
🔷🖋️فیضان اکابر(Faizan-e Akabir) 🖋️🔷
June 4, 2025 at 05:07 PM
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایسے بزرگوں کی جوتیوں میں پہنچا دیا کہ انہوں نے سیدھے راستہ پر ڈال دیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ بڑی چیز راہ پر آگاہ کر دینا اور پتہ و نشان بتلا دینا ہے۔
یہ تو ہے جس کو میں نے کہا تھا کہ ایک ہی جلسہ میں میں طالب کو خدا تک پہنچا دیتا ہوں۔
حضرت! طریق نہ معلوم ہونا بڑا ہی بھاری خسارہ ہے۔
پھر طریق معلوم ہونے کے دو درجے ہیں: ایک تقلید، ایک تحقیق۔
مبتدی (ابتدائی سالک) کو تقلید ہی کی ضرورت ہے۔
اگر کسی کو خود راستہ نظر نہ آوے، مگر محقق کہتا ہے کہ یہ راستہ ہے، تو اپنی نظر پر اعتماد نہ کرے، اس کی خبر پر اعتماد کرکے چلنا شروع کر دے۔
جوں جوں بڑھتا جائے گا، ساتھ ساتھ راستہ نظر آتا رہے گا۔
"گرچہ رخنہ نیست عالم را پدید"
اس کی ایک مثال عرض کرتا ہوں: پشاور سے کلکتہ تک سڑک گئی۔
ایک شخص پشاور سے کلکتہ پہنچنا چاہتا ہے، مگر وہ جب نظر کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ سڑک درختوں اور آسمانوں سے بند ہے۔
یہ دیکھ کر مایوس ہو جاتا ہے کہ راستہ بند ہے، میں منزل کو طے نہیں کر سکتا۔
مگر جاننے والا کہتا ہے کہ چل تو سہی، اپنے موٹر کو گرم کر، ہمت سے کام لے، چلنا شروع کر، جس وقت موٹر چلنا شروع ہو جائے گا، راستہ خود بخود کھلتا جائے گا۔
جس قدر آگے بڑھتا جائے گا، راستہ اسی قدر کھلا ہوا نظر آئے گا۔
مولانا اسی کو فرماتے ہیں:
"گرچہ رخنہ نیست عالم را پدید خیرہ یوسفوار میباید دوید"
(اگرچہ بظاہر دنیا میں طریق کے راستے بند معلوم ہوتے ہیں، لیکن طالب صادق کو یوسف علیہ السلام کی طرح اللہ پر اعتماد کے ساتھ دوڑنا چاہیے)
اس لیے ضرورت ہے ایسے رہبر کی جس کے محقق اور شفیق ہونے پر اعتماد ہو۔
~ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ
ماخوذ از: الافاضات الیومیہ، جلد اول، ملفوظ 11
❤️
🌹
2