
JI Posting
June 12, 2025 at 02:03 PM
12 جون 2007ء کا دن تھا۔
سورج جیسے صبح سے ہی آگ برسا رہا تھا۔
فضا میں ایک انجان سی بےچینی تھی، جیسے کوئی طوفان آنے کو ہو۔
مغرب کی نماز مرکزِ جمعیت، اچھرہ لاہور میں ادا کی۔ مسجد سے باہر نکلا تو فون کی گھنٹی بجی۔
اسکرین پر نام تھا: عصمت اللہ قریشی — ہمارے دفتر کے انچارج۔
آواز بھاری، الفاظ تھکے ہوئے اور آنکھوں میں آنسووں کی لرزش:
"ناظم صاحب… میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے…"
اور پھر خاموشی نہیں، آہوں کی گونج تھی، سسکیوں کی تپش تھی۔
ہم فوراً نکلے۔
عتیق الرحمٰن بھائی (معتمدِ عام)، حارث مسعود بھائی (معاون معتمدِ عام) اور دفتر کے دیگر ساتھی بھی ساتھ تھے۔
جناح ہسپتال پہنچے تو حاجی ایوب، ناظم جامعہ پنجاب بھی موجود تھے۔
ایمبولینس، کفن، دفن، سب کی تیاری کرتے کرتے رات کے بارہ بج چکے تھے۔
ہم نے عصمت اللہ بھائی کو رخصت کیا۔
عتیق بھائی مجھے ٹاؤن شپ، بٹ چوک تک چھوڑنے آئے۔
رات کا ایک بج رہا تھا۔
سنسان گلیاں، ہوکّا عالم، اور دل کی دھڑکن کچھ غیر معمولی سی۔
اسی عالم میں فون کی گھنٹی دوبارہ بجی۔
اس بار نمبر کراچی کا تھا…
سید عبدالرشید، ناظم کراچی۔
رات کے اس پہر فون دیکھ کر دل بیٹھ سا گیا۔
فون ریسیو کیا، تو دوسری جانب آہوں اور سسکیوں کا طوفان تھا۔
رشyید بھائی کی آواز جیسے کلیجہ چیر رہی ہو۔
اور پھر وہ جملہ…
جس نے روح تک ہلا دی:
"ناظم صاحب… واصف عزیز بھائی کو شہید کر دیا گیا ہے…"
"انا للہ وانا الیہ راجعون"
میرے لبوں سے نکلا اور میں قریب کی دیوار سے ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گیا۔
زمین آنکھوں کے آنسوؤں سے تر ہو گئی۔
کچھ دیر وہیں بیٹھا رہا…
پھر دل تھاما، عتیق الرحمن بھائی کو کال کی۔
پہلی ہی گھنٹی پر فون ریسیو ہوا۔
"ناظم صاحب، خیریت ہے نا؟"
میری آواز لرز رہی تھی، مگر میں نے کہا:
"واپس آ جائیں… واصف عزیز بھائی شہید ہو گئے ہیں۔"
وہ لمحہ…
زندگی کے ہر لمحے پر بھاری تھا۔
اور آج…
2025ء کا سال ہے۔
واصف عزیز ہم سے بچھڑ چکے اٹھارہ سال ہو چکے ہیں۔
ان اٹھارہ برسوں میں ہر بار چاہا کہ ان کے بارے میں کچھ لکھوں،
لیکن ہر بار آنکھیں بھیگ جاتیں،
قلم ساتھ نہ دیتا۔
آج ہمت کر کے ان کی یادوں کو صفحہ قرطاس پر سجا رہا ہوں،
تاکہ یہ قرض بھی ادا ہو جائے…
اور دل کو قرار آ سکے۔
واصف عزیز…
متحدہ طلبہ محاذ کراچی کے صدر،
ہماری مرکزی شوریٰ کے سرگرم رکن،
ایک بندۂ مومن، ایک مردِ مجاہد،
اخلاص، ایمان، محبت، قربانی—سب کا حسین امتزاج۔
کراچی میں جب بھی جانا ہوتا،
واصف بھائی کے ہاں ہی قیام ہوتا۔
وہ اپنی ہمشیرہ کے گھر رہتے تھے۔
چاہے رات کے دو بجے سوتے،
فجر سے پہلے آواز آتی:
"ناظم صاحب، وضو کر لیں، نماز کا وقت ہو گیا ہے۔"
نماز، پھر اجتماعی مطالعۂ قرآن،
پھر پیار سے کہتے: "اب تھوڑا آرام کر لیں۔"
رات کو جب پروگرامز ختم ہوتے، تو کہتے:
"نصراللہ بھائی، Sea View چلتے ہیں، آئس کریم کھاتے ہیں۔"
ان کی سادگی، ان کی محبت، ان کی پاکیزگی…
آج بھی دل کے نہاں خانے میں خوشبو بن کر بسی ہوئی ہے۔
شہادت سے چند دن قبل فون آیا:
"میری بھانجی کی شادی ہے، آپ نے آنا ہے اور نکاح بھی آپ نے پڑھانا ہے۔"
میں ہنسا اور کہا:
"واصف بھائی، وعدہ رہا، آپ کا نکاح میں پڑھاؤں گا۔"
ہنستے ہوئے بولے:
"لگتا ہے جنتوں کی حوریں ہی ہماری نصیب میں ہیں… یہاں کہاں؟"
اور پھر…
چند دن بعد وہ واقعی جنتوں کے مہمان بن گئے۔
کراچی میں فجر کی نماز ادا کی۔
ان کے جسدِ خاکی کو خود غسل دیا۔
مرحوم نعمت اللہ خان صاحب نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔
اور ہم نے ایک روشن چراغ زمین کے سپرد کر دیا—
ایسا چراغ جس کی روشنی آج بھی تاریکیوں کو چیر رہی ہے۔
جب لحد میں اتارا تو آخری دیدار کیا۔
وہی چہرہ، جو مسکراہٹ میں لپٹا ہوا تھا۔
وہی جوانی کی روشنی،
وہی گہری سیاہ داڑھی،
اور آنکھوں میں ایک خاموش پیغام:
"نصراللہ بھائی، میں نے اپنا وعدہ نبھا دیا…
اب آپ بھی اپنے حصے کا کام مکمل کریں۔"سن 2006 سے 2008 تک کا وقت… ایک خونچکاں باب کی مانند تھا۔
ہمارے نو ساتھیوں نے شہادت کا جام نوش کیا۔
میدان میں، نظریے کی خاطر، اپنے لہو سے وفا کی داستان رقم کی۔
ملک پر آمریت کا سایہ چھایا ہوا تھا —
مشرف کے دور کی سیاہی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔
اور کراچی…
کراچی تو جیسے دہشت کا قیدی بن چکا تھا،
جہاں ایم کیو ایم نے نو گو ایریاز قائم کر رکھے تھے۔
خوف، بےبسی، اور موت کا رقص…
ہر گلی، ہر چوک، ہر دل پر جیسے لرزہ طاری تھا۔
یاد آتا ہے،
جب کبھی کراچی سے فون آتا،
تو دل دھک سے رہ جاتا —
کہ نہ جانے اس بار کون سی خبر دل چیرنے آئی ہے۔
لیکن ہم نے ہار نہ مانی،
ہم نے زبان کو سچ سے روکا نہیں۔
ہم نے پارلیمنٹ کے ایوانوں کو جھنجھوڑا،
ظلم و جبر کے ہر چہرے سے نقاب نوچ پھینکا،
پورے ملک میں ایم کیو ایم کی بربریت کو بےنقاب کیا۔
ہم نے اپنے کارکنان کے دلوں میں
ایمان، ہمت اور استقامت کی آگ روشن کی۔
اور…
سب سے کٹھن لمحہ وہ ہوتا،
جب کسی شہید کے گھر پہنچتے۔
دروازے پر قدم رکھتے ہی
ایسا لگتا جیسے خوف سانسیں روک رہا ہو…
مگر پھر…
جب اُن شہید والدین کے چہروں پر صبر کی روشنی،
اور آنکھوں میں رضائے الٰہی کی چمک دیکھتے —
تو یوں محسوس ہوتا،
جیسے ہمارے دلوں میں ٹھنڈی روشنی کی ایک لہر دوڑ گئی ہو۔
جیسے ربّ کی نصرت خود ہمارے حوصلوں کو تھام رہی ہو۔
وہ مائیں، جو بیٹوں کو کفن میں لپٹا دیکھ کر کہتیں:
"الحمدللہ! میرے بیٹے نے دین پر جان دی…"
وہ باپ، جن کے لہجے میں دکھ نہیں،
بلکہ فخر ہوتا…
وہی ہمارے اصل رہنما تھے۔
آج بھی دل اُن لمحوں کو یاد کرتا ہے،
اور آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
اللہ رب العزت،
واصف عزیز سمیت تمام شہداء کو
اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے۔
WhatsApp Channel:
https://whatsapp.com/channel/0029VaqZqyhInlqS8Jlia70c

😢
❤️
👍
6