
Aik Mukhbir
June 13, 2025 at 12:12 AM
اندلس (اسپین) — وہ گمشدہ بہشت جہاں مسلمان سائنس، فلسفہ اور جمالیات کے چراغ روشن کرتے تھے
اندلس، جو آج اسپین کے نام سے جانا جاتا ہے، کبھی ایک ایسا اسلامی جنت نظیر خطہ تھا جہاں وقت کے عظیم دماغ، دل اور روح ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔ 711ء میں طارق بن زیاد نے جبل الطارق عبور کر کے اندلس کی سرزمین پر قدم رکھا، اور وہ آگ جو اُس نے اپنی کشتیاں جلا کر جلائی، علم، ہنر اور تہذیب کے شعلوں میں بدل گئی۔ قرطبہ (Córdoba) دنیا کا پہلا شہر تھا جس کی سڑکیں رات میں روشن تھیں، جہاں 70 سے زائد لائبریریاں، 300 حمام، اور ہزاروں تعلیمی مراکز تھے۔ یہاں ابن رشد، ابن باجہ، ابن طفیل جیسے فلاسفرز نے یورپ کو ارسطو اور افلاطون کی اصل روح سے آشنا کیا، جب کہ زہراوی، عباس بن فرناس، اور ابن زہر جیسے سائنسدانوں نے جدید سرجری، ہوابازی اور میڈیکل کی بنیادیں رکھیں۔ اندلس کا معاشرہ علم دوست، خوشبو دار اور جمال پرست تھا — یہاں موسیقی، شاعری، معمار، خطاطی اور گارڈننگ ایک عبادت کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ غرناطہ، قرطبہ اور اشبیلیہ صرف شہر نہیں تھے، یہ علم، عشق اور امن کی جیتی جاگتی تصویریں تھیں۔ مگر وقت نے کروٹ لی — اندلس کی داخلی فرقہ واریت، بادشاہوں کی عیش پرستی اور بیرونی صلیبی حملوں نے اِس تمدن کو کھوکھلا کر دیا۔ 1492ء میں جب غرناطہ کا آخری سلطان ابو عبداللہ نے کلیسائی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے، تو ماں کے وہ الفاظ تاریخ میں گونجتے رہ گئے: "جس سلطنت کو مردوں کی طرح بچا نہ سکے، اس پر عورتوں کی طرح آنسو نہ بہاؤ!" یوں وہ عظمت، جو یورپ کے علمی احیاء کی بنیاد بنی، صلیب تلے دم توڑ گئی — مگر آج بھی یورپ کی درسگاہیں، اندلس کی روشنیوں کی مقروض ہیں۔

❤️
1