
Aik Mukhbir
June 12, 2025 at 11:15 AM
یونانی تہذیب، دنیا کی قدیم ترین اور اثر انگیز ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے، جس نے فلسفہ، سائنس، فنونِ لطیفہ، سیاست اور طرزِ حکومت جیسے شعبوں میں انقلابی بنیادیں رکھیں۔ سقراط نے انسان کو سوچنے پر مجبور کیا، افلاطون نے "عدل اور مثالی ریاست" کا نظریہ پیش کیا، جبکہ ارسطو نے منطق، حیاتیات اور اخلاقیات پر وہ اصول قائم کیے جو آج تک مغرب کی سائنسی سوچ کی بنیاد ہیں۔ یونان نے "جمہوریت" کا تصور دیا — ایک ایسا نظام حکومت جس میں عوام کو حکمرانوں کے انتخاب کا حق دیا گیا، جو اس وقت ایک انقلابی سوچ تھی۔
لیکن اس عظیم تہذیب کے پسِ پردہ ایک اور چہرہ بھی تھا — وہ چہرہ جس سے تاریخ کم ہی پردہ اٹھاتی ہے۔ یونانیوں کے ہاں مذہبی اور روحانی نظام صرف رسمی عبادات تک محدود نہ تھا بلکہ خاص "خفیہ رسومات" یا Mystery Religions کا بھی رواج تھا۔ ان میں سب سے مشہور رسومات کو "Eleusinian Mysteries" کہا جاتا تھا، جو دیوی "Demeter" اور اس کی بیٹی "Persephone" کے متعلق تھے۔ ان رسومات میں مخصوص طبقے کے افراد کو، خاص کر اشرافیہ کو، نشہ آور مشروب پلایا جاتا، اندھیری غاروں میں لے جایا جاتا، اور کہا جاتا کہ وہ "آخرت، نجات اور روحانی روشنی" کا مشاہدہ کریں گے۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سکندرِ اعظم (Alexander the Great) نے بھی ان رسومات میں شرکت کی، جس کے بعد اسے اپنے اندر "خدائی طاقت" کا احساس ہوا — یہی احساس اسے "دنیا کو فتح کرنے" کی طرف لے گیا۔ ارسطو جیسے مفکر بھی ان رسومات کے قائل تھے، حالانکہ ان کے فلسفے میں عقل کو سب سے بالا مقام حاصل تھا۔
یہی تضاد یونانی تہذیب کا اصل المیہ تھا — علم و عقل کی عظمت کے ساتھ ساتھ ایک ایسا روحانی فریب، جو چند افراد کے لیے طاقت کا ذریعہ تھا اور باقی عوام کے لیے اسرار اور دھوکہ۔
یونانی معاشرہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ہی دانش کا شکار بننے لگا۔ تعلیم صرف اشرافیہ تک محدود ہو گئی، فلسفہ عام آدمی سے دور ہو گیا، اور جمہوریت ایک نمائشی نظام بن کر رہ گئی جس میں صرف کچھ ہی لوگ رائے دینے کے قابل سمجھے جاتے تھے۔ عورتوں کو شہری حقوق حاصل نہ تھے، غلامی عام تھی، اور فلسفہ بھی طبقاتی برتری کو جواز فراہم کرتا تھا۔ یونان کی شہری ریاستیں (City States) جیسے ایتھنز اور اسپارٹا، آپس کی جنگوں میں الجھ گئیں۔ خارجی حملوں سے زیادہ، یونان کا زوال داخلی بگاڑ، اخلاقی انحطاط، اور روحانیت کے نام پر بے عملی کے سبب ہوا۔
آخرکار، جب رومیوں نے یونان کو فتح کیا، تو جسمانی غلامی کے ساتھ ساتھ فکری غلامی بھی قائم ہو چکی تھی۔ وہ تہذیب جو دنیا کو روشنی دینے نکلی تھی، خود اندھیروں میں کھو گئی — نہ اس کا جمہوری ماڈل بچا، نہ اس کا روحانی سچ، اور نہ ہی وہ فکری آزادی جس پر اس نے فخر کیا تھا۔
یونانی تہذیب ہمیں آج بھی ایک بڑا سبق دیتی ہے:
"جب علم کردار سے خالی ہو، فلسفہ اخلاق سے محروم ہو، اور طاقت چند ہاتھوں میں محدود ہو جائے — تو زوال یقینی ہے، چاہے تہذیب کتنی ہی روشن کیوں نہ ہو۔"

👍
2