کے لیے*
وہ کون ہیں جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت
ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے
*اب اور اس کے سوا چاہتے ہو کیا ملاؔ*
*یہ کم ہے اس نے تمہیں مسکرا کے دیکھ لیا*
عشق میں وہ بھی ایک وقت ہے جب
بے گناہی گناہ ہے پیارے
*جس کے خیال میں ہوں گم اس کو بھی کچھ خیال ہے*
*میرے لیے یہی سوال سب سے بڑا سوال ہے*
عشق کرتا ہے تو پھر عشق کی توہین نہ کر
یا تو بے ہوش نہ ہو، ہو تو نہ پھر ہوش میں آ
*آئینۂ رنگین جگر کچھ بھی نہیں کیا*
*کیا حسن ہی سب کچھ ہے نظر کچھ بھی نہیں کیا*
ملاؔ بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ
اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی
*حد تکمیل کو پہنچی تری رعنائی حسن*
*جو کسر تھی وہ مٹا دی تری انگڑائی نے*
مجھے کر کے چپ کوئی کہتا ہے ہنس کر
انہیں بات کرنے کی عادت نہیں ہے
*ہم نے بھی کی تھیں کوششیں ہم نہ تمہیں بھلا سکے*
*کوئی کمی ہمیں میں تھی یاد تمہیں نہ آ سکے*
نظر جس کی طرف کر کے نگاہیں پھیر لیتے ہو
قیامت تک پھر اس دل کی پریشانی نہیں جاتی
*اس اک نظر کے بزم میں قصے بنے ہزار*
*اتنا سمجھ سکا جسے جتنا شعور تھا*
میں فقط انسان ہوں ہندو مسلماں کچھ نہیں
میرے دل کے درد میں تفریق ایماں کچھ نہیں
*تری جفا کو جفا میں تو کہہ نہیں سکتا*
*ستم ستم ہی نہیں ہے جو دل کو راس آئے*
تم جس کو سمجھتے ہو کہ ہے حسن تمہارا
مجھ کو تو وہ اپنی ہی محبت نظر آئی
*اب بن کے فلک زاد دکھاتے ہیں ہمیں آنکھ*
*ذرے وہی کل جن کو اچھالا تھا ہمیں نے*
ایک اک لمحہ میں جب صدیوں کی صدیاں کٹ گئیں
ایسی کچھ راتیں بھی گزری ہیں مری تیرے بغیر
*حسن کے جلوے نہیں محتاج چشم آرزو*
*شمع جلتی ہے اجازت لے کے پروانے سے کیا*
عقل کے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھلاتے ہوئے
ہم نے کاٹی زندگی دیوانہ کہلاتے ہوئے
*تو نے پھیری لاکھ نرمی سے نظر*
*دل کے آئینہ میں بال آ ہی گیا*
کہنے کو لفظ دو ہیں امید اور حسرت
ان میں نہاں مگر اک دنیا کی داستاں ہے